۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کا ذمہ دار جو بھی ہو‘ اس کے یہ اثرات تو سب کے سامنے ہیں کہ بدلی ہوئی دُنیا میںحق و انصاف اور آزادی و حقوق کی ہر طرح کی جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے‘ اسے بیخ و بن سے اُکھاڑنے کا کام عالمی سطح پر شروع کر دیا گیا ہے۔ طویل جدوجہد کی خبر دی جا رہی ہے (اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ۴ سال بھی لگ سکتے ہیں!)‘ اور جہاں جہاں اس طرح کی جدوجہد جاری ہے خصوصاً جہاں مسلمان مظلوم ہیں‘ ظالموں کو ہر طرح کی امداد پہنچائی جا رہی ہے اور دہشت گردی ختم کرنے کے عنوان سے باہمی معاہدے ہو رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک منظر فلپائن میں مورو تحریک آزادی کا ہے جہاں مظلوموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
فلپائن ۷ کروڑ سے زائد آبادی اور ۷ ہزار سے زائد جزائر پر مشتمل مسیحی ملک ہے جو انڈونیشیا اور ملایشیا کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ فلپائن کے جنوبی اضلاع مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوب کے ۱۳ صوبوں میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰ لاکھ ہے‘ جب کہ مسلمانوں کے مطابق ۹۰ لاکھ ہے۔
جنوبی فلپائن میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مسلمان گذشتہ چار سو سال سے سرگرم عمل ہیں۔ اس جدوجہد کو دُنیا کی طویل ترین جدوجہد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ پندرھویں صدی کے آغاز میںیہاں مسلمانوں کی دو عظیم الشان ریاستیں سولو اور میگندانو تھیں۔ ۱۵۲۱ء میں ہسپانیہ نے قبضہ کرلیا۔ ۱۸۹۶ء میں امریکہ نے ۲کروڑ ڈالر کے عوض یہ علاقہ خرید لیا اور مسلمانوں کے علاقے جبراً فلپائن کا حصہ بنا دیے گئے۔ یہاں سے مسلمانوں پر ظلم و جبر اور استحصال کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کو مورو کے نام سے پکارا جانے لگا۔ فلپائن کی آزادی کے بعد ۱۹۶۸ء میں داتو اتوگ متالان نے آزاد اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور مجوزہ آزاد مملکت کا نام بنگسا مورو رکھا۔ ۱۹۷۷ء میں دو گروہ بن گئے۔ ایک مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (MILF) جس کے سربراہ سلامت ہاشم ہیں۔ دوسرا گروہ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ (MNLF)ہے جس کے سربراہ نور میسواری ہیں اور ایک تیسری تنظیم بھی ہے جس کی سربراہی ابوسیاف کرتے ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بالآخر مسلمانوں نے مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کر دیا (تفصیل کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن ‘ اخبار اُمت‘ ستمبر ۱۹۹۵ء)
اس جدوجہد کے نتیجے میں حکومت سے مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے۔ مسلمانوں کی معاشی ‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور تہذیبی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کے دعوے بھی کیے گئے مگر ان پر عمل درآمد نہ ہوا اور مسلمان مسلسل جبرواستحصال کا شکار رہے۔ آخری معاہدہ سعودی عرب‘ انڈونیشیا اور ملایشیا کے تعاون سے ۱۹۹۶ء میں ہوا تھا‘ اسے: Autonomous Region for Muslim Mindanao (ARMM) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو جنوبی اضلاع میں خودمختاری دے گی‘ دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دے گی اور اسلامی تشخص بحال کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت نورمیسواری کو ۱۹۹۶ء میں جنوبی اضلاع کا گورنر مقرر کیا گیا‘ جب کہ سلامت ہاشم نے اس معاہدے کو ردّ کر دیا اور جدوجہد آزادی جاری رکھی۔
