ترجمان القرآن (جنوری ۲۰۰۲ء) کے اشارات نہایت فکرانگیز‘ وقت کی آواز اور مستقبل کا بہترین لائحہ عمل تھے۔ مولانا مودودیؒ کی یاد تازہ ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد جہاں دُنیا معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی اور سماجی اعتبار سے تہ و بالا ہوئی وہیں فکری اعتبار سے بھی حیرت زدگی (astonishment)‘درماندگی اور بے چارگی کا شکار ہوئی۔ بالخصوص مسلم دُنیا اور اس میں برپا اسلامی تحریکوں کے لیے بالکل ایک نیا چیلنج سامنے آیا اور یہ حقیقت مبرہن ہوئی کہ محض ذہنی و فکری انقلاب اور دلیل و برہان کی طاقت پیش پا افتادہ زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ عسکری و تکنیکی قوت کی برتری ازبس ضروری ہے۔ لیکن کیا مسلم دنیا اگلے ایک سو سال میں بھی (یک قطبی دنیا) یورپ و امریکہ کے مقابلے کی عسکری و تکنیکی قوت فراہم کر سکے گی؟ موجودہ صورت حال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ بڑھتی ہوئی حرص اور مفادات کی جنگ نے مسلم دُنیا کو ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا ہے۔ ’’اُمت‘‘ ہونے کا تصور عنقا ہو گیا ہے۔ عرب و عجم کی تقسیم اس پر مستزاد ہے۔ مسلم ممالک نفسانفسی کا شکار ہیں۔ اس صورت حال میں ہمیں ایک تازہ فکر اور نئی اسٹرے ٹیجی ’’حکمت عملی‘‘ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ترجمان القرآن کے تازہ اشارات نے اس سلسلے میں کافی رہنمائی کی ہے۔
دراصل ہمیں مغرب کو اپنا حریف سمجھنے کے بجائے دعوت کے ذریعے اسے اپنا حلیف بنانے کی فکر کرنا چاہیے۔ دعوت کے لیے میدان نہایت سازگار ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جہاں بہت سے ناخوش گوار واقعات سامنے آئے‘ وہیں اس تصویر کے دوسرے رُخ کے بہت سے مثبت پہلو ہیں جو ہماری توجہ کے طالب ہیں۔ میرے حالیہ سفر امریکہ کا مشاہدہ ہے کہ میڈیا کی تمام تر نفرت انگیز مہم کے باوجود‘ عام امریکیوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے ایک نئی تڑپ پیدا ہوئی ہے۔ وہاں کے ذمہ دار مسلمانوں نے سوسائٹی کے اس رجحان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامک سنٹروں میں ’’اسلام کے کھلے گھروں‘‘ Open Houses of Islamکے نام سے دعوہ مہم شروع کی جو نہایت کامیاب ہوئی۔ کنساس کے ایک چھوٹے سے شہر میں اس ’’دعوہ ہائوس‘‘ کو دو دنوں میں ۶ ہزار امریکیوں نے دیکھا۔ اسلام پر تمام لٹریچر فروخت ہو گیا۔ ڈلاس میں ایک ایک امریکی کو قرآن کی باترجمہ کاپی کے حصول کے لیے دو دو گھنٹے لائن میں لگنا پڑا۔ چنانچہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرآن حکیم کی مانگ اتنی زیادہ ہوئی جسے پورا کرنا مشکل ہو گیا۔ میری رائے میں جس دن امریکیوں پر صہیونی میڈیا کا دجل و فریب کھل گیا ان شاء اللہ امریکہ میں قبولیت اسلام کی رفتار یدخلون فی دین اللّٰہ افواجاً کا منظر پیش کرے گی۔
