اسلامی فکر اور معاشی فکر دونوں صدیوں سے انسانی زندگی کی آب یاری کر رہے ہیں مگر ان دھاروں کا ملاپ جس طرح بیسویں صدی میں ہوا پہلے نہیں ہوا تھا۔ معاشی فکر کی تاریخ پر اب جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں وہ ابن خلدون کے اضافوں کا اعتراف کرتی ہیں جو آدم اسمتھ سے تقریباً ۴۰۰ سال پہلے گزرے تھے۔ علما ے اسلام حکمت تحریم ربا اور زکوٰۃ کے سماجی اور معاشی فوائد پر روز اول سے روشنی ڈالتے رہے۔ کبھی کبھی وہ قیمتوں کے رسد و طلب کی قوتوں کے نتیجے میں تعین اور زرعی معاشرے کی ترقی اور بربادی پر بھی کوئی بات کہہ گئے مگر یہ شرف آدم اسمتھ کے معاصر شاہ ولی ؒ اللہ دہلوی کو حاصل ہے کہ انھوں نے ’’ارتفاقات‘‘ کی مشہور بحث میں انسانی سماج کے معاشی ارتقا کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔ شاہ صاحب کے ۲۰۰ سال بعد برعظیم ہند میں اس مکتب ِفکر کا ظہور ہوا جو آج ساری دنیا میں ’’اسلامی معاشیات ‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔
معاشیات کی نسبت سے اس علم کا امتیاز یہ ہے کہ یہ انسان کی معاشی زندگی کو سمجھنے اور اسے سدھارنے‘ دونوں کاموں میں اس بصیرت سے بھی کام لیتا ہے جو ہدایت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسلام کی نسبت سے اس علم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معاملات کے اس دائرے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو ٹکنالوجی اور دیگر تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس دائرے میں اجتہاد کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔ شاہ ولی ؒ اللہ کے نام سے دیے جانے والے ایوارڈ براے ۲۰۰۱ء کو اسلامی معاشیات کے لیے مختص کر کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیواسٹڈیز نے اگر ایک طرف اس علم کی اہمیت پہچانی ہے تو دوسری طرف اس علم کی نسبت سے شاہ صاحب کے pioneering مقام کی بھی نشان دہی کی ہے جس کے لیے میں انسٹی ٹیوٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رہا اس ایوارڈ کے لیے بورڈ کی طرف سے میرا انتخاب تو اس کی مبارک باد اپنی خوش نصیبی کو ہی دے سکتا ہوں۔
بیسویں صدی کے شروع میں علامہ اقبالؒ نے اقتصادیات پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا پس منظر پنجاب کے مسلمان مزارعین کو درپیش مسائل تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں مفتی محمد عبدہؒ ڈاک خانے میں جمع کی جانے والی بچتوں اور ان پر ملنے والے سود کے پس منظر میں شرکت و مضاربت پر غوروفکر کررہے تھے۔ چند دہائیوں کے بعد جب مسلم ممالک اور ہندستان دونوں میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی نبردآزمائی نے زور پکڑا تو مسلمان دانش ور اور علماے دین اسلام کی معاشی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوئے اور بات اقبال کی شاعری سے آگے بڑھ کر انور اقبال قریشی‘ مناظر احسن گیلانی‘ حفظ الرحمن سیوہاروی‘ سیدابوالاعلیٰ مودودی اور محمد باقر الصدر کی تصانیف تک پہنچی جنھیں اسلامی معاشیات کی اولین کھیپ میں شمار کیا جاتا ہے۔ البتہ عالمی سطح پر اس علم کے رسمی آغاز کی تاریخ ۱۹۷۶ء ہے جب مکہ مکرمہ میں اسلامی معاشیات کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔
اس عرصے میں اسلامی معاشیات مشرق و مغرب کی یونی ورسٹیوں اور اعلیٰ دینی درس گاہوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیق کے وہ موضوعات جن کا تعلق اسلامی معاشیات سے ہو ہر جگہ قابل قبول ہیں۔ نصف درجن سے زائد ان علمی رسالوں کے علاوہ جو اسی علم کے لیے مخصوص ہیں‘ ہر علمی رسالہ اس موضوع پر تحقیقی مقالات خوش دلی سے قبول کرتا ہے۔ اسلامی معاشیات کی یہ بڑھتی ہوئی مقبولیت بتاتی ہے کہ یہ صرف جذبات کی کھیتی نہیں ہے۔ اس کے پاس دینے کے لیے کچھ ضرور ہے جو انسانوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس دین (contribution) کا تعلق ان حالات سے ضرور ہے جن سے آج مسلمان سمیت سارے انسان دوچار ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ سماجی مقاصد اور اخلاقی قدروں کو رفتہ رفتہ بے دخل کر کے معاشیات کو فزکس کی طرح کا علم بنانے کا جو پروجیکٹ ۲۰۰سال پہلے چلایا گیا وہ ناکام ثابت ہوا۔ اس پروجیکٹ کے ذاتی منفعت کے بیش از بیش حصول کے مفروضہ اور maximisation کے معیار کو ریاضیات کے استعمال سے سازگار پا کر اختیار کیا گیا۔ مگر فزکس کے برعکس جس میں سائنس دان کے مفروضات کا مادے کے عناصر کے رویے پر کوئی اثر نہیں پڑتا‘ سماجی علوم بالخصوص معاشیات میں مفروضے معیار بن سکتے ہیں۔ جدید علمِ معاشیات نے سرمایہ داری کا جواز فراہم کیا‘ نوآبادیاتی توسیع (colonial expansion)کو مہمیز دی اور بالآخر مفادات کے ٹکرائو کے نتیجے میں دنیا کو دو عظیم جنگوں سے دوچار کیا۔ آخرکار عظیم عالمی کساد بازاری کے ردعمل میں کینز کے خیالات کو قبول کرتے ہوئے روزگار فراہم کرنے کی خاطر بازار کی قوتوں کو لگام لگانے کا تصور قبول کیا گیا اور اس طرح فلاحی ریاست وجود میں آئی۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مارکس کے افکار اور اشتراکیت کی ناکامی کی طرح فلاحی ریاست بھی اپنے بوجھ تلے آپ دم توڑ رہی ہے۔ اس طرح جو خلا پیدا ہوا اسے زر کی بابت پالیسی پر انحصار (monetarism) کے اُلٹے قدم نے بھی نہیں پر کیا بلکہ اہم معاشی فیصلوں میں جن پر قوموں کی خوش حالی ہی کا نہیں بین الاقوامی سطح پر امن کا بھی انحصار ہے‘ ایک بار پھر ایسے فیصلوںکو اہل ثروت اور کثیرالاقوام کاروباری اداروں (multinational corporations) کے تابع کر دیا۔ دنیا میں بحیثیت مجموعی غیرمعمولی معاشی ترقی کے باوجود‘ دولت اور آمدنی کی تقسیم میں ناہمواری اور عدمِ توازن قوموںکے اندر بھی بڑھا ہے اور قوموں کے درمیان بھی۔
ان حالات کے ردعمل میں کچھ عرصے سے علمِ معاشیات کے مفروضات اور اس کے منہاج (methodology) پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ اخلاقی اقدار کی طرف رجوع اسی نظرثانی کا ایک مظہر ہے۔ ہندستان کے ایک سپوت نوبل انعام یافتہ امرتیہ کمارسین کے افکار اور قحط اور بھک مری پر ان کا کام اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ مگر ایک ٹھیٹھ ماہر معاشیات کے لیے اب بھی یہ بات ماننا بہت مشکل ہے کہ اس کے علم میں اخلاق و مذہب کا بھی کوئی حصہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے کہ اخلاق و مذہب کا تعلق مقاصد سے ہے‘ جب کہ علمِ معاشیات کا مرکز ِتوجہ ذرائع ہیں۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ ذرائع و مقاصد کے درمیان یہ تفریق اور ان کی قطعی دوئی کا تصور ایک بانجھ تصور ہے جس سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا۔ مقاصد کو ذرائع سے اور ذرائع کو مقاصد سے الگ کرکے دیکھنے کے لیے ہمیں انسانی طرزِعمل کی بابت ایسے مفروضات کا سہارا لینا پڑا جو حقیقت سے دُور لے گئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بے مقصد کوئی بھی ذریعے کی طرف توجہ نہیں کرتا‘کوئی غرض ہوتی ہے تب ہی ہم ذریعے تلاش کرتے ہیں۔ ذرائع کا مطالعہ مقاصد سے تجاہل برت کر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خود ذریعے کے تصور میں مقصد کا شعور چھپا ہوا ہے۔
اسلامی معاشیات کے علم بردار علمِ معاشیات کو کفایت (effeciency) کی جستجو سے ہٹانا نہیں چاہتے۔ وہ اس جستجو کو سماجی عدل اور طمانیت نفس سے آگاہ دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ذرائع کا ایسااستعمال عمل میں آئے جو افزایش دولت کے ساتھ دولت اور آمدنی کی عادلانہ تقسیم کا بھی ضامن ہو۔ نیو کلاسیکی علمِ معاشیات کی رہنمائی میں کام کرنے والا مروجہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت اس سے محروم ہے۔ اس صورت حال کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ علمِ معاشیات کو اخلاقی قدروں سے روشناس کرایا جائے۔ اختلاف مذاہب کے باوجود دنیا کے بیشتر انسان سچائی‘ ہمدردی‘ مساوات‘ امانت و دیانت‘ عدل و انصاف جیسی بنیادی اخلاقی اقدار پر متفق ہیں اور ان کی عظیم اکثریت کو اس بات کا بھی شعور ہے کہ اخلاقی اقدار میں استحکام اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کی جڑیں خدا اور آخرت کے تصورات میں ہوں جو ہمیں مذہب دیتا ہے۔ مواصلاتی انقلاب کی لائی ہوئی گلوبلائزیشن کی نئی لہر کے نتیجے میں دنیا بدل رہی ہے۔ اہل مشرق بالخصوص ترقی پذیر مسلمان ملکوں کو شکایت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکہ کی تسلّط پسندی (hegemony) نے گلوبلائزیشن کو ان کے حق میں باعث رحمت بنانے کے بجاے وبالِ جان بنا رکھا ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی۔ دنیا کے ایک ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ سارے انسانوں کے حوصلے بھی یکساں ہوگئے ہیں۔ اُسی نظام کو ہمہ گیری حاصل ہو سکے گی اور وہی دیرپا ثابت ہوگا جو انسانوںکو عدل‘ مساوات اور جمہوریت کی ضمانت دے نہ کہ ایک نئے استعمار کا شکار بنا کر رکھے۔ لیکن اس تبدیلی کے لیے علمِ معاشیات کو بدلنا ہوگا اور ذرائع کے باکفایت استعمال کے ساتھ اسے عدل و مساوات اور جمہوریت کا بھی خادم بنانا ہوگا۔
