سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ دنیاے اسلام اس وقت دو بڑے حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ وہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور سیاسی اقتدار غیرمسلموں کے ہاتھوں میں ہے۔ دوسرا حصہ وہ جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اور سیاسی اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے فطری طور پر زیادہ اہمیت دوسرے حصے کو حاصل ہے اور ملّت اسلامیہ کا مستقبل بہت بڑی حد تک اُس روش پر منحصر ہے جو آزاد مسلم مملکتیں اختیار کر رہی ہیں اور آگے اختیار کرنے والی ہیں۔ اگرچہ پہلا حصہ بھی کچھ کم وزن نہیں رکھتا۔ اپنی جگہ اس کو بھی بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ کسی نظریۂ حیات اور عقیدہ و مسلک کے پیرووں کا دنیا کے ہر خطے اور ہر گوشے میں پہلے ہی سے موجود ہونا ‘ اور قلیل تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہونا‘ ان لوگوں کے لیے بڑی تقویت کا موجب ہوسکتا ہے جو اُس نظریے اور عقیدے و مسلک کی علم برداری کے لیے اُٹھیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگروہ نظریہ اور عقیدہ و مسلک خود اپنے ہی گھر میں مغلوب ہو جائے تو روے زمین پر پھیلے ہوئے اس کے یہ پیرو‘ جو پہلے ہی سے مغلوب ہیں‘ زیادہ دیر تک اپنے مقام پر ٹھیرے نہیں رہ سکتے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہے کہ اس وقت نظر بظاہر دنیاے اسلام کے مستقبل کا انحصار اُن مسلم ممالک ہی کے مستقبل پر ہے جوانڈونیشیا اور ملایا سے لے کر مراکو اور نائیجیریا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کوئی اورکرشما دکھا دے جس کا ہم ظاہری اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ وہ چاہے تو چٹانوں میں سے چشمے پھوڑ کر نکال سکتا ہے اور ریگستانوں کو اپنے ایک اشارے سے گلستانوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔
آپ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک طویل مدت تک ذہنی جمود‘ عقلی انحطاط‘ اخلاقی زوال اور مادّی اضمحلال میں مبتلا رہنے کے بعد آخرکار اکثروبیشتر مسلمان ملک مغربی استعمار کے شکار ہوتے چلے گئے تھے۔ اٹھارھویں صدی مسیحی سے یہ عمل شروع ہوا تھا اور موجودہ صدی کے اوائل میں یہ اپنے انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اس زمانے میں گنتی کے صرف دوچار مسلمان ملک باقی رہ گئے تھے جو براہِ راست مغربی مستعمرین کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہونے سے بچ گئے۔ مگر پے درپے شکستیں کھا کھا کر اُن کا حال غلاموں سے بھی بدتر ہوگیا اور اُن کی مرعوبیت اور دہشت زدگی اُن لوگوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی جو اپنی سیاسی آزادی پوری طرح کھو بیٹھے تھے۔
مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ وہ تھا جو ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔ اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کرکے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے‘ تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا جتنا بڑا ظلم انھوں نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔ جن جن مسلمان ملکوں پر اُن کا تسلّط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ ہمارے آزاد نظامِ تعلیم کو ختم کر دیں‘ یا اگر وہ پوری طرح ختم نہ ہو سکے تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصرف باقی نہ رہنے دیں۔ اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز رہا کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ ء تعلیم بھی بنائیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مشرق سے مغرب تک تمام مغربی فاتحین نے بالاتفاق یہی عمل تمام مسلم ممالک میں کیا‘ خواہ وہ ڈچ ہوں یا انگریز یا فرانسیسی یا اطالوی یا کوئی اور ۔ اس طریقے سے ان مستعمرین نے ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر دی جو ایک طرف تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے ناواقف‘ اس کے عقیدہ و مسلک سے بیگانہ‘ اور اس کی تاریخ اور روایات سے نابلد تھی‘ اور دوسری طرف اس کا ذہن اور اندازِ فکر اور زاویۂ نظر مغربی سانچے میں ڈھل چکا تھا۔ پھر اس نسل کے بعد پے درپے دوسری نسلیں ایسی اُٹھتی چلی گئیں جو اسلام سے اور زیادہ دور اور مغربی فلسفۂ حیات اور تہذیب و تمدن میں زیادہ سے زیادہ غرق ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے اپنی زبان میں بات کرنا موجب ننگ و عار اور فاتحین کی زبان میں بولنا موجب افتخار بن گیا۔
