جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مشرف ‘ طالبان اور سرحد میں شریعت بل کا نفاذ

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

جنرل پرویز مشرف امریکہ اور تین یورپی ممالک کے دورے پر ایک نرالی شان سے روانہ ہوئے۔ داخلی طور پر انھوں نے بیک وقت دو محاذِ جنگ گرم کیے اور پے بہ پے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ کے ذریعے ایک طرف اس جمہوری عمل کو تابڑ توڑ حملوں سے نوازا جس کا خالق ہونے کا وہ خود ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی تحقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کبھی اس کے ارکان کو ’’غیرمہذب‘‘کے خطاب سے نوازا اور کبھی اس پر فوج کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنی مجوزہ قومی سلامتی کونسل اور وردی کی ضرورت کو پوری شان تحکم کے ساتھ بیان فرمایا۔ مرکز اور صوبوں کے دستور پر مبنی معاہدہ باہمی (contractual relationship) کو مجروح کیا‘ ضلعی قیادت کے نظام کو مرکز میں اپنے اقتدار کی تائید کے لیے استعمال کیا اور پھر بھارتی ٹی وی    این ڈی ٹی وی کو جو انٹرویو دیا اس کے مطابق: انتخابات کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جو شکل سامنے آئی ہے‘  اس پر انھوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا ملک ایک برسرِکار جمہوریت لانے میں ناکام رہا ہے۔ خود اپنے ریفرنڈم کے بارے میں جنرل صاحب نے کہا کہ یہ ایک غلطی تھا۔ (نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۴ جون ۲۰۰۳ئ)

جنرل صاحب نے دوسرا محاذ صوبہ سرحد میں شریعت بل کی منظوری کو ہدف بناکر بظاہر  ایم ایم اے کے لیکن دراصل اسلام اور اس کے نظام قانون و تہذیب و تمدن کے خلاف کھولا ہے اور اس کے لیے صوبہ سرحد میں لائی جانے والی اصلاحات کو ’’طالبانائزیشن‘‘ (Talibanization) کا نام دے کر صوبے کی حکومت اور اسمبلی تک کی بساط لپیٹ دینے کی دھمکی دی ہے۔

ان دو داخلی محاذوں کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی انھوں نے ضروری سمجھا کہ چند ایسے واضح اشارے دے دیں جن میں ان کے مستقبل کے عزائم کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان اشاروں کو ایک خاص معنویت اس سے حاصل ہوتی ہے کہ ان کا اظہار قوم کو ان حادثات کے لیے تیار کرنا ہے جن کے لیے کیمپ ڈیوڈ کی محفل سجائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ صدر جارج بش نے جنرل صاحب کو کیمپ ڈیوڈ کی صدارتی آرام گاہ میں دن گزاری کی جو دعوت دی ہے اسے ان کے حواری ایک سفارتی اعزاز قرار دے رہے ہیں مگر اہل نظر اس میں بڑے خطرات دیکھ رہے ہیں--- ویسے ہی خطرات جن میں آج عالم عرب اور خصوصیت سے اہل فلسطین گھرے ہوئے ہیں اور جن کا آغاز ۱۹۷۸ء میں انورالسادات اور یاسرعرفات کی کیمپ ڈیوڈ میں شرف بازیابی سے ہوا تھا۔ انورالسادات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سزا ان کی اپنی قوم نے دی اور یاسرعرفات آج نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں کہ کل کا کیمپ ڈیوڈ کا یہ مہمان آج اس لائق بھی نہیں کہ اس کا منہ بھی دیکھا جائے۔

جنرل پرویز مشرف کے بیانات میں جن اشاروں کو صاف دیکھا جا سکتا ہے وہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی‘ کشمیر کے ایک اصولی حل سے ہٹ کر دس بارہ حل کی بات‘ عراق میں امریکی افواج کے منہ پر جو کالک ملی جا رہی ہے اس میں پاکستان کے حصے کی تلاش‘ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کے خلاف محاذ آرائی اور اس اہم سفر میں وزیرخارجہ کی جگہ ان وزیرخزانہ کی ہم سفری جو کہوٹہ کی حساس تنصیبات کا تازہ تازہ معائنہ کر کے جا رہے ہیں اور باخبر حلقوں کے بقول پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کا رشتہ امریکہ کی جوہری توانائی کی حکمت عملی کی چھتری سے جوڑنے کے خواہش مند ہیں۔ اس طرح جناب شریف الدین پیرزادہ کا ہم سفر ہونا بھی بڑا معنی خیز ہے کہ وہ ایل ایف او کے مصنف اور ہرفوجی حکمران کے مشیر اور اس کے لیے سندجواز فراہم کرنے کے ماہر شمار کیے جاتے ہیں۔

داخلی اور خارجی محاذ پر فوج کے خود مقرر کردہ (self-appointed) سربراہ کی‘ جو صدر مملکت ہونے کا بھی مدعی ہے‘ یہ ترک تازیاں بڑی چشم کشا اور ایک خطرناک صورت حال کی غماز ہیں۔ اس لیے اصل مسائل کے بارے میں کلام کرنے سے پہلے ہم اس اصولی بات کو پوری وضاحت اور قوت سے قوم اور دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک فرد کو یہ اختیار نہیں کہ قوم اور اس کی پارلیمنٹ کے فیصلے کے بغیر ایسے اہم امور پر کوئی من مانا موقف اختیار کرے۔

پالیسی فیصلوں کا اختیار کسے؟

جنرل صاحب بڑے شوق سے ان ممالک کا دورہ کریں لیکن انھیں پاکستانی قوم اور اسلامی مملکت پاکستان کی طرف سے ان معاملات پر پارلیمنٹ اور قوم کی منظوری کے بغیر کسی معاہدے اور پالیسی کی تبدیلی کے اقرار و اعلان کا حق نہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی ایک فرد اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق پوری قوم کو پابند کرنے کا اختیار نہیںرکھتا۔ جنرل صاحب کو دستور اور قانون کے اعتبار سے اقتدار کا کوئی جواز (legitimacy) حاصل نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے نامزد کردہ صدر ہیں بلکہ چیف آف اسٹاف کی توسیع بھی خود ہی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے دستور میں صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ خود خارجہ اور داخلہ پالیسی بنائے۔ دستوری ڈھانچے میں تو وہ کابینہ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ایل ایف او‘ جو خود متنازع ہے‘ اور زیادہ سے زیادہ ایک دستوری تجویز ہے‘ وہ دستور کا حصہ نہیں‘ اس کے تحت بھی داخلی اور خارجی پالیسی کے ان بنیادی امور اور ان کے بارے میں پالیسی فیصلے (policy decisions) اور معاہدے کرنے کا اختیار کابینہ کو حاصل ہے‘ صدر کو نہیں۔

یہاں پر دستور میں پائے جانے والے اس سقم کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ ایسے اہم معاملات کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق کی کوئی شرط نہیں حالانکہ دنیا کے بیشترممالک میں پالیسی سازی کا آخری اختیار اور بین الاقوامی معاہدات کی توثیق کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے جو کھلی بحث کے بعد یہ ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے مسائل اور مشکلات کی ایک بنیادی وجہ یہی فردِواحد کی حکمرانی کا اسلوب ہے جسے اب ختم ہونا چاہیے ورنہ یہاں جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں پر بظاہر وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی دبے الفاظ میں مضطرب نظرآتے ہیں مگر کھل کر عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور خود اپنے صحیح مقام کے حصول کی کوئی کوشش کرتے نظرنہیں آتے۔ کشمیرپالیسی کے دس بارہ حل‘ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پرنظرثانی اور نیوکلیر صلاحیت کے بارے میں نئی سوچ کے بارے میں کیے جانے والے سوالوں کے جواب میں   دی نیشن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دل کی بات اس طرح ان کی زبان پر آجاتی ہے کہ:

اللہ تعالیٰ معاف کرے‘ ایسے فیصلے کرنے والا ظفراللہ جمالی آخری شخص ہوگا۔ کسی بھی حکومت کو ایسے ایشوز پر پوری قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (نواے وقت‘ ۱۸ جون ۲۰۰۳ئ)

اس لیے ہم سب سے پہلے جس بات کا برملا اظہار ضروری سمجھتے ہیں وہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی معاہدات اور عالمی قوتوں سے قول و قرار کے بارے میں صحیح طریق کار کے بارے میں حتمی فیصلہ ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اولیں اہمیت اس امر کو دینی چاہیے اور اس بارے میں ایک پروٹوکول پر فوری طور پر اتفاق رائے ضروری ہے جسے پہلی فرصت میں دستور کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس طرح ہر حکمران ایک ضابطے کا پابند ہوگا اور قوم اور پارلیمنٹ ہر اہم فیصلے کی ذمہ دار ہوسکے گی۔

اسلام کی درست تعبیر

جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں وکلا کے نام نہاد کنونشن میں‘ پھر کوہاٹ میں      پاک جاپان دوستی سرنگ کے افتتاح کے موقع پر‘ اس کے بعد بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اور لندن میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جسے وہ ’’اسلامی انتہاپسندی‘‘ اور طالبان کا ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں‘ خصوصیت سے نشانہ بنایا ہے۔ داڑھی‘ شلوارقمیض‘ حجاب‘ عورت کی اشتہاری نمایش پر گرفت وغیرہ پر بڑے سطحی اور تلخ انداز میں تنقید بلکہ تضحیک کی ہے۔ اس پر ’’دقیانوسی اسلام‘‘ کا فتویٰ لگایا ہے اور بزعم خود لبرل‘ ترقی پسند‘ روشن خیال اسلام کی باتیں کی ہیں اور وہی گھسی پٹی بات کہی ہے کہ اقبال اور قائداعظم تھیوکریسی کے مخالف تھے اور پروگریسو اسلام قائم کرنا چاہتے تھے۔ صوبہ سرحد میں شریعت بل کے کتابِ قانون کا حصہ بننے پر اپنی برافروختگی کے اظہار میں یہاں تک فرما گئے ہیں کہ اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو وہ اسمبلی توڑنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ جنرل صاحب کے ان ہی ارشادات کا آج ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