خواتین و حضرات! اسلامی معاشیات اسی منزل کی طرف ایک قدم ہے۔ آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ہمارے ملک ] بھارت[ میں بھی یہ علم اجنبی نہیں رہا۔ ملک کی متعدد یونی ورسٹیاں اسلامی معاشیات سے متعلق موضوعات پر ریسرچ کرنے والوں کو ڈا کٹریٹ کی ڈگریاں دے چکی ہیں۔ بعض یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات سے متعلق کورس پڑھائے جانے لگے ہیں۔ انڈین ایسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس کا دو ماہی بلیٹن اور انسٹی ٹیوٹ آف ابجیکٹیواسٹڈیز کا علمی رسالہ اسلامی معاشیات کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلامی فنانس کی فراہمی کے سلسلے میں بھی بعض ادارے کام کر رہے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دولت اور آمدنی کو اللہ کا فضل قرار دیا ہے:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲: ۱۰)
پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے۔
سورہ مزمل کی بیسویں آیت میں بھی یہی عبارت اِبْتَغَائَ فَضْلِ اللّٰہِ آئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
حلال کمائی کی کوشش فرض (نماز) کے بعد ایک فریضہ ہے۔ (مشکوٰۃ ‘ کتاب البیوع ‘ باب الکسب وطلب الحلال بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان)
اور امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفردمیں یہ حدیث نقل کی ہے:
نیک آدمی کے لیے پاک مال کیا خوب چیز ہے۔ (بخاری‘ الادب المفرد‘ ص ۴۵-۴۶ ‘ المطبعۃ التازیہ‘ مصر ۱۳۴۹ھ)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادایہ دعا بھی روایت کی ہے:
اللھم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ
الٰہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں غربت‘ تنگ دستی اور ذلت (و خواری) سے۔ (بخاری‘ الادب المفرد‘ ص ۹۹‘ المطبعۃ التازیہ‘ مص ۱۳۴۹ھ)
اس حدیث سے واضح ہے کہ غربت کی زندگی‘ احتیاج کی زندگی‘ وقار کی زندگی نہیں ہوتی بلکہ ذلت کی طرف لے جاتی ہے‘ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’کبھی غربت کفر تک پہنچا دیتی ہے‘‘۔
ابن ماجہ نے تجارت کے بارے میں یہ حدیث روایت کی ہے:
سچا‘ امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (بیہقی‘ شعب الایمان)
مزید روایات نقل کیے بغیر‘ عام طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حسن نیت کے ساتھ اسلامی آداب و اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے ہر طرح کی معاشی تگ و دو کی قدر کی گئی ہے اور اس کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے۔
جہاں تک فقہ اسلامی کا تعلق ہے‘ اس سے تفصیلی استشہاد کے لیے تو یہ مقالہ کافی نہیں ہوگا‘ صرف اس اصول کا ذکر کافی ہوگا کہ
جس کے بغیر کوئی فریضہ مکمل نہ ہو تو وہ چیز بھی واجب ہے۔(ابن ماجہ‘ ابواب التجارات‘ باب الحث علی المکاسب)
اس اصول کی روشنی میں اس آیت کریمہ کے تقاضے پر بھی غور کرنا چاہیے جس میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ دشمنان اسلام کے مقابلے کی ہر طرح سے تیاری کریں۔ ظاہر ہے کہ دور جدید میں دفاعی اور جنگی تیاری ایک مضبوط معاشی بنیاد چاہتی ہے۔
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّا اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (الانفال ۸:۶۰)
اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیںجانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے‘ اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔
آیات ‘احادیث اور فقہ کی مذکورہ بالا دلیلوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے پاس سنت نبویؐ اور عہد خلافت راشدہ کے قولی نظائر موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ معاشی تدابیر کی طرف پوری توجہ دی گئی اور معاشی وسائل فراہم کرنے میں کسی طرح کی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
نبی کریمؐ جب نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو بڑی تعداد میں آپؐ کے دوسرے ساتھی بھی مدینہ آگئے۔ رہنے کے لیے گھر تو ان میں سے کسی کے پاس نہ تھا‘ اکثر کے پاس ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی انتظام نہ تھاکیونکہ وہ اپنے مال و اسباب ساتھ نہ لا سکے تھے۔ اس ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے نبی اکرمؐ نے ہر مہاجر کو مدینہ میں رہنے والے کسی باشندے کا بھائی بنا کر اس کے ساتھ ٹھہرا دیا۔ اس طرح انصار اور مہاجرین کا بھائی چارہ‘ ’’مواخاۃ‘‘ وجود میں آیا۔ مگر مہاجرین نے اپنے انصاری بھائیوں پر بار بننا گوارا نہ کیا اور بعض حضرات نے تو ایک دن کی تاخیر کے بغیر بازار کا راستہ پوچھا اور اپنی روزی خود کمانے کے راستے تلاش کرلیے۔
نبی کریمؐ کی ہجرت سے پہلے آپؐ کے ایما پر بعض مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تھی۔ یہ لوگ جن کی تعداد بالآخر سو سے زیادہ ہو گئی تھی‘ نبی اکرمؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد رفتہ رفتہ حبشہ سے مدینہ آنے لگے مگر ایک معتدبہ تعداد اس کے بعد بھی کئی برس وہاں ٹھہری۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہاں وہ پناہ گزیں بن کر کسی کی امداد کے سہارے نہیں رہ رہے تھے بلکہ تجارت اور کسب معاش کے دوسرے طریقے اختیار کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے گئے۔
۶ہجری میں خیبر کی فتح اور اس کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال مکہ کی فتح سے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو گئی۔ پھر خلافت راشدہ کے ۳۰ برسوں میں تو مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں میں کافی دولت آئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا‘ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ اجتماعی زندگی میں دولت کے استعمال کی نمایاں شکلوں میں کنویں یا زرعی زمین کو وقف علی اللہ کے طور پر سماج کے حوالے کر دینا‘ جہاد کی ضروریات کے لیے اسلحے‘ سواریاں اور نقد مال پیش کرنا اور آگے چل کر مسجدیں اور راستے میں قیام گاہیں وغیرہ پبلک عمارتوں کا تعمیر کرانا شامل ہے۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ سے مزید استشہاد کی بجائے اب ہم اپنے اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں: جب قرآن و سنت میں اصولاً‘ اور عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ کے زمانے میں عملاً معاشی عوامل کی اہمیت کماحقہ تسلیم کی جاتی تھی تو پھر بعد کے ادوار میں وہ صورت حال کیسے پیدا ہوئی جس کا اوپر ذکر آیاہے۔ کیا بات ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں بالعموم اور بیسویں صدی میں خاص طور پر جب مسلمان علما اور دانش وروں کو اُمت کی کمزور حالت‘ مسلمان ممالک کی خستہ حالی اور بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب اور مسلمانوں پر زوال کے آثار چھائے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے اس زوال کو دوبارہ عروج سے بدلنے کے لیے تحریر‘ تقریر اور عملی جدوجہد کے ذریعے کوششیں شروع کیں تو ان تحریروں‘ تقریروں اور کوششوں میں معاشی عوامل کی کماحقہ اہمیت کا احساس نہیں ملتا۔
گذشتہ ۵۰ برسوں کی تاریخ میں ایک ایسا نمونہ سامنے آیا جس کو دیکھ کر ہر اس فرد‘ جماعت اور قوم کو سبق سیکھنا چاہیے تھا جس کو اپنے ضعف کو قوت سے‘ ذلت کو عزت سے‘ اور زوال کو عروج سے بدلنے کی فکر دامن گیر ہو۔ یہ نمونہ جاپان نے پیش کیا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں ایٹم بم گرائے جانے کے بعد لڑائی میں ہار ماننے کے نتیجے میں اس ملک کو بڑی ذلت و خواری کے دَور سے گزرنا پڑا۔ سارے ملک کی معیشت جنگ کے بار سے تباہ تھی امریکی تسلط نے جلد پنپنے کے راستے بھی بند کرنا چاہے‘ مگر ۳۰‘ ۳۵ سال کی مختصر مدت میں جاپانی قوم نے دن رات کی محنت سے جاپان کو دُنیا میں امریکہ کے بعد دوسری زرعی معیشت کے درجے تک پہنچا دیا جس کی مسابقت سے امریکی معیشت کوپسینہ چھوٹنے لگا۔
