۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے جو حالات ہیں‘ اور مسلمانوں پر جو کچھ گزر رہی ہے‘ اس سے یہ حقیقت بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اگر ہمیں اُمت کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے توتین پہلوئوں سے ضروری تدابیر لازماً اختیار کرنا ہوں گی:
۱- حقیقی شورائی نظام : اس نظام کے علاوہ اس اُمت کے لیے کوئی اور راہِ نجات نہیںہے۔ آمریت خواہ وہ فرد کی ہو یا خاندان کی یا پارٹی کی‘ بذاتِ خود پیغامِ موت ہے‘ خواہ غیر سیاسی ذہن رکھنے والے حضرات اس موت کو زندگی ثابت کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔ یوں بھی کہا جا سکتاہے کہ تلوار اور طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ کرنا شورائی نظام کی ضد ہے۔
شورائی نظام سے مراد نمایشی اور کھوکھلی شوریٰ‘ یا پارلیمنٹ‘ یا مجلس نہیں ہے بلکہ وہ نظام ہے جس میں حاکمِ ریاست کو منتخب کرنے کا حق ہر فرد کو حاصل ہوتا ہے اور جس میں کوئی فرد‘ خاندان‘ یا پارٹی اپنے فرد کوکبھی بادشاہ کے نام پر‘ کبھی صدرِ ریاست کے نام پر عوام کی گردنوں پر مسلط نہیں کرتی ہے۔
اس حقیقی شورائی نظام کی حقیقت اور ضرورت کو سیدنا عمرؓ بن خطاب نے اپنے اس تاریخی خطبے میں واضح کیا تھا جو انھوں نے اس اہم دستوری موضوع پر اپنی وفات سے چند روز قبل جمعہ کے دن مدینہ منورہ میں دیا تھا۔ اس خطبے کو امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے۔
۲- آزاد عدالتی و تحقیقی نظام: عدالتی نظام کو ہر طرح اور ہر معنی میںآزاد ہونا چاہیے۔ عدلیہ سے وابستہ تمام اداروں کو اثر و رسوخ‘ رشوت ستانی‘ اقربا پروری اور ہر قسم کی کرپشن سے پاک صاف ہونا چاہیے تاکہ جو تحقیقاتی نتائج کسی جج کے سامنے پیش کیے جائیں وہ قابل اطمینان‘ قابل بھروسا اور عدالتی معیارات پر کھرے اُتریں۔ ان اداروں میں سب سے پہلے پولیس اور خفیہ پولیس کے نظام اورافراد ہیں کیونکہ معاملہ موقع واردات ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر یہاں ہی گڑبڑ رہی اور ہوئی تو فیصلہ باطل ہی ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد جھوٹی ’’تحقیقات‘‘ اور’’معلومات‘‘ پر ہے اور ہوگی۔
۳- عصری علوم اور اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر کا فہم : عصرِحاضر کے مفتیانِ کرام اور ان اجتماعی اداروں کا‘ جوفتوے صادر کرنے کے اہم فرائض انجام دیتے ہیں‘ عصری تقاضوں اور عصری افکار و علوم سے باخبر ہونا ناگزیرہے۔ ان کا خصوصاً اسٹرے ٹیجک امور میں اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر کا حامل ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر یہ صفت ان میں نہیں ہے تو ان کو براعظم عبور کرنے والے میزائلوں‘ حیاتیاتی‘ کیمیاوی‘ اعصابی اور اقتصادی جنگ‘ نیزخوف و ہراس کی جنگ جیسے نہایت سنگین اور دُور رس اثرات کے حامل مسائل میں فتویٰ دینے کا ہرگز حق نہیں پہنچتا۔ یہ کوئی روایتی فقہی مسائل نہیں ہیں‘ یہ جدید دورکے مسائل ہیں جس میں نہ صرف قرآن کریم‘سنت ِ نبویہؐ اورفقہ میں گہری نظر چاہیے بلکہ ان کو ایک بالکل ہی نئی فقہ سے‘ جس کو میں ’’الفقہ الاسترے تیجی‘‘(حکمت عملی کا فہم)کا نام دوں گا‘ مسلح ہونا اور اس میں گہری نظر پیدا کرنا ضروری ہے۔
