اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا کام ایک ہمہ پہلو تعلیمی اور فکری جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں بعض نئے مسائل پر اجتہادی نقطۂ نظر سے غور وخوض بھی شامل ہے اور بعض اجتہادی آراء پر اَزسرنو ناقدانہ نظر ثانی بھی ناگزیر ہے۔ دور جدید نے بعض ایسے مسائل ومعاملات ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں، جو سلف کے سامنے نہیں تھے۔ اس لیے ماضی میں مجتہدین اُمت اور مفکرین اسلام کو ان پر کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
آج دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہو، جہاں مسلم تنظیمیں فعال نہ ہوں، جہاں مسجدیں اور اسلامی مراکز ترقی نہ کر رہے ہوں، جہاں قدیم اور جدید مسلمانوں کے مابین ربط و ضبط [Interaction] نہ ہو رہا ہو۔ ان شہروں میں تیزی سے پھیلنے والی مسلم آبادیاں اپنے آپ کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر منظم کر رہی ہیں۔ مشرق ومغرب کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلم نوجوان اپنے تشخص کا تحفظ اور اپنی شخصیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ان کو نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسلامی شریعت کی رُو سے ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان سب سوالات کا شافی جواب آج کے اہل علم کے ذمے ایک قرض اور فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں یہ صورت حال اتنی شدید اور وسیع نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ اس کی شدت اور وسعت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہرآنے والا دن ایک نیا مسئلہ لے کر طلوع ہوتا ہے۔
ہماری قدیم فقہی کتابیں، مسلمانوں کے دور عروج میں مرتب ہوئیں۔ مجتہدینِ اسلام نے اسلامی ریاست، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت، اسلامی معاشرہ اور اسلامی زندگی کے ایسے مسائل اور ان کے ممکنہ حل تو نہایت باریک بینی اور توجہ کا موضوع بنانے سے مرتب کر دیے، جو مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں پیش آئے، یا جن سے مسلمانوں کو مسلم ماحول میں واسطہ پڑتا ہے۔ رہے وہ مسائل جو ایک مسلم اقلیت کو پیش آسکتے تھے، یا غلامی کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو پیش آسکتے تھے، انھیں فقہائے اسلام کو زیادہ توجہ کا موضوع بنانے کا نہ موقع ملا، اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی۔
اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسلمانوں کو سیاسی زوال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی فقہ بھی ایک طرح کے تعطل کا شکار ہوکر جمود کے دورِ انحطاط سے گزر رہی تھی۔ اجتہاد کا سلسلہ تقریباً بند ہو چکا تھا اور علمائے اسلام عام طور سے دورِ انحطاط میں لکھی ہوئی فقہی کتابوں اور متون کی شرحوں اور حاشیوں کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مغربی ممالک میں جا کر بسنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کا کوئی خاص سامان فراہم نہ ہوا، جس کے نتیجے میں یہ لوگ مختلف مغربی معاشروں میں جا جا کر گم ہوتے رہے۔ آج نئی تحقیقات اور تاریخی اکتشافات سے ان لاتعداد مسلم آبادیوں کا پتہ چل رہا ہے جو امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور ارجنٹائن جیسے بڑے ممالک کے سمندروں میں گم ہو گئیں۔ اگر اٹھارھویں صدی کے اوائل ہی سے کسی ’فقہ الاقلیات‘ پر غور وخوض کی داغ بیل ڈال دی جاتی، اور ایسے غیر موافقانہ ماحول میں مسلم وجود کے احکام پہلے سے مرتب شدہ موجود ہوتے، تو شاید یہ مسلمان آبادیاں یوں آسانی اور تیزی سے وہاں گم نہ ہوتیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ آج فقہائے اسلام اور علمائے اُمت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں پیش آنے والے سوالات اور نت نئی مشکلات کا ایسا قابل عمل حل پیش کریں، جو غیر مسلم ماحول میں مسلم وجود کے تحفظ اور بقا کا ضامن ہو۔
اس بات کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ فقہائے اسلام نے آج سے کم وبیش ایک ہزار دو سو سال قبل ’دار الاسلام‘، ’دار الحرب‘ اور ’دار الصلح‘ وغیرہ کی جو حد بندیاں تجویز کی تھیں، وہ آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ خود فقہائے اسلام کو ابتدائی دو تین صدیوں میں ہی ان تقسیمات پر کئی بار اَزسرنو غور وخوض کرنا پڑا۔ دوسری صدی ہجری کے نصف اول کے زمینی حقائق کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ (م: ۱۵۰ھ) کے فہم اسلام کی رُو سے روئے زمین کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تھے، یعنی دار الحرب اور دار الاسلام۔ لیکن جلد ہی امام شافعیؒ (م: ۲۰۴ھ) بلکہ خود امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں کو اس تقسیم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انھوں نے ’دارالاسلام‘ اور ’دار الحرب‘ کی دوگانہ تقسیم کے مابین ’دار العہد‘ اور ’دار الصلح‘ کی درمیانی تقسیمیں تجویز کرنا ضروری سمجھا۔ کچھ اور بعد کے فقہا نے ’دار العدل‘، ’دار البغی‘ اور ایسی ہی دوسری تقسیموں کی ضرورت محسوس کی۔
آج کے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جدید زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام تقسیموں پر اَزسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کوئی ایک ملک نہ دنیا سے بالکلیہ لاتعلق ہو کر رہ سکتا ہے اور نہ کسی ملک سے تعلق کی وہ نوعیت ہو سکتی ہے جو فقہائے اسلام نے ’دار الحرب‘ کے حوالے سے سوچی تھی۔ یہاں تک کہ جن ممالک سے مسلمان عملاً برسرِ جنگ ہیں [مثال کے طور پر ہندستان، اسرائیل، روس اور امریکا] ان کو بھی کلی طور پر ’دارالحرب‘ قرار دینا اس لیے مشکل ہے کہ فقہائے اسلام نے اس وقت ’دار الحرب‘ کی جو شرائط بیان کی تھیں، ان میں سے کئی شرائط ان ممالک میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومتیں بھی ہیں، جہاں انھیں مذہبی مراسم اور مذہبی تعلیم کی آزادی بھی حاصل ہے، لیکن وہ خود کو آئینی طور پر سیکولر ریاست قرار دیتے ہیں۔ ان کو شاید نہ دارالاسلام کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ غالباً ان کو ’دار الحرب‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ اور ا س طرح کے بہت سے مسائل ایسے ہیں، جن کے پیش نظر ایک نئی تقسیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور نصوص اور فقہائے اسلام کے متفق علیہ اجتہادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان حدود کا آسانی سے تعین کیا جا سکتا ہے، جن کے ذریعے سے جدید بین الاقوامی تعلقات اور میل جول کے معاملات کو نئے انداز سے منظم کیا جاسکے۔
۱- تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کا رویہ کیا ہوگا؟ پھر جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے تحفظ اور بقا کے لیے مسلمانوں کو کس حد تک جانا چاہیے؟
۲- کیا اسلامی تہذیب کے مادی اور فنی مظاہر (تاج محل اور الحمرا وغیرہ) اسی طرح دفاع کے مستحق ہیں جس طرح اسلامی تہذیب کے فکری اور تعلیمی امتیازات (مثلاً اسلامی علوم اور اصول فقہ وغیرہ)؟
۳- تہذیبوں کی ممکنہ کشمکش میں مذاہب کی روایتی تقسیم (مذاہب اہل کتاب، شبہہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب) کی حیثیت کیا ہوگی اور اس تصادم کے دوران مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہوگی؟
۴- اس باب میں کیا مسلم حکومتوں، مسلم عوام اور مسلم اقلیتوں کی ذمہ داریوں کے مابین فرق کیا جائے گا؟
۵- اگر تہذیبی تصادم شروع ہوا تو دنیائے اسلام میں اس وقت قائم قومی ریاستوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور ان مسلم قومی ریاستوں اور تصور امت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کیا صورت ہوگی؟
۶- دنیائے اسلام کے وہ علاقے جہاں بہت سے لوگ خود کو مغربی تہذیب کا تسلسل قرار دیتے ہیں، ان کا طرز عمل اس تصادم کے دوران میں کیا ہونا چاہیے؟
۷- اور بڑا بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا ہمارے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اس کی گنجایش ہے کہ ایسے اصحاب بصیرت پیدا ہو سکیں، جو اس طرح کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کر سکیں؟ بہرحال اس اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا کم از کم ایک بنیادی ہدف ایسے افراد کار کی تیاری بھی ہونا چاہیے۔
یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں، جو اجتہادی بصیرت کے متقاضی ہیں۔ ان سوالات کا جواب نہ محض فقہی اسلوبِ استدلال سے کام لے کر دیا جا سکتا ہے، اور نہ محض متکلمین اسلام کی تحریروں سے۔ اس کام کے لیے نہ صرف قرآن مجید پر گہری نظر اور پیغام قرآن میں گہری بصیرت کی ضرورت ہے بلکہ فکر اسلامی میں مہارت، تصوف اور کلام سے واقفیت اور تاریخِ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ جدید مغربی افکار بالخصوص فلسفہ، تاریخ اور معرکۂ مذہب وسائنس کی تاریخ اور نشیب وفراز سے ناقدانہ واقفیت بھی ضروری ہے۔
اس احساس نے، جس کی بنیادیں اخلاص اور دردمندی کے خمیر سے اٹھی تھیں، متعدد طاقت ور اسلامی تحریکات کو جنم دیا۔ ان تحریکوں کی صفوں سے بہت سے ایسے اہل قلم اور اربابِ صحافت سامنے آئے جنھوں نے ملت اسلامیہ کی نشاتِ ثانیہ کی لازمی شرط اور خشت اول کے طور پر اسلامی ریاست کے وجود کو لازمی قرار دیا اور یوں بیسویں صدی کے وسط سے لے کر آیندہ کم وبیش پچاس سال کے دوران میں یہ بحث معاصر اسلامی فکر کی شاید سب سے اہم بحث بن گئی، جس نے دنیائے اسلام میں مغربی تعلیم یافتہ نوجوانو ں کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا، اور اس طرح ’احیائے اسلام‘ اور ’اقامت دین‘ کی اصطلاحیں تاسیس ریاست کے مترادف بن گئیں۔
ان مباحث میں ’جہاد‘ اور’ دعوت‘ کی اصطلاحات بڑے پیمانے پر کلام و بیان کا حصہ بنیں، اور اکثر وبیشتر ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئیں حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں کے دو مختلف مراحل کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم کی بنیادی روح ایمانِ کامل، تعلق مع اللہ اور اُخروی کامیابی کا حصول ہے۔ اسلام کا مزاج داعیانہ ہے، فاتحانہ نہیں۔ وہ سنگ وخشت کو فتح کرنے سے نہیں، قلب وروح کو فتح کرنے سے غرض رکھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاصر حکمرانوں کو جتنے بھی دعوتی خطوط تحریر فرمائے، ان میں بہت سے مکتوبات میں یہ بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی کہ ’’اگر تم اس پیغام کو قبول کر لو تو تمھاری حکومت برقرار رہے گی اور تمھارا اقتدار قائم رہے گا‘‘۔ اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ آغاز وحی سے لے کر ریاست مدینہ کے قیام اور سنہ ۲ ہجری میں ’میثاق مدینہ‘ کی تحریر وتدوین تک کا یہ سارا پندرہ سالہ عمل ایک انتہائی پُرامن تبدیلی کے مرحلے سے عبارت تھا۔ بغیر ایک قطرۂ خون بہائے اور تلوار ہاتھ میں لیے ایک مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست وجود میں آ گئی۔ جہاد بالسیف کی اجازت اس وقت دی گئی، جب اس ریاست پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعوت اور جہاد کے مابین اس نہایت اہم تاریخی ترتیب کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اصل، دعوت ہے اور جہاد بالسیف اس کا ایک ناگزیر مرحلہ۔ یوں بھی قرآن مجید کی متعلقہ نصوص کی رُو سے جہاد کی بہت سی قسموں: جہاد بالمال، جہاد بالقرآن، جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالسیف بھی ایک مرحلہ ہے، اگرچہ وہ اپنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے بقیہ تمام مراحل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات میں جو مزاج تیار ہوا اور جو ادب سامنے آیا، اس میں دعوت اور جہاد کے ان مراحل اور ترتیب کا لحاظ رکھنے کی، کوئی شعوری کوشش نہ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دعوت کا خالص نبویؐ اسلوب پس منظر میں چلا گیا اور سیاسی کشاکش اور سیاسی تنظیم نے اس کی جگہ لے لی۔ سیاسی سرگرمیوں کا یہ انداز خالص دعوتی انداز سے چونکہ خاصا مختلف تھا، اس لیے جب ان سرگرمیوں کو دینی مکالمے اور دینی محاورے میں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو اس میں جہاد کی اصطلاح زیادہ موزوں اور قریب الفہم محسوس ہوئی۔ اس لیے اس کو بلاتکلف استعمال کیا جانے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کے وہ لازمی شرائط جو جہاد بالسیف کے ساتھ خاص ہیں، روزہ مرہ کے سیاسی عمل کا لازمی حصہ سمجھی جانے لگیں اور یوں بعض جگہ دینی تحریکات کے پُرجوش کارکنوں کے ذہنوں میں مغربی انداز کا سیاسی عمل ایک مجاہدانہ سرگرمی بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس میں شدت پیدا ہوتی گئی تو اس کا اظہار شدت پسندانہ انداز میں ہونے لگا۔