سب جانتے ہیں کہ اس کا راز معاشی ترقی کے لیے وہ بے مثال جدوجہد ہے جس نے تعلیم گاہوں‘ کارخانوں اور ایوان ہاے تجارت میں عمل پیہم کی روح پھونک دی تھی۔ اگر ہم نے نہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھا‘ نہ دوسروں کے تجربے سے سبق حاصل کیا تو کوئی وجہ ضرور تھی۔ اس وجہ یا ان وجوہ کی تحقیق‘ بحث طلب ہے۔ علما اور دانش وروں کو اس کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ یہاں مقالہ نگار اس سلسلے میں اپنی یہ رائے پیش کرنا چاہتا ہے کہ بعض تاریخی عوامل کے سبب دوسری صدی ہجری میں بعض دین داروں نے دولت کمانے‘ بچانے اور بچت کے نفع آور استعمال کو دینی سند سے محروم کر کے عامۃ المسلمین کے دلوں میں اس کی طرف سے شک پیدا کر دیا‘ چنانچہ دین داروں میں کسب مال اور تکوین ثروت اور اس کے ذریعے معاشی قوت کے حصول کا رجحان کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ یہی صورت حال اب بھی قائم ہے۔
مذکورہ بالا رائے کی تائید‘ طویل تاریخی استدلال کی محتاج ہے جس کا نہ تو یہ مقالہ نگار اپنے کو اہل پاتا ہے‘ نہ ایک مقالہ اس کا متحمل ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ سوچنے کی بنیاد کے طور پر یہ ایک قابل توجہ بیان ضرور ہے۔ ذیل میں ہم اس بیان کی مزید تشریح کریں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب‘ بالخصوص اسلام نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اصل زندگی‘ موت کے بعد کی دائمی زندگی ہے‘ رہی دُنیا کی زندگی‘ تو وہ ناپایدار ہے‘ جانے کب کس کی موت آجائے۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ جب فرد انسانی کو عقیدئہ حیات بعد الممات پر مکمل یقین ہو جاتا ہے تو دُنیا اور اس کی زندگی کا اس کی نظر سے گر جانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔
چنانچہ اکثر مذاہب میں جلد یا بدیر ترک دُنیا کا رجحان قوت پکڑ گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال عیسائیت کی تاریخ پیش کرتی ہے۔ مگر اسلام نے یہ جتلا کر انسان کو اس فکری غلطی سے بچایا کہ آخرت کی فلاح کا انحصار اسی دُنیا کی زندگی میں انسان کے عمل و کردار پر ہے۔
اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمًلاً ط (الملک ۶۷: ۲)
جس نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
دُنیا کو امتحان گاہ قرار دیتے ہی اس کی اہمیت آسمان پر پہنچ گئی۔ یہ درست ہے کہ حیات بعد الموت ابدی ہے‘ اور حیات دُنیا عارضی مگر اسی عارضی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزار کر آخرت کی فلاح حاصل کی جا سکتی ہے‘ اس مقصد تک پہنچنے کا کوئی دوسرا مختصر راستہ (shortcut)نہیں ہے جو دُنیا کی زندگی سے کترا کر گزر جاتا ہو۔ چونکہ عیسائی علما اور عبادت گزار اس غلط روش میں مبتلا ہو چکے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بات کو بالکل واضح کر دیا:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ …… وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ o (الحدید ۵۷: ۲۶-۲۷)
ہم نے نوح ؑاور ابراہیم ؑکو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ پھر ان کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔ ان کے بعد ہم نے پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان سب کے بعد عیسٰی ابن مریمؑ کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی‘ اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا‘ اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کرلی‘ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا‘ (ہم نے تو ان پر) صرف اللہ کی مرضی چاہنا فرض کیا تھا۔ چنانچہ وہ رہبانیت کی پابندی کا حق نہیں ادا کرسکے۔ ان میں سے جو لوگ ایمان والے تھے ان کا اجر ہم نے انھیں ادا کر دیا مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔(۱)
کتنی واضح بات ہے! امتحان اس میں ہے کہ تمام کارہاے دُنیا خدا کی مرضی کے مطابق خدا کی مرضی کی طلب گاری میں انجام دیے جائیں۔ اللہ نے انسان پر یہی ذمہ داری ڈالی تھی لیکن بعض لوگوں نے اپنی دانست میں آگے بڑھ کر ترک دُنیا کا نسخہ اختیار کر لیا مگر یہ طریقہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہ تھا۔چنانچہ عام طور پر لوگ اسے برت نہ کر سکے بلکہ بھٹک کر فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے۔ ترک دُنیا یا رہبانیت کواسلام نے ردّ کر دیا ہے‘ مسلمانوں کو اس سے دُور رہنا چاہیے اور عیسائیوں نے اس راہ پر چل کر جو پایا‘ جو کھویا‘ اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
خلافت راشدہ کے بعدحکمرانوں کے طریقے بدل گئے‘ ان کا رہن سہن‘ ان کے ارد گرد پائے جانے والے لوگ‘ ان کے مقرر کردہ افسران … ان سب سے دین دار مسلمانوں میں عام طور پر‘ اور علما و مشائخ میں خاص طور پر یک گونہ بیزاری پیدا ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایت پختہ ہوتی گئی۔دین دار لوگ‘ علما اور بزرگان ملت نہ صرف دربار سے کنارہ کش رہے بلکہ جو لوگ کسی بھی درجے میں امور حکمرانی اور انتظام و انصرام مملکت سے وابستہ رہے‘ ان کو بھی ہدف تنقید بناتے رہے اور ان کی سرگرمیوں کو بھی۔ ظن غالب ہے کہ ابتدا میں ان کا منشا یہ رہا ہوگا کہ لوگ کاروبار دُنیا میں اسلامی حدود کے پابند رہیں اور بنوامیہ اور بنوعباس کے ان حکمرانوں کے طریقے پر نہ چلیں جنھوں نے شریعت کی بیشتر حدود پامال کر رکھی تھیں اور جن کی عملی زندگی ‘ اسلامی اخلاق و آداب سے بہت دُور تھی جس کے نتیجے میں ایک ایسی ذہنی فضا بننے لگی جس میں عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ امور دُنیا میں زیادہ انہماک اخلاص اور تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیاروں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔
قیاس یہی ہے کہ ایسی فضا بننے میں عجمی تصوف کے اثرات کو بھی دخل رہا ہوگا جس کے علم بردار صرف عیسائی علما اور راہب نہیں تھے بلکہ جس کے بعض علم بردار ایران اور ہندستان سے بھی بغداد (دارالخلافہ خلافت عباسیہ ۱۳۴ھ-۶۵۸ھ/۷۵۱ء-۱۲۵۸ء) پہنچنے لگے تھے۔ چنانچہ اسلامی تصوف کی سب سے اونچی شخصیت‘ حضرت حسن بصری (م ۱۱۰ھ/۷۲۸ء) کے شاگردوں کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ وہ عیسائیوں کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے دینی مراکز پر جاتے تھے اور ان کے علما و اکابر سے ان کی بات چیت اور ملاقات رہتی تھی۔ ان بزرگوں میں مالک بن دینار (م ۱۳۱ھ/۷۴۷ء) کی شخصیت سب سے نمایاں تھی اور ان ہی کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ تجرد کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے اور ان پر زہد و تقشف کا غلبہ تھا۔(۲)
یہ باب بہت طویل ہو سکتا ہے‘ اسے آیندہ آنے والے محققین کے لیے چھوڑتے ہوئے ہم اب ایک دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم ذیل میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص‘ امام محمد بن الحسن شیبانی کی کتاب الکسب کا قدرے تفصیلی تجزیہ کریں گے۔(۳) امام محمد کا انتقال (۱۸۹ھ/۸۰۵ء) میں ہوا ہے۔ گویا جب یہ کتاب لکھی گئی تو مالک بن دینار اور ان جیسے دوسرے بزرگ بھی اُسی شہر‘ بغداد میں موجود تھے‘ جیساکہ ذیل کے تعارف سے واضح ہوگا۔ اس کتاب کی تالیف کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اہل تصوف کے ذریعے جو غیر متوازن رویہ‘ معاشی امور کے بارے میں پھیل رہا تھا‘ اس کی روک تھام کی جائے۔
پہلے تو امام محمد نے آیات و احادیث کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ روزی کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے(عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۲۱-۲۲)۔ پھر جب انھوں نے روزی کمانے کے طریقوں پر گفتگو شروع کی توضروری سمجھا کہ یہ بھی لکھیں: ’’روکھی سوکھی زندگی گزارنے والے(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص۷۱- ۸۰)۔ بعض جاہلوں اور اہل تصوف میں سے بعض احمقوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ روزی کمانا حرام ہے‘ صرف ضرورت پڑنے پر ایسا کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی بقدر ضرورت جیسے کہ کوئی مردار کھائے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسب سے اللہ پر توکل کی نفی ہوتی ہے یا اس میں کمی آجاتی ہے‘ جب کہ ہمیں توکل کا حکم دیا گیا ہے‘‘(عربی عبارت اھل التقشف (۳) عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۸۱)۔اِن سطروں کے بعد کتاب میں تین چار صفحات تک اہل تصوف کی اسی طرح کی دلیلیں نقل کر کے ۱۰ صفحات (۸۵-۹۵) ان کی دلیلوں کے ردّ میں لکھے ہیں اور ان صفحات کے آخر میں یہ ریمارک بھی پاس کیا ہے:
