۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے جو حالات ہیں‘ اور مسلمانوں پر جو کچھ گزر رہی ہے‘ اس سے یہ حقیقت بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اگر ہمیں اُمت کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے توتین پہلوئوں سے ضروری تدابیر لازماً اختیار کرنا ہوں گی:
۱- حقیقی شورائی نظام : اس نظام کے علاوہ اس اُمت کے لیے کوئی اور راہِ نجات نہیںہے۔ آمریت خواہ وہ فرد کی ہو یا خاندان کی یا پارٹی کی‘ بذاتِ خود پیغامِ موت ہے‘ خواہ غیر سیاسی ذہن رکھنے والے حضرات اس موت کو زندگی ثابت کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔ یوں بھی کہا جا سکتاہے کہ تلوار اور طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنا شورائی نظام کی ضد ہے۔
شورائی نظام سے مراد نمایشی اور کھوکھلی شوریٰ‘ یا پارلیمنٹ‘ یا مجلس نہیں ہے بلکہ وہ نظام ہے جس میں حاکمِ ریاست کو منتخب کرنے کا حق ہر فرد کو حاصل ہوتا ہے اور جس میں کوئی فرد‘ خاندان‘ یا پارٹی اپنے فرد کوکبھی بادشاہ کے نام پر‘ کبھی صدرِ ریاست کے نام پر عوام کی گردنوں پر مسلط نہیں کرتی ہے۔
اس حقیقی شورائی نظام کی حقیقت اور ضرورت کو سیدنا عمرؓ بن خطاب نے اپنے اس تاریخی خطبے میں واضح کیا تھا جو انھوں نے اس اہم دستوری موضوع پر اپنی وفات سے چند روز قبل جمعہ کے دن مدینہ منورہ میں دیا تھا۔ اس خطبے کو امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے۔
۲- آزاد عدالتی و تحقیقی نظام: عدالتی نظام کو ہر طرح اور ہر معنی میںآزاد ہونا چاہیے۔ عدلیہ سے وابستہ تمام اداروں کو اثر و رسوخ‘ رشوت ستانی‘ اقربا پروری اور ہر قسم کی کرپشن سے پاک صاف ہونا چاہیے تاکہ جو تحقیقاتی نتائج کسی جج کے سامنے پیش کیے جائیں وہ قابل اطمینان‘ قابل بھروسا اور عدالتی معیارات پر کھرے اُتریں۔ ان اداروں میں سب سے پہلے پولیس اور خفیہ پولیس کے نظام اورافراد ہیں کیونکہ معاملہ موقع واردات ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر یہاں ہی گڑبڑ رہی اور ہوئی تو فیصلہ باطل ہی ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد جھوٹی ’’تحقیقات‘‘ اور’’معلومات‘‘ پر ہے اور ہوگی۔
۳- عصری علوم اور اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر کا فہم : عصرِحاضر کے مفتیانِ کرام اور ان اجتماعی اداروں کا‘ جوفتوے صادر کرنے کے اہم فرائض انجام دیتے ہیں‘ عصری تقاضوں اور عصری افکار و علوم سے باخبر ہونا ناگزیرہے۔ ان کا خصوصاً اسٹرے ٹیجک امور میں اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر کا حامل ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر یہ صفت ان میں نہیں ہے تو ان کو براعظم عبور کرنے والے میزائلوں‘ حیاتیاتی‘ کیمیاوی‘ اعصابی اور اقتصادی جنگ‘ نیزخوف و ہراس کی جنگ جیسے نہایت سنگین اور دُور رس اثرات کے حامل مسائل میں فتویٰ دینے کا ہرگز حق نہیں پہنچتا۔ یہ کوئی روایتی فقہی مسائل نہیں ہیں‘ یہ جدید دورکے مسائل ہیں جس میں نہ صرف قرآن کریم‘سنت ِ نبویہؐ اورفقہ میں گہری نظر چاہیے بلکہ ان کو ایک بالکل ہی نئی فقہ سے‘ جس کو میں ’’الفقہ الاسترے تیجی‘‘(حکمت عملی کا فہم)کا نام دوں گا‘ مسلح ہونا اور اس میں گہری نظر پیدا کرنا ضروری ہے۔
یہ’’حکمت عملی کا فہم‘‘ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اس کا تعلق گہرے علم اور گہری فکر سے ہے۔ اس کا تعلق ایسے نہایت نازک جذبات سے بھی ہے جو مستقبل کے احوال کا آئینہ بن کر اُمت ِ اسلامیہ کے حال اور مستقبل کے مفادات‘ ان کے بین الاقوامی تعلقات کی روشنی میں‘ معین کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کا لحاظ کر کے فتویٰ صادر کرتے ہیں‘ اور ان وسائل اور اسباب کاتعین بھی کرتے ہیں جن سے آج اور کل کے خطرات کو رفع بھی کیا جا سکتا ہے اور فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اسے دیگر معمول کے انسانی مسائل سے خلط ملط نہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید اور قدیم علوم کے ماہرین اور فقہا مل جل کر ان مسائل میں راہِ حق و صواب تلاش کریں۔ ان میں نت نئی ایجادوں کے ظہور پذیر ہونے اور نئے نئے مسائل کے سامنے آمنے پر نظرثانی کی گنجایش بہرحال ہے۔