مغربی فاتح نصرانیت کے لیے خواہ کتنے ہی متعصب ہوں‘ ان فرنگیت مآب غلاموں کو مسلمان ہونے پر شرم آنے لگی اور اسلام کے خلاف بغاوت کا یہ فخریہ اظہار کرنے لگے۔ مغربی فاتح اپنی فرسودہ اور بوسیدہ قومی روایات کا کتنا ہی احترام کرتے ہوں‘ یہ غلام لوگ اپنی روایات کی تحقیر کرنا ہی اپنے لیے ذریعہ ء عزت سمجھنے لگے۔ مغربی فاتحین نے مدت العمر مسلمان ملکوں میں رہنے کے باوجود کبھی مسلمانوں کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار نہ کیے‘ مگر یہ غلام لوگ اپنے ہی ملکوں میں رہتے ہوئے ان فاتحین کے لباس‘ اُن کے رہن سہن کے طریقے‘ ان کے کھانے پینے کے ڈھنگ‘ ان کی ثقافت کے اطوار‘ حتیٰ کہ ان کی حرکات و سکنات تک کی نقل اتارنے لگے اور اپنی قوم کی ہر چیز ان کی نگاہوں میں حقیر ہوکر رہ گئی۔ پھر مغربی فاتحین کی تقلید میں ان لوگوں نے مادہ پرستی‘ الحاد‘ عصبیت ِ جاہلیہ‘ قوم پرستی‘ اخلاقی بے قیدی اور فسق و فجور کا پورا زہر اپنے اندر جذب کر لیا‘ اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جو کچھ مغرب کی طرف سے آتا ہے وہ سراسر حق ہے‘ اسے اختیار کرنا ہی ترقی پسندی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنی رجعت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
مغربی مستعمرین کی مستقل پالیسی یہ تھی کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری ہوں‘ اُن کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے انھی کو ملے۔ مستعمرین کی فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔ سیاست میں انھی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔ پارلیمنٹوں میں یہی نمایندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھا گئے۔
اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھنی شروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں‘ کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے‘ یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے‘ اور یہی اُن سے قریب تر تھے۔ اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو آزادی کے بعد اقتدار بھی انھی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انھی کو نصیب ہوئی‘ کیونکہ مستعمرین کے ماتحت سیاسی نفوذ و اثر انھی کو حاصل تھا‘ سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور فوجوں میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔
استعمار کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام اور آزادی کی ابتدا تک کی اس تاریخ کے چند نمایاں پہلو ایسے ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ضروری ہے‘ کیونکہ انھیں نظرانداز کر کے اس وقت کی پوری صورتِ حال کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھاجاسکتا۔
اوّل یہ کہ مغربی مستعمرین اپنی پوری مدتِ استعمار میں کسی جگہ بھی اس بات پر قادر نہیں ہو سکے کہ عام مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کر سکیں۔ انھوں نے جہالت ضرور پھیلائی اور عوام کے اخلاق بھی بہت کچھ بگاڑے‘ اور اسلامی قوانین کی جگہ اپنے قوانین رائج کر کے مسلمانوں کو غیرمسلمانہ زندگی بسر کرنے کا خوگر بھی بنا دیا‘ لیکن اس کے باوجود دنیا کی کوئی مسلمان قوم بھی من حیث القوم ان کے زیراثر رہ کر اسلام سے باغی نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں عام لوگ اسلام کے ویسے ہی معتقد ہیں جیسے تھے۔ وہ چاہے اسلام کو جانتے نہ ہوں مگر اسے مانتے ہیں اور اس کے ساتھ گہرا عشق رکھتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور چیز پر راضی نہیں ہیں۔ اُن کے اخلاق بری طرح بگڑ چکے ہیں اور ان کی عادتیں بہت خراب ہو چکی ہیں۔ لیکن ان کی قدریں نہیں بدلیں اور ان کے معیار جوں کے توں قائم ہیں۔ وہ سود اور زنا اور شراب نوشی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ہورہے ہیں مگر چھوٹی سی فرنگیت زدہ اقلیت کو چھوڑ کر عام مسلمانوں میں آپ کو ایسا کوئی شخص نہ ملے گا جو ان چیزوں کو حرام نہ مانتا ہو۔ وہ رقص و سرود اور دوسرے فواحش کی لذتوں کو چاہے چھوڑ نہ سکتے ہوں مگر چھوٹی سی مغرب زدہ اقلیت کے سوا عامۃ المسلمین کسی طرح بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہی اصل ثقافت ہے۔ اسی طرح مغربی قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے اُن کی پشتیں گزر چکی ہیں‘ مگر ان کے دماغ میں آج تک یہ بات نہیں اتر سکی ہے کہ یہی قوانین برحق ہیں اور اسلام کا قانون فرسودہ ہو چکا ہے۔ مغرب زدہ اقلیت ان مغربی قوانین پر چاہے کتنا ہی ایمان لاچکی ہو‘ عام مسلمان اکثریت ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام ہی کے قانون کو برحق مانتی ہے اور اس کا نفاذ چاہتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علماے دین ہر جگہ عوام کے قریب ہیں‘ کیونکہ وہ انھی کی زبان سے بولتے ہیں اور اسی عقیدہ و مسلک کی نمایندگی کرتے ہیں جس کے عوام معتقد ہیں لیکن زمامِ اقتدار سے وہ کلّی طور پر بے دخل ہیں۔ اور ایک مدت دراز تک دنیوی معاملات سے بے تعلق رہنے کے باعث اُن میں یہ صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرسکیں اور زمامِ اقتدار ہاتھ میں لے کر کسی ملک کا نظام چلا سکیں۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان ملک میں بھی وہ آزادی کی تحریک کے قائد نہ بن سکے اور کہیں بھی آزادی کے بعد اقتدار میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک مدت سے اُن کا کام بس وہ ہے جو ایک موٹر میں بریک کا ہوتا ہے۔ ڈرائیور مغربیت زدہ طبقہ ہے اور یہ بریک گاڑی کی رفتار کو تیز ہونے سے کچھ نہ کچھ روک رہا ہے۔ مگر بعض ملکوں میں بریک ٹوٹ چکا ہے اور گاڑی پوری سرعت کے ساتھ نشیب کی طرف جا رہی ہے‘ اگرچہ اس کے چلانے والے اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ فراز پر چڑھ رہے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کسی ملک میں آزادی کی تحریک اُٹھی‘ اس کے قائدین اگرچہ وہی مغربیت زدہ لوگ تھے ‘ لیکن کسی جگہ بھی وہ عام مسلمانوں کو مذہبی اپیل کے بغیر نہ حرکت میں لا سکے اور نہ قربانیاں دینے پر آمادہ کر سکے۔ بلااستثنا ہر جگہ انھیں اسلام کے نام پر لوگوں کو پکارنا پڑا۔ ہر جگہ اُن کو خدا اور رسول اور قرآن ہی کے نام پر اپیل کرنی پڑی۔ ہر جگہ انھیں آزادی کی تحریک کو اسلام اور کفر کی جنگ قرار دینا پڑا۔ اس کے بغیر وہ کہیں بھی اپنی قوم کو اپنے پیچھے نہ لگا سکتے تھے۔ اب یہ تاریخ عالم کی عظیم ترین غداریوں میں سے ایک بے نظیر غداری ہے کہ ہر جگہ آزادی حاصل کرنے کے بعد فوراً ہی یہ لوگ اپنے تمام وعدوں سے پھر گئے اور ان کا پہلا شکار وہی اسلام ہوا جس کے نام پر انھوں نے آزادی کا معرکہ جیتا تھا۔
چوتھی اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی قیادت میں مسلمان ملکوں کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ صرف سیاسی آزادی ہے۔ پچھلی غلامی اور اِس آزادی میں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو زمامِ اقتدار باہر والوں کے ہاتھ میں تھی‘ اب وہ گھر والوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑاہے کہ جس ذہن کے آدمی جن نظریات اور اصولوں کے ساتھ پہلے حکومت کر رہے تھے اُسی ذہن کے آدمی انھی نظریات کے ساتھ آج بھی حکومت کر رہے ہیں۔ وہی نظامِ تعلیم جو مستعمرین نے قائم کیا تھا اب بھی چل رہا ہے۔ انھی کے رائج کردہ قوانین نافذ ہیں اور آگے مزید قانون سازی اُنھی خطوط پر ہو رہی ہے بلکہ مغربی مستعمرین نے مسلمانوں کے قانون احوال شخصیہ (پرسنل لا) پر جو دست درازیاں کرنے کی کبھی ہمت نہ کی تھی‘ وہ آج آزاد مسلم مملکتوں میں کی جا رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت اور اخلاق و تمدّن کے جو نظریات مستعمرین دے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی چیز کو بدلنا تو درکنار‘ آج یہ لوگ اپنی قوموں کو اُن سے بھی زیادہ اُس تہذیب میں غرق اور اُن اخلاقی نظریات کے مطابق مسخ کر رہے ہیں۔ وہ قومیت کے مغربی نظریات کے سوا اجتماعی زندگی کا کوئی دوسرا نقشہ نہیں سوچ سکتے۔ اسی نقشے پر وہ مسلم مملکتوں کے نظام چلا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمان قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں الحاد بس گیا ہے اور جہاں جہاں بھی انھیں اثر ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اس حد تک خراب کرتے چلے جا رہے ہیں کہ وہ خدا اور رسول اور آخرت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ وہ اباحیت میں خود تو مستغرق ہیں اور ان کی قیادت ہر جگہ مسلمانوں کے اندر فسق و فجور اور بے حیائی پھیلاتی چلی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ مغربی استعمار کے چاہے کتنے ہی دشمن ہوں‘ مغربی مستعمرین اُن کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ان کی ہرادا پر یہ مرے مٹتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو یہ معیارِ حق سمجھتے ہیں۔ ان کے ہر کام کی یہ نقل اتارتے ہیں۔ اُن میں اور اِن میں فرق صرف یہ ہے کہ وہ مجتہد ہیں اور یہ محض اندھے مقلّد۔ یہ اُن کی پٹی ہوئی راہوں سے ہٹ کر ایک انچ بھی کوئی نیا راستہ نہیں نکال سکتے۔
یہ چار حقائق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیے ہیں‘ ان کو نگاہ میں رکھ کر آپ دنیا کی آزاد مسلمان قوموں کی موجودہ حالت کا جائزہ لیں تو اس وقت کی پوری صورت حال آپ پر واضح ہو جائے گی۔ دنیا کی تمام آزاد مسلم حکومتیں اس وقت بالکل کھوکھلی ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ہر جگہ وہ اپنی اپنی قوموں کے ضمیر سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قومیں اسلام کی طرف پلٹنا چاہتی ہیں اور یہ اُن کو زبردستی مغربیت کی راہ پر گھسیٹ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کہیں بھی مسلمان قوموں کے دل اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ حکومتیں اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب حکمرانوں کے ہاتھ اور قوموں کے دل پوری طرح متفق ہو کر تعمیرحیات کے لیے سعی کریں۔ اس کے بجاے جہاں دل اور ہاتھ ایک دوسرے سے نزاع و کش مکش میں مشغول ہوں وہاں ساری قوتیں آپس ہی کی لڑائی میں کھپ جاتی ہیں اور تعمیروترقی کی راہ میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی۔
اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ملکوں میں پے درپے آمریتیں قائم ہو رہی ہیں۔ مغربیت زدہ طبقے کی وہ چھوٹی سی اقلیت ‘ جس کو مستعمرین کی خلافت حاصل ہوئی ہے‘ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر نظامِ حکومت عوام کے ووٹوں پر مبنی ہو تو اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہ سکتا بلکہ جلدی یا دیر سے وہ لازماً ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا جو عوام کے جذبات اور اعتقادات کے مطابق حکومت کا نظام چلانے والے ہوں۔ اس لیے وہ کسی جگہ بھی جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے ہیں اور آمرانہ نظام قائم کرتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ فریب دینے کے لیے انھوں نے آمریت کا نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔
ابتداًء کچھ مدت تک قیادت اس گروہ کے سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں رہی اور سول حکام مسلمان ملکوں کے نظم و نسق چلاتے رہے۔ لیکن یہ بھی اسی صورتِ حال کا ایک فطری نتیجہ تھا کہ مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار انھی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انھوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعے سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں‘ بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے ان کو مدافعت کے لیے دیے تھے انھی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں‘ اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں‘ بلکہ ہرفوجی افسر اس تاک میں لگا ہوا ہے کہ کب اسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اس کی جگہ لے لے۔ ان میں سے ہر ایک جب آتا ہے تو زعیم انقلاب بن کر آتا ہے اور جب رخصت ہوتا ہے تو خائن و غدار قرار پاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک بیشتر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کاکوئی دخل نہیں ہے۔ ان کے علم کے بغیراندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک ان کے سروںپر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب متحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے جو بھی اُبھر کر اُوپرآتا ہے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور الحاد و فسق کا علم بردار ہوتا ہے۔
ان تاریک حالات میں ایک روشنی موجود ہے جس کے اندر دو حقیقتیںمجھے صاف نظر آرہی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے الحاد و فسق کے ان علم برداروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا ہے اور یہ خود ہی ایک دوسرے کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ متحد ہوتے تو ناقابلِ علاج مصیبت بن جاتے۔ مگر ان کا رہنما شیطان ہے اور شیطان کاکید ] چال[ ہمیشہ ضعیف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری اہم حقیقت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے دل بالکل محفوظ ہیں‘ وہ ہرگز ان نام نہاد انقلابی لیڈروں سے راضی نہیں ہیں‘ اور اس امرکے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر کوئی صالح گروہ فکر کے اعتبار سے مسلمان اور ذہنی قابلیتوں کے لحاظ سے قیادت کا اہل ہو تو آخرکار وہی غالب آئے گا اور مسلمان قومیں اس الحاد و فسق کی قیادت سے نجات پاجائیں گی۔
اس وقت کام کا اصل موقع اُن لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے…
ان کو اسلام کا صحیح علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ ان کے دل جس طرح مسلمان ہیں اسی طرح ان کے دماغ بھی مسلمان ہوجائیں اور یہ اجتماعی معاملات کو اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق چلانے کے قابل بن جائیں۔
اپنی اخلاقی اصلاح:ان کو اپنی اخلاقی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی زندگیاں عملاً بھی اُسی اسلام کے مطابق ہوجائیں جس کو وہ اعتقاداً برحق مانتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ قول اور عمل کا تضاد آدمی کے اندر نفاق پیدا کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں اس کا اعتماد ختم کر دیتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا سارا انحصار اخلاص اور راست بازی پر ہے‘ اور کوئی ایسا شخص نہ مخلص ہوسکتا ہے ‘ نہ مخلص مانا جاسکتا ہے جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ آپ کی اپنی زندگی میں اگر تناقض ہوگا تو نہ دوسرے آپ پر اعتماد کریں گے اور نہ خود آپ کے دل میں اپنے اُوپر وثوق پیدا ہو سکے گا۔ اس لیے دعوتِ اسلامی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو میری مخلصانہ نصیحت یہ ہے کہ جن جن امور کے متعلق انھیں یہ علم حاصل ہوتا جائے کہ اسلام نے ان کا حکم دیا ہے‘ اُن پر عامل ہونے کی‘ اور جن کے متعلق انھیں معلوم ہوتا جائے کہ اسلام نے انھیں منع کیا ہے‘ ان سے اجتناب کرنے کی پوری کوشش کریں۔
