جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

ملکی معیشت اور اس کی اصلاح

| جولائی ۲۰۰۳ | مطالعہ خصوصی

Responsive image Responsive image

قومی اسمبلی نے پانچ دن کی مختصر اور ریکارڈ مدت میں قومی بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے باوجود بجٹ پر قومی سطح پر بحث و مباحثے کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ درحقیقت بجٹ اگر ایک طرف اقتصادی لائحہ عمل پر مبنی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسرا اور زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ یہ حکومت کی معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہے جس کا ملک کی سلامتی اور سیاسی و داخلی صورت حال سے گہرا تعلق ہے۔ اسی تناظر میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) نے بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء کا ایک جائزہ تیار کیا جس کے چار حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ملک کی مجموعی صورت حال کے ان پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر معیشت اور معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ دوسرے حصے میں حکومت کی اقتصادی حکمت عملی اور اس کی جانب سے پیش کیے گئے اقتصادی جائزے اور کارکردگی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء کے اہداف اور بجٹ تجاویز پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ چوتھے حصے میں اہم اور کلیدی تجاویز کو سفارشات کی صورت میں یکجا پیش کر دیا گیا ہے۔ ہم اپنی تنگ دامنی کے باعث یہاں صرف پہلا اور چوتھا حصہ پیش کر رہے ہیں۔٭ (ادارہ)

ملک کی مجموعی صورت حال اور بجٹ

۱-   مالی سال ۰۴-۲۰۰۳ء کے وفاقی بجٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ ۲۱ویں صدی بلکہ نئے ہزاریے کا پہلا بجٹ ہے جو تین سالہ فوجی اقتدار کے بعد‘ سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم بظاہر ایک غیر فوجی سیٹ اپ کے قائم ہو جانے کے باوجود سیاسی غیر یقینی‘ عدم استحکام اور بے چینی کی فضا اگر بڑھی نہیں تو ختم بھی نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ‘ بالخصوص ایل ایف او کے مسئلے پر حکومت اور اس کے اتحادیوں اور      حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کا نہ ہونا ہے جس کے نتیجے میں ایل ایف او میں تجویز کردہ دستوری ترمیمات متنازعہ ہوگئیں‘ اور اس وجہ سے ایسے تمام اقدامات کے بارے میں سندِجواز کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جو پارلیمنٹ کی بحالی کے بعد بھی جاری ہیں۔ دوسری معروضی حقیقت جس کا ادراک نہ کرنا مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے‘ یہ ہے کہ وفاق اور بعض صوبائی حکومتوں اور ضلعی حکومتوں کے درمیان تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں۔ بجٹ ایک ایسی قومی دستاویز ہے جو قومی سطح پر ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسی لیے بجٹ کی تیاری کے عمل میں عوامی نمایندوں اور عوام کے مختلف طبقات کی شرکت اور قومی سطح پر بھرپور بحث و مباحثے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیاسی سطح پر غیر یقینی کی فضا اور ہم آہنگی کے فقدان کے باعث بجٹ کے موجودہ دروبست میں یہ عنصر موجود نہیں جسے اقتصادی نقطہء نظر سے کسی بھی طرح خوش آیند قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲-  ۰۳-۲۰۰۲ء کے دوران پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر سخت تنائو رہا۔ بھارت نے اپنی فوجیں سرحدوں پر جمع کر لیں۔ جواباً ہمیں بھی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر ایسا ہی کرنا پڑا۔ اس اقدام سے اقتصادی وسائل پر بھی ایک بڑا دبائو پڑا جس کے اثرات بالخصوص دفاعی اخراجات کی مد میں مالی سال ۰۳-۲۰۰۲ء کے نظرثانی شدہ تخمینے میں نظر آتے ہیں۔ اس مد میں ابتدائی طور پر ۱۴۶ ارب روپے رکھے گئے تھے جو بڑھ کر۱ئ۱۶۰  ارب روپے ہو گئے ہیں۔ فوجی بجٹ سے فوجی عملے کی پنشنوں کو عام بجٹ میں منتقل کرنا اس پر مستزاد ہے جس کی مالی ذمہ داری بھی ۲۰ ارب کے پھیر میں آتی ہے۔ اگرچہ بھارتی فوج کے سرحدوں سے واپس چلے جانے کے باعث دبائو کی کیفیت اب اس قدر شدید نہیں رہی لیکن پیش بندی کے طور پر حملے (Pre-emptive strike) کے نظریے کے تحت عراق پر امریکی حملے اور قبضے‘ اور ایران‘ شام اور دیگر ممالک کو دی جانے والی امریکی دھمکیوں کو دیکھتے ہوئے اور مذاکرات کے لیے بظاہر مثبت ماحول کے باوجود‘ سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف دبائو بڑھانے کی بھارتی کوششیں وہ عوامل ہیں جو اقتصادی منظرنامے پر بھی براہ راست اثراندار ہوتے ہیں اور جن کی بنا پر دفاع اور سلامتی کے تقاضے بھی توجہ طلب ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت کے دفاعی بجٹ میں اس سال ۳۱ فی صد کا اضافہ کیا گیا ہے اور اضافے کا یہ عمل گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔

۳-  اقتصادی سرگرمی اور اس میں ترقی‘ خصوصیت سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے داخلی سطح پر پُرسکون اور سازگار ماحول کی فراہمی لازمی ہے‘ تاہم گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں امن و امان کی صورت حال قابل رشک نہیں ہے۔ صورت حال کی خرابی کا اندازہ  اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث کے دنوں ہی میں بلوچستان میں پولیس افسران اور اہلکاروں کی ہلاکتیں اور کراچی میں ہدف بناکر قتل (target killing)کے واقعات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل کراچی میں پٹرول پمپوں پر حملے اور ماضی قریب میں گیس پائپ لائنوں کو بموں سے اڑانے کے واقعات بھی پیش آئے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا اقتصادی مرکز ہے۔ یہاں ایسی صورت حال بے حد تشویش ناک ہے۔ امریکی جریدے ٹائم نے اپنی حالیہ اشاعت (۱۶ جون ۲۰۰۳ئ) میں اسی وجہ سے کراچی کو امن و امان کے اعتبار سے ایشیا کا (سب سے خراب اور مشکل) Roughest and Toughest شہر قرار دے کر صورت حال کی نشان دہی کی ہے۔ ٹائم کی یہ تصویر کشی مبالغے پر مبنی ہے لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس نوعیت کے واقعات اور جائزے اقتصادی سرگرمی کو متاثر کرتے ہیں ‘ جن کے باعث ماحول معاشی سرگرمی کو پروان چڑھانے کے لیے سازگار نہیں رہتا۔ اس لیے ان عوامل پر نگاہ رکھنا اور انھیں مثبت بنانا    ضروری ہے۔

۴-  مالی سال ۰۳-۲۰۰۲ء کے اقتصادی جائزے (Economic Survey) کے مطابق معیشت کے بعض اشاریے بہت مثبت ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار میں ۱ئ۵ فی صد اضافہ متوقع ہے جو نہ صرف ۵ئ۴ فی صد کے ہدف سے زیادہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں سب سے بلند  بھی ہے۔