ان حالات میں مسلمان اہل علم اور مفکرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاد اور دعوت کے گرد گھومنے والے اس علم کلام کا ازسرنو جائزہ لیں اور یہ واضح کریں کہ دعوت اور جہاد کا رشتہ کیا ہے؟ اور یہ کہ دور جدید کے مغربی انداز کے عام سیاسی عمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ اور یہ کہ اس عمل کو کب اور کس طرح دعوتی رنگ دیا جانا چاہیے؟ اور کب اور کن حالات میں اس عمل کو جہاد بالسیف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جہاد کے سیاق وسباق میں جہاں دعوت وجہاد کے رشتۂ شکستہ کی بحالی ضروری ہے… وہاں عدل، ایفائے عہد، احساس ذمہ داری، نظم، سمع وطاعت اور اس طرح کے بہت سے احکام جہاد کے لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان عناصر کے بغیر اگر تلوار اٹھائی جائے گی تو وہ فتنہ اور افراتفری پیدا کرے گی۔ اس سے پہلے دعوت اور اس کے مراحل، تالیف قلب اور اس کے مراحل اور دشمن پر پُرامن دباؤ کے مراحل کا گزرنا ضروری ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جدید اسلامی فکر کے بعض انتہائی محترم اسلامی مفکرین کی تحریروں سے جو یک طرفہ رجحان جنم لے رہا ہے، اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے نئے معاملات ہیں جو سنجیدہ اور گہرے غور وخوض کے متقاضی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری زمانے میں جب آپؐ کی زندگی کا آخری رمضان المبارک تھا‘ دو مرتبہ جبریل امین سے قرآن پاک کے سننے سنانے کا دور کیا۔ یہ دور ’’عرضہ‘‘ کہلاتا ہے‘ جس کے لفظی معنی پیش کش یا انگریزی میں پریزنٹیشن (presentation) کے ہیں۔بالفاظ دیگرحضرت جبریل امین نے دو مرتبہ پورا قرآن پاک حضور علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور دو ہی مرتبہ حضور علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کو قرآن پاک سنایا۔ ظاہر ہے اس آخری عرضہ میں بھی قرآن پاک کا وہی حصہ سنا اور سنایا گیا جو اس وقت تک نازل ہو چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھی وحی کا نزول جاری رہا‘ اس لیے کہ آخری عرضہ تو رمضان المبارک میں ہوا تھا اور حضور علیہ السلام کی دنیا سے رحلت اس واقعے کے پانچ چھ ماہ بعد ربیع الاوّل میں ہوئی۔ اب یہ جو چھ مہینے گزرے ان میں بھی کئی آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ یہ مشہور آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاَسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اس آیت کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نازل ہوئی اور اس کے نزول سے قرآن پاک مکمل ہوگیا۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت کے بعد بھی کئی دوسری آیات اور سورتیں نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے بعد نازل ہونے والی آیات میں سورئہ نصربھی شامل ہے جو ایک مکمل سورہ کے طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت سے کچھ دن پہلے نازل ہوئی۔
لہٰذا یہ امرقطعی اور یقینی ہے کہ قرآن کا نزول حجۃ الوداع کے بعد بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں بعد میں چل کر یہ سوال پیدا ہواکہ نزول کے اعتبار سے قرآن کی آخری آیت کون سی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ خود آنحضرتؐنے کسی آیت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ اب یہ آخری آیت نازل ہوگئی ہے‘ اس پر قرآن مکمل ہوگیا ہے اور اب قرآن کا مزید کوئی حصہ نازل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس طرح کا اعلان فرما دینے کے معنی یہ تھے کہ صحابہ کرامؓ سمجھ جاتے کہ حضوؐر کا وقت رخصت آگیا ہے اور اب آپؐ دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ یہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو صحابہ کرامؓ کو پتا چلا کہ نزولِ قرآن مکمل ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال سامنے آیا کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورہ کون سی تھی؟ جس صحابی نے جو آخری آیت سنی تھی‘ اس نے یہ خیال کیا کہ وہی آخری آیت ہوگی۔ اس طرح مختلف آیتوں کے بارے میں مختلف صحابہ کرامؓ کو خیال ہوا کہ وہ آخری آیت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور اہل علم کی خاصی بڑی تعداد سورئہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کو ہی قرآن پاک کی آخری آیت قرار دینے کے حق میں ہے‘ کیونکہ جب حضور علیہ السلام نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس آیت کے نزول کا اعلانِ عام فرمایا تو صحابہ کرامؓ کا ایک جم غفیرموجود تھا۔ حاضرین کی بڑی تعداد نے اس کو سنا تو اکثر حضرات کے لیے یہ آخری آیت تھی جو انھوں نے حضوررسالت مآبؐ کی زبانِ مبارک سے سنی تھی۔ اس کے بعد ان میں سے بیشتر کوحضور علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے پھر قرآن پاک سننے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ آخری آیت ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے اور قرآن پاک کا اتنا وسیع اور عمیق علم رکھتے تھے کہ صحابہ و تابعین نے آپ کو ترجمان القرآن کا لقب دیا۔ تفسیری روایات بھی سب سے زیادہ ان سے منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی سب سے آخری آیت سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ ہے (وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ o)، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرو اس دن سے کہ جس دن تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے اور پھر ہر نفس کو وہ سب پورا ادا کر دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس کچھ اور صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ سورئہ نصر سب سے آخری سورہ ہے۔ کچھ اور صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ سورئہ نساء کی آیت ۱۷۶ (یَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ…) جس میں کلالہٗ یعنی بے اولادآدمی کی وراثت کا مسئلہ پوچھا گیا ہے‘ سب سے آخری آیت ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض اقوال بھی ہیں جن کی تفصیل علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی مشہور کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں دی ہے۔
بعض اہل علم نے ان متعدد اقوال کے درمیان تطبیق دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے آخری اعلان تو وہ ہے جو سورئہ مائدہ کی آیت ۳ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ) کی صورت میں حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا۔ آخری مکمل سورہ‘ سورئہ نصر ہے۔ قرآن کا آخری حکم سورئہ بقرہ کی آیت بابت حرمت ربا ہے‘ جب کہ مطلقاً سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ ہے۔
بہرحال اس آیت کے نزول کے چند روز بعد حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف لے گئے۔ نزول قرآن کے اس پورے ۲۳ سالہ عمل کے دوران آپؐ قرآن پاک کو ساتھ ساتھ لکھواتے بھی رہے‘ جیسا کہ قرآن مجید کی تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے۔ جونہی کوئی آیت نازل ہوتی آپؐ اسے فوراً کاتبانِ وحی کو بلاکر لکھوا دیتے۔ جو لکھا ہوا تھا‘ اسے وقتاً فوقتاً سنتے بھی رہتے تھے‘ اور صحابہ کرامؓ میں سے جو پورے قرآن کے حافظ تھے ان سے پورا اور جن کو جتنا دیا تھا ان سے وہی حصہ جو ان کو یاد تھا‘ وقتاً فوقتاً سنتے اور ان کو سناتے بھی رہتے تھے۔ لیکن آپؐ کے زمانے میں قرآن پاک کی تمام سورتوں اور آیات کو ایک کتاب کی شکل میں اس ترتیب سے یک جا نہیں کیا گیا تھا جس ترتیب اور شکل میں آج وہ ہمار ے پاس کتابی صورت میں موجود ہے‘ یعنی ترتیب ِتلاوت کے اعتبار سے قرآن پاک کے مکمل اور مرتب شدہ نسخے مصحف کی شکل میں تیار نہیں تھے۔ اس وقت کتابت قرآن کی شکل یہ تھی کہ کسی چیز یا محفوظ جگہ پر‘ مثلاً ایک صندوق میں قرآن مجیدکے مختلف حصے (آیات اور سورتیں) مختلف اشیا پر لکھی ہوئی محفوظ رہتی تھیں۔ کچھ حصے تختیوں پر‘ کاغذوں پر‘ اوراق پر‘ کچھ آیات اُونٹ کی ہڈیوں پر‘ یا کسی سلیٹ پر یا پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی محفوظ کی جاتی تھیں۔
جب ہم یہ کہتے یا روایات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں صحابیؓ نے قرآن پاک کو جمع کیا تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ انھوں نے کتاب اللہ کی تمام آیات‘ سورتیں اور اس کے تمام حصے مختلف اشیا پر لکھے ہوئے‘ سب کے سب ایک جگہ جمع کرکے محفوظ کرلیے تھے۔ بالفاظ دیگر ایک بڑے صندوق میں‘ یا ایک بڑی بوری میں محفوظ کرکے رکھ لیے تھے۔ لیکن ایک کتابی شکل میں جس طرح آج ہمارے پاس قرآن مجیدموجود ہے اس طرح اس وقت موجود نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا جب زمانہ آیا تو ایک مشہور جنگ‘ جنگ یرموک میں صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی تعداد شہیدہوگئی۔ یہ جنگ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب کو توشکست ہوگئی لیکن بہت سے حفاظ صحابہ کرامؓ بھی اس جنگ میں شہیدہوگئے۔ان شہدا میں ۷۰۰ صحابہ کرامؓ وہ تھے جنھوں نے خود حضور علیہ السلام سے قرآن کو سنا اور آپؐ کو سنایا تھا۔ یہ ایک بڑا صدمہ تھا جس سے صحابہ کرامؓ دوچار ہوئے۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق ؓ کو بجا طور پر یہ خیال ہوا کہ اگر اسی طرح بڑی تعداد میں صحابہ کرامؓ شہید ہوتے گئے تو ممکن ہے قرآن پاک کا کوئی حصہ اس طرح ضائع ہوجائے یا مٹ جائے۔ اس لیے فوری طور پر قرآن پاک کو کتابی شکل میں ترتیب ِ تلاوت کے ساتھ مرتب کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اس کی ترتیب میں فرق نہ آنے پائے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آنے والوں میں سے کسی سے ترتیب ِآیات و سورہ کے بارے میں کوئی بھول چوک ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کتاب اللہ کے مختلف حصوںکی ترتیب کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے۔ لہٰذا ایسے کسی بھی ممکنہ اختلاف سے بچنے کے لیے حضرت عمرفاروق ؓکاخیال تھا کہ قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں محفوظ کرنا چاہیے۔ یہ مشورہ لے کر حضرت عمرؓ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق ؓکے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا یہ مزاج تھا کہ جو کام حضورؐنے کیا ہے وہ میں اسی طرح کروں گا‘ اور جو کام حضورؐ نے نہیں کیا وہ میں ہرگز نہیں کروں گا۔ وہ ثانی اثنین تھے‘ گویا حضوؐر کا مثنیٰ تھے اور بالکل ۱۰۰ فی صد حضوؐر کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اپنے اس مزاج کے عین مطابق انھوں نے کہا کہ جو کام حضوؐر نے نہیں کیا وہ میں کیوں کروں؟ حضرت عمرؓ ،ان کو سمجھاتے رہے‘ بہت دیر تک گفتگو ہوئی اور کافی دیر کی گفتگو کے بعد بالآخر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اطمینان ہوگیا کہ یہ کام کرنا چاہیے۔
اب ان دونوںبزرگوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلایاجو کاتبانِ وحی میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور حضور علیہ السلام کے سیکرٹری بھی رہ چکے تھے‘ اور حضور علیہ السلام کی غیرقوموں کے ساتھ تمام خط و کتابت وہی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے جو تبلیغی خطوط لکھے تھے وہ بھی سارے کے سارے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ان کو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے بلایا اور تفصیل سے ان کو بتایا کہ یہ کام ہم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بھی وہی جواب دیا جو ابتدا میں خود حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے دیا تھا‘ یعنی جو کام خود آنحضرتؐ نے نہیں کیا آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں؟ اب یہ دونوں مل کر ان کو سمجھاتے رہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ ان دونوں بزرگوں سے بہت کم عمر تھے۔ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی اس وقت حضرت زید بن ثابتؓ تقریباً ۲۰‘ ۲۲ سال کی عمر کے ہوں گے۔ بہرحال ان دونوں بڑے معمربزرگوں کے سمجھانے سے بالآخر حضرت زیدؓ مان گئے۔ لیکن جب انھوں نے حضرت زیدؓ سے یہ کہا کہ اس کام کو تم کرو گے اور تمھیں یہ کام کرنا ہے تو حضرت زیدؓ بہت پریشان ہوئے۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ مجھے ایسا لگاکہ گویا انھوں نے احد پہاڑاُٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری میرے سر پر رکھ دی‘ یعنی اتنی بڑی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ اگر اس کے بجاے یہ حضرات مجھے کہتے کہ اُحد پہاڑ کو کھود کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دو تو میں تنہا اس کام کو کرنے کے لیے تیار ہوجاتا اور یہ کام میرے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔
بہرحال حضرات شیخین کے اصرار پر حضرت زیدؓ اس عظیم الشان اور تاریخ ساز کام کے لیے آمادہ ہوگئے۔ خلیفۂ اول نے ان کی معاونت کے لیے چند ارکان پر مشتمل ایک کمیشن بھی بنا دیا جو ان صحابہ کرامؓ پر مشتمل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کتابت ِوحی کی خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔ ان حضرات کو اس ذمہ داری کے ایک نہایت بھاری ذمہ داری ہونے کا پورا اندازہ تھا۔ وہ اس بات کا پورا شعور رکھتے تھے کہ وہ قرآن پاک کو آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کتابی شکل میں مرتب کر رہے ہیں اور یہ کہ آیندہ آنے والے سب مسلمانوں کی فہمِ قرآن اور تلاوتِ قرآن کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے۔ اس لیے حتی الامکان جو احتیاط ممکن ہو وہ اختیار کی جائے۔ یہ سب حضرات جن کو یہ ذمہ داری سپرد کی گئی وہ سب کے سب قرآن مجید کے حافظ اور صف اوّل کے علما میں سے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے خود براہِ راست ذات رسالتؐ مآب سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا۔ خود خلیفۂ رسول قرآن کے حافظ اور عالم تھے۔ ان کے قریب ترین مشیر اور رفیق سیدنا عمر فاروقؓ بھی حافظ قرآن تھے۔ خلیفۂ رسول کے پاس قرآن پاک سارا کا سارا لکھا ہوا موجود تھا‘ لیکن کتابی صورت میں یک جا مجلد نہ تھا۔ ان کے سب سے بڑے مشیرحضرت عمرفاروق ؓبھی اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم قرآن تھے۔ ان کے پاس بھی سارا قرآن پاک لکھا ہوا موجود تھا۔ خود اس کمیشن کے ارکان حافظ قرآن تھے۔ ان حالات میں یہ بہت آسان اور عام بات تھی کہ یہ لوگ اپنی یادداشت سے بیٹھ کر قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھ کر تیار کر دیں۔ ان کے پاس عرضہ میں پیش کیے ہوئے اجزاے قرآن موجود تھے لیکن اس کے باوجود خلیفۂ رسول نے ان کو مفصل ہدایات دیں۔
انھوں نے کہا کہ آپ یہ کریں کہ آپ سب افراد جس قرأت پر متفق ہوں اور وہ قرأت خلیفہ اور حضرت عمرؓ کے حفظ کے مطابق ہو‘ پھر سب حضرات کی تحریریں ان کی یادداشتوں کی تائید کریں‘ اس کے بعد بھی ہر آیت کی تائید دو صحابہؓ کے حلفیہ بیانات سے ہو‘ جوآکر یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ آیت ہم نے حضور علیہ السلام کو سنائی تھی اور اسی طرح سن کر حضورعلیہ السلام نے منظور فرمائی تھی۔ پھر ہر آیت کی تائید اور ثبوت میں دو دو تحریریں پیش کی جائیں جن کے بارے میں یہ گواہی دی جائے کہ یہ تحریر حضورعلیہ السلام کو پڑھ کر سنائی گئی تھی اور آپؐ نے اس کو اسی طرح منظور فرمایا تھا۔ ایسی ہر تحریر کے دو چشم دید گواہ ہوں اور جو یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ تحریر حضور علیہ السلام کو سنائی گئی تھی اور ہم وہاں موجود تھے‘ جب آپؐ نے اس کی تصحیح فرمائی‘ اور ہم اس کے گواہ ہیں۔ یہ سب بیانات اور شہادتیں مکمل ہوجائیں تب اس کو لکھا جائے۔
اس حتی الامکان احتیاطی طریقۂ کار کے مطابق انھوں نے قرآن پاک کو لکھنا شروع کردیا اور ترتیب کے ساتھ چند ماہ میں پورے قرآن کی تدوین مکمل ہوگئی۔ اس پورے عمل میں ایک لفظ اور ایک حرف کا بھی کہیں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ البتہ دو آیتیں قرآن پاک کی ایسی رہ گئیں جن کے بارے میں ایک مشکل سوال پیدا ہوگیا۔ قرآن پاک کی یہ دو آیتیں سورئہ توبہ کی آخری دو آیات تھیں۔ کمیشن کے ارکان نے کہا کہ ہم سب کو یاد ہے کہ یہ سورئہ توبہ کی آخری آیات ہیں۔ ہمارے پاس جو ذاتی تحریری ذخیرہ ہے اس میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کو یاد ہیں اور ان کی تحریروں میں بھی موجود ہیں۔ دو گواہ بھی آگئے‘ انھوں نے حلفیہ بیان بھی دے دیا کہ ہم نے یہ دونوںآیات اسی طرح حضور علیہ السلام کو سنائی تھیں۔ ان دونوں گواہان کی زبانی گواہی کے علاوہ دو تحریری شہادتیں بھی آگئیں۔ لیکن ان میں سے ایک تحریری یادداشت کے تو دو گواہ موجود تھے‘ البتہ دوسری تحریری یادداشت کے حق میں صرف ایک گواہی دستیاب ہوسکی۔
اب کسی نے کہا کہ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں۔ کوئی حرج نہیں اگر دوسری دستاویز کے دو گواہ نہیں ہیں۔ لیکن کمیشن نے بالآخر یہی طے کیا کہ جب ایک اصولی طریقۂ کار طے ہوچکا ہے تو اس کو نہیں توڑنا چاہیے۔ چنانچہ اعلان کرایا گیا کہ یہ آیت جس جس نے بھی عرضہ میں پیش کی تھی وہ آکر کمیشن کے سامنے گواہی دے۔ پورے شہر مدینہ میں اعلان کرا دیا گیا‘ لیکن کوئی نہیں آیا۔ پھر ایک کارندہ مقرر کیا گیا۔ اس نے گھر گھر جاکر ایک ایک صحابی سے پوچھا کہ جب یہ عرضہ ہو رہا تھا اور یہ دو آیتیں پیش ہوئی تھیں تو کیا تمھارے پاس اس وقت کا کوئی گواہ موجود ہے؟ اس پر بھی کوئی گواہ نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کہ اتفاقاً ایسا ہوا ہو۔ ممکن ہے کچھ لوگ سفر پر گئے ہوں‘ ممکن ہے بعض گواہان کا انتقال ہو گیا ہو‘ممکن ہے ایسے بعض صحابہ جو وہاں موجود ہوں‘ حج پر گئے ہوئے ہوں۔ غرض بہت سے امکانات ہوسکتے ہیں‘ کئی باتیں ہو سکتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ کوئی آدمی نہیں ملا۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ شہر اور قرب و جوار کی بستیوں میں عام منادی کرائی جائے۔ وہ بھی کرا دی گئی۔ دوسرا گواہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔ اس پر خلیفۂ وقت کے حکم سے جمعہ کی نماز میں بڑے اجتماع میں یہ مسئلہ لوگوں کے سامنے رکھا گیا۔ وہاں کسی نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ جو دستیاب ہے وہ کون ہے‘ اس پر ایک صحابی نے بتایا کہ وہ ایک گواہ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاریؓ ہیں۔ یہ نام سننا تھا کہ بہت سے حضرات کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا جس سے فوراً مسئلہ حل ہوگیا۔
مسئلہ کیسے حل ہوگیا؟ اس کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو یہ زمانہ حضور علیہ السلام کے انتقال کے آٹھ دس ماہ بعد کا تھا۔ آپ اس زمانے سے ذرا تین چار سال پہلے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی حیات تھے‘ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شہر سے باہر ٹہلنے یا حالات کا جائزہ لینے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ کبھی تو صبح کی نماز کے بعد تشریف لے جایا کرتے تھے اور کبھی عصر کی نماز کے بعد۔ ایسے ہی کسی موقع پر حضور علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ ایک قبیلہ پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ وہاں خیمے لگے ہوئے تھے اور ایک بدو ایک گھوڑا یا اُونٹ لیے کھڑا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ جانور بیچتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں بیچتا ہوں۔ قیمت پوچھی‘ اس نے قیمت بتادی۔ آپؐ نے فرمایا: چلو میرے ساتھ چلو‘ میں تمھیں قیمت ادا کر دیتا ہوں۔ چنانچہ دونوں مدینہ منورہ کی سمت چل پڑے۔ حضور علیہ السلام آگے آگے چل رہے تھے اور بدو اُونٹ یا گھوڑا لیے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ یہ جانور فروخت ہوچکا ہے۔
ایک صاحب نے بدو سے پوچھا کہ جانور بیچتے ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں! کتنی قیمت دو گے؟ ان صاحب نے کچھ زیادہ پیسے لگا دیے۔ اس پر بدو بولا: ٹھیک ہے‘ میں تیار ہوں۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور فرمایا کہ یہ جانور تو تم نے مجھے بیچ نہیں دیا تھا؟ اس نے کہا: میں نے تو نہیں بیچا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے پھر فرمایا: تم سے اتنی قیمت کی ادایگی کی بات نہیں ہوئی تھی؟ اس نے کہا: نہیں‘ اور صاف مکر گیا۔ جب حضور علیہ السلام نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو اس نے کہا: آپؐ کے پاس کوئی گواہ ہو تو لایئے۔ حضور علیہ السلام نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ وہاں تو آپؐ تنہا ہی تھے۔ یہاں اتفاق سے ایک صحابی حضرت خزیمہ بن ثابتؓ کھڑے تھے۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے یہ جانور اس شخص سے اتنی قیمت میں خریدا ہے۔ اس پر وہ بدو خاموش ہوگیا۔ آپؐ نے اس کو قیمت ادا کر دی‘ بلکہ کچھ زیادہ بھی دے دیے اور جانور لے کے آگئے۔ اس کام سے فارغ ہوکرآپؐ نے خزیمہؓ سے پوچھا: میں نے تو تمھیں وہاں نہیں دیکھا! تم کہاں کھڑے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: میں تو وہاں نہیں تھا! آپؐ نے پوچھا: تم نے پھر گواہی کیسے دے دی؟ حضرت خزیمہؓ نے جواب میں عرض کیا: میں روز گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ کے پاس جبریل امین آئے اور وحی لے کر آئے‘ اور یہ کہ جنت دوزخ موجود ہیں۔ جب میں یہ سب ان دیکھی باتیںسچ مان رہا ہوں تو یہ معمولی سی بات کیسے نہ مان لوں؟ اس پر حضور علیہ السلام بڑے خوش ہوئے اور آپؐ نے فرمایا کہ آج سے خزیمہؓ کی گواہی دوآدمیوں کے برابر مانی جائے گی۔
یہ واقعہ کئی صحابہ کرامؓ نے دیکھا اور سنا ہوا تھا۔ جوں ہی انھوں نے یاد دلایا تو دوسروں کوبھی یاد آگیا۔ اب لوگوں کو احساس ہوا کہ حضرت خزیمہؓ کی گواہی کو جو دو آدمیوں کے برابر قرار دیا گیا تھا یہ کیوں قرار دیا گیا تھا۔ شاید اسی موقع کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ چنانچہ اس ارشاد نبویؐ کی بنیاد پر ان دو آیتوں کے بارے میں حضرت خزیمہؓ کی گواہی کو دو کے برابر تسلیم کرلیا گیا۔ اور یہ دونوں آیتیں سورئہ توبہ کے آخر میں لکھ دی گئیں۔
اس طرح قرآن کا پہلا مکمل اور کتابی شکل میں مرتب شدہ نسخہ تیار ہوگیا۔ یہ نسخہ جس کو مشورے سے مصحف کے نام سے یاد کیا گیا‘ حضرت ابوبکرصدیق ؓکے قبضے میں رہا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس رہا‘ اور ان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہؓ کی تحویل میں رہا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے تک یہ روایت چلی آرہی تھی کہ عرب کے مختلف قبائل کو اجازت تھی کہ قرآن مجیداپنے اپنے لہجے میں پڑھ لیا کریں۔ ہر زبان میں مختلف قبیلوں اور علاقوں کے لہجے مختلف ہوتے ہیں۔ زبان تو ایک ہی ہوتی ہے‘ لکھی بھی ایک ہی طرح جاتی ہے لیکن لوگ مختلف انداز میں پڑھتے اور بولتے ہیں۔ امریکہ والے often کو’’آف ٹن‘‘پڑھتے ہیں لیکن انگریز اس کو ’’آفن‘‘ پڑھتے ہیں۔ امریکہ والے scheduleکو ’’اس کے ڈول‘‘ بولتے اور پڑھتے ہیں‘ جب کہ انگریز اس کو ’’شیڈول‘‘ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اُردو کا معاملہ ہے۔ برعظیم کے بعض علاقوں میں لوگ انیس(۱۹) کو’’وینس‘‘ پڑھتے ہیں۔ چونکہ عرب قبائل مختلف علاقوں میں آباد تھے اور مختلف لہجے ان کے ہاں رائج تھے‘ اس لیے آغاز میں ہر قبیلہ اپنے اپنے لہجے میں قرآن پاک پڑھا کرتا تھا۔ قبائلی عصبیت بڑی شدید ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے آغاز میں نئے اسلام قبول کرنے والوں کو قریش کے لہجے کا پابند نہیں کیا جو عربی زبان کا ٹکسالی لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ آج ہم اُس دور کی قبائلی عصبیت اور کشاکش کا تصور کریں تو صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس ماحول میں عرب کے بدوئوں سے آغاز ہی میں یہ کہنا کہ تم اسلام بھی قبول کر لو اور اپنا لہجہ بھی چھوڑ دو ایک ناممکن سی بات تھی۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزرتی اور ممکن ہے وہ قریشی لہجے کو معیاری ماننے سے گریز کرتے اور اصرار کرتے کہ ہمارا اپنا لہجہ بڑا معیاری ہے۔ اس لیے حضورعلیہ السلام نے اس پر اعتراض نہیں کیا‘ بلکہ جوجس لہجے میں پڑھتا تھا‘ اس کو اسی لہجے میں پڑھنے کی اجازت دی کہ اپنے ہی لہجے میں پڑھو‘ مثلاً بعض لوگ ’’ک‘‘ کو ’’ش‘‘ بولتے تھے‘ بعض ’’ب‘‘ کو ’’م‘‘ پڑھتے تھے۔ بعض ’’ال‘‘ کو ’’ام‘‘پڑھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد بھی تلفظ کا یہ اختلاف جاری رہا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتاً توجہ دلاتے رہے کہ قرآن جس لہجے میں اتارا گیا ہے وہ قریش کا لہجہ ہے اور یہ کہ قریش کا لہجہ ہی معیاری ہے۔
حجاز کے باہر کے صحابہ کرامؓ میں جو جوحضرات تعلیم حاصل کرتے جاتے تھے وہ قریش کا معیاری اور ٹکسالی لہجہ اختیار کرتے جاتے تھے۔ لیکن عام لوگ اور بدو پس منظر کے حامل حضرات اپنے مخصوص قبائلی یا علاقائی لہجے میں ہی پڑھتے رہے۔ اب جب حضرت عثمانؓ کا زمانہ آیا تو یہ وہ دور تھا کہ نئی نئی نسلیں اور نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں۔ ایرانی‘ ترکی‘ رومی‘ حبشی وغیرہ جو عربی نہیں جانتے تھے وہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اسلام قبول کر رہے تھے۔ ان نئے مسلمانوں نے جوش و خروش سے عربی زبان سیکھنی شروع کر دی۔ ان میں سے جس نے جس عرب سے قرآن سیکھا اسی کے لہجے میں قرآن پڑھنا شروع کر دیا‘ مثلاً کسی یمنی نے اپنے نومسلم دوستوں اور شاگردوں کو اپنے لہجے میں قرآن سکھایا تو کسی کوفہ والے نے اپنے لہجے میں سکھا دیا۔
حضرت عثمان غنیؓ جب خلیفہ تھے اس وقت مسلمانوںکی فوجیں دنیا کے مختلف حصوں میں مصروف جہاد تھیں۔ آذربائیجان کے علاقے میں بھی جہاں آج کل نکوروکاراباخ کا جھگڑا چل رہا ہے اور آرمینیا کے علاقے میں بھی۔ مشہور صحابی حضرت حذیفہؓ بن یمان بھی آرمینیا کے مجاہدین میں شامل تھے۔ یہ ایک انتہائی محترم اور معزز صحابی تھے اور حضور علیہ السلام کے خاص رازدان سمجھے جاتے تھے۔ وہ بھی وہاں جہاد میں شریک تھے۔ ایک دن انھوں نے دیکھا کہ امام نے نماز پڑھائی اور ایک خاص لہجے میں تلاوت کی۔ نماز کے بعد کئی لوگوں نے امام صاحب کے لہجے پر اعتراض کیا اورکہا کہ تم نے غلط پڑھا۔ امام صاحب نے جواب میں کہا کہ میں نے تو فلاں صحابی سے قرآن سیکھا ہے۔ جن حضرات نے اعتراض کیا تھا انھوں نے کہا کہ ہم نے فلاں صحابی سے قرآن سیکھا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت حذیفہؓ نے اپنے امیر سے کہا کہ مجھے جہاد سے چھ ماہ کی چھٹی دے دیں‘ میں ضروری کام سے فوراً مدینہ جانا چاہتا ہوں۔
انھوں نے اسی وقت سواری لی اور سیدھے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ کئی ماہ کے سفر کے بعد وہ مدینہ طیبہ پہنچے۔ کہتے ہیں کہ دوپہرکا وقت تھا اور گرمی کا زمانہ تھا۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ ذرا آرام کرکے پھر امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ سے ملاقات کے لیے جائیں‘ لیکن حضرت حذیفہؓ نہ مانے۔ سیدھے حضرت عثمان غنیؓ کے گھر پہنچے۔ وہ پریشان ہوکر نکلے کہ دیکھیں کہ حضرت حذیفہؓ اچانک کیسے اور کیوں آئے ہیں۔ بولے: آپ تو جہاد پر گئے ہوئے تھے پھر اچانک کیا بات ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا: امیرالمومنین! مسلمانوں کی خبرلیں قبل اس کے کہ کتاب اللہ میں اختلاف پیدا ہو‘ اور ان کو اختلاف قرأت کا واقعہ سنایا اور کہا کہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ قرآن کے بارے میں اس طرح کے اختلاف کی اب اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج لہجے کا اختلاف ہے‘ کل ممکن ہے کوئی اور اختلاف پیدا ہوجائے۔ اس لیے آج ہی اس کاکچھ حل تلاش کریں۔ دونوں حضرات نے بیٹھ کرطے کیاکہ حضرت حفصہؓ کے پاس جو قرآن کا نسخہ ہے۔ اس کو منگوا کر اس کی کاپیاں تیار کروائی جائیں اور تمام دنیاے اسلام کے شہروں میں بھیج دی جائیں۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے حکم سے ۱۱نسخے (اور بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ سات نسخے) تیار کیے گئے۔ دوبارہ حضرت زید بن ثابتؓ ہی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ چنانچہ ان ۱۱ یا ۷ نسخوں کو تمام بڑے بڑے شہروں میں بھجوا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے انفرادی نسخے اب تک لوگوں کے پاس موجود ہیں‘ وہ سب سرکار کے حوالے کر دیے جائیں۔ یہ سب انفرادی نسخے ضبط کر کے بعد میں تلف کر دیے گئے۔
فیصلہ یہ ہوا کہ آیندہ جس کسی کو قرآن کا نسخہ تیار کرنا ہو وہ ان نسخوںسے تیار کرے‘ اور یہ نسخہ قریش کے لہجے اور قریش کے رسم الخط کے مطابق تیارکیا جائے۔ چنانچہ آیندہ قرآن پاک کے تمام نسخے ۱۰۰ فی صد اُسی لہجے اور ہجے کے مطابق لکھے گئے جو حضور علیہ السلام کا اپنا لہجہ تھا۔ اس سے قبل سب لوگ اپنے اپنے ہجے کے مطابق لکھا کرتے تھے۔ لہجے کے اختلاف سے ہجے کا اختلاف ہو سکتاہے۔ ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ سے قرآن پاک سنتے تھے تو وہ ہجے اور طرزِتحریر نہیں پوچھتے تھے۔ ان حالات میں اس کا امکان تھا کہ ایک ہی لفظ کے ہجے مختلف انداز سے رواج پاجائیں۔ یہ امکان اس لیے بھی تھا کہ اس وقت تک عرب میں لکھنے لکھانے کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ عرب میں بہت تھوڑے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ بلاذری کی روایت کو درست مانا جائے تومکہ میں صرف ۱۷ آدمی نوشت و خواند سے واقف تھے۔ ایسی صورت میں ہجے اور طرزِتحریر کی باقاعدہ standardization نہیں ہوئی تھی۔ معیاری اور متفق علیہ طرزِہجا کی عدم موجودگی میں اس کا امکان خاصا تھا کہ ایک ہی لفظ کو مختلف لوگ مختلف انداز سے لکھنا شروع کر دیں۔ اس امکان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر ممکنہ خدشات سے بچنے کے لیے قریش کے ہجے میں قرآن پاک کے یہ ۷ یا ۱۱ نسخے تیار کرائے گئے۔ باقی سب نسخے ضبط کرکے ضائع کر دیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ آیندہ سب لوگ اِنھی مستند نسخوں کے مطابق نقلیں تیار کرلیں۔ چنانچہ اس کے بعد سے تمام نئے نسخے ان اصل نسخوں کے مطابق تیار ہوئے اور یہ ۱۱نسخے انھوں نے تمام دنیاے اسلام میں تقسیم کر دیے۔
ان نسخوں میں سے تین نسخے اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں۔ اتفاق سے مجھے ان تینوں نسخوں کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ایک لندن کے مشہور برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ دوسرا استنبول (ترکی) میں ہے اور تیسرا تاشقند میں ہے‘ ازبکستان کے دارالحکومت میں۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں تیار ہوا تھا‘ اور خلیفہ کے پاس رہتا تھا‘ اور یہی وہ نسخہ ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کے ذاتی استعمال میں رہتا تھا۔ جب وہ شہید ہوئے تو وہ اسی نسخے کی تلاوت فرما رہے تھے۔ مشہورہے کہ ان کا خون بھی قرآن کے صفحات پر گرا تھا اور اس کی نشانی بھی ان صفحات پر موجود ہے۔ میں نے خود اس کی زیارت کی ہے۔ تاشقند والا نسخہ حمزہ سٹریٹ میں کلاں مسجد کی ایک لائبریری میں رکھا ہوا ہے۔
یوں حضرت عثمان غنیؓ نے یہ نسخے تیار کروا دیے اور یہ سارے نسخے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے جو رسم الخط اختیار کیا تھا آج تک اس رسم الخط کی پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور رسم الخط میں قرآن پاک لکھنے کی مسلمانوں نے اجازت کبھی نہیں دی۔ عربی کے عام رسم الخط میں اور قرآنی رسم الخط میں تھوڑا سا فرق ہے۔ مثال کے طور پر ’’قال‘‘کا لفظ ہے جو ق ا ل کی صورت میں عربی میں لکھا جاتا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہیں ملا کر ’’قل‘‘ لکھا تھا۔ اب جہاں انھوں نے کھڑے زبر سے لکھا تھا آج تک کھڑے زبرسے ہی لکھا جاتا ہے۔ اس کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ایران‘ توران‘ عرب‘عجم‘ ہرجگہ قدیم زمانے سے لے کر آج کے زمانے تک اس جگہ ’’قل‘‘ اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ عام عربی تحریر میں اس طرح نہیںلکھا جاتا۔ اس کی وجہ اور حکمت کیا ہے‘ یہ ہمیں نہیں معلوم۔ ممکن ہے کسی مصلحت سے ایسا کیا ہو یا محض اتفاق سے اس طرح لکھا گیا ہو۔ ممکن ہے کوئی حکمت ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔دو جگہ قرآن پاک میں ایسا بھی ہے کہ ایک حرف زائد لکھا ہے‘ مثلاً سورئہ ذاریات (۲۷ ویں پارے میں) کی آیت نمبر ۴۷ میں بِاَییْدٍ میں ایک یا ے زائد لکھی گئی ہے۔ ایک ی کے دو نقطے ہیں اور ایک ی کا صرف نشان بنا ہوا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے اُس وقت اسی طرح لکھا ہوگا اور آج تک یہ اسی طرح لکھا جا رہا ہے۔ اس طرزِ تحریر کی حکمتوں پر بہت سی بحثیں کی گئی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ بھولے سے ایک ہی ی کا نشان زائد لکھا گیا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس میں کچھ مصلحت ہے۔ غرض اس پر بہت سے لوگوں نے غور کیا‘ اور نئے نئے نکتے نکالے ہیں۔
الغرض جس انداز میں حضرت زید بن ثابتؓ نے قرآن مجید لکھا تھا اسی انداز میں آج کے زمانے تک لکھا جا رہا ہے۔ اس خط کو رسم عثمانی کہتے ہیں اورآج تک اس کی پیروی ضروری قرار دی جاتی ہے۔ دنیا میں قرآن مجید کے جتنے بھی نسخے ہیںوہ انھی ۱۱ نسخوں کی نقل ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت عثمان غنیؓ نے تیار کروائے تھے۔
دنیا کی ہر کتاب کا کوئی نہ کوئی موضوع ضرور ہوتا ہے۔ کوئی کتاب معاشیات کی کتاب کہلاتی ہے‘ کوئی سائنس کی‘ کوئی تاریخ یا جغرافیہ کی۔ اس عام بات سے قرآن مجید جیسی اہم ترین کتاب کیوں کر مستثنیٰ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا موضوع کیا ہے؟ یہ کس موضوع کی کتاب ہے؟ کیا یہ فلسفے کی کتاب ہے؟ کیا آپ قرآن کو فلسفے کی کتاب قرار دیتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اگرچہ اس کتاب میں فلسفے کے بہت سے مسائل زیربحث آئے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ فلسفے کی کتاب نہیں ہے۔ کیا پھر قرآن پاک معاشیات کی کتاب ہے؟ اس میں بہت سے بنیادی معاشی مسائل کا حل بتایا گیا ہے‘ دولت کی تقسیم کیوں کر ہو‘ دولت کمائی کیسے جائے‘ تقسیم دولت کے بارے میں ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان مباحث کے باوجود ماہرین معاشیات کی نظر میں قرآن پاک بہرحال معاشیات کی کتاب نہیں ہے۔ کم از کم اس انداز کی معاشیات کی کتاب نہیں ہے جس انداز کی معاشیات کی کتابیں عام طور پر ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ قانون کی کتاب بھی نہیں ہے‘ نہ قانون کا کوئی طالب علم فنی مفہوم میں اس کو قانون کی کتاب قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں نہ قانونی اصطلاحات ہیں اور نہ قانون و فقہ کی فنی زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔ اگرچہ اس میں قانون کے بہت سے پیچیدہ مسائل حل کیے گئے ہیں۔
درحقیقت غور کیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قرآن پاک ان علوم و فنون میں سے فنی طور پر کسی علم کی کتاب نہیں ہے۔ اس کو نہ ہم قانون کی کتاب کہہ سکتے ہیں‘ نہ معاشیات کی‘ نہ فلسفے کی‘ نہ تاریخ کی اور نہ نفسیات کی۔ اگرچہ ان تمام علوم کے بنیادی مسائل کا جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ ہاں‘ اس کو ہم کتاب ہدایت کہہ سکتے ہیں جو ان موضوعات پر پائی جانے والی ساری کتابوں کے لیے رہنما اور کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مندرجہ بالا اور دیگر بہت سے موضوعات پر لکھی جانے والی ہر وہ کتاب جو اس کتاب ہدایت کے مطابق ہے وہ سچی کتاب ہے‘ اور ہر وہ کتاب جو قرآن پاک سے متعارض ہے وہ جھوٹی کتاب ہے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی برقرار رہتا ہے کہ اس کتاب ہدایت کا اپنا موضوع کیا ہے؟
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے جب ہم قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا اپنا موضوع ہے: اس دنیاوی زندگی میں انسان کا کردار اور انسان کی آخری اور اخروی منزل مقصود۔ یہ چیز قرآن پاک کا بنیادی مضمون ہے‘ یعنی اس بات کی وضاحت و تشریح کہ اس زندگی میں انسان کی ذمہ داری اور بالآخر اس کی وہ منزل مقصود جہاں اس کو جانا ہے وہ کیا ہے؟ اور وہاں کیسے پہنچا جائے؟ قرآن پاک شروع سے لے کر آخر تک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ایک موضوع سے بحث کرتا ہے کہ انسان کیا ہے؟ کہاں سے‘ کیوں اور کیسے آیا ہے؟ اور بالآخر اسے کہاں جانا ہے؟ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اسے کیا کرنا چاہیے؟
اس ایک سوال کا جو بہت سے سوالوں کا مجموعہ ہے‘ جواب دینے کے لیے قرآن پاک زندگی کے تمام مسائل سے بحث کرتا ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی عائلی زندگی‘ خاندانی زندگی‘ اس کی معاشرتی زندگی‘ اس کی معاشی زندگی‘ اس کے معاملات‘ اس کا کاروبار‘ اس کی سیاسی زندگی غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کی جائے‘ اور یہ بتایا جائے کہ وہ خاندان‘ معیشت‘ معاشرہ اور حکومت کا کاروبار کس طرح چلائے؟ ان پہلوئوں میں پیش آنے والے تمام سوالات سے بحث کی جائے۔ جنگ کے حالات ہوں تو اس کا رویہ کیسا ہو‘ امن کے دوران کیا ہو‘ غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غور کرنے اور اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت اس میں پیش آئے گی۔ اس لیے یہ سارے مسائل جن کی ضرورت اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے پڑتی ہے ان سب سے قرآن پاک میں بحث کی گئی ہے۔
لہٰذا قرآن مجید میں انسانی زندگی سے بحث کرنے والے تمام علوم و فنون کی بنیادیں موجود ہیں۔ اس کتاب کا اصل ہدف یہ ہے کہ انسان کسی طرح کامیاب طریقے سے منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ اس لیے اس اصل ہدف کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق اس کتاب میں سائنس کی معلومات بھی ملتی ہیں‘ معاشیات اور دوسرے بہت سے علوم کی تعلیم سے متعلق سوالات جن کی راہ میں ضرورت پیش آئے گی ان سب کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اس کتاب کے اسلوب میں اور دوسرے تمام علوم و فنون کے انداز میں ایک نمایاں فرق ہے‘ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلسفہ بھی ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے کہ انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اور اس کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور قرآن پاک بھی ان سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن پاک کے جواب میں اور باقی تمام فلسفوں اور نظاموں کی طرف سے دیے جانے والے جوابوں میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ دوسرے نظاموں اور فلسفوں میں توجہ کا مرکز انسان کا ماضی‘ یعنی اس کا آغاز ہے۔ وہاں بیشتر بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ انسان کہاں سے آیا اور کیسے آیا؟ یا زیادہ سے زیادہ یہ بحث ملتی ہے کہ اب یہاں اس کو کیا کرنا ہے۔ آپ دیکھیںگے کہ انسان کے بارے میں سائنس کی ۹۰ فی صد بحثیں یہی ہیں کہ انسان آیا کہاں سے؟ کوئی بندر پر تحقیق کر رہا ہے‘ کوئی بن مانس پر تحقیق کر رہا ہے‘ غرض آغاز کے متعلق لوگ ہزاروں سال سے بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے سائنس کو بہت کم بحث ہوتی ہے کہ یہاں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اس سے تو شاذونادر ہی کسی کو بحث ہوتی ہے کہ انسان کو بالآخر کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کامیابی کیسے حاصل کی جائے؟ اس اصل سوال سے ان میں سے کسی کو بحث نہیں ہوتی۔ نہ سائنس کو‘ نہ سماجیات کو اور نہ بشریات کو۔ آپ غور کریں کہ آخر یہ چیز ہمارے لیے کیا عملی افادیت رکھتی ہے کہ انسان کہاں سے اور کیسے آیا؟ قرآن نے بھی اس سوال کا جواب دیا ہے لیکن اس کو بنیادی مسئلہ نہیں بنایا۔ ایک واضح اور سادہ جواب دینے پر اکتفا کیا ہے اور تفصیلات کو غیر ضروری قرار دے کر چھوڑ دیا ہے لیکن زیادہ توجہ اس پر دی ہے کہ اب انسان کو یہاں کیا کرنا چاہیے‘ اسے اب آگے کہاں جانا ہے اور سفر کو کیسے مکمل کرنا ہے۔
یہ ایک واضح بات ہے کہ ہم میں سے کسی کا آغاز بھی ہمارے اپنے قبضے میں نہیں ہے۔ جب ہم اس دنیا میں آتے ہیں تو اپنی مرضی سے نہیں آتے‘ ہم میں سے کوئی بھی اپنے آزادانہ فیصلے یا مرضی اور اختیار سے اس دنیا میں نہیں آیا۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میاں! تمھیں اس دنیا میں بھیجوں یا نہ بھیجوں‘ نہ اللہ تعالیٰ نے پوچھا‘ نہ میرے ماں باپ نے پوچھا۔ مجھے تو اس دنیا میں آنے کا شعور بھی پیدایش کے کئی سال بعد ہوا۔ آنے کے بعد بھی اب اگر کوئی انسان چاہے کہ وہ اس دنیا میں آنے یا نہ آنے کا خود فیصلہ کرلے تو یہ بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو چیز ہمارے اختیار میں نہیں ہے ہم اس کے آغاز کے متعلق بہت سی تفصیلات جان کر بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے اس لیے کہ آیندہ بھی لوگ اس دنیا میں آتے رہیں گے اور وہ بھی اسی بے اختیاری سے ہی آئیں گے۔ اس لیے انسان کے آغاز پر بہت زیادہ غوروفکر کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ توجہ وہاں دینی چاہیے جوہمارے اختیار میں ہو۔ آیندہ کامیابی کی منزل کا حصول میرے اختیار میں بھی ہے اور آپ کے اختیار میں بھی۔ اگر میں کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچنا چاہوں تو اللہ نے مجھے اس کے لیے وسائل دیے ہیں اور میں ایسا کرسکتا ہوں۔ مجھے اختیار بھی دیا ہے‘ اسباب بھی پیدا کیے ہیں اور حالات بھی فراہم کیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے اس چیز پر زور دیا جو ہمارے اختیار میں ہے‘ ہم اس کو بنا بھی سکتے ہیں اور برباد بھی کر سکتے ہیں۔ سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ ہے فرق قرآن پاک اور باقی کتابوں میں۔ قرآن پاک بات کرتا ہے مستقبل کی‘ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ قرآن پاک کا اسلوب Future Oriented ہے‘ یعنی نظر بہ مستقبل۔ باقی علوم و فنون کا اسلوب Past Oriented ہے‘ یعنی نظر بہ ماضی۔ صرف ماضی میں جھانکتے رہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر مستقبل سے نظر ہٹ جائے جو آپ کے بس میں ہے اور اس کا بنانا اور بگاڑنا دونوں آپ کے اختیار میں ہیں‘ تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس مضمون کو اقبالؒ نے بہت عمدہ اسلوب اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے ؎
خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
گویا ابتدا کی ایک حد سے زیادہ فکر کرنا غیر ضروری ہے‘ فکر انجام کی کرنی چاہیے۔ قرآن پاک میں بھی آپ کو جابجا ملے گا: وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo (الاعراف۷:۱۲۸) ’’اور آخری کامیابی انھی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ جس کا ہدف یہی سبق دینا ہے کہ اصل مقصود مسلمان کی آخرت کی زندگی ہے‘ اسی کو منزل مقصود سمجھنا چاہیے۔
چنانچہ قرآن نے اس حقیقت کو ذہن نشین کرانے کے لیے جو مباحث اختیار کیے ہیں ان کو ہم پانچ بنیادی موضوعات یا عنوانات میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ یہ عنوانات قرآن پاک میں ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور حسب ضرورت و موقع اجمال اور تفصیل دونوں کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کی ہر منزل میں‘ ہر سورہ میں حتیٰ کہ بیشتر آیات میں یہ پانچ موضوعات براہِ راست یا بالواسطہ نظر آئیں گے۔ یہ موضوعات اس ایک سوال کے پانچ مختلف پہلوئوں سے بحث کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹے چھوٹے مباحث بھی ہیں جو ان ہی پانچ مباحث کے نتیجے کے طور پر قرآن پاک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ پانچ بنیادی مباحث یہ ہیں:
سب سے پہلا بنیادی مبحث جو قرآن پاک میں سورہ فاتحہ سے والناس تک ملتا ہے‘ وہ عقائد کا مضمون ہے۔ یہ مضمون قرآن پاک میں ہر جگہ موجود ہے‘ کہیں کھلا ہوا بیان ہوا ہے اور کہیں چھپا ہوا دوسرے مضامین کے سیاق میں ملتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ اس کائنات کو کس نے بنایا ہے؟ یہاں انسان کو کیا کرنا ہے‘ کیوں کرنا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب زندگی کے کسی بھی نظام کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ ان ہی سوالات کے جواب سے اسلام کے تصور کائنات کی بنیادیں سامنے آتی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جسے عقائد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قرآن پاک نے عقائد کے ضمن میں ان تمام بنیادی سوالات کا جواب دے دیا ہے جن کی ضرورت روز مرہ زندگی کے مسائل کے حل میں پڑتی ہے۔ عقیدے سے متعلق کوئی بنیادی سوال ایسا نہیںرہتا جس کا جواب قرآن پاک میں نہ دے دیا گیا ہو۔ بے شمار غلط فہمیاں جو عقائد کے بارے میں انسان کے دماغ میں آسکتی ہیں ان کا جواب بھی دیا ہے۔ مختلف اسلام دشمن عناصر‘ مشرکین و کفار‘ جو اعتراضات کرتے رہے ہیں‘ آج کرتے ہیں یا آیندہ کرتے رہیں گے ان کا جواب بھی ان مباحث میں موجود ہے۔
لیکن عقائد کے متعلق جو مواد قرآن پاک میں بیان ہوا ہے اول سے لے کر آخر تک اگر آپ اس کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سب تین بنیادی مسائل کے جوابات ہیں جو عقیدے کے باب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
سب سے بڑا بنیادی مسئلہ توحید ہے کہ اللہ ایک ہے‘ وہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے‘ اور تمام صفات کمال سے متصف ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ ہر سلیم الطبع انسان ذرا سا غور کرے تو وہ جلد ہی توحید پر ایمان لے آتا ہے۔ جب بھی کوئی صاحب ِ عقل اور صاحب ِ علم انسان تھوڑا سا غور کر کے یہ دیکھتا ہے کہ یہاں دنیا میں کیا نظام چل رہا ہے؟ کیسے یہ کائنات کام کر رہی ہے؟ تو وہ خود بخود اللہ رب العزت کی ذات تک پہنچ جاتا ہے اور اس کو یہ تسلیم کرلینے اور اس بات کا اعتراف کرلینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ اس کائنات کا ایک بنانے والا ہے۔ اس کو یہ مان لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ اس کائنات کا نظام کسی خودکار طریقے سے نہیں چل رہا بلکہ کسی چلانے والے کے حکم اور مشیت کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جب وہ یہ سب کچھ مان لیتا ہے تو پھر اس کو جلد ہی یہ احساس بھی ہو جاتا ہے کہ عقیدئہ توحید کے منطقی نتیجے کے طور پر اسے آخرت پر ایمان لانا چاہیے۔ اس لیے کہ جب ایک بار اللہ کے بارے میں یہ مان لیا کہ وہ قادر مطلق ہے تو یہ بھی ماننا چاہیے کہ وہ سمیع و بصیر ہے۔ پھر اس کو دانا بھی ہونا چاہیے‘ حکیم بھی ہونا چاہیے‘ پھر اس کے دیے ہوئے نظام میں توازن اور اعتدال بھی ہونا چاہیے۔ خود سائنس دان کائنات میں موجود اس عظیم الشان اور بے مثال توازن کو تسلیم کرچکے ہیں۔ انھوں نے اس توازن کی بڑی بڑی ایمان افروز مثالیں دریافت کی ہیں‘ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اگر زمین اور سورج کا فاصلہ چند فٹ بھی کم و بیش ہو جائے تو ساری کائنات درہم برہم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا کوئی ایسی قوت ضرور ہے جو توازن اور اعتدال سے اس نظام کو چلا رہی ہے‘ جس نے اس کائنات کو سنبھالا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر انسان اس کائنات کے نظام پر غور کرے تو خود بخود اللہ کی ان تمام صفات تک پہنچ جائے گا جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔
جب وہ یہ سب مان لے تو پھر اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ جس خالق نے یہ کائنات پیدا کی ہے اس نے بغیر کسی مقصد کے اس کو پیدا نہیں کیا۔ اس کے پیچھے کوئی مقصد کارفرما ہونا چاہیے۔ مجھے اپنے بچپن کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ قرآن کی یہ آیت اور اس کا ترجمہ پڑھا کہ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۶) یعنی ہم نے زمین وآسمان کو کھیل کے لیے پیدا نہیں کیا‘ تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کون کہتا ہے کہ آپ نے کھیل کود کے لیے پیدا کیا ہے۔ مدتوںمیرے ذہن میں یہ سوال آتا رہا کہ اتنی واضح بات کو کہنے کی کیا ضرورت تھی اور سوچتا رہا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا۔ بعد میں جب میں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا تو میں نے ہندوازم میں پڑھا ‘ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات کھیل اور تفریح کی غرض سے پیدا کی ہے۔ یہ سارا سنسار رام کی لیلا ہے۔ لیلا کے معنی کھیل کے ہیں اور یہ پوری کائنات رام کا کھیل ہے۔ اس کے بنانے کی کیفیت وہی ہے جو بچوں کی طرف سے ریت کا گھروندہ بنانے کی ہوتی ہے۔ وہ محض تفنن طبع کے لیے ریت کے گھروندے بناتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو اسے توڑ کر چلے جاتے ہیں‘ پھر کسی اور کھیل میں لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ رام تفریح طبع کی خاطر طرح طرح کی دنیائیں بناتا ہے اور جب دل بھر جاتا ہے تو ان کو تباہ کرکے پھر نئی دنیا بنانے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اس نے موجودہ دنیا بھی کھیل اور تفریح کے لیے بنائی ہے جس دن اس سے اس کا دل بھر جائے گا وہ اس کو تباہ کر دے گا۔ پھر کچھ اور بنائے گا۔ جب میں نے ہندومت میں یہ بات پڑھی اس وقت مجھے پتا چلا کہ قرآن کی اس آیت میں یہ بات کیوں بیان کی گئی۔ اس سے قرآن پاک پر میرا ایمان و ایقان غیرمعمولی طور پر بڑھا‘ کیونکہ حضورؐ جہاں تشریف فرما تھے وہاں کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ ہندو نام کی کوئی قوم بھی دنیا میں پائی جاتی ہے یا ہندو قوم کے عقائد کیا ہیں اور وہ کہاں آباد ہے۔ گویا مسلمانوں کو ایک آیندہ آنے والے مسئلے کے متعلق پہلے سے بتا دیا گیا کہ یہ کائنات کسی کھیل یا تفریح کے نتیجے میں نہیں بنائی گئی بلکہ الا بالحق‘ یعنی ایک واضح اور دو ٹوک مقصد کے ساتھ بنائی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان کو سات دنوں میں بنایا اور وہ ان کو بنا کر تھکا نہیں۔ ایک جگہ آتا ہے ہم پر کوئی تھکاوٹ یا نیند طاری نہیں ہوئی۔ مجھے پھر خیال آیا کہ کون یہ سوچتا ہوگا۔ اللہ تو قادر مطلق ہے اس پر تھکن کے آثار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جب میں نے بائبل پڑھی تو دیکھا اس کے شروع ہی میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ نے چھ دن میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن تھک کر آرام کیا۔ اس کو یہودی یوم السبت کہتے ہیں۔ اس دن چھٹی کرتے ہیں اور آرام کرتے ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ قرآن میں یہ آیت کس غلطی کے ازالے کے لیے نازل کی گئی۔
دوسری اہم حقیقت جو قرآن پاک نے جابجا بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان جب صحیح رستے سے بھٹکتا ہے تو اس کے دو سبب ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کو صحیح عقیدہ معلوم نہیں ہوتا‘ دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ صحیح عقیدہ معلوم تو ہوتا ہے لیکن وہ اپنے بارے میں یا تو احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے یا احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنے ہی حوالے سے دیکھتا ہے۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ اگر کوئی شخص مجھ سے لڑتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ برا ہے‘ اور اگر مجھ سے اچھا برتائو کرتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ اچھا ہے۔ جب انسان اپنے بارے میں احساس برتری کا شکار ہوتا ہے تو اپنے کو بڑھاتے بڑھاتے خدا مان لیتا ہے اور خود کو دوسرے انسانوں کا مالک و مختار سمجھنے لگتا ہے۔ جب وہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے تو اس سے گمراہی کی دوسری بہت سی شکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ جب انسان اپنے کو بے حقیقت سمجھتا ہے تو پھر وہ گائے‘ بندر اور سانپوں تک کو دیوتا مان لیتا ہے۔ اگر انسان بڑے سے بڑا مقام چاہتا ہے تو وہ عبدیت کا ہی مقام ہے۔ اس مقام سے بڑا مقام اللہ نے کسی کے لیے نہیں رکھا۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰)‘ ہم نے بنی آدم کو دیگر تمام مخلوقات پر فضلیت دی ہے۔
دوسری طرف جب انسان خود کو حقیر اور ذلیل سمجھنا شروع کرتا ہے تو وہ اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔ گویا انسان کی پوزیشن اور حیثیت میں توازن رکھا گیا۔ اللہ رب العزت کے بعد سب سے بڑا درجہ انسان اور تمام مخلوقات سے اونچی حیثیت انسان کی قرار دی گئی۔ لہٰذا یہ تعلیم دی گئی کہ نہ اتنے بڑے بنو کہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھو‘ یا خدائی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دو‘ اور نہ اتنے چھوٹے بنو کہ اپنی کوئی حیثیت نہ سمجھو۔ بلکہ تم خدا کے جانشین اور خلیفہ کے اعزاز کے مستحق قرار دیے گئے ہو۔
خلیفہ کے لفظ کے متعلق ایک غلط فہمی بھی دُور کرنا ضروری ہے۔ خلافت اور جانشینی کے لفظ سے ایک الجھن پیدا ہوتی ہے۔ عام طور سے جب ایک صدر مر جاتا ہے تو دوسرا اس کے جانشین کے طور پر آجاتا ہے۔ کوئی پیر دنیا سے رخصت ہو جائے تو دوسرا بزرگ بطور جانشین آجاتا ہے۔ لیکن اللہ تو حی و قیوم ہے‘ اس کا جانشین کیسے ہو سکتا ہے؟ اس غلط فہمی یا اشکال کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ جانشینی کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔
مفسرین نے لکھا کہ جانشینی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک جانشینی ہوتی ہے اس کے غائب ہونے کی صورت میں جس نے جانشین بنایا ہے۔ ایک جانشینی ہوتی ہے تشریفا للمستخلف کہ جس کو خلیفہ یا جانشین بنایا ہے اس کی عزت افزائی مقصود ہوتی ہے‘ اس کا احترام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی مسجد میں ایک امام صاحب ایک مہمان بزرگ کی عزت افزائی کے لیے ان سے کہتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا دیں‘ یا مثلاً آپ کسی تقریب یا جلسے کی صدارت کر رہے تھے‘ آپ نے دیکھا کہ حاضرین میں کوئی صاحب بڑے معزز بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو کرسی صدارت پیش کر دی۔ اس طرح کی جانشینی دینا گویا عزت کے لیے ہوتا ہے‘ جس طرح کوئی صدر مملکت کسی شخص کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ باقی لوگ بھی اس کی اسی طرح عزت کریں۔ لہٰذا یہ ایک عزت دینے کا طریقہ ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ نے انسان کو اور تمام بنی آدم کو عزت دی ہے اس لیے اس کو خلیفہ فی الارض کا خطاب دیا ہے۔
یہ وہ سوالات ہیں جو قرآن پاک نے عقائد کے بارے میں جابجا بیان کیے ہیں۔