پہلی بات جنرل صاحب اور ان کے فکری ہم سفروں اور موید قلم کاروں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے یہ ارشادات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے مغربی استعمار نے مسلم دنیا پر تسلط حاصل کیا ہے‘ ایک طبقہ اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندی کے زعم میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتا رہا ہے اور اسے مغرب کے حلقوں میں جو بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اُمت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے اس لبرلزم اور روشن خیالی کو مغرب کی کورانہ تقلید اور استعماری آقائوں کی چاکری قرار دیا ہے۔ اس طرزِفکر کو کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ یہ ایک نہایت مختصر اقلیت کی سوچ تو رہی ہے لیکن اُمت نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ جس اقبال کا جنرل صاحب بار بار ذکر کرتے ہیں اس نے اس طرزِفکر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور جن قائداعظم کے اسلام کی وہ بات کرتے ہیں‘ وہ اپنی تمام تر مغربی تعلیم اور قانونی مہارت کے باوجود اسلام کے بارے میں وہی نقطۂ نظر رکھتے تھے جس پر اُمت کا اجماع ہے اور جس کا اساسی اصول یہ ہے کہ اسلام محض ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کی پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے‘ جس میں اصول واقدار اور بنیادی ادارات سے لے کر شکل و شباہت‘ رہن سہن‘ لباس اور خوراک‘ ہر پہلو کے لیے ہدایت اور ضابطے ہیں۔ دین و دنیا کی وحدت اور سیاست اور مذہب کی یک رنگی اس کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسلام نہ ملّا کا ہے اور نہ طالبان کا‘ نہ کسی مسٹر کی اختراع ہے اور نہ کسی جرنیل کی--- اسلام اللہ کا دین ہے جو قرآن پاک کی شکل میں محفوظ اور متعین ہے اور جس کا ماڈل صرف ایک ذاتِ پاک ہے یعنی اللہ کے برگزیدہ نبی اور ہمارے حقیقی قائد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اور قرآن و سنت ہی ہر دور اور ہر علاقے کے لیے اسلام کا اصل ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ اسلام کی اپنی حکمت انقلاب ہے لیکن جس چیز کو قرآن و سنت نے طے کر دیا وہ حتمی ہے اور اس میں تراش خراش کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔

طالبان کی بات تو ہم بعد میں کریں گے لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ اسلام وہی معتبر ہے جو قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اسلام اور اس کا نمونہ ہے--- وہ نہیں جو بش کو پسند ہو یا جسے مغرب کے سیاست دان یا دانش ور پروگریسو اور لبرل قرار دیں۔ آج امریکہ کا اصل ہدف ہی قرآن وسنت کا اسلام ہے جسے کبھی ’’فرسودہ مذہب‘‘ کہا جاتا ہے‘ کبھی ’’جہادی دین‘‘ کہہ کر اسے انتہاپسندی قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل اس پر لگایا جاتا ہے اور کبھی ’’طالبان کا اسلام‘‘ یا ’’ملّا کا اسلام‘‘ کہہ کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔ یہ سب مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے حربے ہیں۔ اسلام ایک ہے اور ہمارا ماڈل نہ طالبان ہیں‘ نہ ایران ہے‘ نہ سعودی عرب اور نہ سوڈان کا اسلام۔ ہمارے لیے اصل سرچشمہ ء ہدایت قرآن و سنت ہیں۔ جہاں تک طالبان‘ ایران‘ سعودی عرب‘ سوڈان یا باقی مسلم دنیا کے ممالک اور تحریکات قرآن و سنت کے مطابق عمل پیرا ہیں وہ معتبر ہے اور جہاں وہ اس سے ہٹے ہوئے ہیں وہ اصلاح طلب ہے اور ہمارا مطلوب و مقصود نہیں۔ البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ہمارا اور اُمت مسلمہ کا مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی ہے۔ بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہونا اور ان سے داد و دہش کی طلب ہماری منزل نہیں۔ معیار صرف ایک ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور رہنمائی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کا پسند کردہ طریقہ ہمارے لیے اسلام ہے:

  •       اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی۔ ان کے اس طرزِعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جوکوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کرے اللہ کو اس سے حساب لینے میں دیر نہیں لگتی۔ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)
  •       اسلام (محض اللہ کی فرماں برداری) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔(اٰل عمران۳:۸۵)
  •       اے ایمان والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔(البقرہ ۲:۲۰۸)

افکارِ اقبال و قائد سے غلط استدلال

تھیوکریسی کا اسلام میں کوئی وجود نہیں لیکن تھیوکریسی کا نام لے کر اسلامی نظامِ زندگی‘ اس کے قانون‘ معاشرتی اقدار‘ سیاسی احکام‘ معاشی ضابطوں‘ ثقافتی حدود و اہداف کو نظرانداز کرنا اور مذہب کو محض افراد کا ذاتی معاملہ قرار دینا اسلام سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت ہے۔ اور اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا سہارا لینا بدترین علمی بددیانتی ہے۔ انگریز دانش ور بیورلی نکلسن اپنی کتاب Verdict on India (مطبوعہ ۱۹۴۴ئ) میں قائداعظم سے تحریک پاکستان کے مقاصد اور مذہب اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنے انٹرویو کا حال یوں بیان کرتا ہے:

سوال: جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلما ن ایک الگ قوم ہیں تو کیا آپ مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟

قائداعظم : آپ یہ حقیقت کبھی نظرانداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظامِ حیات دیتا ہے۔میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ میں اپنی تاریخ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظامِ عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر ہندوئوں سے انقلابی طور پر نہ صرف مختلف ہے بلکہ بسااوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگیوں میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر‘ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مقصد وجود کے بارے میں قائداعظم نے صاف الفاظ میں کہا کہ: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ضابطہ حیات ‘ اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘۔

اور انھی خیالات کا اظہار اور بھی شدت کے ساتھ قائداعظم نے میلادنبویؐ کے موقع پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کیا اور صاف الفاظ میں شریعت کا لفظ استعمال کرکے کیا کہ تیرہ سو سال پہلے انسانیت کو دیے جانے والے اصول اور قوانین آج بھی اتنے ہی قابلِ عمل اور آج کے انسان کے لیے ضروری ہیں جتنے تیرہ سو سال پہلے تھے۔

