۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورت حال کے سب سے زیادہ فوائد شاید صہیونی ریاست نے سمیٹے ہیں۔ ایک طرف تو اس نے اور اس کے زیراثر عالمی ابلاغیاتی اداروں نے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے مترادف قرار دے دیا‘ اور دوسری طرف دنیا کی ساری توجہ افغانستان پر مرکوز دیکھ کر نہتے فلسطینی عوام کے خلاف ایک مکمل جنگ مسلط کر دی جس میں ایف ۱۶ طیاروں اور امریکی ہیلی کاپٹروں ’’اباچی‘‘ سے لے کر اپنے سفاک توپ خانے‘ ٹینکوں اور میزائلوں تک ہر نوع کا اسلحہ استعمال کیا۔ دُنیا میں کہیں اس ظلم و دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھی۔ جنگی جرائم سے بھرپور تاریخ رکھنے والے صہیونی وزیراعظم آرییل شارون نے برسرِاقتدار آتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ’’ایک ماہ کے اندر اندر تحریک انتفاضہ کو اس کے انجام تک پہنچا دوں گا‘‘، اس نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ۱۱ ستمبر کے بعد وہ خون کے مزید دریا بہا رہا ہے لیکن جہاد…؟ جہاد مزید توانا ہے!
حالیہ تحریک انتفاضہ کا آغاز ۳ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس وقت ہوا تھا جب آرییل شارون اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے مسجد اقصیٰ میں جا گھسا تھا اوراعلان کیا تھا کہ یہ سب اسرائیل کا حصہ ہے اور مجھے یہاں آنے کے لیے کسی کی اجازت درکار ہے نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے۔ گذشتہ ۵۳ برس سے قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والے فلسطینی عوام نے اس کی اس دریدہ دہنی کاایسا عدیم المثال جواب دیا کہ خود یہودی بھی شارون کے اس اقدام کو حماقت قرار دینے لگے۔
تقریباً ڈیڑھ برس سے جاری حالیہ تحریک نے ہزاروں شہدا پیش کیے ہیں۔ ۱۱ ستمبرسے لے کر اب تک تقریباً چار ماہ کے عرصے میں ۸۰۰ سے زائد شہدا اور ۳۵ ہزار سے زائد زخمی‘ صہیونی سفاکیت و درندگی کا شکار ہو چکے ہیں لیکن دہشت گردی اور مجرم پھر بھی فلسطینی اور مسلمان ہی قرار پاتے ہیں۔ذرا ملاحظہ فرمایئے جیسے ہی محکوم عوام یا کوئی فدائی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ امریکہ سے کیا بیانات آتے ہیں:
صدر بش: ’’یاسر عرفات دہشت گردی ختم کرنے کے لیے صرف بیانات نہ دیں‘ عملی اقدام کریں۔ حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف موثر کارروائیاں کرنا ہوں گی‘‘۔ وزیر خارجہ کولن پاول یاسر عرفات سے فون پر بات کرتے ہوئے: ’’فلسطینی کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کریں‘‘۔ پھر بیان دیتے ہوئے کہا: ’’یاسر عرفات اگر ان کارروائیوں کے ذمہ داران کے خلاف فوری اور بھرپور اقدامات نہیں کرتے تو ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے گا‘‘۔ ایک اور بیان میں انھوں نے کہا: ’’اسرائیل اپنا دفاع کرنے کے لیے ہر مناسب اقدام کرنے کا حق رکھتا ہے‘‘۔ امریکی نائب صدر: ’’فلسطینی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں اسرائیل کا حق ہے‘‘۔ امریکی خصوصی نمایندہ انتھونی زینی: ’’یاسر عرفات بلاتاخیر اور بلارد و کد حرکت میں آئیں‘‘
