امریکی صدر جارج بش نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابل مذمت واقعات کا سہارا لے کر افغانستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن بودے ‘ شرم ناک اور ظالمانہ الزامات کے نام پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے انھی کا بہانہ بنا کر اسرائیل اور اس کے فلسطینیوںکے خون کے پیاسے وزیراعظم ایرول شیرون نے غزہ اور فلسطین کے علاقے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بالکل انھی مفروضوں کے بل پر بھارتی قیادت نے پاکستان پر جنگ تھوپنے کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جو جارج بش کی دھمکیوں میں آکر ان کے زیردام آچکے ہیں‘ اب اس ابتدائی اور بنیادی غلطی (original sin)کی پاداش میں ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی اَنا کو غذا فراہم کرنے کے لیے وہی مغربی قائدین اور صحافی جو انھیں ۱۱ ستمبر سے پہلے جمہوریت کا قاتل‘ فوجی ڈکٹیٹر اور عالمی محفلوں میں ناپسندیدہ شخص (persona non grata)قرار دے رہے تھے‘ اور صدر کلنٹن ان کے ساتھ اپنا فوٹو کھنچوانا اور ٹی وی پر ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا جانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے‘ اب ان کو سینے سے لگا رہے ہیں‘ اور ایک سے ایک بڑھ کر ان کو بہادر‘ معاملہ فہم‘ بالغ نظر اور روشن خیال بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس ذہنی رشوت کے بدلے ان سے ہر روز نت نئی مراعات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
افغانستان کو تباہ کرنے‘ وہاں اپنی فوجوں کے قدم جمانے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے بعد اب امریکہ کا ہدف کشمیر کا جہاد آزادی اور پاکستان اور عالم اسلام کی وہ تحریکات ہیں جو دین اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کی داعی ہیں۔ یہ مغرب کے استعمار کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت ہیں۔ وہی جہاد جو کبھی آزادی اور اشتراکیت کے خلاف جنگ کا روشن نشان تھا ‘اب دہشت پسندی کا دوسرا عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔ وہی مجاہد جن کا ۱۹۸۵ء میں صدر رونالڈ ریگن وہائٹ ہائوس میں استقبال کر رہے تھے اور ان کے چہروں پر فرشتوں کا نور دیکھ رہے تھے اور جن کے سروں پر امریکہ کی جنگ آزادی کی قیادت بشمول جارج واشنگٹن کا سایہ تلاش کر رہے تھے‘ اب انھیں زمین پر سب سے زیادہ قابل نفرت اور لائق مذمت گروہ سمجھ کر گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔
بات چلی افغانستان اور القاعدہ سے تھی‘ مگر اب فلسطین ہو یا کشمیر‘ شیشان ہو یا کوسووا یا فلپائن کے مورو __ ہر جگہ اپنی آزادی اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مصروفِ جہاد قوتیں ہی اصل ہدف ہیں۔ ان قوتوں کو دبانے کے لیے عسکری قوت اور ملٹری بلیک میل کے ساتھ ان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس پر پابندیاں لگائیں‘ مسجد اور منبر کی آزادی کو لگام دیں‘ اور اس اُمت کے جسم و جاں کو روح جہاد سے محروم کرنے کا سامان کریں۔ مغربی استعمار نے اپنے اولیں دور میں بھی جہاد ہی کو نشانہ بنایا تھا اور خود مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد اور افکار کو فروغ دیا تھا جو جہاد کو منسوخ اور اسے فرسودہ اور خطرناک قرار دینے والے ہوں۔ خواہ جدید تعلیم یافتہ اور لبرل اور ماڈرنسٹ ہوں یا مذہبی لبادہ اوڑھنے حتیٰ کہ نئی نبوت کی دستار زیب تن کرنے والے‘ سب ہی نے جہاد کو کالعدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر اللہ کی بات جہاں تھی وہیں رہی اور وہ ناکام و نامراد ہوئے۔ اب نئے استعمار کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے بھی وہی ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے!
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ جنوری کا وہ خطاب فرمایا ہے جس کا چرچا تقریر سے پہلے ہی پوری دنیا میں تھا اور اس کے اساسی نکات کا اعلان اسلام آباد سے نہیں‘ واشنگٹن سے اور جنرل صاحب کے نفس ناطقہ کی زبان سے نہیں امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کی زبان سے ہو رہا تھا۔
لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پابندی لگا کر حکومت نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ ہوا کا رُخ کیا ہے۔کس طرح کے اقدامات ان کے پیش نظر ہیں۔ تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ پر پابندی کی خبریں بھی عام تھیں اور دونوں تنظیموں کو پہلے انتباہ بھی کیا گیا تھا۔ دینی مدارس اور مساجد کے بارے میں مغربی قوتیں ایک عرصے سے مہم چلا رہی تھیں اور ان کے زیراثر پاکستان کی سیکولر اور لبرل لابی اور یہاں کا انگریزی پریس اور انگریزی فیشن میگزین مدارس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں عسکریت کے حوالے سے فیچر چھاپ کر مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ خود جنرل پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر اپنے اصل عزائم کی ایک جھلک دکھائی تھی مگر فوری عوامی ردعمل سے گھبرا کر قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔ اب حالات کو سازگار سمجھ کر اور مغربی اقوام کی پشت پناہی حاصل کرکے‘ دبے لفظوں میں اور مغالطہ آمیز اعلان کے ساتھ دین و سیاست کی تفریق کی طرف قوم و ملک کو لے جانے کے لیے اولیں اقدام کر کے اصل ایجنڈے کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کی تقریر میں دین و سیاست کو الگ رکھنے‘ مدارس اور مساجد کو رجسٹر کرنے اور پیشگی اجازت لیے بغیر کوئی نئی مسجد یا مدرسہ نہ کھولنے کے اعلانات اس سمت میں پہلا قدم ہیں۔
