جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

خون کی ارزانی

مسلم سجاد | جولائی ۲۰۰۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

کسی دن کا‘کسی شہر کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں‘ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے متعدد واقعات نظر پڑتے ہیں۔ اگر سب خبریں ایک جگہ جمع کر دی جائیں تو نہایت ہولناک تصویر سامنے آتی ہے۔ پاکستانی کمیشن براے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)کے رسالے  جہد حق میں واقعات اور ان کے نمایندوں کی جو رپورٹیں ہر ماہ درج ہوتی ہیں‘ ان سے معاشرے کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ وہ ایسے معاشرے کا شہری ہے۔    مئی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں ۲۵ مارچ سے ۲۵ اپریل تک ۱۳۴ افراد کی خودکشی (یہ بھی قتل ہی کی ایک قسم ہے)‘ ۷۸ افراد کے اقدام خودکشی اور ۱۸ افراد کے کاروکاری پر قتل کی اطلاعات ہیں۔ یہ صرف ایک ماہ کے یقینا نامکمل اعداد و شمار ہیں۔ حال ہی میں امریکی رسالے ٹائم نے کراچی پر اپنے فیچر میں کسی پیشہ ور قاتل ایم آر کے اپنے بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ صاحب ہاتھوں سے گردن توڑ کر قتل کے ماہر ہیں اور فی قتل ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ لیتے ہیں اور بڑی شخصیات کا ریٹ ۱۰ لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اب میں یہ کام دوسرے لڑکوں کو sub contract کرتا ہوں اور ان سب کو مہینے دومہینے میں ایک "job" تو فراہم کرنا ہی ہوتا ہے (ٹائم‘ ۱۶ جون ۲۰۰۳ئ‘ ص ۲۹)۔ کراچی میں گذشتہ سال ۵۵۵ قتل ہوئے۔

یہ ہمارا معاشرہ ہے‘ مسلمانوں کا معاشرہ۔ اور صدی بھی اکیسویں ہے۔ ذرائع تفتیش کی ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ کسی قاتل کا چھپنا محال ہے۔ لیکن قاتلوں کو چھپنے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ آزادانہ پھرتے ہیں۔ ٹائم کی اس رپورٹ کے مطابق ایک قاتل صاحب کے اپنے بیان کے مطابق تھانے میں ان سے وی وی آئی پی سلوک ہوتا ہے۔

حکومت تو نام ہی جان‘ مال‘ آبرو کے تحفظ کا ہے (ہم فی الحال آبرو اور مال کی صورت حال پر بات نہیں کر رہے)۔ مسلمان کی جان تو اس طرح مقدس و محترم ہے جس طرح ذی الحجہ کا مہینہ‘ مکہ مکرمہ کاشہر‘ اور خانہ کعبہ کی عمارت۔ پھر یہ اتنی غیرمقدس‘ غیر محترم اور اتنی ارزاں کیوں ہوگئی ہے کہ دکاندار اور گاہک کے جھگڑے میں‘ دو دوستوں کی چپقلش میں‘ میاں بیوی کی لڑائی میں معمولی اشتعال پر‘ گواہیوں سے روکنے کے لیے‘اور نسل در نسل محض جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے بے تکلف لی جا رہی ہے۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہماری ایمانی حس کمزور ہوگئی ہے۔ جسے آخرت پر یقین ہو وہ کسی بے گناہ کی جان کیسے لے سکتا ہے۔ جس کے کان میں اذان دی گئی ہو‘ جسے کلمہ پڑھایا گیا ہو‘ قرآن پڑھنا سکھایا گیا ہو‘ نماز کی تعلیم دی گئی ہو‘ خدا اور رسولؐ کے احکامات بتائے گئے ہوں‘ وہ مسلمانوں کا نام رکھتا ہو‘ وہ کس طرح دوسرے کی جان لینے کا اقدام کر سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ بنیادی تعلیم صرف اسکولوں میں ہی نہیں‘ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہر خواندہ و ناخواندہ تک اس طرح پہنچائی جائے کہ ہر شہری‘ خصوصاً وہ طبقات اور لوگ جو مجرم و قاتل بننے کے زیادہ امکانات رکھتے ہیں‘ اس کا اثر لیں اور ان کی سوچ ایک خوف خدا رکھنے والے مسلمان کی سوچ بن جائے۔

