جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

تدوین قرآن

ڈاکٹر محموداحمد غازی | جولائی ۲۰۰۳ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری زمانے میں جب آپؐ کی زندگی کا آخری رمضان المبارک تھا‘ دو مرتبہ جبریل امین سے قرآن پاک کے سننے سنانے کا دور کیا۔ یہ دور ’’عرضہ‘‘ کہلاتا ہے‘ جس کے لفظی معنی پیش کش یا انگریزی میں پریزنٹیشن (presentation) کے ہیں۔بالفاظ دیگرحضرت جبریل امین نے دو مرتبہ پورا قرآن پاک حضور علیہ السلام کے سامنے پیش کیا اور دو ہی مرتبہ حضور علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کو قرآن پاک سنایا۔ ظاہر ہے اس آخری عرضہ میں بھی قرآن پاک کا وہی حصہ سنا اور سنایا گیا جو اس وقت تک نازل ہو چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھی وحی کا نزول جاری رہا‘ اس لیے کہ آخری عرضہ تو رمضان المبارک میں ہوا تھا اور حضور علیہ السلام کی دنیا سے رحلت اس واقعے کے پانچ چھ ماہ بعد ربیع الاوّل میں ہوئی۔ اب یہ جو چھ مہینے گزرے ان میں بھی کئی آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ یہ مشہور آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ   الْاَسْلَامَ دِیْنًا ط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے  مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اس آیت کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نازل ہوئی اور اس کے نزول سے قرآن پاک مکمل ہوگیا۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت کے بعد بھی کئی دوسری آیات اور سورتیں نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے بعد نازل ہونے والی آیات میں سورئہ نصربھی شامل ہے جو ایک مکمل سورہ کے طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت سے کچھ دن پہلے نازل ہوئی۔

لہٰذا یہ امرقطعی اور یقینی ہے کہ قرآن کا نزول حجۃ الوداع کے بعد بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں بعد میں چل کر یہ سوال پیدا ہواکہ نزول کے اعتبار سے قرآن کی آخری آیت کون سی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ خود آنحضرتؐنے کسی آیت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ اب یہ آخری آیت نازل ہوگئی ہے‘ اس پر قرآن مکمل ہوگیا ہے اور اب قرآن کا مزید کوئی حصہ نازل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اس طرح کا اعلان فرما دینے کے معنی یہ تھے کہ صحابہ کرامؓ سمجھ جاتے کہ حضوؐر کا وقت رخصت آگیا ہے اور اب آپؐ دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ یہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو صحابہ کرامؓ کو پتا چلا کہ نزولِ قرآن مکمل ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال سامنے آیا کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورہ کون سی تھی؟ جس صحابی نے جو آخری آیت سنی تھی‘ اس نے یہ خیال کیا کہ وہی آخری آیت ہوگی۔ اس طرح مختلف آیتوں کے بارے میں مختلف صحابہ کرامؓ کو خیال ہوا کہ وہ آخری آیت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور اہل علم کی خاصی بڑی تعداد سورئہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کو ہی قرآن پاک کی آخری آیت قرار دینے کے حق میں ہے‘ کیونکہ جب حضور علیہ السلام نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس آیت کے نزول کا اعلانِ عام فرمایا تو صحابہ کرامؓ کا ایک جم غفیرموجود تھا۔ حاضرین کی بڑی تعداد نے اس کو سنا تو اکثر حضرات کے لیے یہ آخری آیت تھی جو انھوں نے حضوررسالت مآبؐ کی زبانِ مبارک سے سنی تھی۔ اس کے بعد ان میں سے بیشتر کوحضور علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے پھر قرآن پاک سننے کا موقع نہیں ملا۔ اس لیے ان کا خیال یہ تھا کہ یہ آخری آیت ہے۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے اور قرآن پاک کا اتنا وسیع اور عمیق علم رکھتے تھے کہ صحابہ و تابعین نے آپ کو ترجمان القرآن کا لقب دیا۔ تفسیری روایات بھی سب سے زیادہ ان سے منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی سب سے آخری آیت سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ ہے (وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ o)، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرو اس دن سے کہ جس دن تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے اور پھر ہر نفس کو وہ سب پورا ادا کر دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس کچھ اور صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ سورئہ نصر سب سے آخری سورہ ہے۔ کچھ اور صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ سورئہ نساء کی آیت ۱۷۶ (یَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ…) جس میں کلالہٗ یعنی بے اولادآدمی کی وراثت کا مسئلہ پوچھا گیا ہے‘ سب سے  آخری آیت ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض اقوال بھی ہیں جن کی تفصیل علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی مشہور کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں دی ہے۔

بعض اہل علم نے ان متعدد اقوال کے درمیان تطبیق دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے آخری اعلان تو وہ ہے جو سورئہ مائدہ کی آیت ۳ ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ) کی صورت میں حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا۔ آخری مکمل سورہ‘ سورئہ نصر ہے۔ قرآن کا آخری حکم سورئہ بقرہ کی آیت بابت حرمت ربا ہے‘ جب کہ مطلقاً سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت سورئہ بقرہ کی آیت ۲۸۱ ہے۔

بہرحال اس آیت کے نزول کے چند روز بعد حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف لے گئے۔ نزول قرآن کے اس پورے ۲۳ سالہ عمل کے دوران آپؐ قرآن پاک کو ساتھ ساتھ لکھواتے بھی رہے‘ جیسا کہ قرآن مجید کی تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے۔ جونہی کوئی آیت نازل ہوتی آپؐ اسے فوراً کاتبانِ وحی کو بلاکر لکھوا دیتے۔ جو لکھا ہوا تھا‘ اسے وقتاً فوقتاً سنتے بھی رہتے تھے‘ اور صحابہ کرامؓ میں سے جو پورے قرآن کے حافظ تھے ان سے پورا اور جن کو جتنا دیا تھا ان سے وہی حصہ جو ان کو یاد تھا‘ وقتاً فوقتاً سنتے اور ان کو سناتے بھی رہتے تھے۔ لیکن آپؐ کے زمانے میں قرآن پاک کی تمام سورتوں اور آیات کو ایک کتاب کی شکل میں اس ترتیب سے   یک جا نہیں کیا گیا تھا جس ترتیب اور شکل میں آج وہ ہمار ے پاس کتابی صورت میں موجود ہے‘ یعنی ترتیب ِتلاوت کے اعتبار سے قرآن پاک کے مکمل اور مرتب شدہ نسخے مصحف کی شکل میں تیار نہیں تھے۔ اس وقت کتابت قرآن کی شکل یہ تھی کہ کسی چیز یا محفوظ جگہ پر‘ مثلاً ایک صندوق میں قرآن مجیدکے مختلف حصے (آیات اور سورتیں) مختلف اشیا پر لکھی ہوئی محفوظ رہتی تھیں۔ کچھ حصے تختیوں پر‘ کاغذوں پر‘ اوراق پر‘ کچھ آیات اُونٹ کی ہڈیوں پر‘ یا کسی سلیٹ پر یا پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی محفوظ کی جاتی تھیں۔

جب ہم یہ کہتے یا روایات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں صحابیؓ نے قرآن پاک کو جمع کیا تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ انھوں نے کتاب اللہ کی تمام آیات‘ سورتیں اور اس کے تمام حصے مختلف اشیا پر لکھے ہوئے‘ سب کے سب ایک جگہ جمع کرکے محفوظ کرلیے تھے۔ بالفاظ دیگر ایک بڑے صندوق میں‘ یا ایک بڑی بوری میں محفوظ کرکے رکھ لیے تھے۔ لیکن ایک کتابی شکل میں جس طرح آج ہمارے پاس قرآن مجیدموجود ہے اس طرح اس وقت موجود نہیں تھا۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا جب زمانہ آیا تو ایک مشہور جنگ‘ جنگ یرموک میں صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی تعداد شہیدہوگئی۔ یہ جنگ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب کو توشکست ہوگئی لیکن بہت سے حفاظ صحابہ کرامؓ بھی اس جنگ میں شہیدہوگئے۔ان شہدا میں ۷۰۰ صحابہ کرامؓ وہ تھے جنھوں نے خود حضور علیہ السلام سے قرآن کو سنا اور آپؐ کو سنایا تھا۔ یہ ایک بڑا صدمہ تھا جس سے صحابہ کرامؓ دوچار ہوئے۔ اس موقع پر حضرت عمر فاروق ؓ کو بجا طور پر یہ خیال ہوا کہ اگر اسی طرح بڑی تعداد میں صحابہ کرامؓ شہید ہوتے گئے تو ممکن ہے قرآن پاک کا کوئی حصہ اس طرح ضائع ہوجائے یا مٹ جائے۔ اس لیے فوری طور پر قرآن پاک کو کتابی شکل میں ترتیب ِ تلاوت کے ساتھ مرتب کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اس کی ترتیب میں فرق نہ آنے پائے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آنے والوں میں سے کسی سے ترتیب ِآیات و سورہ کے بارے میں کوئی بھول چوک ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کتاب اللہ کے مختلف حصوںکی ترتیب کے بارے میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے۔ لہٰذا ایسے کسی بھی ممکنہ اختلاف سے بچنے کے لیے حضرت عمرفاروق  ؓکاخیال تھا کہ قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں محفوظ کرنا چاہیے۔ یہ مشورہ لے کر حضرت عمرؓ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق ؓکے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکا یہ مزاج تھا کہ جو کام حضورؐنے کیا ہے وہ میں اسی طرح کروں گا‘ اور جو کام حضورؐ نے نہیں کیا وہ میں ہرگز نہیں کروں گا۔ وہ ثانی اثنین تھے‘ گویا حضوؐر کا مثنیٰ تھے اور بالکل ۱۰۰ فی صد حضوؐر کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اپنے اس مزاج کے عین مطابق انھوں نے کہا کہ جو کام حضوؐر نے نہیں کیا وہ میں کیوں کروں؟ حضرت عمرؓ ،ان کو سمجھاتے رہے‘ بہت دیر تک گفتگو ہوئی اور کافی دیر کی گفتگو کے بعد بالآخر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اطمینان ہوگیا کہ یہ کام کرنا چاہیے۔