عملاً معاہدے پر کس حد تک عمل درآمد ہوا‘ اس کا اندازہ رابطہ عالم اسلامی کی جاری کردہ ایک رپورٹ سے بہ خوبی ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق: فلپائنی حکومت کا ’’مورو غداروں‘‘ کے ساتھ امتیازی سلوک اہتمام سے جاری ہے۔ تعلیم‘ روزگار ‘ ملازمت‘ صحت‘ سرکاری شعبوں اور غیر سرکاری اداروں میں ان غریب مسلمانوں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے برعکس سابق ڈکٹیٹر صدر مارکوس نے ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس ہزاروں فوجی تعینات کر دیے تھے تاکہ باغیوں اور حریت پسندوں کا قلع قمع کر سکے۔ چونکہ فلپائن امریکی بلاک میں عرصۂ دراز سے ہے اور امریکی اڈّے بھی موجود ہیں‘ اس لیے کمیونسٹ تحریک سے تعلق کا الزام عائد کر کے مورو قومی محاذِ آزادی (MNLF)کے خلاف مسلسل کارروائی کی جاتی رہی‘ جب کہ اس کا کمیونسٹ تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
۱۱ ستمبر کے واقعات کے فوراً بعد حکومت فلپائن نے ۱۳ جنوبی اضلاع سے ۱۹۹۶ء میں ہونے والا معاہدہ یک طرفہ طور پر کالعدم قرار دے دیا۔ امریکہ نے نومبر ۲۰۰۱ء میں ۳۹ ملین ڈالر کی رقم فراہم کی تاکہ دہشت گردی کو نابود کرنے کے لیے جدید ترین اسلحہ خریدے اور اپنے سپاہیوں کو اعلیٰ ترین تربیت دے سکے۔ (ایشیا ویک‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۱ء)
فلپائن کی موجودہ خاتون صدر گلوریا میگاپیگال ارویو نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی سربراہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف قرارداد منظور کروائی اور یہ یقین دہانی حاصل کی کہ ان ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس طرح امریکہ کے ساتھ تعاون کیا ہے‘ اسی طرح فلپائن کے ساتھ تعاون کریں گے تاکہ جنوب مشرقی ایشیا کو پرامن علاقہ بنایا جا سکے۔
ساتھ ہی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا جاری ہے۔ ولنسنٹ سوٹو میموریل میڈیکل سنٹر کے ڈاکٹر جوز دوکادائو نے قومی روزنامے فلپین سٹار کی ۱۹ ستمبر کی اشاعت میں لکھا: ’’بنی نوع انسان کس قدر احمق ہیں کہ بدی کو پہچانتے ہی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنیاد پرستوں کی تلوار نے کتنے ہی انسانوں کو قتل کر کے سمندروں میں پھینک دیا تھا۔ ۱۴ سو سال قبل اسلام کے آغاز سے موجودہ دور تک اس مذہب نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف تشدد‘ ظلم و زیادتی اور نفرت کو فروغ دیا ہے۔ نفرت کا سرچشمہ آج نہیں‘ ۱۴ سو سال سے قرآن ہے جسے مسلمان رہنمائی کا خزینہ قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی وقت پرُامن مسلمان دہشت گردوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ قرآن کی موجودگی انسانیت کے لیے بدی کی علامت ہے‘‘۔
