اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اُمت مسلمہ پر بے شمارانعامات میں سے ایک عظیم احسان اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت و مودت کا قائم فرمانا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اس احسان عظیم کا ذکر یوں فرمایا گیا کہ بلاشبہہ اہل ایمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ-الحجرات ۴۹:۱۰)‘ اور ان کے باہمی تعلّق کو قریب ترین قرار دیتے ہوئے ان کی پہچان یہ بتائی گئی کہ وہ آپس میں رحمت و محبت سے پیش آتے ہیں (رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ- الفتح ۴۸:۲۹)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ایک دوسرے کا دوست‘ ساتھی‘ رفیق‘ مددگار اور ہم رکاب قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَیُوْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط (التوبہ ۹:۷۱) ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے اولیا اور رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے منع کرتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔
اپنے اس انعام اور احسان کے اظہار کے ساتھ ہی یہ بات بھی فرما دی گئی کہ اخوت کا بنیادی تقاضا باہمی صلح‘ رواداری اور عدل ہے۔ چنانچہ سورہ النحل میں فرمایا: اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ عدل و احسان کو اختیار کرو اور اقربا کودو‘ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی … النحل ۱۶:۹۰)۔ اس لیے اہل ایمان پر یہ اجتماعی ذمہ داری ڈال دی گئی کہ اگر ان میں اختلاف اور تنازع ہو جائے تو صلح کرائی جائے اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی جائے۔ اس حکم کی اہمیت کے پیش نظر سورہ النحل کی یہ آیت دنیا کے ہر خطے میں خطبہ جمعہ کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر یوں فرمایا: وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا ج فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ (الحجرات ۴۹:۹) ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو‘‘۔
اسلامی اخوت کوحضور نبی کریمؐ نے ایک محکم و مضبوط عمارت سے تعبیر فرمایا ہے: المومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم ثبت من اصابعہ (بخاری‘ مسلم) ’’مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے بتایا‘‘۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ ،مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کر دیتا لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کس طرح مدد کروں۔ آپؐ نے فرمایا‘ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (بخاری ‘مسلم)
مسلمان بھائی کی خیر خواہی‘ اس کی جان‘ مال ‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق میں سے ہے گویا یہ کوئی احسان کی بات نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ حضور نبی کریمؐ کا واضح حکم ہے کہ اگر کسی بنا پر آپس میں کوئی رنجش ہو جائے تو تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے‘ خواہ زیادتی کسی کی بھی ہو۔ بحالی تعلّقات کے لیے‘ ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا: ’’ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (بخاری ‘ مسلم)
انسانیت کی تشکیل جدید کے لیے اسلام کی نگاہ میں ایک ایسی اُمت کا قیام ضروری ہے جو نہ صرف اخوت و محبت کے جذبات سے سرشار اور متحد اور یک جان ہو بلکہ اس میں وہ صفات موجود ہوں جو زندہ رہنے اور قیادت کرنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ قرآن کریم نے اہل ایمان کی مطلوبہ صفات کو بے شمارمقامات پر بیان کرنے کے ساتھ سورہ المومنون میں اختصار اور جامعیت سے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’یقینا فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے اعراض کرتے ہیں‘ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل رہتے ہیں‘ اپنے فروج کی حفاظت کرتے ہیں… اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں… یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے…‘‘ (المومنون ۲۳:۱-۱۱)
یہ وہ اجتماعی اخلاق ہیں جو انھیں مصلحین‘ صائمین‘ ذاکرین‘ ساجدین‘ راکعین‘ شاکرین‘ کاظمین الغیظ اور عباد الرحمن بننے میں مدد دیتے ہیں۔ قرآن مقام عبدیت کو اہل ایمان کے لیے سب سے اعلیٰ مقام قرار دیتے ہوئے اس صفت کی بنا پر خیر امۃ اور قائم بالقسط‘ عادل اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے تعبیر کرتا ہے۔