اب ان دونوںبزرگوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلایاجو کاتبانِ وحی میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور حضور علیہ السلام کے سیکرٹری بھی رہ چکے تھے‘ اور حضور علیہ السلام کی غیرقوموں کے ساتھ تمام خط و کتابت وہی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے جو تبلیغی خطوط لکھے تھے وہ بھی سارے کے سارے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ان کو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے بلایا اور تفصیل سے ان کو بتایا کہ یہ کام ہم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بھی وہی جواب دیا جو ابتدا میں خود حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے دیا تھا‘ یعنی جو کام خود آنحضرتؐ نے نہیں کیا آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں؟ اب یہ دونوں مل کر ان کو سمجھاتے رہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ ان دونوں بزرگوں سے بہت کم عمر تھے۔ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی اس وقت حضرت زید بن ثابتؓ تقریباً ۲۰‘ ۲۲ سال کی عمر کے ہوں گے۔ بہرحال ان دونوں بڑے معمربزرگوں کے سمجھانے سے بالآخر حضرت زیدؓ مان گئے۔ لیکن جب انھوں نے حضرت زیدؓ سے یہ کہا کہ اس کام کو تم کرو گے اور تمھیں یہ کام کرنا ہے تو حضرت زیدؓ بہت پریشان ہوئے۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ مجھے ایسا لگاکہ گویا انھوں نے احد پہاڑاُٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ذمہ داری میرے سر پر رکھ دی‘ یعنی اتنی بڑی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ اگر اس کے بجاے یہ حضرات مجھے کہتے کہ اُحد پہاڑ کو کھود کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دو تو میں تنہا اس کام کو کرنے کے لیے تیار ہوجاتا اور یہ کام میرے لیے نسبتاً آسان ہوتا۔

بہرحال حضرات شیخین کے اصرار پر حضرت زیدؓ اس عظیم الشان اور تاریخ ساز کام کے لیے آمادہ ہوگئے۔ خلیفۂ اول نے ان کی معاونت کے لیے چند ارکان پر مشتمل ایک کمیشن بھی بنا دیا جو ان صحابہ کرامؓ پر مشتمل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کتابت ِوحی کی خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔ ان حضرات کو اس ذمہ داری کے ایک نہایت بھاری ذمہ داری ہونے کا پورا اندازہ تھا۔ وہ اس بات کا پورا شعور رکھتے تھے کہ وہ قرآن پاک کو آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کتابی شکل میں مرتب کر رہے ہیں اور یہ کہ آیندہ آنے والے سب مسلمانوں کی فہمِ قرآن اور تلاوتِ قرآن کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے۔ اس لیے      حتی الامکان جو احتیاط ممکن ہو وہ اختیار کی جائے۔ یہ سب حضرات جن کو یہ ذمہ داری سپرد کی گئی وہ سب کے سب قرآن مجید کے حافظ اور صف اوّل کے علما میں سے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے خود براہِ راست ذات رسالتؐ مآب سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا۔ خود خلیفۂ رسول قرآن کے حافظ اور عالم تھے۔ ان کے قریب ترین مشیر اور رفیق سیدنا عمر فاروقؓ بھی حافظ قرآن تھے۔  خلیفۂ رسول کے پاس قرآن پاک سارا کا سارا لکھا ہوا موجود تھا‘ لیکن کتابی صورت میں یک جا مجلد نہ تھا۔ ان کے سب سے بڑے مشیرحضرت عمرفاروق ؓبھی اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم قرآن تھے۔ ان کے پاس بھی سارا قرآن پاک لکھا ہوا موجود تھا۔ خود اس کمیشن کے ارکان   حافظ قرآن تھے۔ ان حالات میں یہ بہت آسان اور عام بات تھی کہ یہ لوگ اپنی یادداشت   سے بیٹھ کر قرآن مجید کا ایک نسخہ لکھ کر تیار کر دیں۔ ان کے پاس عرضہ میں پیش کیے ہوئے  اجزاے قرآن موجود تھے لیکن اس کے باوجود خلیفۂ رسول نے ان کو مفصل ہدایات دیں۔