اس کے باوجود بھی‘ شیطان کسی کو جرم کی راہ پر لگا سکتا ہے۔ معاشرے میں اجتماعی نظم اور حکومت جیسے ادارے اسی لیے قائم کیے جاتے ہیں کہ مجرم کو سزا ایک نظامِ قانون و عدل کے تحت دی جائے۔ ہمارے معاشرے میں یہ نظام ٹوٹ چکا ہے۔ حکومتی منصب رکھنے والے اور بااثر افراد قاتلوں کے سرپرست‘ پشتیبان اور ساتھی ہیں۔ عدالتی نظام بے اثر ہے۔ فریاد کی شنوائی نہیں۔عام تاثر ہے‘ غلط یا صحیح‘ کہ پولیس مجرموں کی پرورش کرتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تھانے ختم کر دیں‘ جرائم ختم ہو جائیں گے۔ جس علاقے میں نیا تھانہ قائم ہوتا ہے جرم کی فراوانی کا باعث بنتا ہے۔

حکومت کا فرض ہے کہ وہ صورتِ حال کی اصلاح کرے۔ جو حکومت اپنے شہریوں کو جان و مال اور آبرو کا تحفظ نہ دے سکے‘ اس کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مانٹیرنگ سیل قائم کر کے ‘ اشتہارات عام کے ذریعے دعوت دی ہے کہ پولیس اور قبضہ گروپوں کے خلاف شکایات لائی جائیں۔ یہ درست اقدام ہے۔لیکن یہ جب ہی موثر ہوگا کہ غلط کار کے خلاف کارروائی کی جائے‘ اور اس کارروائی کو خوب مشتہرکیا جائے کہ دوسروں کو کان ہوں۔ اس حوالے سے ہماری تجویز ہے کہ یہی مانٹیرنگ سیل ‘ یا اس طرح کا کوئی خصوصی شعبہ اخباری خبروںمیں سے قتل‘ عصمت دری اور ڈاکوں کی بعض واضح اور نمایاں خبروں کا انتخاب کرکے‘ موقع پر جاکر تحقیقات کرے۔ جرم ثابت ہو… اکثر سچائی چھپی نہیں رہتی--- تو موقع پر سزا ہو۔ جو غلط ہو تو اخبار کو تنبیہ کی جائے‘ جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح اخبارات میں جھوٹی اور بلیک میلنگ کے لیے شائع کی جانے والی خبروں کا سدباب ہوگا اور معاشرے کی حقیقی تصویر ہی سامنے آئے گی۔

اخبارات جرائم کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن سزا کی خبریں خال خال بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ اسلامی تصور میں تو سزا کا مظاہرہ عام ہے ہی اسی لیے کہ عبرت ہو اور مجرم ذہن کی حوصلہ شکنی ہو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام مجرموں کی نہ صرف پرورش کرتا ہے بلکہ انھیں معزز بناتاہے۔

معاشرے کے وہ افراد جو دوسروں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں‘ اور معاشرے کے قائد  کہے جاسکتے ہیں--- علما‘ ائمہ مساجد‘ برادریوں اورانجمنوں کے ذمہ دار‘ سیاسی جماعتوں کے عہدے دار --- ان سب کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے کہ عوام میں جان کے تقدس کے احساس کو عام کریں اور ایک ایسی مضبوط راے عامہ تیار کریں جو شہریوں کا تحفظ کرے اور حکومت کو بھی راہِ راست پر رکھے۔کسی سے ناراضی ہو‘ کسی سے حق لینا ہو‘ کسی نے ظلم کیا ہو‘ اس کے جواب میں جان لینا کسی طرح روا نہیں‘ یہ خود ایک نیا ظلم ہے۔ جان صرف وہی لی جا سکتی ہے جس کا اللہ نے حق دیا ہو: الا بالحق (یعنی قتل کے بدلے قصاص میں‘ زنا کے جرم میں‘ اور مرتد ہونے پر) اور وہ بھی قانون اور انصاف کے نظام کے تحت‘ محض اپنے من پسند طریقے سے نہیں۔ اس سلسلے میں شہریوں کی ایسی کمیٹیوں کا قیام بھی مفید ہوسکتا ہے جو نظام انصاف کی مددگار و معاون ہوں اور سرکار کی گرفت سے آزاد بھی ہوں۔

جب تک مجرم کو تحفظ حاصل ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ سزا سے بچ سکتا ہے‘ جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ حکومت‘ راے عامہ کے قائدین اور عوام کو مل کر ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہیے جس میں مجرم کو یقین ہو کہ کسی کو قتل کرکے‘ وہ بھاگ نہیں سکتا۔ اگر کسی کے اندر کا خوف خدا اسے قتل سے باز نہیں رکھ سکتا تو معاشرے کی گرفت کا یقین اسے باز رکھے گا‘ یا پھر وہ سزا پائے گا جو دوسروں کے لیے عبرت کا سامان ہوگی۔