ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | جولائی ۲۰۰۳ | یاد رفتگان
ابن فرید کے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر سید عبدالباری‘ جو خود بھی ایک معروف ادیب‘ شاعر اور نقاد ہیں اور ان دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامے پیش رفت کے مدیر ہیں‘ اُن کی رسمِ تدفین میں شریک رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن فرید کا جسدِخاکی علی گڑھ سے ان کے آبائی وطن ظفر پور نزد ست رکھ (ضلع بارہ بنکی) لے جایا گیا اور علم و ادب کے اس تابناک پیکر کو ۹مئی ۲۰۰۳ء کو نمازِ فجرکے بعد’’ایک پُرفضا وادی میں چڑیوں کی چہکار‘ مور کی چنگاروں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان‘‘ ان کے آبائی قبرستان میں ان کی رفیقۂ حیات کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی اہلیہ امّ صہیب‘ رام پور سے خواتین کا ماہنامہ حجاب نکالتی تھیں۔ آخری زمانے میں ابن فرید‘ حجاب کے ادارتی اور انتظامی امور میں‘ اہلیہ کے شریک و معاون رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں امّ صہیب کا انتقال ابن فرید کے لیے‘ غیرمعمولی طور پر صدمہ انگیز ثابت ہوا۔ انھوں نے نومبر ۲۰۰۲ء میں حجاب بندکرنے کا اعلان کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد‘ ڈاکٹر سیدعبدالباری کو رام پور بلا کر‘ اپنی دو درجن کتابوں کے مسودے ان کے حوالے کیے--- انھیں ہدایت کی کہ وہ ان کا نہایت محنت اور ذوق و شوق سے جمع کردہ ہزارہا اُردو اور انگریزی کتابوں اور رسالوں کا بیش قیمت ذخیرہ دہلی لے جا کر‘ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کردیں۔ لگتا ہے آخری زمانے میں وہ سفرآخرت کی تیاری میں تھے: ’’انشا جی‘ اٹھو اب کوچ کرو‘‘۔
ڈاکٹر ابن فرید اُردو کے معروف ادیب‘ صاحب ِ طرزافسانہ نگار‘ اعلیٰ درجے کے محقق اور نقاد تھے۔ تحریک اسلامی ان کی روح اور فکر میں بسی ہوئی تھی۔ انھوں نے مغرب زدہ فحش اور بے ہودہ ادبی رجحانات کی تاریکی میں تعمیری ادب کا چراغ روشن کیا۔ وہ ادارئہ ادب اسلامی‘ ہند کے بانی صدر تھے۔ مختلف اوقات میں کئی علمی اور ادبی پرچوں (دانش‘ معیار‘ نئی نسلیں‘ ادیب اور انڈین جرنل آف سوشل سسٹم) کے مدیر رہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم تھے۔ کئی برس تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر رہے‘ ایک مختصر عرصے کے لیے اسلامی درس گاہ رام پور میں اور چار سال (۱۹۸۴ئ-۱۹۸۸ئ) ملک عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔
وہ ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو ظفرپور‘ ضلع بارہ بنکی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ضلع بارہ بنکی کے تعلق داروں میں سے تھے اور ننھیال بھی تعلقدار تھے مگر ابن فرید اس تعلقدارانہ حسب و نسب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار اور کثیرالعیال تھے۔ ابن فرید اور اُن کے دو بھائی میٹرک‘ ہائی اسکول کے مرحلے تک پہنچے تو ایک دن والد نے سب کو جمع کرکے کہا: ’’تم گیارہ بھائی بہن ہو‘ میں تم سب کو کیسے پڑھائوں؟‘‘ ابن فرید نے برجستہ کہا:’’ابو‘ میں ہائی اسکول سے آگے نہیں پڑھوں گا‘ اگر مجھے پڑھنا ہوگا تو اپنے طور پر پڑھوں گا‘‘۔ چنانچہ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے ساری تعلیم اپنے وسائل سے حاصل کی۔ اُن کی باقی زندگی اس خوددارانہ اور پرعزم جدوجہد کی سبق آموز داستان ہے۔
