فروری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

مسلمان اور معاشی عوامل

ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی | فروری ۲۰۰۲ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

گذشتہ صدیوں پر نظر ڈالیں تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں:

  •  مسلمانوں میں معاشی طور پر آگے بڑھنے کی کوئی تحریک کیوں نہیں چلائی گئی؟
  •  مسلمانوں کی مذہبی تحریکیں معاشی سرگرمیوں اور معاشی قوت حاصل کرنے کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دیتی ہیں؟
  •  مسلمانوں کے معاشی ادب اور اس موضوع پر کی جانے والی تقریروں میں تقسیم دولت پر بڑا زور دیا جاتا ہے مگر تکوین ثروت کا ذکر کم ہی آتا ہے اور اس کے طریقوں پر بھی کم توجہ کی جاتی ہے۔

ان سوالوں کاباہمی ربط واضح ہے مگر بحث کے آغاز سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جو رائیں اگلے صفحات میں ظاہر کی جائیں گی‘ ان کی حیثیت ایسے نتائج کی نہیں ہے جن پر کافی بحث و تحقیق اور غوروفکر کے بعد پہنچا گیا ہو‘ بلکہ جب یہ سوالات سامنے آئے تو سوچنا شروع کیا اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ غوروفکر میں دوسرے اہل نظر کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ ایسے نتائج تک پہنچا جا سکے جن کو کسی ایک فرد کی رائے کے بجائے محققین کی معتدبہ تعداد کی تائید حاصل ہو۔ ظاہر ہے کہ اس عمل میں کافی وقت لگے گا‘ مگر اس کے آغاز کے لیے آیندہ صفحات کا مطالعہ مفید رہے گا۔

پچھلی دو صدیوں میں عالم اسلام میں بہت سی تحریکیں اٹھیں اور انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ بدعات کے ازالے کی جدوجہد کی اور ساتھ ہی مسلمانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی جو بہت سی رسمیں‘ توہمات اور خرافات اپنا لیے تھے‘ ان سے مسلم معاشرے کو پاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ عقائد کی تصحیح پر زور دیا گیا تاکہ مشرکانہ تصورات کی آمیزش سے توحید خالص میں فرق نہ آئے۔ پرسنل لا بلکہ عام طور پر انسانی تعلقات میں اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ضوابط کی پابندی پر زور دیا گیا۔ فقہی امور میں تقلید جامد کے اثر سے خرابیاں پیدا ہوتے دیکھ کر اجتہاد پر زور دیا گیا اور مختلف فقہی مسالک کے درمیان توافق اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ‘اور جب یورپ سے آئے ہوئے لوگوں کا سیاسی غلبہ عام ہوا تو مسلمان علاقوں کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے طاقت ور سیاسی تحریکیں چلیں۔ یہ ایک مسلّمہ بات ہے کہ تمام مسلمان نوآبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں میں مذہبی عناصر کا حصہ فیصلہ کن رہا ہے۔ پھر آزادی کے بعد اور کبھی اس سے پہلے ہی‘ جیسا کہ ہندستان میں ہوا‘ تعلیمی تحریکیں بھی چلیں جنھوں نے مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے کی کوشش کی۔ انھی تمام کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان آج اپنے پیروں پر کھڑے ہیں اور مسلمان بن کر رہ رہے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس نے عام مسلمانوں کو للکارا کہ محنت کرو‘ دولت پیدا کرو۔ کمائو اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بچا کر نفع آور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی آمدنی اور دولت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرو۔ ایسی تحریک نہیں ملتی جس نے افراد کے مجموعوں یا پوری ملّت اسلامیہ کو معاشی قوت کی اہمیت جتلا کر معاشی طور پر طاقت ور بننے کی خاطر بیش از بیش وسائل حاصل کرنے کی دعوت دی ہو۔

