اس مہینے راے عامہ کے دو بہت اہم اوردل چسپ جائزے سامنے آئے ہیں۔ پہلا وہ ہے جس کا اہتمام بی بی سی نے آئی سی ایم کے ذریعے کیا ہے اور جو انگلستان کے روزنامہ گارڈین نے شائع کیا ہے۔ یہ سروے ۱۱ ممالک میں ۱۱۰۰ افراد کی رائے پر مبنی ہے۔ ۱۱ ممالک میں صرف دو مسلمان ملک ہیں‘ یعنی اُردن اور انڈونیشیا۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ گو امریکہ کو بحیثیت ایک جمہوری ملک کے لوگ پسند کرتے ہیں اور اس پہلو سے اس ملک میں ایک مقناطیسی کشش اب بھی موجود ہے لیکن امریکی پالیسیوں اور خصوصیت سے صدربش کو خارجہ سیاست کے اعتبار سے سخت ناپسند کرتے ہیں بلکہ ان پر برافروختہ (infuriated) ہیں۔
امریکہ کی جن چیزوں کو اس کے مثبت پہلو کہا جا سکتا ہے وہ اس کا آئیڈیل ازم ‘ اس کی دولت اور اس میں پائی جانے والی آزادیاں ہیں۔ اس کے برعکس جن چیزوں کی وجہ سے دنیا کے لوگ اس سے خائف ہیں اور جس میدان میں وہ عوامی تائید کی جنگ ہار رہا ہے وہ اس کا دوغلاپن اور اہم عالمی مسائل‘ جیسے نیوکلیر ہتھیاروں کے عدم پھیلائو‘ عالمی غربت کا خاتمہ اور ماحول کے بگاڑ کے اسباب کے بارے میں عدم دل چسپی اور مایوس کن کارکردگی ہے۔ عراق کی جنگ اور صدام کو گرانے کے بارے میں عالمی رائے کی اکثریت امریکہ کے دعووں اور اقدام کے مخالف تھی‘ جب کہ مسلمان ممالک میں امریکہ کو القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک دل چسپ بات اس سروے میں یہ بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ امریکہ کی دولت اور اس کی آزادیوں کو پسندکرتا ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ میں رہنا پسند کریں گے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے امریکی فاسٹ فوڈ اور مشروبات کو ناپسند کیا‘ جب کہ امریکی گانوں اور فلموں کو پسند کیا۔
اس سروے کا ایک اوردل چسپ پہلو یہ ہے کہ امریکہ‘برطانیہ اور سروے میں شامل دوسرے انگریزی بولنے والے ممالک میں بحیثیت مجموعی اکثریت کی رائے میں امریکہ عالمی میدان میں ’’خیر کی ایک قوت‘‘ (a force for good in the world) ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن ممالک کے لوگوں کی رائے مختلف ہے جو انگریزی نہیں بولتے ہیں۔ فرانس‘ روس‘ اُردن‘کوریا اور انڈونیشیا کے لوگوں کی اکثریت امریکہ کو دنیا کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ سروے سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے وہ یہ ہے:
اس سب سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟ یہ کہ اصل مسئلہ امریکی اقدار نہیں بلکہ واشنگٹن کے اقدامات اور پالیسیاں ہیں۔ اصل قصور جارج بش کا ہے۔ کیچڑ اُچھالنا اور کائوبوائے جیسا اندازِ گفتگو بیرونی دنیا میں امریکہ کے امیج کو بہتر نہیں بناتا۔دنیا کے لیے امریکہ کم مسئلہ ہے‘ بش زیادہ ہے۔
دوسرا راے عامہ کا سروے اے بی سی نیوز پول اور گیلپ پول پر مبنی ہے جس میں امریکہ کے لوگوں کی رائے اس بارے میں معلوم کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی رائے کا کہاں تک لحاظ کرتے ہیں۔ دونوں جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اپنی رائے پر زیادہ اعتماد ہے اور اس کی فکر کم ہے کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ ۱۰ میں سے چھ افراد کو اس کی قطعاً فکر نہیں کہ فرانس‘ جرمنی اور روس کیا سوچتے ہیں اور عراق پر جنگ سے ان کے تعلقات کس طرح مجروح ہورہے تھے۔ اسی طرح دو تہائی افراد نے امریکہ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان کا اپنا طرزِزندگی ہر حال میں محفوظ رہنا چاہیے اور اسے غیرملکی اثرات سے مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
ساری دنیا میں لوگ امریکیوں کو درحقیقت پسند کرتے ہیں اور وہ ہمارے بارے میں مسلسل سوچتے ہیں۔ لیکن ہم مشکل ہی سے ان کا کوئی وجود تسلیم کرتے ہیں۔ ۱۱ستمبر کے بعد رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے لیکن ابھی بھی خود مرکزیت کی کیفیت ہے۔ ہم ہر بات کو اپنے تجربات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے سے اپنے آپ میں مگن ہیں۔ لیکن صرف ہم ہی وہ ملک نہیں جو ایسا کرتے ہیں!
یہ دونوں جائزے امریکیوں کی خود اپنے بارے میں سوچ اور امریکہ اور اس کی قیادت کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگوں کی سوچ کا آئینہ ہیں۔
تاریخ سے کم ہی سبق سیکھا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقبولیت اور عزت محض طاقت سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے لیے دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال بھی ضروری ہے۔ زبان خلق کو نظرانداز کرنے والے خلق کی محبت اور تعاون سے محروم ہی رہتے ہیں۔ خوداعتمادی ایک اچھی صفت ہے مگر رعونت اور خود پسندی تعلقات کو بالآخر خراب کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ امریکہ اور باقی دنیا کے درمیان اعتماد کی فضا کمزور سے کمزور ہو رہی ہے اور ان کے درمیان بے اعتمادی‘ خوف اور نفرت کی خلیج حائل ہو رہی ہے۔ اگر امریکہ کی قیادت اس تبدیلی کا ادراک کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ امریکہ اور دنیا دونوں ہی کے لیے مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