بات اسلام کی ہے ‘ کسی خاص گروہ یا طبقے کی خواہشات اور عادات کی نہیں۔ محض طالبان کا ہوّا دکھا کر شریعت اسلامی سے فرار کی کوئی کوشش بھی مقبول و محترم نہیں ہوسکتی۔ رہا معاملہ علامہ اقبال کا تو ان کا تو سارا فلسفہ‘ سارا شعری سرمایہ دین ودنیا کی وحدت اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کے مطابق مسلمانوں کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھال دینے کے لیے وقف ہے۔ ترقی پسند اور لبرل اسلام کے داعیوں کے لیے ان کے پاس تنقید اور ترہیب کے سوا کچھ نہیں    ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

وہ مغرب کی ذہنی‘ ثقافتی اور سیاسی ہر قسم کی غلامی سے بغاوت کی دعوت دیتے ہیں اور کس طنز سے فرماتے ہیں     ؎

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

لبرل اسلام کے دعوے داروں سے اقبال کا خطاب کچھ اس طرح ہے      ؎

ترا وجود سراپا تجلّی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

مگر یہ پیکرخاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو‘ زرنگار و بے شمشیر

لبرل اسلام کے داعی آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ نماز‘ روزہ اور داڑھی کی اجازت ہے۔ پھر یہ شریعت کے نفاذ کی بات چہ معنی ؟ لیکن دیکھیے اقبال نے کس طرح اس کا جواب دیا ہے     ؎

ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

اقبال ہوں یا قائداعظم یا اُمت مسلمہ پاک و ہند--- انھوں نے کسی ایسے اسلام کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی جو بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہو۔ جس چیز کو جنرل پرویز دقیانوسی اور ازکار رفتہ کہہ رہے ہیں وہ وہ ابدی اور لازوال ہدایت ہے جس کا سرچشمہ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور نمونہ ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں صرف وہی معتبر اور مقبول ہے۔ استعماری قوتوں نے اسلام کو ’’ریفارم‘‘ (reform)کرنے کا کھیل ماضی میں بھی کھیلا ہے اور آج بھی کھیل رہی ہیں اور ان کا آلہ کار بننے والے کل بھی ناکام و نامراد رہے اور ان شاء اللہ آج بھی رہیں گے۔

طالبانائزیشن کا واویلا

دوسری بات ہم طالبان کے حوالے سے بھی بہت صاف طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ طالبان کا افغانستان میں ظہور اور غلبہ خاص حالات کا رہین منت تھا۔ پاکستانی حکمران‘ پاکستانی فوج کی قیادت‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کے سیاست کار یہ سب ان کی پشت پر تھے۔ ’’طالبان کا اسلام‘‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو وجود میں نہیں آیا۔ اپنے فہم اور شعور کے مطابق وہ پہلے دن سے ایک خاص انداز میں اپنا اجتماعی نظام چلا رہے تھے‘ جس کے کچھ پہلو نہایت روشن اور تابندہ تھے اورکچھ پہلوئوں سے ان کے نظام میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں تھیں۔

افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور طالبان اسی قبائلی نظام کا حصہ تھے جو پشتون آئین‘ قانون‘ روایات اور ضوابط سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ اس کی صورت گری میں اسلامی شریعت کا بھی ایک نمایاں حصہ ہے لیکن طالبان کا تصور اجتماعیت بنیادی طور پر پشتون آئین اور روایات پر مبنی تھا اور جس حد تک اسلام اس کا حصہ ہے وہ اس میں شامل تھا۔ تاہم ان کی پالیسیوں کا ایک حصہ ان کی اپنی روایات پر مبنی تھا‘ جو پاکستان یا دنیا کے دوسرے ممالک اور علاقوںکے لیے متعلق (relevant) نہیں۔ اس لیے صوبہ سرحد میں جو اصلاحات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان پر طالبان کے حوالے سے کی پھبتی کسی طرح بھی صادق نہیں آتی۔

کہنے والے آج طالبان کو جوچاہے کہہ لیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے اس افغانستان کو امن و انصاف دیا جو شدید اور خون آشام خانہ جنگی کی گرفت میں تھا اور جہاں لوٹ مار کا دور دورہ تھا اور وار لارڈز (war lords) نے زندگی اجیرن کر دی تھی۔ طالبان کے دور میں وہ سارا علاقہ جو ان کے زیرحکومت تھا امن اور انصاف کا گہوارا بن گیا تھا اور وار لارڈز کو بے اثر کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح افیون کی کاشت کو چندسال میں ختم کر کے انھوں نے ایک بڑی لعنت سے افغانستان ہی نہیں پوری دنیا کو نجات دلائی اور ان کے اس کارنامے کا خود امریکہ تک نے اعتراف کیا۔یہ بجا کہ معاشی ترقی‘ تعلیم کے فروغ اور خصوصیت سے خواتین کی تعلیم اور ملک کی دوسری قومیتوں سے مصالحت کے سلسلے میں ان کی پالیسیوں میں خامی موجود تھی۔ پاکستان اور عالمِ اسلام کی دینی شخصیات اور تحریکات نے ان کے اچھے کاموں کی قدرافزائی کے ساتھ ان کو ان کمزوریوں کی طرف متوجہ کیا تھا اور وہ تعلیم‘ ترقی اور مصالحت کی راہ پر چل بھی پڑے تھے۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو آج ان پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء سے پہلے ان کو طالبان میںکوئی خامی نظر نہیں آتی تھی اور آج انھیں کوئی خوبی نظر نہیں آ رہی ہے۔ طالبان کا عروج پیپلز پارٹی جیسی نام نہاد لبرل سیاسی جماعت کے دور میں اور اس کی مکمل تائید سے ہوا‘ فوج کی قیادت بھی ان کی پشت پر تھی۔ امریکہ بھی ان کا موید تھا اور مئی ۲۰۰۱ء تک ان سے گہرے سیاسی‘ سفارتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھا۔ سارا نزلہ اس لیے گرا کہ انھوں نے امریکی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا اور جس شخص یا گروہ کو پناہ دی تھی دلیل اور ثبوت کے بغیر اسے امریکہ کو پیش کرنے سے انکار کر دیا۔