بیسویں صدی تو اسلامی تحریکوں کی صدی تھی۔ بڑی طاقت ور اسلامی تحریکیں چلیں جن کو فکری غذا اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مجددین اُمت اور علما و مفکرین نے فراہم کی تھی۔ حکومتیں ان تحریکوں کے زیراثر آئیں۔ بعض جگہ ان تحریکوں کو حکومت میں شریک ہونے کا موقع ملا اور بعض ممالک میں خود ان کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن کسی جگہ معاشی سرگرمیوں کی عام دعوت ‘ تکوین ثروت کی مہم ‘ افراد اور گروہوں کو اپنی ضرورت سے زیادہ کمانے کی ترغیب‘ تاکہ وہ بچت کر سکیں اور یہ بچت اجتماعی معاشی قوت میں اضافے کی خاطر سرمایہ کاری کے کام آ سکے… یہ تحریک نہیں ملتی۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں مسلم اکثریت والے علاقے آزاد ہوئے اور انھوں نے اپنا نظم و نسق خود سنبھالا تو تقریباً ہر ملک میں یہ تحریک چلی کہ یہ سب کام اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ عرب ممالک میں اخوان المسلمین‘ برعظیم ہند میں جماعت اسلامی‘انڈونیشیا میں ماشومی (مجلس شورائی مسلمانان انڈونیشیا) اور ان کے ہم خیال لوگوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں میں اسلام کے مطابق سماج کی تعمیرنو کا ولولہ پیدا کر دیا۔ قدیم مذہبی حلقے بھی پہلے کی بہ نسبت زیادہ سرگرم ہو گئے۔ آزادی کے بعد خوش حالی میں بھی اضافہ ہوا۔ چند مسلمان ممالک کو پٹرول کی فروخت سے جو غیر معمولی آمدنی ہوئی‘ اس کا فیض دوسرے ترقی پذیر مسلمان ممالک کو بھی اُن مزدوروں اور اہل علم و ہنر کے ذریعے پہنچا جن کی خدمات ان دولت مند مسلمان ممالک کو درکار ہوئیں۔ غرض یہ کہ بیسویں صدی کا آخری چوتھائی حصہ بڑے جوش وخروش اور حرکت و عمل کا حصہ رہا۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ ان مواقع سے پورا فائدہ اُٹھا کر اُمت کو معاشی طور پر طاقت ور بنانے کی طرف کوئی اجتماعی و شعوری توجہ نہیں کی گئی۔ عام مذہبی حلقوں کی وعظ و تلقین ہو یا سیاسی رنگ رکھنے والی اسلامی تحریکوں کے منشور اور قراردادیں‘ مسلمان افراد اور گروہوں کو زیادہ کمانے یا کما کر بچانے اور بچت کی سرمایہ کاری کے ذریعے تکوین ثروت کی دعوت سے دونوں خالی رہے۔ جو کچھ معاشی سرگرمی دیکھی گئی‘ اور اس کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک میں‘ نیز دوسرے ممالک میں آباد مسلمان اقلیتوں میں‘ جو خوش حالی آئی‘ وہ انفرادی محرکات اور ملکی سطح پر قوم پسندانہ حوصلوں کا نتیجہ تھی۔ اس میں مذہبی حلقوں کی ترغیب و تائید یا اسلامی تحریکوں کی تدبیر و تاکید کو دخل نہیں تھا۔

یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ عرصہ دراز سے مسلمانوں کے دینی ادب میں معاشی جدوجہد اور معاشی قوت کے حصول کا چرچا کم ہی ملتا ہے۔ شاید اس کا اثر ہے کہ بیسویں صدی میں جب مغرب کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام اور روسی بلاک کے اشتراکی نظام کو ردّ کرتے ہوئے ان کے بالمقابل اسلامی دانش وروں اور اسلامی تحریکوں نے اسلام کے عادلانہ معاشی نظام کو پیش کرنا شروع کیا تو اس کی تشریح و تعبیر میں زیادہ زور تقسیم دولت پر رہا۔

