مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست کا پرچم امن معاہدوں اور روڈمیپ کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ سفیدپرچم کے وسط میں چھ کونوں والا دائودی تارہ ایک مذہبی صہیونی ریاست کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے اُوپر نیچے پرچم کے دونوں کناروں پر عمودی نیلی لکیریں اس صہیونی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرتی ہیں۔ صہیونی کرنسی شیکل اور صہیونی پارلیمنٹ کنیسٹ کی پیشانی پر کندہ الفاظ ان سرحدوں کا زیادہ واضح اظہار کرتے ہیں: ’’تیری سرحدیں اے اسرائیل از فرات تا نیل‘‘۔ گویا پرچم کی دو لکیروں میں سے ایک دریاے نیل ہے اور دوسری دریاے فرات۔
اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘ عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور جگر تھام کر سنیے کہ مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ہونے والے تمام اہم واقعات اسی صہیونی منصوبے کی تکمیل کا ایک حصہ ہیں۔ لایعنی امن مذاکرات اور سراب معاہدے اسی سفرکو مزید محفوظ بنانے کی عملی تدابیر ہیں۔ پہلی تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکامی ہوئی تو عراق کویت جنگ کے بعد یاسر عرفات سے اوسلو معاہدہ کیاگیا۔ اسے فلسطینی ریاست کا صدر بنانے کا خواب دکھاتے ہوئے اس کے وزیرداخلہ محمد دحلان کے ذریعے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار‘ زخمی اور شہیدکروایا گیا۔ پھر جب اس معاہدے کے اصل اہداف میں سے ایک اور ہدف حاصل کرنے کی کوشش میں آرییل شارون مسجداقصیٰ میں جا گھسا تو تحریک انتفاضہ کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ نتن یاہو‘ ایہودباراک اور سو دن کے اندر اندر انتفاضہ کو کچل دینے کا اعلا ن کرنے والے شارون سمیت کسی سے شہادتوں کا سفر روکا نہ جاسکا۔
اب تیسری خلیجی جنگ کے بعد فلسطینیوں ہی کے ہاتھوں آزادی کی اس جدوجہد کو کچلنے کی نئی کوشش کی جارہی ہے۔ اعلان یہ کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو علیحدہ آزاد ریاست دے دی جائے گی‘ اور تین مرحلوں میں ۲۰۰۵ء تک پورے روڈمیپ پر عمل کرلیا جائے گا۔ ہر مرحلے میں تاریخوں کے تعین کے ساتھ مخصوص ہدف حاصل کیے جائیں گے‘ لیکن سب سے اہم اور بنیادی ہدف‘ معاہدے کے نام ہی میں واضح کر دیا گیا ہے۔ معاہدے کا نام ہے: A performance based road map to a permanent two state solution to the Israeli-Palestinian conflict ’’اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے دو مستقل مملکتوں کے قیام کے لیے‘ کارکردگی پر مبنی‘ روڈمیپ‘‘۔ اس کے دو پہلو نمایاں ہیں: تنازعے کا حل اور اس کا کارکردگی پر مبنی ہونا۔ تنازعے کا صہیونی حل تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ فلسطینیوں کا زن بچہ کولہو میں پیس دیا جائے گا۔ اب اس حل میں اضافہ یہ ہوگیا ہے کہ یہ کارکردگی فلسطینیوں ہی کو دکھانا ہوگی۔ اس بات کا اعادہ ہر مرحلے میں نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔ مقدمے میں لکھا گیا کہ یہ ’’حل تشدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے ذریعے صرف اس صورت میں حاصل ہوگا جب فلسطینی عوام کو ایسی قیادت ملے جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے اور رواداری پر مبنی جمہوریت کے قیام کی خواہش اور اہلیت رکھتی ہو‘‘۔ یاسرعرفات امن کا نوبل انعام پانے کے باوجود یہ اہلیت ثابت نہیں کر سکے تو راستے کا آغاز ہی اسے ہٹانے اور بہائی مذہب کے ایک سپوت مرزا محمود عباس (ابومازن) کو قائد بنانے سے کیا گیا۔