یہ’’حکمت عملی کا فہم‘‘ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اس کا تعلق گہرے علم اور گہری فکر سے ہے۔ اس کا تعلق ایسے نہایت نازک جذبات سے بھی ہے جو مستقبل کے احوال کا آئینہ بن کر اُمت ِ اسلامیہ کے حال اور مستقبل کے مفادات‘ ان کے بین الاقوامی تعلقات کی روشنی میں‘ معین کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کا لحاظ کر کے فتویٰ صادر کرتے ہیں‘ اور ان وسائل اور اسباب کاتعین بھی کرتے ہیں جن سے آج اور کل کے خطرات کو رفع بھی کیا جا سکتا ہے اور فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اسے دیگر معمول کے انسانی مسائل سے خلط ملط نہ کرنا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید اور قدیم علوم کے ماہرین اور فقہا مل جل کر ان مسائل میں راہِ حق و صواب تلاش کریں۔ ان میں نت نئی ایجادوں کے ظہور پذیر ہونے اور نئے نئے مسائل کے سامنے آمنے پر نظرثانی کی گنجایش بہرحال ہے۔
’’حکمت عملی کا فہم‘‘ عالمی امور‘ ان کے پس منظر‘ نئے نئے ہتھیاروں‘ قوموںکے اغراض و مقاصد اورمفادات اور ان کے شیطانی منصوبے اور اس کے نتیجے میں ان سے آج پیدا ہونے والی کش مکش اوراس کا جنگ کی شکل میں ارتقا اور اس کے خوف ناک نتائج‘ سب پر محیط ہے۔ اس میں ان سے نمٹنے کے لیے انسانی‘ مادی‘ اخلاقی‘ دینی اور دنیاوی مسائل اور ذرائع خود بخود شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کا حتمی نتیجہ سیاسی‘ عسکری‘ مالی‘ اقتصادی‘ اجتماعی اور بین الاقوامی اسٹرے ٹیجی کے میدانوں میں کام کرنے والے دانش وروں کا اپنے اپنے میدان میں‘اپنے اپنے تصورات اور نتائج فکر پیش کرنا اور پیش کردہ مسائل پر علماے کرام کی رہنمائی میں مسائل کا حل اور فتوے صادر کرنا ہوگا۔ تب یہ ممکن ہوگا کہ ہر صورت حال اور منظرنامے کے مطابق کم از کم عرصے میں مناسب ردوبدل کے ساتھ فتوے صادر کیے جا سکیں۔کیونکہ میدانِ عمل میں اور تصوراتی مناظر میں کافی فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے اور بعض اوقات توناقابلِ تصور اور ناقابلِ تصدیق منظرنامہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اس میدان کی طرف پیش رفت ناگزیر اور وقت کا تقاضا ہے۔
یہ کوئی مجذوب کی بڑ نہیں ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے نیویارک اور واشنگٹن کے حوادث کے بعد جو بدحواسی امریکی انتظامیہ پر چھائی ہوئی ہے‘ خصوصاً انتھراکس کے پھیلنے کے بعد‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا کچھ تیاری ہونا چاہیے۔
یہ دنیا سیدھے سادے لوگوں کی دنیا نہیں رہی ہے۔ اس لیے ہرمیدان میں اور ہر طرح کے تیز و طرار لوگوں کی ضرورت ہے جو مستقبل بعید کے ممکن احتمالات کا تصور کر کے ان کے حل تلاش کرسکیں اوران کے لیے مناسب تیاریاں بھی کریں۔
اب ہم اس تجویز کی عملی تطبیق کی طرف آتے ہیں۔ اس ضمن میں‘ دو مثالیں پیش کروں گا۔