یہ بات کہ دولت بنتی کیسے ہے‘ اور یہ شعور کہ جب دولت میں بیش از بیش اضافے کی تدابیر نہیں اختیار کی جائیں گی تو ایک روز افزوں آبادی میں‘ اس کی تقسیم ہمیں مطلوبہ نتائج تک پہنچانے سے قاصر رہے گی… کم ہی ملتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں تالیف کردہ سید قطب شہید علیہ الرحمہ کی معرکہ آرا  کتاب  العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام کا یہ جملہ اس بارے میں ہمارے ذہن کی بہت صحیح ترجمانی کرتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ فقروحاجت مندی صرف مال کے ارتکاز کا نتیجہ ہوتے ہیں‘‘۔ (اسلام میں عدل اجتماعی‘ ترجمہ: محمد نجات اللہ صدیقی‘ ص ۴۸۹)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی معاشی نظام میں عدل و مساوات پر زور دیا گیا ہے‘ یہ اس کی امتیازی شان ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر صرف زکوٰۃ و صدقات پر زور دیا جائے اور اس بات کا اہتمام کیا جاتا رہے کہ امیروں کی دولت کا ایک حصہ غریبوں تک منتقل ہوتا رہے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں تو‘ آبادی میں ہوتے رہنے والے اضافے کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ایسا معاشرہ اپنی پیدا کی ہوئی دولت کا بیش از بیش حصہ صرف کرتا رہے گا‘ بچت کم ہوتی رہے گی جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کم ہوگی اور اس کا امکان بڑھتا جائے گا کہ دولت میں اضافے کی رفتار گھٹنے لگے۔ ایک ایسا وقت آئے گا کہ دولت میں اضافے کی رفتار آبادی میں اضافے کی رفتار سے کم ہو جائے گی اور معاشرہ معاشی تنزل کی راہ پر چل پڑے گا۔

ظاہر ہے کہ ایک تنزل پذیر سماج میں‘ جس میں مجموعی دولت کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہو‘ صرف امیروں سے غریبوں کی طرف دولت کی منتقلی سے عدل کے تقاضے نہیں پورے ہو سکتے بلکہ وہ کیفیت رونما ہونے لگے گی جسے ’’تقسیم فقر‘‘ (distribution of poverty)کا نام دیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ امیروں کی دولت کے طفیل غریبوں کی غربت دُور ہو‘ ایسے معاشرے میں جس میں مجموعی دولت زوال پذیر ہو‘ غریبوں کے مصارف‘ امیروں کو غریبوں کی صفوں میں لاکھڑا کر دیں گے۔

اس ناپسندیدہ صورت حال سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ تکوین ثروت کا بھی اہتمام کیا جائے‘ اور جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے‘ اسلام نے اس بارے میں ایک واضح ایجابی موقف اختیار کیا ہے۔ مگر بحث کے اس مرحلے سے پہلے ہمیں سوچنا ہے کہ جو کیفیت اُوپر بیان کی گئی‘ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بیسویں صدی میں مادیت کا غلبہ رہا۔ مغربی سرمایہ داری پہلے ہی سے چرچ سے بغاوت‘ مذہب سے بیزاری اور جارحانہ سیکولرزم کے زیرسایہ تھی۔ اشتراکیت نے تاریخ کی مادی تعبیر اختیار کر کے اور مذہب و اخلاق کو ڈھکوسلے قرار دے کر ایک ایسی فضا بنا دی تھی جس میں مادّی وسائل کی اہمیت جتلانے اور معاشی قوت پر توجہ مرکوز کرنے میں یہ شبہہ وارد ہوتا تھا کہ ہم بھی غیروں کے راستے پر چل پڑے اور ان کی فکر سے متاثر ہو گئے۔

اسلامی فکر بجا طور پر تاریخ کی مادّی تعبیرکو ردّ کرتی ہے۔ اس کا یہ موقف بھی درست ہے کہ معاشی زندگی میں صرف ذاتی نفع کا حصول محرک عمل نہیں ہوتا بلکہ روحانی اور اخلاقی قدریں بھی کارفرما ہوتی ہیں اور فرد اپنے معاشی فیصلوں میں اجتماعی مصالح کا بھی لحاظ کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم پر اسلامی تحریکوں کی یہ تنقید بھی بجا ہے کہ انھوں نے معاش پر زیادہ زوردے کر زندگی کے دوسرے اہم پہلوئوں کی اہمیت کم کر دی ہے جس سے سماج میں حصول دولت کی ایسی دوڑ شروع ہو گئی ہے جس میں محبت اور مروت‘ ہمدردی اور پاس داری جیسے قیمتی انسانی آداب و اقدار کی پامالی عمل میں آ رہی ہے۔ یہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ معاشی قوت کے حصول کی طرف سے بے توجہی اور انسانی زندگی میں معاشی عوامل کے واقعی مقام کے اعتراف میں کوتاہی مذکورہ بالا رجحانات کے ردّعمل کے طور پر ہو۔ گویا ایک طرف کے عدم توازن کے ردّعمل میں دوسری طرف بھی غیر متوازن موقف نے جنم لیا ہو۔

