نبوت صرف اخلاقی حِس کے بیدار کرنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ انسان کو ایک نظام نامہ اور مفصل ضابطہ اخلاق دیتی ہے‘ اچھے اخلاق پر اُس سے خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کے محل و مقام کا وعدہ کرتی ہے جس سے بہتر عمل کے لیے کوئی محرک ثابت نہیں ہوا‘ بداخلاقیوں اور قانون شکنی پر اس کے عذاب اور قہر سے ڈراتی ہے جس سے زیادہ کامیاب مانع دنیا میں موجود نہیں‘ خدا کے حاضر و ناظر‘ سمیع و بصیر اور عالم الغیب والشہادہ ہونے کا یقین اس کے دل و دماغ میں پیوست کر دیتی ہے جس سے بڑھ کر انسان کو ضبط میں رکھنے والی کوئی اخلاقی طاقت آج تک دریافت نہیں ہو سکی۔ یہی طاقت ہے جو انسان کو جلوت و خلوت‘ شہر اور صحرا میں پابند قانون رکھتی ہے‘ جو پولیس اور فوج کی طاقت کے بغیر بڑے بڑے جرائم اور صدیوں کی بری عادات کا استیصال کردیتی ہے‘ جو زبان کے ایک اشارہ سے پوری پوری قوم سے منہ لگی شراب چھڑا دیتی ہے‘ جو مجرموں کو شہروں اور صحرائوں سے کھینچ کر عدالت میں حاضر کرتی ہے اور ان کی زبان سے اپنے جرم کا اقبال کراتی ہے۔
جس اخلاقی نظام کی پشت پر نبوت کی یہ طاقت نہ ہو وہ صرف کتابی فلسفہ ہے جو ایک معمولی سے جرم کا انسداد بھی نہیں کر سکتا اور محدود سے محدود رقبۂ زمین میں بھی کوئی پاکیزہ اخلاقی ماحول پیدا نہیں کر سکتا۔
اس کی بہترین مثال امریکہ کی تحریک منع خمر کی ناکامی اور قانون تحریم خمر کی منسوخی ہے۔ اس تحریک اور قانون کی پشت پر دُنیا کی ایک عظیم ترین اور منظم ترین حکومت (ریاست ہاے متحدہ امریکہ)‘ بے پایاں دولت و سرمایہ‘ اعلیٰ علم و تہذیب اور لاانتہا وسائل نشروتبلیغ تھے۔ اندازہ ہے کہ شراب کے خلاف نشرواشاعت کے سلسلے میں صرف چھ سال کے اندر ساڑھے چھ کروڑ ڈالر صرف ہوئے اور وہ لٹریچر جو شائع کیا گیا وہ نو ارب صفحات پر مشتمل تھا۔ قانون کی تنفیذ کے سلسلے میں ۱۳سال کے اندر دو سو آدمی مارے گئے۔ ۵ لاکھ ۳۴ ہزار ۳ سو ۳۵ قید کیے گئے۔ ایک کروڑ ۶۰ لاکھ پونڈ کے جرمانے عائد کیے گئے۔ ۴۰ کروڑ ۴۰ لاکھ پونڈ مالیت کی املاک ضبط کی گئیں۔ لیکن ان انتہائی کوششوں کے باوجود امریکہ کی حکومت و قانون اور اس کے اصلاحی ادارے اور انجمنیں اہل ملک کو قانون کی پابندی اور شراب نوشی سے اجتناب پر آمادہ نہ کر سکیں بلکہ اس کے برعکس ان میں مے نوشی کا جنون پیدا کر دیا اور بالآخر ۱۴ برس بعد ۱۹۳۳ء میں جمہوریت کو مجبوراً اس قانون کو منسوخ اور شراب نوشی کو جائز قرار دینا پڑا (تفصیلات کے یے ملاحظہ ہو‘ کتاب تنقیحات‘ مضمون’’انسانی قانون اور الٰہی قانون‘‘)۔ (’’رسالت‘‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ شوال‘ ذی القعدہ‘ ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ‘ دسمبر ۱۹۴۱ء‘ جنوری‘ فروری‘ ۱۹۴۲ء‘ ص ۳۶)