پہلے مرحلے میں ۲۱ نکات پر مشتمل نقشۂ کار ہے۔ دیگ کے ایک دانے سے ہی اس کی حقیقت کھل جاتی ہے: ’’فلسطینی قیادت غیرمبہم اور بالکل واضح بیان جاری کرے گی جس میں اسرائیل کے امن و سلامتی سے زندہ رہنے کے حق کا اعادہ کیا جائے گا۔ (بھول جائیے کہ اسرائیل کبھی فلسطین تھا) اور اسرائیلیوں کے خلاف ہرجگہ فوری اور غیرمشروط جنگ بندی اور مسلح سرگرمیوں اور تشدد کے تمام اقدامات کے خاتمے کا اعلان کیا جائے گا۔ فلسطین کے تمام سرکاری ادارے اسرائیل کے خلاف ترغیب اور اُکسانے کا سلسلہ ختم کر دیںگے۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف کہیں بھی تشدد اور حملوں یا ان کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور گروپوں کو گرفتار کرنے اور ان کی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے واضح اور موثر کوشش کریں گے‘ دہشت گردی میں ملوث تمام لوگوں اور گروپوں کے خلاف مسلسل متعین اور موثراقدامات کا آغاز کریں گے اور دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کریں گے‘‘۔
۲۱ نکات پر مشتمل اس نقشۂ کار میں ’’اسرائیل‘‘ کے ذمے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ’’جب سیکورٹی کے شعبے میں جامع کارکردگی میں پیش رفت ہوگی (فلسطینیوں کے ذمے اصل کام کا ایک بار پھر اعادہ) تو اسرائیلی دفاعی فورسز بتدریج وہ علاقے خالی کر دیں گی جن پر انھوں نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو یا اس کے بعد قبضہ کر لیا تھا‘‘۔ گویا کہ نصف صدی سے قبلۂ اول اور پوری سرزمین اقصیٰ پر قبضہ توعین حق ہے۔ ستمبر۲۰۰۰ء میں شارون کے مسجداقصیٰ میں جاگھسنے اور دوسری تحریک انتفاضہ شروع ہونے پر جن فلسطینی مہاجرکیمپوں اور جنین جیسی پناہ گزیں بستیوں پر صہیونی فوجوں نے چڑھائی کی تھی وہاں سے انھیں نکال لیا جائے گا۔
دوسرا مرحلہ جو تاریخوں کے اعتبار سے اب عملاً شروع ہو جانا چاہیے‘ نام نہاد خودمختاری کی حامل فلسطینی ریاست کے اعلان کرنے کا مرحلہ ہے۔ اسے دسمبر ۲۰۰۳ء تک پورا ہو جانا ہے۔ اس میں فلسطینی ریاست کا اعلان تو کر دیا جائے گا لیکن اس کی سرحدیں ’’وقتی اور عارضی‘‘ ہوں گی۔ اس موہوم اعلان ریاست میں بھی اصل ہدف وہی رہے گا کہ ’’سلامتی کے شعبے میں مسلسل عمدہ کارکردگی اور موثر سیکورٹی تعاون‘‘ اور یہ کہ’’ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب فلسطینی عوام کی قیادت ایسے افرادکے ہاتھ میں ہو جو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں گے‘‘۔
۰۵-۲۰۰۴ء میں تیسرے مرحلے میں بھی فلسطینی انتظامیہ کے کردار پر زور دیا گیا ہے۔ لکھا ہے: ’’تیسرے مرحلے کے مقاصد میں فلسطینی اداروں میں اصلاح‘ ان کے استحکام اور فلسطین سیکورٹی اداروں کی مسلسل موثر کارکردگی کے علاوہ یہ بات شامل ہوگی کہ اسرائیلی اورفلسطینی ۲۰۰۵ء میں مستقل حیثیت کے سمجھوتے کے متعلق مذاکرات کریں گے‘‘۔
فلسطینیوںکے ذریعے فلسطینیوں کو کچلنے کی مسلسل و موثر کارکردگی کے نتیجے میں صہیونی ریاست ان علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کر دے گی جن پر ۱۹۶۷ء میں قابض ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ ۱۹۴۸ء اور پھر ۱۹۶۷ء میں فلسطین کے ۸۰ فی صد علاقے پر صہیونی قبضہ ہوگیا تھا۔ اب مغربی کنارے اور غزہ کے جن علاقوںمیں فلسطینی ریاست کے قیام کا خواب دکھایاجا رہا ہے‘ اسے بھی یوں چیرپھاڑدیا گیا کہ وسیع ترصہیونی ریاست کے اندر ان علاقوں کی حیثیت محصور چھائونیوں سے زیادہ نہ ہو۔ کئی سال سے ایک صہیونی منصوبہ پوری یکسوئی سے جاری ہے کہ فلسطینی جانبازوں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے اور اپنے درمیان بلند‘ آہنی اور جدید آلات حرب و جاسوسی سے لیس دیوار کھینچ دی جائے۔ یہ آہنی دیوار فلسطینی آبادیوں کے گرد اس طور گھومتی ہے کہ ۳۵۰ کلومیٹر کی اصل مسافت بڑھ کر ایک ہزار کلومیٹر ہوگئی ہے۔ اس ایک ہزار کلومیٹر لمبی دیوار کی تعمیر پر ۲ ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں‘ یعنی ہر ایک کلومیٹر پر ۲۰ لاکھ ڈالر۔
ابومازن کے ذریعے کیے جانے والے اقدامات کی رفتار اوسلو معاہدے کی نسبت تیز ترہے۔ تب پورے عمل کو ۱۰ سال پر پھیلا دیا گیا تھا‘ اب اڑھائی سال میں پورا کرنے پر زور ہے۔ تب مسجداقصیٰ میں جا گھسنے کی بات معاہدے کے سات سال بعد کی گئی تھی‘ اب سات ہفتے بھی نہیں گزرے کہ صہیونی سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کر دیا ہے کہ حرم اقصیٰ کسی مخصوص مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ یہودیوں کو بھی وہاں جانے کی مکمل آزادی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج حماس کے رہنمائوں کو ہدف بناکر قتل کرنے کی پالیسی پر ببانگ دہل عمل پیرا ہے جس میں اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف مجاہدین کی شہادت طلب کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جن کے جنازوں میں ہزاروں فلسطینی ایمان افروز نعروں کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔
حماس الجہاد اور خود الفتح کے کئی شہادت طلب حملوں نے روڈمیپ کے سرپرستوں کو حقیقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔ صہیونی ٹی وی چینل ’’۱‘‘ کے مراسلہ نگار ایٹان ریبورٹ نے شہادت طلب کارروائی کے بعد یہودی بستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’اس علاقے میں حماس نے کرفیو لگا رکھا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ڈرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہاں ہر طرف خوف کا راج ہے‘‘۔ یہودی بستی کی ایک رہایشی فلونیٹ نے اپنے ٹی وی کو بتایا: ’’میں نے اور میرے شوہر نے ایک بار پھر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا دفتر یہاں سے آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ ہم دونوں یہ فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اس سے بھی مشکل بات یہ ہے کہ بندہ اپنے دفتر جانے کی کوشش میں موت کی وادی میں جااُترے‘‘۔ صہیونی ملٹری انٹیلی جنس کے شعبۂ ریسرچ کے سابق سربراہ جنرل دانی روچیلڈ نے عبرانی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تمام تر فوجی کارروائیوں اور حملوں کے باوجود حماس کا شہادت طلب کارروائیوں میں کامیاب ہو جانا‘ مایوسی اور تشویش میں اضافے کا باعث ہے۔ اس صورت حال پر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے اداروں کے تمام دعوے مبالغہ آمیز بلکہ مجرد خیال ہیں‘‘۔