توازن بحال کرنے کی ضرورت

اگر پچھلی صدی میں فکر اسلامی کے معاشی عوامل کو صحیح رتبہ نہ دینے کا کوئی عذر رہا بھی ہو تو اب اس کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ یہی صورت حال قائم رہے۔ کیونکہ: اوّلاً‘ پچھلا موقف اصلاً کمزور ہے اور ثانیاً‘ اس موقف پر اصرار سے اُمت کو نقصان پہنچے گا۔

غور فرمایئے کہ اس دنیا میں انسان جس کمزور حالت میں داخل ہوتا ہے‘ اس میں اسے روز اوّل سے ہی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ طفولیت کا نازک مرحلہ ہو یا ہوش سنبھالنے کے بعد بچپن اور عنفوان شباب کے دن۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ غذا ملے‘ بدن پر موسم کی مناسبت سے لباس ہو‘ سر چھپانے کو مکان ہو۔ شروع میں یہ وسائل خاندان کو فراہم کرنے ہوتے ہیں اور جس بچے کو اس کا خاندان یا سماج یہ وسائل فراہم نہ کر سکے وہ ضائع ہو جاتاہے۔ پھر ہوش سنبھالتے ہی اس بات کا شعور پیدا ہو جاتا ہے کہ آیندہ اپنے پیروں پرکھڑے ہونے اور اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے لائق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ علم و ہنر سیکھا جائے۔ بے شک حصول علم کے دوسرے اعلیٰ مقاصد بھی ہیں‘ لیکن اُن گنے چنے خوش قسمت افراد کو چھوڑ کر جن کو وراثت میں بڑی دولت ملنے والی ہو‘ باقی تمام انسانوں کو پانچ سال کی عمر سے ۴۰ سال کی عمر تک سب سے زیادہ فکر ایسا علم و ہنر سیکھنے کی ہوتی ہے جو انھیں باقی ایام زندگی کے لیے روزی کمانے کے قابل بنا سکے۔آپ اپنے قریبی ماحول پر نظر ڈالیے۔ جو لڑکے یا لڑکیاں ۲۰ سال کی عمر تک ناخواندہ رہ گئے ‘ کوئی ایسا ہنر نہ سیکھا جس کے ذریعے روزی کما سکیں‘ کوئی ایسا علم نہیں سیکھ سکے جس سے کوئی کیریر بن سکے‘ ان کی باقی زندگی کتنی تنگی اور پریشانی میں گزرتی ہے! واقعہ یہ ہے کہ ادنیٰ ضروریات سے لے کر اعلیٰ ترین مقاصد حیات تک‘ ہر مقصد کا حصول وسائل کی موجودگی پر منحصر ہے۔ اگر کوئی پختہ عمر پر پہنچنے کے بعد دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے یا ملک و ملّت کے لیے کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتا ہے تو اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جوانی ہی میں اپنے کو اس قابل بنا لے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بھی کچھ وقت اور کچھ مال ان کاموں پر لگا سکے۔ کس کو کن کاموں کے لیے کتنا وقت ملتا ہے‘ اس کا انحصار صرف نیک ارادوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پہلے سے وسائل جمع کرنے پڑتے ہیں۔ بلاشبہ معاشی وسائل کی حیثیت صرف ذرائع کی ہے۔ ان کو مقاصد کا درجہ نہیں دینا چاہیے مگر زندگی میں کوئی مقصد وسائل کے بغیرحاصل نہیں کیا جا سکتا۔