جہاں تک فرقہ وارانہ تعصبات اور فسادات کا تعلق ہے سبھی اسے ناپسند کرتے ہیں۔ ملک میں لسانی تعصبات اور علاقائی نفرتیں بھی عام ہیں۔ ان کے نتیجے میں جو فسادات ہوئے ہیں وہ زیادہ سنگین اور بڑے پیمانے پر تھے اور ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ تھے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لسانی اور علاقائی تعصبات والے گروہ موجودہ حکومت کے حلیف ہیں کیونکہ انھیں بھی پرویز مشرف حکومت کی طرح مغربی طاقتوں کی پشتی بانی حاصل ہے۔ اس لیے وہ محفوظ ہیں اور سارا نزلہ مذہبی عناصر پر گرایا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ملک کے اندر فساد پھیلانے والی تنظیمیں چاہے وہ فرقہ وارانہ ہوں یا علاقائی اور لسانی ہوں ملک کی یک جہتی‘ امن و سکون اور معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے زہر قاتل ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک ایک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ ان کی اکثریت کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس کے لیے مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر ظلم اور بے انصافی ہے۔ نیز فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں حقیقی اور موثر کردار اہل مذہب کا نہیں‘ ملکی اور بیرونی تخریبی عناصر اور ایجنسیوں کا تھا جس کا بار بار اعتراف خود سرکاری ذمہ داروں بشمول وزیر داخلہ نے کیا ہے۔ لیکن اب یہ سب پہلو نظرانداز کر دیے گئے ہیں اور ملبہ صرف کچھ مذہبی عناصر پر ڈالا جا رہا ہے۔
جنرل صاحب نے ایک ہی سانس میں پاکستان کو اسلامی ریاست بھی قرار دیا اور دین کو سیاست سے الگ رکھنے اور مسجد میں سیاست نہ کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے تصور پاکستان کی باتیں بھی کی ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ اقبال تو دین و دُنیا اور مذہب و سیاست کی یک رنگی کے قائل ہیں اور دُنیا کے پورے نقشے کی‘ بشمول ریاست و معیشت‘ دین کی بنیاد پر تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ:
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کا تو سارا پیغام ہی قوت کو دین کے تابع کرنے اور اسے حق کی حکومت کے لیے استعمال کرنے کا پیغام ہے:
لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا اور ان کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کو فلاح اور کامیابی کا زینہ سمجھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دین اور سیاست الگ ہیں یامسجد میں سیاست کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ پورا قرآن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے حسین اور دل نشین امتزاج پر مشتمل ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے اسلامی حکومت قائم کی ہے۔ آئین اورقانون عطا کیا ہے۔ ایک مصرع میں علامہ اقبالؒ نے حضور نبی کریمؐ کی زندگی کا یہ حصہ کس خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:
از کلید دیں در دنیا کشاد
یعنی انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں۔ دین‘ دُنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ دین سیاست اوراقتدا کے بغیر نامکمل ہے اور سیاست دین کے بغیر گمراہی اور ظلم کا پلندا ہے۔
مسجد کے لیے پیشگی اجازت کی شرط لگا کر پرویز مشرف صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی پابندی انگریز کے دور استعمار میں بھی علما اور اس اُمت نے قبول نہیں کی۔ آج بھی ناممکن ہے کہ مساجد کو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ مطلق العنان حکومتوں کی ہر دور میں یہ خواہش رہی ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے آواز نہ اٹھ سکے اور مسجد و منبر خاص طورپران کا نشانہ بنے ہیں لیکن مسجد کا مقصد ہی مسلمانوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور اجتماعیت کا درس دینا ہے۔ ان دونوں کے درمیان رشتہ منقطع نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مذہبی جماعتوں میں سے کسی نے بھی افغانوں کی انسانی ضروریات پوری نہیں کیں۔ یہ کام مغربی ممالک کی این جی اوز نے کیا ہے یا عبدالستار ایدھی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور دوسرے اسلامی فلاحی اداروں کی خدمات کا ذکر نہ کر کے انھوں نے صراحتاً حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور قوم اور پوری دنیا کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم افغانوں کی دست گیری کے لیے الرشیدیہ ٹرسٹ‘ اُمّہ تعمیرنو الخدمت اور اسلامک ریلیف کی خدمات یو این او کے خدمتی ادارے سے اگر زیادہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔ خود یو این او کا متعلقہ ادارہ ان مسلمانوںکے ذریعے اپنے بہت سے ریلیف پروگرام چلا رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس زمینی سطح پر وہ کارکن اور انتظام نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی تقریر کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے پاکستانیوں کو دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خدائی فوج دار نہیں۔ بلاشبہہ ہم خدائی فوج دار نہیں‘ لیکن خدا کے سپاہی اور اُمت مسلمہ کے ارکان تو ہیں۔ یہ اُمت ایک اُمت ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّ ھٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً (الانبیاء ۲۱:۹۲) بلاشبہہ تمھاری یہ اُمت ایک اُمت ہے۔ موصوف کے یہ ارشادات دراصل پاکستان کے نظریے پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کا نظریہ اسلام ہے۔ اس کی تشکیل میں برعظیم کے مسلمانوں نے حصہ لیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں مفتی اعظم فلسطین نے ایک تقریر مکہ مکرمہ میں کی تھی جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو ایک مرکز کی ضرورت تھی اور علامہ محمد اقبالؒ کی خواہش تھی کہ برعظیم میں مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جو اُمت مسلمہ کو مرکز و محور عطا کرے۔ اس کے لیے برعظیم کے ان مسلمانوں نے بھی اس کی تشکیل میں حصہ لیا جن کو معلوم تھا کہ وہ خود اس میںشامل نہیں ہو سکیں گے۔
قائداعظم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو ہمیشہ اپنے مسائل کے طور پر پیش کیا اور خصوصیت سے مسئلہ فلسطین پر پوری مغربی دنیا کو ناراض کر کے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ فلسطین ہو یا شیشان‘ بوسنیا ہو یا کوسووا‘ خلافت کا مسئلہ ہو یا الجزائر کی جنگ آزادی‘ پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ آج ’’خدائی فوج دار‘‘ کی پھبتی کس کر اُمت کی وحدت اور مظلوموں کی اعانت سے دست کشی کی باتیں ہو رہی ہیں جو ایمان اور غیرت دونوں کے منافی ہیں۔ اور اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے وژن سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت کے مترادف ہیں۔ اقبال کا پیغام تو ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ تھا۔ جنرل صاحب کون سے اقبال اور قائداعظم کی بات کر رہے ہیں؟
جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ نام تو نہیں لیا لیکن ان کے ارشادات میں امریکی اور صہیونی اثرات کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کا فلسطین سے قلبی لگائو ہے۔ مسئلہ فلسطین دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اُمت مسلمہ سے کاٹنا اور اُمت کا تصور ختم کرنا یہودی لابی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ امریکی اور مغربی اقوام اُمت کے تصور کو ختم کر کے مسلمانوں کو وطنیت اور لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ استعماری ایجنڈا ہے۔ اگر آپ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں تو پھر ان کے نظریہ قومیت کو بھی تسلیم کر لیں۔ اقبال نے اسرار و رموز میں مسلم فرد کی شخصیت کی پرورش اور مسلم اُمت کی تشکیل کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے اور اس طرح اسلام کے تصور قومیت کو واضح کیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوںکو یہ کہنا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے بے فکر ہو جائیں‘قرآن و سنت کے واضح ارشادات ‘ نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مغربی اقوام نے خلافت کو ختم کر کے عربوں اور ترکوں کو قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا اور یہی وہ تقسیم در تقسیم ہے جو اُمت کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔ اس پس منظر میں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دینے کا مطلب یہی نہ ہو کہ پاکستانی قوم کو کل اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ امریکہ نوازسیکولر لابی مدت سے یہ پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ پاکستان کو جب ضرورت پڑتی ہے تو کوئی مسلمان ملک اس کی حمایت کے لیے آگے نہیں آتا تو ہم کیوں ان کے مسائل کے لیے اپنے لیے مشکلات پیدا کریں۔
فلسطین کو عربوں کا مسئلہ قرار دینا یا اسے محض فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے۔ القدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے اور پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دوسروں کا نہیں خود ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمانوں کی دوسری حکومتیں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی میںآزاد نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان کی حکومتوں پر قابض گروہ‘ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی استعمار کے مفادات کے تابع ہیں۔
پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر کیا:
فرد قائم ربط ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
لیکن ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ جنرل صاحب اقبال کے پیغام کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقبال نے اس شعر میں ملّت اسلامیہ سے مربوط ہونے کی تلقین کی ہے۔ ملّت سے ان کی مراد مسلمانوں کی اُمت ہے اور قومیت کا اسلامی تصور ان کے پورے پیغام کی روح ہے۔ ان کی تو تعلیم ہی یہ ہے کہ: ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
یہ تصورِ قومیت قرآن کریم کا پیغام اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کا اصل سبق ہے ۔ پاکستان کی ملّت اسلامیہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے تصورِ قومیت کو قبول نہیں کرے گی۔
یہ درست ہے کہ ہمیں دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اپنے ملک کے اتحاد‘ دفاع اور استحکام کو اولیں اہمیت دینی چاہیے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم استحکام پاکستان کے نام پر اس بنیادی تصورِ قومیت کی نفی کر دیں جس پر پاکستان بنا ہے۔
یہ پاکستان اگر مستحکم بن سکتا ہے اور متحد رہ سکتا ہے تو اسلام کے تصورِ قومیت کی بنیاد پر ہی متحد رہ سکتا ہے ورنہ علاقائی اور لسانی قومیتوں کے پرچارک مغربی آقائوں کی سرپرستی حاصل کر کے اس کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے ایک اور خطرناک مغالطہ خود جہاد کے تصور کے بارے میں دیا ہے۔ جس حدیث کا سہارا لے کر انھوں نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی بات کی ہے اہل علم جانتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے مفہوم کے معتبر ہونے کے باوجود اس کے الفاظ اور حضورؐ سے اس کی نسبت ثابت اور محکم نہیںنیز اس کی جو تعبیر موصوف نے فرمائی ہے وہ غلطیوں کا مجموعہ اور اسلام کے تصور جہاد کی ضد ہے۔ اس کا مطلب جہاد کا ختم ہونا نہیں‘ جہاد کی تمام جہات کا ادراک اور ان کی وحدت ہے۔ بلاشبہ اسلام کا تصور جہاد بڑا جامع اور منفرد تصور ہے۔ یہ انسانیت کو ظلم و طغیان اور فساد و افتراق سے محفوظ رکھنے اور اللہ کی رضا کے لیے اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے جان اور مال کی بازی لگانے سے عبارت ہے۔ جہاد ایک عبادت ہے اور اللہ کے دیے ہوئے قانون اور شریعت کا ایک لازمی اور ناقابل تنسیخ اور اٹل حکم ہے۔ جہاد سب سے پہلے خود اپنے نفس کی اصلاح سے عبارت ہے تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو اور انسان محض مال و متاع‘ قوت و اقتدار‘ زمین اور جاہ وحشم کے حصول کے لیے سرگرداں نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کا طالب‘ اس کے دیے ہوئے اخلاقی ضابطے کا پابند اور صرف ان مقاصد اور اہداف کے لیے سرگرم عمل ہو جنھیں اللہ نے معتبر قرار دیا ہے۔ جیساکہ اقبال نے کہا: ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جہاد زبان اور قلم سے حق کی بات کو ادا کرنے اور عدل و انصاف اور اطاعت الٰہی کے نظام کے لیے دلوں کو مسخر کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل جہادقرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ جہاد‘ ظلم اور باطل کی قوتوں سے ٹکر لینے کا نام ہے‘ تاکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور انسان جبرو ظلم کے نظام سے نجات پاسکے۔ یہ جہاد جسم و جان‘ مال و دولت اور شمشیر و سناں سب سے ہے۔ لیکن جہاد میں مصروف تلوار صرف حق کے دفاع اور مظلوم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کسی پر ظلم کرنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اور اس سے جہاد اکبر اور جہاد اصغر یک رنگ ہو جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جسے جہاد اکبر اور جہاداصغر کہا گیا ہے وہ دو الگ الگ چیزیں نہیں‘ ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ جہاد اکبر قلب کی اصلاح‘ تزکیہ نفس‘ اعلیٰ اخلاقی صفات کی پرورش‘ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی پوری پوری پاسداری کا نام ہے ۔ جہاد بالسیف بھی بعینہٖ انھی مقاصد اور انھی اقدار کے حصول اور تحفظ کے لیے ضرورت کے وقت قوت کے استعمال کا نام ہے۔ میدان کارزار میں بھی تقویٰ اور تزکیہ ہی اصل ہتھیار ہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا ہی مسلمان کی شان ہے۔