خود وزیر امن تساحی ہنجبی نے کہا کہ ’’میں ہر لمحے فلسطینی فدائی کارروائیوں کی خبر سننے کے لیے خود کو تیار رکھتا ہوں‘‘۔ وزیرموصوف نے کہا کہ ہمارے ایک اجلاس میں ایک اعلیٰ افسر نے ہمیں بتایا کہ ’’یہ توقع کہ کل فدائی کارروائی ہوگی اتنی ہی یقینی ہے جتنی یہ کہ کل سورج طلوع ہوگا‘‘۔ وزیر موصوف نے دعویٰ کیا کہ اب بھی ہم ۹۵ فی صد کارروائیوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ روزنامہ معاریف لکھتا ہے: ’’وہ جب بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو کچلنے کی بات کرتے ہیں‘ ثابت یہ ہوتا ہے کہ ان دعووں کی زمینی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے اب تک ہر طریقہ آزمالیا۔ ہم نے مغربی کنارے اور غزہ سمیت تمام علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے لیکن بے فائدہ۔
ستمبر ۲۰۰۰ء سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے دوران ۱۱۹ شہادت طلب کارروائیاں ہوئیں۔ ۷۸ کارروائیاں ناکام رہیں جن میں سے ۳۰ کارروائیاں فلسطینی خواتین کرنا چاہتی تھیں‘ جب کہ پانچ خواتین اپنے مشن میں کامیاب رہیں۔ (صہیونی اخبار یدیعوت احرونوت‘ ۲۳ مئی ۲۰۰۳ئ)
گھنی فلسطینی آبادی کے علاقے خالی کرنا ان کی دفاعی ضرورت ہے۔ خود شارون کے سابق وزیردفاع جنرل بنیامین بن ایعازر نے حماس کی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہمیں ان بہت سے مسلمہ حقائق سے دست بردار ہونا پڑے گا جن سے ہم ماضی میں سختی سے چپکے ہوئے تھے۔ ہم سڑکوں‘ کلبوں اور چائے خانوں میں اپنے شہریوں کا قتلِ عام صرف اس صورت روک سکتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے علاقے سے نکل آئیں اور ان کی ایسی حکومت منظور کرلیں جو مغربی کنارے اور غزہ میں اقتدار سنبھال لے۔ فلسطینیوں کا سامنا کرنے کے لیے فوجی حل کی بات اب بھی کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے تمام انتظامات کے باوجود حماس کی کارروائیاں اس امر کی دلیل ہیں کہ فلسطینی عوام کے جذبۂ مزاحمت کا فوجی علاج حقیقت پسندانہ نہیں ہے‘ اور جو اب بھی اس پر مصرہے وہ خود کو دھوکا دیتا ہے‘‘۔ (الامان‘ لبنان۶/۶)
ایک طرف تو یہ حقائق ہیں‘ فلسطینی عوام کے جذبۂ شہادت سے صہیونی درندے شکست خوردہ ہیں لیکن دوسری طرف مسلم حکمران روڈمیپ کے تیسرے مرحلے کے ان نکات پر عمل کرنے کے لیے بے تاب ہیں جن کا حکم انھیں دیا گیا ہے۔ وہاں لکھا ہے: ’’عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ معمول کے مکمل تعلقات کا قیام تسلیم کریں گی‘‘۔ مصرکے شہر شرم الشیخ اور اُردن کے شہر عقبہ میں صدربش کی زیرسرپرستی ہونے والے سربراہی اجلاسوں میں محمود عباس کی تقریب رونمائی کی گئی اور کھلے لفظوں میں فلسطینی جانبازوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
روڈمیپ بظاہر چند فی صد فلسطینی علاقے خالی کرنے کا اعلان ہے لیکن حقیقت میں فلسطینی مزاحمت کو کچلتے ہوئے مزید توسیعی منصوبوں کا نقطۂ آغاز ہے۔ روڈمیپ کے چند روز بعد ہی صہیونی وزیر سیاحت بنی ایلون نے اعلان کیا کہ دریاے اُردن کے مشرقی کنارے (یعنی کہ اُردن میں) فلسطینیوں کے لیے متبادل وطن تشکیل دیا جائے۔ اگر بنی ایلون کا اعلان کردہ یہ سات نکاتی منصوبہ تکمیل کی جانب بڑھتا ہے تو یہ عظیم تر اسرائیلی ریاست کی جانب اگلا جارحانہ اقدام ہوگا۔