جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جولائی ۲۰۰۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

حکیم شریف احسن  ‘فیصل آباد

ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے اپنے فکرانگیز مقالے، ’’وقت: اسلامی تصورات‘‘ (جون ۲۰۰۳ئ) میں وقت کے چار نظام بتائے ہیں: ۱- نظام قبل تخلیق‘ ۲- نظام بعد تخلیق تاقیامت ‘۳- نظام جو قیامت کی گھڑی سے قائم ہوجائے گا‘ ۴- نظام جو اس وقت قائم ہوگا جب لوگ دوبارہ اٹھا کر زندہ کیے جائیں گے (ص ۵۶)۔ راقم کے خیال میں ان کے علاوہ ایک اور نظامِ وقت بھی ہے جو ان چاروں میں سے کسی کے تحت نہیں آتا۔ یہ عالمِ برزخ کا نظامِ وقت ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’ان کے (مرنے والوں کے) آگے برزخ (پردہ) ہے۔ اس دن تک کے لیے جب وہ اٹھائے جائیں گے‘‘ (المومنون ۲۳:۱۰۰)۔ اس آیت میں مرنے کے بعد سے نفخ صور تک دوبارہ اٹھائے جانے تک کے عالم کو عالمِ برزخ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پس پردہ عالم کے وقت کے بارے میں شاید ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی حقیقت‘ نظام اور پیمانے وہ نہیں جو اس دنیا کے وقت کے ہیں۔


ظفرالمومن  ‘کراچی

’’امریکی اور برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) میں معاشی مقاطعے کو احتجاجی حربے کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ صائب اور اہم ہے۔ گو اس معاملے میں احساس بہت دیر سے ہوا ہے مگر شکر ہے کہ ہوا تو ہے۔ صورتِ حال یوں ہے کہ پاکستانی مصنوعات مارکیٹ میں جب اپنی ساکھ بنا لیتی ہیں اور برانڈ قبولِ عام حاصل کرلیتا ہے تو انھیں ملٹی نیشنل کمپنیاں خرید لیتی ہیں۔ تازہ مثال رفحان کارن آئل کی ہے۔ اس کمپنی کو لیوربرادرز نے خرید لیا ہے۔ سامراجیت پہلے براہِ راست قبضہ کر کے ملکوں کو غلام بنا کر لوٹنے کا اہتمام کرتی تھی‘ اب بالواسطہ زیادہ موثر طریقے سے اُن ملکوں کی معیشت کو نچوڑ کر‘ خوش حالی کو گھسیٹ کر ترقی یافتہ ملکوں میں لے جانے کا بندوبست کرتی ہے۔لہٰذا محض مقاطعہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اُن کے مقابلے میں بہتر اور نسبتاً ارزاں مصنوعات تیار کر کے بہتر پیکنگ میں پیش کرنی چاہییں۔


اے مراد لعل  ‘ چترال

’’امریکی برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ‘‘ (مئی ۲۰۰۳ئ) خوب ہے۔ جہاں تک مصنوعات کے بائیکاٹ کا تعلق ہے تو ہماری ملکی مصنوعات کا معیاری ہونا بھی ضروری ہے تاکہ صارفین راغب ہو سکیں۔