ایک مثال انقلاب ایران ہے۔ اگر ہمارے فقہا اور قائدین اسٹرے ٹیجک نظر رکھتے توبرسوں پہلے شاہ کے زوال کا اندازہ کر کے آنے والے طوفان کا تصور کر کے مختلف منظرنامے تیار کرتے جن میں یقینا امریکی اور عراقی ردعمل کا منظرنامہ بھی شامل ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج مسلمان امریکی جال میں نہ پھنستے‘ خلیج اورسعودی عرب جنگ کا شکار نہ ہوتے اور عراق امریکی جنگ کا آلہ کار اور ہراول دستہ نہ بنتا۔ لیکن عملاً امام خمینی کے خلاف تکفیر کا فتویٰ جاری کیا گیا اور صدام کی امریکہ کے خلاف خلیجی جنگ کو جہاد مقدس قرار دیا گیا۔
اگر پیش بندی اور اسٹرے ٹیجی کے طور پر کچھ اقدامات اٹھائے جاتے اور کوئی منصوبہ پیش نظر ہوتا تو پھر امریکہ کو اپنے ریوالور کی آخری گولی کا نشانہ صدام اور عراق کو نہ بنانا پڑتا اور نہ امریکہ خلیج میں خوف وہراس اور دھونس اور دھاندلی کے ذریعے فوجی اڈے ہی حاصل کر سکتا تھا۔ وہ کویت پر عراقی قبضے کا ڈراما کھیلنے پر بھی مجبور نہ ہوتا۔
دوسری مثال سوویت یونین کا تقریباً ایرانی انقلاب کے وقت افغانستان میں گھس آنا تھا۔ یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ یہاں بھی امریکی جنگ تھی جو امریکہ اور امریکی افواج اور ان کے حواریوں کو لڑنی چاہیے تھی‘ لیکن امریکی حکمت عملی کو نہ سمجھا گیا۔ امریکہ نے روسی افواج کے مقابلے میں افغان عوام‘ عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے مجاہدین کو آگے کیا‘ خود پیچھے رہا‘ اسلحے اور دیگر سامان رسد کی فراہمی جاری رکھی اور گولیوں کا نشانہ مسلمان بنتے رہے۔ علماے دین اور دینی جماعتوں نے جنگی حکمت عملی‘ امریکی عزائم اور منصوبوں پر غور کیے بغیر اس جہاد کی تائید کی اور اس میں بھرپور حصہ لیا۔ یہاں ’’حکمت عملی کے فہم‘‘ کو کام میں لا کر روایت کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن قوتوں کے عزائم پر نگاہ رکھتے ہوئے مستقبل کے نتائج اور امکانات کے پیش نظر اسٹرے ٹیجی اپنانے کی ضرورت تھی‘ نہ کہ محض فتویٰ صادر کرنے کی۔
امریکہ کامیاب رہا۔ اس نے یہ جنگ مسلمانوں کے خون‘ لاکھوں شہدا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کے عوض جیت لی اور اپنی افواج اور قوت کومحفوظ رکھا۔ دوسری طرف وہ نوجوان جوجہاد میں عملاً شریک ہوئے اور عسکری تربیت حاصل کی وہ مسلح جدوجہد کے نقطۂ نظر کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے۔ مسلح جدوجہد کا تصور اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آیا۔ یہی مجاہدین پھر مختلف مسلح گروپوں کی صورت میں منظم ہو گئے۔ القاعدہ بھی اسی طرح منظم ہوکرسامنے آئی۔
آج وہی امریکہ سوویت یونین کے زوال کے بعد افغانستان میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی آڑ میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے پھر آن دھمکا ہے اور بڑے پیمانے پرتباہی و بربادی کے بعد اپنی من پسند حکومت قائم کر کے اپنے عزائم کے حصول میں سرگرداں ہے۔
یہ سبق ہیں جو ہمیں ماضی قریب کے حالات سے سیکھنے چاہییں اور حقائق کو دیکھتے ہوئے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی شورائی نظام‘ آزاد عدالتی و تحقیقی نظام اور جدیدفقہی و عصری تقاضوں کی روشنی میں حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ اُمت مسلمہ کے مستقبل کی صورت گری اسی طرح ممکن ہے۔