دسمبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

جنرل مشرف اور پارلیمنٹ کا امتحان

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

پاکستان کی تاریخ میں دو ہی بار پارلیمنٹ کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اسے رمضان المبارک کے رحمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینے میں حلف لینے کی سعادت میسر آئی ہو۔ پہلی بار یہ مبارک گھڑی ۱۰ اگست ۱۹۴۷ء (۲۳ رمضان) کو میسر آئی تھی جب پہلی دستور ساز اسمبلی نے تحریک پاکستان کی سات سالہ جاں گسل جدوجہد اور بیش بہا قربانیوں کے بعد آزادی کی صبح صادق اور ایک نئے عہد کے آغاز کے موقع پر حلف لیا۔دوسری بار ۵۵ سال کے بعد حالیہ پارلیمنٹ نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ء (۱۰ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ) کو حلف لے کر فوجی حکومت کے چوتھے صبرآزما دور سے نکلنے اور جمہوری اور دستوری نظام کی بحالی کی طرف ایک فیصلہ کن قدم بڑھایا۔

ان دونوں مواقع پر صرف رمضان کی آغوش ہی قدر مشترک نہیں۔ تاریخ کا ہر طالب علم صاف محسوس کرے گا کہ جس طرح اگست ۱۹۴۷ء کی کامیابی ایک بڑی آزمایش اور امتحان تھی جسے قائداعظم نے ایک عظیم achievement and challenge (کارنامے اور چیلنج) کے الفاظ میں بیان کیا تھا‘ اسی طرح نومبر ۲۰۰۲ء میں پارلیمنٹ کی بحالی بھی جہاں ایک کامیابی اور واضح پیش رفت ہے‘ وہیں اگر ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف ایک زریں موقع  (golden opportunity) ۔ ایک تاریخی چیلنج اور امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہم اس موقع پر  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ضروری سمجھتے ہیں کہ پوری قوم کو امتحان اور آزمایش کے پہلو پر غوروفکر کی دعوت دیں اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف‘ پارلیمنٹ کے ارکان اور پوری سیاسی قیادت کو اس طرف متوجہ کریں کہ ہم سب تاریخ کے ایک بڑے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ماضی کے ۵۵ سال گواہ ہیں کہ پہلی دستورساز اسمبلی اور قائداعظم اور قائدملت کے بعد زمامِ کار سنبھالنے والی قیادت نے ملک و ملت کو مایوس کیا‘ مسلمانان پاک و ہند کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی کی اور اپنے ذاتی‘ گروہی‘ علاقائی اور حزبی مفادات کی خاطر دورحاضر کے پہلے آزاد مسلمان ملک کو اس کے تاریخی کردار سے محروم کر کے اس مقام پر پہنچا دیا کہ دشمن اسے خاکم بدہن ایک ’’ناکام ملک‘‘ کہنے لگے۔

آج قوم کو پھرایک نیا موقع ملا ہے۔ ہمارے سامنے سیاسی قیادتوں اور فوجی قیادتوں کے زمانی اعتبار سے تقریباً برابر برابر کے دو ناکام دور (۲۷ سالہ فوجی اقتدار اور ۲۸ سالہ سیاسی دور) ہیں اور ملک کے دولخت ہونے اور ایک بار پھر معاشی اور سیاسی اعتبار سے سامراجی قوتوں کی کھلی اور چھپی گرفت میں آجانے کے سانحات بھی۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں قوم نے ایک بار پھر ایک سیاسی قیادت کو اُبھارا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر اپنے اعتماد سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری نئی سیاسی قیادت اور اس کے تمام عناصر ترکیبی (صدر‘ قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں) کی ہے کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالے اور اسلام‘ جمہوریت اور دستوری نظام حکومت کی شاہراہ کی طرف گامزن کرے تاکہ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد حاصل ہو سکیں اور عوام ایک حقیقی اسلامی‘ شورائی اور عادلانہ نظام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں۔

رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی مناسبت سے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کے الفاظ میں مغفرت کا عشرہ ہے‘ ہم سب سے پہلے خود اپنے کو‘ ملک کی سیاسی قیادت کو‘ اور پوری قوم کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان خدا کی زمین پر خدا کے خلیفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض منصبی استخلاف ہے (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط  البقرہ ۲:۳۰) اور اس استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے مالک نے  عبادات کے پورے نظام کا اہتمام کیا تاکہ اللہ کا ذکر اور اس کی قربت حاصل ہو‘ ضبط نفس اور تقویٰ میسر آئے۔ رب کی ہدایت کا امین بنا جا سکے‘ اس کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کے طریقے کو رائج کرنے کے لیے جہاد کیا جا سکے اور بالآخر اس کا دین غالب اور حکمران بن سکے تاکہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو جائے اور بندہ اپنے رب اور اس کی جنت کی طرف راہی سفر ہو سکے۔ رمضان کا خصوصی تعلق زندگی اور جدوجہد کے ان سب ہی پہلوئوں سے ہے اور قرآن نے بڑے بلیغ اشاروں میں ان کی نشان دہی کی ہے۔ یہ عبادت تم کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ - البقرہ ۲:۱۸۳)۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں (الَّذِیْ ٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ …… وَالْفُرْقَانِ - البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o  البقرہ ۲:۱۸۵)۔ تقویٰ‘ ہدایت‘ فرقان‘ اللہ کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار اور شکر یہی وہ پانچ چیزیں ہیں جو رمضان المبارک کا اصل پیغام اور ہدف ہیں۔ رمضان المبارک میں پارلیمنٹ کے حلف میں یہ رمزیت مضمر ہے کہ آج قوم کو اور اس کی قیادت کو انھی صفات اور اہداف کی ضرورت ہے اور انھی کے سہارے آگے کے مراحل کو طے کیا جا سکتا ہے۔

اصل چیلنج اور مقابلے کی حکمت عملی

اس بات کو سمجھنے اور اس کا شعور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ملک و ملت کے سامنے اصل چیلنج کیا ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کس نوعیت کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے ۵۵ برسوں کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور اس وقت جس صورت حال میں ہم گرفتار ہیں اس کا صحیح صحیح تعین کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ سول حکمرانی کے دور میں جمہوریت جڑپکڑ سکی اور نہ فوجی حکمرانی کے ادوار میں‘ کہ وہ تو جمہوریت کی ضد ہی ہوتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری نگاہ میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے نمایشی اقدام کے باوجود اقتدار عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا اور اقتدار کی باگ ڈور عملاً ایک مختصر ٹولے کے ہاتھوں میں رہی جس میں کلیدی کردار بیوروکریسی‘ فوجی قیادت اور چند سیاسی خاندانوں نے ادا کیا۔ تاش کے پتوں کی طرح رل مل کر یہی باون پتے ہماری قسمت سے کھیلتے رہے کبھی درپردہ اور کبھی بالکل کھل کر--- اب اس پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ اقتدار کو عوام اور عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل کرانے کا کام حکمت اور صبر لیکن مکمل یک سوئی کے ساتھ بے خوف و خطر انجام دینے کی کوشش کرے۔

اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف بحالی جمہوریت کے دعووں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری اور خود اپنے تمام وعدوں کے پورا کرنے کی دہائی کے باوجود اصل قوت اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر مصر ہیں اور پارلیمنٹ کو ایک نمایشی ادارہ بنانے کی مذموم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ کبھی کبھی سچی بات ان کی زبان پر آجاتی ہے اس لیے ان کے سیاسی اقدامات پر جو ملمع چڑھانے کی کوشش ان کے مشیر کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے اصل چہرے کی کچھ جھلک نظر آجاتی ہے۔ستمبر۲۰۰۲ء میں واشنگٹن کے دورہ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں جنرل صاحب کے دل کی بات زبان پر آگئی تھی کہ: میں پورے نظام پر جمہوریت کا لیبل لگا دوں گا۔

I will put a label of democracy on the system.

اس طرح ان کا یہ ارشاد کہ:

اگر مستقبل کی پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو واپس لینا چاہا‘ خصوصاً وہ جو قومی سلامتی کونسل سے متعلق ہیں‘ تو یا ان کو جانا ہوگا‘ یا میں چلا جائوں گا۔

موصوف یہ بھی فرما گئے ہیں کہ:

میں نے ایل ایف او (LFO) کو دستور کا حصہ ان اختیارات کی رُو سے بنایا ہے جو مجھے سپریم کورٹ نے دیے ہیں اور مجھے اسمبلی کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

جنرل صاحب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ عنوانوں (labels) کا نہیں جمہوریت کے اصل جوہر (substance)کا ہے۔ جمہوریت اور فردِواحد کی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سول صدارت اور فوج کی سربراہی کا تاج ایک سر پر نہیں رہ سکتا۔ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کے سامنے یہی سب سے بنیادی سوال ہے کہ آیا دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہوتا ہے اور پارلیمنٹ اصل اقتدار کی امین بنتی ہے یا نہیں؟

بنیادی مسئلہ اقتدار کی منتقلی کا ہے‘ محض شراکت نہیں! اس لیے ایم ایم اے نے صاف لفظوں میں کہہ دیاہے کہ اقتدار کی منتقلی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک فوجی قیادت اس دہرے رول سے دست بردار نہیں ہوجاتی۔ ہماری دلی خواہش اور مسلسل کوشش ہے کہ یہ عمل بحسن و خوبی انجام پذیر ہو‘ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو‘ کوئی ڈیڈلاک رونما نہ ہو‘ کوئی بدمزگی نہ ہو‘ افہام و تفہیم سے سارے مراحل طے ہوں لیکن یہ ایشو وہ ہے جس پر سمجھوتا یا کوئی درمیان کا راستہ ممکن نہیں۔ جنرل صاحب اور فوج کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کے مینڈیٹ کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد ان کا اصل مقام فوجی بیرک اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہیں‘ ایوان ہاے سیاست نہیں۔ جنرل صاحب کو سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا سہارا اب ترک کر دینا چاہیے اور اصل سیاسی اور دستوری حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں قوم کے ۷۵ فی صد نے ان کے پروگرام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور عوام کے اس مینڈیٹ سے فرار صرف جمہوریت کی نفی ہی نہیں بلکہ اپنے اندر خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ارباب کار کو معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور قوم کو آزمایش اور کش مکش سے بچالے۔ یہی ملک کے لیے بہتر ہے اور سب سے زیادہ یہی فوج کے لیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ باقی رہ سکتا ہے۔ ہم بہت دکھی دل کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ماضی کے فوجی ادوار کی ناکامیوں پر عوام نے فوجی حکمرانوں کو ہدفِ ملامت بنایا مگر اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوج بحیثیت ادارہ ہدف بننے لگی ہے۔قوم سے اس کے رشتہ محبت و اعتماد کے لیے بھی بہتر ہے۔

ماضی کے تجربات سے سیاسی قیادت کو بڑے اہم سبق سیکھنے چاہییں اور اپنے پیش روئوں کی غلطیوں اور حماقتوں کے اعادے سے پرہیز کرنا چاہیے ‘اسی طرح فوجی قیادت کو بھی تجربات کی اس کھلی کتاب کے پیغام کو پڑھ لینا چاہیے۔ اس میں اس ملک کی اور ہم سب کی خیر ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح خود پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت بھی ایک بڑی آزمایش کی کسوٹی پر پرکھی جا رہی ہے۔ دونوں کو بالغ نظری کے ساتھ‘ کسی تصادم اور تعطل کا شکار ہوئے بغیر‘ اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سیاسی گفت و شنید کے ساتھ کھیل کے قواعد کے احترام کا حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اب تک حکمران اپنی مرضی اور مفاد کے لیے کھیل کے قواعد کو تبدیل کرتے رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف نے اس سلسلے میں گذشتہ آٹھ مہینے میں یعنی اپریل کے ریفرنڈم سے اس وقت تک  پرانے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور وہ جو ان کی ایک شہرت تھی کہ صاف گو (straight forward) آدمی ہیں‘ اس سیاسی کھیل میں وہ ’’عزت سادات‘‘ بھی خاک میں مل گئی ہے۔ اب ان کی اخلاقی ساکھ پارا پارا ہو چکی ہے اور اگر وہ خود اور ان کے رفقا اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کریں گے تو یہ عاقبت نااندیشی کا ایک شاہکار ہوگا جس کا خمیازہ بالآخر ان کو اور پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔اس لیے ہم پورے خلوص سے ان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پچھلے تین سالوں میں جو کچھ ہوا ‘اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نئے زمینی حقائق کو محسوس کریں اور اب قوم کو مزید آزمایشوں میں ڈالنے سے احتراز کریں۔