عبدالرشید صدیقی  ‘برطانیہ

’’صحابہؓ: سرورعالمؐ کے مجسم معجزے‘‘ (مارچ ۲۰۰۳ئ) میں صحابہ کرامؓ کی فضیلت کے سلسلے میں یہ حدیث بھی نقل ہوئی ہے:  اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم’’میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جسے بھی تم پیشوا بنا لو ہدایت پا لوگے‘‘۔ اگرچہ یہ ایک معروف حدیث کے طور پر روایت کی جاتی ہے لیکن اکثر محدثین کے نزدیک یہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث ہے۔ مولانا صہیب حسن کی تحقیق اس حدیث کے بارے میں یہ ہے کہ ’’یہ ایک ضعیف یا موضوع حدیث ہے جسے احمد بن حنبلؒ، ابن عبدالبرؒ، البزارؒ اوردیگر لوگوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ اس کی نہ صرف سند میں علت ہے بلکہ یہ حدیث درج ذیل وجوہ کی بنا پر صحیح قرار نہیں دی جاسکتی۔ اول: صحابہ کرامؓ معصوم عن الخطا نہیں ہیں اور ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ ان میں کسی ایک کی اتباع سے ہدایت حاصل ہوجائے گی۔ دوم: ان کی مشابہت ستاروں سے کرنا بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ہر ستارہ منزل کی رہنمائی نہیں کرتا‘‘۔   یہ اقتباس ان کی انگریزی کتاب  An Introduction to The Science of Hadith سے پیش کیاگیا ہے۔ خیال رہے کہ احادیث کی روایت میں ان کی صحت کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔


ذوالفقار مہدی  ‘کراچی

ملکی سطح پر ایک معیاری تھنک ٹینک کی ضرورت پر مختلف حلقوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً زوردیا جاتا رہتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ دفاع‘معیشت‘ امورخارجہ اور شریعت کے مختلف ماہرین کے تھنک ٹینک قومی سطح پر قائم کرنے کی کوشش تحریکی سطح پرکی جائے اور ملک بھرکے ماہرین سے رابطہ کر کے انھیں ان میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ متحدہ مجلس عمل میں ملک کی تمام دینی قوتوں کو شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے تاکہ تمام محب وطن اور اسلام پسند قوتوں کو متحد کر کے استحکامِ پاکستان اور نفاذ شریعت کے لیے بھرپور جدوجہد کی جا سکے۔


سیدظفراحمد  ‘سعودی عرب

ترجمان القرآن کی اشاعت کا مقصد قاری کی فکری رہنمائی و تربیت کرنا ہے‘ تاہم یہ متعین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی علمی جرنل ہے یا اسلامی ڈائجسٹ۔ اگر پہلی چیز ہے تو اس میں سے بہت سی چیزیں نکالنی پڑیں گی۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے حلقے سے باہر کے علماے کرام کے بڑے اچھے مضامین پڑھنے کو مل جاتے تھے‘ یہ سلسلہ بھی جاری رہنا چاہیے۔


ظفراقبال سعید  ‘ کراچی

اب تو تحقیقی اور ریسرچ کے مقالے بھی آسان زبان اور سادہ الفاظ اور عام فہم اسلوب میں لکھے جارہے ہیں اور پسند کیے جاتے ہیں۔خرم مراد صاحب کے انداز کو اپنایئے۔ کیسا بڑا مسئلہ‘ کتنی دقیق اور فکری بات وہ کتنی آسانی کے ساتھ مختصر جملوں‘ سادہ الفاظ اور رواں قلم کے ساتھ لکھ جاتے ہیں۔ کہیں بات کو پھیلایا نہیں جاتا‘ آسان رکھتے ہیں۔ قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور فکر رکھتے ہیں کہ وہ بات سمجھ رہا ہے۔  مشکل الفاظ اور گنجلک اندازِ بیان سے آپ کی قابلیت اور صلاحیت کا رعب نہیں بنتا! خدارا  ترجمان القرآن کو طاق میں رکھنے والی چیز نہ بنائیں۔ وہ بھی ۵‘ ۱۰ طاقوں کے لیے!