انسانوں کا ایک دوسرا گروہ جو ضابطہ اخلاق اور جادہ عدل کو نظرانداز کرتا ہے۔ پھر یہ گروہ صراط مستقیم اور خالق کائنات کی بندگی کو رَدّ کرتا ہے اور دوسری جانب طاغوت کو ‘ کبر و انانیت کو‘ بغاوت و سرکشی کو‘ ضد اور ہٹ دھرمی کو اختیار کرتا ہے۔ قرآن کریم انھیں ضالین‘ گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اہل ایمان کی مخالفت میں کمربستہ رہتا ہے اور انھیں کبھی قوت سے اور کبھی چالاکی‘ لالچ‘ طمع‘ حرص اور مادی فوائد کے ذریعے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ نتیجتاً اہل ایمان عظیم اخلاقی مقام پر فائز ہونے کے باوجود کبھی رنگ‘ کبھی نسل‘ کبھی زبان‘ کبھی علاقائیات و قبیلہ و برادری اور کبھی جزوی فقہی اختلافات میں پڑ کر متفرق و منتشر ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اخوت‘ رواداری اور عدل کے علم بردار اہل ایمان فرقہ پرستی‘ منافرت اور باہمی جدال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھ کر ایک مسلمان ہی نہیں ایک غیر مسلم بھی یہ سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں فرقہ واریت اور آپس کے جھگڑوں کا اصل سبب فقہی اختلافات کا پایا جانا ہے؟ کیا مسلمانوں کو ان کے مذہب نے ایسا خون آشام بنا دیا ہے کہ باہمی نفرت‘ تصادم اور خون خرابے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں؟ جب ایک عام تجزیہ نگار مسلمانوں کی صورت حال کا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ عیسائیت میں ۲۵۰ سے زیادہ علیحدہ علیحدہ چرچ اور مسلکی و فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف ایسی نفرت و دشمنی نہیں پائی جاتی‘ جیسی کچھ ملکوں اور علاقوں میں آج مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں میں پائی جاتی ہے۔
اس تاثر کو شدید بنانے میں عالمی ابلاغ عامہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے حوالے سے تشدد اور قوت کے استعمال کا ذکر اپنی سرخیوں میں نہ کرتے ہوں۔
عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کے اختلافات‘ باہمی دشمنی اور آپس کے خون خرابے اور تشدد و قوت کے استعمال کی کہانیاں جب بار بار نظروں سے گزرتی ہیں‘ تو غیر ہی نہیں اپنوں کو بھی یقین سا آجاتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اورکہا جا رہا ہے وہ سچ ہی ہوگا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صرف امریکہ کے بڑے شہروں مثلاً نیویارک‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ وغیرہ میں جرائم کی رفتار‘ جن میں قتل‘ جنسی جرائم‘ چوری اور ڈاکا ہر چیز شامل ہے‘ کسی ترقی پذیر ملک سے کم نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹائم‘ نیوزویک یا ایشیا ویک‘ نیز سی این این ہو یا بی بی سی کبھی مسافروں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ ان شہروں کا سفر اختیار کرتے وقت پہلے قریبی پولیس تھانہ سے رابطہ کریں اور اس کے بعد بازار جائیں‘ جب کہ ملتان یا کراچی میں اگر کوئی فرقہ وارانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو اسے عموم کی شکل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں پائی جانے والی کسی بھی درجے کی تفرقہ بازی زیربحث آجاتی ہے اور بین السطوریہ پیغام پہنچا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان تنگ نظری‘ تشدد پسندی اور مذہبی اور لسانی فرقہ بندی کا شکار ہیں۔ یہ بات بھی بہت شدومد سے کہی جاتی ہے کہ دینی مدارس سے فارغ علما اور ائمہ‘ اسلام سے زیادہ اپنے مسلک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی یہ انتہا پسندی مذہبی منافرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ اب تو دینی درس گاہوں کو تشدد اور لاقانونیت کی تربیت گاہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مدارس دینیہ میں بڑی حد تک مشترک نصابی کتب کے باوجود بعض اداروں میں ایک جامد اور متشدد مسلکی ذہن کیوں تعمیر ہوتا ہے؟ جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بعض روایتی رسموں کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے اورکسی دوسرے کی نظر میں ایسی تقریبات سے دل پر ایمان کی جگہ ضلالت و گمراہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید نظری گفتگوئوں سے اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا تھا‘ لیکن نوبت یہاںتک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں سے بعض ائمہ و علما نہ صرف اپنے علاوہ دوسرے فرقے اور مسلک کی تضحیک و تذلیل منبر و محراب سے کرتے ہیں‘بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے مسلک کے حاملین کے خون کو بھی حلال قرار دے ڈالتے ہیں۔ ان میں بعض شقی القلب تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مخالف فقہی مسلک کے افراد پر عین حالت قیام صلوٰۃ و قیام اللیل‘ حتیٰ کہ ماہِ رمضان میں حملہ آور ہونے کو بھی’’جہاد‘‘ سمجھتے اور ایسے افعال کو مسلکی فتح مندی کے رنگ میں پیش کرتے ہیں‘ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے۔ انھیں رحماء بینھم کا مصداق قرار دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خوارج کا خون بھی مباح قرار نہیں دیا تھا جو عملاً ریاست سے باغی ہو گئے تھے___ یہ تمام حالات اور واقعات اس بات پر غوروفکر کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کیا جائے کہ آخر ٹیڑھ کہاں ہے۔
ان ابتدائی گزارشات کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جائے کہ تفرقہ ہے کیا چیز‘کیا یہ محبوب و مقصود ہے یا مردود و مکروہ ہے۔ قرآن کریم میں فرقہ‘ تفرقہ اور تفریق کے حوالے سے تقریباً ۲۱ مقامات پر مختلف سیاق میں ذکر آیا ہے۔کہیں یہ بات فرمائی گئی کہ علم و ہدایت آنے کے بعد فرقوں میں بٹ نہ جائو (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۵) ۔کہیں اس علم کو رَدّ کیا جو شوہر اور بیوی میں فرق ڈلوا دے (البقرہ ۲:۱۰۲)۔ کہیں واضح ترین الفاظ میں یہ بات سمجھائی کہ حق سے منحرف ہونے والے بعض افراد مسجد جیسی جوڑنے والی‘ اعتصام باللہ بپا کرنے اور اخوت و احترام کرنے والی جگہ کو اہل ایمان کے درمیان ضرر و افتراق کے لیے استعمال کرتے ہیں (التوبہ ۹:۱۰۷)۔ اور اسی حوالے سے سورہ اٰل عمران میں اعتصام باللہ کے حوالے سے وہ حکم بھی آیا‘ جس کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا‘ کہ فرقوں میں نہ بٹ جائو (۳:۱۰۳)۔ سورہ الشوریٰ میں تفرقہ بندی کو ایک منفی اور سلبی عمل قرار دیتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے ذریعے تفرقہ رکھنے والی ذہنیت کو دُور کرنے کی تعلیم دی گئی۔ یہاں سے یہ اصول بھی نکلا کہ اقامت دین کرنے والی تحریکات کا ذہن فرقہ پرستی کا نہیں بلکہ دین کے حوالے سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۳) ’’قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو‘‘۔
گویا اسلام‘ تفرقہ بندی اور آپس میں تقسیم ہو کر جتھہ بندی کرنے کی مکمل طور پر مذمت و ممانعت کرتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ اسلام اختلاف رائے اور فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی میں فرق نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام‘ قرآن و حدیث پر غوروخوض کرنے کے بعد خلوص نیت سے مختلف تعبیرات اور فقہی آرا قائم کرنے کی مخالفت کبھی نہیں کرتا ‘بلکہ قرآن کریم اسے محبوب و مطلوب قرار دیتا ہے۔ وہ جہاں دین کے قیام و غلبہ کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت کا جہاد بالسیف میں مصروف ہونا ضروری قرار دیتا ہے‘ وہاں دوسری جماعت (فرقہ) پر دینی مصادر کو سمجھنے‘ فہم دین پیدا کرنے اور دین کی دعوت و تعلیم فرض کر دیتا ہے‘ تاکہ اسلام کی معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ ثقافتی تعلیمات کی وضاحت ہو اور ان تعلیمات کی روشنی میں ایک نقشۂ عمل اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ سورہ توبہ(آیت ۱۲۲) میں اسے تفقہ فی الدین کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ تقسیم بھی مطلق نہیں ہے کہ مجاہدین اورفقہا کے ہمیشہ دو الگ الگ طبقات یا گروہ ہوں‘ مجاہد اور عالم‘ دونوں اس جہاد کا حصہ ہیں۔امام ابن تیمیہؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شخصیات میں فکروفن اور سیف و جہاد کا اجتماع بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ استثنائی مثالیں نہیں ہیں۔ عصرحاضر میں جدید تحریکات اسلامی کے بہت سے رجال ان دونوں حیثیتوں کو یک جا کرنے والے افراد تھے۔ انھوں نے اجتہاد‘ مسائل اور جہاد فی سبیل اللہ دونوں کو اختیار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کام بیک وقت انجام دیے جا سکتے ہیں۔