’’حکمت عملی کا فہم‘‘ عالمی امور‘ ان کے پس منظر‘ نئے نئے ہتھیاروں‘ قوموںکے اغراض و مقاصد اورمفادات اور ان کے شیطانی منصوبے اور اس کے نتیجے میں ان سے آج پیدا ہونے والی کش مکش اوراس کا جنگ کی شکل میں ارتقا اور اس کے خوف ناک نتائج‘ سب پر محیط ہے۔ اس میں ان سے نمٹنے کے لیے انسانی‘ مادی‘ اخلاقی‘ دینی اور دنیاوی مسائل اور ذرائع خود بخود شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کا حتمی نتیجہ سیاسی‘ عسکری‘ مالی‘ اقتصادی‘ اجتماعی اور بین الاقوامی اسٹرے ٹیجی کے میدانوں میں کام کرنے والے دانش وروں کا اپنے اپنے میدان میں‘اپنے اپنے تصورات اور نتائج فکر پیش کرنا اور پیش کردہ مسائل پر علماے کرام کی رہنمائی میں مسائل کا حل اور فتوے صادر کرنا ہوگا۔ تب یہ ممکن ہوگا کہ ہر صورت حال اور منظرنامے کے مطابق کم از کم عرصے میں مناسب ردوبدل کے ساتھ فتوے صادر کیے جا سکیں۔کیونکہ میدانِ عمل میں اور تصوراتی مناظر میں کافی فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے اور بعض اوقات توناقابلِ تصور اور ناقابلِ تصدیق منظرنامہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس میدان کی طرف پیش رفت ناگزیر اور وقت کا تقاضا ہے۔
یہ کوئی مجذوب کی بڑ نہیں ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے حوادث کے بعد جو بدحواسی امریکی انتظامیہ پر چھائی ہوئی ہے‘ خصوصاً انتھراکس کے پھیلنے کے بعد‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا کچھ تیاری ہونا چاہیے۔
یہ دنیا سیدھے سادے لوگوں کی دنیا نہیں رہی ہے۔ اس لیے ہرمیدان میں اور ہر طرح کے تیز و طرار لوگوں کی ضرورت ہے جو مستقبل بعید کے ممکن احتمالات کا تصور کر کے ان کے حل تلاش کرسکیں اوران کے لیے مناسب تیاریاں بھی کریں۔
اب ہم اس تجویز کی عملی تطبیق کی طرف آتے ہیں۔ اس ضمن میں‘ دو مثالیں پیش کروں گا۔
ایک مثال انقلاب ایران ہے۔ اگر ہمارے فقہا اور قائدین اسٹرے ٹیجک نظر رکھتے توبرسوں پہلے شاہ کے زوال کا اندازہ کر کے آنے والے طوفان کا تصور کر کے مختلف منظرنامے تیار کرتے جن میں یقینا امریکی اور عراقی ردعمل کا منظرنامہ بھی شامل ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج مسلمان امریکی جال میں نہ پھنستے‘ خلیج اورسعودی عرب جنگ کا شکار نہ ہوتے اور عراق امریکی جنگ کا آلہ کار اور ہراول دستہ نہ بنتا۔ لیکن عملاً امام خمینی کے خلاف تکفیر کا فتویٰ جاری کیا گیا اور صدام کی امریکہ کے خلاف خلیجی جنگ کو جہاد مقدس قرار دیا گیا۔
اگر پیش بندی اور اسٹرے ٹیجی کے طور پر کچھ اقدامات اٹھائے جاتے اور کوئی منصوبہ پیش نظر ہوتا تو پھر امریکہ کو اپنے ریوالور کی آخری گولی کا نشانہ صدام اور عراق کو نہ بنانا پڑتا اور نہ امریکہ خلیج میں خوف وہراس اور دھونس اور دھاندلی کے ذریعے فوجی اڈے ہی حاصل کر سکتا تھا۔ وہ کویت پر عراقی قبضے کا ڈراما کھیلنے پر بھی مجبور نہ ہوتا۔
دوسری مثال سوویت یونین کا تقریباً ایرانی انقلاب کے وقت افغانستان میں گھس آنا تھا۔ یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ یہاں بھی امریکی جنگ تھی جو امریکہ اور امریکی افواج اور ان کے حواریوں کو لڑنی چاہیے تھی‘ لیکن امریکی حکمت عملی کو نہ سمجھا گیا۔ امریکہ نے روسی افواج کے مقابلے میں افغان عوام‘ عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے مجاہدین کو آگے کیا‘ خود پیچھے رہا‘ اسلحے اور دیگر سامان رسد کی فراہمی جاری رکھی اور گولیوں کا نشانہ مسلمان بنتے رہے۔ علماے دین اور دینی جماعتوں نے جنگی حکمت عملی‘ امریکی عزائم اور منصوبوں پر غور کیے بغیر اس جہاد کی تائید کی اور اس میں بھرپور حصہ لیا۔ یہاں ’’حکمت عملی کے فہم‘‘ کو کام میں لا کر روایت کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن قوتوں کے عزائم پر نگاہ رکھتے ہوئے مستقبل کے نتائج اور امکانات کے پیش نظر اسٹرے ٹیجی اپنانے کی ضرورت تھی‘ نہ کہ محض فتویٰ صادر کرنے کی۔
