جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مالیاتی نظم و ضبط اور بجٹ سازی

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۰۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

قومی بجٹ کسی بھی ملک کی اہم ترین دستاویزات میں سے ایک ہوتا ہے۔ یہ محض آمدنی  اور خرچ کا بیان نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی معیشت کی اقتصادی و مالیاتی صورت حال کا آئینہ دار اور  اس حوالے سے حکومت کی پالیسیوں کا مصدقہ بیان ہوتا ہے۔ ’’میگنا کارٹا‘‘ سے لے کر جدید جمہوری مملکتوں کے ابھر کر سامنے آنے تک‘ یہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے کہ قومی خزانے کو استعمال

  • انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی ٹاسک فورس نے پروفیسر خورشیداحمد کی رہنمائی میں بجٹ کا جو جائزہ تیار کیا ہے‘ یہ نوٹ اس کا حصہ ہے۔ (ادارہ)

کرنے کے اختیار کو کس طرح منضبط کیا جائے اور اس کی کیسے نگرانی کی جائے۔

اسلامی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو بیت المال کا انتظام چلانے والوں کا عوامی احتساب‘ اسلامی معاشیات کا سب سے اہم اصول رہا ہے۔ اسلام نے اول روز ہی سے اجتماعی اور ریاستی وسائل کے لیے امانت‘ ذمہ داری اور ایک باقاعدہ نظام کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ جمہوری نظام بھی ’’قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہ لینے‘‘ کے اصول کی توقع کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ صرف پارلیمنٹ کو مملکت کی آمدن اور خرچ کی اجازت دینے اور اس کی نگرانی کا اختیار حاصل ہے‘ تاہم بادشاہت‘ سامراجی یا آمرانہ حکومتوں میں انتظامیہ ہی پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کو نظرانداز کر کے بجٹ کنٹرول کرتی ہے۔ برطانوی دور میں جب منتخب نمایندوں کو بجٹ پر بحث کرنے کی سہولت (luxury) حاصل تھی‘ اصل اختیار انتظامیہ کے پاس تھا جو اس وقت غیر ملکی حکمرانوں پر مشتمل تھی۔

بدقسمتی سے آزادی کے بعد بھی یہی صورت حال چل رہی ہے۔ جہاں تک فنانس بل کا تعلق ہے‘ پاکستان کے تینوں آئین بھی اسی فریم ورک میں ہیں‘ جو ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں دیا گیا تھا۔ اس فریم ورک کا اہم پہلو اخراجات کی charged (وضع شدہ) اور non-charged (غیروضع شدہ) میں تقسیم ہے۔ وہ اخراجات جو دفاع‘ قرض اور اداے قرض اور مرکز یا صوبوں دونوں میں چند ایک اہم سرکاری اداروں (صدر‘ گورنر اور عدلیہ وغیرہ) سے متعلق ہیں charged اخراجات کی ذیل میں آتے ہیں۔ بجٹ کا یہ حصہ جو اس وقت کل بجٹ کے     ۵۰ فی صدسے زائد ہے مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے اور پارلیمنٹ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ بجٹ کے اس حصے کے لیے پارلیمنٹ کے ووٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ جہاں تک باقی امور کا تعلق ہے‘ اگرچہ ان میں کٹوتی کی تحریکوں کی اجازت ہے‘ لیکن یہ محض علامتی اور عوام کو خوش کرنے والی اجازت ہے۔ ایک عام تصور یہ ہے کہ کوئی بھی کٹوتی کی تحریک جس کو حکومتی جماعت کی حمایت حاصل نہ ہو‘ وہ عدم اعتماد کے ووٹ کے مترادف ہے۔ اس لیے ایک بھی ایسی مثال نہیں دی جاسکتی جب کٹوتی کی تحریکوں سے بجٹ میں کوئی حقیقی تبدیلی آئی ہو۔ اس طرح بجٹ سازی کا عمل محض ایک دکھاوا‘ شو پیس اور رابطہ عوام کی مشق بن کر رہ گیا ہے اور مملکت کے مالیات پر عوام یا ان کے نمایندوں ‘یعنی پارلیمنٹ کا کوئی کنٹرول نہیں۔

دوسرا پہلو بجٹ سازی کے عمل سے متعلق ہے۔ دنیا کے زیادہ تر جمہوری ممالک میں بجٹ سازی چار سے چھ ماہ کے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں اور انتظامیہ کی طرف سے تجاویز آتی ہیں۔ برطانیہ میں Ways and Means Committe بجٹ کے بنیادی خصائص سامنے آنے سے قبل چار مہینے اجلاس کرتی ہے۔ بجٹ بند کمروں میں نہیں بنائے جاتے۔ حتیٰ کہ اگلے تین سے آٹھ سال کے ٹیکس پروگرام بھی سامنے لائے جاتے ہیں اور ان پر عام بحث کی جاتی ہے۔ ایس آر او (قانونی باضابطہ حکم نامہ ہے) اور مالیاتی قانون سازی کسی اور ذیلی ادارے کو تفویض کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ہر چیز کافیصلہ پارلیمنٹ کی بحث اور کانٹ چھانٹ کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں انتظامیہ ہی بجٹ بناتی ہے اور یہ پارلیمنٹ میں عملاً ایک طے شدہ دستاویز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔پہلے پارلیمنٹ کو بجٹ پر بحث کرنے اور ووٹ کے لیے تین سے چار ہفتے دیے جاتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اس کا بھی اہتمام نہیںکیا۔ ۷ جون ۲۰۰۳ء کو بجٹ پیش کیا گیا ہے اور پانچ دن میں منظور کرلیا گیا۔ یہ بجٹ پر پارلیمنٹ کی نگرانی کا تمسخر ہے۔ بجٹ سازی کے سارے عمل کو جمہوری بنانے کے لیے ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں انتظامیہ آئین کے تقاضوں پر کم ہی توجہ دیتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل ۱۶۰ اس کو ضروری قرار دیتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کی حدود (parameters)طے کرنے کے لیے نیشنل فنانس کمیشن ہونا چاہیے۔ آئین اس کو ضروری قرار دیتا ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن کی ہر پانچ سال بعد تشکیل نو کی جانی چاہیے اور بجٹ اس کے طے کردہ حدود کے اندر بنایا جانا چاہیے۔ فنانس کمیشن کی میعاد ۲۰۰۲ء میں ختم ہو گئی تھی۔ حکومت نے چھ ماہ ضائع کر دیے ہیں اور ابھی تک اسے تشکیل نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سال ۰۴-۲۰۰۳ء کا بجٹ ۱۹۹۷ء کے ایوارڈ کی روشنی میں بنایا گیا ہے جوکہ آئینی طور پر منسوخ ہو چکا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل ۱۶۱ اور ۱۶۲ کی دفعات کی پیروی بھی معقول طریقے سے نہیں کی جا رہی۔ آرٹیکل ۱۶۶ بھی فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی پڑتال کے بعد وفاق کے قرض لینے کے اختیار اور پارلیمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس کی حدود طے کرنے کے بارے میں بہت اہم سوال اٹھاتا ہے۔ آئین کے اس تقاضے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جیسے فنانس بل کی منظوری اس آرٹیکل کے تقاضے کو بطور امر واقعہ پورا کر دیتی ہے‘ جوکہ صحیح نہیں ہے۔

ان نکات کی روشنی میں بجٹ سازی کا عمل اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کی نگرانی اور عوامی نمایندوں کے سامنے احتساب دہی کے انتظامات پر نظرثانی اور ان کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