پاکستان کے لیے طالبان حلیف اور ساتھی تھے اور پاکستان سے کوئی بے وفائی انھوں نے نہیں کی۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ہی امریکہ کی خوشنودی کے لیے یوٹرن لیا اور اپنے ہی دوستوں اور بھائیوں کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کو اپنی زمین اور اپنا کندھا فراہم کردیا۔ امریکہ کی نارتھ کمانڈ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے عوام پر امریکی افواج نے ۵۷ ہزار سے زیادہ فضائی حملے ہماری سرزمین یا ہماری فضائی حدود کو استعمال کرکے کیے اور ہم بھی ان کے اس ظلم اور فساد میں شریک ہوئے اور جو دوست اور حلیف تھے ان کو دشمن بنالیا۔

طالبان کا اسلام نہ ۱۱ستمبر کے بعد رونما ہوا اور نہ۱۱ ستمبر سے پہلے اس کا وجود تھا۔ پاکستان کے ان سے ہم رنگ اور ہم ساز ہونے کا قصہ تو سب ہی کے سامنے ہے لیکن امریکہ بھی اس میں  کتنا شریک تھا اور طالبان سے کس کس طرح کی پینگیں بڑھا رہا تھا اس کا پورا حال اگر کبھی پوشیدہ  تھا تو اب نہیں ہے۔ دسیوں کتابیں گذشتہ دو سال میں اس پر آچکی ہیں اور دو فرانسیسی صحافیوں  کی کتاب Forbidden Truth: U.S. - Taliban Secret Oil Diplomacy جو فرانس ہی نہیں امریکہ میں بھی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی (best seller) کتاب ہے اور جس کا انگریزی ایڈیشن امریکہ اور برطانیہ سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا ہے‘ ایک اہم دستاویزی ثبوت ہے۔ بلاشبہہ ان کتب میں حقائق اور افسانے‘ واقعات اور اختراعات سب کچھ موجود ہیں مگر جو بات ناقابلِ تردید ہے وہ ۱۱ستمبر کے سانحے سے پہلے طالبان سے تعلقات‘ دوستی اور اپنے مفادات کے لیے ان سے پینگیں بڑھانا ہے۔ اس وقت ’’طالبان کا اسلام‘‘ کسی کو پریشان نہیں کر رہا تھا اور سیاسی تائید‘ معاشی مفادات کا حصول‘ اور مالی امداد کی فراوانی یہ سب جائز تھا۔

رہا ہمارا معاملہ‘ تو ہماری تحریریں گواہ ہیں کہ ہم نے طالبان کے اچھے کاموں کی تعریف کی اور ان کی خامیوں پر ان کو دلسوزی کے ساتھ متوجہ کیا اور ان خامیوں سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ آج ہم ان کی مظلومیت کی بنا پر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے بزدلی ہی نہیں‘ بداخلاقی بھی سمجھتے ہیں کہ محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں کلمہ خیر بھی کہنے سے اجتناب کریں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اپنے رویے پر شرمسار ہونا چاہیے‘ چہ جائیکہ وہ طالبان کو ان کی مظلومیت کے اس دور میں نشانۂ تضحیک بنائیں۔

سرحد میں نفاذِ اسلام کی کوششیں

جہاں تک صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی انتخابی کامیابی اور صوبائی حکومت کی نفاذِ اسلام کی کوششوں کا تعلق ہے‘ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل عوام کی بھرپور تائید اور جمہوری ذریعے سے برسرِاقتدار آئی ہے۔ وہ کسی چوردروازے سے اقتدار پر قابض نہیں ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کی صدارت کو کوئی دستوری یا اخلاقی جواز بھی حاصل نہیں۔ وہ ایک خود مقرر کردہ (self-appointed) صدر ہیں۔ اس طرح دوسری ٹرم کی حد تک انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو چیف آف اسٹاف بنا لیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نام نہاد صدارتی  ریفرنڈم کے بارے میں وہ صرف اپنی شرمندگی کا اظہار ہی کرنے پر مجبور نہیں ہوئے‘ اب وہ اس کو ایک غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں گو اس غلطی کے منطقی تقاضوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ متحدہ مجلسِ عمل نے ان کو دستور کے مطابق صدر منتخب ہونے کا ہر موقع دیا اور تعاون تک وعدہ کیا بشرطیکہ وہ غیرقانونی اور غیردستوری اختیارات اور ناجائز دستوری ترمیمات سے دستبردار ہوجائیں لیکن وہ دستوری اور قانونی طریقہ اختیار کرنے سے اب تک گریزاں ہیں اور اس طرح صرف قوت اور فوجی اتھارٹی کے ناجائز استعمال کے ذریعے اقتدار پر رہنے پر مصر ہیں۔ اس کے برعکس متحدہ مجلسِ عمل نے خالص قانونی اور جمہوری راستہ اختیار کیا ہے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے برسرِاقتدار آئے ہیں۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:

عوام نے ان (متحدہ مجلسِ عمل) کو ووٹ دیا ہے‘ اور انھیں حکومت چلانے کا اختیار ہے۔

لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کے گرجنے برسنے کا اور ہی انداز ہے۔ وہ منتخب اسمبلی کو صرف اس لیے توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ان کے مزعومہ ترقی پسند اسلام کو دین سے انحراف سمجھتی ہے اور جو مینڈیٹ قوم نے اس کو دیا ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انھیں اس کام پر نعوذ باللہ‘ اللہ تعالیٰ نے مامور کیا ہے۔ اس طرح وہ ظل الٰہی (divine right of kings) کے فرسودہ نظریے کا احیا کرنے کا جرم کر رہے ہیں۔

ایک طرف جنرل صاحب ہیں جنھیں غیرمنتخب اور خودساختہ صدرکے سوا کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ دوسری طرف صوبے کی منتخب اسمبلی اور قیادت ہے جو اسمبلی کے ذریعے‘ ملک کے دستور کے مطابق‘ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور اقبال اور قائداعظم کے قوم سے کیے ہوئے وعدوں کی تعمیل میں جمہوری اور تعلیمی ذرائع سے شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قوم کے سامنے یہ دو ماڈل بالکل واضح ہیں اور قوم یا دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیںجھونکی جاسکتی۔

سرحد کی حکومت کے خلاف صرف سیاسی دبائو اور معاشی اور مالیاتی وسائل سے محرومی ہی کے وار نہیں کیے جا رہے بلکہ سب سے بڑھ کر‘ ایک پروپیگنڈا وار پہلے دن سے شروع کردی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا جاتا ہے اور مثبت اور تعمیری کاموں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔

صوبہ سرحد کی حکومت نے پہلے دن سے سادگی اور کفایت شعاری کو اختیار کیا۔ متعدد وزیروں نے سرکاری مکان تک نہ لیے‘ اپنے دفتر اور گھر دونوں کے دروازے عام انسانوں کے لیے کھول دیے۔ اپنے رہن سہن کا انداز وہی رکھا جو پہلے تھا اورملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ اور سینیروزیر نے بجٹ میں اپنی تنخواہیں دو ہزار روپے ماہانہ اور باقی تمام وزرا نے ایک ہزار روپے ماہانہ کی کمی کی جب کہ مرکز اور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے وزیروں کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کا راستہ اختیار کیا اور نئی گاڑیوں اور مہنگی رہایش گاہوں پر غریب عوام کی دولت کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ صوبے میں قومی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے اختیار کیا اور عملاً کاروبار حکومت میں اس کے نفاذ کا آغاز کر دیا۔ جرائم کی رفتار صوبے میں باقی تمام ملک سے نصف ہے اور امن و امان کی صورت حال سب سے بہتر ہے۔ آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم شعبۂ حادثات میں فوری امداد اور مفت ادویہ کی فراہمی کا آغاز کر دیا ہے۔ ترقیاتی اور عمومی بجٹ میں تعلیم کو اولیت دی ہے اور سرحد وہ واحد صوبہ ہے جس نے تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا ۴.۲۸ فی صد مختص کیا ہے‘ جب کہ پنجاب اور سندھ میں یہ حصہ ۱۹ اور ۵.۱۳ فی صد ہے اور مرکز میں صرف ۶فی صد کے قریب۔ خواتین کی تعلیم کو واضح ترجیح دی گئی ہے اور صحت کے میدان میں بھی ان کے لیے خصوصی انتظامات کا اعلان کیا ہے۔

سرحد کا بجٹ اس پہلو سے بھی منفرد ہے کہ کسی صوبے نے پہلی بار بجٹ سازی کے بارے میں ایک نیا وژن پیش کیا ہے کہ عمومی انتظامی اور ترقیاتی بجٹ کی دوگونہ تقسیم کو آیندہ کے لیے بدل کر بجٹ کے لیے تین دھاروں (streams)کو متعین کیا ہے‘ یعنی انتظامی‘ فلاحی اور ترقیاتی۔ یہ اسلام کی اولیں روایات سے مطابقت رکھتا ہے جب حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میںباقاعدہ بیت المال کا آغاز ہوا تو اس کے دو شعبے تھے اموال المسلمین اور اموال الصدقہ۔ اس وژن کو سرحد کے بجٹ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔

نفاذِ شریعت کے یہ وہ تمام پہلوہیں جن کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور چند ضمنی باتوں کو جن کے بارے میں بھی ایک ہمدردانہ تعبیرممکن ہے‘ ایم ایم اے کے تصور اسلام کا نام دے کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ خود جنرل پرویز اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے  دو اسلاموں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک انتہا پسند اسلام اور دوسرا لبرل اسلام--- اور امریکہ اور یورپی ممالک سے انتہاپسند اسلام کو کچلنے اور لبرل اسلام کی پشتی بانی کرنے کے لیے واویلا کر رہے ہیں اور اس طرح محض اپنی ذات کی خاطر اسلام اور پاکستان دونوں کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال اگر کہیں خراب ہے تو وہ کراچی ہے جہاں ماہنامہ ہیرالڈ کراچی کے ایک تازہ جائزے کے مطابق ہر روز صرف پولیس کی سرپرستی میں پچاس کاریں لوٹی جا رہی ہیں۔ صوبے میں ایم کیو ایم کے حکومت میں آتے ہی  اور گورنر عشرت کا اقتدار نازل ہوتے ہی بھتّے کا کاروبار شروع ہو گیا ہے۔ قتل اور بوریوں میں لاشوں کا سلسلہ ایک بار پھر شہر میں خوف و ہراس کا باعث بن گیا ہے۔