امریکہ کامیاب رہا۔ اس نے یہ جنگ مسلمانوں کے خون‘ لاکھوں شہدا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے عوض جیت لی اور اپنی افواج اور قوت کومحفوظ رکھا۔ دوسری طرف وہ نوجوان جوجہاد میں عملاً شریک ہوئے اور عسکری تربیت حاصل کی وہ مسلح جدوجہد کے نقطۂ نظر کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے۔ مسلح جدوجہد کا تصور اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آیا۔ یہی مجاہدین پھر مختلف مسلح گروپوں کی صورت میں منظم ہو گئے۔ القاعدہ بھی اسی طرح منظم ہوکرسامنے آئی۔
آج وہی امریکہ سوویت یونین کے زوال کے بعد افغانستان میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی آڑ میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے پھر آن دھمکا ہے اور بڑے پیمانے پرتباہی و بربادی کے بعد اپنی من پسند حکومت قائم کر کے اپنے عزائم کے حصول میں سرگرداں ہے۔
یہ سبق ہیں جو ہمیں ماضی قریب کے حالات سے سیکھنے چاہییں اور حقائق کو دیکھتے ہوئے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی شورائی نظام‘ آزاد عدالتی و تحقیقی نظام اور جدیدفقہی و عصری تقاضوں کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ اُمت مسلمہ کے مستقبل کی صورت گری اسی طرح ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ‘ اس دُنیا میں‘ قوموں کے عروج و زوال اور ترقی و تنزل کے چند اٹوٹ قوانین بنائے ہیں جن کو سُنَّۃُ وَسُنَنُ اللّٰہِ فِی خَلْقِہٖ (اپنی خلقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت/سنتیں) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی سے کوئی رشتے داری نہیں ہے‘ نہ کوئی اس کا مائی باپ ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی‘ بیٹا یا بیٹی ہے‘ اس لیے یہ قوانین عروج و زوال اور سنتیں سرِمو بدلے بغیر حرکت پذیر ہیں۔ جو کوئی فرد‘ خاندان‘ معاشرہ یا قوم اس کی زد میں آ جائے‘ وہ خمیازہ بھگت کر ہی رہتا ہے۔ اسی لیے فرمایا: وَلاَ یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَo (یوسف ۱۲:۱۱۰) ’’اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا‘‘۔
سورۃ الفجر میں‘ فجر اور بھیگتی ہوئی رات اور طاق اور جفت عددوں کی‘ جن کا اطلاق ہر قابل شمار چیزپر ہوسکتا ہے‘ قسم کھا کر اللہ تعالیٰ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ہی شب و روز کے تغیر و تبدل سے زمانہ بنتا ہے جس کو انسان تاریخ کا نام دیتا ہے۔ یہ تاریخ انسانی بہت سی عبرت ناک داستانوں سے اَٹی پڑی ہے‘ اگر کوئی ان پر عبرت کی نگاہ سے غوروفکر کرے! اس لیے ان قسموں کے بعد یہ سوال فرمایا: ھَلْ فِی ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ ط (الفجر ۸۹:۵) ’’کیااس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘ یعنی کیا اس میں عقل مند کے لیے سامان عبرت نہیں پایا جاتا ہے؟
یہ سوال ایک عام قسم کا سوال تھا جس سے ذہن و نگاہ کہیں بھی منتقل ہو سکتے تھے۔ اس وجہ سے فوراً یہ سوال فرمایا:
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ o اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ o الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلاَدِ o وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ o وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتََادِ o الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَدِ o فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o (الفجر ۸۹:۶-۱۲)
تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے کیا برتائو کیا اُونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ جن کے مانند کوئی قوم دُنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟ اور ثمود کے ساتھ جنھوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دُنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور اُن میں بہت فساد پھیلایا تھا۔