قرآن پاک کا دوسرا اہم مبحث احکام ہے۔ قرآن مجید جو نسخۂ کیمیا لے کر آیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد انسان کو دنیاوی زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی کامیاب و کامران بنانا ہے۔ دنیاوی کامیابی کے لیے قرآن مجید میں عموماً صلاح کی اور اُخروی زندگی میں کامیابی کے لیے فلاح کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ اس صلاح اور فلاح کے لیے ضروری ہے کہ انسانی زندگی کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت منظم ہو۔ قرآن مجید نے جو تفصیلی ضابطہء زندگی عطا فرمایا ہے وہ زندگی کے تمام پہلوئوں کو منظم کرتا ہے۔ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو صحیح خطوط پر منظم اور استوار کرنے کے لیے قرآن پاک میں ضروری اور بنیادی احکام دیے گئے ہیں۔ انسان اپنی ذاتی‘ خاندانی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ اجتماعی‘ سیاسی اور بین الاقوامی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو مفید‘ نتیجہ خیز اور بہتر بنانے کے لیے قرآن پاک نے جابجا ہدایات دی ہیں۔ قرآن پاک کی ان آیات کا جن میں اس طرح کے احکام بیان کیے گئے ہیں‘ جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ کتاب الٰہی نے انسان کی پیدایش سے لے کر موت تک زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس کے بارے میں ہدایات نہ دی ہوں۔
قرآن پاک کے یہ احکام معاشرتی ہدایات اور اجتماعی رہنمائی پر بھی مشتمل ہیں اور قانونی اصول و ضوابط پر بھی۔ اول الذکر پر عمل درآمد کا ذمہ دار خود انسان کا ضمیر اور قوت محرکہ اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس ہے۔ مزیدبرآں معاشرتی دبائو بھی انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان ہدایات پر کاربند رہے۔ ثانی الذکر احکام کی نوعیت قانونی ضوابط کی ہے جن پر عمل درآمد جہاں فرد کی ذمہ داری ہے وہاں کچھ حدود کے اندر ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔
قرآن مجید کی یہ آیات جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے اکثر وبیشتر عمومی ہدایات پر مشتمل ہیں۔ قرآن مجید نے تفصیلات کا تعرض نہیں کیا‘ اس لیے کہ تفصیلات کا تعلق حالات اور زمانے کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ یہ اُمت کے اہل علم و دانش اور فقہاے اسلام کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اجتہاد اور اجماع کے اصولوں سے کام لے کر قرآن مجید کی عمومی ہدایات‘ بنیادی احکام اور اصولوں کو سامنے رکھ کر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اور سنت رسولؐ کی بیان کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے حالات و زمانے کے مطابق تفصیلات طے کریں۔
قرآن مجید کی آیات احکام کی تعداد نسبتاً قلیل ہے۔ قرآن مجید کی کل ۶ ہزار سے زائد آیات میں ۳۰۰ کے لگ بھگ آیات ایسی ہیں جن کو آیات احکام کہا جاتا ہے۔ یہ ۳۰۰ آیات وہ ہیں جن میں براہِ راست فقہی احکام اور قانونی اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور آیات سے بھی بعض اہل علم نے بالواسطہ احکام کا استنباط کیا ہے۔ یہ آیات جن سے بالواسطہ احکام کا استنباط ہوا ہے ۲۰۰ کے قریب ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری آیات احکام مجموعی طور پر ۵۰۰ سے زائد نہیں ہیں۔ یہ تعداد قرآن مجید کی کل آیات کے ۱۳ ویں حصے کے قریب قریب ہے۔
پھر آیات احکام میں بھی زیادہ زور جن دو پہلوئوں پر دیا گیا ہے وہ عبادات اور خاندانی زندگی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آیات احکام کی ایک تہائی تعداد عبادات کے بارے میں ہے اور ایک تہائی خاندانی زندگی کے بارے میں ہے۔ بقیہ ایک تہائی کا تعلق زندگی کے بقیہ پہلوئوں سے ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے خاندانی زندگی کے تحفظ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ قرآن میں ہر ایسی کوشش کو جس کا مقصد خاندان میں افتراق پیدا کرنا ہو‘ شیطان کی سحرکاری قرار دیا ہے اور اس کو ایک کافرانہ عمل ٹھیرایا ہے۔
قرآن مجید اگرچہ کلیات کی کتاب ہے اور اس میں عمومی احکام اور کلی ہدایات دی گئی ہیں لیکن اس کا اسلوب کسی قانون‘ اصول قانون یا آئین و دستور کی فنی کتاب کا سا نہیں ہے۔ اس کتاب میں عمومی قانونی ہدایات و کلیات کو جزوی مثالوں اور واقعات کے پردے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے قارئین کی علمی‘ فکری اور ذہنی سطحیں بے شمار ہیں۔ اس لیے اس کا اسلوب ایسا ہے کہ اس کو ہر شخص اپنی سطح اور فہم کے مطابق سمجھ سکتا ہے۔ قرآن مجید کے کلیات اور عمومی اصولوں کو حقائق زندگی کے پسِ منظر میں برتنے کا ڈھنگ ‘ سیرت اور سنت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ سنت‘ قرآن مجید کی تشریح بھی کرتی ہے‘ تفصیل بھی بیان کرتی ہے اور مجملات قرآن کی تبیین بھی کرتی ہے۔ اگرچہ سنت رسولؐ براہِ راست مستقل بالذات احکام بھی دے سکتی ہے‘ تاہم بعض بالغ نظر اہل علم کا کہنا ہے کہ سنت کے دیے ہوئے ہر حکم کی کوئی نہ کوئی اساس قرآن پاک میں موجود ہوتی ہے اور غور کرنے سے سامنے آجاتی ہے۔
تیسرا اہم مبحث اخلاق ہے جس کا تعلق انسان کے قلبی احساسات اور تاثرات سے ہے۔ انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے‘ جب کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے اس کو شدید نفرت ہوتی ہے۔ یہ پسندیدگی‘ ناپسندیدگی اور نفرت انسان کے قلبی احساسات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ احساسات بعض اوقات اچھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات خراب۔ انسان کے احساسات اچھے ہوں تو ہر چیز اس کو اچھی نظر آتی ہے۔ احساسات خراب ہوں تو انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر چیز بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو روزاسی کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اگر آپ خوش ہیں اور قلبی اور ذہنی کیفیت کے اعتبار سے انبساط کی حالت میں ہیں تو آپ کو ہر چیز اچھی نظر آئے گی‘ اور اگر خدانخواستہ کوئی شخص آپ کو کوئی بری خبر سنا دے تو آپ کو سارا ماحول پژمردہ نظر آنے لگتا ہے۔ گویا انسان کا دل اس کی جذباتی زندگی میں ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک اس کے قلبی احساسات ٹھیک رہتے ہیں تو اس کو ساری کائنات ٹھیک لگتی ہے اور اگر قلبی احساسات بگڑ جائیں تو ساری کائنات بگڑی ہوئی لگتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات اپنی جگہ رہتی ہے‘ وہ جیسی پہلے تھی ویسی ہی آج بھی ہے۔ نہ وہ خوش ہوتی ہے اور نہ ناخوش‘ نہ وہ مسرت سے مچلتی ہے اور نہ کسی وجہ سے غم ناک ہوتی ہے‘ یہ محض انسان کا دل ہے جو انسان کو کچھ کا کچھ دکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: دیکھو! انسان کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے‘ جب تک وہ ٹھیک رہتا ہے سارا جسم ٹھیک رہتا ہے‘ جوں ہی وہ بگڑتا ہے سارا جسم بگڑ جاتا ہے‘ اور یاد رکھو وہ لوتھڑا انسان کا دل ہے۔
یہ بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محض کسی طبی اور جسمانی مفہوم میں ارشاد نہیں فرمائی ‘ اگرچہ اس مفہوم میں بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ درحقیقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد گرامی اخلاقی اور روحانی مفہوم میں ہے۔ آپؐ کا اشارہ انسان کے جذبات و عواطف اور احساس و کردار کی طرف ہے۔ انسان جذباتی طور پر متوازن رہے تو اس کی پوری زندگی توازن کا نمونہ بنی رہتی ہے‘ اور اگر کسی وجہ سے انسان جذباتی عدم توازن کا شکار ہو جائے تو پوری زندگی غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ اس سے صاف پتا چلا کہ ایک کامیاب اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے انسان کے قلبی احساسات کی درستی اور جذباتی توازن انتہائی اہمیت کی حامل چیز ہے۔
قرآن مجید نے جابجا ایسی ہدایات دی ہیں جو انسان کے احساسات کو متوازن اور جذبات کو معتدل رکھتی ہیں۔ انسان جذباتی تنائو کا شکار جن اسباب سے ہوتا ہے ان میں سے ایک ایک کا قرآن پاک میں علاج کیا گیا ہے۔ بعض اوقات مال و دولت کی فراوانی‘ اقتدار و اختیار‘ حسن و جمال‘ طاقت و قوت اور ایسی ہی دوسری مادی نعمتیں انسان کا توازن بگاڑ دیتی ہیں۔ قرآن مجید نے جابجا یہ یاد دلایا کہ یہ چیزیں جہاں خالق کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہیں وہاں یہ ایک آزمایش کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ اگر ایک صاحب ایمان ان میں سے ہر نعمت کے ملنے پر شکر کا رویہ اختیار کرے تو وہ بہکنے سے محفوظ رہتا ہے۔ شکر کا رویہ نہ ہو تو ان نعمتوں کا نشہ انسان کو بہکا دیتا ہے اور وہ توازن کی راہِ راست سے بھٹک کر عدم توازن کی سنگلاخ پگڈنڈیوں پر نکل جاتا ہے‘ اور پھر جتنا وہ اس راستے پر بڑھتا چلا جاتا ہے اس کے عدم توازن میں اضافہ اور زندگی کی ناکامیوں میں زیادتی ہوتی جاتی ہے۔
اسی طرح اگر آزمایش کی گھڑیوں میں انسان ہمت ہار جائے اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے تو بھی وہ بہت جلد عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج کی اس اہمیت کے پیشِ نظر قرآن مجید نے اپنی تعلیم کا ایک اہم حصہ اس پہلو کو بہتر اور منظم بنانے کے لیے خاص کیا ہے۔ قرآن پاک کی یہ تعلیم جس کے لیے تزکیہ اور احسان کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں انسان کے جذبات و احساسات کو متوازن اور منضبط رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
تقدیر پر ایمان محض ایک کلامی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ انسان کو ہر نازک اور بحرانی لمحے میں زیورِاعتدال و توازن سے آراستہ رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اہل ایمان کو یہی درس دیا گیا ہے کہ زندگی میں آنے والی ہر قسم کی خوشی اور غمی‘ سختی اور نرمی‘ اچھائی اور برائی‘ بیماری اور صحت‘ کامیابی اور ناکامی‘ فتح اور شکست‘ غرض سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ حتی المقدور جائز اسباب اور وسائل اختیار کرے اور نتیجے کو اللہ کی ذات پر چھوڑ کر اس کے فیصلے پر راضی رہے۔
تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان ہمہ وقت ایک احساسِ حضوری کے ساتھ زندگی گزارے اور ہر لمحے یہ شعور دل میں بیدار رکھے کہ وہ خالق کائنات کی مسلسل نگرانی میں ہے۔ نگرانی کا یہ احساس اس کو نہ صرف بہت سی برائیوں اور کمزوریوں سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اوامرالٰہی کی پابندی اور نواہی سے اجتناب میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ حضوری کی یہ کیفیت جس کو حدیث پاک میں ’’احسان‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں جابجا احسان کی ہدایت کی گئی ہے اور احسان کرنے والوںکو اللہ کا محبوب بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک کی انھی ہدایات کی بنیاد پر اکابر اسلام نے تزکیہ و احسان کے اصول اور قواعد مرتب فرمائے اور ان کو ایک باضابطہ علم کی شکل دی۔ علماے دین کا یہ مقدس گروہ جن کو علامہ اقبالؒ نے اسلام کے ماہرین نفسیات قرار دیا ہے‘ انسانی نفس‘ اس کے رجحانات اور رغبات و مکائد پر غور کرتا رہا ہے۔ ان حضرات نے انسانی کمزوریوں کا پورا پورا احساس و ادراک کرتے ہوئے تزکیہ و احسان کے حصول کے لیے بہت سی تدابیر تجویز فرمائیں جن کو ایک جداگانہ فن کی صورت میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ دیگر انسانی کاوشوں کی طرح اس فن میں بھی بہ تقاضا بشری بہت سا رطب و یابس داخل ہو گیا۔