ان صوفیہ کی اس بات پر حیرت ہے کہ جب کوئی دوسرا اپنے ہاتھوں کی کمائی سے یا اپنی تجارت کے نفع میں سے ان کی دعوت کرتا ہے تو یہ اس کے کھانے سے انکار نہیں کرتے۔(عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۹۵)
پھر فرماتے ہیں کہ ’’ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں نادانی اور کاہلی کا نتیجہ ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹۵)
اس کے بعد امام محمد نے چھ صفحات ’’کرامیۃً‘‘ نامی فرقہ کے خیالات کے ردّ میں صرف کیے ہیں جن کے نزدیک روزی کمانے کی اجازت ہے مگر اسے فرض نہیں قرار دیا جا سکتا۔(ایضاً‘ ص ۹۶-۱۰۱)
اس مختصر مقالے میں ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ کتاب الکسب میں اس کے آگے کے مباحث کا تفصیلی تعارف کرائیں۔ ہم صرف دو تین مباحث کا ذکر کر کے اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آنا چاہیں گے۔ انھوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ سارا وقت عبادت میں صرف کرنا افضل ہے یا روزی کمانے میں وقت صرف کرنا(ایضاً‘ ص ۱۰۱)۔ اگر دولت ملی ہو تو اس پر شکر کرنے میں زیادہ ثواب ملے گا یا غربت ہو تو اس پر صبر کرنے میں؟(ایضاً‘ ص ۱۱۶)۔پھر وہ اس موضوع پر مفصل گفتگو کرتے ہیں کہ مال جمع کرنے کے لیے بھی مال کمانا جائز ہے اور اس سلسلے میں بعض احادیث نقل کرتے ہیں جن سے آخر عمر کے لیے مال بچا کر رکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے (ایضاً‘ ص ۱۳۱ ومابعد)۔ اس کے بعد اسراف و تبذیر کی ممانعت پر گفتگو کے بعد انھوں نے تجارت‘ زراعت اور حرفت وغیرہ مختلف ذرائع کسب پر مفصل گفتگو کی ہے۔ آخر میں امام محمد نے اپنی بات کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
آدمی کو چاہیے کہ اچھی عادتوں میں سے بعض کو اختیار کرے‘ مثلا:
یہاں کتاب الکسب کا قدرے تفصیلی ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ ہمیں اس میں پیش کردہ مواد کی ضرورت ہے یا امام صاحب کی رایوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ ہماری نظر اس اہم بات پر ہے کہ خلافت راشدہ ختم ہوئے صرف ۱۰۰ سال گزرے تھے کہ اُمت کی رہنمائی کرنے والے علما کو ترک دُنیا‘ روزی کمانے سے گریز‘ تقشف اور تنگی کی زندگی گزارنے… وغیرہ منفی(۴) رجحانات کے قلع قمع کرنے کے لیے کتابیں لکھنی پڑیں۔ ہم آپ کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ اگر عجمی تصوف کے غلط اثرات اور عیسائی رہبانیت کی بے اعتدالی کی مقبولیت مسلم معاشرے میں خطرہ بن کر سامنے نہ آچکی ہوتی تو امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص اس موضوع پر قلم نہ اٹھاتے۔
یہاں ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ خود اکابر فقہا ان منفی رجحانات سے بالکل پاک تھے۔ اس کے ثبوت میں خود امام ابوحنیفہؒ کا کردار سامنے لانا کافی ہے۔ وہ عالم جس کے شاگردوں میں ہارون الرشید کے چیف جسٹس قاضی ابویوسف کا نام بھی شامل ہے مگر جس نے خود عباسی خلیفہ منصور کے اصرار کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں قبول کیا‘ جس کی سزا میںان کو قیدوبند کی مصیبت سہنی پڑی… وہی عالم جلیل نفیس کپڑوں کی تجارت کرتا تھا اور کوفہ کے مضافات میں اس کا کارخانہ چلتا تھا۔ (عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۱۵-۱۷)
مگر مسلمان اُمت کی فکری اور عملی اُٹھان صرف فقہا کے ہاتھوں نہیں انجام پائی ہے‘ اس میں صوفیا اور مشائخ کو بھی بڑا دخل رہا ہے۔ صوفیا اور مشائخ کی مثبت خدمات کے تذکروں سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ ان سے کسی کو انکار نہیں‘ مگر یہاں صرف ایک خاص رجحان کا ذکر ہے جو ان میں سے بعض نے پیدا کیا اور اُمت کے مزاج پر اس کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس مزاج سے مختلف ہو گیا جو ہمیں شروع کے دور میں ملتا ہے۔
اپنے اس خیال کی تائید میں ہم اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہیں گے کہ امام محمد کے بعد بھی ان کی کتاب الکسب کی طرح کی کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ غالباً فضا ایسی تھی کہ فقہا کو اپنی بات بار بار کہنی پڑی۔
استاذ عبدالفتاح ابوغدہ نے اس موضوع پر جن کتابوں کا ذکر کیا ہے‘وہ ہیں:(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۱۷)
آخر میں استاذ ابوغدہ نے امام غزالی (م ۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء) کی احیا علوم الدین کا ذکر کیا ہے جس میں کتاب آداب الکسب والمعاش کا عنوان علیحدہ سے باندھا گیا ہے۔ لیکن اگر آپ اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ دوسری صدی میں جس بحث کا آغاز ہوا اس میں ہمارے دانش ور پانچویں صدی ہجری کے آخر تک کہاں پہنچے تھے۔ تو امام غزالی کی اس عبارت پر غور کیجیے جو مذکورہ بالا عنوان ہی کے تحت لکھی گئی ہے:
لوگ تین قسم کے ہیں: وہ جن کی معاشی تگ و دو نے ان کو اپنی آخرت سے غافل کر دیا‘ تو یہ تو ہلاک (و ناکام) ہوں گے۔ دوسرے وہ جو اپنی آخرت بنانے میں اتنے مشغول ہوئے کہ معاشی تگ ودو سے غافل رہے‘ تو یہ کامیاب ہو کر رہیں گے۔ البتہ اعتدال کا راستہ تیسری قسم کے لوگوں کا طریقہ ہے جس نے معاشی تگ و دو اپنی آخرت بنانے کے لیے انجام دی‘ یہ درمیانہ رو لوگ ہیں۔(ابواسحاق شاطبی: الموافقات فی اصول الشریعۃ‘ ج۲ ‘ ص ۱۸۸۔ المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ‘ مصر۔ سنہ طباعت درج نہیں ہے)
امر واقعہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں جو مثالی کردار بنتا ہے‘ وہ دوسرے قسم کے لوگوں کا نہیں جن کو امام غزالی ؒنے کامیاب قرار دے کر تیسری قسم کے لوگوں پر افضلیت دی ہے۔ امام غزالیؒ کی درجہ بندی میں اس عنصر کا اثر پوری طرح موجود ہے جس کی اصلاح کے لیے امام محمد نے کتاب الکسب لکھی تھی۔
یہ مقالہ نگار‘ تحقیق کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو نظر میں رکھتے ہوئے آج تک کی تاریخ کھنگالیں۔ یہ دیکھیں کہ اس موضوع پر فقہا اور صوفیا کے کلام میں کیا فرق رہا اور یہ بھی دیکھیں کہ عام تقریروں‘ جمعہ کے خطبوں‘ کہانیوں اور منظوم دینی ادب میں کس رجحان کا غلبہ رہا۔ مقالہ نگار کا خیال ہے کہ توازن بحال نہ ہو سکا اور معاشی قوت حاصل کرنے اور معاشی عوامل کی اہمیت پہنچانے کے معاملہ میں امت وہاں نہیں واپس جا سکی جہاں وہ عہدنبویؐ اور عہد راشدہ میں تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج بھی وہ سوال اٹھانے پڑ رہے ہیں جن سے اس مقالہ کا آغاز کیا گیا تھا۔
اس مرحلے پر کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی معاملے میں ابتدائی ۱۰۰ سال ہی کے بعد راستہ بدل گیا ہو‘ کیونکہ ہمارے سامنے اسلام کے نظام حکمرانی کی واضح مثال موجود ہے جسے قرآن و سنت کے مطابق شورائی ہونا چاہیے‘ اور جو ابتدائی ۴۰ برسوں میں شورائی رہا مگر اس کے بعد بادشاہت کا جو دور آیا وہ بعض مختصر وقفوں کے بعد آج تک جاری ہے اور گذشتہ ۱۰۰ سال میں بھی اس کو اپنے اصل راستے پر لانے کی متعدد کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ لہٰذا اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ اُمت جس ڈگر پر ہزار سال سے چل رہی ہے وہ ڈگر ٹھیک ہی ہوگی۔ خوب ناخوب کا معیار قرآن و سنت ہے‘ نہ کہ یہ بات کہ ہمارے آبا و اجداد کس ڈگر پر چلتے رہے۔
اب رہا یہ سوال کہ آج اس مسئلے کو اٹھانے کی کوئی خاص وجہ ہے؟ تو بات یہ ہے کہ توازن کی بحالی تو بہرحال ضروری تھی لیکن جو صورت حال آج کل ہے ‘ اور جس کی شدت میں آیندہ دہائیوں میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا ‘ اس میں اس اصلاح کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ دُنیا ایک ہو گئی ہے‘ ہر میدان میں مسابقت پہلے سے بہت زیادہ ہونے لگی ہے۔ فرد کو اپنی خدمات کے عوض معاوضہ حاصل کرنا ہو یا کسی ملک کو اپنی مصنوعات فروخت کرنی ہوں‘ کسی ملّت کو اپنے کلچر کا فروغ مطلوب ہو یا کسی داعی گروہ کو اپنے افکار و خیالات کی ترویج مقصود ہو‘ ان سب کو اب عالمی سطح پر دوسرے افراد‘ ملکوں‘ ملتوں اور داعی گروہوں سے مسابقت کرنی ہے۔ بالآخر جس چیز کو قبول عام حاصل ہوگا‘ لوگ اسے اپنے لیے نفع بخش پائیں گے۔ اس کو پایداری نصیب ہوگی جو اپنی بہتری اور برتری کا سکہ نہ جما سکے گا وہ پیچھے رہ جائے گا اور بھلا دیا جائے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اس مسابقت میں‘ ہر سطح پر‘ معاشی وسائل اور معاشی قوت کو بڑا دخل ہے۔ فرد کو علم و ہنر سے سنوارنا ہو یا ملک کو صنعتی پیداوار کو بہتر اور بیشتر بنانا ہو‘ اخبار و جرائد ہوں‘ ادبی کتابیں ہوںیا ریڈیو کی نشریات‘ ٹی وی پر پیش کیے جانے والے مسلسل ڈرامے (serials)یا فلمیں … اشیاے خوردنی ہوں یا ملبوسات‘ اور دعوت پیش کرنے کے لیے لوگوں کی تیاری ہو یا انٹرنیٹ کا استعمال… ہر کام میں ہر قدم پر وسائل صرف کرنے اور اچھی تنظیم کی ضرورت پڑے گی۔ وہ افراد‘ گروہ اور ملتیں جو معاشی وسائل سے محروم ہوں اور کسی طرح گزربسر کر رہے ہوں‘ وہ بھلا اس دوڑ میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں مگر جیسا کہ واضح کیا گیا‘عالمی مسابقت کے دور میں جو دوڑ نہ سکے اسے کھڑے رہنے یا بیٹھ رہنے کا موقع نہیں ملتا‘ وہ مٹا دیا جاتا یا مٹ جاتا ہے‘ لاسامح اللّٰہ۔