ہیرالڈ ہی کی رپورٹ ہے کہ صوبائی محکمہ انصاف کے مطابق روزانہ بنیادوں پر خود پولیس کے خلاف دسیوں کیس درج ہو رہے ہیں۔ ۲۰ مارچ ۲۰۰۱ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۲ء تک ۳۲۸ شکایات پولیس کے خلاف درج کی گئی لیکن ۲۰ مارچ ۲۰۰۲ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء تک کے عرصے کے دوران کراچی پولیس کے خلاف ۴۸۰ کیسوں کی شناخت کی گئی۔ کراچی کے بارے میں ٹائم کی رپورٹ میں اگر مبالغہ بھی ہو تو بھی یہ شہر ایک بار پھر مخدوش حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان اور پنجاب میں فرقہ وارانہ قتل کے واقعات روز افزوں ہیں۔ گیس پائپ لائن ایک ہی مہینے میں دو بار میزائلوں سے اڑائی جاتی ہے اور کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے اپنے علاقے میں پولیس کا ڈی آئی جی دن دھاڑے مار دیا جاتا ہے اور کوئٹہ میں پولیس کے زیر حراست نوجوان قتل کیے جاتے ہیں۔ یہ سب جنرل صاحب کے لیے کسی تشویش کا سامان نہیں فراہم کرتے البتہ ان کی نینداگر اڑ جاتی ہے تو اس پر کہ پیپسی کے بورڈوں پر عورتوں کی تصویروں پر کپڑا کیوں چڑھا دیا گیا۔ یہ ہے بالغ نظر (mature) قیادت کا احساسِ تناسب (sense of proportion) !

سرحد اسمبلی نے جو شریعت بل منظور کیا ہے غالباً جنرل پرویز اور ان کے قلم بکف گوریلوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا‘ اس لیے کہ اس میں طالبان کا کوئی ’’سایہ‘‘ (ghost) موجود نہیں۔ وہ بل دستور کے تحت منتخب اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ سیکولر پارٹیوں نے ۲۱ ترامیم بل میں پیش کیں جن کو بعد میں واپس لے لیا اور ساری جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے اسے منظور کیا۔ ایک بھی ووٹ اس کے خلاف نہیں آیا۔ قانون کا آپ تجزیہ کرلیں اس میں تعلیم‘ عورتوں کے حقوق‘ غیرمسلموں کے حقوق‘ انصاف کے حصول کو آسان بنانا اور معاشی اور اجتماعی زندگی کو فساد‘ ناہمواریوں اور استحصال سے پاک کرنے کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ تمام کام قانون کے دائرے میں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے سے کرنے کا خاکہ مرتب کیا گیا ہے۔ پوری منصوبہ سازی اور قانون سازی‘ باہمی مشاورت سے کرنے کا عندیہ ہے۔ تین کمیشن بنائے جا رہے ہیں جو مشورے سے اپنی سفارشات دیں گے اور پھر ان کی روشنی میں اسمبلی مزید قانون سازی کرے گی۔ اس پورے عمل میں یہ عوام کی شرکت‘ راے عامہ کی تربیت اور تعلیمی انقلاب کے ذریعے تبدیلی کو اولیت دی گئی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسے تعمیری انداز کو’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’طالبانائزیشن‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ بدنیتی پر مبنی نہیں تو کم علمی اور غلط فہمی کے بارے میں تو کوئی شبہہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ راستہ قوموں کی ترقی کا راستہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم پوری قوم اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے ارکان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کھلے ذہن سے قانون کے مسودے کو پڑھیں اور علم اور دیانت کے ساتھ اس بحث میں حصہ لے۔ یہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔

ملکی سلامتی اور استحکام کا تقاضا

آخر میں ہم قوم کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے اس احساس کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات میں حصہ لینے والی جنرل صاحب کی ٹیم میں جناب شریف الدین پیرزادہ کی شرکت سے یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ ایل ایف او کا رشتہ اب اسلام آباد سے بڑھ کر واشنگٹن سے استوار ہو رہا ہے۔ ویسے تو امریکہ کو جمہوریت پر بڑا ناز ہے اور دنیا بھر میں وہ جمہوریت کی ترویج ہی کو اپنے استعماری پروگرام کا اصل ہدف قرار دیتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کے لیے زبانی جمع خرچ اپنی جگہ‘ لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے بادشاہوں‘ ڈکٹیٹروں اور فوجی حکمرانوں کو استعمال کیا ہے۔ تازہ ترین مثال جنرل پرویز مشرف سے دوستی بلکہ یاری کا رشتہ ہے۔ کیا وہ وقت تھا کہ کلنٹن صاحب ملاقات کے روادار نہ تھے‘ آئے تو اسے دورہ نہیں stop over قرار دیا۔ شرط لگا دی کہ وردی میں ملاقات نہیں ہوگی۔ اور سوٹ والی ملاقات کا مصافحہ تک کا فوٹو نہ تصویر کی صورت میں آئے گا اور نہ ٹی وی کیمرے کی آنکھ کا تارہ بنے گا۔ مفاد کی ہوائوں کے رخ کی ذرا سی تبدیلی نے انھی جنرل صاحب کو اب دوست بنا دیا اور کیمپ ڈیوڈ کی قربت کا سزاوار کردیا۔ ترکی میں پارلیمنٹ نے جو جمہوری کردار ادا کیا اس پر امریکی قیادت ناراض ہے اور امریکی وزیر دفاع ریمز فیلڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ترکی کی فوج نے ہماری توقعات پوری نہیں کیں‘‘۔ یہ ہے امریکہ کی جمہوریت نوازی!

