فروری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

عروج و زوال : اللہ کی سنت سورۃ الفجر کی روشنی میں

سید عبد الرحمن الکاف | فروری ۲۰۰۲ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے ‘ اس دُنیا میں‘ قوموں کے عروج و زوال اور ترقی و تنزل کے چند اٹوٹ قوانین بنائے ہیں جن کو سُنَّۃُ وَسُنَنُ اللّٰہِ فِی خَلْقِہٖ (اپنی خلقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت/سنتیں) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی سے کوئی رشتے داری نہیں ہے‘ نہ کوئی اس کا مائی باپ ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی‘ بیٹا یا بیٹی ہے‘ اس لیے یہ قوانین عروج و زوال اور سنتیں سرِمو بدلے بغیر حرکت پذیر ہیں۔ جو کوئی فرد‘ خاندان‘ معاشرہ یا قوم اس کی زد میں آ جائے‘ وہ خمیازہ بھگت کر ہی رہتا ہے۔ اسی لیے فرمایا:  وَلاَ یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَo (یوسف ۱۲:۱۱۰) ’’اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا‘‘۔

سورۃ الفجر میں‘ فجر اور بھیگتی ہوئی رات اور طاق اور جفت عددوں کی‘ جن کا اطلاق ہر قابل شمار چیزپر ہوسکتا ہے‘ قسم کھا کر اللہ تعالیٰ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ہی شب و روز کے تغیر و تبدل سے زمانہ بنتا ہے جس کو انسان تاریخ کا نام دیتا ہے۔ یہ تاریخ انسانی بہت سی عبرت ناک داستانوں سے اَٹی پڑی ہے‘ اگر کوئی ان پر عبرت کی نگاہ سے غوروفکر کرے! اس لیے ان قسموں کے بعد یہ سوال فرمایا:  ھَلْ فِی ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ ط (الفجر ۸۹:۵) ’’کیااس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟‘‘ یعنی کیا اس میں عقل مند کے لیے سامان عبرت نہیں پایا جاتا ہے؟

یہ سوال ایک عام قسم کا سوال تھا جس سے ذہن و نگاہ کہیں بھی منتقل ہو سکتے تھے۔ اس وجہ سے فوراً یہ سوال فرمایا:

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ o اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ o الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلاَدِ o وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ o وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتََادِ o الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَدِ o  فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o (الفجر ۸۹:۶-۱۲)

تم نے دیکھا نہیں کہ تمھارے ربّ نے کیا برتائو کیا اُونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ جن کے مانند کوئی قوم دُنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟ اور ثمود کے ساتھ جنھوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دُنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور اُن میں بہت فساد پھیلایا تھا۔

یہاں تین قوموں کی بڑی بڑی خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ عاد ___ قومِ ہود علیہ السلام ___کے بارے میں یہ بتایا کہ ان کا اُونچے اُونچے ستونوں والا شہر لق و دق صحرا کے درمیان واقع تھا اور وہ ہر لحاظ سے اور ہر نقطۂ نظر سے اپنی نظیر آپ تھا۔ کیونکہ اس جیسا شہر نگاہِ فلک نے‘ اس وقت تک‘ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اب رہی قومِ ثمود تو انھوں نے شمالی جزیرۃ العرب کے مدائن صالح کے علاقے میں‘ پہاڑوں کو موم بنا دیا تھا۔ وہ پہاڑوں میں بڑے بڑے خوب صورت محلات‘ بازار اور گھر تراشا کرتے تھے اور وہ بھی پوری مہارت کے ساتھ۔ جہاں تک قوم فرعون کا تعلق ہے اس کی اہم نشانی اس کی فوجی قوت تھی جس کو صحرا میں فوجی چھائونی کی شکل میں آباد کرنے اور ٹھیرانے کے لیے لاتعداد کھونٹیوں کی ضرورت پڑا کرتی تھی جن کے ذریعے خیموں کو نصب کیا جاتا تھا۔

غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان تینوں قوموں میں مادی قوت بے پناہ پائی جاتی تھی۔ پہلی دو قومیں  لق و دق صحرا اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں اپنے شہربسا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھیں تو تیسری قوم کو اپنی فوجی برتری پر ناز تھا جس کے ذریعے وہ دوسری قوموں کو مرعوب کر سکتی تھی۔

اس مادی برتری اور قوت و طاقت نے ان تینوں کو غرور میں مبتلا کر دیا اور وہ یہ کہنے لگے:  مَنْ اَشَدُّ مِنَّا  قُوَّۃً (کون قوت و طاقت میں ہمارا ہم پلہ ہے؟)۔ اس غرور اور تکبر نے ان کو حد سے زیادہ ظلم و ستم پر اُبھارا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی سرزمین پر فتنہ و فساد اس حد تک برپا کر دیا کہ زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی۔ کمزور قوموں‘ جماعتوں اور افراد کا زندہ رہنا ناممکن ہو گیا۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔

یہ فتنہ اور فساد زندگی کے سارے ہی میدانوں میں برپا ہو گیا تھا۔ عقائد میں وہ توحید کے دشمن اور شرک کے پرستار تھے۔ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نہ صرف ان کی دعوتِ توحید کا سختی سے انکار کرتے بلکہ ان کی ذاتِ بابرکت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ان کی ہر دھمکی کے جواب میں چیلنج بن کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔

توحید سے نفرت نے انھیں اُس خطرناک ظلم میں مبتلا کیا جس کا نام شرک ہے اور جو بجائے خود ہر قسم کے ظلم کی جڑ ہے۔ پہلے توانھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر یہ ظلم کیا کہ اس کو مختلف مخلوقات میں تقسیم کرکے ان کو درجۂ مخلوقات سے بڑھا کر الوہیت‘ ربوبیت‘ خالقیت‘ رزاقیت وغیرہ کے ان درجات تک پہنچایا جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور ان میں اس ذاتِ بابرکات کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ یہ دہرا ظلم یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بے مثال‘ بے عیب اور اُونچے درجے سے اُتار کر اسی کی مخلوقات کو مختلف اُونچے درجات پر فائز کر دیا جس کے وہ مخلوق ہونے کے ناطے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ اس بندر بانٹ اور ناانصافی نے ان کے معاشروں میں‘ انسان کی شکل میں‘ لاتعداد دیوتا کھڑے کر دیے۔ مندروں اور معبدوں کے دیوتا پجاری‘ زمین کے دیوتا زمین دار‘ کارخانوں اور صنعتوں کے دیوتا صنعت کار اور کارخانہ دار‘ تجارت کے دیوتا تاجر‘ فوجوں کے دیوتا فوجی جرنیل اور ان سب پر حکمران دیوتا ملک کا حاکم وقت جو بعض وقت الوہیت اور ربوبیت کے دعوے کرنے سے بھی نہیں جھجکتا تھا جیسا کہ فرعون کا حال تھا جس نے اعلان کیا: اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰیo (النازعات ۷۹:۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ اور کہا:  قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۹) ’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قیدخانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں‘‘۔ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے:  وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ج (القصص ۲۸:۳۸) ’’اور فرعون نے کہا: اے اہل دربار‘ میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔

اس طرح عقیدے میں شرک نے ان کے معاشروں میں لاتعداد چھوٹے بڑے الٰہ اور ارباب پیدا کردیے تھے جو عام لوگوں پر بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے اور ان کو اپنی خواہشوں کی چکیوں میں پوری بے دردی اور بے رحمی سے پیسا کرتے تھے۔ اس پر بھی ان کی خواہشات کی تسکین نہیں ہوتی تھی تو وہ پڑوسی قوموں پر چڑھ دوڑتے‘ ان کو زیر کرتے‘ ان کو اور ان کے ملک کو اپنا معیارِ زندگی اُونچا کرنے اور اُونچا رکھنے کی خاطر اور اپنی قوم و ملک کو دوسری دنیا اور تیسری دنیا کے مقابلے میں دنیا کے درجۂ اوّل کا ملک بنانے اور بنائے رکھنے کے لیے دوسری کمزور قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے ۔ وہ ان کو محض اس لیے فقر وفاقہ اور پریشانی اور مصائب کا شکار کرتے کہ وہ سب سے زیادہ فوجی‘ مالی‘ اقتصادی اور اجتماعی قوت کے مالک بنے رہیں۔ آج یورپ کا یہی حال ہے جو امریکہ کے زیرقیادت ساری دنیا کو غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ جو کوئی بھی ان کی غلامی تسلیم نہ کرے ان پر راکٹوں کی بارش کر کے تباہ و برباد کر دیتے ہیں تاکہ وہ لمبے عرصے کے لیے فقروفاقہ کا شکار رہے اور پھر ان سے قرضوں‘ اناج اور ٹکنالوجی کی بھیک مانگتا رہے‘ اوروہ ان داتا بنے اس کی جھولی میں روٹی کے چند ٹکڑے اور چند ڈالر کی بھیک ڈال دیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بت پرستی کے شرک کے ساتھ مال‘ اولاد اور علم کی کثرت سے پیدا ہونے والے شرک کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ یہ بھی اتنا ہی شرک ہے جتنا کہ بت پرستی کا شرک ہے اور اس کے نتائج اور عواقب بھی اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے کہ بت پرستانہ شرک کے نتائج اور عواقب خطرناک ہیں۔

قرآن کریم میں کثرتِ مال اور کثرتِ اولاد اور کثرتِ اعوان (حامی و مددگار /خادم/فوجیں/ جتھے) کی بہترین مثال دو باغ والوں کے قصے میں ملتی ہے۔ جس میں ایک شخص نے کثرتِ مال اور کثرتِ اعوان سے دھوکا کھا کر اور غرور میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ لامحدود اور آخرت کی آمد سے انکار کر دیا تھا ۔ اس کو اپنے مال اور عددی قوت پر بڑا گھمنڈ پیدا ہو گیا تھا اور وہ اس حد تک اندھا ہو گیا تھا کہ وہ بہک گیا اور کہنے لگا کہ یہ فصل اور باغ کبھی بھی مرجھا نہیں سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے دوست نے اس کی ان غلط فہمیوں پر اس کو تنبیہ کی اور اعلان کیا:

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗ ٓ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰکَ رَجُلاً o لٰکِنَّا ھُوَ اللّٰہُ رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِرَبِّیْ ٓ اَحَدًا o (الکہف ۱۸:۳۷-۳۸)

اس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ’’کیا تو کفر کرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟  رہا میں‘ تو میرا رب تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔

مگر اس مغرور شخص کو اپنے مال اور اولاد کے شرک میں مبتلا ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب اس کا باغ تباہ ہو چکا تھا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوا: یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْ ٓ اَحَدًا o (الکہف ۱۸:۴۲) ’’کاش! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا‘‘۔

