فروری ۲۰۰۲

فہرست مضامین

مخلوط انتخاب: لادینی ریاست کی طرف ایک قدم

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | فروری ۲۰۰۲ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

]مخلوط انتخاب کے نفاذ کے لیے[اگر کسی مصلحت کی نشان دہی کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مخلوط انتخاب کا طریقہ رائج کرنے سے مختلف عناصرآبادی کے احساسِ اختلاف کو دبانا‘ ان کے امتیازی نشانات کو مٹانا‘ اور انھیں بتدریج ایک قومیت میں تبدیل کرنا مطلوب ہو۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز اوّل تو ہمیں مطلوب ہی نہیں ہے‘ اور اگر ہے تو اُس طریقے سے مطلوب نہیں ہے جس سے مخلوط انتخاب کے حامی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ اختلاف جس چیز کا نتیجہ ہے وہ دین کا اختلاف ہے۔ اسی چیز نے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان    خط امتیاز کھینچا ہے۔ اسی نے ان کے اصول‘ مقاصد‘ نظریات اور طرزِ حیات ایک دوسرے سے جدا کیے ہیں۔ اسی نے ان کے معاشرے الگ کیے ہیں اور ان کو الگ ملتوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے غیر مسلم ہم وطن مسلم ملّت میں جذب ہو جائیں۔ یہ بلاشبہ ہمیں مطلوب ہے‘ مگر اس مقصد کو ہم مخلوط انتخاب جیسے سیاسی ہتھکنڈوں سے حاصل کرنے کا کبھی خیال بھی نہیں کرسکتے۔ کسی شخص کو اسلام کے اصول پسند ہوں تو وہ سیدھے طریقے سے آئے اور ہماری ملّت میں شامل ہو جائے۔ ورنہ جس ملّت میں بھی رہنا چاہے‘ رہے‘ ہم اس کے تمام وطنی حقوق پوری فراخ دلی کے ساتھ تسلیم کریں گے۔ اس معاملے میں کسی قسم کی چال بازیوں سے کام لینا ہمارے لیے حرام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ مخلوط انتخاب کے حامی بھی اس کو حلال تسلیم نہ کریں گے۔

اب رہ جاتی ہے اس اختلاف و امتیاز کے مٹنے کی دوسری صورت اور وہ یہ ہے کہ یہاں سرے سے اسلام اور غیر اسلام کے فرق ہی کو مٹا دیا جائے اور دین کو تہذیب و تمدن سے بے دخل کر کے ایک ایسے مشترک لادینی کلچر کو نشوونما دیا جائے جو ایک متحدہ وطنی قومیت کی بنیاد بن سکے۔ یہ چیز اگر مطلوب ہو تو اس کے لیے مخلوط انتخاب محض پہلا قدم ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد لازمی طور پر دوسرا قدم لادینی دستورِ مملکت ہی ہونا چاہیے۔ اور پھر آیندہ اس مملکت کی ساری پالیسی یہ قرار پانی چاہیے کہ وہ عقیدے اور عبادات کے سوا زندگی کے باقی تمام شعبوں سے دین کے ایک ایک نشانِ امتیاز کو محو کر دے‘ حتیٰ کہ مسلم و غیر مسلم کے درمیان شادی بیاہ تک کی ہمت افزائی کرے تاکہ ’’پاکستانیوں‘‘ کے درمیان وہ معاشرتی علیحدگی باقی نہ رہے جو عملاً ان کو الگ الگ ملتوں میں منقسم کرتی ہے۔    ہم پوچھتے ہیں‘ کیا یہی چیز مخلوط انتخاب کے حامیوںکو مطلوب ہے؟ اگر یہ انھیں مطلوب ہے تو وہ اس کا صاف صاف اقرار و اعلان کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چند لادینی رجحانات رکھنے والے لوگوں کو مستثنیٰ کرکے پاکستان کا ہر مسلمان اس تخیل پر لعنت بھیجے گا۔ وہ کہے گا کہ اگر مجھے یہی کچھ کرنا ہوتا تو میرے لیے    اکھنڈ ہندستان کیا برا تھا۔ یہ مقصد تو وہاں بھی پورا ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے جان و مال کی اتنی قربانیاں دے کر   ایک الگ مملکت قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ (مخلوط انتخاب‘ ص ۷-۱۱)