لگتا یوں ہے کہ اب ’’وردی والی جمہوریت‘‘ کو امریکہ کی سند ملنے والی ہے۔ لیکن جنرل صاحب اور بش صاحب دونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فیصلے پاکستانی قوم کرے گی‘ کیمپ ڈیوڈ یا لندن میں یہ معاملات طے نہیں ہوں گے۔ پاکستانی قوم ملک میں حقیقی جمہوریت کی خواہش مند ہے اور وہ فوج کو وہ احترام اور مقام دینا چاہتی ہے جو دفاع وطن کے لیے ضروری ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو اب ختم ہونا چاہیے‘ ورنہ ڈر ہے کہ فوج روز بروز زیادہ سے زیادہ متنازع بنتی جائے گی اور بالآخر فوجی قیادت کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں قوم اور فوج میں بُعدپیدا ہوگا جو دونوں کے لیے برا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں کاکردار کسی طرح بھی قابل رشک نہیں رہا اور آج ہم بہت دکھ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پہلے تو عوام کے غم و غصے کا نشانہ صرف وہ حکمران ہوتے تھے جو فوج کو زینہ بنا کر حکومت پر قابض ہوتے تھے مگر اب بے چینی اور اضطراب کا رخ فوج کی طرف بحیثیت ایک ادارے کے ہوتا جا رہا ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ ان حالات میں جنرل صاحب کے ذہن اور عزائم کی جو جھلکیاں ان کے امریکہ جانے سے پہلے کے بیانات سے مترشح ہیں وہ ملک اور فوج دونوں کے لیے نہایت پریشان کن ہیں۔ ذرا غور کریںکہ جنرل صاحب کیا پیغام دے رہے ہیں:

  •                 گذشتہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ اور جمہوریت افسوس ناک ہے۔
  •                 ملک ایک قابل عمل جمہوری نظام تشکیل دینے میں ناکام ہو گیا ہے۔
  •                 ریفرنڈم ایک غلطی تھی۔
  •                 سیاست دان ناپختہ اور نااہل ہیں۔
  •                 میں بنیادی طور پر فوجی ہوں اور سیاست بھی فوج کے انداز میں کرتا ہوں۔
  •                 سیاست دانوں کے بالغ نظر ہونے تک وردی میں رہوں گا۔
  •                 مسئلہ کشمیر کے دس بارہ حل موجود ہیں۔
  •                 اسمبلی کے کرتوت اسمبلی توڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
  •                 اگر ملک کی خاطر مجھے دس ٹوپیاں بھی پہننی پڑی تو پہنوں گا۔
  •                 اگر طالبانائزیشن ہوا تو اسمبلی توڑ دوں گا۔
  •                 قوم تیار رہے! امن کے لیے سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔

یہ صرف چند نمونے ہیں لیکن موصوف کا ذہن سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ قرآن کے استعارے میں اس بدقسمت خاتون کی راہ پر بڑھ رہے ہیں جو سوت بڑی محنت سے خودکاتتی ہے۔ پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط (النحل ۱۶:۹۲) خدا کرے ایسا نہ ہو لیکن ہے یہ سب کے لیے لمحۂ فکریہ! ان سارے خدشات اور امکانات کی روشنی میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان کو غور کرنا چاہیے کہ ہوا کا رُخ کیا ہے اور کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تمام سیاسی قوتیں دستور اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں اور محض فوجی طالع آزمائوں کو سہارا دینے کی روش ترک کریں۔ جمہوریت کبھی بھی جرنیلوں کی سرپرستی (tutelage) کے ذریعے فروغ نہیں پاسکتی۔ جمہوری استحکام کا انحصار دستور اورملکی اداروں کے استحکام کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر سیاست دان مراعات اور وزارتوں کی خاطر جرنیلوں کے آلہ کار بننے کو ترجیح دیں اور عدالت کے ججوں کو دستور میں ایسی دفعات نظرنہ آئیں جو حاضرسروس (in service) فوجی کے صدر ہونے میں مانع ہوں تو پھر جمہوریت کا مستقبل روشن کیسے ہوسکتا ہے؟ سرکاری پارٹی اور عدلیہ نے قوم کو مایوس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سوال کسی ایک پارٹی اور ایک ادارے کا نہیں‘ اس ملک کے ۱۴کروڑ انسانوں کی آزادی‘خودمختاری‘ ان کے حقوق اور ان کے مستقبل کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقوق اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب ان کے لیے جدوجہد کی جائے اور قربانیاں دی جائیں اور آزادی کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنی اور قوم کی آزادی کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو۔ اقبال نے اس حقیقت کو کتنے صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا     ؎

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر

آج اگر ہمیںاپنی آزادی اور اپنے حقوق کی خود اپنوں کی دست درازیوں سے حفاظت کرنی ہے تو اس کے لیے ایمان‘ استقامت‘ ایثار و قربانی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا     ؎

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں‘ لا الٰہ الا اللہ


(اشاعت عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے:  منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)