’’فنیاتی انقلاب کے چیلنج‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) مضمون ایسا لگا جیسے اس نے میرا اور میرے جیسے بے شمار لوگوں کا مسئلہ حل کر دیا ہو جو فنیاتی انقلاب کے منفی پہلوئوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مضمون نگار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ فنیاتی عالم گیریت کے منفی اثرات سے بچائو کا واحد راستہ والدین کا مثالی رویہ‘ خاندان کا استحکام‘ والدین اور اساتذہ کی نئی نسل کی اسلامی تصورِ جہاں کی مضبوط بنیاد پر تعلیم و تربیت‘ جنسی طرزِعمل میں اخلاقی و شرعی احکامات پر عمل اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کی کوشش کرنا ہے۔یہ مضمون سوچ کے کئی زاویوں پر غوروفکر کی دعوت دے رہا ہے اور لائحہ عمل بھی پیش کر رہا ہے۔
عبدالرحمن الکاف صاحب کا مضمون ’’حکمت عملی کے فہم کی ضرورت‘‘ (اکتوبر ۲۰۰۲ء) انتشار خیال و تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ انھوں نے مسلم معاشرے اور ممالک کو اپنے مشوروں سے خوب نوازا ہے۔ نظام عدلیہ کی خرابیوں پر نہایت سطحی اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ مضمون نگار نے ’’الفقہ الاسترے تیجی‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا ہے‘ اگر اُس کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ خود اس کے دائرئہ کار سے خارج ہو جائیں گے۔ محض منطق و مفروضات سے دنیا کا نظام نہیںچلا کرتا۔ انقلابِ ایران اور سابق سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے متعلق انھوں نے نہایت ناقص معلومات کی بنیاد پر ماہرانہ راے کا اظہار کیا۔
عجیب بات ہے کہ حکمت مودودیؒ (نومبر ۲۰۰۲ء) کے تحت ’’اسلامی نظام کا قیام کس طرح‘‘ میں آپ نے جو کچھ نقل کیا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سید مودودیؒ نے جیسے آج کے حالات سامنے رکھ کر لکھا ہو۔ اسے ان کی تحریر کا اعجاز سمجھیں‘ یا ہمارے حالات کا ایک جگہ کھڑے ہونا‘ یا ان کی ہدایات پر اُس وقت عمل نہ کیا جانا۔ ایسا نہ ہو کہ ۲۵ سال بعدپھر کوئی انھیں اسی طرح نقل کرے!
خرم مراد صاحب نے ’’اجتماعی تقویٰ‘‘ کا نیا تصور پیش کیا ہے (نومبر۲۰۰۲ء)۔ ان کی تحروں میں قوموں کی خوداحتسابی کو اجتماعی استغفار کا عنوان دیا گیا ہے۔اس طرح کی تراکیب کے کثرتِ استعمال سے ایک پورا تصور بیک نظر سامنے آجاتا ہے۔ بہت سے نیک ’’متقی‘‘ لوگوں کے مالی اور عائلی معاملات خراب دیکھ کر اس کی ضرورت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ بعض مخصوص نیکیوں کے اصل نیکی ہونے کے تصور نے اس طرح جڑ پکڑی ہوئی ہے کہ اجتماعی اہمیت کی نیکیاںپس پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ اس اطمینان کے ساتھ ہم اللہ کو راضی کر رہے ہیں--- بار بار حج اور عمرے‘جب کہ عازم حج و عمرہ کے پڑوس میں غربت ہو‘ غذا اور علاج میسر نہ ہو‘ اسے آپ کیا کہیں گے؟ نیکی؟؟