آج عالمی اُمت اسلامیہ ضعف میں ہے۔ شرق اوسط اور بعض دوسرے ممالک کو تیل کی دولت نصیب ہوئی ہے اور حال ہی میں جنوب مشرقی ایشیا کے بعض مسلمان ممالک کی ترقی کے باوجود مجموعی طور پر مسلمان ممالک اور مسلمان اقلیتوں کے ہاتھوں میں اتنے وسائل نہیں یا وہ اپنے ہاتھ میں موجود وسائل کا ایسا استعمال نہیں کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ان کی قوت میں اضافہ ہو‘ اقوام عالم میں ان کا وزن بڑھے‘ ان کی بات کا وزن بڑھے اور ان کی طرف دوسرے اس نظر سے دیکھنے لگیں کہ ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
اُمت کی اس کمزوری کا بیتی ہوئی صدی میں کئی بار مظاہرہ ہوا۔ پہلا حادثہ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں خلافت عثمانیہ کا رسمی طور پر ختم ہونا اور قلب عالم اسلامی کا ٹکڑوں میں بانٹ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جانا تھا‘ جو آیندہ بہت سے جھگڑوں کاسبب بنا۔ پھر صدی کے وسط میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جسے نہ صرف یہ کہ عالم اسلامی روک نہ سکا بلکہ عربوں کی شکست کی وجہ سے اسرائیل کی حدود اس سے زیادہ وسیع ہوتی چلی گئیں جو مجلس اقوام متحدہ نے مقرر کی تھیں۔ اس کے بعد اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی بے تدبیریوں سے ایران و عراق کے درمیان جنگ‘ پھر عراق کے کویت پر حملے کے بعد عراق کے خلاف امریکہ اور اس کے معاونین کی فوجی کارروائی کا عمل سامنے آیا جس نے ہماری لاچاری اپنوں اور غیروں سب کے نزدیک ایک مسلمہ امر کے طور پرسامنے رکھ دی۔ اسی اثنا میں بوسنیا میں جو کچھ ہوتا رہا اس پر مسلمان ممالک کا اتحاد‘ تنظیم اسلامی کانفرنس قراردادیں پاس کرتا رہا مگر نتائج پر اثرانداز نہ ہو سکا اور صدی کی آخری دہائی میں ہندستان میں بابری مسجد ڈھائے جانے کا المیہ پیش آیا ] اور اب افغانستان کا المیہ[ ان تمام مظاہر میں قدر مشترک یہ ہے کہ مسلمان اتنی قوت نہیں رکھتے کہ دوسروں کے کیے فیصلوں کی تنفیذ کو روک سکیں یا اپنے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود اپنا فیصلہ نافذ کر سکیں۔ یہ قوت نہ انھیں انفرادی طور پر‘ کسی ایک ملک یا گروہ کو‘ حاصل ہے نہ اجتماعی طور پر سارے مسلمان ملکوں کے اتحاد کو۔
قوت ہی سب کچھ نہیں ہے‘ حق و انصاف کی روشنی میں ہمارا موقف بھی درست ہونا چاہیے لیکن موقف درست ہونے کی صورت میں بھی اگر ہم قوت سے محروم ہیں تو اپنے حق سے محروم رکھے جانے کے امکانات زیادہ ہیں جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے ظاہر ہے۔ اس مقالے میں ان المیوں کا ذکر صرف ایک نکتے کی تائید و تاکید کے لیے کیا گیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک باوقار مستقبل کی ضمانت اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی قوت میں اضافہ کریں۔ اور یہ امر تو بدیہی ہے کہ مادی قوت کا جوہر معاشی قوت ہے۔ اگر اس مقالے کے آغاز میں اٹھائے گئے سوالات برمحل ہیں تو یقینا ہماری موجودہ کمزوری اور معاشی طور پر قوی نہ ہونے میں ہمارے معاشی عوامل کے بارے میں غلط نقطۂ نظر کو دخل ہوگا۔
آخر میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ اپنے موقف میں توازن کس طرح بحال کیا جائے اور مسلمانوں کو معاشی تگ و دو کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی طور پر قوت حاصل کرنے پر کس طرح کمربستہ کیا جائے۔
ہمارے خیال میں اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ دینی فکر‘ معاشی عوامل کی اہمیت کا اعتراف کرے اور معاشی جدوجہد کی ترغیب دے۔یہ بتائے کہ اسلام میں اگر اعلیٰ مقاصد کے لیے معاشی جدوجہد کی جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ مطلوب ہے بلکہ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جو مسلمان معاشی میدان میں آگے ہیں ان کا‘ الا ماشا اللہ‘ دینی رجحان کمزور ہے اور جن کا دینی رجحان قوی ہوتا ہے وہ معاشی میدان میں زیادہ فعال نہیں ہوتے۔ اُمت کو ضرورت اس کی ہے کہ مسلمان قوی دینی رجحان کے ساتھ فعال معاشی سرگرمی اختیار کریں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے لیے صحیح فکری بنیادیں فراہم کی جائیں۔ اسی طرح اس بات کی ضمانت دی جا سکے گی کہ جب مسلمان افراد‘ گروہوں اور ملکوں کے ہاتھوں میں معاشی وسائل آئیں تو وہ صحیح مقاصد کے لیے استعمال میں لائیں اور مسلمانوں کی معاشی قوت بڑھے تو وہ دُنیا میں عدل و امن اور سارے انسانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال کی جائے۔
اعلیٰ تہذیبی مقاصد کے لیے مال کمانے اور معاشی قوت حاصل کرنے کا تصور عین اسلام ہے:
اس طرح کی (معاشی) سرگرمی کا اہتمام بہت سے بزرگوں سے مروی ہے بلکہ صحابہ کرامؓ اور تابعین کے سلسلے میں بھی یہی روایت ہے کہ وہ روزی کمانے میں ماہر تھے اور کسب معاش کے مختلف میدانوں میں جم کر کام کرتے تھے مگر اس لیے نہیں کہ اپنی ذات کے لیے خزانہ جمع کریں اور اپنی دولت جمع کیے رکھیں بلکہ اس لیے کہ اسے اچھے کاموں اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے لیے صرف کریں اور ان مصارف میں اسے استعمال کریں جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور جنھیں شرعی عرف میں اچھا رتبہ حاصل ہے۔ اپنے ذاتی مال کی نسبت سے بھی ان کا حال وہ تھا جو بیت المال کے نگراں کا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ان کے درجات مختلف تھے۔ جیسا کہ ان کے احوال کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے۔(بلاذری‘ فتوح البلدان‘ ص ۴۳۹‘ طبع قاہرہ‘ ۱۹۳۲ء)
اس امر کی بھی قوی سندیں موجود ہیں کہ حال کی آمدنی میں سے بچا کر مستقبل کی خاطر سرمایہ کاری کرنا مطلوب ہے۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ سے منقول ہے کہ:
کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ ایسا کرتے کہ جب کسی کو وظیفہ ملے تو اس میں سے کچھ بھیڑ بکریاں خرید کر اپنے زرخیز زرعی علاقے میں چھوڑ دے۔ پھر جب دوسرے سال کا وظیفہ ملے تو ایک دو غلام خرید کر ان کو بھی اسی (علاقہ) میں (کام پر) لگا دے۔ اگر ان کی اولاد میں سے کوئی باقی رہا تو اس طرح ان کے لیے ایک قابل اعتماد سہارا فراہم ہو جائے گا…
اگر اپنے لیے سہارا فراہم کرنے کا اہتمام شرعاً معتبر ہے تو پوری اُمت کے لیے سہارے کا اہتمام اور اس کے زوال کو عروج سے بدلنے کے لیے وسائل کی فراہمی کے جہاد ہونے میں کسے شبہہ ہو سکتا ہے؟
۱- ابن تیمیہ: السیاسۃ الشرعیۃ فی احوال الراعی والرعیۃ‘ ص ۱۳۷‘ طبع دارالکتاب العربی‘ مصر ۱۹۵۵ء‘نیز ملاحظہ ہو: آمدی کی الاحکام فی اصول الاحکام ‘ ج ۱‘ ص ۱۵۸‘ مطبع معارف‘ مصر‘ ۱۹۱۴ء۔ اور قرطبی کی احکام القرآن‘ ج ۶‘ ص ۸۵‘ قاہرہ‘ دارالکتب المصریہ‘ ۱۹۵۲ء۔
۲- جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں بتایا گیا ہے ‘ بعض لوگوں نے آیت کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ عیسائیوں نے ترک دُنیا کا راستہ مرضی خدا کی طلب گاری میں اختیار کیا تھا‘ مگر دوسرا قول آیت کی تفسیر کے بارے میں ہے‘ جس کے مطابق ہم نے ترجمہ کیا ہے‘ یعنی‘ بقول: ابن کثیر ’’ما کتبناھا علیھم‘ انما کتبنا علیھم ابتغا رضوان اللّٰہ‘ ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۳۱۵‘ مطبع دارالعروبہ‘ بیروت ۱۹۸۴ء۔
۳- ملاحظہ ہو: عبدالرحمن بدوی: تاریخ التصوف الاسلامی من البدایہ حتی نھایۃ القرن الثانی ‘ وکالۃ المطبوعات‘ ۴۸ شارع فہد سالم‘ بیروت ۱۹۷۵ء۔ ص ۱۳۴-۲۲۱‘ خاص طور پر ص ۹۸ اور ص ۲۰۷۔
۴- معاش کے لیے امام نے اپنا آبائی پیشہ‘ تجارت اختیار کیا۔ کوفہ میں وہ خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کی تجارت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اس پیشہ میں بھی غیرمعمولی ترقی کی۔ ان کا اپنا ایک بڑا کارخانہ تھا جس میں خز تیار کیا جاتا تھا۔ ان کی تجارتی کوٹھی صرف کوفہ میں ہی کپڑا نہیں فروخت کرتی تھی بلکہ اس کا مال دُور دراز علاقوں میں بھی جاتا تھا۔ پھر ان کی دیانت پر عام اعتماد جب بڑھا تو یہ کوٹھی عملاً ایک بنک بھی بن گئی جس میں لوگ کروڑوں روپے امانت رکھواتے تھے۔ ان کی وفات کے وقت پانچ کروڑ درہم کی امانتیں اس کوٹھی میں جمع تھیں‘‘۔ ابوالاعلیٰ مودودی: خلافت و ملوکیت‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند‘ دہلی ۱۹۶۷ء‘ ص ۲۲۶۔