قرآن پاک کا چوتھا بنیادی مبحث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں ’’ایام اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایام اللہ سے مراد دنیا کی تاریخ میں مسلسل جاری رہنے والا وہ نشیب و فراز ہے جو اللہ کی سنت کے مطابق دنیا میں جاری ہے جس کے نتیجے میں افراد اور قوموں کے عروج و زوال کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ قرآن مجید کا ہر طالب علم اس بات کو جانتا ہے کہ اس کتاب میں اقوام سابقہ اور انبیاے سابقین میں سے بہت سوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سورۂ فاتحہ سے ہی ان دونوں قسم کے انسانوں کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے راستے پر چلائے جن پر اس نے انعام فرمایا اور ان لوگوں کے راستے سے محفوظ رکھے جن پر اس کا غضب نازل ہوا‘ یا وہ راہِ راست سے بھٹک گئے۔ یوں کتاب الٰہی کے آغازہی سے اللہ کے مقبول بندوں کا تذکرہ بھی شروع ہو جاتا ہے اور اللہ کے ناپسندیدہ لوگوں کا بھی۔ پھر آگے چل کر قرآن پاک میں بڑی تفصیل سے جابجا انبیا علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کا ذکر بھی کم نہیں۔ چنانچہ فرعون‘ نمرود‘ شداد‘ ہامان‘ قارون اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ یہ تذکرہ کہیں نام لے کر کیا گیا اور کہیں نام لیے بغیر۔
انبیا علیہم السلام کے تذکرے میں ایک خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیا میں سے کم و بیش ۲۶ کا تذکرہ قرآن پاک میں ملتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۴ ہزار انبیا علیہم السلام میں سے ۲۶ کا انتخاب کس بنیاد یا کس حکمت کے تحت کیا گیا؟ اسی طرح جن ناپسندیدہ افراد کا ذکر ہے ان کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا؟
انبیا علیہم السلام میں سے جن جن کے اسماے گرامی قرآن پاک میں آئے ان کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بعض خاص خاص اوصاف و امتیازات کی نمایندگی فرماتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام دعوت دین میں استقلال اور تحمل کی نمایندگی فرماتے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام صبر کی صفت کے مظہر ہیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ذات میں صفات زہد و فقر نمایاں ہیں‘ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی ذات میں شکر کا نمونہ ملتا ہے۔ ان تمام اوصاف حمیدہ کے چلتے پھرتے نمونے ان انبیا علیہم السلام کی صورت میں قرآن پاک میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ایک قاری جب کتاب الٰہی کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے سامنے بار بار مجسم اچھائیوں اور سراپا خوبیوں کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں۔ ایک قاری یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نیک بندے کو اقتدار سے نوازتا ہے تو اس کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ حضرت دائود علیہ السلام کی سنت اس کے سامنے آجاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مال و دولت اور انعامات کی فراوانی عطا فرماتا ہے تو اس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا رویہ اپنانا چاہیے۔ دین کی خاطر گھربار اور وطن چھوڑنا ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ پیشِ نظر رہتا ہے۔ یوں اس کی نظر میں یہ مثالیں اور نمونے ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے انبیا علیہم السلام کے واقعات ہر وقت اس طرح رہتے ہیں جیسے وہ خود ان کا مشاہدہ کر رہا ہو۔
سابقہ انبیا علیہم السلام کے ساتھ ساتھ ایام اللہ کے ضمن میں قرآن مجید میں سیرت نبویؐ کے اہم واقعات بھی محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ہر قاری روحانی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں زندگی گزارتا ہے۔ وہ چشمِ تصور سے بدروحنین کے معرکے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہجرت کے مناظر تازہ رہتے ہیں۔ وہ غزوئہ اُحد میں صحابہ کرامؓ کی پریشانی اور سراسیمگی کو محسوس کرتا رہتا ہے‘ اور یوں وہ چشمِ تصور سے واقعات سیرت کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس کو مسلسل مہمیز ملتی رہتی ہے۔ اس گہری اور مسلسل روحانی وابستگی اور چشمِ تصور کے ذریعے اس مشاہدے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام کے عقائد اور اخلاق اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں انبیا علیہم السلام کی سنت سے مسلسل رہنمائی حاصل کرتے رہنا اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔
اس کے برعکس جن لوگوں نے غلط راستہ اختیار کیا ان کو کس انجام کا سامنا کرنا پڑا‘ یہ بات بھی قرآن کے قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے پاتی۔ قرآن مجید میں اس غرض کے لیے جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ان میںہر ایک انحراف اور سرکشی کے ایک خاص انداز کی نمایندگی کرتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں انسان راہ راست سے بہک جائے تو کہاں جا کر دم لیتا ہے۔ یہ چیز فرعون کے انجام کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ مال و دولت کی بہتات کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جائے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ چیز قارون کے انجام سے پتا چلتی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اپنے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ اقتدار‘ لیکن اس کو کسی صاحب ِ اقتدار کی مصاحبت میسر آجاتی ہے‘ شہر میں اس کی اپنی کوئی آبرو نہیں ہوتی لیکن شاہ کا مصاحب بن کر اتراتا پھرتا ہے اور یوں اس کا ذہن فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید میں ہامان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہامان‘ فرعون کا مصاحب تھا اور صحبت شاہ نے اس کا دماغ خراب کر دیا تھا۔
ان چیزوں کے ساتھ ساتھ بڑے لوگوں کی رشتے داری بھی بعض اوقات انسان کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن مجید نے مختلف رشتے داریاں بیان کر کے یہ بتایا ہے کہ کسی کی محض رشتے داری نہ انسان کو اچھا بنا سکتی ہے اور نہ بُرا‘ اگر وہ خود اچھا یا بُرا نہ بننا چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مشہور اور بڑی شخصیتوں کے رشتے داروں کا تذکرہ بھی اس سیاق و سباق میں کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ‘ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے‘ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا تذکرہ اللہ کے باغیوں کی فہرست میں کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے تمام قریبی اعزہ آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور اسلام کے سابقین اولین میں شامل ہوئے۔ البتہ آپؐ کا ایک بدنصیب چچا ابولہب تھا جو اس فہرست میں شمولیت کا مستحق نہ ٹھیرایاگیا۔ اچھے لوگوں کے نالائق رشتے داروں کے ساتھ نالائق لوگوں کے اچھے رشتے داروں کا ذکر بھی کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کی تمام تر گمراہیوں اور سرکشیوں کے باوجود اس کی اہلیہ محترمہ آسیہ تقویٰ اور دین داری کے بہت بلند معیار پر فائز رہیں اور ان کو نیکی اور اخلاص کی ایک لازوال مثال کے طور پر بیان کیا گیا۔
یہ تمام واقعات و تفصیلات عبرت اور سبق آموزی کی خاطر بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کا صرف اتنا حصہ بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا جو سبق آموزی کے لیے مفید اور ناگزیر تھا۔ ان واقعات کی وہ تفصیلات جو سبق آموزی کے لیے ضروری نہ تھیں نظرانداز کر دی گئیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘ یہ کوئی تاریخ یا آثارِ قدیمہ کی کھتونی نہیں۔
قرآن مجید کا آخری بنیادی مبحث مرنے کے بعد دوسری زندگی کے حالات اور ان کی تفصیلات ہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مضمون عقائد سے تعلق رکھتا ہے‘ اس لیے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا تعلق عقیدئہ آخرت ہی سے ہے۔ لیکن چونکہ قرآن نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس لیے علماے کرام اور مفسرین نے اس کو ایک جداگانہ مبحث قرار دیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس کے لیے تذکیر بالموت ومابعد الموت کی اصطلاح اختیار فرمائی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حیات بعد الموت کی تفصیلات بیان کرنے‘ ان کو ذہن نشین کرانے اور عقیدئہ آخرت کو اہل ایمان کے رگ و پے میں سمو دینے میں کوئی اور مذہبی کتاب قرآن مجید کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ قرآن مجیدنے جس تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ قیامت کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے وہ نہ صرف مذہبی لٹریچر کی تاریخ میں بلکہ ادبیات عالم میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ نہ صرف مسلمان علما بلکہ غیرمسلم اہل علم نے بھی قرآن پاک کے اس پہلو کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ بیسویں صدی کے مسلمان ادیبوں اور محققین میں مصر کے سید قطب شہیدؒ کا نام اس معاملے میں بڑا نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب مشاہد القیامہ فی القرآن میں قرآن پاک کے اس پہلو پر انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ انداز سے گفتگو کی ہے۔
روز قیامت کے مناظر و مشاہد قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں سے لے کر آخر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سکرات موت کا تذکرہ بھی ہے۔ مرنے کے بعد عالم برزخ کے سوال و جواب‘ قبر کی کیفیات و تجربات‘ مرنے والے کے روحانی احساسات سے لے کر جنت اور دوزخ کے مناظر تک ہر ہر مرحلے کی جھلکیاں موجود ہیں۔
یوں تو یہ مضمون قرآن مجید کے ہر حصے میں ملتا ہے لیکن مکی سورتیں اس معاملے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مکی سورتیں یوں بھی اپنے غیرمعمولی زوربیان‘ خطیبانہ اسلوب اور اثرانگیزی میں ممتاز ہیں۔ یہ اسلوب‘ یہ انداز اور یہ اثرانگیزی مناظر قیامت کے ضمن میں سہ آتشہ بلکہ چہار آتشہ ہو جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی صاحب ایمان جو عربی زبان کا فہم رکھتا ہو اور قرآن مجید کے مضامین سے واقف ہو‘ ان آیات کو پڑھے اور ان سے اثر نہ لے۔ ایسے واقعات سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں کہ اللہ کے نیک بندے آیاتِ قیامت کو پڑھ کر یا سن کر تڑپ تڑپ گئے‘ بے قابو ہو گئے اور دھاڑیں مار مار کر رو پڑے۔ ایسے واقعات بھی لاتعداد ہیں جن میں آیاتِ قیامت کو پڑھنے یا سننے والے بیہوش ہو کر گر پڑے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بعض حساس اور تقویٰ شعار بزرگ تمام رات ایک ہی آیت کو دہراتے رہے۔ یہی ان آیات کا مقصد ہے اور شاید اسی لیے یہ خصوصی انداز اس مضمون کے ضمن میں اختیار فرمایا گیا ہے۔
یہ ہیں وہ پانچ بنیادی مباحث و مضامین جن سے قرآن پاک میں بیشتر آیات اور سورتوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کلام کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہرمضمون کا تعلق قرآن مجید کے اصل مقصد اور نفس مضمون سے ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ‘یعنی انسان!