ملایشیا کے معروف دانش ور ڈاکٹر فارش اے نور جنوبی فلپائن کے تازہ ترین حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسلام سے نفرت کرنے والے سرکردہ مذہبی و سیاسی عناصر نے کوشش کی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر کارروائی تیز کر دی جائے۔ مغربی ممالک کی عمومی طور پر اور سابق نوآبادیاتی حاکم امریکہ کی خوشنودی خصوصی طور پر حاصل کر لی جائے۔ صدر ارویو‘ امریکہ‘ سنگاپور‘ ملایشیا اور انڈونیشیا کے دارالحکومتوں کا کئی بار دورہ کر چکی ہیں تاکہ آیندہ کارروائی میں‘ ہمسایوں کی جانب سے مزاحمت نہ ہو۔ امکان ہے کہ ارویو‘ تشدد کے جو نئے حربے اور قوت کے بے محابا استعمال کے جو نئے فارمولے جنوبی فلپائن میںآزمانا چاہتی ہیں‘ اُنھیں بیرونی دُنیا سے کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہوگا۔
صدر ارویو جولائی ۲۰۰۱ء میں اعلان کر چکی ہیںکہ جو دہشت گرد تاوان براے اغوا کی سرگرمیوں میں منسلک ہیں اُن کے خلاف مکمل جنگ ہوگی اور کسی قسم کے مذاکرات نہ ہوں گے۔ جزائر جولو کی آبادی ۲ لاکھ ۳۰ ہزار ہے۔ ۵ ہزار فوجیوں کے ذریعے کارروائی کی گئی‘ مساجد کی تلاشی لی گئی اور گھروں کو نذرِآتش کیا گیا۔ حکومتی ذرائع نے اعلان کیا کہ ہم ۸۰ مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا اُن میں مقامی جج‘ مذہبی راہنما‘ تاجر‘ طالب علم اور دیگر نمایاں لوگ ہیں۔ فلپائنی فوج کے سربراہ نے اعلان کیا کہ: یہ توابھی آغاز ہے!
مورو جزائر کے لوگ فلپائن کی فوج کی ستم رانیوں سے خوب آگاہ ہیں۔ امپیکٹ انٹرنیشنل لندن (اگست ۲۰۰۱ء) کی رپورٹ کے مطابق: ’’فوجی دستے دیہاتوں کو گھیر لیتے ہیں اور مقامی آبادی کو ہراساں کیا جاتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ اُن کے کس باغی‘ حریت پسند سے تعلقات ہیں۔ جو انکار کریں اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جولو کی آبادی کے بارے میں گماں کیا جاتا ہے کہ وہ چھاپہ ماروں کے ہمدرد ہیں‘ اس لیے اُن پر آفت ٹوٹتی رہتی ہے۔
بحرالکاہل میں امریکہ کی بحری افواج کے سربراہ ایڈمرل تھامس فارگو نے فلپائن کی قومی سلامتی کے مشیر روئے لو گولز سے ملاقات کی اور اُسامہ بن لادن کے جنوبی فلپائن کی تحریک آزادی سے تعلقات اور سدباب کے موضوعات پر تفصیلی بحث کی۔ فار ایسٹرن اکنامک ریویو کے نمایندے نے اپنی رپورٹ (۱۱اکتوبر ۲۰۰۱ء) میں لکھا ہے:
۱۹۹۲ء کے بعد سے منیلا اور واشنگٹن کے تعلقات میں کھچائو موجود ہے۔ کانگرس نے رائے شماری کے ذریعے فیصلہ دیا تھا کہ امریکہ‘ فلپائن سے اپنی افواج واپس بلا لے۔ اگرچہ امریکی افواج یہاں ۱۰۰ برس سے موجودچلی آرہی ہیں‘ لیکن سانحۂ نیویارک کے بعددونوں ممالک کے تعلقات میں ازسرنوگرم جوشی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ایک ہی پرچم تلے ہونا چاہیے۔
حکومت فلپائن نے بن لادن کے خلاف مہم میں امریکہ کی بے حد و حساب معاونت کی‘ اور اس کے جواب میں فلپائن کے دہشت گرد گروہ ابوسیاف کے خلاف ممکنہ امداد کا وعدہ لیا ہے۔ فلپائن کے اعلیٰ افسران اب یک سو ہو چکے ہیں کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امریکہ کے تعاون سے مذکورہ گروپ کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔
۱۷ جنوری ۲۰۰۲ء کی خبر یہ ہے کہ وزیر دفاع رمس فیلڈ کے اعلان کے مطابق امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فلپائن میں ۶۰۰ فوجی اور ۱۰۷ کمانڈوز اُتارے ہیں جو ابوسیاف گروپ کے مقابلے کے لیے مقامی فوج کو تربیت دیں گے اور اقدام کریں گے۔