فروری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| فروری ۲۰۰۲ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

ابلاغ عامہ کے لیے تصویر کا استعمال

سوال: دعوت دین اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں ایک بڑا چیلنج ناخواندگی ہے۔ تصویر کی حرمت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی رائے سے تو سب واقف ہیں لیکن ایک چیز مشاہدے میں آئی ہے کہ تصویری پوسٹر ابلاغ میں کہیں زیادہ موثر کردار ادا کرتا ہے اور ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ فرد کسی حد تک خود پیغام اخذ کرنے کے لائق ہو جاتا ہے۔ گویا تصویر ناخواندگی کے چیلنج کا ایک حد تک جواب ثابت ہوتی ہے۔ کشمیر فنڈ کے پوسٹر میں اعداد و شمار اور جذبہ انگیز فقرات خواندہ افراد کی ایک مخصوص تعداد کو متاثر کرتے ہیں‘ جب کہ چند تصویریں ہر مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ بچے ‘ پڑھے لکھے‘ ان پڑھ سب کو متاثر کرتی ہیں اور ابلاغ مکمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جس پوسٹر یا اسٹکر پر قاضی حسین احمد صاحب کی تصویر ہوتی ہے‘ اس سے فوراً پیغام اخذ کیا جاتا ہے یا سوالات کیے جاتے ہیں‘ جب کہ سادہ پوسٹر‘ اسٹکر اَن پڑھ نیم دلی سے وصول کرتا ہے اور عدم دل چسپی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کیا تغیر حالات سے تغیراحکام کا اصول اس معاملے میں لاگو ہو سکتا ہے؟

جواب: آپ کے سوال کا تعلق ایک بہت حساس مسئلے سے ہے۔ اس کے تین بنیادی پہلو ہیں: اولاً‘ کیا ہر قسم کی تصویر حرام کی تعریف میں آتی ہے اور خود تصویر کی تعریف کیا ہوگی؟ ثانیاً‘ اگر تصویر کسی تاریخی شخصیت کی ہو اور عریانی یا فحاشی کی تعریف میں بھی نہ آتی ہو‘ مثلاً قائداعظم کی تصویر‘ محترم مولانا سید سلیمان ندوی کی تصویر یا امیر جماعت اسلامی کی تصویر تو کیا ایسا کرنا مناسب ہے؟ ثالثاً‘ کیا تصویر کے حوالے سے فقہا کی رائے ایک مستقل اور مطلق حکم کی حیثیت رکھتی ہے اور تغیر حالت کے باوجود حکم میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوگا‘ چاہے وہ سب قباحتیں دُور کر دی جائیں جو تصویر سے وابستہ ہوں‘ اور کیا اس کا استعمال ہرشکل میں ممنوع رہے گا؟

آخری نکتے سے بات کا آغاز کرتے ہوئے ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگاکہ آج جب ٹی وی اور اخبار انسانوں کے رجحانات اور فکری زاویوں کو ایک مسلسل تصویری ثقافت سے متاثر کر رہے ہیں اور ایسی حالت میں جب تصویری ثقافت تعلیم کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے‘ کیا ہم تصویر کو مکمل طور پر نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جہاد کشمیر ہو یا چیچنیا‘ فلپائن ہو یا برما اور فلسطین کی تحریکات آزادی‘ ان مقامات پر متاثر ہونے والے بچوں‘ تباہ ہونے والے مکانات‘ مساجد اور بازار ‘اگر ہم ان کی تباہی کی صرف ایک تصویری جھلک دکھاتے ہیں تو کیا ہمارے پیغام کی شدت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ایک تحریر کو پڑھ کر ہوتی ہے‘ یا یہ تصویر بغیر الفاظ استعمال کیے دیکھنے والوں کو زیادہ واضح پیغام پہنچاتی ہے؟

نماز اور حج کی تعلیم کے لیے اگر مراسم کو محض تحریر کیا جائے تو بحث زیادہ واضح ہو گی یااشکال اور نقطوں اور خاکوں کے ذریعے اعمال کی ترتیب ایک ناخواندہ شخص کو بھی سمجھائی جاسکتی ہے۔ مدارس دینیہ کی مالی امداد کے لیے ایک خط یا سالانہ کارکردگی کی ایک رپورٹ زیادہ موثر ہو گی یا مدرسے کی نصف تعمیر شدہ عمارت اور کلاس روم میں تربیت کے لیے ساتھ بیٹھے ہوئے طلبہ کی تصویر یا مدرسے کے کتب خانے کی تصویر طبع کرنے سے بات مستند ہوگی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا مثالوں میں کیا شریعت کے کسی بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کیا تصاویر کا استعمال صرف اشاعت ہی کے لیے ہوتا ہے؟

