دسمبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

منشورِ عمل

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | دسمبر ۲۰۰۲ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

متحدہ مجلس عمل کے ایوانِ حکومت میںپہنچنے سے کارکنوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اس حوالے سے یہ منشورِ عمل ہر سطح پر بہترین کوششوں اور موثر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔ (ادارہ)

تمام جماعتوں‘ حلقہ ہاے متفقین اور دوسرے کارکنانِ جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسب ِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔

۱-  جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا: اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعت ِ اسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بنا قائم ہوتی ہے‘ عوام الناس کو اطاعت ِ خدا اور رسولؐ کی طرف بلانا‘ آخرت کی بازپُرس کا احساس دلانا‘ خیروصلاح اور تقویٰ کی تلقین کرنا‘ اور اسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر‘ تقریر‘ تعلیم‘ زبانی گفتگو اور تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے۔

۲- مساجد کی اصلاحِ حال: اس میں مسجدوں کی تعمیر‘ ان کی مرمت‘ ان کے لیے فرش‘ پانی اور دوسری ضروریات اور آسایشوں کی فراہمی‘ نیز اذان‘ نماز باجماعت‘ امام‘ درس و تدریس اور خطبات ِ جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلّے میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔

۳- عوام میں علمِ دین پھیلانا: ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھیے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجیے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگوؤں‘ مذاکرات‘ تقاریر‘ خطبات‘درس‘ اجتماعی مطالعہ‘ تعلیمِ بالغاں‘ دارالمطالعوں اور اسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنایئے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں سے ہے جو صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۴-  نیکی کی قوتوں کو منظم کرنا: غنڈا گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنا‘ عام طور پر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانا‘ شہریوں کے اندر اخلاقی فرائض اور ذمہ داریوں کے احساس کو بیدار کر کے ان کی ادایگی پر ان کو آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اخلاقی حالت کو درست کرنا۔

صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم‘ بے باک‘ جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار‘ پست ہمتی‘ بزدلی اور کمزوری کے  ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اور نیکی اور شرافت کو منظم‘ بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے۔

۵-  عوامی مسائل کی داد رسی: سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی کرنا۔

۶- بستی کے یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور      بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔

۷-  دیہات اور محلوں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادے کا شوق پیدا کرنا۔

۸-  فواحش کی روک تھام : ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدار کرنا۔  فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے‘ مثلاً قحبہ خانے‘ شراب خانے‘ سینما کی پبلسٹی‘ دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ‘ ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں‘ مخلوط تعلیم‘ اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین‘ ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام‘ ]ٹیلی ویژن پر فحش گانے اور بے ہودہ پروگرام[‘ دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوںکی ریکارڈنگ‘ قماربازی کے اڈے‘ رقص کی مجالس، فحش لٹریچراور عریاں تصاویر‘ جنسی رسائل‘ آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں‘ مینابازار‘ عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔

۹-  سرکاری اداروں اور حکام و کارکناں کی بہتری کے لیے اقدام: رشوت و خیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف راے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی ‘فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔

اس غرض کے لیے ان حلقوں میں  اسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمہ داریاں ا ور اوصاف ]از مولانا امین احسن اصلاحی[کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں‘ تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اسلامی لٹریچر میں سے مناسب ِ حال آیات ‘ احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں۔

۱۰-  مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد: اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے ان کو اس کے بُرے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اسلام کی جڑیں اُکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقے کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالف ِ اسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے‘ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں۔

۱۱-  بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش: اگر لوگ صحت و صفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاطیں اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح و تربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری رہنمائی کے لیے وہ ناظم شعبۂ خدمت ِ خلق جماعت اسلامی پاکستان اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشۂ زندگی میں اسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو‘ اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحۂ عمل ‘ ص ۲۰-۲۴)