اب جہاں تک علم کے غرور اور اس کو خدا تصور کرنے کا تعلق ہے تو اس کی مثال قارون کی ذات میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جب اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی دولت اپنے علم کے بل بوتے پر کمائی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے:  قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط (القصص ۲۸:۷۸) ’’اس نے کہا ’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘۔ اس کا انجام    مع خزانہ اور گھر کے زمین میں دھنسنا تھا۔ گویا عقائد میں شرک اور اعمال میں ظلم اور غرور و تکبر اور برتری کا احساس و تصور اور دوسروں کو زیر کرنے اور ان کو روندنے اور چھا جانے کی خواہش‘ تمنا اور اعمال‘ عذابِ الٰہی کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ مغرور‘ مشرک ‘بداعمال افراد اور قومیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس لیے غافل ہو جاتے ہیں کہ وہ اوّل تو وجودِ خداوندی کے قائل ہی نہیں ہوتے ہیں اور اگر قائل ہوں بھی تو وہ یہ تصور کیے ہوتے ہیں کہ: وَّلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَبًا o (الکہف ۱۸:۳۶) ’’تاہم‘ اگرکبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو اس سے بھی زیادہ شان دار جگہ پائوں گا‘‘، یا پھر وہ یہ تصور کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پیدا کر کے کہیں سو گیا ہے یا غافل ہو گیا ہے یابھول گیا ہے (معاذ اللہ!)۔ بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ انبیا کرام کا خدا اس کائنات کو پیدا کر کے کہیں غائب نہیں ہو گیا ہے بلکہ وہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے ہے بلکہ گھات میں بیٹھا ہوا اپنے بندوں کی حرکات کو دیکھ رہا ہے‘ اور جب وہ زمین کو فتنہ اور فساد اور قتل و غارت گری سے بھر دیتے ہیں تو وہ اپنے کمزور بندوں کو ان کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے ان ظالموں پر تازیانۂ عذاب برساتا ہے اور ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔

یہی کچھ اس ربِ قادر‘ قدیر و مقتدر نے عاد‘ ثمود اور فرعون کے ساتھ کیا۔ عاد کو ایک ایسی ریت کے باریک ذروں سے بھری ہوئی ہوا سے ہلاک کیا گیا جو ان پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک مسلط رہی اور اس نے ہر چیز کو چکنا چور کر کے رکھ دیا اور وہ خود بھی اس حد تک تاریخ کا قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے کہ ان کا شہر الربع الخالی کے صحرا میں کہیں عمان اور حضرموت کی وادی حبروت کے درمیان ریت کے تودوں کے بیچوں بیچ غائب ہو گیا ہے۔ جہاں تک ثمود کا تعلق ہے تو ان کو دندناتی ہوئی چیخ کے ذریعے زمین کے برابر کر دیا گیا۔ اب رہا فرعون تو اس کا انجام معروف ہے۔ اس کو اور اس کی فوج کو غرقِ آب کر دیا گیا۔

فرعون کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اور اس کی فوج کا غرقِ آب ہونا آخری انجام تھا۔ اس سے پہلے اس کو اور اس کی قوم کو قحط‘ جوووں‘ مینڈکوں اور خون کے لوتھڑوں کے عذاب سے دوچار کیا گیا تاکہ وہ عبرت حاصل کر کے توحید کی راہ اختیار کرے اور سیدنا موسٰی علیہ السلام کی پیروی کرے اور بنی اسرائیل کو بے گار کی غلامی سے آزاد کر کے ان کے ساتھ یا تو انصاف اور برابری کا معاملہ کرے یا پھر ان کو ملک ِ مصر سے نکل جانے کا حق دے۔ مگر وہ اس قوم کو تباہ و برباد کرنے پر تلا رہا اور بالآخر خود تباہ و برباد ہو گیا۔

عصرحاضر کے عاد اُونچی اُونچی عمارتوں کے معمار بھی فرعون کی راہ پر گام زن ہو کر قوموں کو غلام بناکر اور ان سے بے گار لے کر اپنی خوش حالی کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ اس میں اضافے پر اضافہ کرنے کے چکر میں راکٹوں کی بارش کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ ان کا انجام معلوم ہے۔ کیونکہ انھوں نے خونِ بنی آدم کو دریائوں کی طرح بہانا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ اس لیے ان کے دن بھی گنے چُنے ہیں۔ انھیں سنبھلنے کا موقع دیا گیاہے اور لوگ سمجھا بھی رہے ہیں مگر وہ اکڑ میں مزید خون خرابے کی باتیں کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تو صرف ایک دو ہلکے پھلکے کوڑے برسے ہیں۔ جب مسلسل کوڑے برسیں گے توکمر ٹوٹ جائے گی اور وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ جائیں گے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزِ (اور یہ بات اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے)