ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا گراں قدر مقالہ ’’معاصر اسلامی فکر: چند غور طلب پہلو‘‘ (اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۱ء) دراصل ان مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو تحریک اسلامی کو خاص طور پر اور عالم اسلام کو عام طور پر درپیش تھے اور ہیں۔ اس کو گوشوارئہ مسائل بھی کہا جا سکتا ہے اور ریسرچ پروجیکٹس بھی۔ اس میں انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے مختلف میدانوں میں موقف کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ سب حل طلب فکری اور عملی مسائل ہیں۔
مجھے ان میں بعض مسائل کی کمی بہت کچھ کھٹکی۔ مثال کے طور پر معاشی میدان میں کئی کئی بلین ڈالر کی زرکاری کی راہیں‘ وسائل اورذرائع جو فی الحال حصص کے بازاروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں__ یہ گھمبیر مسئلہ ہے۔ اس کا حل ناگزیر ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ‘ میرے نزدیک‘ عصرحاضر کے امن اور جنگ کے وہ مسائل ہیں جو براعظموں کو عبور کرنے والے میزائل‘ بایالوجیکل جنگ اور کیمیکل جنگ کے زیر سایہ اُبھر آئے ہیں۔ یہ سب کے سب کلی جنگ کے تصور کا نتیجہ ہیں جس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس سے کسی قوم کے کسی گروہ یا طبقے کو مستثنیٰ قرار دینا تقریباً ناممکن ہے۔ ان ہتھیاروں کی پیداوار ‘ان کی دیکھ ریکھ اور متعلقہ ریسرچ کے لیے مستقبل کی کسی اسلامی معیشت کو اتنا بڑا اور پیداواری (productive)ہونا چاہیے کہ وہ ان بے تحاشا اخراجات کو برداشت کرسکے۔ ظاہر بات ہے کہ مستقبل کی اسلامی ریاست کو ان مستقبل کے ہتھیاروں سے مسلح ہونا ہے۔ اس لیے عورتوں کا نجی پیداواری سرگرمیوں میں‘ شرعی حدود کے اندر حصہ دار بننا ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں پردہ‘ تعلیم نسواں‘ آزادی نسواں‘ زن و شو کے حقوق وغیرہ کے مسائل ازخود ظاہر ہو کر ہم سے حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔
امن و جنگ کے مسائل کے ضمن میں اور ان کی ہمہ گیری کی وجہ سے ایک نئی فقہ کی‘ جس کو ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے‘ بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے جو ہمہ گیر نقطۂ نظر اور پہلوئوں سے ہرمیدانِ فکروعمل میں طویل المیعاد لائحہ عمل تیار کر سکے۔ اگر ہم واقعی ۲۱ ویں صدی میں داخل ہونا‘زندہ رہنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیںتو فکروعمل کی یہ ہمہ گیر حکمت عملی اُمت مسلمہ کی اشد ضرورت ہے۔
ایک قدم آگے بڑھیے تو فتویٰ صادر کرنے والوں__ خصوصاً جنگ و امن کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے والوں کو نئی ضروریات اور صلاحیتوں اور تخصص کی طرف خاص توجہ دینا ہوگی ورنہ بار بار افغانستان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان مسئلہ دراصل قرونِ وسطیٰ کی ذہنیت کے علما کے فتوئوں کا نتیجہ ہے جن کو بین الاقوامی کش مکش کا کچھ بھی علم نہیں تھا اور نہ آج ہے۔ اس لیے ان امور میں فتویٰ صرف اور صرف استراتیجی فکر پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ حکام وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں جنگ و امن کی عام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے۔
اب‘ جب کہ جاپان میں شرح سود تقریباً صفر ہے تو کوئی ایسا وسیلہ دریافت کریں جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس شرح سود سے پہلے زرکاری اور بچت اور منصوبوں کے نفع نقصان کے کیا پیمانے جاپان میں تھے اور اب کیا ہیں اور آیندہ کیا ہو سکتے ہیں؟ اسی قسم کے اشارات محدود یا وسیع پیمانے پر امریکہ‘ یورپ اور دوسرے علاقوں اور ملکوں میں شرح سود کے مسلسل گھٹائے جانے کے نتیجے میں بھی مطالعہ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی سود اور غیابِ سود کے نتائج کے گہرے مطالعے کا سنہری موقع ہے۔ اس پر خاص اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ عالم اسلام کے دانشور اس طرف بھرپور توجہ دے کر کوئی لائحہ عمل بروے کار لائیں گے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنے مقالے میں جن اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ ان پر کام کی ضرورت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ آنے والے کل میں تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ متحرک اسلام (dynamic Islam) کا تصور اس کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ہر وقت پیش کیا جاتا رہے تاکہ مولانا مودودیؒ کی تعبیرات کو حرفِ آخر سمجھ کر ان بے شمار مشکلات کو پیدا ہونے سے روکا جا سکے جن کی طرف خود مولانا مودودیؒ نے صاف صاف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’میں نے جو کچھ بھی لکھ دیا ہے اس کو تمام حالات کے لحاظ سے اگر حرفِ آخر سمجھ لیا گیا تو بے شمار مشکلات پیدا ہوں گی‘‘ (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ نجات اللہ صدیقی‘ ص ۵۵)۔ یہ ان کے بڑے پن کی ناقابل انکار دلیل ہے۔ یہی ایک کامیاب قائد کی شان بھی ہے!!
اس ضمن میں مولانا علی میاں ؒ کا تبصرہ آنکھیں کھولنے والا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کونظرانداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرے کو اس دور میں بھی ملی ہے‘ اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصہ میں آئی ہے‘‘۔ اس کا آخری فقرہ‘ تو آج خصوصاً طالبان کے اسلام کے تصور کے تناظر میں سو فی صد صحیح ہے۔
اس سلسلے میں‘ صرف پردے کے سلسلے میں مردوں کے ’’مردانہ اسلام‘‘ کا ذکر کروں گا جس کی رُو سے آیاتِ حجاب کی تفسیر مردانہ نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔
یہی معاملہ عورتوں کی تعلیم کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میدان تعلیم و تحقیق میں خواتین کے عنصر کو نظرانداز نہ کیا جائے۔اسلامی تحریک کو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی خدمات کی بھی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس اہم مسئلے پر تحریک سے وابستہ مفکرین اور دیگر اہل قلم و دانش کو دعوت تحریر دینا چاہیے۔
جماعت اسلامی میں اجتہادی فکر اور الفقہ الاستراتیجی کے رواج کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ محض روایت پسندی یا علما کی تقلید ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جدید تقاضوں کے پیش نظر قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کی راہ اپنائی جائے۔ محض تقلید جمود ہے۔ جمود ترقی معکوس ہے اور تنزل کی راہ ہے۔ علما کو بھی جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے روایتی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اور تقلید محض کی روش کو ترک کرنا چاہیے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی اجتہادی فکر کی علم بردار رہی ہے اور آج بھی اسے اس میدان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک مثبت‘ طویل المیعاد پروگرام اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ محض وقتی مسائل کی بنا پر لائحہ عمل اور حکمت عملی اپنانا دانش مندی نہیں۔ علماے کرام کو بھی ان امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور نئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے وسیع تر تناظر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
یہ علمی و تحقیقی کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے غفلت خودکشی کے مترادف ہے!