سید حامد عبدالرحمن الکاف | دسمبر ۲۰۰۲ | بحث و نظر
معاصر اسلامی ریاستوں میں غیرمسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمت سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔
یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیرمسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلوخلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ ِ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم و ستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔
ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی و مفہوم کو بھی نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۲۹)اہل کتاب میں سے ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ اس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق (اسلام) کی (سیاسی اور سیادتی) برتری کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کا اعلان کرتے ہیں‘ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ اس حالت میں دیں کہ وہ ذلیل ہوں۔
آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جاسکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں سے یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اُسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں‘ ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں‘ سیاسی فضا سازگار ہونے پر‘ اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔
جنگ ِ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیرمسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست ہی دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘قرار دے کر ان پر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔
اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورتِ حال پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان ممالک کی زمینیں امتدادِ زمانہ کے ساتھ اور سامراج کے قبضے سے بہت پہلے نہ تو عشری زمینیں رہی ہیں اور نہ ’’اہل ذمہ کی زمینیں (خراجی زمینیں) رہی ہیں۔ خرید و فروخت‘ سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی دستوری اور قانونی پوزیشن بالکل ہی بدل چکی تھی۔ یوں نہ ذمی فرد ہی آج ذمی باقی رہا ہے اور نہ ذمیوں کی زمینیں ذمی (خراجی) رہی ہیں۔ بالفاظِ دیگر نہ تو ملک کے ذمی افراد ہی ذمی رہے ہیں اور نہ ملک بحیثیت ملک‘ بحیثیت زمین اور بحیثیت رقبہ ذمی رہا ہے۔ (دیکھیے: فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۱‘ ص۴۱۷-۴۱۸۔ اَیْنَ الْاَرْضُ الْخَراجِیَۃ الآن؟ الطبعۃ الثانیۃ)
یہ سب حقائق نہایت درجے دور رس‘ گہری اور بنیادی تبدیلیوں پر دلالت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلم ممالک کی اپنی اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے سب شہری برابر کے شہری قرار پاتے ہیں۔ البتہ فرق ہے تو مسلمانوں اور غیرمسلموں میں مدنی قانون (سول کوڈ) کی حد تک جو غیر مسلم اقلیتوں کو ان کی اپنی شریعتوں کے مطابق نکاح‘ طلاق اور وراثت وغیرہ میں ان کی عدالتوں اور ان ہی کے ججوں کے ذریعے احکام صادر کرنے کا حق دیتا ہے۔ رہے عام مدنی اور فوج داری اور امن عامہ سے متعلق قوانین‘ تو وہ عام ملکی قوانین قرار پا کر‘ کیا مسلم کیا غیرمسلم‘ سب پر‘ یکساں لاگو ہوں گے۔
اسلام کا سب سے زیادہ امتیازی نشان یہ ہے کہ اس نے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کے حقوق بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیے ہیں۔ سچے مسلمان ان کی دل سے تنفیذ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ شاید ان میں اضافہ تو کر سکتے ہیں مگر ان میں کمی کرنے کا ان کو ہرگز اختیار نہیں ہے۔
یوں بھی آج کے دستوروں میں بنیادی انسانی حقوق‘ جو سب شہریوں کے مشترکہ طور پر حقوق ہوا کرتے ہیں‘ پوری وضاحت سے بیان کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی تنفیذ میں کہیں اونچ نیچ ہو تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے اور ہر شخص خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم ڈنکے کی چوٹ پر اپنے حقوق حاصل کر سکتا ہے۔
اُوپر بیان کردہ وجوہات کے علاوہ آج کل کی دنیا میں مسلمان دیگر غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں مسلم اقلیتوں کو ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ جن میں کسی عقیدے کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی آزادی بنیادی اہمیت کی حامل ہے‘ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ کس طرح اپنے ملکوں کی غیر مسلم اقلیتوں کو ’’کم تر درجے کا شہری‘‘ قرار دے کر ان سے برابر کا نہیں بلکہ کم تر درجے کا سلوک اختیار کر سکتے ہیں؟
میری اپنی رائے میں زمانے کا تقاضا ہے کہ اس موضوع پر مختلف پہلوئوں اور نقطۂ نگاہ سے سیرحاصل اور مفصل گفتگو کی جائے تاکہ اس کی روشنی میں کسی متفق علیہ نتیجہ پر پہنچا جا سکے۔