اس پس منظر میں جنرل صاحب کا یہ ارشاد کہ ’’غزوئہ خیبر کے بعد حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اب جہاد اصغر ختم ہو گئی ہے لیکن جہاد اکبر شروع ہے یعنی عسکری جہاد جو چھوٹی جہاد ہے وہ ختم ہے اور پس ماندگی اور جہالت کے خلاف جہاد جو کہ بڑی جہاد ہے‘ وہ شروع ہے۔ اس وقت پاکستان کو جہاد اکبر کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یاد رکھیں کہ عسکری جہاد صرف حکومت وقت کے فیصلے سے ہو سکتی ہے‘‘۔ جنرل صاحب کا اس تحدی کے ساتھ جہاد اصغرکے ختم ہوجانے کی بات کرنا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ لازماً ان کے یہ الفاظ کم علمی اور بے احتیاطی کا نتیجہ ہیں ورنہ جہاد اصغرکے ختم ہونے کی بات کسی مسلم کے قلم یا زبان سے نہیں نکل سکتی۔ یہ تو مستشرقین کا مشغلہ اور بہاء اللہ اور غلام احمد قادیانی جیسے دشمنانِ دین کا فکری شاخسانہ ہے ورنہ غزوئہ خیبر (۷ھ) کے بعد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت میں غزوئہ موتہ (جمادی الاول ۸ھ)‘ فتح مکہ (رمضان المبارک ۸ھ)‘ غزوئہ حنین (شوال۸ھ)‘ محاصرہ طائف (شوال ۸ھ) اور غزوئہ تبوک (رجب ۹ھ) واقع ہوئے اور پھر عہد صدیقی (۱۱-۱۳ھ) سے لے کر آج تک جہاد مسلمانوں کا شعار اور اسلام کی قوت اور سطوت کا ضامن رہا ہے۔ یہی وہ تاریخی روایت ہے جسے اقبال نے ’’ترانہ ملّی‘‘ میں یوں پیش کیا ہے:
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے‘ قومی نشاں ہمارا
جنرل صاحب جو اس فوج کے چیف آف اسٹاف ہیں جس کا موٹو ہی ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے بزعم خود جہاد اصغر کے ختم ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اکبر اور اصغر ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جو ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے حسین الفاظ میں مجسم کر دیے گئے ہیںاور ان کے درمیان کوئی فصیل حائل نہیں کی جا سکتی۔
جس عمل کی طرف اس حدیث میں اور قرآن و سنت کے دوسرے احکام میں متوجہ کیا گیا ہے اور جسے یہاں جہاد اکبر کہا گیا ہے‘ وہ تزکیہ نفس‘ اصلاح ذات‘ حصول تقویٰ‘ اخلاقی اور روحانی بالیدگی کا حصول ہے‘ تاکہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے استعمال ہوں۔ بلاشبہہ پس ماندگی اور غربت کے خلاف جدوجہد اسلام کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے ۔ دین اسلام‘ تمام انسانوں کے لیے روحانی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ مادّی ضرورتوں کی فراہمی اور حیات طیبہ کے حصول کی ضمانت دیتا ہے‘ تاکہ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَھُمْ مِنْ خَوْف کی کیفیت پیدا ہو سکے۔لیکن احادیث نبوی ؐ اور احکام شریعت کی تعبیر اور تشریح کا کام بڑی احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ خیبر سے واپسی پر جہالت اور پس ماندگی کے خلاف جہاد اصل ایشو نہ تھا بلکہ وسیع تر معنی میں تزکیہ نفس اور اخلاقی قوت کی تعمیر تھا۔ حدیث کو اسی معنی میں پیش کرنا چاہیے جو اس کا مدعا ہے۔ غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے لیے دوسرے احکام موجود ہیں۔ اس کے لیے اس حدیث کا استعمال صحیح نہیں۔
عسکری جہاد جسے جہاداصغر کہا گیاہے‘ اس کے ختم ہونے کا ارشاد تو صریح مداخلت فی الدین اور اسلام کے ابدی قانون کو منسوخ قرار دینے کی مذموم کوشش ہی سمجھی جائے گی خواہ یہ حرکت نافہمی ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جنرل صاحب کو یہ کس نے بتا دیا کہ عسکری جہاد کے اعلان کا صرف ایک طریقہ ہے۔ بلاشبہہ اسلامی ریاست کا یہ حق اور فریضہ ہے کہ جب حالات جہاد کا تقاضا کریں تو وہ جہاد کا اعلان کرے لیکن حالات کی مناسبت سے اس کی دوسری جائز اور مشروع شکلیں بھی ہیں۔ اگر اسلامی ریاست قائم نہ ہو تو اس کو قائم کرنے کے لیے بھی جہاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کے جبری تسلط کے تحت ہوں تووہ اپنی آزادی کے لیے اپنے علما کے مشورے سے عسکری جہاد کرسکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ شیخ یوسف القرضاوی اور علماے اُمت نے فلسطین اور کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا۔ کوئی حکومت اعلان کرے یا نہ کرے‘ جہاد کا فیصلہ حالات کی روشنی میں شریعت کے اصولوں اور ضوابط کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس علم سے جنرل صاحب واقف نہیں اس پر کرم نہ فرمائیں تو ان کے لیے بھی بہتر ہے اور اس مظلوم اُمت کے لیے بھی اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لیے بھی۔
یہ بھی پیش نظر رہے تو مناسب ہے کہ جہاد اسلامی مخالف قوتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ یہی وہ قوت ہے جس سے ان کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ان کے ظلم و تعدّی کا مداوا ممکن ہے۔ دور جدید میں جب استعماری قوتوں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا تو ان کے دو ہی ہدف تھے: ایک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور دوسرا مسلمانوں کا تصور جہاد۔ حضورؐ کی ذات اور تعلیمات اس اُمت کی شناخت اور اس کے عالمی کردار کی صورت گر ہیں اور جہاد وہ قوت ہے جس کے ذریعے شیطانی نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے اور انسانیت کو ظلم کے چنگل سے نکالنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ یہی چیز غیروں کے غلبے اور تسلط کی راہ میں حائل ہے اور یہی ان کا ہدف ہے۔ اقبال نے ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بتایا ہے کہ ساری سازش مسلمان کو جہاد ہی سے دست بردار کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔
اس میں کیاشک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوے غلامی میں عوام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
’ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام‘
اقبال کی نگاہ میں دورِ حاضر میں ابلیس کی ساری حکمت عملی یہی ہے کہ مسلمان جہاد کو ترک کر دے اور دوسرے مشغلوں میں مصروف رہے۔ اس کا مشورہ یہی تھا کہ:
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشاے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
جہاد اسی احتساب کائنات کا دوسرا نام اور اس کا موثر ترین ذریعہ ہے اسی لیے ابلیس کا نسخہ یہ ہے کہ:
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
یہ تو ہے شیطان کی حکمت عملی جس کی آواز بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ اقبال نے ان ہدایات کا برملا اظہار کر دیا ہے جو ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کو دی ہیں:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ رختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
جہاد کے بارے میں ضرب کلیم میں اقبال نے اپنے دور کے سارے مباحث کو چند شعروں میں بیان کر دیا ہے:
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر
تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
اور پھر ’جہاد اکبر‘ اور ’جہاد اصغر‘ کے حسین امتزاج کی طرف اُمت کو بلایا ہے جو اسلام کی اصل تعلیم ہے:
سوچا بھی ہے اسے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار
اس بیت کا یہ مصرِع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار
ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ!
حقیقی جہادی کلچر ہی آج ہمارے ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تحریک کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی تائید حسب سابق جاری رکھے گا اور یہ بھی بجا طور پر کہا ہے کہ کشمیر ہمارے جسم میں خون کی طرح رواں ہے‘ لیکن دو جہادی تنظیموں پر پابندی لگا کر‘ ان کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر کے‘ جہادی فنڈ کو ضبط کر کے وہ عملاً کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اگر امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے نتیجے میں وہ دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سے بھارتی قیادت اور امریکی شاطر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر بھی اس کی زد میں آتی ہے تو جنرل صاحب کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ بجا‘کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے اور پاکستان میں اتنی بڑی فوج کا کوئی جواز ہے تو وہ کشمیر کی رِگ جان کی حفاظت اور بھارت کے توسیعی عزائم کے مقابلے ہی کے لیے ہے لیکن جو کچھ جہادی تنظیموں کے ساتھ اب کیا جا رہا ہے اور جس طرح جہاد اور جہادی کلچر کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جا رہا ہے‘ اور اس سے جو پیغام مقبوضہ کشمیر میں جان کی بازی لگا دینے والے نوجوانوں کو دیا جا رہا ہے وہ تباہ کن ہے۔ اگر فی الحقیقت کشمیر ان رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے تو پھر اسے جہاد آزادی کو سیراب کرنے کا سامان کرنا چاہیے ورنہ : ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘ تو پھر لہو کیا ہے؟
جنرل پرویز مشرف صاحب کی تقریرمیں پسپائی کے بہت سے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے‘ شوریٰ اور ملک کے عوام اور ان کے قابل اعتماد نمایندوں کے ذریعے نہیں ہو رہے‘ ساری قوت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے اور ایک فردِواحد نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اوڑھ لی ہے کہ وہی قومی مفاد کا واحد شناسا اور محافظ ہے۔ آمریت بظاہر مضبوطی کی مدعی ہوتی ہے لیکن فی الحقیقت اس سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا۔
اس وقت ہمارے ملک میں قومی مفاد اور مصلحت کا محافظ کون ہے؟ پارلیمنٹ موجود نہیں ہے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر دستورِ پاکستان کے بجائے جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلانیہ اقرار کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی ذات میں چیف آف آرمی اسٹاف کے علاوہ چیف ایگزیکٹو اور صدر کے مناصب بھی سمیٹ رکھے ہیں۔ فوج کے کور کمانڈروں اور جرنیلوں کے بارے میں انھوں نے فرانس میں بیان دیا کہ"I command and they follow" (میں حکم دیتا ہوں اور وہ احکامات بجا لاتے ہیں)۔ کیا ایک ایسے فردِ واحد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر دینا جو اتفاقاً بری فوج کا چیف آف اسٹاف بن گیا اور جس کو کسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے‘ ملک کے چودہ کروڑ عوام کی حق تلفی نہیں ہے؟
بد قسمتی سے اسی دور میں۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد وہ شدید بحرا ن پیدا ہو گیا جس کے با رے میں خو د پرویز مشرف نے سیا ست دا نوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا: ملکی تا ریخ میں اس سے زیادہ خطرناک صو رت حا ل پہلے پیدا نہیںہو ئی اور یہ کہ صدر بش نے ہمیں کہا کہ سا تھ دے کر اکیسویں صدی میں ترقی اورخو ش حا لی کے راستے پر جا نا چا ہتے ہو یا سا تھ دینے سے انکا ر کر کے پتھر کے زما نے کی طرف لو ٹنا چا ہتے ہو۔ اس مو قع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ اگر بحران اتنا شدید ہے کہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ ملکی تا ریخ میں اس سے شدید تربحران پہلے نہیں آیا تو اس بحران کا سا را بوجھ آپ نے صرف تنہا اپنے کندھوں پر کیوںاُٹھا رکھا ہے؟ اس کا کو ئی جواب جنرل پرویز صا حب سے بن نہیں پایا ۔
اس دورا ن میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جن لوگوں کی سرپرستی کر کے افغا نستا ن میں حکمرانی دلوا ئی تھی‘نہ صر ف ہم ان کی تبا ہی میں شریک ہو ئے بلکہ جب طالبان کی حکومت ختم ہو ئی تودُنیا بھر کے سفا رتی آداب کے خلا ف اسی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے سفیر براے پاکستان کو امریکی حکو مت کے حوا لے کردیا۔ اگر ملک میں کو ئی آئین ہو تا‘ آئینی ادارے ہو تے‘ ملک کے مفا دات اور مصلحتوں کی نگرا نی میں یہا ں کے چو دہ کروڑ عوام کا بھی کوئی حصہ ہوتا تو یہ بے حمیتی اور بے مروتی ہماری قو م کے حصے میں نہ آتی۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مجا ہدین جنھو ں نے ہرمشکل محا ذ پر پاکستانی افوا ج کا سا تھ دیا ، آج امریکی حکم پر اسی فوجی حکومت کے زیر عتا ب ہیں۔ حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہربھا رت کی خوا ہش پر زیر حرا ست ہیں۔