اس سلسلے میں جان واکر (امریکی طالبان کا ایک فرد) کے والد کے انٹرویو ‘ جو میں نے خود سنا‘ کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کا بیٹا طالبان کا ساتھ دے کر اپنی حکومت سے غداری کا مرتکب کیوں ہوا؟ والد کا جواب تھا کہ میرا بیٹا مئی میں طالبان کا ساتھ دینے افغانستان گیا تھا‘ جب کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ۱۱ ستمبر کو پیش آیا۔ لہٰذا وہ کسی قسم کی غداری کا مرتکب نہیں ہوا۔ سوال کیا گیا کہ اس نے اپنا عقیدہ چھوڑ کر اسلام کیوں اختیار کیا؟ جواب تھا کہ ’’دراصل میرا بیٹانہایت شریف اور ذہین آدمی ہے۔ لہٰذا اسلام جو امن کا دین ہے وہ اس کی ذہنی تشنگیوں کا سامان (intellectual thirst) اور فکری اُلجھنوں کا مداوا ثابت ہوا۔ لہٰذا اس نے یہ دین قبول کرلیا‘‘۔ اس پر وہ انٹرویو کاٹ دیا گیا اور منظر بدل گیا۔
گذشتہ سال مجھے ایک امریکی نومسلم سفید فام خاتون کا جنازہ پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ تدفین کے وقت اس کی پوری فیملی مسلم قبرستان میں حاضر تھی۔ اس کے خاندان کے ایک فرد نے پوچھا کہ آپ لوگوں کے عقیدے کی تفصیلات کیا ہیں؟ میں اس بارے میں جاننا چاہتا ہوں کیونکہ میری بہن ایک طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا تھی اور چھ ماہ قبل جب اس نے اسلام قبول کیا تو وہ بیماری کے باوجود اتنی پرُسکون ہو گئی کہ میں نے پوری زندگی اسے کبھی اتنا پرُسکون نہیں دیکھا۔ چنانچہ انھیں اسلام پر کچھ ضروری لٹریچر اور تعارف فراہم کر دیا گیا۔ غرض یہ کہ اس خطے میں اللہ تعالیٰ پے درپے اپنی نشانیاں دکھا رہا ہے۔ الحمدللہ! وقل الحمدللّٰہ‘ سیریکم آیاتہ فتعرفونھا‘ اور الحمدللہ کہتے رہیے۔اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی نشانیوں کی معرفت عطا کرتا رہے گا‘‘۔ دین اسلام کسی خطہ‘ جغرافیہ اور قوم کا محتاج نہیں ہے ؎
ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
’’اشارات‘‘ میں اہم معاملات پر جس طرح لکھا جا رہا ہے حقیقی صورت حال سامنے آ رہی ہے۔ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘۔ کچھ توجہ طلب امور درج کر رہا ہوں: ۱- مضمون ’’تصورِتوحید‘‘ (جنوری ۲۰۰۲ء) کے ترجمے میں مشکل الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے عام قاری کے لیے بہت مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ۲- ’’بچوں کو فقہ‘‘ کے حوالے سے تعلیم دینے اور مخصوص مسائل (حیض‘ نفاس و طہارت) پڑھانے کے لیے جو جواب دیا گیا ہے (جنوری ۲۰۰۲ء) ‘مناسب ہے۔ البتہ اس میں یہ اضافہ کر دیا جائے کہ ماں کو بیٹیوںکو اور باپ کو بیٹوں کو مسائل سکھانے چاہییں اور اسی طرح معلمین و معلمات کو طلبہ و طالبات کے لیے مواقع فراہم کرنے چاہییں۔ یہ ایک مناسب رابطہ ہے۔ اَن پڑھ والدین بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔
اشارات: ’’نیا استعمار: پس چہ باید کرد‘‘ (جنوری ۲۰۰۲ء) یقینا بہت پرُمغز‘ تحریک اسلامی کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے والے‘ اور حکومتی ذمہ داران کو مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی و لائحہ عمل کے لیے اہم نکات کی طرف متوجہ کرنے والے ہیں۔ کاش! ہمارے ذمہ داران اس پر کھلے دل سے توجہ دیں اور ان کی روشنی میں اپنے لیے خطوطِ کار متعین کریں۔ قاضی حسین احمد کا جہاد سے متعلق مضمون سب کے لیے اور خصوصاً نوجوانوں کے لیے اہم ہدایات کا حامل ہے۔
اشارات (جنوری ۲۰۰۲ء) ہمیشہ کی طرح فکرانگیز ہیں۔ حالات کا تجزیہ جس ایمانی بصیرت اور معلومات کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ اس میں مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین!
