اسلام کے اجتماعی نظام کا عملی اظہار اسلامی شریعت پر مبنی اسلامی ریاست ہے‘اور اسی ریاست کے ذریعے اسلامی عدلِ اجتماعی اور اجتماعی سطح پر تقویٰ کی زندگی گزارنا ممکن ہے۔ صدیوں تک ملوکیت ‘ استعمار کی غلامی اور علما کے غالب طبقے کی جانب سے‘ حالت موجودہ پر صبروشکر کربیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ برعظیم پاک و ہندمیں ایک طویل مدت تک اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مسئلہ نظروں سے اوجھل رہا۔ البتہ انیسویں صدی میں سید احمد شہیدؒ (م: ۱۸۳۱ئ) نے اور پھر بیسویں صدی میں سید مودودیؒ (م: ۱۹۷۹ئ) نے اسلامی ریاست کے بھولے سبق کو یاد دلانے کی کوشش کی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م: ۱۹۹۷ئ) ‘ فہم قرآنیات کے حوالے سے ایک عظیم شخصیت اور اپنی مثال آپ اسکالر تھے۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپنے زمانۂ وابستگی میں اسلامی ریاست کے مختلف عناصر ترکیبی پر تحریر و تالیف کا بہت اہم اور عالمانہ کام سرانجام دیا‘ تاہم وہ اس علمی منصوبے کو مکمل نہ کر سکے (ص ۱۳)۔ لیکن اس کے جو حصے انھوں نے لکھے وہ ان کی علمی بصیرت‘ دینی حمیت اور سیاسی دوراندیشی کا ایک قیمتی نمونہ ہیں۔ زیرنظر کتاب میں اس نوعیت کی تحریروں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اسے مولانا مودودیؒ کی کتاب اسلامی ریاست کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو فکری مباحث کا ایک وسیع منظرنامہ سامنے آتا ہے۔
اصلاحی صاحب نے ابتدا میں وضاحت کی ہے کہ ان کی دانست میں: ’اسلامی خلافت‘ کا مطلب ’اسلامی ریاست ہے‘ اور’امامت و امارت‘ کا مطلب ’اسلامی حکومت‘ ہے (ص‘ ۱۶)۔ اس ریاست کی مقننہ اور انتظامیہ کے کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اسلام میں شوریٰ متعین بھی ہے اور امیر اس کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند بھی ہے۔ ] موجودہ[ زمانے میں شوریٰ کو متعین کرنے کے‘ بعض ضروری اصلاحات کے ساتھ‘ انتخاب کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے ‘‘ (ص۴۴)۔ مزید یہ کہ امیریا خلیفہ مجلس شوریٰ کی رائے کو مسترد (ویٹو) نہیں کر سکتا (ص ۳۲-۴۴)۔ رسولؐ اللہ نے جس معاملے میں بھی لوگوں سے مشورہ لیا‘ اس میں اکثریت کے فیصلے کے مطابق ہی عمل کیا (ص ۴۰)۔’’سمع و طاعت… زمین میں خدا کے دین کے نفاذ و قیام کا ذریعہ ہے‘‘۔ اور: ’’اقامت دین… اسلامی ریاست کا اصلی مقصد قیام ہے‘‘ (ص ۱۵۳)… ’’اگر اسلامی ریاست کا وجود نہ ہو تو‘نہ اجتماعی زندگی بِّروتقویٰ سے آشنا ہوسکتی ہے اور نہ انفرادی زندگیوں ہی میں اس کا قائم رکھنا ممکن ہو سکتا ہے ‘‘۔ (ص‘ ۱۵۶)
قومیت کے مسئلے پر بلند درجہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی نسلی قومیت کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی جہانی ریاست کی بنیاد رکھ سکے‘‘ (ص ۷۰)--- اسلامی ریاست کے غیرمسلم باشندوں کے مقام شہریت پر کہتے ہیں: ’’ذمیوں کو حقوق‘ مسلمانوں یا ان کی حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان کی ضمانت پر دیے جاتے ہیں‘ ان کی ادایگی میں دانستہ اور بلاعذر کوتاہی‘ خدا اور رسولؐ سے خیانت اور غداری ہوگی‘‘(ص ۲۰۰‘ ۲۰۱)۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جس نے کسی معاہد ] ذمی[ پر ظلم کیا یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بار ڈالا تومیں قیامت کے دن خود اس سے جھگڑنے والا بنوںگا… یہ تمھارے غلام نہیں کہ تم ان کو وہاں سے یہاں اور یہاں سے وہاں پھینکتے پھرو۔ یہ آزاد اہل ذمہ ہیں‘‘۔ (ص ‘ ۱۹۵)
