اس پرچے سے ’’رسائل و مسائل‘‘ کے پرانے مستقل عنوان کا احیا کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے شعبۂ تنظیم کے ماتحت خطوط کے جو جواب مرکز سے دیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بے حد اہم ہوتے ہیں۔ ان میں تفسیربھی ہوتی ہے‘ فقہ بھی‘ فلسفہ بھی ہوتا ہے اور ادب بھی۔ ہم نے سوچا ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ صرف مستفسرین تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اسے عام تعلیم یافتہ طبقے میں پھیل جانا چاہیے…
سوالات کی عبارت کے متعلق ایک ضروری بات یہ یاد رکھیے کہ یہ ضروری نہیں کہ سوال بالکل مستفسرکے الفاظ میں لکھا جائے اور اس کی چند وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ جو لوگ زبان پر قدرت نہیں رکھتے ان کے خطوط میں بے ربطی سی ہوتی ہے‘ کسی خط میں تکرار پائی جاتی ہے اور کسی میں الفاظ کا مسرفانہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ اختصار اور ربط کے لیے سوال کی عبارت میں تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ البتہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ مستفسرکا پورا مدعا سامنے آجائے…
یہ خطوط اگر انفرادی طور پر محفوظ رکھے گئے تو دراصل غیرمحفوظ ہوں گے۔ لیکن اگرانھیں ترجمان القرآن میں شائع کر دیا گیا تو یہ ایک مستقل تاریخی سرمایے کی حیثیت سے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچ سکیں گے۔ اور آنے والے عہد کا مورّخ‘ موجودہ دور کے مسلمانوں کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے ان خطوط سے بڑی مدد لے سکے گا‘ نیز وہ اُس فکری ارتقا کی سب سے بڑی کڑی کو پورے طور پر سمجھ سکے گا جو مسلمانانِ ہند کی سیاسی زندگی کی تشکیل کر رہا ہے۔ پھر یہ خطوط مستقبل کے ان فقہا کے لیے بھی مفید ہوں گے جو مجتہدانہ انداز سے اسلامی اصولوں کو حالاتِ حاضرہ پر منطبق کرنے کے لیے فقہ کی جدید تدوین کی ہمت کریں۔ (’’اشارات‘‘ ، نعیم صدیقی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۳‘ عدد ۱-۲‘ رجب و شعبان ۱۳۶۲ھ‘ جولائی ‘ اگست ۱۹۴۳ئ‘ ص ۵-۶)