گذشتہ صدیوں پر نظر ڈالیں تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں:
ان سوالوں کاباہمی ربط واضح ہے مگر بحث کے آغاز سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جو رائیں اگلے صفحات میں ظاہر کی جائیں گی‘ ان کی حیثیت ایسے نتائج کی نہیں ہے جن پر کافی بحث و تحقیق اور غوروفکر کے بعد پہنچا گیا ہو‘ بلکہ جب یہ سوالات سامنے آئے تو سوچنا شروع کیا اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ غوروفکر میں دوسرے اہل نظر کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ ایسے نتائج تک پہنچا جا سکے جن کو کسی ایک فرد کی رائے کے بجائے محققین کی معتدبہ تعداد کی تائید حاصل ہو۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں کافی وقت لگے گا‘ مگر اس کے آغاز کے لیے آیندہ صفحات کا مطالعہ مفید رہے گا۔
پچھلی دو صدیوں میں عالم اسلام میں بہت سی تحریکیں اٹھیں اور انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ بدعات کے ازالے کی جدوجہد کی اور ساتھ ہی مسلمانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی جو بہت سی رسمیں‘ توہمات اور خرافات اپنا لیے تھے‘ ان سے مسلم معاشرے کو پاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ عقائد کی تصحیح پر زور دیا گیا تاکہ مشرکانہ تصورات کی آمیزش سے توحید خالص میں فرق نہ آئے۔ پرسنل لا بلکہ عام طور پر انسانی تعلقات میں اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ضوابط کی پابندی پر زور دیا گیا۔ فقہی امور میں تقلید جامد کے اثر سے خرابیاں پیدا ہوتے دیکھ کر اجتہاد پر زور دیا گیا اور مختلف فقہی مسالک کے درمیان توافق اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ‘اور جب یورپ سے آئے ہوئے لوگوں کا سیاسی غلبہ عام ہوا تو مسلمان علاقوں کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے طاقت ور سیاسی تحریکیں چلیں۔ یہ ایک مسلّمہ بات ہے کہ تمام مسلمان نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں میں مذہبی عناصر کا حصہ فیصلہ کن رہا ہے۔ پھر آزادی کے بعد اور کبھی اس سے پہلے ہی‘ جیسا کہ ہندستان میں ہوا‘ تعلیمی تحریکیں بھی چلیں جنھوں نے مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے کی کوشش کی۔ انھی تمام کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اور مسلمان بن کر رہ رہے ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس نے عام مسلمانوں کو للکارا کہ محنت کرو‘ دولت پیدا کرو۔ کمائو اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بچا کر نفع آور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی آمدنی اور دولت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرو۔ ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے افراد کے مجموعوں یا پوری ملّت اسلامیہ کو معاشی قوت کی اہمیت جتلا کر معاشی طور پر طاقت ور بننے کی خاطر بیش از بیش وسائل حاصل کرنے کی دعوت دی ہو۔
بیسویں صدی تو اسلامی تحریکوں کی صدی تھی۔ بڑی طاقت ور اسلامی تحریکیں چلیں جن کو فکری غذا اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مجددین اُمت اور علما و مفکرین نے فراہم کی تھی۔ حکومتیں ان تحریکوں کے زیراثر آئیں۔ بعض جگہ ان تحریکوں کو حکومت میں شریک ہونے کا موقع ملا اور بعض ممالک میں خود ان کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن کسی جگہ معاشی سرگرمیوں کی عام دعوت ‘ تکوین ثروت کی مہم ‘ افراد اور گروہوں کو اپنی ضرورت سے زیادہ کمانے کی ترغیب‘ تاکہ وہ بچت کر سکیں اور یہ بچت اجتماعی معاشی قوت میں اضافے کی خاطر سرمایہ کاری کے کام آ سکے… یہ تحریک نہیں ملتی۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں مسلم اکثریت والے علاقے آزاد ہوئے اور انھوں نے اپنا نظم و نسق خود سنبھالا تو تقریباً ہر ملک میں یہ تحریک چلی کہ یہ سب کام اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ عرب ممالک میں اخوان المسلمین‘ برعظیم ہند میں جماعت اسلامی‘انڈونیشیا میں ماشومی (مجلس شورائی مسلمانان انڈونیشیا) اور ان کے ہم خیال لوگوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں میں اسلام کے مطابق سماج کی تعمیرنو کا ولولہ پیدا کر دیا۔ قدیم مذہبی حلقے بھی پہلے کی بہ نسبت زیادہ سرگرم ہو گئے۔ آزادی کے بعد خوش حالی میں بھی اضافہ ہوا۔ چند مسلمان ممالک کو پٹرول کی فروخت سے جو غیر معمولی آمدنی ہوئی‘ اس کا فیض دوسرے ترقی پذیر مسلمان ممالک کو بھی اُن مزدوروں اور اہل علم و ہنر کے ذریعے پہنچا جن کی خدمات ان دولت مند مسلمان ممالک کو درکار ہوئیں۔ غرض یہ کہ بیسویں صدی کا آخری چوتھائی حصہ بڑے جوش وخروش اور حرکت و عمل کا حصہ رہا۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ ان مواقع سے پورا فائدہ اُٹھا کر اُمت کو معاشی طور پر طاقت ور بنانے کی طرف کوئی اجتماعی و شعوری توجہ نہیں کی گئی۔ عام مذہبی حلقوں کی وعظ و تلقین ہو یا سیاسی رنگ رکھنے والی اسلامی تحریکوں کے منشور اور قراردادیں‘ مسلمان افراد اور گروہوں کو زیادہ کمانے یا کما کر بچانے اور بچت کی سرمایہ کاری کے ذریعے تکوین ثروت کی دعوت سے دونوں خالی رہے۔ جو کچھ معاشی سرگرمی دیکھی گئی‘ اور اس کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک میں‘ نیز دوسرے ممالک میں آباد مسلمان اقلیتوں میں‘ جو خوش حالی آئی‘ وہ انفرادی محرکات اور ملکی سطح پر قوم پسندانہ حوصلوں کا نتیجہ تھی۔ اس میں مذہبی حلقوں کی ترغیب و تائید یا اسلامی تحریکوں کی تدبیر و تاکید کو دخل نہیں تھا۔
یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ عرصہ دراز سے مسلمانوں کے دینی ادب میں معاشی جدوجہد اور معاشی قوت کے حصول کا چرچا کم ہی ملتا ہے۔ شاید اس کا اثر ہے کہ بیسویں صدی میں جب مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور روسی بلاک کے اشتراکی نظام کو ردّ کرتے ہوئے ان کے بالمقابل اسلامی دانش وروں اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کے عادلانہ معاشی نظام کو پیش کرنا شروع کیا تو اس کی تشریح و تعبیر میں زیادہ زور تقسیم دولت پر رہا۔
یہ بات کہ دولت بنتی کیسے ہے‘ اور یہ شعور کہ جب دولت میں بیش از بیش اضافے کی تدابیر نہیں اختیار کی جائیں گی تو ایک روز افزوں آبادی میں‘ اس کی تقسیم ہمیں مطلوبہ نتائج تک پہنچانے سے قاصر رہے گی… کم ہی ملتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں تالیف کردہ سید قطب شہید علیہ الرحمہ کی معرکہ آرا کتاب العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام کا یہ جملہ اس بارے میں ہمارے ذہن کی بہت صحیح ترجمانی کرتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ فقروحاجت مندی صرف مال کے ارتکاز کا نتیجہ ہوتے ہیں‘‘۔ (اسلام میں عدل اجتماعی‘ ترجمہ: محمد نجات اللہ صدیقی‘ ص ۴۸۹)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی معاشی نظام میں عدل و مساوات پر زور دیا گیا ہے‘ یہ اس کی امتیازی شان ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر صرف زکوٰۃ و صدقات پر زور دیا جائے اور اس بات کا اہتمام کیا جاتا رہے کہ امیروں کی دولت کا ایک حصہ غریبوں تک منتقل ہوتا رہے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں تو‘ آبادی میں ہوتے رہنے والے اضافے کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ایسا معاشرہ اپنی پیدا کی ہوئی دولت کا بیش از بیش حصہ صرف کرتا رہے گا‘ بچت کم ہوتی رہے گی جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کم ہوگی اور اس کا امکان بڑھتا جائے گا کہ دولت میں اضافے کی رفتار گھٹنے لگے۔ ایک ایسا وقت آئے گا کہ دولت میں اضافے کی رفتار آبادی میں اضافے کی رفتار سے کم ہو جائے گی اور معاشرہ معاشی تنزل کی راہ پر چل پڑے گا۔
ظاہر ہے کہ ایک تنزل پذیر سماج میں‘ جس میں مجموعی دولت کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہو‘ صرف امیروں سے غریبوں کی طرف دولت کی منتقلی سے عدل کے تقاضے نہیں پورے ہو سکتے بلکہ وہ کیفیت رونما ہونے لگے گی جسے ’’تقسیم فقر‘‘ (distribution of poverty)کا نام دیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ امیروں کی دولت کے طفیل غریبوں کی غربت دُور ہو‘ ایسے معاشرے میں جس میں مجموعی دولت زوال پذیر ہو‘ غریبوں کے مصارف‘ امیروں کو غریبوں کی صفوں میں لاکھڑا کر دیں گے۔