دوسرے پہلو کے حوالے سے‘ اس سے قطع نظر کہ تصویر مولانا شبلی نعمانی ‘ سید سلیمان ندوی یا شیخ الازہر کی ہے یا حنبلی فقہ کی پیروکار سعودی مملکت کے سربراہ کی‘ اگر تصویر کی حیثیت محض ایک تاریخی دستاویز کی ہے اور اس کا وہ استعمال نہیں ہے جس سے عزت و پرستش کا اظہار ہو‘ تو کیا اس حدیث کی روشنی میں جس میں سیدہ عائشہؓ نے پردے کو چاک کر کے تکیہ‘ غلاف یا پایدان بنا دیا تھا‘ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب تک اس کے مقام احترام و پرستش پر پہنچنے کا امکان نہ ہو‘ اس کا استعمال کیا جا سکتاہے؟

اسی طرح اگر تصویر ایسی ہے جس میں نہ کوئی جان دار ہے نہ وہ مصوری کا کارنامہ ہے اور نہ مصور کو یہ گمان ہے وہ خالق کائنات (المصور) کے مقابلے پر اپنے کمالِ فن کا دعویٰ کر رہا ہے‘ مثلاً گلاب کے پھول کی تصویر‘ طلوع یا غروب آفتاب کا منظر‘ یا فضا میں بلند ہوتے ہوئے شاہین کی پرواز کی تصویر اور ان سب کا مقصد دیکھنے والے کو اللہ سبحانہ کی قدرت‘ قوت تخلیق ‘ ربوبیت اور حاکمیت سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں فرد کو اس کی ذمہ داریوں کی ادایگی پر اُبھارنا ہو‘ تو کیا اس تعلیمی اور دعوتی ابلاغی عمل کو تصویر کے منفی تصور کی بنا پر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟

آپ کے ایک سوال نے یہ بہت سے سوالات اُٹھائے ہیں۔ ہمیں ان تمام احادیث کی روشنی میں جن پر محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن جلد چہارم‘ صفحہ ۱۸۰ تا ۱۸۹ سورہ سبا کی ایک آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے گفتگو فرمائی ہے‘ غور کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کیا تصویر کی تعریف میں صرف وہ شبیہ شامل ہے جو رنگ اور برش سے ایک مصور بناتا ہے‘ یافوٹوکیمرے سے جو شبیہ بنائی جاتی ہے‘ یا وڈیو پر جو تصویر نظر آتی ہے وہ بھی اس میں شامل ہوگی۔ اس آخری قسم کے بارے میں ہمیں جو معلومات ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ وڈیو کیمرے کے ذریعے وڈیو فلم پر نہ کوئی شبیہ بن سکتی ہے نہ خاکہ‘ نہ نقشہ‘ بلکہ صرف چند سگنل ریکارڈ ہوتے ہیں جو وڈیو ریکارڈر پر ایک کہربائی نظام کے ذریعے ایک ٹیوب کی مدد سے شبیہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہوتا‘ نہ ان کا کوئی سایہ بنتا ہے۔ ہماری معروف فقہی کتب میں جو تعریف تصویر کی پائی جاتی ہے وڈیو پر نظر آنے والی شبیہ پر وہ تعریف چسپاں نہیں ہوتی۔ انھی مسائل اور تغیرحالت کے اصول کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ۸۵-۱۹۸۴ء میں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کی طرف سے ملک کے جید علما بشمول شیخ الحدیث مولانا مالک کاندھلوی مرحوم‘ جناب مفتی محمد حسین نعیمی مرحوم‘ مولانا صدر الدین رفاعی مرحوم‘ مولانا اسرار الحق مرحوم‘ مولانا سیاح الدین کاکاخیل مرحوم‘ مولانا سمیع الحق ‘ مولانا عبداللہ خلجی‘ جناب محمد رضی مجتہد مرحوم کے سامنے جب دورِ جدید میں دعوت دین کے لیے سمعی و بصری ذرائع کے استعمال پر مشاورت کی گئی تو ان جید علما نے تعلیمی اور دعوتی غرض سے وڈیو پروگراموں کی تیاری کی تجویز کو منظور فرمایا۔