۱۲جنوری کی تقریر میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ساتھ سپاہ صحابہ‘ تحریک جعفریہ اور تحریک نفاذ محمدیؐ کو بھی کسی عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر خلاف قانون قرار دے دیا ہے اور ان کے سیکڑوں کارکنوں کو زیرحراست لے لیا ہے۔ ان پر جو الزامات تھے اور ان کے گرفتار شدگان پر جو مقدمات قائم ہیں ان کی سماعت اور عدل کے مطابق فیصلے سے انھیں کس نے روکا تھا؟ ان میں جن افراد نے واقعی جرم کیا ہے قانون‘ ضابطہ اور عدالت اس کے لیے قائم ہیں مگر یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اندھادھند سبھی کو یوں جیلوں میں ٹھونس دینے کا کیا جواز ہے۔ امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں گرفتار شدگان کی تعداد: ۱۹۷۵ کا اعلان کرے تو یہ سمجھنا کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے تحت کیا جا رہا ہے‘ کوئی غلط بات نہیں۔ انھیں قوم کے آزاد فیصلے نہیں کہا جا سکتا۔
اخبا را ت شذرے لکھ رہے ہیں۔تجزیہ نگار اور کالم نویس لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔ اخبا ر کے قا رئین خطو ط لکھ رہے ہیں۔سیا ست دان آل پا رٹیز اجتماعات منعقد کر کے عبو ری قومی حکو مت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور آزادانہ انتخابات کے مطالبے کررہے ہیں‘ لیکن جنرل پر ویز مشرف صاحب بضد ہیں کہ وہ دستور میں اپنی مرضی کے مطا بق ترمیم بھی کر یں گے‘آیندہ کے لئے صدر بھی رہیں گے‘ سیکو رٹی کو نسل قا ئم کر کے پارلیمنٹ پر ایک با لا دست ادا رہ بھی قا ئم کر یں گے اور اقتدار اس وقت چھو ڑیں گے جب وہ اس پر مطمئن ہو ںگے کہ انھوں نے قوم کو ٹھیک کرنے کا اپنا کا م مکمل کر لیاہے۔
اگر اس صورت حال کے خلاف عوام میں آواز اٹھائی جاتی ہے تو بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اگر فوج سے کہا جاتا ہے کہ: تمھی نے درد دیا ہے‘ تمھی دوا دینا___ تو کہا جاتا ہے کہ: تم فوج کو جانتے نہیں ہو اور فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہو‘ فوج تمھیں سبق سکھا دے گی۔ یعنی وہ مطلق العنان حکمران رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ذاتی فیصلوں پر تنقید کو ’’فوج کے خلاف تنقید‘‘ کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فوج کا حکمران ملک کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہو (جو دونوں سیاسی عہدے ہیں) اور جب وہ فوج کی قوت اور قیادت کو اپنے سیاسی پروگرام کی اصل قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرے تو پھر اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی اقدامات کو عوامی تنقید اور احتساب سے بالا رکھے یا فوج کے بنکر (پختہ مورچے) میں بیٹھ کر اور فوج کی چھتری استعمال کر کے سیاست کرے۔ فوج اور اس کی قیادت کو دستور کے تحت احتساب سے بالا نہ ہوتے ہوئے بھی ایک تحفظ حاصل ہے اور وہ ملکی دفاع کے لیے ضروری ہے لیکن یہ تحفظ صرف اس فوجی قیادت کے لیے ہے جو سیاست میں ملوث نہ ہو۔ جب آپ اس سیفٹی لائن کو پار کر کے سیاست کے سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ہیں تو پھر آپ میں تنقید اور احتساب کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم تو ہمیشہ سے اس کے قائل ہیں کہ فوج کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر اسے سیاست میں کھینچ کر متنازع بنایا جا رہا ہے جس کی ذمہ داری ان پر ہے جو فوج کو اس کی دستوری ذمہ داریوں سے ماورا استعمال کر رہے ہیں۔
اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے جمہوری طریقہ کار یہی ہے کہ سیاست دان مل کر عوامی حقوق اور دستور کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں اور جو مطالبات آل پارٹیز کانفرنس نے طے کیے ہیں ان کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست دانوں نے خرابیِ بسیار کے باوجود بھی سبق نہیں سیکھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو شریک اقتدار ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے لیے وہ آسان راستہ یہی سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف صاحب کا قرب حاصل کیا جائے اور ان کی بے جا حمایت کی جائے۔جن لوگوں کو کوشش کے باوجود جنرل صاحب کا قرب نہیں ملتا اور وہ جنرل صاحب سے مایوس ہوگئے ہیں وہ بھی دینی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہیں کہ اس طرح امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ اقتدار سے اور دُور ہو جائیں گے۔ جان لینا چاہیے امریکہ اور فوج کی رضامندی حاصل کر کے جو حکومت بنے گی وہ پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی‘ جبکہ ہمارے ملک میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ہمارا سول انتظامی ڈھانچا‘ معاشی نظام ‘ عدالتی نظام اور افواج پاکستان کا نظم برطانوی استعمار کے تربیت یافتہ گروہ کے ہاتھ سے نکل نہیں سکے ہیں۔ ملک میں ایک طرف غربت ہے اور ۳۰ فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی مکمل غذا‘ علاج‘ تعلیم اور رہایش کی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ ایک کم تعداد لوگوں کی ایسی بھی ہے جو ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک جمع کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعدادبڑے سول اور ملٹری بیورو کریٹس کی ہے۔ کرپشن کے خلاف ایک مسلسل تحریک کے نتیجے میں بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں ختم ہوئیں اور اسی تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر جنرل پرویز صاحب برسرِاقتدار آئے‘ لیکن کرپشن کے خلاف احتساب کو بلیک میلنگ اور سیاسی سودے بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی پہلے ہوا اور یہی آج ہو رہا ہے۔ جو سیاست دان جنرل صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائے وہ ہر طرح کی بدعنوانی کے الزام سے پاک و صاف ہو کر ہم خیال بن جاتا ہے اور جو ہم خیال بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس پر کوئی بھی الزام نہ لگ سکے‘ پھر بھی پابجولاں ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے لوگ بھی ایسے مل سکیں جو امریکہ یا پرویز مشرف صاحب کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام کو ساتھ ملا کر معاشرے کو ایک حقیقی اسلامی جمہوری عادلانہ رنگ میں رنگنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوں‘ وہ متحد ہو کر آگے بڑھیں اور عوام الناس کو ساتھ لے کر ان مطالبات کے لیے تحریک چلائیں‘ جس پر ملک کی تمام بڑی جماعتیں متفق ہیں‘ یعنی:
ملک کے موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اوروہ مندرجہ بالا خطوط پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور جمہوری عمل کے ذریعے ایک خدا ترس‘ عوام دوست ‘ لائق اور امین قیادت کو زمام کار سونپنا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی اپنی افواج اور ان کی قیادت سے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ وہ پوری حکمت اور دانش مندی کے ساتھ اور کسی تاخیر کے بغیر وہ راستہ اختیار کریں گے‘ جس کے نتیجے میں ملک کا دستور‘ جو اسلام‘ جمہوریت اور اصول وفاق پر مبنی ہے‘ اپنی اصل روح کے مطابق موثر رہ سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے واضح الفاظ میں قوم اور قیادت سے کہا تھا:
’’جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اپنے اس اصولی موقف کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ ملک ماضی میں مارشل لا کے متعدد تجربات کر چکا ہے اور ہمارے مسائل کا حل مارشل لا نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آزمائی ہوئی اور کرپٹ سیاسی قیادتوں کے درمیان محض چہرے بدلنے سے ہم مسائل کی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے‘ جس میں ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں نے ملک و ملّت کو دھنسا دیا ہے۔ اسی طرح محض ایسے ٹیکنوکریٹ بھی‘ جن کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور جو ان کے سامنے جواب دہ نہ ہوں‘ صحیح قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔ نیز فوجی قیادت کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ماضی کے دونوں حکمران یعنی بھٹو فیملی اور شریف فیملی جنھوں نے فسطائیت اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے‘ مارشل لا ادوار ہی کی پیداوار تھے اور اگر ایسے ہی کچھ لوگ ایک بار پھر آگے آتے ہیں تو نتائج اور عوامی ردّعمل ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا ہے۔ افسوس کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب بھی اصلاح کا ایک ہی راستہ ہے اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس (۷ تا ۹ جنوری ۲۰۰۲ء) میں ایک بار پھر بہت واضح الفاظ میں ملک کو خطرات اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے دستور کے تحفظ‘ انتخابی عمل کے آغاز‘ معتمدعلیہ حکومت کے قیام اور دستور کے مطابق اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور فیڈریشن کے اصول پر ایک منصفانہ معاشرہ اور جمہوری سیاسی نظام کے قیام کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں شوریٰ نے جو مطالبات کیے ہیں‘ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱- حکومت پاکستان بیرونی دبائو میں آکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی ناپاک سازش میں شرکت سے گریز کرے۔ پاکستان کے آئین اور تحریک پاکستان کے مقاصد اور وعدوں کے مطابق اسے حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
۲- ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین کو بحال کیا جائے۔ حکومت کو اس میں ترمیم کرنے کا سرے سے کوئی اختیار حاصل نہیں اور کسی عدالت کو بھی اسے یہ اختیار عنایت کرنے کا حق نہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا اقدام ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا دستور میں بیان کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی دستوری ترمیم کرنے سے اجتناب کیا جائے اور جمہوری اداروں پر بالادست کوئی ادارہ کسی بھی نام سے نہ بنایا جائے۔
۳- حکومت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کرانے کا عمل بلاتاخیر شروع کرے۔ یہ انتخابات آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق متناسب نمایندگی کے اصول پر شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہوں۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بلاتاخیراہل‘ دیانت دار اور قابل قبول افراد پر مشتمل ایک آزاد اور کلیتاً خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ نیز صدر کا انتخاب بھی آئین میں درج طریق کار کے مطابق کرایا جائے۔
۴- انتخابات ایک ایسی عبوری سول حکومت کے تحت کرائے جائیں جو دیانت دار‘ امانت دار اور اہل افراد پر مشتمل ہو اور اس میں شریک افراد خود انتخابات میں حصہ نہ لیں۔
۵- سیاسی اور دینی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔ عوام کے بنیادی حقوق بحال کیے جائیں۔ جماعتوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی راہنمائوں کو رہا کیا جائے۔
۶- مسئلہ کشمیر کے بارے میں حکومت شکوک و شبہات کا ازالہ کرے اور اس بات کا کھل کر اعلان کرے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت ہمارا فرض ہے اور بھارت اپنی سات لاکھ جارح فوج کو فی الفور واپس بلائے جو برسوں سے دہشت گردی میں ملوث ہے۔
۷- افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی فوجیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور جو ہوائی اڈے اور دوسری سہولتیں ان کو دی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں۔ امریکہ میں جن پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی فوری رہائی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ نیز جو پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔
۸- بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو تیار کیا جائے اور معذرت خواہانہ رویہ اور اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی فوجیں اور جنگی سازوسامان سرحدوں سے پیچھے ہٹائے۔
مجلس شوریٰ کے اس اجلاس نے واشگاف الفاظ میں اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگی۔ قوم کا بچہ بچہ افواج کے شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کرے گا اور دشمن کو عبرت ناک شکست دے گا‘ ان شاء اللہ!