اس ناپسندیدہ صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ تکوین ثروت کا بھی اہتمام کیا جائے‘ اور جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے‘ اسلام نے اس بارے میں ایک واضح ایجابی موقف اختیار کیا ہے۔ مگر بحث کے اس مرحلے سے پہلے ہمیں سوچنا ہے کہ جو کیفیت اُوپر بیان کی گئی‘ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بیسویں صدی میں مادیت کا غلبہ رہا۔ مغربی سرمایہ داری پہلے ہی سے چرچ سے بغاوت‘ مذہب سے بیزاری اور جارحانہ سیکولرزم کے زیرسایہ تھی۔ اشتراکیت نے تاریخ کی مادی تعبیر اختیار کر کے اور مذہب و اخلاق کو ڈھکوسلے قرار دے کر ایک ایسی فضا بنا دی تھی جس میں مادّی وسائل کی اہمیت جتلانے اور معاشی قوت پر توجہ مرکوز کرنے میں یہ شبہہ وارد ہوتا تھا کہ ہم بھی غیروں کے راستے پر چل پڑے اور ان کی فکر سے متاثر ہو گئے۔
اسلامی فکر بجا طور پر تاریخ کی مادّی تعبیرکو ردّ کرتی ہے۔ اس کا یہ موقف بھی درست ہے کہ معاشی زندگی میں صرف ذاتی نفع کا حصول محرک عمل نہیں ہوتا بلکہ روحانی اور اخلاقی قدریں بھی کارفرما ہوتی ہیں اور فرد اپنے معاشی فیصلوں میں اجتماعی مصالح کا بھی لحاظ کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم پر اسلامی تحریکوں کی یہ تنقید بھی بجا ہے کہ انھوں نے معاش پر زیادہ زوردے کر زندگی کے دوسرے اہم پہلوئوں کی اہمیت کم کر دی ہے جس سے سماج میں حصول دولت کی ایسی دوڑ شروع ہو گئی ہے جس میں محبت اور مروت‘ ہمدردی اور پاس داری جیسے قیمتی انسانی آداب و اقدار کی پامالی عمل میں آ رہی ہے۔ یہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ معاشی قوت کے حصول کی طرف سے بے توجہی اور انسانی زندگی میں معاشی عوامل کے واقعی مقام کے اعتراف میں کوتاہی مذکورہ بالا رجحانات کے ردّعمل کے طور پر ہو۔ گویا ایک طرف کے عدم توازن کے ردّعمل میں دوسری طرف بھی غیر متوازن موقف نے جنم لیا ہو۔
اگر پچھلی صدی میں فکر اسلامی کے معاشی عوامل کو صحیح رتبہ نہ دینے کا کوئی عذر رہا بھی ہو تو اب اس کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ یہی صورت حال قائم رہے۔ کیونکہ: اوّلاً‘ پچھلا موقف اصلاً کمزور ہے اور ثانیاً‘ اس موقف پر اصرار سے اُمت کو نقصان پہنچے گا۔
غور فرمایئے کہ اس دنیا میں انسان جس کمزور حالت میں داخل ہوتا ہے‘ اس میں اسے روز اوّل سے ہی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ طفولیت کا نازک مرحلہ ہو یا ہوش سنبھالنے کے بعد بچپن اور عنفوان شباب کے دن۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ غذا ملے‘ بدن پر موسم کی مناسبت سے لباس ہو‘ سر چھپانے کو مکان ہو۔ شروع میں یہ وسائل خاندان کو فراہم کرنے ہوتے ہیں اور جس بچے کو اس کا خاندان یا سماج یہ وسائل فراہم نہ کر سکے وہ ضائع ہو جاتاہے۔ پھر ہوش سنبھالتے ہی اس بات کا شعور پیدا ہو جاتا ہے کہ آیندہ اپنے پیروں پرکھڑے ہونے اور اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے لائق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ علم و ہنر سیکھا جائے۔ بے شک حصول علم کے دوسرے اعلیٰ مقاصد بھی ہیں‘ لیکن اُن گنے چنے خوش قسمت افراد کو چھوڑ کر جن کو وراثت میں بڑی دولت ملنے والی ہو‘ باقی تمام انسانوں کو پانچ سال کی عمر سے ۴۰ سال کی عمر تک سب سے زیادہ فکر ایسا علم و ہنر سیکھنے کی ہوتی ہے جو انھیں باقی ایام زندگی کے لیے روزی کمانے کے قابل بنا سکے۔آپ اپنے قریبی ماحول پر نظر ڈالیے۔ جو لڑکے یا لڑکیاں ۲۰ سال کی عمر تک ناخواندہ رہ گئے ‘ کوئی ایسا ہنر نہ سیکھا جس کے ذریعے روزی کما سکیں‘ کوئی ایسا علم نہیں سیکھ سکے جس سے کوئی کیریر بن سکے‘ ان کی باقی زندگی کتنی تنگی اور پریشانی میں گزرتی ہے! واقعہ یہ ہے کہ ادنیٰ ضروریات سے لے کر اعلیٰ ترین مقاصد حیات تک‘ ہر مقصد کا حصول وسائل کی موجودگی پر منحصر ہے۔ اگر کوئی پختہ عمر پر پہنچنے کے بعد دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتا ہے تو اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جوانی ہی میں اپنے کو اس قابل بنا لے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بھی کچھ وقت اور کچھ مال ان کاموں پر لگا سکے۔ کس کو کن کاموں کے لیے کتنا وقت ملتا ہے‘ اس کا انحصار صرف نیک ارادوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پہلے سے وسائل جمع کرنے پڑتے ہیں۔ بلاشبہ معاشی وسائل کی حیثیت صرف ذرائع کی ہے۔ ان کو مقاصد کا درجہ نہیں دینا چاہیے مگر زندگی میں کوئی مقصد وسائل کے بغیرحاصل نہیں کیا جا سکتا۔
دعوت و تبلیغ ہو یا تعلیم و تربیت‘ اصلاح معاشرہ ہو یا اقامت دین… ان میں سے ہر ایک کے لیے وسائل بہرحال درکار ہوتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے معاشی سرگرمی ناگزیر ہے۔
یہ بات ہمیشہ صحیح تھی کیونکہ اس کا تعلق بدلتے ہوئے حالات سے نہیں‘ اس کائنات میں انسانی زندگی کے احوال سے ہے۔ مگر گذشتہ دنوں کچھ ایسی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں جنھوں نے اس بات کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ ان بدلے ہوئے حالات میں معاشی وسائل کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو لیجیے کہ اب انسانوں میں ربط باہمی پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ ٹیلی فون عام ہوا‘ اس پر آنے والا خرچہ کم ہوا‘ پھر اس کے بعد ای میل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ربط باہم کے ذرائع سامنے آئے‘ جنھوں نے دنیا کو ایک کر دیا۔ جس سے چاہیے‘ بات کیجیے‘ جس سے چاہیے‘ استفادہ کیجیے۔ حصول علم ہو یا علاج معالجہ‘ فنی مشورے ہوں یا تعمیراتی منصوبے‘ خرید و فروخت کی سرگرمی ہو یا بچت کے نفع آور استعمال کا مسئلہ… غرض‘ ہر کام کے لیے کوئی بھی فرد دُنیا میں کسی سے بھی تبادلۂ خیال کر سکتا ہے‘ مدد لے سکتا ہے‘ دوسروں کو اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ مگر ان نئے مواقع سے فائدہ اٹھانا اسی کے لیے ممکن ہے جس کے پاس ٹیلی فون کا کنکشن ہو‘ کمپیوٹر ہو‘ گھر میں بجلی ہو… ان وسائل سے محرومی بہت سی مفید چیزوں سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے‘ جن میں دین و اخلاق کے لیے اہمیت رکھنے والی چیزیں بھی شامل ہیں۔
پچھلے ۱۰‘ ۲۰ برسوں میں دنیا میں اور اہم تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ ان میں سے ایک جمہوریت کا فروغ بھی ہے۔ انسانی امور کو متعلقہ افراد اور گروہوں کے باہمی مشوروں سے طے کرنے کا طریقہ زیادہ رواج پکڑ رہا ہے۔ مقامی پنچایت سے لے کر مجلس اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں تک‘ ہر مرحلے پر اب آزادانہ اظہار رائے ‘ تبادلۂ خیالات اور بحث و مباحثے کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی اہمیت سمجھ لی گئی ہے۔ ہر سطح پر اس بات کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جس فیصلے کا کسی انسان کے جسم و مال پر اثر پڑنے والا ہو‘ یاکسی بھی حیثیت سے اس کے مفادات و مصالح اس فیصلے سے متاثر ہونے والے ہوں‘ اس فیصلے کے کرنے میں اس کی شرکت ہونی چاہیے۔ کسی پوپ‘ بادشاہ یا ڈکٹیٹر کو متعلقہ انسانوں کی رائے اور مرضی کے علی الرغم فیصلے کرنے اور ان فیصلوں کو ان پر نافذ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ بڑی خوش آیند تبدیلی ہے‘ اگرچہ اسے تمام و کمال تک پہنچنے میں ابھی برسہا برس لگیں گے‘ مگر یہی رجحان انسانی عزوشرف سے مطابقت رکھتا ہے۔ اُمید ہے وہ دن واپس نہیں آئیں گے جب مذہب‘ نسل‘ ذات‘ رنگ یا قومیت کے نام پرکچھ انسانوں کو دوسرے انسانوں پر حکم جتانے اور ان پر ایسے فیصلے تھوپنے کا اختیار حاصل تھا جن میں اُن انسانوں کے مفاد و مصالح کے بجائے حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کے مفادات و مصالح کو سامنے رکھا جاتا تھا۔ یہ بڑی اچھی تبدیلی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری طریقے سے فیصلہ کرنے کی لاگت‘ تحکم والے طریقہ (authoritarianism)سے زیادہ آتی ہے۔ لوگوں کو جمع کرنے ‘ ان کو اظہار رائے کی آزادی دینے میں مادی وسائل درکار ہوتے ہیں‘ وقت لگتا ہے اور وقت‘ دولت ہے۔ یہ بات آسان تھی کہ طاقت ور نے اپنا فیصلہ کمزور پر ڈنڈے کے زور پر نافذ کر دیا۔ اس کی لاگت کم تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو ملک یا قوم‘ کوئی انسانی گروہ یا ادارہ‘ وسائل سے محروم ہو‘ وہ جمہوری طریقہ فیصلہ کو پوری طرح کارفرما نہ دیکھ سکے گا۔ کیوں کہ جمہوری عمل میں اخبارات و جرائد‘ ریڈیو اور ٹی وی‘ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ‘ پنچایت گھر اور پارلیمنٹ ہائوس‘ سیمی نار اور کانفرنسیں‘ سب کا ایک مقام ہے‘ اور ان سب کے لیے مادّی وسائل درکار ہیں!