اس ہلاشیری اور عالمی سرپرستی سے تقویت پا کر صہیونی افواج مزید ظلم ڈھاتی ہیں اور یاسر عرفات بھی اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے مزید مجاہدین کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ شیخ احمد یاسین کو نظربند کر دیا گیا ہے اور کئی فلسطینی مجاہد لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مغربی کنارے میں عرفات کی طرف سے سیکورٹی کے انچارج جبریل رجوب فرماتے ہیں: ’’فلسطینی اتھارٹی ان سیاسی عناصر کو کچلنے میں کوئی نرمی نہیں برتے گی جو ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہوئے ازخود کارروائیاں کریں گے۔ یہاں صرف ہماری اتھارٹی ہے‘ ہماری پولیس ہے اور ہماری ہی بندوق ہے۔ کسی دوسرے کے لیے اجتہاد یا تاویل کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے فدائی کارروائیاں نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور ہم اس وعدے کو پورا کریں گے‘‘۔ ادھر غزہ کے سیکورٹی انچارج محمد دحلان نے اعلان کیا: ’’ہم جنگ بندی کو یقینی بنائیں گے اور اسرائیل کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا خاتمہ کر کے رہیں گے۔ یہاں فلسطینی اتھارٹی ہی اصل اتھارٹی ہے‘‘۔
صہیونی افواج نے امریکی دبائو کے ذریعے ایک طرف تو خود عرفات انتظامیہ کو فلسطینی عوام کے مقابل لاکھڑا کیا‘ مجاہدین اور ان کی قیادت کو گرفتار کروا دیا‘ لیکن دوسری طرف یہ کہہ کر یہ اقدامات ناکافی ہیں‘عرفات انتظامیہ سمیت پوری فلسطینی قوم کے خلاف ظلم کی انتہا کر دی۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے کئی مراکز تباہ کر دیے اور ایک روز پوری دُنیا کے سامنے غزہ کا ایئرپورٹ کھود کر رکھ دیا گیا۔
اس ساری صورت حال کے مقابل تحریک جہاد کا موقف ہے کہ ہم ’’امن مذاکرات‘‘ کے نام پر بھی لاتعداد سرابوں کے پیچھے دوڑ چکے ہیں‘ عرب ممالک کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت اور کسی درمیانی راہ کی تلاش میں بھی بہت بھٹک چکے ہیں‘ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی باندیوں کے ذریعے بھی کئی کوششیں کر چکے ہیں اور آخرکار ایک ہی نتیجے تک پہنچے ہیں کہ قابض صہیونی افواج کے مقابلے میں صرف اور صرف جہاد کا راستہ ہی کھلا رہے‘ باقی تمام راستے ہماری نہیں صہیونی انتظامیہ کی منزل تک پہنچتے ہیں۔
حماس کے رہنما خالد المشعل کا کہنا ہے کہ ’’حماس نے مزید ۲۰ سال کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے۔ہم شہدا کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور آخرکار اللہ کی نصرت کے حق دار ٹھہریں گے۔ دشمن اتنا نقصان برداشت نہیں کر سکتا جتنا ہم کر سکتے ہیں کیونکہ دشمن اللہ سے وہ کچھ نہیں چاہتا جو ہم چاہتے ہیں‘‘۔ انھوں نے مزید کہا: ’’بعض لوگ امن کے نام پر بھول بھلیوں میں پھنستے رہیں گے‘ تحریک مزاحمت کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں گی لیکن ہم ان شاء اللہ ان تمام مراحل سے سرخرو ہو کر نکلیں گے‘‘۔
۸ اور ۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو بیروت میں علما کی ایک کانفرنس ہوئی۔ پاکستان سے مولانا عبدالمالک اور ضیا الرحمن فاروقی صاحب اس میں شریک ہوئے۔ دُنیا بھر سے ۱۳۰ علما تشریف لائے۔ اس کے اختتامی اعلامیے میں بھی یہ بات پوری وضاحت سے کہی گئی کہ صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے جہاد تب تک جاری رہے گا جب تک قبلہ اول کی سرزمین آزاد نہیں ہو جاتی۔ اس اعلامیے کا ایک نکتہ یہ ہے: ’’فلسطینی عوام کی مددو سرپرستی اور ان کا دفاع تمام مسلم اُمت پر فرض ہے‘ حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی‘‘۔
واضح رہے کہ حکومت لبنان پر بھی صہیونی انتظامیہ اور امریکہ کا مسلسل دبائو ہے کہ وہ دو جہادی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے اور ان کی کارروائیاں ختم کروائے‘ لیکن لبنان نے اپنی تمام تر سیکولر شناخت کے باوجود یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
حماس نے اپنی اس پالیسی کا بھی بارہا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنا دشمن صرف صہیونی انتظامیہ کو قرار دیتے ہیں۔ یاسر عرفات کے تمام تر مخالفانہ اقدامات کے باوجود ہم اپنی توجہ صرف اپنے اصل دشمن پر ہی مرکوز رکھیں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کا اثر خود دشمن نے بھی تسلیم کیا ہے۔ خود شارون نے اپنی ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ: ’’ہم گھمبیراقتصادی بحران سے دوچار ہورہے ہیں‘ خزانہ خالی ہو رہا ہے (تمام تر امریکی سرپرستی اور امداد کے باوجود)‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور آبادکاری کا عمل سست پڑ رہا ہے۔ خاصی تعداد میں یہودی ملک سے نکل بھی رہے ہیں‘‘۔
ایک پہلو خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل بھارت تعلقات پہلے بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے‘ لیکن گذشتہ چند ماہ میں ان کا باہمی تعاون بہت بڑھ گیا ہے۔ اس وقت خود صہیونی فوجی ذرائع کے مطابق بھارت کو اسلحہ دینے والوں میں اسرائیل‘ روس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور عنقریب پہلے نمبر پر آسکتا ہے‘ جب کہ بھارت اس وقت اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ دونوں کی باہمی تجارت جو ۱۹۹۲ء میں چند ملین ڈالر تھی ۲۰۰۰ء میں ۶۰۰ ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں امریکہ اور ترکی کے بعد بھارت تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں پانچ اسرائیلی وفود بھارت آچکے ہیں۔ پہلے تین وفود علانیہ طور پر چوتھا وفد سیکورٹی معاملات پر خفیہ مذاکرات کے لیے اور پانچواں وفد صہیونی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی سربراہی میں۔ چار جاسوسی فیلکن جہاز خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر کے حالیہ معاہدے سے پہلے بھی متعدد عسکری معاہدے ہو چکے ہیں۔ صہیونی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ’’دونوں ممالک کو ایک جیسے خطرات درپیش ہیں‘ دونوں ملکوں میں بڑی مسلمان کمیونٹی رہتی ہے اور دونوں ممالک کے خلاف بیرونی دہشت گردی ہو رہی ہے‘‘۔
اس بھارتی صہیونی گٹھ جوڑ کے مقابلے کی صرف اور صرف ایک صورت ہے کہ مسلم ممالک بھی خطرے کو بھانپتے ہوئے متحد ہوں۔ مسلم حکومتیں ااپنے ہی عوام کے خلاف (دشمن کو خوش کرنے کے زعم میں) کارروائیاں نہ کریں بلکہ عوام کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار بنیں وگرنہ خاکم بدہن عوام تو آزمایش میں آئیں گے ہی‘ حکمران بھی ’’ٹشوپیپر‘‘ سے زیادہ مقام نہ پائیں گے کہ استعمال ہوا اور پھینک دیا گیا۔ رہے دشمن کے مطالبات تو وہ تو کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ ذرا ملاحظہ ہو القدس پر قابض یہودیوں کا نیا مطالبہ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ سمیت تمام مساجد سے لائوڈ اسپیکر پر اذان بند کی جائے کہ اس سے ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے‘ خاص طور پرفجر کے وقت۔
دنیا بھر میں ان کے مطالبات میں اشتراک و مماثلت بھی حیرت انگیز ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندی لگائو‘ سرحد پار دہشت گردی بند کرو‘ لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگائو‘ جہاد اور بنی اسرائیل سے متعلقہ قرآنی آیات کی تعلیم ختم کرو‘ یہ سارے کام خود مسلمان حکمران انجام دیں… فاعتبروا یااولی الابصار!
ربّ ذوالجلال نے سچ فرمایا: یہ یہود اور مشرکین تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے دین کی پیروی نہیں کرنے لگ جاتے۔