کم و بیش نصف صدی قبل کے یہ علمی مباحث‘ اپنی فکری اہمیت کے باعث آج بھی تروتازہ اور موجودہ حالات میں بامعنی ہیں۔ خصوصاً ’’فکرِاصلاحی‘‘ کے قائلین کو‘ اس نوعیت کے نکات‘ غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں‘ مثلاً: ’’]اسلامی[ ریاست کے تحفظ‘ اور اس کے مقصد جھاد فی سبیل اللّٰہ کی تکمیل کے لیے ہر ذی صلاحیت شہری کا فرض ہے کہ وہ برابر مستعد اور تیار رہے۔ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کے جذبے سے معمور رہنا دلیلِ ایمان ہے اور اس جذبے سے خالی ہونا نفاق کی علامت ہے۔ اگر ریاست کے تحفظ کا سوال سامنے آجائے تو پھر جان کو عزیز رکھنا اور قربانی سے جی چرانا ایمان کی کھلی موت ہے‘‘۔ (ص ۱۵۸)
اسلامی ریاست کے موضوع پر‘ اُردو میں یہ ایک قابلِ قدر عالمانہ کتاب ہے۔ موضوع پر مصنف کی گرفت نے‘ بحثوں کو جان دار اور پُرتاثیر بنا دیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)
عصرحاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بہت سے الفاظ اپنی پہچان اور حرمت کھو بیٹھے ہیں۔ لفظ نعرے بازی کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔ جن لفظوں کا سب سے زیادہ استحصال ہوا اُن میں: عوام‘ حقوق‘ آزادی‘ انقلاب‘ جمہوریت‘ قومی مفاد‘ مساوات اور آزادیِ نسواں سرفہرست ہیں۔
یہ کتاب شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک معلمہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر تحریر کی ہے‘ جس میں آزادیِ نسواں کی تحریک کے ماضی و حال کا جائزہ لینے کے لیے مصر کو موضوع مطالعہ بنایا گیا ہے۔ مصر اور بعض دوسرے مسلم ملکوں میں اہل مغرب نے اپنی فکریات کے ساتھ سب سے زیادہ منظم اور سب سے پہلے حملہ کیا۔ کتاب کے مندرجات چشم کشا ہیں اور ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران مصر میںتحریکِ نسواں کن اسالیب میں جدید عربی ادب و فکر پراثرانداز ہوئی۔ اس پھیلے ہوئے موضوع کو تحقیقی شعور اور محنت کے ساتھ یکجا کر کے پیش کرنا ایک اعلیٰ درجے کی دینی اور علمی خدمت ہے‘ جس پر مصنفہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔
ڈاکٹر سطوت ریحانہ کا یہ مقالہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنے ہی وطن کی کہانی پڑھ رہے ہوں۔ فرانسیسیوں نے اٹھارھویں صدی میں مصر کی مسلم عورت کو ترغیب و تحریص سے کوچہ و بازار میں لانے کی کوشش کی تھی‘ یہی صورت ہمارے گردوپیش بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے فرانسیسیوں اور پھر انگریزوں کے زیراثر عورت کو معاشی زندگی اور نام نہاد کلچرل میلوں اور تماشوں کا ایک طاقت ور حصہ بنانے کی جو طرزِ رنگ و طرب ایجاد کی گئی تھی‘ اُس نے ڈیڑھ سو سال میں مصر کے معاشرے اور مصری عورت کو کون سا اعلیٰ مقام دیا کہ جس سے وہ باقی مسلم دنیا میں محروم ہے؟ دوسرے یہ کہ اس عمل سے مصر سائنس اور معاشی و عسکری یا تہذیبی ترقی کے کس اوجِ کمال پر پہنچا ہے کہ جس پر پاکستان کا طبقۂ نسواں حسرت اور محرومی میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے؟
زیرتبصرہ کتاب کے آغاز میں آزادیِ نسواں کی یورپی تحریک اور مصر میں اس تحریک کے خدوخال کا تحقیقی موازنہ پیش کیا گیا ہے۔ پھر مصر میں تحریکِ نسواں کی ۱۴ مرکزی شخصیات (۱۱ مرد اور ۳ خواتین) کا تذکرہ اُن کے افکار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریکِ نسواں پر اثرانداز ہونے والی ۱۰ کتب کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
پانچویں باب میں آزادیِ نسواں کے مثبت اور منفی پہلوئوں کے بارے میں چند مصری شعرا کا کلام پیش کیا گیا ہے مگر اس کے اُردو ترجمے کی عدم موجودگی سے غیر عربی دان قاری محرومی کا شکار رہتا ہے۔ آخری باب: ’’حقوق نسواں اور اسلام‘‘ میں تحریکِ نسواں کے موضوع پر اسلام کے حقیقی منشا کو پیش کیا گیا ہے جو متوازن اور مدلل وضاحت کے ساتھ ایک قیمتی دعوت فکرہے۔ اسلامی روایت سے وابستہ علمی دنیا میں فاضل مصفہ کی آمد ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ (س - م - خ)