ضیا شاہد ‘ کراچی

شہرکے اہم اور مرکزی چوراہوں پر بڑے بڑے بورڈوں پر مختلف کمپنیوں کے انتہائی شرم ناک اور فحش تصاویر سے مزین اشتہارات عامۃ الناس کے اندر سے رفتہ رفتہ برائی کے احساس کو بتدریج کم کر رہے ہیں۔ اشتہاربازی ہمارے معاشرے میں اس کیفیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ فیشن پرستی‘تعلیم براے معاش اور پُرتعیش زندگی کا حصول‘ یہ سب مادہ پرستی کے شاخسانے ہیں۔ روس جیسے بے دین ملک میں اشتہار بازی پر محض اس لیے پابندی تھی کہ وہاں مادی زندگی کی دوڑ نہ لگ جائے اور معیشت پر بُرا اثر نہ پڑے۔دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا پرستی اور حصولِ دنیا کی خواہش نے دل سے آخرت کی فکر کو نہ صرف ختم کر دیا ہے بلکہ ہم کو اسلامی تہذیب سے بھی بہت دُور کر دیا ہے۔ اخبارات دیکھ لیجیے۔ شیخ رشیدصاحب فرما رہے ہیں: ’’سائن بورڈ ہٹانا اسلام نہیں ہے‘‘۔ تو پھر اسلام کیا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتا دیجیے۔ ہمارے نزدیک تو اسلام یہ ہے کہ ’’جہاں برائی ہوتے دیکھو اسے روکو۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تو دل سے برا جانو کہ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔


شاہدہ پروین ‘ لاہور

مجھے وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے بطور مندوب قومی سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے    اسلام آباد جانے کا موقع ملا۔ محکمے کی جانب سے نہایت اعلیٰ پیمانے پر انتظامات کیے گئے تھے اور ہر طرح سے آسایشیں مہیا کی گئیں۔ وزارتِ مذہبی امور گذشتہ ۲۷ سال سے ایک کثیر رقم ہر سال اس مد میں خرچ کر رہی ہے۔ اسی دن سیرت کانفرنس کے اختتام پر لوگوں کوگردنیں پھلانگ پھلانگ کر لذت کام و دہن پر گرتے دیکھا۔ ایک دن کے لیے بھی ایثار کا عملی مظاہرہ نظرنہ آسکا‘ جب کہ یہ اس ہادی و رہنماؐ کے ذکر کی مجلس تھی جو ایثار و قربانی کا مجسم پیکر تھا‘ جس نے پیٹ پر پتھرباندھے تھے اور کئی کئی ماہ اس کے گھرکا چولہا ٹھنڈا رہتا تھا۔ ہم خوب صورت باتیں سنتے ہیں اور بھلا دیتے ہیں‘ اچھے لفظ لکھتے ہیں اور مٹا دیتے ہیں۔ ہمارا عمل محض چند محافل کے انعقاد تک رہ گیا ہے۔ یہ بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اتنی کثیر رقم کے استعمال کا کیا حاصل ہے‘ جب کہ یہ اس ملک کے خزانے سے خرچ کی جا رہی ہے جس نے اغیار سے کشکولِ قرض بھروانے کے لیے اپنی خودی بھی دائوپر لگا رکھی ہے۔


محمد صہیب عمر  ‘ کراچی

ماہنامہ تدریس القرآن (کراچی) میں چند ایسے امور کی طرف اشتہار کے ذریعے توجہ دلائی گئی ہے کہ دل چاہا کہ آپ کے قارئین تک پہنچائوں۔ ۱-ائمہ کرام جمعہ کے دن خطبے سے پہلے کی تقریر ایک ایک گھنٹہ کرنے کے بجائے صرف ۱۵‘ ۲۰ منٹ کریں کہ اسی وقت حاضری ہوتی ہے۔ ۲- شادی میں کھانا اول وقت کھلا دیا جائے کہ صحت کے لیے بھی بہتر ہے اور بارہ ایک بجے گھر پہنچ کر فجر کی نماز بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ۳- مغرب کی اذان اور نماز میں (سعودی عرب کی طرح) پانچ سات منٹ کا وقفہ دیا جائے تو بہت سے لوگوں کی رکعتیں اور تکبیر تحریمہ ضائع ہونے سے بچ جائیں گی۔ اگر آپ کو کوئی بندۂ خدا اسپانسر کرے تو ان امور کی طرف معاشرے کو ضرور توجہ دلائیں۔