انھوں نے کہا کہ آپ یہ کریں کہ آپ سب افراد جس قرأت پر متفق ہوں اور وہ قرأت خلیفہ اور حضرت عمرؓ کے حفظ کے مطابق ہو‘ پھر سب حضرات کی تحریریں ان کی یادداشتوں کی تائید کریں‘ اس کے بعد بھی ہر آیت کی تائید دو صحابہؓ کے حلفیہ بیانات سے ہو‘ جوآکر یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ آیت ہم نے حضور علیہ السلام کو سنائی تھی اور اسی طرح سن کر حضورعلیہ السلام نے منظور فرمائی تھی۔ پھر ہر آیت کی تائید اور ثبوت میں دو دو تحریریں پیش کی جائیں جن کے بارے میں یہ گواہی دی جائے کہ یہ تحریر حضورعلیہ السلام کو پڑھ کر سنائی گئی تھی اور آپؐ نے اس کو اسی طرح منظور فرمایا تھا۔ ایسی ہر تحریر کے دو چشم دید گواہ ہوں اور جو یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ تحریر حضور علیہ السلام   کو سنائی گئی تھی اور ہم وہاں موجود تھے‘ جب آپؐ نے اس کی تصحیح فرمائی‘ اور ہم اس کے گواہ ہیں۔ یہ سب بیانات اور شہادتیں مکمل ہوجائیں تب اس کو لکھا جائے۔

اس حتی الامکان احتیاطی طریقۂ کار کے مطابق انھوں نے قرآن پاک کو لکھنا شروع کردیا اور ترتیب کے ساتھ چند ماہ میں پورے قرآن کی تدوین مکمل ہوگئی۔ اس پورے عمل میں ایک لفظ اور ایک حرف کا بھی کہیں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ البتہ دو آیتیں قرآن پاک کی ایسی رہ گئیں جن کے بارے میں ایک مشکل سوال پیدا ہوگیا۔ قرآن پاک کی یہ دو آیتیں سورئہ توبہ کی آخری دو آیات تھیں۔ کمیشن کے ارکان نے کہا کہ ہم سب کو یاد ہے کہ یہ سورئہ توبہ کی آخری آیات ہیں۔ ہمارے پاس جو ذاتی تحریری ذخیرہ ہے اس میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کو یاد ہیں اور ان کی تحریروں میں بھی موجود ہیں۔ دو گواہ بھی آگئے‘ انھوں نے حلفیہ بیان بھی دے دیا کہ ہم نے یہ دونوںآیات اسی طرح حضور علیہ السلام کو سنائی تھیں۔ ان دونوں گواہان کی زبانی گواہی کے علاوہ دو تحریری شہادتیں بھی آگئیں۔ لیکن ان میں سے ایک تحریری یادداشت کے تو دو گواہ موجود تھے‘ البتہ دوسری تحریری یادداشت کے حق میں صرف ایک گواہی دستیاب ہوسکی۔

اب کسی نے کہا کہ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں۔ کوئی حرج نہیں اگر دوسری دستاویز کے دو گواہ نہیں ہیں۔ لیکن کمیشن نے بالآخر یہی طے کیا کہ جب ایک اصولی طریقۂ کار طے ہوچکا ہے تو اس کو نہیں توڑنا چاہیے۔ چنانچہ اعلان کرایا گیا کہ یہ آیت جس جس نے بھی عرضہ میں پیش کی تھی وہ آکر کمیشن کے سامنے گواہی دے۔ پورے شہر مدینہ میں اعلان کرا دیا گیا‘ لیکن کوئی نہیں آیا۔ پھر ایک کارندہ مقرر کیا گیا۔ اس نے گھر گھر جاکر ایک ایک صحابی سے پوچھا کہ جب یہ عرضہ ہو رہا تھا اور یہ دو آیتیں پیش ہوئی تھیں تو کیا تمھارے پاس اس وقت کا کوئی گواہ موجود ہے؟ اس پر بھی کوئی گواہ نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے کہ اتفاقاً ایسا ہوا ہو۔ ممکن ہے کچھ لوگ سفر پر گئے ہوں‘ ممکن ہے بعض گواہان کا انتقال ہو گیا ہو‘ممکن ہے ایسے بعض صحابہ جو وہاں موجود ہوں‘ حج پر گئے ہوئے ہوں۔ غرض بہت سے امکانات ہوسکتے ہیں‘ کئی باتیں ہو سکتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ کوئی آدمی نہیں ملا۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ شہر اور قرب و جوار کی بستیوں میں عام منادی کرائی جائے۔ وہ بھی کرا دی گئی۔ دوسرا گواہ نہ ملنا تھا نہ ملا۔ اس پر خلیفۂ وقت کے حکم سے جمعہ کی نماز میں بڑے اجتماع میں یہ مسئلہ لوگوں کے سامنے رکھا گیا۔ وہاں کسی نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ جو دستیاب ہے وہ کون ہے‘ اس پر ایک صحابی نے بتایا کہ وہ ایک گواہ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاریؓ ہیں۔ یہ نام سننا تھا کہ بہت سے حضرات کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کیا جس سے فوراً مسئلہ حل ہوگیا۔