اس اصطلاحی وضاحت کی روشنی میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے پھر تفریق و اختلاف ہے کیا؟ کیا یہ مرض اس صدی کا مرض ہے؟ کیا دین میں اس کی گنجایش ہے؟ کیا قرآن و سنت کے علاوہ کسی مسلک کا پیروکار ہونا بھی فلاح و کامیابی کے لیے ضروری ہے؟
قرآن کریم ہر مسلمان مرد اور عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کر لے کہ حلال و حرام میں فرق معلوم ہو سکے۔ حدیث شریف بھی حکم دیتی ہے کہ ’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے‘‘ اس لیے اس واضح حرام و حلال کا علم اور اس کی روشنی میں مشتبہ کو معلوم کرنے کے لیے تفقہ اختیار کرنا ہوگا۔ قرآن کریم جگہ جگہ اپنے ماننے والوں کو تفکر و تدبر و تفہیم پر اُبھارتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر معاملے میں تحقیق و جستجو کرنے کے بعد ایک موقف اختیار کیا جائے۔ ایک موقف پر مطمئن ہونے سے قبل مقدور بھر بحث و مباحثہ کر لیا جائے۔ چنانچہ مشاور ت کو فریضہ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے تمام معاملات میں مشاورت کرو اور جب قلب و ذہن ایک مقام پر مطمئن ہو کر یکسو ہو جائیں تو پھر عزم الامور کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائو۔ (اٰل عمرٰن ۳:۵۹ اورالشوریٰ ۴۲:۳۸)
کیا ہر مشورہ‘ ہر تحقیق اور ہر تعبیر لازمی طور پر اجماع کی شکل اختیار کر لے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پورے خلوص نیت‘ علمی عبور‘ اور جائزے و تجزیے کے بعد ایک سے زائد آرا و مسالک یکساں طور پر دین کے دائرے میں ہوں‘ جیسا کہ صحابہ کرامؓ کی اس جماعت کے ساتھ پیش آیا جسے نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ فلاں مقام کی طرف جائو اور وہاں پہنچ کر صلوٰۃ عصر ادا کرنا۔ صحابہؓ کی ایک جماعت نے غالباً قرآن کریم کے اس حکم کی روشنی میں کہ صلوٰۃ مومنین پر کتابا موقوتا ہے اور خود حضورؐ کے ارشاد پر کہ عصر کواوّل وقت پڑھ لیا جائے‘ عمل کرتے ہوئے راستے میں نماز پڑھی‘ اور دوسری جماعت نے اس خیال سے کہ شارع علیہ السلام اور مومنین کے سردار نے حکم دیا کہ صلوٰۃ عصرفلاں مقام پر ادا کی جائے‘ وہاں پہنچ کر نماز ادا فرمائی۔ واپسی پر جب معاملہ آپؐ کے حضور پیش کیا گیا تو آپؐ نے کسی پر گرفت نہیں فرمائی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو‘ سروں پر ہاتھ پھیرلو اور پائوں ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘ (المائدہ ۵:۶)۔ یہاں مسح کے حوالے سے ایک سے زائد تعبیرات پائی جاتی ہیں اور آج تک علما و مفسرین نے یہ اصرار نہیں کیا کہ صرف ایک تعبیر ہی درست ہے۔
ہماری اپنی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے امام و سربراہ ہونے کے باوجود شوریٰ کے اصول کو عملاً اختیار فرمایا۔ میدان بدر کے انتخاب کا فیصلہ‘ احد میں مدینہ منورہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ‘ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی تعمیر‘ صلح حدیبیہ کے موقع پر حکمت عملی طے کرنا‘ غرض بے شمار مواقع پر آپؐ نے اپنے فیصلہ کرنے کے اختیار کی جگہ شوریٰ کو اوّلیت دی۔
ابھی آپؐ کے وصال کو چند لمحات ہی گزرے تھے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان خلیفہ کے انتخاب پر اختلاف ہوا اور مختلف آرا سامنے آئیں۔ خود آپؐ کی تدفین کے حوالے سے اختلاف پیدا ہوا کہ تدفین کہاں پر عمل میں لائی جائے۔ ابھی ریاست کے معاملات طے ہو رہے تھے کہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کے لشکر کی روانگی پر اختلاف پیدا ہو گیا‘ ساتھ ہی منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے مسئلے پر صحابہؓ میں اختلاف کھڑا ہوا۔ یہ مسئلہ اٹھا کہ جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوں مگر صلوٰۃ ادا کر رہے ہوں کیا ان پر تلوار اٹھائی جائے گی؟ ابھی یہ معاملات طے ہوئے ہی تھے کہ یہ سوال پیدا ہوا کہ جن مقامات پر جہاد کیا جا رہا ہے اور مسلم افواج بغیر کسی مقابلے کے املاک پر قابض ہو جائیں تو کیا یہ بھی غنیمت کی طرح تقسیم ہوں گی یا اموال فئے کے لیے کوئی اور اصول اختیار کیا جائے گا‘ جو زمینیں اس طرح زیرنگیں آئیں گی وہ عشری ہوں گی یا خراجی۔ مختصر یہ کہ امور مملکت ہوں یا بنیادی معاشی‘ اعتقادی‘ معاشرتی و انتظامی مسائل‘ ہر نوع پر صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ اُم المومنین سیدہ عائشہؓ کھلے لفظوں میں فرماتی ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ سے فلاں معاملے میں سہو ہوا‘ اصل بات یوں ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ اور دیگر خلفاے راشدین تعزیر کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن کیا ان اہم اختلافات کے باوجود کوئی ایک مثال ایسی ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ سے اختلاف کیا ہو تو حضرت علیؓ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی بند کر دی ہو؟ یا حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ سے بول چال بند کردی ہو؟ یا ان کے ایمان و خلوص پر کوئی شک و شبہہ کیا ہو؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب حضرت عثمانؓ پر بیرونی افراد یلغار کرتے ہیں تو حضرت علیؓ بنفس نفیس ،حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو مسلح پہرہ دینے کے لیے حضرت عثمانؓ کے گھر پر مامور کرتے ہیں؟
گویا اختلاف مسلک بجائے خود نہ تو مردود ہے اور نہ نفرت و فساد پیدا کرتا ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب بھی مصنوعی طریقہ سے اُمت مسلمہ پر کسی ایک مسلک کو مسلط کرنے کا خیال پیش کیا گیا‘ اُمت مسلمہ کے خیرخواہ علما نے اس کی مخالفت کی۔ حضرت امام مالکؒکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے خلیفہ وقت کی خواہش کو رَدّ کرتے ہوئے حدود مملکت میں فقہ مالکی رائج کیے جانے کی مخالفت کی اور اس معاملے کو اُمت مسلمہ کے شعور پر چھوڑ دیا کہ وہ جس فقہی رائے کو چاہے اختیار کرے۔
دَور صحابہؓ اور بعد کے ادوار میں فقہا و علما اُمت کے اختلافات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر ان میں خلوص نیت کے ساتھ نصوص قرآن و سنت پر مبنی اختلاف کا رجحان نظر آتا ہے‘ یعنی وہ اپنی ذات‘ انا‘ یا اپنے مرشد و شیخ کی اندھی تقلید و پیروی کرتے نظر نہیں آتے۔
امام ابویوسفؒ اور امام محمد الشیبانی ؒ سے بڑھ کر امام ابوحنیفہؒ کا احترام و محبت کس کے دل میں ہوگا۔ دونوں ان کے جانشین اور شاگردانِ رشید ہیں‘ لیکن وہ بھی بہت سے معاملات میں اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہیں۔ کیا اس اختلاف کی بنیاد پر وہ توہین استادکے مرتکب قرار دیے جائیں گے؟ گویا ہماری علمی و ثقافتی روایت میں اختلاف کا نہ ہونا ایک اجنبی چیز ہے اور دلیل و برہان کی بنا پر اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں تحمل‘ رواداری‘ کشادہ دلی‘ اکرام و محبت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اختلاف خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مخالف کا خون تک بہانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ہماری نگاہ میں مسئلہ چاہے کتنا پیچیدہ نظر آتا ہو اگر خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو اس کا حل نہ صرف ممکن ہے‘ بلکہ ہمیں اسے جلد از جلد اختیار کرنا ہوگا۔ منافرت‘ مقاطعہ‘ مقاتلہ اور فساد مستحکم سے مستحکم انسانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ مسلم معاشرے میں جب بھی فروعی اختلافات کو بنیادی اہمیت دی گئی‘ اُمت مسلمہ کی ہَوا اکھڑی (اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہَوا اکھڑ جائے گی۔ انفال ۸:۴۶) اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود دشمن کے لیے تر نوالہ بن گئی۔ اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔
کیا مسئلہ بنیادی طور پر عقیدے کا ہے؟ کیا ہر مسلک کے ماننے والوں کے اللہ اور رسولؐ مختلف ہیں؟ یا سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولؐ کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہر مسلک کا کعبہ الگ ہے یا سب کا قبلہ حرم کعبہ ہی ہے؟ کیا کسی مسلک کے ماننے والے زکوٰۃ کے قائل ہیں اور کسی کے قائل نہیں؟ کیا کسی مسلک میں روزہ فرض ہے اورکسی میں نہیں؟ ان تمام اور دیگر اس جیسے سوالات پر جتنا غور کیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ بنیادی عقیدے کے لحاظ سے معروف سنی و شیعہ مسالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس بنا پر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ وہ فلاں جزوی معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں اس لیے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہی ہوگی جو مرتد یا مشرک یا کفار کے ساتھ ہوتی ہے‘ فکر ونظر کا یہ زاویہ دین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ کوئی شخص جو دین کا فہم رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آئے دن ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا رہتا ہے‘ ایک دوسرے پر تبریٰ کرتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو اس طرزعمل کے پیچھے تین بنیادی عناصر کارفرما نظر آتے ہیں:
اوّل: خود اپنے بنیادی عقیدے اور دوسرے فرقے کے عقیدے کے بارے میں معلومات کی کمی اور غیر مصدقہ معلومات پر بھروسا کرنا۔
دوم: ہر فارغ التعلیم بلکہ طالب علم کا اپنے آپ کو مقام افتا و قضا پر بٹھا دینا۔ نتیجتاً وہ ایسے بہت سے معاملات میں جن میں فیصلے کا حق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو حاصل ہے بلا کسی تردد کے اپنا فتویٰ جاری کر دیتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آخر حضور نبی کریم ؐ نے ایک جلیل القدر صحابی کو مخاطب فرماتے ہوئے یہ بات کیوں فرمائی تھی کہ کیا تم نے فلاں شخص کو قتل کرنے سے قبل اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں؟ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ دوران جہاد ایک شخص نے عین حالت جنگ میں اپنے آپ کو قتل کیے جانے سے قبل یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اور حضور نبی کریمؐ اللہ کے رسول ہیں۔ سربراہِ لشکر نے یہ سمجھا کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے اور اس کے قتل سے ہاتھ نہ روکا۔ حضور نبی کریمؐ نے ان کے اس عمل کو ناپسند فرمایا۔ لیکن ہمارا روزہ مرہ کا مشاہدہ ہے‘ ہرکس و ناکس کے بارے میں محض افواہ اور غیرمصدقہ معلومات کی بنا پر بلاکسی تکلف و تردد یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ وہ منافق ہے‘ بدعتی ہونے کے سبب ضالین میں سے ہوگیا ‘ اس لیے اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہوگیا۔
سوم: معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید اپنے بین الانسانی تعلقات کو بھی اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع کر دیا گیا ہے اور جب کسی مسلک کے ماننے والوں کا کسی لادینی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مسلکی اختلافات کو سیاسی وابستگی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے کہ ہمارے ہاں مسلکی تشدد عموماً سیاسی عناصر کے مفادات کی روشنی میں ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پاکستان میں شیعہ سنی کھچائو کی جڑیں عموماً سیاسی مفادات رکھنے والے افراد تک پہنچتی ہیں اور وہ اختلافات کو ہوا دے کر اور یا ایک دوسرے فرقہ کی پشت پناہی کر کے اپنے لیے مناسب سیاسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس طرح منافرتوں کی جو خلیج ہر تشدد کے عمل کے نتیجے میں گہری ہوتی چلی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی تو کرنی ہی ہوگی‘ خود اس دنیا میں بھی کسی وقت احتسابی عمل کے نتیجے میں انھیں اپنے کیے پر جواب دہی کرنی نہ پڑ جائے۔
دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد انسانی جان‘ خون اور رشتہ کا احترام ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک جان کو بغیر کسی حق کے ضائع کیے جانے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا۔ اسلامی شریعت میں (جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ المائدہ ۵:۳۲) قتل نفس کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے تشدد پرست گروہ وجود میں آگئے ہیں جو اپنے نام اور اپنی پہچان حضور نبی کریمؐ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کرنے کے باوجود وہ کام کر رہے ہیں جسے خود اللہ‘ اللہ کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓنے شدت سے منع کیا گیا ہے؟
ہمارے خیال میں اس کی ذمہ داری مکمل طور پر دینی مدارس‘ ائمہ و مشائخ اور علما پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہمیںتجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی دینی مدارس کے نصاب میں شیخ الحدیث دورہ حدیث کے دوران ٹینک چلانے‘ ہیلی کاپٹر اڑانے‘ ہوائی جہاز چلانے اور کلاشنکوف کی ساخت‘ فوائد اور ترکیب استعمال کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں یا وہ اپنے طلبہ کو تفسیر حدیث‘ فقہ اور عقیدہ و کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا تشدد کا رویہ صرف دینی مدارس کے طلبہ اختیار کرتے ہیں یا قومی محرومیوں نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے ہر کیمپس پر ایسے طلبہ کے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو اکثر مسلح رہتے ہیں اورآپس میں قتل و غارت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے طالبان کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ وہ محض فقہ و حدیث کے طالب علم نہیں بلکہ عسکری تربیت یافتہ افراد ہیں۔ لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ سال کی اسلامی روایت علم یہ بتاتی ہے کہ آج تک کسی شیخ الحدیث نے اپنے طلبہ کو ٹینک اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت نہیں دی۔ پھر طالبان یہ سب کچھ سیکھ کر کہاں سے آگئے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ہیئت مقتدرہ نے انھیں یہ تربیت دی وہی آج دوسروں پر الزام دھرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر‘ جو حقیقت واقعہ (ground reality) پائی جاتی ہے ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
۱- اس پیچیدہ اور اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے پہلا اقدام خود نوعیت مسئلہ کا تعین و تجزیہ ہے اور یہ کام باہر سے آنے والا کوئی امریکی یا برطانوی مستشرق نہیں کرے گا‘ اسے ان افراد کو کرنا ہوگا جو خود کو مختلف ممالک کا ’’نمایندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نمایندہ مسالک خواہ وہ شیعہ ہوں‘ دیوبندی ہوں‘ بریلوی ہوں یا اہل حدیث ہوں‘ انھیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں اور اس کے محرکات کیا ہیں؟
۲- فقہی مسالک کے نمایندہ علما کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ‘ امن عامہ کے قیام‘ نفرتوں کے خاتمے اور اخوت و حق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہوگی۔ وہ دوعملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی قومی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبردآزما بھی ہو جائے۔
۳- تشدد‘ قتل و غارت اور اختلافات کی پیدا کردہ منافرت کو دُور کرنے کے لیے علما اور مسالک کے رہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو‘ جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن‘ بھوت یافرشتے تو کرنے سے رہے۔ کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔ گویا مسالک کے سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام‘ انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مسلک کے پیروکار افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔
۴- ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مسلکی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرزعمل کا شکار ہو گئے ہیں‘ انھیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرأ ت مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور ملکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے‘ اس لیے متعلقہ مسلکی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہوگا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔
۵- جماعت اسلامی جو اس خطے میں واحد غیر مسلکی دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی اور سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اسے بھی اس ملّی اہمیت کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ارکان‘ امرا‘ ارکان شوریٰ غرض قیادت میں ہر سطح اور درجے پر اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی فکر کے افراد و علما شامل ہیں۔ اس میں فقہ جعفریہ سے وابستہ حضرات بھی شامل رہے ہیں۔ یہ وہ واحد دینی جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کے سربراہان و مخلصین کو بلا کسی تردد و تکلف ملّی یک جہتی کے لیے دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام محض کانفرنسوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس غرض سے ایک مستقل رابطہ گروپ تشکیل دینا ہوگا‘ جس میں بار بار ملاقاتوں کے نتیجے میں اعتماد کی بحالی اور دلوں میں قربت پیدا ہو سکے۔ اس تعمیری اور طویل عمل میں ایک دوسرے سے واقفیت‘ ذاتی تعلّق اور تعمیر اعتماد (confindence building) بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