اب سب کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کریں۔ جنرل صاحب چیف آف اسٹاف کے عہدے سے استعفیٰ کے اس وعدے کو پورا کریں جو ہاورڈ یونی ورسٹی میں سیمی نار کے موقع پر عالمی راے عامہ سے انھوں نے کیا تھا اور جو عقل و انصاف اور دستور و اخلاق ہر ایک کا تقاضا ہے۔ وہ قوم اور فوج دونوں کو اس آزمایش میں نہ ڈالیں کہ ایک طرف وہ بحیثیت صدر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوں اور دوسری طرف بری فوج کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے باقی دونوں افواج کے سربراہوں کی طرح وزیراعظم‘ اور وزیردفاع کے ماتحت ہوں۔ ایک طرف وہ حلف اٹھائیں کہ میں دستور کا پابند اور محافظ ہوں گا (دفعہ ۴۲) اور دوسری طرف ایک فوجی افسر کی حیثیت سے اس حلف کی بھی پاسداری فرمائیں کہ ’’میں اپنے آپ کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘‘ (دفعہ ۲۴۴)۔ دستوری صدر بھی ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سروس آف پاکستان کا نہ صرف یہ کہ رکن نہ ہو بلکہ اس کے ریٹائرمنٹ پر دو سال بھی گزر چکے ہوں اور دوسری طرف عملاً فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے مدعی بھی ہوں۔ یہ دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ قوم اور خود فوج کے ساتھ ایک کھلا مذاق اور اپنے نتائج کے اعتبار سے بڑا ہی نقصان کا سودا ہے۔ ضرورت ہے کہ سب عقل کے ناخن لیں اور اپنی ذات نہیں بلکہ وہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘اس کا کچھ عملی پاس بھی کریں ورنہ سارا کھیل صرف ’’سب سے پہلے میں‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا ہر مدعی نے سہارا لیا ہے اور بدقسمتی سے خود اعلیٰ عدالتوں نے بھی ایسی آنکھ مچولی کھیلی ہے جس نے ان کے اپنے وقار ہی کو مجروح نہیں کیا بلکہ ملک کو بھی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد صاف الفاظ میں ہر ادارے کی حدود کو عملاً واضح ہی نہیں‘ متعین کر دیا جائے۔ عدالت کا کام دستور کی تعبیر ہے‘ دستور کی ترمیم‘ تنسیخ یا تسوید نہیں۔ جو اختیار عدالت کو خود حاصل نہیں وہ کسی اور کو کیسے دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور سے انحراف (deviation)کے تصور کا سہارا لیا گیا ہے اور قانون ضرورت (law of necessity) کی بنیاد پر دستور میں وقتی اور جزوی ترمیم کا اختیار فوجی حکمرانوں کو ماضی میں بھی دیا گیا اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا‘ لیکن متعدد شرائط کے ساتھ‘ جن کا جنرل پرویز مشرف نے کوئی خیال نہیں رکھا۔

عدالت کے موقف کی مختلف تعبیرات ہوسکتی ہیں لیکن اب اس بحث کا وقت نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ اپنے اختیار کا اثبات کرے اور جس طرح جنرل ضیاء الحق مجبور ہوئے تھے کہ احیاے دستور کے حکم نامے کو پارلیمنٹ کے زیرغور لائیں اور ۳۸ دن کی کھلی بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس میں سے ۸۰ فی صد کو قربان کر کے باقی ماندہ کو بشمول دفعہ ۲۷۰ کے تحت indeminty دے کر پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت دستوری دفعہ ۲۳۹-۲۳۸ کے تحت دستور کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح نام نہاد ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں زیربحث لایاجائے اور اس کے قابل قبول حصوں کو مناسب دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنا لیا جائے اور ناقابل قبول حصوں کو رد کر دیا جائے۔ مئی ۲۰۰۰ء اور ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ اور ۳اکتوبر ۲۰۰۲ء کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنی من مانی نہ کی جائے اور ان فیصلوں کو ایمان داری سے لیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں۔ صرف ریکارڈ کی خاطر یہ چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:

یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اس وقت بھی ملک کا سپریم قانون ہے‘ اس شرط کے ساتھ کہ اس کے بعض حصے ریاستی ضرورت کے تحت معطل کر دیے گئے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو سندجواز فراہم کرتے ہوئے عدالت نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ یہ ماورائے دستور (extra constitutional)اقدام ہے لیکن اس کے باوجود ان کو قانون سازی کا اختیار چند حدود کے اندر حاصل ہوگا یعنی:

یہ کہ ایسے تمام اقدامات کرنے کا اور قانون نافذکرنے کا جو نیچے بیان کیے گئے ہیں‘ یعنی:

(i)  (الف)  تمام اقدامات یا قانونی فیصلے کرنا جو ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہیں یا اس کے تحت کیے جا سکتے ہیں بشمول اس میں ترمیم کے اختیار کے۔

(ب)  وہ سب اقدامات جو عوام کی بھلائی کی پیش رفت کی طرف لے جاتے ہیں یا اسے بڑھاتے ہیں۔

(ج)  ایسے تمام اقدامات جو کاروبارِ مملکت کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے ضروری ہیں۔

(د) ایسے تمام اقدامات جو چیف ایگزیکٹو کے اعلان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے‘ یا حاصل کرنے کی طرف لے جانے والے ہوں۔

(ii)   چیف ایگزیکٹو کی جانب سے دستور میں ترامیم صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہیں جب  دستور اُن کے اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مزید یہ کہ دستور میں ترمیم کا اختیار بمطابق دفعہ ۶‘ ذیلی دفعہ (۱) (الف) ایضاً اسی دفعہ کی ذیل دفعات ب‘ ج اور د سے مشروط ہے۔

(iii)  دستور کے بنیادی خصائص (salient features) یعنی عدلیہ کی آزادی‘ وفاقیت‘ پارلیمانی طرزِحکومت بشمول اسلامی دفعات میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

اس کے ساتھ عدالت نے یہ اصولی بات بھی صاف لفظوں میں کہہ دی تھی کہ سول نظام میں فوج کی مداخلت اور شمولیت ملک اور فوج کے لیے نقصان دہ ہے اور اسے کم سے کم مدت میں ختم ہو جانا چاہیے۔

بہرحال‘ سول معاملات میں فوج کی طویل شرکت کے نتیجے میں فوج کے سیاست زدہ ہونے کا سنگین خطرہ ہے جو قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لیے اعلان شدہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد‘ جس نے فوج کے اختیار سنبھالنے کو ضروری بنایا ملک میں سول حکومت کم سے کم ممکنہ وقت میں بحال کر دی جائے۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ۳۰ ستمبر کو نواب زادہ بلوچ مری کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ:

عارضی دستور کا حکم نامہ (پی سی او) کے تحت انتظامی مقتدرہ نے جو قوانین نافذ کیے ہیں ان کی کوئی قانونی یا دستوری حیثیت نہیں ہے جب تک کہ آنے والی منتخب پارلیمنٹ ان کو جائز قرار نہ دے دے۔ (دی نیوز‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ء)

پھر اپنے ۳ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے ایک فیصلے میں جو ایل ایف او کے سلسلے میں تھا (مدعی ظفراللہ خان) یہ اہم نکتہ واضح کیا کہ ایل ایف او کی حیثیت دستوری تجاویز برائے ترمیم دستور کی ہے۔ اسپیشل بنچ جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیراے شیخ‘ جسٹس ناظم حسین صدیقی‘ جسٹس افتخار احمدچودھری اور جسٹس قاضی محمد فاروق تھے‘ کو جب مدعی نے درخواست دی کہ عدالت صرف اتنا کہہ دے کہ LFO پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ہی قابلِ نفاذ ہے۔ جسٹس منیراے شیخ نے کہا:

دفعہ ۲۳۹ دستور میں موجود ہے اور ممبران اسمبلی اس کو روبہ کار لا سکتے ہیں۔

آپ جو کچھ طلب کرتے ہیں ہم اس سے آگے جا رہے ہیں۔ (ہفت روزہ انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱-۲۷نومبر ۲۰۰۲ء)

اس سب کے باوجود ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اب مسئلے کا فیصلہ پارلیمنٹ کے ایوان میں ہونا چاہیے۔ عدالت کو مزید زحمت دینے کی نہ ضرورت ہے نہ اس کا وقت ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس مصیبت ِ جان ’’نظریہ ضرورت‘‘کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے اور بقول شہنشاہ عالمگیر اتنا گہرا دفن کرے کہ پھر کبھی مردہ قبر سے باہر نہ آ سکے!

آزادی اور حاکمیت کی بحالی

دوسرا بنیادی مسئلہ ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور معاشی اور سیاسی معاملات میں حاکمیت کا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کے اقدامات کے نتیجے میں ہماری آزادی ایسے سمجھوتوں کی زد میں آگئی ہے‘ جو قومی سلامتی کے لیے اپنے اندر بڑے مضمرات رکھتی ہے اور قوم کی نئی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ محض تسلسل کے نام پر (under the cloak of continuity) اس جال میں پھنسی نہ رہے بلکہ ایک ایسی خارجہ اور معاشی پالیسی وضع کرے جو آزاد اور متوازن ہو اور جو پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی ضامن ہو‘ امریکہ کے عالمی استعماری مقاصد کی آلہ کار نہ ہو۔ یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے اور اس پر ملک کی آزادی اور سالمیت کا انحصار ہے۔ہمیں یقین ہے کہ پوری قوم کی طرح اس ملک کی فوج بھی ملک کی پاک سرزمین پر امریکی اڈوں کے وجود اور امریکی ایجنسیوں کے عمل دخل پر اتنی ہی دل گرفتہ اور پریشان ہو گی جتنی باقی قوم۔ ماضی میںجو بھی مجبوریاں ہوں مگر اب امریکہ کا عالمی کھیل بالکل عیاں ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں بشمول امریکہ‘ اور یورپ کے عوام‘ اس کے خلاف کھل کر بغاوت کر رہے ہیں۔ سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود امریکہ کو آج تک عراق پر فوجی اقدام کرنے کے لیے یو این او اور خود مغربی اقوام تک کی تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے اور جارج بش یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ ’’یو این او تائید کرے یا نہ کرے امریکہ اپنی مرضی پوری کرے گا‘‘۔ یہ بش کا اعتراف شکست ہی نہیں‘ پوری دنیا کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے۔ ۲۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو صدربش کی موجودگی میں روسی صدر نے پاکستان اور سعودی عرب کے بارے میں کھلے الفاظ میں اضطراب کا  اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک کی ان رپورٹوں کے بعد جن میں پاکستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے ڈانڈے ملائے گئے ہیں خطرہ سر سے اونچا ہوتا نظر آتا ہے۔ اب بھی امریکی صدر کے ذاتی اعتماد کے ارشادات پر بھروسا قومی سلامتی اور اُمت کے مستقبل کے لیے خطرناک مضمرات کا حامل ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم‘ اُمت مسلمہ کے ایک اہم حصے کے طور پر‘اپنی آزادی اور حاکمیت کو بحال کرنے کی جدوجہد کرے اور تشدد کے خلاف جنگ کے نام پر جو تشدد دنیا کے مظلوم افراد اور اقوام پر کیا جا رہا ہے اس سے اپنی برأت کا اعلان کر دے۔ اس کے لیے سیاسی ہی نہیں معاشی پالیسیوں کے میدان میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور اب یہ نئی پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ اس چیلنج کے مقابلے میں پوری حکمت اور دانش مندی سے اور قومی مفادات کو پوری طرح محفوظ کر کے انجام دے۔ نیزہماری سرحدوں ہی کو نہیں ہماری جوہری صلاحیت کو جو خطرات درپیش ہیں ان کے تحفظ کا بھرپور اہتمام کرے اور پوری قوم کو اس جہاد آزادی اور تحفظ قومی سلامتی میں معاون و مددگار بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج سیاست سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے اور اسے دفاع کے تقاضوں کو مکمل یکسوئی کے ساتھ پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔


اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا ۲۰ نومبر کا قوم سے خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت دوگونا ہے‘ یعنی وہ باتیں جن کا انھوں نے اظہار کیا ہے اور وہ باتیں جن کے اظہار سے وہ کنی کترا گئے ہیں۔ یہ دوسری چیز بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی وہ باتیںجو انھوں نے اپنے ۳ سالہ ریکارڈ اور اپنے زعم میں مستقبل کی پالیسی کے باب میں کہی ہیں۔

جن باتوں کا انھوں نے ذکر نہیں کیا‘ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ کسی سربراہ مملکت کی ایسے نازک موقع پر‘ پہلی تقریر ہے جس میں پاکستان کے تصور اور وژن کے بارے میں اور اس کے نظریاتی اور اسلامی کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال (جن کا یہ سال ہے) اور قائداعظم تک کا کوئی ذکر اس میں نہ تھا۔ یہ محض علامتی (symbolic) شے نہیں۔ اس ارادی حذف (omission) کونظرانداز کرنا قومی مفاد سے متصادم ہوگا۔

پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد جن سیاسی تبدیلیوں کا تقاضا قوم کر رہی ہے اور جن کی بازگشت پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں سنی جا سکتی ہے ان سے بھی جنرل صاحب نے مکمل اغماض برتا۔ نہ  ایل ایف او کا ذکر تھا اور نہ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہونے کا۔ جن لوگوںکو یہ توقع تھی کہ اس تقریر میں وہ حقیقی انتقالِ اقتدار کی بات کریں گے‘ وہ سخت مایوس ہوئے ہوں گے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل صاحب بدلے ہوئے حالات کا صحیح ادراک نہیں رکھتے اور ابھی تک اپنی ہی دنیا میں گم ہیں جو مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں۔ ان کا یہ خطاب سیاسی اسٹرے ٹیجی سے عاری تھا جو پارلیمنٹ اور نئی قیادت کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ مکمل  انتقالِ اقتدار وقت کی ضرورت ہے اور وہ جتنے خوش اسلوبی سے واقع ہوجائے اتنا ہی ملک و ملت اور فوج اور قیادت سب کے لیے بہتر ہے۔