یہاں تین قوموں کی بڑی بڑی خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ عاد ___ قومِ ہود علیہ السلام ___کے بارے میں یہ بتایا کہ ان کا اُونچے اُونچے ستونوں والا شہر لق و دق صحرا کے درمیان واقع تھا اور وہ ہر لحاظ سے اور ہر نقطۂ نظر سے اپنی نظیر آپ تھا۔ کیونکہ اس جیسا شہر نگاہِ فلک نے‘ اس وقت تک‘ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اب رہی قومِ ثمود تو انھوں نے شمالی جزیرۃ العرب کے مدائن صالح کے علاقے میں‘ پہاڑوں کو موم بنا دیا تھا۔ وہ پہاڑوں میں بڑے بڑے خوب صورت محلات‘ بازار اور گھر تراشا کرتے تھے اور وہ بھی پوری مہارت کے ساتھ۔ جہاں تک قوم فرعون کا تعلق ہے اس کی اہم نشانی اس کی فوجی قوت تھی جس کو صحرا میں فوجی چھائونی کی شکل میں آباد کرنے اور ٹھیرانے کے لیے لاتعداد کھونٹیوں کی ضرورت پڑا کرتی تھی جن کے ذریعے خیموں کو نصب کیا جاتا تھا۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان تینوں قوموں میں مادی قوت بے پناہ پائی جاتی تھی۔ پہلی دو قومیں لق و دق صحرا اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں اپنے شہربسا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھیں تو تیسری قوم کو اپنی فوجی برتری پر ناز تھا جس کے ذریعے وہ دوسری قوموں کو مرعوب کر سکتی تھی۔
اس مادی برتری اور قوت و طاقت نے ان تینوں کو غرور میں مبتلا کر دیا اور وہ یہ کہنے لگے: مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً (کون قوت و طاقت میں ہمارا ہم پلہ ہے؟)۔ اس غرور اور تکبر نے ان کو حد سے زیادہ ظلم و ستم پر اُبھارا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی سرزمین پر فتنہ و فساد اس حد تک برپا کر دیا کہ زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی۔ کمزور قوموں‘ جماعتوں اور افراد کا زندہ رہنا ناممکن ہو گیا۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔
یہ فتنہ اور فساد زندگی کے سارے ہی میدانوں میں برپا ہو گیا تھا۔ عقائد میں وہ توحید کے دشمن اور شرک کے پرستار تھے۔ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نہ صرف ان کی دعوتِ توحید کا سختی سے انکار کرتے بلکہ ان کی ذاتِ بابرکت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ان کی ہر دھمکی کے جواب میں چیلنج بن کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
توحید سے نفرت نے انھیں اُس خطرناک ظلم میں مبتلا کیا جس کا نام شرک ہے اور جو بجائے خود ہر قسم کے ظلم کی جڑ ہے۔ پہلے توانھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر یہ ظلم کیا کہ اس کو مختلف مخلوقات میں تقسیم کرکے ان کو درجۂ مخلوقات سے بڑھا کر الوہیت‘ ربوبیت‘ خالقیت‘ رزاقیت وغیرہ کے ان درجات تک پہنچایا جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور ان میں اس ذاتِ بابرکات کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ یہ دہرا ظلم یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بے مثال‘ بے عیب اور اُونچے درجے سے اُتار کر اسی کی مخلوقات کو مختلف اُونچے درجات پر فائز کر دیا جس کے وہ مخلوق ہونے کے ناطے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ اس بندر بانٹ اور ناانصافی نے ان کے معاشروں میں‘ انسان کی شکل میں‘ لاتعداد دیوتا کھڑے کر دیے۔ مندروں اور معبدوں کے دیوتا پجاری‘ زمین کے دیوتا زمین دار‘ کارخانوں اور صنعتوں کے دیوتا صنعت کار اور کارخانہ دار‘ تجارت کے دیوتا تاجر‘ فوجوں کے دیوتا فوجی جرنیل اور ان سب پر حکمران دیوتا ملک کا حاکم وقت جو بعض وقت الوہیت اور ربوبیت کے دعوے کرنے سے بھی نہیں جھجکتا تھا جیسا کہ فرعون کا حال تھا جس نے اعلان کیا: اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰیo (النازعات ۷۹:۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ اور کہا: قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۹) ’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قیدخانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں‘‘۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے: وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ج (القصص ۲۸:۳۸) ’’اور فرعون نے کہا: اے اہل دربار‘ میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔
اس طرح عقیدے میں شرک نے ان کے معاشروں میں لاتعداد چھوٹے بڑے الٰہ اور ارباب پیدا کردیے تھے جو عام لوگوں پر بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے اور ان کو اپنی خواہشوں کی چکیوں میں پوری بے دردی اور بے رحمی سے پیسا کرتے تھے۔ اس پر بھی ان کی خواہشات کی تسکین نہیں ہوتی تھی تو وہ پڑوسی قوموں پر چڑھ دوڑتے‘ ان کو زیر کرتے‘ ان کو اور ان کے ملک کو اپنا معیارِ زندگی اُونچا کرنے اور اُونچا رکھنے کی خاطر اور اپنی قوم و ملک کو دوسری دنیا اور تیسری دنیا کے مقابلے میں دنیا کے درجۂ اوّل کا ملک بنانے اور بنائے رکھنے کے لیے دوسری کمزور قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے ۔ وہ ان کو محض اس لیے فقر وفاقہ اور پریشانی اور مصائب کا شکار کرتے کہ وہ سب سے زیادہ فوجی‘ مالی‘ اقتصادی اور اجتماعی قوت کے مالک بنے رہیں۔ آج یورپ کا یہی حال ہے جو امریکہ کے زیرقیادت ساری دنیا کو غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ جو کوئی بھی ان کی غلامی تسلیم نہ کرے ان پر راکٹوں کی بارش کر کے تباہ و برباد کر دیتے ہیں تاکہ وہ لمبے عرصے کے لیے فقروفاقہ کا شکار رہے اور پھر ان سے قرضوں‘ اناج اور ٹکنالوجی کی بھیک مانگتا رہے‘ اوروہ ان داتا بنے اس کی جھولی میں روٹی کے چند ٹکڑے اور چند ڈالر کی بھیک ڈال دیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بت پرستی کے شرک کے ساتھ مال‘ اولاد اور علم کی کثرت سے پیدا ہونے والے شرک کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ یہ بھی اتنا ہی شرک ہے جتنا کہ بت پرستی کا شرک ہے اور اس کے نتائج اور عواقب بھی اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے کہ بت پرستانہ شرک کے نتائج اور عواقب خطرناک ہیں۔
قرآن کریم میں کثرتِ مال اور کثرتِ اولاد اور کثرتِ اعوان (حامی و مددگار /خادم/فوجیں/ جتھے) کی بہترین مثال دو باغ والوں کے قصے میں ملتی ہے۔ جس میں ایک شخص نے کثرتِ مال اور کثرتِ اعوان سے دھوکا کھا کر اور غرور میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ لامحدود اور آخرت کی آمد سے انکار کر دیا تھا ۔ اس کو اپنے مال اور عددی قوت پر بڑا گھمنڈ پیدا ہو گیا تھا اور وہ اس حد تک اندھا ہو گیا تھا کہ وہ بہک گیا اور کہنے لگا کہ یہ فصل اور باغ کبھی بھی مرجھا نہیں سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے دوست نے اس کی ان غلط فہمیوں پر اس کو تنبیہ کی اور اعلان کیا:
قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗ ٓ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰکَ رَجُلاً o لٰکِنَّا ھُوَ اللّٰہُ رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِرَبِّیْ ٓ اَحَدًا o (الکہف ۱۸:۳۷-۳۸)
اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ’’کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟ رہا میں‘ تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔
مگر اس مغرور شخص کو اپنے مال اور اولاد کے شرک میں مبتلا ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب اس کا باغ تباہ ہو چکا تھا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوا: یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْ ٓ اَحَدًا o (الکہف ۱۸:۴۲) ’’کاش! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا‘‘۔