دعوت و تبلیغ ہو یا تعلیم و تربیت‘ اصلاح معاشرہ ہو یا اقامت دین… ان میں سے ہر ایک کے لیے وسائل بہرحال درکار ہوتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے معاشی سرگرمی ناگزیر ہے۔

یہ بات ہمیشہ صحیح تھی کیونکہ اس کا تعلق بدلتے ہوئے حالات سے نہیں‘ اس کائنات میں انسانی زندگی کے احوال سے ہے۔ مگر گذشتہ دنوں کچھ ایسی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں جنھوں نے اس بات کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ ان بدلے ہوئے حالات میں معاشی وسائل کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو لیجیے کہ اب انسانوں میں ربط باہمی پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ ٹیلی فون عام ہوا‘ اس پر آنے والا خرچہ کم ہوا‘ پھر اس کے بعد ای میل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ربط باہم کے ذرائع سامنے آئے‘ جنھوں نے دنیا کو ایک کر دیا۔ جس سے چاہیے‘ بات کیجیے‘ جس سے چاہیے‘ استفادہ کیجیے۔ حصول علم ہو یا علاج معالجہ‘ فنی مشورے ہوں یا تعمیراتی منصوبے‘ خرید و فروخت کی سرگرمی ہو یا بچت کے نفع آور استعمال کا مسئلہ… غرض‘ ہر کام کے لیے کوئی بھی فرد دُنیا میں کسی سے بھی تبادلۂ خیال کر سکتا ہے‘ مدد لے سکتا ہے‘ دوسروں کو اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے۔ مگر ان نئے مواقع سے فائدہ اٹھانا اسی کے لیے ممکن ہے جس کے پاس ٹیلی فون کا کنکشن ہو‘ کمپیوٹر ہو‘ گھر میں بجلی ہو… ان وسائل سے محرومی بہت سی مفید چیزوں سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے‘ جن میں دین و اخلاق کے لیے اہمیت رکھنے والی چیزیں بھی شامل ہیں۔

پچھلے ۱۰‘ ۲۰ برسوں میں دنیا میں اور اہم تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔ ان میں سے ایک جمہوریت کا فروغ بھی ہے۔ انسانی امور کو متعلقہ افراد اور گروہوں کے باہمی مشوروں سے طے کرنے کا طریقہ زیادہ رواج پکڑ رہا ہے۔ مقامی پنچایت سے لے کر مجلس اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں تک‘ ہر مرحلے پر اب آزادانہ اظہار رائے ‘ تبادلۂ خیالات اور بحث و مباحثے کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی اہمیت سمجھ لی گئی ہے۔ ہر سطح پر اس بات کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جس فیصلے کا کسی انسان کے جسم و مال پر اثر پڑنے والا ہو‘ یاکسی بھی حیثیت سے اس کے مفادات و مصالح اس فیصلے سے متاثر ہونے والے ہوں‘ اس فیصلے کے کرنے میں اس کی شرکت ہونی چاہیے۔ کسی پوپ‘ بادشاہ یا ڈکٹیٹر کو متعلقہ انسانوں کی رائے اور مرضی کے علی الرغم فیصلے کرنے اور ان فیصلوں کو ان پر نافذ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ بڑی خوش آیند تبدیلی ہے‘ اگرچہ اسے تمام و کمال تک پہنچنے میں ابھی برسہا برس لگیں گے‘ مگر یہی رجحان انسانی عزوشرف سے مطابقت رکھتا ہے۔ اُمید ہے وہ دن واپس نہیں آئیں گے جب مذہب‘ نسل‘ ذات‘ رنگ یا قومیت کے نام پرکچھ انسانوں کو دوسرے انسانوں پر حکم جتانے اور ان پر ایسے فیصلے تھوپنے کا اختیار حاصل تھا جن میں اُن انسانوں کے مفاد و مصالح کے بجائے حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والوں کے مفادات و مصالح کو سامنے رکھا جاتا تھا۔ یہ بڑی اچھی تبدیلی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوری طریقے سے فیصلہ کرنے کی لاگت‘ تحکم والے طریقہ (authoritarianism)سے زیادہ آتی ہے۔ لوگوں کو جمع کرنے ‘ ان کو اظہار رائے کی آزادی دینے میں مادی وسائل درکار ہوتے ہیں‘ وقت لگتا ہے اور وقت‘ دولت ہے۔ یہ بات آسان تھی کہ طاقت ور نے اپنا فیصلہ کمزور پر ڈنڈے کے زور پر نافذ کر دیا۔ اس کی لاگت کم تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو ملک یا قوم‘ کوئی انسانی گروہ یا ادارہ‘ وسائل سے محروم ہو‘ وہ جمہوری طریقہ فیصلہ کو پوری طرح کارفرما نہ دیکھ سکے گا۔ کیوں کہ جمہوری عمل میں اخبارات و جرائد‘ ریڈیو اور ٹی وی‘ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ‘ پنچایت گھر اور پارلیمنٹ ہائوس‘ سیمی نار اور کانفرنسیں‘ سب کا ایک مقام ہے‘ اور ان سب کے لیے مادّی وسائل درکار ہیں!