  • زراعت ‘ بڑی صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں نمایاں بہتری نظر آتی ہے۔ افراطِ زر کی شرح ۳ئ۳ فی صد رہی ہے۔ فی کس آمدنی ۴۱۷ ڈالر سے بڑھ کر ۴۹۲ ڈالر ہو گئی ہے۔ اس طرح اس میں ۴ئ۱۷ فی صد کا اضافہ بیان کیا گیا ہے۔ مالیاتی خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا ۶ئ۴ فی صد رہ گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ۵ئ۱۰  ارب ڈالر سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ ۵ئ۳  ارب ڈالر سے بڑھ گئی ہیں اور سال کے اختتام پر ۴  ارب ڈالر تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت میں ۱۱ فی صد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت کرنٹ اکائونٹ ۳  ارب ڈالر کا سرپلس دکھارہا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ معیشت کے یہ مثبت اشاریے کس حد تک حکومتی کوششوں اور پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور کس حد تک دیگر عوامل کی بنا پر ہیں‘ یہ صورت حال ایک نیا موقع فراہم کرتی ہے اور بجٹ کے جائزے میں یہ پہلو مفید ہو گا کہ اس نئے موقع کو کس طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
  • دوسری جانب صورت حال میں مذکورہ بہتری آنے کے باوجود معیشت کی کئی روایتی کمزوریاں نہ صرف موجود ہیں بلکہ بعض شعبوں میں صورت حال زیادہ ابتر ہوتی چلی گئی ہے۔ سرمایہ کاری کی مجموعی شرح جی ڈی پی کا ۵ئ۱۵فی صد ہے جو ۱۹۸۰ء کے عشرے کے اوسط ۷ئ۱۸فی صد سے بہت کم ہے۔ سماجی اشاریے انتہائی پریشان کن ہیں۔ اگرچہ غربت کے اعداد و شمار پر ماہرین کے اندازے حکومت سے مختلف ہیں‘ تاہم خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھی کل آبادی کے ۸ئ۳۱فی صد لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تعداد۴ کروڑ ۷۰ لاکھ بنتی ہے۔ ناخواندگی کی شرح ابھی تک ۴۹ فی صدہے۔ آمد نیوں کی تقسیم میں ناہمواریاں عیاں ہیں۔ دستیاب اعداو شمار کے مطابق معاشرے کے ۲۰ فی صد بالائی طبقات کا جی ڈی پی میں حصہ زیریں طبقات کی نسبت بڑھا ہے‘ کم نہیں ہوا‘ جب کہ نیچے کے ۲۰ فی صدی کا حصہ پہلے سے بھی  کم ہوا ہے۔
  • اعلیٰ ترین سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کے کوئی نمایاں واقعات اگرچہ اس عرصے میں سامنے نہیں آئے ہیں‘ تاہم نچلی سطح پر حکومتی مشینری کی کرپشن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے سائنسی بنیاد پر اس وقت اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں لیکن عام تاثر یہ ہے کہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور اس پر بہت زیادہ شور اس بنا پر نہیں ہوتا کہ یہ رفتہ رفتہ ایک معمول بن گیا ہے جسے بہ امر مجبوری قبول کر لیا گیا ہے۔ جہاں براہ راست کرپشن نہیں ہے وہاں نااہلی ‘ اقربا پروری اور میرٹ سے روگردانی کے مسائل ہیں۔ یوں حکومت کو بہت سے وسائل تو حاصل ہی نہیں ہوپاتے‘ جب کہ حاصل شدہ وسائل کا بہت سا حصہ ضائع بھی ہو جاتا ہے۔ یہی صورت اسمگلنگ کی ہے۔ دو سال قبل اس حوالے سے حکومت کی جانب سے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ محض اعلانا ت تھے‘ اب اس محاذ پر مکمل خاموشی ہے۔ اقتصادی سرگرمی کو آگے بڑھانے کے لیے ان مسائل کو حل کرنے کی واضح حکمت عملی درکار ہے۔

۵-  موجودہ منظرنامے کے ضمن میں گلوبلائزیشن اور عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن - WTO ) کے نتیجے میں سامنے آنے والی مشکلات اور مواقع بھی قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۹۵ء سے قائم شدہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مکمل نفاذ میں صرف ڈیڑھ سال باقی ہے ۔یکم جنوری ۲۰۰۵ء کے بعد تمام عالمی تجارت اس عالمی تنظیم کے فریم ورک اور قوانین و ضوابط کے تحت ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے اور مسابقت کی بڑھتی ہوئی فضا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری صنعت و تجارت تیار ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے لیے کن اقدامات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

۶-  معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو چار سال ہونے کو ہیں ‘ جب کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے اس کام کے لیے ملنے والی مہلت ابتداً صرف ڈیڑھ سال تھی ۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے اب تک اس سلسلے میں کتنا کام کیا ہے‘ اور جو کام باقی ہے اس کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے؟

سفارشات

۱-  اقتصادی سرگرمی کا ملک کی داخلی‘ سلامتی اور سیاسی صورت حال سے گہرا تعلق ہے۔ اقتصادی منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے دوران صورت حال کے ان تمام پہلوئوں‘ ان کے باہم تعلق اور اقتصادی اہداف اور اقدامات پر ان کے ممکنہ اثرات کا مؤثر طور پر احاطہ کیا جائے۔

۲-  ملک میں بجٹ سازی اور بجٹ کی منظوری کا عمل آج بھی عملاً انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے جس طرح برطانوی دور میں ہوتا تھا۔ ۵۰ فی صد سے زیادہ اخراجات charged (وضع شدہ) ہوتے ہیں جن میں پارلیمنٹ کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ بقیہ میں بھی محض علامتی تبدیلی کی گنجایش ہوتی ہے۔ بجٹ پر عام بحث کے لیے بہت محدود وقت ہوتا ہے اور بجٹ تجاویز محض ایک سال کے تناظر میں تیار کی جاتی ہیں۔ حکومت نے اس بار میڈیم ٹرم فریم ورک کا اعلان کیا ہے جو خوش آیند ہے لیکن درحقیقت بجٹ سازی اور مالیاتی نظم و ضبط کے پورے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

۳-   انسانی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارا بڑا مسئلہ ان وسائل کو استعمال کرنے کی موزوں حکمت عملی ہے۔ اچھے طرزِ حکومت (Good Governance) کا قیام‘ کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کا فروغ وہ اہم ترین اہداف ہیں جن کے حصول کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