اب جہاں تک علم کے غرور اور اس کو خدا تصور کرنے کا تعلق ہے تو اس کی مثال قارون کی ذات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جب اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی دولت اپنے علم کے بل بوتے پر کمائی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے: قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط (القصص ۲۸:۷۸) ’’اس نے کہا ’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘۔ اس کا انجام مع خزانہ اور گھر کے زمین میں دھنسنا تھا۔ گویا عقائد میں شرک اور اعمال میں ظلم اور غرور و تکبر اور برتری کا احساس و تصور اور دوسروں کو زیر کرنے اور ان کو روندنے اور چھا جانے کی خواہش‘ تمنا اور اعمال‘ عذابِ الٰہی کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ مغرور‘ مشرک ‘بداعمال افراد اور قومیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس لیے غافل ہو جاتے ہیں کہ وہ اوّل تو وجودِ خداوندی کے قائل ہی نہیں ہوتے ہیں اور اگر قائل ہوں بھی تو وہ یہ تصور کیے ہوتے ہیں کہ: وَّلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَبًا o (الکہف ۱۸:۳۶) ’’تاہم‘ اگرکبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو اس سے بھی زیادہ شان دار جگہ پائوں گا‘‘، یا پھر وہ یہ تصور کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پیدا کر کے کہیں سو گیا ہے یا غافل ہو گیا ہے یابھول گیا ہے (معاذ اللہ!)۔ بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ انبیا کرام کا خدا اس کائنات کو پیدا کر کے کہیں غائب نہیں ہو گیا ہے بلکہ وہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے بلکہ گھات میں بیٹھا ہوا اپنے بندوں کی حرکات کو دیکھ رہا ہے‘ اور جب وہ زمین کو فتنہ اور فساد اور قتل و غارت گری سے بھر دیتے ہیں تو وہ اپنے کمزور بندوں کو ان کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے ان ظالموں پر تازیانۂ عذاب برساتا ہے اور ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔
یہی کچھ اس ربِ قادر‘ قدیر و مقتدر نے عاد‘ ثمود اور فرعون کے ساتھ کیا۔ عاد کو ایک ایسی ریت کے باریک ذروں سے بھری ہوئی ہوا سے ہلاک کیا گیا جو ان پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک مسلط رہی اور اس نے ہر چیز کو چکنا چور کر کے رکھ دیا اور وہ خود بھی اس حد تک تاریخ کا قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے کہ ان کا شہر الربع الخالی کے صحرا میں کہیں عمان اور حضرموت کی وادی حبروت کے درمیان ریت کے تودوں کے بیچوں بیچ غائب ہو گیا ہے۔ جہاں تک ثمود کا تعلق ہے تو ان کو دندناتی ہوئی چیخ کے ذریعے زمین کے برابر کر دیا گیا۔ اب رہا فرعون تو اس کا انجام معروف ہے۔ اس کو اور اس کی فوج کو غرقِ آب کر دیا گیا۔
فرعون کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اور اس کی فوج کا غرقِ آب ہونا آخری انجام تھا۔ اس سے پہلے اس کو اور اس کی قوم کو قحط‘ جوووں‘ مینڈکوں اور خون کے لوتھڑوں کے عذاب سے دوچار کیا گیا تاکہ وہ عبرت حاصل کر کے توحید کی راہ اختیار کرے اور سیدنا موسٰی علیہ السلام کی پیروی کرے اور بنی اسرائیل کو بے گار کی غلامی سے آزاد کر کے ان کے ساتھ یا تو انصاف اور برابری کا معاملہ کرے یا پھر ان کو ملک ِ مصر سے نکل جانے کا حق دے۔ مگر وہ اس قوم کو تباہ و برباد کرنے پر تلا رہا اور بالآخر خود تباہ و برباد ہو گیا۔