اُن کو اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور تحریر و تقریر کی قوتیں اس کام پر صرف کر دینی چاہییں کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفۂ حیات پر تنقید کر کے اُس بت کو پاش پاش کر دیں جس کی آج دنیا میں پرستش کی جا رہی ہے‘ اور اُس کے مقابلے میں اسلام کے عقائد اور اصول و مبادی اور قوانین حیات کی تشریح و تدوین ایسے معقول طریقوں سے کریں جو نسلِ جدید کے ذہن کو ان کی صحت کا یقین دلا سکے‘ اور اُن کے اندر یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ دورِحاضر میں ایک قوم ان عقائد اور اصول و قوانین کواختیار کرکے نہ صرف ترقی کر سکتی ہے بلکہ دوسروںسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ کام جتنے صحیح خطوط پر‘ جتنے بڑے پیمانے پر ہوگا اتنے ہی دعوت اسلامی کے لیے آپ کو سپاہی ملتے چلے جائیں گے‘ اور یہ سپاہی ہر شعبۂ حیات سے نکل نکل کر آئیں گے۔ اس عمل کا سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے‘ تاکہ ایک کثیرتعداد اُن لوگوں کی پیدا ہو جائے جو ایک ملک کے نظام کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لیے درکار ہیں۔ یہ عمل جب تک بتدریج اپنی انتہا کو نہ پہنچ جائے‘ آپ کسی اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کی توقع نہیں کرسکتے ‘ اور اگر کسی مصنوعی طریقے سے وہ برپا ہو بھی جائے تو وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔
دعوتِ اسلامی سے جتنے لوگ متاثر ہوتے جائیں‘ ان کو منظم ہونا چاہیے اور ان کی تنظیم کو ڈھیلا اور سُست نہ ہونا چاہیے۔ نظم و ضبط اور سمع و طاعت کے بغیر محض ہم خیال لوگوں کا ایک بکھرا ہوا گروہ فراہم کر دینے سے کوئی کارگر طاقت پیدا نہیں ہو سکتی۔
اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو عوام میں اپنی دعوت پھیلانی چاہیے تاکہ عام لوگوں کی جہالت دُور ہو اور وہ اسلام سے واقف ہوں اور اسلام و جاہلیت کا فرق جان لیں۔ اس کے ساتھ انھیں عوام کی اخلاقی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے اور فسق و فجور کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دینا چاہیے جو فاسق قیادت کے اثر سے مسلمان قوموں میں روز بروزبڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم فاسق ہوجانے کے بعد ایک اسلامی حکومت کی رعایا بننے کے قابل نہیں رہتی۔ عامۃ الناس میں فسق جتنا بڑھے گا‘ اُن کے معاشرے میں اسلامی نظام کا چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ جھوٹے‘ بددیانت اور بدکار لوگ نظامِ کفر کے لیے جتنے موزوں ہیں‘ نظامِ اسلامی کے لیے اتنے ہی غیر موزوں ہیں۔
انھیں بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب برپا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے‘ اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھایئے‘ اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہوچکے ہیں۔ جلدبازی میں جو پیش قدمی بھی ہوگی‘ اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ مثال کے طور پر فاسق قیادت کے ساتھ شریک ہو کر یہ اُمید کی جا تی ہے کہ شاید اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے کا راستہ آسان ہو جائے گا اور کچھ نہ کچھ اپنے مقصد کے لیے مفید کام بھی ہوسکے گا۔ لیکن عملی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس لالچ سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘ کیونکہ دراصل زمامِ امر جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی ہی پالیسی چلاتے ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والوں کو ہر قدم پر ان سے مصالحتیں کرنی پڑتی ہیں‘ یہاں تک کہ وہ آخرکار بس ان کے آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی اصل میں بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔
ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخرکیجیے‘ اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔
یہ چند کلمات نصیحت ہیں جو دعوت اسلامی کے لیے کام کرنے والوں کے سامنے میں پیش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ہمیں دین حق کی سربلندی کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے۔ (تفہیمات‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱-۳۶۳)