جمہوری طریقہ حکمرانی کے لیے انتخابات کرانے ہوتے ہیں‘ توازن قائم رکھنے کے لیے عدلیہ کو اعلیٰ ترین معیاروں پر قائم رکھنا ہوتا ہے۔ مگر ان سب پر خرچہ بھی آتا ہے۔

ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے‘ اور وہ ہے ہزار‘ پندرہ سو سال پہلے کی غربت اور آج کی غربت میں فرق! بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے سنہرے دور میں‘ عہدنبویؐ میں اور خلفاے راشدین کے دور میں معیار زندگی اتنا اونچا نہیں تھا۔ بہت سے صحابہ ؓ  اور بڑے بڑے بزرگ غربت کے حال میں زندگی گزار گئے مگر انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلا‘بڑے بڑے کارہاے نمایاں انجام پائے۔ ان کو یہ خیال ہوتا ہے کہ غریبی سے اسلام کے مستقبل پر کوئی اثرنہیں پڑنا چاہیے‘ نہ مسلمانوں کی معاشی پس ماندگی کو کسی دینی تحریک کی توجہ کا مستحق قرار پانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بات بڑی حد تک اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ کے ناقص مطالعہ پر مبنی ہے مگر سب سے پہلے ایک غلط فہمی دُور کرنا ضروری ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ آج کی غریبی اور اس زمانے کی غریبی میں بڑا فرق ہے۔ غریبی ہر زمانے میں رکاوٹ بنتی ہے اور انسانی سماج کو اس مقام تک پہنچنے سے روکے رہتی ہے جس میں وہ عزت و اطمینان سے اپنے مقاصد پورے کر سکے لیکن وسائل سے محرومی آج کے انسان کے لیے زیادہ معذور کن ہے۔ دو مثالوں کے ذریعے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی مثال پینے کے پانی کی ہے‘ دوسری ذرائع نقل و حمل کی۔

مدینہ منورہ میں‘ اور دریائوں سے دُور سارے دوسرے علاقوں میں‘ پینے کے پانی کے دو ہی ذرائع تھے۔ کنواں کھود کر زیرزمین پانی حاصل کیا جاتا تھا اور جن علاقوں میں بارش ہوتی تھی‘ وہاں تالاب اور گڑھوں میں جمع پانی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ پینے کے پانی کی نسبت سے امیروغریب کے درمیان فرق‘ مقدار میں ہو سکتا تھا مگر سب کے لیے ذریعے یہی دو تھے۔ اس صورت حال کا مقابلہ آج ان شہروں کے باشندوں کو پیش آنے والی صورت حال سے کیجیے جو لاکھوں اور بسااوقات کروڑ دو کروڑ کی آبادی والے شہر ہیں۔ تالاب اور گڑھے اب پائے نہیں جاتے‘ دریائوں کا پانی پینے کے لائق نہیں رہ گیا‘ پینے کا پانی یا تو میونسپل کارپوریشن کی سپلائی سے مل سکتا ہے یا پانی کی بوتل خرید کر۔ ہینڈپمپ یا کنویں کے ذریعے زیرزمین پانی کا استعمال تقریباً مفقود ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ ان شہروں کا زیرزمین پانی بھی صاف کیے بغیر استعمال کے قابل نہیں رہا۔ اب مشکل یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں طرح کے پانی پر کچھ لاگت آتی ہے‘ یہ لاگت فرد اپنی جیب سے ادا کرے یا میونسپلٹی سے مفت پانی حاصل ہونے کی شکل میں اس کی لاگت دوسرے افراد سے ٹیکس وصول کر کے پوری کی جائے‘ امر واقعہ یہی رہا کہ بڑے شہروں میں بسنے والوں کو پینے کا پانی مفت نہیں ملتا۔ پہلے ایسی صورت حال نہیں تھی۔ سانس لینے کے لیے ہوا کی طرح پینے کا پانی مفت مل جاتا تھا۔

ہزار پندرہ سو سال پہلے نقل و حمل کے لیے جانور استعمال کیے جاتے تھے۔ خچر‘ گھوڑے‘ اونٹ__ ان پر سواری کی جائے‘ یا بار برداری‘ ان کی پیٹھ استعمال کی جائے یا ان سے گاڑی کھینچنے کا کام لیا جائے۔ نقل و حمل کے کوئی اور ذرائع میسر نہیں تھے۔ امیر اور غریب میں صرف اتنا فرق تھا کہ غریب پیدل چلتا تھا‘ اپنا بوجھ اپنے سر پر اٹھاتا تھا مگر امیر کا بوجھ دوسرے انسان اپنے سر پر اٹھاتے تھے یا جانور‘ اور امیر کو سواری کے لیے جانور میسر تھے۔ فاصلے زیادہ نہ تھے۔ انسانوں کی غالب اکثریت چند ہزار انسانوں پر مشتمل چھوٹے گائوں اور قصبوں میں رہتی تھی‘ پیدل چل کر بھی زندگی بآسایش گزاری جا سکتی تھی۔ مگر اب کسی بڑے شہر میں پیدل چل کر اپنی ضروریات پوری کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم ہو یا علاج‘ روزگار کے سلسلے میں دفتر یا کارخانہ پہنچنا ہو یا کسی اور غرض سے شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانا ہو‘ کار‘ بس‘ ریل گاڑی… کوئی نہ کوئی مشینی سواری ضروری ہے۔ اس کے لیے خرچہ چاہیے جس کے پاس خرچ کرنے کو پیسہ نہیں‘وہ نقل و حرکت سے محروم رہے گا۔ نقل و حرکت کے بغیر زندگی کا تصور دشوار ہے۔

اس نکتے کی وضاحت کے بعد کہ آج معاشی وسائل سے محرومی‘ افراد کے لیے معذور کن ہے‘ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گروہوں اور پوری ملّت‘ کسی ملک کی مسلمان اقلیت‘ کسی مسلمان اکثریت والے ملک اور بحیثیت مجموعی‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کا معاشی قوت سے محروم رہنا یا ان کے پاس معاشی وسائل کی کمی ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ آج دُنیا ایک ہو چکی ہے اور ساری قوموں کے درمیان سخت مسابقت ہو رہی ہے۔ اس مسابقت میں جسمانی صحت‘ علم و ہنر‘ معلومات‘ طریقہ حکمرانی‘ معاشرتی زندگی‘ تجارتی سرگرمیاں‘ پیداواری عمل… ہر بات کو ایک مقام حاصل ہے اور ان میں سے ہر چیز کا اہتمام وسائل کا طلب گار ہے۔ جو ان امور میں پیچھے ہوتا جائے گا اس کی عزت اور وقار خطرے میں ہوگا‘ بساط عالم پر اس کاوزن گھٹتا چلا جائے گا… یہ ایک مشاہدحقیقت اور بدیہی بات ہے۔ لہٰذا اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے‘ اور اسلامی تاریخ کا زرّیں دور معاشی وسائل کے اکتساب اور معاشی قوت کے حصول کے باب میں کیا نمونہ پیش کرتا ہے۔ (جاری)