عصرحاضر کے عاد اُونچی اُونچی عمارتوں کے معمار بھی فرعون کی راہ پر گام زن ہو کر قوموں کو غلام بناکر اور ان سے بے گار لے کر اپنی خوش حالی کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ اس میں اضافے پر اضافہ کرنے کے چکر میں راکٹوں کی بارش کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ ان کا انجام معلوم ہے۔ کیونکہ انھوں نے خونِ بنی آدم کو دریائوں کی طرح بہانا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ اس لیے ان کے دن بھی گنے چُنے ہیں۔ انھیں سنبھلنے کا موقع دیا گیاہے اور لوگ سمجھا بھی رہے ہیں مگر وہ اکڑ میں مزید خون خرابے کی باتیں کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تو صرف ایک دو ہلکے پھلکے کوڑے برسے ہیں۔ جب مسلسل کوڑے برسیں گے توکمر ٹوٹ جائے گی اور وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ جائیں گے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزِ (اور یہ بات اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا گراں قدر مقالہ ’’معاصر اسلامی فکر: چند غور طلب پہلو‘‘ (اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۱ء) دراصل ان مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو تحریک اسلامی کو خاص طور پر اور عالم اسلام کو عام طور پر درپیش تھے اور ہیں۔ اس کو گوشوارئہ مسائل بھی کہا جا سکتا ہے اور ریسرچ پروجیکٹس بھی۔ اس میں انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے مختلف میدانوں میں موقف کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ سب حل طلب فکری اور عملی مسائل ہیں۔
مجھے ان میں بعض مسائل کی کمی بہت کچھ کھٹکی۔ مثال کے طور پر معاشی میدان میں کئی کئی بلین ڈالر کی زرکاری کی راہیں‘ وسائل اورذرائع جو فی الحال حصص کے بازاروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں__ یہ گھمبیر مسئلہ ہے۔ اس کا حل ناگزیر ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ‘ میرے نزدیک‘ عصرحاضر کے امن اور جنگ کے وہ مسائل ہیں جو براعظموں کو عبور کرنے والے میزائل‘ بایالوجیکل جنگ اور کیمیکل جنگ کے زیر سایہ اُبھر آئے ہیں۔ یہ سب کے سب کلی جنگ کے تصور کا نتیجہ ہیں جس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس سے کسی قوم کے کسی گروہ یا طبقے کو مستثنیٰ قرار دینا تقریباً ناممکن ہے۔ ان ہتھیاروں کی پیداوار ‘ان کی دیکھ ریکھ اور متعلقہ ریسرچ کے لیے مستقبل کی کسی اسلامی معیشت کو اتنا بڑا اور پیداواری (productive)ہونا چاہیے کہ وہ ان بے تحاشا اخراجات کو برداشت کرسکے۔ ظاہر بات ہے کہ مستقبل کی اسلامی ریاست کو ان مستقبل کے ہتھیاروں سے مسلح ہونا ہے۔ اس لیے عورتوں کا نجی پیداواری سرگرمیوں میں‘ شرعی حدود کے اندر حصہ دار بننا ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں پردہ‘ تعلیم نسواں‘ آزادی نسواں‘ زن و شو کے حقوق وغیرہ کے مسائل ازخود ظاہر ہو کر ہم سے حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔
امن و جنگ کے مسائل کے ضمن میں اور ان کی ہمہ گیری کی وجہ سے ایک نئی فقہ کی‘ جس کو ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے‘ بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے جو ہمہ گیر نقطۂ نظر اور پہلوئوں سے ہرمیدانِ فکروعمل میں طویل المیعاد لائحہ عمل تیار کر سکے۔ اگر ہم واقعی ۲۱ ویں صدی میں داخل ہونا‘زندہ رہنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیںتو فکروعمل کی یہ ہمہ گیر حکمت عملی اُمت مسلمہ کی اشد ضرورت ہے۔
ایک قدم آگے بڑھیے تو فتویٰ صادر کرنے والوں__ خصوصاً جنگ و امن کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے والوں کو نئی ضروریات اور صلاحیتوں اور تخصص کی طرف خاص توجہ دینا ہوگی ورنہ بار بار افغانستان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان مسئلہ دراصل قرونِ وسطیٰ کی ذہنیت کے علما کے فتوئوں کا نتیجہ ہے جن کو بین الاقوامی کش مکش کا کچھ بھی علم نہیں تھا اور نہ آج ہے۔ اس لیے ان امور میں فتویٰ صرف اور صرف استراتیجی فکر پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ حکام وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں جنگ و امن کی عام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے۔