مسئلہ کیسے حل ہوگیا؟ اس کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ جب یہ بات ہو رہی تھی تو یہ زمانہ حضور علیہ السلام کے انتقال کے آٹھ دس ماہ بعد کا تھا۔ آپ اس زمانے سے ذرا تین چار سال پہلے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی حیات تھے‘ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شہر سے باہر ٹہلنے یا حالات کا جائزہ لینے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ کبھی تو صبح کی نماز کے بعد تشریف لے جایا کرتے تھے اور کبھی عصر کی نماز کے بعد۔ ایسے ہی کسی موقع پر حضور علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ ایک قبیلہ پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ وہاں خیمے لگے ہوئے تھے اور ایک بدو ایک گھوڑا یا اُونٹ لیے کھڑا تھا۔ آپؐ نے پوچھا: یہ جانور بیچتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں بیچتا ہوں۔ قیمت پوچھی‘ اس نے قیمت بتادی۔ آپؐ نے فرمایا: چلو میرے ساتھ چلو‘ میں تمھیں قیمت ادا کر دیتا ہوں۔ چنانچہ دونوں مدینہ منورہ کی سمت چل پڑے۔ حضور علیہ السلام آگے آگے چل رہے تھے اور بدو اُونٹ یا گھوڑا لیے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ یہ جانور فروخت ہوچکا ہے۔

ایک صاحب نے بدو سے پوچھا کہ جانور بیچتے ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں! کتنی قیمت دو گے؟ ان صاحب نے کچھ زیادہ پیسے لگا دیے۔ اس پر بدو بولا: ٹھیک ہے‘ میں تیار ہوں۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور فرمایا کہ یہ جانور تو تم نے مجھے بیچ نہیں دیا تھا؟ اس نے کہا: میں نے تو نہیں بیچا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے پھر فرمایا: تم سے اتنی قیمت کی ادایگی کی بات نہیں ہوئی تھی؟ اس نے کہا: نہیں‘ اور صاف مکر گیا۔ جب حضور علیہ السلام نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو اس نے کہا: آپؐ کے پاس کوئی گواہ ہو تو لایئے۔ حضور علیہ السلام نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ وہاں تو آپؐ تنہا ہی تھے۔ یہاں اتفاق سے ایک صحابی حضرت خزیمہ بن ثابتؓ کھڑے تھے۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے یہ جانور اس شخص سے اتنی قیمت میں خریدا ہے۔ اس پر وہ بدو خاموش ہوگیا۔ آپؐ نے اس کو قیمت ادا کر دی‘ بلکہ کچھ زیادہ بھی دے دیے اور جانور لے کے آگئے۔ اس کام سے فارغ ہوکرآپؐ نے خزیمہؓ سے پوچھا: میں نے تو تمھیں وہاں نہیں دیکھا! تم کہاں کھڑے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: میں تو وہاں نہیں تھا! آپؐ نے پوچھا: تم نے پھر گواہی کیسے دے دی؟ حضرت خزیمہؓ نے جواب میں عرض کیا: میں روز گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ کے پاس جبریل امین آئے اور وحی لے کر آئے‘ اور یہ کہ جنت دوزخ موجود ہیں۔ جب میں یہ سب ان دیکھی باتیںسچ مان رہا ہوں تو یہ معمولی سی بات کیسے نہ مان لوں؟ اس پر حضور علیہ السلام بڑے خوش ہوئے اور آپؐ نے فرمایا کہ آج سے خزیمہؓ کی گواہی دوآدمیوں کے برابر مانی جائے گی۔

یہ واقعہ کئی صحابہ کرامؓ نے دیکھا اور سنا ہوا تھا۔ جوں ہی انھوں نے یاد دلایا تو دوسروں کوبھی یاد آگیا۔ اب لوگوں کو احساس ہوا کہ حضرت خزیمہؓ کی گواہی کو جو دو آدمیوں کے برابر قرار دیا گیا تھا یہ کیوں قرار دیا گیا تھا۔ شاید اسی موقع کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ چنانچہ اس ارشاد نبویؐ کی بنیاد پر ان دو آیتوں کے بارے میں حضرت خزیمہؓ کی گواہی کو دو کے برابر تسلیم کرلیا گیا۔ اور یہ دونوں آیتیں سورئہ توبہ کے آخر میں لکھ دی گئیں۔