مصنف کو بلوچستان کی تاریخ‘علوم و فنون اور شعروادب کے مختلف پہلوئوں پر تخصص کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ علامہ اقبال اور بلوچستان نام کی ایک کتاب شائع کرچکے ہیں (علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد‘ ۱۹۸۶ئ‘ صفحات ۲۱۶)۔ مذکورہ کتاب زیادہ تر علامہ اقبال کے حوالے سے لکھی گئی تھی‘ مگر زیرنظر کتاب قدرے مختلف نوعیت کی ہے۔
اس کتاب میں سرزمین بلوچستان میں اقبالیات کی روایت کا آغاز اور اقبالیاتی اداروں کی سرگرمیوں‘ فکرِاقبال کی توضیح و تشریح کرنے والے مصنفین‘ کلامِ اقبال کے بلوچی اور براہوی مترجمین‘ اقبال کے مقلّد شعرا‘ بلوچستان کے کالج میگزینوں میں ذخیرئہ اقبالیات‘ بلوچستان میں منعقد ہونے والی اقبالیاتی تقاریب اور متعدد دوسرے پہلوئوں سے اس روایت کا ارتقا اور موجودہ صورتِ حال کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی‘ علمی اور ادبی حلقوں میں علامہ اقبال کی شاعری اور اُن کے فکر کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
خود مصنف نے فروغِ اقبالیات میں بے حد سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ انھوں نے اقبال کی شاعری اور فکر پر اپنے تنقیدی و توضیحی مضامین کے دو مجموعے (اقبالیات کے چند خوشے۔ مردِ حر) شائع کرنے کے علاوہ مصنفین بلوچستان کے اقبالیاتی مضامین کے کئی مجموعے بھی مرتب کیے ہیں۔ چنانچہ بلوچستان میں فروغِ اقبالیات کے ضمن میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کی زیرنظر کاوش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلوچستان میں اقبالیات کی تاریخ لکھی جائے گی تو ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی زیرنظر اور متذکرہ بالا کتابیں اس ضمن میں ایک اہم حوالہ اور ماخذ ہوںگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام سلسلۂ نبوت و رسالت کی وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں جن کو خلیل اللہ (اللہ جل شانہٗ کے دوست) اور حنیف (سب سے کٹ کر ایک اللہ کے ہوجانے والے) کے مہتم بالشان لقب ملے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انھیں ہی سونپی تھی اور ان کو دنیا کا امام و پیشوا بنایا تھا۔ وہ ابوالانبیا یا جدالانبیا بھی تھے کہ ان کے بعد آنے والے تقریباً سبھی نبی اور رسول (بشمول خاتم الانبیا والمرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) انھی کی اولاد سے تھے۔ قرآنِ حکیم کی ۲۵ مختلف سورتوں میں اُن کا ذکر آیا ہے اور چودھویں پارے میں ایک مستقل سورہ (ابراہیم) بھی ان کے نام کے ساتھ موجود ہے۔ قرآنِ حکیم کے علاوہ تفسیر‘ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
زیرنظرکتاب ان کتابوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ فاضل مؤلف نے اس میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوانح حیات بڑی تحقیق و تفحص کے ساتھ قلمبند کیے ہیں وہاں ان سے پہلے تباہ ہونے والی قوموں (قومِ نوح‘ ثمود) کی تباہی کا پس منظر بھی اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کے سیاسی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور مذہبی حالات کا خاکہ بھی انھوں نے بڑی عمدگی سے کھینچا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی مقامات پر ملّت ِ ابراہیم اور اسوئہ ابراہیم کا تذکرہ ہوا ہے۔ فاضل مؤلف نے کتاب کے دو ابواب میں ان کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بنایا ہے اور ملّت ابراہیمی اور اسوئہ ابراہیمی پر نہایت بلیغ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش بڑا شگفتہ اور سلجھا ہوا ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب لکھ کر انھوں نے ایک قابلِ قدر دینی خدمت انجام دی ہے۔ (طالب الہاشمی)
