اسلامی فکر اور معاشی فکر دونوں صدیوں سے انسانی زندگی کی آب یاری کر رہے ہیں مگر ان دھاروں کا ملاپ جس طرح بیسویں صدی میں ہوا پہلے نہیں ہوا تھا۔ معاشی فکر کی تاریخ پر اب جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں وہ ابن خلدون کے اضافوں کا اعتراف کرتی ہیں جو آدم اسمتھ سے تقریباً ۴۰۰ سال پہلے گزرے تھے۔ علما ے اسلام حکمت تحریم ربا اور زکوٰۃ کے سماجی اور معاشی فوائد پر روز اول سے روشنی ڈالتے رہے۔ کبھی کبھی وہ قیمتوں کے رسد و طلب کی قوتوں کے نتیجے میں تعین اور زرعی معاشرے کی ترقی اور بربادی پر بھی کوئی بات کہہ گئے مگر یہ شرف آدم اسمتھ کے معاصر شاہ ولی ؒ اللہ دہلوی کو حاصل ہے کہ انھوں نے ’’ارتفاقات‘‘ کی مشہور بحث میں انسانی سماج کے معاشی ارتقا کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔ شاہ صاحب کے ۲۰۰ سال بعد برعظیم ہند میں اس مکتب ِفکر کا ظہور ہوا جو آج ساری دنیا میں ’’اسلامی معاشیات ‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔
معاشیات کی نسبت سے اس علم کا امتیاز یہ ہے کہ یہ انسان کی معاشی زندگی کو سمجھنے اور اسے سدھارنے‘ دونوں کاموں میں اس بصیرت سے بھی کام لیتا ہے جو ہدایت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسلام کی نسبت سے اس علم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معاملات کے اس دائرے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو ٹکنالوجی اور دیگر تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس دائرے میں اجتہاد کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔ شاہ ولی ؒ اللہ کے نام سے دیے جانے والے ایوارڈ براے ۲۰۰۱ء کو اسلامی معاشیات کے لیے مختص کر کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز نے اگر ایک طرف اس علم کی اہمیت پہچانی ہے تو دوسری طرف اس علم کی نسبت سے شاہ صاحب کے pioneering مقام کی بھی نشان دہی کی ہے جس کے لیے میں انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رہا اس ایوارڈ کے لیے بورڈ کی طرف سے میرا انتخاب تو اس کی مبارک باد اپنی خوش نصیبی کو ہی دے سکتا ہوں۔
بیسویں صدی کے شروع میں علامہ اقبالؒ نے اقتصادیات پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا پس منظر پنجاب کے مسلمان مزارعین کو درپیش مسائل تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں مفتی محمد عبدہؒ ڈاک خانے میں جمع کی جانے والی بچتوں اور ان پر ملنے والے سود کے پس منظر میں شرکت و مضاربت پر غوروفکر کررہے تھے۔ چند دہائیوں کے بعد جب مسلم ممالک اور ہندستان دونوں میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی نبردآزمائی نے زور پکڑا تو مسلمان دانش ور اور علماے دین اسلام کی معاشی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوئے اور بات اقبال کی شاعری سے آگے بڑھ کر انور اقبال قریشی‘ مناظر احسن گیلانی‘ حفظ الرحمن سیوہاروی‘ سیدابوالاعلیٰ مودودی اور محمد باقر الصدر کی تصانیف تک پہنچی جنھیں اسلامی معاشیات کی اولین کھیپ میں شمار کیا جاتا ہے۔ البتہ عالمی سطح پر اس علم کے رسمی آغاز کی تاریخ ۱۹۷۶ء ہے جب مکہ مکرمہ میں اسلامی معاشیات کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس عرصے میں اسلامی معاشیات مشرق و مغرب کی یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ دینی درس گاہوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیق کے وہ موضوعات جن کا تعلق اسلامی معاشیات سے ہو ہر جگہ قابل قبول ہیں۔ نصف درجن سے زائد ان علمی رسالوں کے علاوہ جو اسی علم کے لیے مخصوص ہیں‘ ہر علمی رسالہ اس موضوع پر تحقیقی مقالات خوش دلی سے قبول کرتا ہے۔ اسلامی معاشیات کی یہ بڑھتی ہوئی مقبولیت بتاتی ہے کہ یہ صرف جذبات کی کھیتی نہیں ہے۔ اس کے پاس دینے کے لیے کچھ ضرور ہے جو انسانوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس دین (contribution) کا تعلق ان حالات سے ضرور ہے جن سے آج مسلمان سمیت سارے انسان دوچار ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ سماجی مقاصد اور اخلاقی قدروں کو رفتہ رفتہ بے دخل کر کے معاشیات کو فزکس کی طرح کا علم بنانے کا جو پروجیکٹ ۲۰۰سال پہلے چلایا گیا وہ ناکام ثابت ہوا۔ اس پروجیکٹ کے ذاتی منفعت کے بیش از بیش حصول کے مفروضہ اور maximisation کے معیار کو ریاضیات کے استعمال سے سازگار پا کر اختیار کیا گیا۔ مگر فزکس کے برعکس جس میں سائنس دان کے مفروضات کا مادے کے عناصر کے رویے پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ سماجی علوم بالخصوص معاشیات میں مفروضے معیار بن سکتے ہیں۔ جدید علمِ معاشیات نے سرمایہ داری کا جواز فراہم کیا‘ نوآبادیاتی توسیع (colonial expansion)کو مہمیز دی اور بالآخر مفادات کے ٹکرائو کے نتیجے میں دنیا کو دو عظیم جنگوں سے دوچار کیا۔ آخرکار عظیم عالمی کساد بازاری کے ردعمل میں کینز کے خیالات کو قبول کرتے ہوئے روزگار فراہم کرنے کی خاطر بازار کی قوتوں کو لگام لگانے کا تصور قبول کیا گیا اور اس طرح فلاحی ریاست وجود میں آئی۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مارکس کے افکار اور اشتراکیت کی ناکامی کی طرح فلاحی ریاست بھی اپنے بوجھ تلے آپ دم توڑ رہی ہے۔ اس طرح جو خلا پیدا ہوا اسے زر کی بابت پالیسی پر انحصار (monetarism) کے اُلٹے قدم نے بھی نہیں پر کیا بلکہ اہم معاشی فیصلوں میں جن پر قوموں کی خوش حالی ہی کا نہیں بین الاقوامی سطح پر امن کا بھی انحصار ہے‘ ایک بار پھر ایسے فیصلوںکو اہل ثروت اور کثیرالاقوام کاروباری اداروں (multinational corporations) کے تابع کر دیا۔ دنیا میں بحیثیت مجموعی غیرمعمولی معاشی ترقی کے باوجود‘ دولت اور آمدنی کی تقسیم میں ناہمواری اور عدمِ توازن قوموںکے اندر بھی بڑھا ہے اور قوموں کے درمیان بھی۔
ان حالات کے ردعمل میں کچھ عرصے سے علمِ معاشیات کے مفروضات اور اس کے منہاج (methodology) پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ اخلاقی اقدار کی طرف رجوع اسی نظرثانی کا ایک مظہر ہے۔ ہندستان کے ایک سپوت نوبل انعام یافتہ امرتیہ کمارسین کے افکار اور قحط اور بھک مری پر ان کا کام اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مگر ایک ٹھیٹھ ماہر معاشیات کے لیے اب بھی یہ بات ماننا بہت مشکل ہے کہ اس کے علم میں اخلاق و مذہب کا بھی کوئی حصہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے کہ اخلاق و مذہب کا تعلق مقاصد سے ہے‘ جب کہ علمِ معاشیات کا مرکز ِتوجہ ذرائع ہیں۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ ذرائع و مقاصد کے درمیان یہ تفریق اور ان کی قطعی دوئی کا تصور ایک بانجھ تصور ہے جس سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا۔ مقاصد کو ذرائع سے اور ذرائع کو مقاصد سے الگ کرکے دیکھنے کے لیے ہمیں انسانی طرزِعمل کی بابت ایسے مفروضات کا سہارا لینا پڑا جو حقیقت سے دُور لے گئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بے مقصد کوئی بھی ذریعے کی طرف توجہ نہیں کرتا‘کوئی غرض ہوتی ہے تب ہی ہم ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ ذرائع کا مطالعہ مقاصد سے تجاہل برت کر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خود ذریعے کے تصور میں مقصد کا شعور چھپا ہوا ہے۔
اسلامی معاشیات کے علم بردار علمِ معاشیات کو کفایت (effeciency) کی جستجو سے ہٹانا نہیں چاہتے۔ وہ اس جستجو کو سماجی عدل اور طمانیت نفس سے آگاہ دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ذرائع کا ایسااستعمال عمل میں آئے جو افزایش دولت کے ساتھ دولت اور آمدنی کی عادلانہ تقسیم کا بھی ضامن ہو۔ نیو کلاسیکی علمِ معاشیات کی رہنمائی میں کام کرنے والا مروجہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اس سے محروم ہے۔ اس صورت حال کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ علمِ معاشیات کو اخلاقی قدروں سے روشناس کرایا جائے۔ اختلاف مذاہب کے باوجود دنیا کے بیشتر انسان سچائی‘ ہمدردی‘ مساوات‘ امانت و دیانت‘ عدل و انصاف جیسی بنیادی اخلاقی اقدار پر متفق ہیں اور ان کی عظیم اکثریت کو اس بات کا بھی شعور ہے کہ اخلاقی اقدار میں استحکام اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی جڑیں خدا اور آخرت کے تصورات میں ہوں جو ہمیں مذہب دیتا ہے۔ مواصلاتی انقلاب کی لائی ہوئی گلوبلائزیشن کی نئی لہر کے نتیجے میں دنیا بدل رہی ہے۔ اہل مشرق بالخصوص ترقی پذیر مسلمان ملکوں کو شکایت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکہ کی تسلّط پسندی (hegemony) نے گلوبلائزیشن کو ان کے حق میں باعث رحمت بنانے کے بجاے وبالِ جان بنا رکھا ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ایک ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ سارے انسانوں کے حوصلے بھی یکساں ہوگئے ہیں۔ اُسی نظام کو ہمہ گیری حاصل ہو سکے گی اور وہی دیرپا ثابت ہوگا جو انسانوںکو عدل‘ مساوات اور جمہوریت کی ضمانت دے نہ کہ ایک نئے استعمار کا شکار بنا کر رکھے۔ لیکن اس تبدیلی کے لیے علمِ معاشیات کو بدلنا ہوگا اور ذرائع کے باکفایت استعمال کے ساتھ اسے عدل و مساوات اور جمہوریت کا بھی خادم بنانا ہوگا۔
خواتین و حضرات! اسلامی معاشیات اسی منزل کی طرف ایک قدم ہے۔ آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ہمارے ملک ] بھارت[ میں بھی یہ علم اجنبی نہیں رہا۔ ملک کی متعدد یونی ورسٹیاں اسلامی معاشیات سے متعلق موضوعات پر ریسرچ کرنے والوں کو ڈا کٹریٹ کی ڈگریاں دے چکی ہیں۔ بعض یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات سے متعلق کورس پڑھائے جانے لگے ہیں۔ انڈین ایسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس کا دو ماہی بلیٹن اور انسٹی ٹیوٹ آف ابجیکٹیواسٹڈیز کا علمی رسالہ اسلامی معاشیات کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلامی فنانس کی فراہمی کے سلسلے میں بھی بعض ادارے کام کر رہے ہیں۔