نیز مجلس شوریٰ نے ملک کی تمام محب وطن سیاسی اور دینی جماعتوں سے بھی ملکی سالمیت‘ بقا اور اسلامی نظام کے قیام اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی مشاورت اور تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ ملک کو خطرات سے بچا کر ایک مرتبہ پھر جمہوری پٹڑی پر ڈالا جاسکے تاکہ پاکستان اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے خواب اور تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق حقیقی معنوں میں ایک فلاحی‘ جمہوری اسلامی مملکت بن سکے۔
پاکستان کے معاشی‘ سیاسی ‘ اخلاق اور نظریاتی مستقبل کا انحصار صحیح جمہوری نظام کے قیام پر ہے لہٰذا جو بھی اس ملک کا حقیقی بہی خواہ ہے اسے اس کو ملک کو قبرستان بنا کر اس پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔ کسی کو بھی جمہوری عمل کے احیا کا راستہ نہیں روکنا چاہیے اور جلد از جلد جمہوری اور دستوری عمل کی بحالی کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔
عوامی قیادت کو عوام تک پہنچنے کے راستے کھول دینے چاہییں اور اداروں کے ذریعے مصنوعی قیادت تیار کرنے کا تجربہ کرنے کے بجاے فطری سیاسی قیادت پر پابندیاں ختم کر دینی چاہییں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تمام محب وطن دینی اور سیاسی قوتوں کے تعاون اور اشتراک سے وہ اجتماعی جدوجہد قوت پکڑے گی جس کے نتیجے میں قوم اپنی منزل کو حاصل کر سکے گی۔
یہ عوامی جدوجہد ایک جمہوری اور نظریاتی تحریک ہے جو تعمیر اور اصلاح کی داعی ہے۔ یہ کسی طرح بھی فوج کے خلاف نہیں۔ بلکہ یہ افواج پاکستان کے استحکام اور قوت کا باعث بنے گی۔ جو اضافی بوجھ افواج پاکستان پر ڈالا گیا ہے اس سے انھیں نجات ملے گی اور افواج پاکستان اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے سکیں گی۔ قوم جب بیدار اور متحد ہو تو اس کے تمام ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور پوری قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ ایک اچھا فوجی اپنی قوم کے منتخب نمایندوں اور اپنے ملک کے دستور‘ قانون اور ضابطوں کی پابندی کی فکر کرتا ہے۔ یہ اصرار کرنا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کے بجائے فوجی افسران قوم کو آئین اور ضابطے عطا کریں گے ‘ بے جا اصرار ہے۔ افراد آتے جاتے ہیں لیکن قومی روایات اور مشترک اقدار مستقل اور دیرپا حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی ٹیم پاکستان کے متفقہ دستور کے سامنے جھک جائیں تو اس سے وہ سرخرو اور سرفراز ہوں گے اور اسے ان کی عالی ظرفی سمجھا جائے گا۔ اس سے کسی طرح بھی ان کی سبکی نہیں ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ان تجاویز اور مطالبات پیش کرنے والوں کو فوج میں اختلاف ڈالنے کاالزام نہ دیں بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیںاور ملک و قوم کو اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں‘ وہ دوسروں کو بھی ان مشکلات کا حل پیش کرنے کا حق دار سمجھیں۔
اگرچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ملک کو زیادہ نقصان سیاست دانوں نے پہنچایا ہے یا سول اور ملٹری بیورو کریٹس نے‘ لیکن پاکستان کی تایخ سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا اور بار بار کی مداخلت سے فوج نے سیاسی عمل کو روکا ہے اور اپنی پسند کی قیادت کی پرورش کی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے بیرونی سرپرستی اور فوج کی سرپرستی پر تکیہ کرنے لگی ہیں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک سیاسی انتشار اور فساد پھیل گیا ہے۔ اس بیماری کا مداوا عوام کی طرف رجوع کرنے اور دستوری نظام کو بحال اور متحرک کرنے میں ہے۔ جمہوریت میں جو بھی خامیاں ہوں لیکن جمہوریت کی خامیوں کا علاج جمہوری عمل ہی کے ذریعے ہوتا ہے‘ بادشاہت یا آمریت کے ذریعے نہیں۔ یہ جمہوریت کی خامیوں سے بھی بڑی بلا ہے جس سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنا وقت کی بڑی ضرورت ہے اور یہ ضرورت تقاضا کر رہی ہے کہ محب وطن سیاسی کارکن‘ عوام الناس کو بیداری کی ایک ملک گیر جدوجہد کے لیے تیار کریں تاکہ عام انتخابات جلد از جلد منعقد ہوں اور ایک ایسی قیادت اُبھرے جس کے ہاتھوں ہمارے قومی دکھوں کا مداوا ہو سکے۔