وہ میٹرک کے فوراً بعد لکھنؤ کے ملٹری ریکارڈ آفس میں کلرک ہوگئے۔ پھر رائل انڈین فورس میں ایئرمین ہوگئے۔ یہ ملازمت دنیاوی اعتبار سے بہت اچھی تھی مگر ابن فرید کو رہ رہ کر خیال ستاتا تھا کہ اس طرح میں عمربھر ’’غیرتعلیم یافتہ‘‘ ہی رہوں گا۔ چنانچہ تین سال بعد‘ اس ملازمت سے جان چھڑائی اور دوبارہ بارہ بنکی میں کلرکی اختیار کی اور اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر پہلے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کیا۔ کلرکی کے کام سے انھیں بڑی الجھن ہوتی تھی۔ کہتے ہیں: ’’کلرکی سے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں اپنی زندگی کو سوکھے چمڑے کی طرح چبا رہا ہوں‘‘۔
حالات قطعی سازگار نہیں تھے لیکن اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کے جذبے نے انھیں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد پر اُکسایا۔ علی گڑھ جا کر ایم اے نفسیات میں داخلہ لے لیا اور ایک مرحلے پر امتحانی داخلے کی فیس فراہم کرنے کے لیے بیوی کا زیور رہن رکھنا پڑا۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے نفسیات‘ انگریزی ادب اور عمرانیات میں ایم اے کیا۔ یکم اگست ۱۹۷۳ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ عمرانیات میں لیکچرر ہوگئے۔ ۱۹۷۶ء میں عمرانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ابن فرید اپنی افتادِ طبع میں ایک کھرے‘ سچے اور ایک خوددار انسان تھے۔ بہت اچھی صلاحیتوں کے باوجود‘ انھیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے غیرمعمولی جدوجہد کرنی پڑی۔ ابن فرید کو خوشامد اور چاپلوسی سے نفرت تھی۔ مصلحت اندیشی کے وہ قائل نہ تھے اس لیے علی گڑھ یونی ورسٹی کی جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ ہمیشہ اجنبی اور تنہا (alien)رہے۔ وہ ۱۶ سال تک شعبۂ عمرانیات سے منسلک رہے۔ اتنے سالوں میں لوگ پروفیسراور صدر شعبہ ہو جاتے ہیں مگر ابن فرید اپنی تمام تر قابلیت‘ علم و فضل اور بلندپایہ تصنیفی و تالیفی کام کے باوجود مئی ۱۹۸۹ء میں‘ لیکچرر کے طور پر ہی ریٹائر ہوگئے۔ قدرناشناسی کی یہ ایک افسوس ناک مثال ہے۔
بہ خود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی
چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بے باک است
اپنے آپ سے وابستہ رہ اور پہاڑوں کی طرح مستحکم ہوکر زندگی بسر کر۔ تنکے کی طرح زندگی بسر نہ کر کیونکہ ہوا تیز ہے اور شعلے بھڑک رہے ہیں۔
علی گڑھ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ رام پور میں مقیم ہوگئے تھے۔ حجاب میں اہلیہ کی معاونت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ جماعت اسلامی رام پور شہر کے امیربھی رہے۔ اس زمانے میں انھیں سکوتو یونی ورسٹی نائیجیریا اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ملائشیا میں عمرانیات کے پروفیسر کے طور پر بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنی اور اہلیہ کی صحت کے مسائل کی وجہ سے ان پیش کشوں کو قبول نہ کر سکے۔
ابن فرید نے تقریباً نصف صدی تک ایک بھرپور علمی اور ادبی زندگی گزاری۔ ۵۰ کی دہائی میں وہ ایک باصلاحیت افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد انھوں نے بہت کچھ لکھا اور اُن کا قلم مختلف اصناف ادب میں رواں دواں رہا۔ ان کی تحریریں ایک پختہ ادبیت‘ نفسیاتی شعور‘ اور مقصدیت سے عبارت ہیں۔ ایک طرف بچوں اور خواتین کے لیے انھوں نے معاشرتی کہانیاں‘ افسانے اور ناول اور مقبولِ عام نفسیات (popular psychology) کی کتابیں لکھیں (بچے کی تربیت ‘ گھریلو جھگڑے‘ ہم کیسے رہیں؟ زندگی کا سلیقہ‘ چھوٹی بہو‘ تھوک کا مکان‘ گھمنڈی گرگٹ)۔ دوسری طرف بلندپایہ افسانے لکھے: (مجموعے: یہ جہاں اورہے‘ میں کا تعاقب‘ خوں آشام)۔ ادبی تنقید کے نفسیاتی اور عمرانی دبستان میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ دو مجموعے (میں‘ ہم اور ادب اور چہرہ پس چہرہ) چھپ چکے ہیں‘ جب کہ چار مجموعے ہنوز اشاعت طلب ہیں (صواب دید‘ ادب داد طلب‘ تحسین قدر‘ ادبی پیش نامے)۔ کچھ اور غیرمطبوعہ مسودے بھی طباعت کے لیے تیار ہیں۔ انگریزی میں وہ ڈاکٹر ایم ایم صدیقی کے نام سے لکھا کرتے تھے اور انگریزی میں تین چار کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو حصولِ علم کی ایک غیرمعمولی لگن اور اس سلسلے میں ہمیشہ تشنگی کا ایک احساس تھا۔ اس ضمن میں وہ عمر بھر ھَلْ مِنْ مَّزِیْد کے احساس سے سرشار رہے۔ نفسیات‘ انگریزی ادب‘ اور عمرانیات میں تو انھوں نے ایم اے کیا تھا لیکن اپنے طور پر انھوں نے انتھروپولوجی‘ تاریخ‘ تہذیب اور اُردو ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بی اے میں انھوں نے ہندو فلسفہ بطور اختیاری مضمون کے پڑھا۔ اپنے شوق سے انھوں نے بائبل کے مطالعے کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کیے۔ ان کی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھی ؎
پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
تقریباً ربع صدی تک راقم کی اُن سے خط کتابت رہی۔ وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر نئی کتابوں اور چند پسندیدہ مصنفین کی تازہ کاوشوں کے ہمیشہ طلب گار رہتے تھے اور پھر ان پر اپنا مختصر تاثر بھی مجھے لکھ دیتے تھے۔ اپنی گوناگوں دل چسپیوں کی بنا پر ہی وہ بین العلومی مطالعے کے قائل تھے۔ ان کی ادبی تنقید میں بھی امتزاجی پہلو نمایاں ہے۔ ان کا علمی اور ادبی کارنامہ مکمل طور پر ابھی سامنے نہیں آسکا ہے۔
ابن فرید تحریک ادب اسلامی کی سربرآوردہ شخصیت تھے۔ وہ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے تاسیسی رکن تھے۔ پھر ایک عرصے تک اس کے صدر بھی رہے۔ ۱۹۹۸ء کے اوائل میں وہ مصر میں منعقدہ ایک سیمی نار میں شرکت کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے کراچی اور پھر چار روز کے لیے لاہور میں رکے۔ یہاں بعض معروف ادیبوں اور نقادوں (ڈاکٹر وحید قریشی‘ سید اسعدگیلانی‘ جناب نعیم صدیقی‘ ڈاکٹرانورسدید‘ڈاکٹر سلیم اختر‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ حفیظ الرحمن احسن‘ ڈاکٹر سہیل احمد خاں‘ جعفر بلوچ وغیرہ)سے ملے۔ وہ اپنے اس دورے سے بہت خوش تھے۔ ان سے راقم کی پہلی اور آخری ملاقات بھی ان کے اسی دورۂ لاہور کے موقع پر ہوئی۔ ۱۹۸۶ء میں جب میں بھارت گیا تو وہ اس وقت جدہ میں تھے۔ پھر ۱۹۹۷ء میں راقم کو برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ‘ دہلی یونی ورسٹی کے ایک سیمی نار میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ہم دونوں کا ابن فرید سے ملنے کو بہت جی چاہتا تھا‘ مگر دہلی سے رام پور جانے کی کوئی صورت نہ تھی کہ ویزا فقط دہلی کا ملا تھا‘ اور وہ بھی بڑی مشکل سے--- دہلی یونی ورسٹی کے مہمان خانے میںقیام کے دوران‘ ایک صبح رام پور سے ابن فرید کا فون آیا۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر دہلی نہیں آسکتے۔ بہرحال چند منٹ گفتگو ہوگئی۔
ابن فرید کی زندگی ایک واضح نصب العین رکھنے والے باصلاحیت انسان کی‘ محنت و جفاکشی سے بھرپور جدوجہد کی زندگی تھی۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے (self made) لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے ۷۸ سال کی عمرپائی‘ کئی برس سے دل کے مریض تھے۔ مگر انھوں نے رخصت کا نہیں‘ عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنے پیچھے‘ قابل تحسین عمل و کردار کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ خدا ان کی روح کو آسودہ رکھے۔ (آمین)