اس طرح قرآن کا پہلا مکمل اور کتابی شکل میں مرتب شدہ نسخہ تیار ہوگیا۔ یہ نسخہ جس کو مشورے سے مصحف کے نام سے یاد کیا گیا‘ حضرت ابوبکرصدیق ؓکے قبضے میں رہا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس رہا‘ اور ان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی    ام المومنین حضرت حفصہؓ کی تحویل میں رہا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے تک یہ روایت چلی آرہی تھی کہ عرب کے مختلف قبائل کو اجازت تھی کہ قرآن مجیداپنے اپنے لہجے میں پڑھ لیا کریں۔ ہر زبان میں مختلف قبیلوں اور علاقوں کے لہجے مختلف ہوتے ہیں۔ زبان تو ایک ہی ہوتی ہے‘ لکھی بھی ایک ہی طرح جاتی ہے لیکن لوگ مختلف انداز میں پڑھتے اور بولتے ہیں۔ امریکہ والے often کو’’آف ٹن‘‘پڑھتے ہیں لیکن انگریز اس کو ’’آفن‘‘ پڑھتے ہیں۔ امریکہ والے  scheduleکو ’’اس کے ڈول‘‘ بولتے اور پڑھتے ہیں‘ جب کہ انگریز اس کو ’’شیڈول‘‘ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اُردو کا معاملہ ہے۔ برعظیم کے بعض علاقوں میں لوگ انیس(۱۹) کو’’وینس‘‘ پڑھتے ہیں۔ چونکہ عرب قبائل مختلف علاقوں میں آباد تھے اور مختلف لہجے ان کے ہاں رائج تھے‘ اس لیے آغاز میں ہر قبیلہ اپنے اپنے لہجے میں قرآن پاک پڑھا کرتا تھا۔ قبائلی عصبیت بڑی شدید ہوتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے آغاز میں نئے اسلام قبول کرنے والوں کو قریش کے لہجے کا پابند نہیں کیا جو عربی زبان کا ٹکسالی لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ آج ہم اُس دور کی قبائلی عصبیت اور کشاکش کا تصور کریں تو صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس ماحول میں عرب کے بدوئوں سے آغاز ہی میں یہ کہنا کہ تم اسلام بھی قبول کر لو اور اپنا لہجہ بھی چھوڑ دو ایک ناممکن سی بات تھی۔ یہ بات ان پر بہت گراں گزرتی اور ممکن ہے وہ قریشی لہجے کو معیاری ماننے سے گریز کرتے اور اصرار کرتے کہ ہمارا اپنا لہجہ بڑا معیاری ہے۔ اس لیے حضورعلیہ السلام نے اس پر اعتراض نہیں کیا‘ بلکہ جوجس لہجے میں پڑھتا تھا‘ اس کو اسی لہجے میں پڑھنے کی اجازت دی کہ اپنے ہی لہجے میں پڑھو‘ مثلاً بعض لوگ ’’ک‘‘ کو ’’ش‘‘ بولتے تھے‘ بعض ’’ب‘‘ کو ’’م‘‘ پڑھتے تھے۔ بعض ’’ال‘‘ کو ’’ام‘‘پڑھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد بھی تلفظ کا یہ اختلاف جاری رہا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتاً توجہ دلاتے رہے کہ قرآن جس لہجے میں اتارا گیا ہے وہ قریش کا لہجہ ہے اور یہ کہ قریش کا لہجہ ہی معیاری ہے۔

حجاز کے باہر کے صحابہ کرامؓ میں جو جوحضرات تعلیم حاصل کرتے جاتے تھے وہ قریش کا معیاری اور ٹکسالی لہجہ اختیار کرتے جاتے تھے۔ لیکن عام لوگ اور بدو پس منظر کے حامل حضرات اپنے مخصوص قبائلی یا علاقائی لہجے میں ہی پڑھتے رہے۔ اب جب حضرت عثمانؓ کا زمانہ آیا تو یہ وہ دور تھا کہ نئی نئی نسلیں اور نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں۔ ایرانی‘ ترکی‘ رومی‘ حبشی وغیرہ جو عربی نہیں جانتے تھے وہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اسلام قبول کر رہے تھے۔ ان نئے مسلمانوں نے جوش و خروش سے عربی زبان سیکھنی شروع کر دی۔ ان میں سے جس نے جس عرب سے قرآن سیکھا اسی کے لہجے میں قرآن پڑھنا شروع کر دیا‘ مثلاً کسی یمنی نے اپنے نومسلم دوستوں اور شاگردوں کو اپنے لہجے میں قرآن سکھایا تو کسی کوفہ والے نے اپنے لہجے میں سکھا دیا۔