۶- مختلف مسالک کے جیدعلماے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شرانگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کو جرأت کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ لازمی طور پر ان معاملات میں حکومت کو خلوص نیت اور مکمل عزم کے ساتھ‘ اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہوگا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رُخ پر چلنا ہوگا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اگر اپنے مفادات کے پیش نظر ابلاغ عامہ کے اجارہ دار‘ اقتدار میں شریک دو جماعتوں میں جس کے بارے میں چاہیں اور جب چاہیں تحقیقات پر مبنی جائزے چھاپ سکتے ہیں کہ کس کی کتنی املاک کہاں پائی جاتی ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔
۷- قومی ابلاغ عامہ کی ذمہ داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علما اس دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو/ ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمایندہ علما کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہِ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آرا کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔ یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی‘ بے بنیاد واہمہ ہے۔ ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہوگا۔ اس لیے براہِ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخر اس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟ اگر یہ علما اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و دہشت گردی کا کون ذمہ دار ہے؟ اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟ اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔ پس پردہ جوانمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟
یہ مسئلہ ملک کی بقا سے وابستہ ہونے کے سبب تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اوّلاً تحریک کی بنیاد ہی حریت فقہ پر ہے۔ چنانچہ جماعت کی تاسیس (اگست ۱۹۴۱ء) سے آج تک جماعت نے اپنے دروازے ہر مسلک کے ماننے والے متلاشیان حق کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی‘ جو دعوت دین کے بنیادی مزاج کے منافی ہے‘ ہمیشہ کھل کر مخالفت کی ہے۔ ثانیاً تحریک اسلامی کا مقصد اس ملک عزیز میں اقامت دین اور صالح افراد کی قیادت کا قیام ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب دین سے تعلق رکھنے والے افراد میں ایک دوسرے کے لیے احترام‘ محبت اور اخوت کے جذبات ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی ڈھال تھے۔ ان کے ہاتھ‘ ان کی زبان‘ بلکہ ان کے ذہن تک ایک دوسرے کے بارے میں برے خیالات سے محفوظ تھے۔
جو جماعت صحابہ کرامؓ کے اسوہ اور اسوہ رسولؐ کو بنیاد بنا کر معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی و قانونی اصلاح کی داعی ہو‘ اس کے لیے یہ بات فریضے کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ جہاں بھی اپنے دو دینی بھائیوں کو مقابل دیکھے فاصلحوا بین اخویکم کے ابدی عالمی اسلامی اصول کی روشنی میں صلح جوئی کی کوشش اور دلوں کوجوڑنے کے لیے اپنا فرض ادا کرے۔ ثالثاً تحریک اسلامی نے اس ملک کے قیام میں گذشتہ صدی کے چوتھے عشرے سے جو نظری اور عملی کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم لیگ نے محترم مولانا مودودیؒ کی کتاب مسئلہ قومیت (جس میں انھوں نے وجودِ پاکستان کے لیے نظری بنیاد فراہم کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ مسلمان اور ہندو ایک قوم نہیں ہیں‘ چنانچہ ہماری ثقافت‘ ہماری تاریخ‘ ہمارے ہیرو سب ان سے مختلف ہیں) کو کثیر تعداد میں جگہ جگہ تقسیم کیا۔جس طرح اس ملک کے قیام میں تحریک نے کردار ادا کیا اور ایسے ہی اس میں اتحاد و یک جہتی کے قیام کے لیے بھی اسے قیادت کرنی ہوگی۔ رابعاً اس ملک میں نظام اسلامی کے قیام کے لیے تحریک اسلامی کو ان تمام قوتوں کو اپنے سے قریب لانا ہوگا جو خود کو مذہبی جماعتیں کہتی ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان جماعتوں میں اپنے مخالف مسلک کے افراد کے لیے کم از کم عداوت اور دشمنی کے جذبات نہ ہوں۔
رواداری اور صبروتحمل وہ اعلیٰ دینی اقدار ہیں جن پر عمل کرنا مومن کے ایمان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ صوبائی ‘ ضلعی‘ شہری اور محلہ کی سطح پر رواداری کے لیے ایک مسلسل تعلیمی جہاد کرنا ہوگا۔ اس جہاد کے نتائج ممکن ہے آج نظر نہ آئیں لیکن یہ کام آنے والی نسلوں کی طرف سے ایک قرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلکی اختلافات سے بلند ہونے کے سبب تحریک اسلامی ہی وہ ادارہ ہے جو اس کام کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ غیر جانب داری سے کر سکتا ہے۔