میری ناقص رائے میں اگر وڈیو یا تصویر کا ابلاغی استعمال شخصیت پرستی کی تعلیم نہ دے رہا ہو اور دین کی تعلیمات کو زیادہ موثرانداز میں سمجھانے میں مددگار ہو تو مثبت طور پر اسے شیطان کی ثقافت کو ردّ کرنے‘ فحاشی و عریانیت کی جگہ اخلاق‘ عصمت و عفت کا درس دینے کے لیے اس کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ شیطان ۲۴ گھنٹے لہوالحدیث کے ذریعے ذہنوں کو مسموم کر رہا ہے اور افراد کی ایک اچھی تعداد ہے جو اسے ناپسند کرنے کے باوجود کسی مثبت متبادل کی عدم موجودگی میں اس شر اور ضلالت کو دیکھنے پر مجبور ہوتی ہے۔ برائی کا خاتمہ جب تک حسنات سے نہ کیا جائے‘ برائی دُور نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی ضابطے کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھنا ہوگا اورابلاغی صنعت سے شیطان کے اثرات کودُور کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو دستاویزی پروگراموں‘ معلوماتی مقابلوں‘ تعمیری کہانیوں اور تمثیلات اور شعری ذرائع سے پیش کرنا ہوگا۔

مصر کی تحریک اسلامی کے بانی امام حسن البنا شہیدؒ نے ابلاغ عامہ کی اس جدید ضرورت کے پیش نظر باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا تھا جس نے مصر کے مختلف مقامات پر تاریخی تمثیلات اور ڈرامے پیش کیے اور  اس طرح ایک صحت مند اسلامی تفریح کے ذریعے دعوت کو ان حلقوں تک پہنچایا جہاں شاید سنجیدہ تحریر موثر  نہ ہوتی۔

آج ‘جب کہ انٹرنیٹ اور مواصلاتی سیارچوں کا دَور ہے اور لامحدود معلومات کا سیلاب جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر دُنیا کے ہر خطے میں گھس گیا ہے‘ اگر ابلاغ عامہ کے مروجہ ذرائع کو دعوت اسلامی کے لیے استعمال نہ کیا گیا تو ہم اپنے پیغام اور دعوت کا حق صحیح طور پر ادا نہ کر سکیں گے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

ملک سے نقل مکانی

س: ملکی حالات سے مایوس ہو کر ہماری نوجوان نسل ملک سے نقل مکانی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ:

۱- کیا امریکہ اور مغربی ممالک دارالکفر کی تعریف میں آتے ہیں؟

۲- اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ان ممالک کی طرف ہجرت دینی نقطہء نظر سے کیسا فعل ہے؟

۳- اپنے اور اپنی اولاد کے دین و ایمان کو بچانے کی خاطر ان ممالک کی طرف ہجرت کی جائے تو کیسا ہے؟ کیوں کہ وہاں کم از کم آپ کو اپنے حقوق تو بغیر کسی رشوت اور سفارش کے مل جاتے ہیں‘ جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے؟

۴- جب حالات گھمبیر ہو جائیں تو ہجرت سنت نبویؐ ہے۔ کیا مذکورہ حالات میں ہجرت ضروری ہے؟

ج: آپ نے اپنے سوال میں ایک بہت اہم زمینی حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ بلاشبہ نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے مسلم ممالک میں ناہموار حالات کے نتیجے میں بہت سے نوجوان اور پیشہ ور افراد نقل مکانی کر کے یورپ و امریکہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا اسے دارالکفر کی طرف ہجرت کہا جائے گا؟ دارالکفرسے مراد وہ جگہ ہے جہاں کفر کا نظام کارفرما ہو اور اہل اسلام کے لیے اپنے اصولوں پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ چنانچہ سورۃ النساء آیت ۹۷ میں ان اہل ایمان کا ذکر کیا گیا جو نظام کفر میں مستضعفین فی الارض بنا دیے گئے۔ ایسے افراد سے موت کے وقت فرشتہ یہ سوال کرتا ہے کہ اگر تم اس زمین میں بے بس بنا دیے گئے تھے تو کیا جہاں اللہ کی زمین پائی جاتی ہے وہ تمھارے لیے تنگ ہو گئی تھی؟کیا کہیں ہجرت کر کے کسی ایسے مقام پر نہیں جا سکتے تھے جہاں دین پر عمل کر سکو؟ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی؟ گویا دارالکفرمیں دب کر‘ مفلوج اور بے بس ہو کر رہنا اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ان پر ہجرت فرض ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نام نہاد مسلم ملک میں دستور تو یہ کہتا ہے کہ وہ اسلامی ملک ہے لیکن برسراقتدار طبقہ اور نظام حکومت جاہلی ہو‘ جب کہ ویسا ہی جاہلی نظام کسی غیرمسلم ملک میں بھی ہو لیکن غیر مسلم ملک میں دعوت اسلامی کے امکانات زیادہ روشن ہوں‘ تقریر و تحریر اور اجتماع کی پوری آزادی ہو‘ لباس‘ طعام اور بودوباش پر کوئی پابندی نہ ہو‘ جب کہ خود نام نہاد مسلم ملک میں اسلام دوست اور تحریکات اسلامی سے وابستہ افراد پر زمین تنگ کر دی گئی ہو‘ تو ہر عقل و شعور رکھنے والا شخص اس بات پر غور کرے گا کہ کیوں نہ زیادہ آزاد فضا میں سانس لے کر دین کی دعوت کودُنیا میں پھیلائے۔