معاشی ترقی کے دعووں کی حقیقت

جنرل صاحب نے سارا زور اپنی معاشی کامیابیوں پر دیا ہے اور یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ معاشی حکمت عملی ہی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور غالباً اس کے لیے اپنے ان پسندیدہ افراد کو نئے نظام میں لانے اور اصل مردانِ کار کے مقام پر فائز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ خدا کرے ہمارا خدشہ غلط ہو لیکن آثار ایسے ہی نظر آتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ جناب ظفراللہ جمالی صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی اعلان کر دیا ہے کہ ’’تسلسل ہی کاروبار زندگی ہے‘‘ (continuity is the name of the game) --- اللہ خیر کرے۔

ہماری نگاہ میں اس دور کی معاشی پالیسیوں اور ان کے نتائج کا بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جنرل صاحب نے معاشیات پر بھی ایک لیکچر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل چیز کلی معاشیات (macro economics) ہے اور اسی سے سرمایہ حاصل ہوتا ہے جو ترقی کا ذریعہ ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ ان کے جن مشیروں نے ان کو یہ سبق پڑھایا انھوں نے جنرل صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ بلاشبہ کلی معاشیات کی ایک اہمیت ہے لیکن جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خرد معاشیات (micro-economics) اور micro-finance میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کلی معاشیات کی اصل بنیاد خرد معاشیات ہی ہے جو پیدا آوری عمل کا اصل محل (seat of economic activity) ہے۔ پیداوار ہی وہ بنیاد ہے جس پر پوری معیشت کا نظام استوار ہوتا ہے۔ فرد‘ فرم‘ مارکیٹ‘  عوامل پیداوار کی کارکردگی یہ خرد معاشیات کا دائرہ ہیں اور جب تک خرد معاشیات صحیح بنیادوں پر استوار نہ ہو کلی معاشیات کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ حالات کو درست کر دے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کلی معاشیات کا تو تصور ہی ۱۹۳۰ء کے عشرے میں رونما ہوا جب سرمایہ داری کی ان خرابیوں اور بے اعتدالیوں کو درست کرنے کے لیے جو آزاد معیشت نے پیدا کی تھیں ریاستی کردار کی نئی دریافت ہوئی اور جان مینارڈکینس کے زیراثر کلی معاشیات کو علمِ معیشت اور معاشی پالیسی کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی میں کلی استحکام (macro stability) کو دوسرے عوامل کی قیمت پر اہمیت دی گئی ہے جو ایک غیر متوازن پالیسی ہے اور ہماری معیشت آج اسی کا شکار ہے اور پاکستان ہی نہیں جہاں بھی ورلڈ بنک کی اسٹرے ٹیجی پر عمل ہوا ہے نتیجہ یہی رہا ہے جس کے خلاف خود ورلڈ بنک کے سابق چیف اکانومسٹ اور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جیفرے ساکس (Jeffrey Sachs) نے اپنی تازہ ترین کتاب Globalization and its Dincontentments میں بھانڈا پھوڑا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جن دو چیزوں کو اس دور کا اصل حاصل کہا جا رہا ہے یعنی خارجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور افراطِ زر کی شرح میں کمی ان کو ملک کی معیشت کی اساس یعنی پیداوار ‘شرح پیداوار اور عوام کی قوتِ خرید سے الگ کر کے دیکھنا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔

مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔ یہ اضافہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد واقع ہواہے اس لیے کہ اس سے پہلے ذخائر۷.۱ بلین ڈالر تھے جو گذشتہ ۱۰ سال کے اوسط سے مختلف نہیں۔اصل اضافہ گذشتہ ۱۵ مہینے میں ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اضافہ کس طرح اور کن ذرائع سے ہوا ہے۔ اگر یہ اضافہ ملک میں پیداوار کے بڑھنے اور بیرونی تجارت خصوصیت سے برآمدات کے اضافے سے ہوتا تو بلاشبہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیداواری عمل مندی کا شکار ہے‘ ترقی کی شرح ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کے اوسط سے نصف سے بھی کم رہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق (جو خود محل نظر ہیں) لیبر فورس کے ۵ فی صد سے بڑھ کر بے روزگاری اب ۸فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ ہر سال تقریباً ۵ لاکھ افراد کا بے روزگاری کی صف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا اعتراف بھی عالمی مالیاتی ادارے بھی کر رہے ہیں جن کی پالیسیاں  جنرل صاحب کی ٹیم لے کر چل رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (جولائی ۲۰۰۲ء) اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ:

مالی سال ۱۹۹۳ء میں غربت کی شرح ۶.۲۶ فی صد سے بڑھ کر مالی سال ۱۹۹۹ء میں ۳.۳۲ فی صد ہو گئی‘ اور اس دورانیے میں غریبوں کی تعدادمیں ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔مالی سائل ۱۹۹۹ء کے بعد معاشی نمو مزید سست ہوگئی ہے‘ ترقیاتی اخراجات میں کمی کا تسلسل برقرار رہا ہے‘ اور ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح آج مالی سال ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے (Poverty in Pakistan‘ایشیا ترقیاتی بنک‘ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱)۔

ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ۳ سالوں میں مزید ۸۰ لاکھ افراد غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان تین برسوں میں روپے کی بیرونی منڈیوں میں قدر میں ۱۸ فی صد کی کمی ہوئی ہے اور بجٹ کے خسارے میں سارے دعووں کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔یہ گذشتہ سال بھی قومی پیداوار (GDP) کا ۱.۷ فی صد رہا گو شماریاتی دھوکے (statistical deception) کے شاہکار کے طور پر ایک نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے کہ یہ اضافہ  one term expenditureکی وجہ سے ہے ورنہ خسارہ تو ۵ فی صد ہے۔ حالانکہ خود ورلڈ بنک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس one term expenditure کا اعادہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے اگست ۲۰۰۲ء کے  پاکستان اکانومک اپ ڈیٹ (جنوری ۲۰۰۲ء-جولائی ۲۰۰۲ء) کے مطابق زراعت میں ۲۰۰۱ء میں پیداوار منفی رہی اور کمی کی شرح ۶.۲ فی صد تھی جب کہ ۲۰۰۲ء میں صرف ۴.۱ فی صد اضافہ ہوا۔ صنعت میں ۲۰۰۰ء میں اضافے کی شرح ۳.۱ فی صد‘ ۲۰۰۱ء میں ۱.۳ فی صد اور ۲۰۰۲ء میں ۸.۲فی صد رہی (صفحہ۴)۔ جب کہ ماضی میں یہ اضافہ اس سے دو‘ تین اور چار گنا زیادہ رہا ہے۔ بجلی اور گیس میں ان تین برسوں میں برابر (value added) میں کمی واقع ہوئی (صفحہ ۶)۔ اور ملکی بچت میں کمی ہوئی یعنی ۲۰۰۱ء میں ۶.۱۶ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۲ء میں ۷.۱۴ فی صد رہ گئی جو ہماری تاریخ میں کم ترین شرح ہے اور جنوب ایشیا کے ممالک میں بھی سب سے کم شرح ہے۔ ان حالات میں اگر افراطِ زر کی شرح کم رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوئی جو افراطِ زر کو کم رکھنے کا بدترین طریقہ ہے۔ افراطِ زر کی شرح میں کمی میں شماریاتی کرشموں کا دخل بھی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے پاکستان اکنامک  اپ ڈیٹ (ص ۸) کے مطابق گذشتہ سال کی ۵.۳ فی صد کے اوسط کے مقابلے میں افراطِ زر کی شرح مالی سال ۲۰۰۲ء میں ۴.۴ فی صد رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کا سبسڈی کا نظام غربت دشمن (anti-poverty) رہا ہے۔ نیز بلاواسطہ ٹیکس  کے کم کیے جانے اور بالواسطہ ٹیکس خصوصیت سے سیلز ٹیکس کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے۔ غریب طبقوں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۸.۳ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈاکٹر اے آر کمال کا خطبہ صدارت۔ پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کی ۱۷ویں سالانہ کانفرنس جنوری ۲۰۰۲ء۔ صفحہ ۹)

بجلی‘ گیس‘ تیل کی قیمتوں میں اس پورے دور میں بحیثیت مجبوعی ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس نے عام آدمی کی زندگی ہی کو اجیرن نہیں کیا خود پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث ملکی مصنوعات کی مسابقت کی پوزیشن بھی متاثر کی ہے۔ اسی معاشی ریکارڈ پر فخر کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

مبادلہ خارجہ میں اضافہ ایک اچھی چیز ہے لیکن اس کی وجہ معیشت کی کارکردگی نہیں بلکہ بیرون ملک سے رقوم کی ترسیل میں تین گنا اضافہ‘ قرضوں کی ادایگی میں سہولت اور اسٹیٹ بنک کی یہ پالیسی ہے کہ اس نے کھلی منڈی سے ہر سال ۲ بلین ڈالر تک خرید کر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر قائم رکھا ہے۔ اگر اس کا نام macro-management ہے جس پر جنرل صاحب فخر کر رہے ہیں‘ تو اس پر ورلڈ بنک کے ان داتا تو شاید داد دے دیں مگر غربت کے مارے اور بے روزگاری کے ستائے عوام کیسے چین کا سانس لے سکتے ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

جنرل صاحب نے کرپشن کے خاتمے کی بھی بات کی ہے اور اپنی پاک دامنی کا بھی بڑا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ ہم ان کی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کہنا چاہتے لیکن اتنا کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ کرپشن صرف مالی فائدے اٹھانے کا نام نہیں بلکہ اختیارات کا غلط استعمال بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک ملک میں کرپشن کا تعلق ہے عام تاثر یہی ہے کہ بالکل اُوپر کی سطح پر کھلے انداز میں کرپشن ماقبل کے ادوار سے کم ہوئی ہے اور اس کا جتنا کریڈٹ جنرل صاحب لینا چاہیں لے لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی دور کی اصل حقیقت اس دور کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔ اس وقت بھی ۲۰۰۱ء-۲۰۰۰ء کے بارے میں جو آڈیٹر جنرل کے دفتر کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیںوہ کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کر رہی ہیں۔ صرف ریلوے کے محکمے بارے میں ‘۲۰۰۲ء کی رپورٹ میں ‘جو ۲۰۰۱ء کے بارے میں ہے‘ ۴۱.۳۳ کروڑ کی مالی بے ضابطگیوں اور ۱۱ارب ۹۰ کروڑ روپے کا خسارہ کی خبر دی گئی ہے۔ جب موجودہ دور کا کچا چٹھا سامنے آئے گا تو اصل تصویر نظرآئے گی۔ ایچ یو بیگ صاحب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے جب ۱۹۹۹ء کے بعد کے ادوار کا جائزہ لینا شروع کیا تو اسے جس طرح برطرف کر دیا گیا وہ بڑے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح اوپر کی سطح کے بارے میں کچھ بہتر تاثر ہے اسی طرح درمیانے اور نیچے کے حالات کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ شکایت ہے کہ کرپشن نہ صرف حسب سابق ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ اس میں فوجی افسروں کے حصے کی بات بھی زبان زد خاص و عام ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے بہت زیادہ سہارا نہیں لیا جاسکتا اس لیے کہ ان کی رپورٹ صرف بیرونی تاجروں کے تاثر پر مبنی ہے اور اس میں بھی جو بہتری ہے وہ صرف برائے نام ہے یعنی پہلے ۱۰ میں سے ہمارے نمبر ۲.۲ تھے جو اب ۶.۲ ہوگئے ہیں۔

نیب نے کام کا آغاز کیا تھا لیکن پھر جس طرح اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور مخصوص افراد کے احتساب کے اسی طریقہ کو رائج کر دیا گیا جو ماضی کے نظاموں کا وطیرہ تھا‘ وہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ حالیہ انتخابات کے موقع پر بادشاہ کی پارٹی کے نمایندوں کو احتساب کی زد سے نکالا گیا‘ مقدمات کو اِدھر اُدھر کیا گیا‘ زیرسماعت مقدمات کو دفن کیا گیا‘ سزا یافتہ لوگوں کو معاف کیا گیا‘ لوگوں کی پارٹیوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۳۶ ارکان اسمبلی صرف اس عمل کے نتیجے میں وفاداروں کی صف میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ اگر کرپشن نہیں تو اسے کس نام سے پکاریں؟ نیز ایک اطلاع کے مطابق جو نئی ’’پاک دامن‘‘ کابینہ بنائی گئی ہے اس میں ماشاء اللہ تین افراد نیب کو مطلوب ہیں اور چھ وفاداریاں تبدیل کر کے خلعتِ وزارت سے شادکام ہوئے ہیں! (نوائے وقت‘ ۲۵ نومبر ۲۰۰۲ء)

وعدے پورے کر دیے ؟

جنرل صاحب نے قرآن کی آیات کا سہارا لے کر بڑی دیدہ دلیری سے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ لیکن انھی آیات کے حوالے سے ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اور پورا کرو اپنے وعدوں کو‘ بے شک ان وعدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا‘‘۔

آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تین سال میں اقتدار منتقل کروں گا لیکن گذشتہ پورا ایک سال آپ نے صرف اس عمل کے لیے صرف کیا کہ کسی طرح اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں مرکوزکرلیں‘ اپنے کو بھی قوم پر مسلط رکھا‘ اور کلیدی اختیارات بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھے۔ کیا اسی کا نام انتقالِ اقتدار ہے؟

آپ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا آپ نے پاس کیا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہونا چاہیے اور اس سے ۹۰ دن پہلے عمل شروع ہوجائے۔ آپ نے اس عمل میں اتنی تاخیر کی کہ ان سطور کے لکھتے وقت ۲۵ نومبر تک یہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور ابھی صوبائی اسمبلیوں کے آغاز اور سینیٹ کا انتخاب باقی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دستوری ترمیم صرف اسی وقت ممکن ہے جب کسی مسئلے کا حل دستور کے اندر موجود نہ ہو اور رفع حرج کے لیے یہ ناگزیر ہو اور پھر بھی دستوری ڈھانچے میں تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن آپ نے انتقالِ اقتدار سے صرف دو ماہ قبل اگست ۲۰۰۲ء میں مستقبل میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے دستور میں ۳۶ ترامیم کیں جس سے اس کا ڈھانچہ درہم برہم ہو گیا اور اب ان ترامیم کو پارلیمنٹ کے اختیار سے بھی باہر رکھنے پر مصر ہیں۔ کیا یہی عہد پورا کرنا ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے آپ کی صلاحیت کار ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو جاتی ہے لیکن آپ نے اس کے بعد چار ہفتوں میں ۳۰ سے زیادہ قوانین بذریعہ آرڈی ننس جاری کیے جو ملکی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں ہیں اور اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا کہ یہ نئی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔ کیا وعدے اسی طرح پورے ہوتے ہیں؟

آپ نے اس زمانے میں الیکشن کے عمل میں بالواسطہ ہی نہیں بلاواسطہ مداخلت کی اور ایسے ایسے آرڈی ننس جاری کیے جن کا ہدف متعین افراد تھے ___ کون آسکتا ہے اور کون نہیں آسکتا۔ منتخب ہونے کے بعد آزاد ارکان کو پارٹیوں میں شامل کرنے کے لیے تین دن اور فاٹا کے ارکان پر پابندی کہ وہ شامل نہیں ہو سکتے‘ فارورڈ بلاکوں کی سیاست‘ الیکشن فارم داخل کرنے کے لیے متعلقہ شخص کی بذات خود موجودگی‘دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والے کے لیے وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھولنا‘ تین سال تک نوگو ایریا آپ کو اور آپ کے وزیرداخلہ کو نظر نہ آئے‘ چند ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کو نہ صرف ختم کرنا بلکہ رینجرز کی سرپرستی میں ان علاقوں کو ایک خاص گروہ کے قبضے میں دینا --- کیا یہ سب ’’امانتیں اہل امانت کو سونپنے‘‘ اور ’’وعدہ پورا کرنے‘‘ کے ذیل میں آتا ہے؟

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ

نقشہ کار

حالات کا یہ بے لاگ تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق سامنے رہیں اور جو چیلنج درپیش ہے‘ اس کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو جہاں اپنی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنا چاہیے وہاں انھیں یہ کام حکمت اور تدبر سے انجام دینا چاہیے۔ سرکاری پارٹی نے جس طرح اپنی اکثریت بنائی ہے وہ ایک معلوم حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا اتحاد کانچ کا گھر ہے جو بڑا ہی کمزور اور بودا ہے۔ حزب اختلاف دو بڑے گروپوں میں منقسم ہے جن کے درمیان نظریاتی اختلاف ہی نہیں ہے سیاسی مصالح کے ادراک میں بھی بڑا فرق ہے۔ جوڑ توڑ کی جس سیاست کا اسپیکر‘ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان کے انتخاب سے قبل دور دورہ تھا وہ کوئی نیک شگون نہیں۔ ان حالات میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو بہت بالغ نظری کا ثبوت دینا ہوگا اور ہر نفع عاجلہ سے دامن بچاتے ہوئے اس ملک کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کرنا ہوں گی اور اس جدوجہد میں حکمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا ہوگا۔

قوم نے ایم ایم اے پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ جہاں ہمیں اکثریت حاصل ہے وہاں اچھی حکومت بنائیں اور حکمرانی کا ایک نیا نمونہ پیش کریں جو اصول پرستی‘ عوام کی خدمت اور قانون کی حکمرانی سے عبارت ہو۔ اور مرکزی سطح پر ہماری ساری کوشش یہ ہو کہ: دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہو اور افہام و تفہیم کے ذریعے قابلِ قبول ترامیم کو دستوری طریقہ سے حصہ دستور بنایا جائے اور کتاب قانون کو باقی حشوو زواید سے پاک کیا جائے۔ نیز یہ کہ حقیقی انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جائے ۔ جنرل صاحب کو بھی جو جائز رعایات دی جا سکتی ہیں دے دی جائیں تاکہ وہ ایک حقیقی سول صدر مملکت‘ دستور کے مطابق بن کر‘ دستور کے فریم ورک میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سے باہر کسی کردار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے اور اس کے ساتھ دستور میں ایسی ترامیم بھی کی جائیں جن سے آگے کے لیے بگاڑ کے دروازے بند ہو سکیں۔ نیز ملک میں ایسی قانون سازی اور پالیسی سازی ہو جو عوام کی مشکلات کو دور کرنے‘ ان کے مسائل حل کرنے‘ ملک کی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور بیرونی عناصر کی دراندازیوں سے محفوظ رکھ سکے اور یہاں اسلام کا جمہوری عادلانہ نظام قائم ہو سکے۔ اس حوالے سے یہ امور اہمیت رکھتے ہیں:

۱-  عدلیہ کی حقیقی آزادی کا اہتمام کیا جائے اور ججوں کی تقرری کا وہ نظام رائج کیا جائے جس سے عدالت کو سیاست کے تابع کرنے کاکھیل ختم ہو سکے۔ عدالت میں تقرریوں کے سلسلے میں مشہور زمانہ ججوں کے فیصلے میں جو اصول طے کیے گئے تھے انھیں دستوری تحفظ دیا جائے اور ان پر عمل درآمد ہو۔

۲- دفعہ ۸۹ میں ترمیم کر کے انتظامیہ کے آرڈی ننس جاری کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی حاکمیت پر یہ سب سے بڑی تلوار ہے جسے ختم ہونا چاہیے تاکہ قانون سازی پارلیمنٹ کرے۔