حضرت عثمان غنیؓ جب خلیفہ تھے اس وقت مسلمانوںکی فوجیں دنیا کے مختلف حصوں میں مصروف جہاد تھیں۔ آذربائیجان کے علاقے میں بھی جہاں آج کل نکوروکاراباخ کا جھگڑا چل رہا ہے اور آرمینیا کے علاقے میں بھی۔ مشہور صحابی حضرت حذیفہؓ بن یمان بھی آرمینیا کے مجاہدین میں شامل تھے۔ یہ ایک انتہائی محترم اور معزز صحابی تھے اور حضور علیہ السلام کے خاص رازدان سمجھے جاتے تھے۔ وہ بھی وہاں جہاد میں شریک تھے۔ ایک دن انھوں نے دیکھا کہ امام نے نماز پڑھائی اور ایک خاص لہجے میں تلاوت کی۔ نماز کے بعد کئی لوگوں نے امام صاحب کے لہجے پر اعتراض کیا اورکہا کہ تم نے غلط پڑھا۔ امام صاحب نے جواب میں کہا کہ میں نے تو فلاں صحابی سے قرآن سیکھا ہے۔ جن حضرات نے اعتراض کیا تھا انھوں نے کہا کہ ہم نے فلاں صحابی سے قرآن سیکھا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت حذیفہؓ نے اپنے امیر سے کہا کہ مجھے جہاد سے چھ ماہ کی چھٹی دے دیں‘ میں ضروری کام سے فوراً مدینہ جانا چاہتا ہوں۔

انھوں نے اسی وقت سواری لی اور سیدھے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ کئی ماہ کے سفر کے بعد وہ مدینہ طیبہ پہنچے۔ کہتے ہیں کہ دوپہرکا وقت تھا اور گرمی کا زمانہ تھا۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ ذرا آرام کرکے پھر امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ سے ملاقات کے لیے جائیں‘ لیکن حضرت حذیفہؓ نہ مانے۔ سیدھے حضرت عثمان غنیؓ کے گھر پہنچے۔ وہ پریشان ہوکر نکلے کہ دیکھیں کہ حضرت حذیفہؓ اچانک کیسے اور کیوں آئے ہیں۔ بولے: آپ تو جہاد پر گئے ہوئے تھے پھر اچانک کیا بات ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا: امیرالمومنین! مسلمانوں کی خبرلیں قبل اس کے کہ کتاب اللہ میں اختلاف پیدا ہو‘ اور ان کو اختلاف قرأت کا واقعہ سنایا اور کہا کہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ قرآن کے بارے میں اس طرح کے اختلاف کی اب اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آج لہجے کا اختلاف ہے‘ کل ممکن ہے کوئی اور اختلاف پیدا ہوجائے۔ اس لیے آج ہی اس کاکچھ حل تلاش کریں۔ دونوں حضرات نے بیٹھ کرطے کیاکہ حضرت حفصہؓ کے پاس جو قرآن کا نسخہ ہے۔ اس کو منگوا کر اس کی کاپیاں تیار کروائی جائیں اور تمام دنیاے اسلام کے شہروں میں بھیج دی جائیں۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے حکم سے ۱۱نسخے (اور بعض روایات میں یہ آتا ہے کہ سات نسخے) تیار کیے گئے۔ دوبارہ حضرت زید بن ثابتؓ ہی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ چنانچہ ان ۱۱ یا ۷ نسخوں کو تمام بڑے بڑے شہروں میں بھجوا دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے انفرادی نسخے اب تک لوگوں کے پاس موجود ہیں‘ وہ سب سرکار کے حوالے کر دیے جائیں۔ یہ سب انفرادی نسخے ضبط کر کے بعد میں تلف کر دیے گئے۔

فیصلہ یہ ہوا کہ آیندہ جس کسی کو قرآن کا نسخہ تیار کرنا ہو وہ ان نسخوںسے تیار کرے‘ اور یہ نسخہ قریش کے لہجے اور قریش کے رسم الخط کے مطابق تیارکیا جائے۔ چنانچہ آیندہ قرآن پاک کے تمام نسخے ۱۰۰ فی صد اُسی لہجے اور ہجے کے مطابق لکھے گئے جو حضور علیہ السلام کا اپنا لہجہ تھا۔ اس سے قبل سب لوگ اپنے اپنے ہجے کے مطابق لکھا کرتے تھے۔ لہجے کے اختلاف سے ہجے کا اختلاف ہو سکتاہے۔ ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ سے قرآن پاک سنتے تھے تو وہ ہجے اور طرزِتحریر نہیں پوچھتے تھے۔ ان حالات میں اس کا امکان تھا کہ ایک ہی لفظ کے ہجے مختلف انداز سے رواج پاجائیں۔ یہ امکان اس لیے بھی تھا کہ اس وقت تک عرب میں لکھنے لکھانے کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ عرب میں بہت تھوڑے لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ بلاذری کی روایت کو درست مانا جائے تومکہ میں صرف ۱۷ آدمی نوشت و خواند سے واقف تھے۔ ایسی صورت میں ہجے اور طرزِتحریر کی باقاعدہ standardization نہیں ہوئی تھی۔ معیاری اور متفق علیہ طرزِہجا کی عدم موجودگی میں اس کا امکان خاصا تھا کہ ایک ہی لفظ کو مختلف لوگ مختلف انداز سے لکھنا شروع کر دیں۔ اس امکان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر ممکنہ خدشات سے بچنے کے لیے قریش کے ہجے میں قرآن پاک کے یہ ۷ یا ۱۱ نسخے تیار کرائے گئے۔ باقی سب نسخے ضبط کرکے ضائع کر دیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ آیندہ سب لوگ اِنھی مستند نسخوں کے مطابق نقلیں تیار کرلیں۔ چنانچہ اس کے بعد سے تمام نئے نسخے ان اصل نسخوں کے مطابق تیار ہوئے اور یہ ۱۱نسخے انھوں نے تمام دنیاے اسلام میں تقسیم کر دیے۔