۴- کلاں معاشی (Macro Economic) استحکام کی حکمت عملی سے بعض پہلوئوں سے معیشت میں بہتری آئی ہے‘ تاہم اس حکمت عملی کے نقصانات بھی ہیں جن میں بڑھتی ہوئی غربت‘ بے روزگاری اور معاشی ناہمواریاں نمایاں ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل کے عنوان سے موجودہ حکمت عملی کو جاری رکھنے پر اصرار کے بجائے جامع اور کثیر الجہتی ترقیاتی پالیسی اختیار کی جانی چاہیے جس کا ہدف محض مجموعی معاشی ترقی نہ ہو‘ بلکہ ساتھ ہی سماجی اور انسانی مسائل کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل بھی ہو۔

۵-   اضافی وسائل کے حصول کے لیے قرض کا حصول بذات خود غلط نہیں ہے‘ تاہم ان اضافی وسائل کو پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرنا اصل چیلنج ہے۔ حکومت کا موقف بھی یہی ہے‘ تاہم عمل درآمد کے نقطہء نظر سے ابھی بہتری کی بہت زیادہ گنجایش موجود ہے۔ خودانحصاری کو بطور ہدف اختیار کیا جائے اور قرضوں پر انحصار کی حکمت عملی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

۶-  معیشت کے بعض مثبت اشاریے بلاشبہہ ایک حقیقت ہیں‘ لیکن ان میں سے بیشتر کے حصول میں حکومت کی اقتصادی حکمت عملی کا کوئی بڑا دخل نہیں ہے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی  کا جائزہ لیتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ اقتصادی سرگرمی‘ پیداوار اور پیداواری صلاحیت میں حقیقی اضافے کے بغیر حاصل ہونے والے مثبت اشاریے کسی بھی طرح پایدار ثابت نہیں ہو سکتے۔ غلط تشخیص او راس کی بنیاد پر ناموزوں حکمت عملی کا عمل جاری رہے تو اہداف کا حصول ممکن نہیں ہو گا۔

۷-  بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء کے لیے حکومت کی جانب سے تجویز کیے گئے متعدد اہداف غیرحقیقت پسندانہ محسوس ہوتے ہیں۔ ماضی کی کارکردگی اور زمینی حقائق کی روشنی میں جی ڈی پی میں ۵ئ۵ فی صد اضافہ‘ محصولات میں ۵۱۰ ارب ڈالر وصولی کا ہدف اور اسی طرح ۱۶۰ ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام‘ ایسے اہداف ہیں جن کا حصول یقینی نہیں ہے۔ اس غیر یقینی صورت حال کے جو منفی اثرات ہو سکتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

۸-  زرعی شعبے کا معیشت میں بہت اہم کردار ہے اور مجموعی شرح نمو کا کوئی ہدف اس شعبے میں ترقی کے بغیر حاصل کرنا مشکل ہے‘ تاہم اس شعبے کے لیے محرکات کی جانب بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کھاد‘ زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی اور معیاری بیج کی فراہمی ‘ نیز ان چیزوں پر جنرل سیلز ٹیکس میں کمی اس شعبے کی ترقی کے لیے ناگزیر اقدامات ہیں‘ جب کہ مارکیٹنگ اور برآمدات بڑھانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

۹-  بجٹ میں نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا جس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن ٹیکس وصولی کے نظام میں ضروری تبدیلیوں پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ ٹیکس وصولی میں ادایگی کی صلاحیت (capacity to pay) کو معیار بنانا چاہیے۔ اس وقت بالواسطہ ٹیکس (بشمول سرچارج) کل ٹیکسوں کا ۸۳ فی صد ہیں جو کسی طرح بھی صحت مندانہ رجحان نہیں ہے۔ اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

۱۰-   ترسیلات میں اضافہ ایک غیر معمولی موقع فراہم کرتا ہے۔ موجودہ صورت میں  یہ محض نمایشی اور غیرپیداواری اخراجات میں استعمال ہو رہی ہیں۔ ان کے پیداواری استعمال کی جامع حکمت عملی اور ادارتی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

۱۱-  مرکز اور صوبوں کے درمیان باہم وسائل کی تقسیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ وسائل کی تقسیم میں آبادی کے ساتھ علاقے کی ضروریات‘ ترقی کی صورت حال اور لوگوں کی رفاہی ضروریات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل نو میں تاخیر بھی خلاف آئین اور قابل توجہ ہے۔

۱۲-  عالمگیریت اور عالمی تجارتی تنظیم کے حوالے سے درپیش مشکلات کے حل اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے فوری اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بجٹ ۰۴-۲۰۰۳ء میں اس حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