دارالکفرمیں قیام کے سلسلے میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہاں پر اسلام کی دعوت پیش کرنے اور آخرکار اسلام کے غالب آنے کے امکانات ہوں تو وہاں پر قیام حرام نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس کا امکان نہ ہو تو وہاں کا قیام ایک قسم کی معصیت شمار ہوگی۔ اگر ایک نام نہاد مسلم ملک میں کوئی کام بغیر رشوت اور سفارش کے نہ ہو رہا ہو‘ اس کے اخبارات مسلسل عریانی کو فروغ دے رہے ہوں لیکن نام کی حد تک وہ ملک مسلمان ہو تو کیا محض نام کافی ہوگا؟ اگر اس نام نہاد مسلم ملک میں اصلاح اور اسلام کے غالب آنے کے امکانات ایک دارالکفر سے زیادہ ہوں تو عقل کا فیصلہ اس نام نہاد مسلم ملک میںقیام کے حق میں ہوگا۔ مکہ میں اشاعت اسلام کے وقت شرک اور کفر کا غلبہ تھا لیکن ۱۳ سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پر اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں رہے۔ جب وہاں دعوت اسلامی کے لیے مشکلات ناقابل برداشت ہوگئیں تو مدینہ ہجرت فرمائی جو پہلے سے دارالاسلام نہیں تھا۔ آپؐ کے وہاں ہجرت فرمانے کی وجہ سے وہ  شہر مدینۃ النبیؐ بنا۔ مکہ کے دور ابتلا میں صحابہ کرامؓ کی جماعتوں نے حبشہ ہجرت کی جہاں پر اسلامی حکومت نہ تھی لیکن فرماں روا عادل تھا‘ گو اس کے درباری بڑی حد تک مشرک تھے۔ ان تاریخی حقائق کے پیش نظر اپنی تمام مسلم دشمنی کے باوجودہم امریکہ اور یورپ کو دارالحرب قرار نہیں دے سکتے۔ ہر دو خطوں میں حالیہ نفرت کی لہر کے باوجود سیکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ کیا بعید کہ آج ہم جن ممالک کو دارالکفر قرار دیتے ہیں کل وہی اسلام کی نشات ثانیہ کا مرکز بن جائیں‘ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جو ڈاکٹر‘ انجینیر‘اساتذہ اور دیگر کارکن وہاں مقیم ہیں وہ دعوت دین کے فریضے کو کتنی ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اگر ان کے یورپ اور امریکہ جانے کا مقصد محض دُنیا کا حصول ہے‘ جیسا کہ ایک حدیث کے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ہجرت ایک خاتون سے شادی کے لیے ہوتی ہے اور کسی کی صرف اللہ کے لیے اور پھر یہ فرمایا کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے‘ تو اگر ایک ڈاکٹر اس نیت سے ہجرت کرتا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی صلاحیت کا استعمال کرے گا‘ ساتھ ہی ڈاکٹری یا کسی بھی پیشے کے ذریعے دولت بھی کماتا ہے‘ تواس پر ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔

یہ خیال رہے کہ دعوت دین کے حوالے سے اس کا اپنا گھر‘ بیوی اور بچے بھی دعوت کے اوّلین مخاطبین ہیں اور وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ جس وقت تک ایک مقام پر دعوت دین پیش کرنے کی آزادی اور خود عمل کرنے پر کوئی بندش یا مزاحمت نہ ہو‘ اس وقت تک وہاں سے ہجرت نہ کرنا افضل ہے۔ لیکن اگر پابندیاں اتنی بڑھ جائیں کہ دین کا تحفظ ایک مسئلہ بن جائے تو ہجرت کرنا سنت ہے۔ البتہ ایسے تمام مواقع پر معروضی طور پر جائزہ لینے اور اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔(ا-ا)