جمہوری طریقہ حکمرانی کے لیے انتخابات کرانے ہوتے ہیں‘ توازن قائم رکھنے کے لیے عدلیہ کو اعلیٰ ترین معیاروں پر قائم رکھنا ہوتا ہے۔ مگر ان سب پر خرچہ بھی آتا ہے۔
ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے‘ اور وہ ہے ہزار‘ پندرہ سو سال پہلے کی غربت اور آج کی غربت میں فرق! بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے سنہرے دور میں‘ عہدنبویؐ میں اور خلفاے راشدین کے دور میں معیار زندگی اتنا اونچا نہیں تھا۔ بہت سے صحابہ ؓ اور بڑے بڑے بزرگ غربت کے حال میں زندگی گزار گئے مگر انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلا‘بڑے بڑے کارہاے نمایاں انجام پائے۔ ان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ غریبی سے اسلام کے مستقبل پر کوئی اثرنہیں پڑنا چاہیے‘ نہ مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی کو کسی دینی تحریک کی توجہ کا مستحق قرار پانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بات بڑی حد تک اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ کے ناقص مطالعہ پر مبنی ہے مگر سب سے پہلے ایک غلط فہمی دُور کرنا ضروری ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ آج کی غریبی اور اس زمانے کی غریبی میں بڑا فرق ہے۔ غریبی ہر زمانے میں رکاوٹ بنتی ہے اور انسانی سماج کو اس مقام تک پہنچنے سے روکے رہتی ہے جس میں وہ عزت و اطمینان سے اپنے مقاصد پورے کر سکے لیکن وسائل سے محرومی آج کے انسان کے لیے زیادہ معذور کن ہے۔ دو مثالوں کے ذریعے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی مثال پینے کے پانی کی ہے‘ دوسری ذرائع نقل و حمل کی۔
مدینہ منورہ میں‘ اور دریائوں سے دُور سارے دوسرے علاقوں میں‘ پینے کے پانی کے دو ہی ذرائع تھے۔ کنواں کھود کر زیرزمین پانی حاصل کیا جاتا تھا اور جن علاقوں میں بارش ہوتی تھی‘ وہاں تالاب اور گڑھوں میں جمع پانی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ پینے کے پانی کی نسبت سے امیروغریب کے درمیان فرق‘ مقدار میں ہو سکتا تھا مگر سب کے لیے ذریعے یہی دو تھے۔ اس صورت حال کا مقابلہ آج ان شہروں کے باشندوں کو پیش آنے والی صورت حال سے کیجیے جو لاکھوں اور بسااوقات کروڑ دو کروڑ کی آبادی والے شہر ہیں۔ تالاب اور گڑھے اب پائے نہیں جاتے‘ دریائوں کا پانی پینے کے لائق نہیں رہ گیا‘ پینے کا پانی یا تو میونسپل کارپوریشن کی سپلائی سے مل سکتا ہے یا پانی کی بوتل خرید کر۔ ہینڈپمپ یا کنویں کے ذریعے زیرزمین پانی کا استعمال تقریباً مفقود ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ ان شہروں کا زیرزمین پانی بھی صاف کیے بغیر استعمال کے قابل نہیں رہا۔ اب مشکل یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں طرح کے پانی پر کچھ لاگت آتی ہے‘ یہ لاگت فرد اپنی جیب سے ادا کرے یا میونسپلٹی سے مفت پانی حاصل ہونے کی شکل میں اس کی لاگت دوسرے افراد سے ٹیکس وصول کر کے پوری کی جائے‘ امر واقعہ یہی رہا کہ بڑے شہروں میں بسنے والوں کو پینے کا پانی مفت نہیں ملتا۔ پہلے ایسی صورت حال نہیں تھی۔ سانس لینے کے لیے ہوا کی طرح پینے کا پانی مفت مل جاتا تھا۔
ہزار پندرہ سو سال پہلے نقل و حمل کے لیے جانور استعمال کیے جاتے تھے۔ خچر‘ گھوڑے‘ اونٹ__ ان پر سواری کی جائے‘ یا بار برداری‘ ان کی پیٹھ استعمال کی جائے یا ان سے گاڑی کھینچنے کا کام لیا جائے۔ نقل و حمل کے کوئی اور ذرائع میسر نہیں تھے۔ امیر اور غریب میں صرف اتنا فرق تھا کہ غریب پیدل چلتا تھا‘ اپنا بوجھ اپنے سر پر اٹھاتا تھا مگر امیر کا بوجھ دوسرے انسان اپنے سر پر اٹھاتے تھے یا جانور‘ اور امیر کو سواری کے لیے جانور میسر تھے۔ فاصلے زیادہ نہ تھے۔ انسانوں کی غالب اکثریت چند ہزار انسانوں پر مشتمل چھوٹے گائوں اور قصبوں میں رہتی تھی‘ پیدل چل کر بھی زندگی بآسایش گزاری جا سکتی تھی۔ مگر اب کسی بڑے شہر میں پیدل چل کر اپنی ضروریات پوری کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم ہو یا علاج‘ روزگار کے سلسلے میں دفتر یا کارخانہ پہنچنا ہو یا کسی اور غرض سے شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانا ہو‘ کار‘ بس‘ ریل گاڑی… کوئی نہ کوئی مشینی سواری ضروری ہے۔ اس کے لیے خرچہ چاہیے جس کے پاس خرچ کرنے کو پیسہ نہیں‘وہ نقل و حرکت سے محروم رہے گا۔ نقل و حرکت کے بغیر زندگی کا تصور دشوار ہے۔
اس نکتے کی وضاحت کے بعد کہ آج معاشی وسائل سے محرومی‘ افراد کے لیے معذور کن ہے‘ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گروہوں اور پوری ملّت‘ کسی ملک کی مسلمان اقلیت‘ کسی مسلمان اکثریت والے ملک اور بحیثیت مجموعی‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کا معاشی قوت سے محروم رہنا یا ان کے پاس معاشی وسائل کی کمی ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ آج دُنیا ایک ہو چکی ہے اور ساری قوموں کے درمیان سخت مسابقت ہو رہی ہے۔ اس مسابقت میں جسمانی صحت‘ علم و ہنر‘ معلومات‘ طریقہ حکمرانی‘ معاشرتی زندگی‘ تجارتی سرگرمیاں‘ پیداواری عمل… ہر بات کو ایک مقام حاصل ہے اور ان میں سے ہر چیز کا اہتمام وسائل کا طلب گار ہے۔ جو ان امور میں پیچھے ہوتا جائے گا اس کی عزت اور وقار خطرے میں ہوگا‘ بساط عالم پر اس کاوزن گھٹتا چلا جائے گا… یہ ایک مشاہدحقیقت اور بدیہی بات ہے۔ لہٰذا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے‘ اور اسلامی تاریخ کا زرّیں دور معاشی وسائل کے اکتساب اور معاشی قوت کے حصول کے باب میں کیا نمونہ پیش کرتا ہے۔ (جاری)