قرآن فہمی کی تحریک کو گذشتہ کچھ عرصے سے بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک موثر کوشش ہے۔ مولف موصوف مدینہ یونی ورسٹی کے فاضل اور پنجاب یونی ورسٹی میں استاد ہیں اور ایک عرصے سے قرآن اور زبانِ قرآن کی تدریس میں مصروف ہیں۔ اس کتاب میں عربی زبان کی تفہیم کے لیے آسان ترین انداز اختیار کیا گیا ہے۔ عربی قواعد کے پیچیدہ اصولوں کو مختلف علامات کی صورت میں پیش کر کے اس کا ترجمہ کرنا انتہائی سہل بنا دیا گیا ہے۔ اُردو دان طبقے کے لیے تفہیم زبان قرآن کے اس انداز کو براہِ راست طریق تفہیم (direct method) قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس طریقے سے روایتی عربی گرامر سیکھنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ان علامات کی تفہیم و استعمال میں بھی بعض اصول مدنظر رکھنا ضروری ہیں‘ مثلاً: کسی ایک علامت کا استعمال اگر اسم کے ساتھ ہو تو معنی اور ہوتا ہے‘اور اگر فعل یا حرف کے ساتھ ہو تو ترجمہ مختلف ہوجاتا ہے (ص ۲۵- ۳۰‘ ۳۳‘ ۴۷ وغیرہ)۔ بعض علامتیں الفاظ کے شروع میں آئیں تومعنی اور ہوتا ہے اور لفظ کے آخر میں وہی علامت آنے سے معنی میں فرق پڑجاتا ہے (ص ۲۹)۔ اسی طرح بعض علامتوں کے ایک جیسے استعمال میں بھی مختلف مقامات پر معانی مختلف ہوتے ہیں (ص ۵)۔ اسی طرح علامات کی پہچان اور استعمال میں بھی کہیں کہیں مشکل کا احساس ہوتا ہے۔ مولف نے جابجا نوٹ دے کر وضاحت بھی کی ہے۔
زبان قرآن کی تفہیم کے لیے مذکورہ کتاب سے زیادہ آسان اور مفید کتاب شاید اب تک موجود نہیں تھی۔ جس کے لیے مؤلف اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ طباعت معیاری ہے اورقیمت کم ہے۔ اُمید ہے کہ اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ کتاب ایک مفید اور پُراثر کوشش ثابت ہوگی۔ (محمد حماد لکھوی)
سید معروف شاہ شیرازی معروف عالم دین اور دینی مصنف ہیں۔ فہم قرآن ان کی دل چسپی کا خاص موضوع ہے۔ سید قطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کا اردو ترجمہ عربی زبان و ادب پر ان کی دسترس کا عکاس ہے۔
زیرنظر کتاب صوبہ سرحد میں نفاذِ شریعت کے سلسلے میں ان کی فکرمندی کی آئینہ دار ہے۔ شرعی قوانین کی روشنی میں دورِحاضر کے تقاضوں کا جائزہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کتاب میں ان مسائل کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جو صوبہ سرحد کی اسلامی حکومت کو درپیش ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کتاب شرعی اصلاحات کے بارے میں ان کی تجاویز پرمشتمل ہے جو مصنف صوبہ سرحد کے ارباب اختیار کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ ان تجاویز میں درس نظامی اور جدید نظام تعلیم کے اشتراک‘ مسجد مکتب اسکول‘ نئے نظام تعلیم کی درجہ بندی اور نئے نصاب کی تشکیل کے بارے میں مشورے دیے گئے ہیں۔ اسی طرح زرعی شعبے میں ممکنہ تبدیلیوں اور محکمہ خزانہ کے حوالے سے امانت گھروں اور شراکتی بنک کے قیام‘ عشروزکوٰۃ‘ مقامی صنعتوں کی ترقی اور واپڈا کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔ اسلام کے تعزیراتی اور عائلی قوانین‘ قانونِ وراثت اور دیوانی قانون کے نفاذ کی بابت بھی چند تدابیر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ تجاویز خاصی عرق ریزی سے مرتب کی گئی ہیں۔
پہلے باب میں اسلامی ریاست کے ماڈل‘ اس کے اختیارات‘ بنیادی اداروں‘ جمہوریت اور اسلام کے شورائی نظام پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب (نظامِ تعلیم) میں ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے جو نج کاری کے نام سے تعلیمی میدان میں این جی اوز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے نتیجے میں ہمارے نظامِ تعلیم کو درپیش ہیں۔ تیسرے باب میں مختلف صوبائی محکموں کے بارے میں مفید تجاویز دی گئی ہیں۔ آخری باب میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں اسلامی قوانین کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)