’’مغربی میڈیا اور مسلم دُنیا‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) بہت اچھا مضمون اور برموقع ہے۔ فی زمانہ پروپیگنڈا قوموں اور ملکوں کی فتح اور شکست میں بڑا بنیادی کردا ادا کرتا ہے۔ مسلمان حکمرانوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اُمت مسلمہ اور صاحب خیر افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر جدید ذرائع ابلاغ کا موثر نظام قائم کرنے کی ترجیحاً کوشش کریں۔ پروپیگنڈے کا مقابلہ پروپیگنڈا سے‘ اسلحے کا مقابلہ اسلحہ سے‘ اور باطل کی ہمت کا ایمان سے مقابلہ کیا جائے۔
افغانستان کی صورت حال کو دیکھ کر بھی اُمت نے قدم نہ اٹھایا تو پھر اس کی تباہی اور بربادی یقینی ہے۔ کسی طاقت سے باطل شر کاکام لے رہا ہے تو اسی طاقت سے خیر کا کام لینا انتہائی ضروری ہے۔ آنکھیں بند کر لینے سے چوہے بلی کی دبوچ سے نہیں بچ سکتے۔ آج کا دور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے۔ اقوام متحدہ امریکہ کا دوسرا نام ہے۔اب ’’مسلم اقوام متحدہ‘‘ کے قیام کی بھی ضرورت ہے۔
’’فلم سازی کے اسلامی ادارے کی ضرورت‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں عقل کی تشکیل و رہنمائی کے لیے فلم کے موثرترین ذریعہ ہونے کی وجہ سے فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام کی اہمیت پر تو بہت زور دیا گیا ہے لیکن اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی کہ فلم (خواہ اخلاقی لحاظ سے اچھی ہو یا بری) اپنے تمام مراحل میں جس عمل (process) سے گزر کر تکمیل پاتی ہے‘ اس پر اسلامی نقطہ نظر سے کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ تو مبرہن ہے کہ نقالی یااداکاری کے بغیر فلم بن ہی نہیں سکتی اور دین اسلام میں نقالی کا کوئی جواز نہیں۔ یہ فن انسانی خودی کی تربیت کے لیے بہت مضرت رساں ہے۔ کیونکہ نقالی میں کمال اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ایکٹر اپنی خودی سے بیگانہ ہو جائے۔
واضح رہے کہ میرا اعتراض دستاویزی فلم پر نہیں کیونکہ ایسی فلم نقالی کی آلایش سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی معاشرت کی ایک اہم قدر پردہ ہے‘ محرم اور نامحرم کی پابندی ہے۔ ڈراما یا فلم میں عورت کا کردار بھی اسی حوالے سے غور طلب اور بنیادی سوال ہے۔
’’فلم سازی کے اسلامی ادارے کی ضرورت‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) کے ضمن میں مصر کا ترجیحاً ذکر کیا گیا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں اس ذریعہ ابلاغ کے حوالے سے سب کچھ فراوانی کے ساتھ موجود ہے۔ ضرورت صرف صالح نیت ‘ موقع محل اور سرمائے کی ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ سے عیش و عشرت اور نمود و نمایش کے بجائے معاشرتی بدعات کے خلاف قلمی اور فنی جہاد کیا جائے۔ کچھ بڑے لوگ پیش رفت کریں۔ ہم اپنی دینی ثقافت پر مبنی بہترین ڈرامے اورفلمیں بنا سکتے ہیں اور اپنی حقیقی ثقافت کا احیا کر سکتے ہیں۔
’’فلم سازی کے اسلامی ادارے کی ضرورت‘‘ (دسمبر ۲۰۰۱ء) یقینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں‘ ایران میں بنائی جانے والی فلموں کو ماڈل کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