اب‘ جب کہ جاپان میں شرح سود تقریباً صفر ہے تو کوئی ایسا وسیلہ دریافت کریں جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس شرح سود سے پہلے زرکاری اور بچت اور منصوبوں کے نفع نقصان کے کیا پیمانے جاپان میں تھے اور اب کیا ہیں اور آیندہ کیا ہو سکتے ہیں؟ اسی قسم کے اشارات محدود یا وسیع پیمانے پر امریکہ‘ یورپ اور دوسرے علاقوں اور ملکوں میں شرح سود کے مسلسل گھٹائے جانے کے نتیجے میں بھی مطالعہ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی سود اور غیابِ سود کے نتائج کے گہرے مطالعے کا سنہری موقع ہے۔ اس پر خاص اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ عالم اسلام کے دانشور اس طرف بھرپور توجہ دے کر کوئی لائحہ عمل بروے کار لائیں گے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنے مقالے میں جن اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ ان پر کام کی ضرورت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ آنے والے کل میں تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ متحرک اسلام (dynamic Islam) کا تصور اس کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ہر وقت پیش کیا جاتا رہے تاکہ مولانا مودودیؒ کی تعبیرات کو حرفِ آخر سمجھ کر ان بے شمار مشکلات کو پیدا ہونے سے روکا جا سکے جن کی طرف خود مولانا مودودیؒ نے صاف صاف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’میں نے جو کچھ بھی لکھ دیا ہے اس کو تمام حالات کے لحاظ سے اگر حرفِ آخر سمجھ لیا گیا تو بے شمار مشکلات پیدا ہوں گی‘‘ (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ نجات اللہ صدیقی‘ ص ۵۵)۔ یہ ان کے بڑے پن کی ناقابل انکار دلیل ہے۔ یہی ایک کامیاب قائد کی شان بھی ہے!!
اس ضمن میں مولانا علی میاں ؒ کا تبصرہ آنکھیں کھولنے والا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کونظرانداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرے کو اس دور میں بھی ملی ہے‘ اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصہ میں آئی ہے‘‘۔ اس کا آخری فقرہ‘ تو آج خصوصاً طالبان کے اسلام کے تصور کے تناظر میں سو فی صد صحیح ہے۔
اس سلسلے میں‘ صرف پردے کے سلسلے میں مردوں کے ’’مردانہ اسلام‘‘ کا ذکر کروں گا جس کی رُو سے آیاتِ حجاب کی تفسیر مردانہ نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔
یہی معاملہ عورتوں کی تعلیم کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میدان تعلیم و تحقیق میں خواتین کے عنصر کو نظرانداز نہ کیا جائے۔اسلامی تحریک کو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی خدمات کی بھی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس اہم مسئلے پر تحریک سے وابستہ مفکرین اور دیگر اہل قلم و دانش کو دعوت تحریر دینا چاہیے۔
جماعت اسلامی میں اجتہادی فکر اور الفقہ الاستراتیجی کے رواج کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ محض روایت پسندی یا علما کی تقلید ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جدید تقاضوں کے پیش نظر قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کی راہ اپنائی جائے۔ محض تقلید جمود ہے۔ جمود ترقی معکوس ہے اور تنزل کی راہ ہے۔ علما کو بھی جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے روایتی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اور تقلید محض کی روش کو ترک کرنا چاہیے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی اجتہادی فکر کی علم بردار رہی ہے اور آج بھی اسے اس میدان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک مثبت‘ طویل المیعاد پروگرام اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ محض وقتی مسائل کی بنا پر لائحہ عمل اور حکمت عملی اپنانا دانش مندی نہیں۔ علماے کرام کو بھی ان امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور نئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے وسیع تر تناظر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
یہ علمی و تحقیقی کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے غفلت خودکشی کے مترادف ہے!