ان نسخوں میں سے تین نسخے اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں۔ اتفاق سے مجھے ان تینوں نسخوں کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ایک لندن کے مشہور برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ دوسرا استنبول (ترکی) میں ہے اور تیسرا تاشقند میں ہے‘ ازبکستان کے دارالحکومت میں۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق  ؓ کے زمانے میں تیار ہوا تھا‘ اور خلیفہ کے پاس رہتا تھا‘ اور یہی وہ نسخہ ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کے ذاتی استعمال میں رہتا تھا۔ جب وہ شہید ہوئے تو وہ اسی نسخے کی تلاوت فرما رہے تھے۔ مشہورہے کہ ان کا خون بھی قرآن کے صفحات پر گرا تھا اور اس کی نشانی بھی ان صفحات پر موجود ہے۔ میں نے خود اس کی زیارت کی ہے۔ تاشقند والا نسخہ حمزہ سٹریٹ میں کلاں مسجد کی ایک لائبریری میں رکھا ہوا ہے۔

یوں حضرت عثمان غنیؓ نے یہ نسخے تیار کروا دیے اور یہ سارے نسخے حضرت زید بن ثابتؓ ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے جو رسم الخط اختیار کیا تھا آج تک اس رسم الخط کی پیروی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور رسم الخط میں قرآن پاک لکھنے کی مسلمانوں نے اجازت کبھی نہیں دی۔ عربی کے عام رسم الخط میں اور قرآنی رسم الخط میں تھوڑا سا فرق ہے۔ مثال کے طور پر ’’قال‘‘کا لفظ ہے جو ق ا ل کی صورت میں عربی میں لکھا جاتا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے کہیں ملا کر ’’قل‘‘ لکھا تھا۔ اب جہاں انھوں نے کھڑے زبر سے لکھا تھا آج تک کھڑے زبرسے ہی لکھا جاتا ہے۔ اس کی کبھی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ایران‘ توران‘ عرب‘عجم‘ ہرجگہ قدیم زمانے سے لے کر آج کے زمانے تک اس جگہ ’’قل‘‘ اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ عام عربی تحریر میں اس طرح نہیںلکھا جاتا۔ اس کی وجہ اور حکمت کیا ہے‘ یہ ہمیں نہیں معلوم۔ ممکن ہے کسی مصلحت سے ایسا کیا ہو یا محض اتفاق سے اس طرح لکھا گیا ہو۔ ممکن ہے کوئی حکمت ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔دو جگہ قرآن پاک میں ایسا بھی ہے کہ ایک حرف زائد لکھا ہے‘ مثلاً سورئہ ذاریات (۲۷ ویں پارے میں) کی آیت نمبر ۴۷ میں  بِاَییْدٍ میں ایک یا ے زائد لکھی گئی ہے۔ ایک ی کے دو نقطے ہیں اور ایک ی کا صرف نشان بنا ہوا ہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے اُس وقت اسی طرح لکھا ہوگا اور آج تک یہ اسی طرح لکھا جا رہا ہے۔ اس طرزِ تحریر کی حکمتوں پر بہت سی بحثیں کی گئی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ بھولے سے ایک ہی ی کا نشان زائد لکھا گیا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس میں کچھ مصلحت ہے۔ غرض اس پر بہت سے لوگوں نے غور کیا‘ اور نئے نئے نکتے نکالے ہیں۔

الغرض جس انداز میں حضرت زید بن ثابتؓ نے قرآن مجید لکھا تھا اسی انداز میں آج کے زمانے تک لکھا جا رہا ہے۔ اس خط کو رسم عثمانی کہتے ہیں اورآج تک اس کی پیروی ضروری قرار دی جاتی ہے۔ دنیا میں قرآن مجید کے جتنے بھی نسخے ہیںوہ انھی ۱۱ نسخوں کی نقل ہیں جو حضرت ابوبکرصدیق  ؓ اور حضرت عثمان غنیؓ نے تیار کروائے تھے۔