۳- (SRO) Statutory Regulatory Orders کے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ اس طرح delegated legislation کے نام پر جو شب خون مسلسل پارلیمنٹ پر مارا جاتا رہا ہے اسے ختم کیا جاسکے۔

۴- کمیٹی سسٹم کو متحرک اور مستحکم کیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ نظام حکمرانی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو ہمہ وقت مصروف کریں اور محض مراعات کے چکر میں نہ پڑیں۔

۵- اہم بین الاقوامی معاہدات کو سینیٹ میں توثیق کے لیے لایا جائے۔ محض کابینہ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ جو معاہدات چاہے کرے اور جس طرح چاہے قوم کو باندھ دے۔

۶- اہم تقرریوں کے لیے دستور کے مطابق مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ کسی کو بھی صوابدیدی اختیار حاصل نہ ہو۔ ہر کام میرٹ پر اور ضابطوں کے مطابق ہو اور public scrutiny کا دروازہ کھولا جائے تاکہ معاملات میں شفافیت آسکے۔

۷- احتساب کا ایک آزاد‘ بالاتر نظام قائم ہو جو بالکل کھلے انداز میں تمام ارباب اختیار کا احتساب کر سکے خواہ ان کا تعلق پارلیمنٹ اور حکومت سے ہو‘ تجارت سے ہو‘ یا عدالت اور فوج سے ہو۔ یہ کام مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دارانہ اور بالکل شفاف ہو تاکہ قوم کے تمام مجرم کیفرکردار کو پہنچ سکیں اور محض سیاسی مقاصد کے لیے مخصوص لوگوں کے احتساب(selective accountability) کا نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

۸- پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی دی جائے اور قومی ضابطہ اخلاق باہم مشورے سے بنایا جائے جس کا سب احترام کریں۔

۹-  وزارت اطلاعات کا خاتمہ کیا جائے جو تاریخی اعتبار سے جنگی دور میں حکومت کی ضرورتوںکی پیداوار ہے اور جسے سیاست کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے کلچر کے فروغ اور قومی رہنمائی کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔

۱۰- آزادی اطلاعات (Freedom of Information) کا قانون جلد از جلد نافذ کیا جائے تاکہ کھلی حکومت کی روایت قائم ہو سکے۔

۱۱- صوبائی خود اختیاری کا جو نقشہ دستور میں طے کر دیا گیا ہے اسے ایک متعین مدت کے اندر (جو چند ماہ سے زیادہ نہ ہو) عملاً نافذ کیا جائے۔ یہ انتقال اختیار صرف وزارتوں اور قانون سازی ہی کے باب میں نہ ہو بلکہ مالی معاملات میں بھی ہو تاکہ اختیار حقیقی ہو اور اس میں جواب دہی کا نظام بھی موثر ہو سکے۔

۱۲- اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر پارلیمنٹ فی الفور غور شروع کرے اور ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی کا کام کیا جائے۔

۱۳- دستور میں مرقوم حکمت عملی کے اصولوں (دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کو قانون سازی کے لیے بنیاد بنایا جائے اور ایک مرحلہ وار انداز میں ان کو عدالتی دائرے میں لایا جائے۔

۱۴- دستور کی دفعہ ۲۲۷ تا ۲۳۰ کے مطابق سات سال کے اندر اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین اور تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھالنے کا کام مکمل کرنے کا جو دستوری ہدف تھا اور جو آج تک پیدا نہیں ہو سکا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے فوری اقدام کیے جائیں۔

۱۵- معاشی پالیسی کی تشکیل نو ہو اور سود سے معیشت کو پاک کرنے کے لیے جو حکمت عملی اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں دی ہے اس کے مطابق عمل کا نقشہ بنایا جائے  اور تمام تاخیری حربوں سے نجات پائی جائے۔ پارلیمنٹ اس کام کی نگرانی کرے یا پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی مستقل طور پر اس کام کی نگرانی کے لیے قائم کی جائے۔ نیز ملک ایک   ترقی پذیر اور عادلانہ معاشی نظام کی طرف پیش قدمی کر سکے۔

۱۶- ریاست جموں و کشمیر کی آزادی‘ کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل اور اس کے لیے عالمی راے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے اور خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کے ذمہ داروں سے اسے مربوط کیا جائے۔

۱۷-   ملک کی معیشت کو خود انحصاری کی بنیاد پر منظم کیا جائے اور اس کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی تشکیل دی جائے جو نئی معاشی حکمت عملی بنانے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کا کام انجام دے۔ منصوبہ بندی کمیشن کو اس کمیٹی کی رہنمائی میں کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔ نیز معاشی ترقی کو ناپنے کے لیے نئے معیارات (norms) متعین کیے جائیں جن میں پیداوار میں اضافہ‘ شرح پیداوار میں اضافہ کے ساتھ عام آدمی کے معیارِ زندگی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کیفیت کو شامل کیا جائے۔ نیز دوسروں پر انحصار میں کمی اور خودانحصاری میں اضافے کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ معاشی ترقی عوام کی خوش حالی اور قوم کی معاشی آزادی کا ذریعہ بن سکے۔

۱۸-  وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے جن چیزوں کو باہر رکھا گیا ہے وہ ختم کیا جائے ‘ عدالت کے ججوں کو عدالت عالیہ کے نظام کے مطابق تحفظ دیا جائے اور ان کی مستقل مدت اسی طرح ہو جس طرح باقی عدالت عالیہ کی ہے۔ تمام امتیازی دفعات کو ختم کیا جائے۔

۱۹- ان تمام دستوری اداروں کو قائم کیا جائے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک کیا جائے جو دستور نے وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے تجویز کیے ہیں یعنی مشترکہ مفادات کی کونسل‘ قومی اقتصادی کونسل‘ مالیاتی کمیشن اور بجلی اور گیس کے نظام کی منصفانہ کارکردگی کے لیے مناسب اختیارات۔

۲۰- اُردو کو قومی زبان کی حیثیت سے ملک کے تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے نافذ کیا جائے‘ دفتری زبان اُردو ہو اور ذریعہ تعلیم کے طور پر بھی اسے رائج کیا جائے۔

آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ حقیقی معنی میں پارلیمنٹ بنے‘ ایک ہمہ وقتی ادارے کے طور پر کام کرے‘ عوام کے حقوق کی محافظ ہو‘ حکومت پر نگرانی کا کام انجام دے تاکہ حاکمیت کے عوام تک منتقل ہونے کا دروازہ کھلے اور عوام اپنے معاملات کے کرتا دھرتا بن سکیں۔

متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ اور حکمرانی کے اس تصور کو حقیقت بنانے کے لیے   تن من دھن کی بازی لگا دے۔