اکتوبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

کتاب نما

| اکتوبر ۲۰۰۲ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

تدبر حدیث‘ شرح موطا امام مالک‘ جلد اول‘ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ترتیب و تدوین: خالد مسعود+ سعیداحمد+سید اسحاق علی۔ ناشر: ادارہ تدبر قرآن و حدیث‘ رحمن سٹریٹ‘ مسلم روڈ‘سمن آباد‘ لاہور۔ صفحات: ۵۴۴۔ ہدیہ:۳۶۰ روپے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے پیرانہ سالی میں جب ان کی عمر ۸۰ سال سے متجاوز ہو چکی تھی‘ ۸۰کے عشرے میں‘ موطا امام مالک کا درس دیا۔ یہ اب ٹیپ سے اُتار کر تحریر کے اسلوب میں مرتب کرکے   شائع کیے جا رہے ہیں۔ اس جلداول میں کچھ منتخب ابواب‘ مثلاً: زکوٰۃ‘ بیوع‘ حدود‘ دیت اور دیگر شامل کیے گئے ہیں۔

موطا بنیادی طور پر فقہ کی کتاب ہے‘ اس لیے اس کی شرح میں فقہ کے متنوع مسائل زیربحث آئے ہیں اور چونکہ مولانا نے امام مالکؒ کے فتاویٰ اورآرا کا محاکمہ بھی کیا ہے‘ اس لیے فقہی مسالک کا تقابلی مطالعہ بھی ہو گیا ہے۔ اس بات نے اس کتاب کی قدر وقیمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا حدیث کی شرح کرنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ وہ سند کو روایت کی تحقیق کا صرف ایک ذریعہ سمجھتے ہیں‘ اسے غیر معمولی اہمیت نہیں دیتے اور متن کو فطرت اور عقل سے پرکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض روایات پر وہ صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’’یہ میری سمجھ میں نہیں آئی‘‘۔

سیرحاصل تبصرے کا تقاضا تو بہت کچھ ہے‘ مگر اس کی گنجایش نہیں‘ تاہم کچھ اقتباسات:

۱-  جھاڑ پھونک کے حوالے سے سات مرتبہ مسح کرنے کے سلسلے میں اعداد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ سب بغیر حکمت کے نہیں‘ دین میں ان کا لحاظ ہے۔ اگر کوئی چیز قرآن مجید یا صحیح حدیث سے ثابت ہو تو ہرچند اس کی حکمت معلوم نہ ہو‘ اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بلاحکمت بات ہے۔ ہاں اگر کسی ایرے غیرے کی بتائی ہوئی ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ (ص ۴۱۹)

۲-  بخارمیں پانی کے چھینٹے ڈالنے کی روایت کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’بیماریوں کے علاج کی روایتوں کو جمع کر کے لوگوں نے طب نبویؐ کو باقاعدہ مرتب کر کے پیش کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ایک متقی آدمی دوسرا علاج کیوں کروائے گا۔ وہ اسے تقویٰ کے خلاف سمجھے گا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی بیماریوں کے نہیں‘ بلکہ روحانی بیماریوں کے معالج ہو کر آئے تھے۔ (ص ۴۲۴)

۳-  داڑھی بڑھانے والی حدیث (اعفاء اللحی) کے حوالے سے: ظاہر مطلب تو یہ ہے کہ داڑھی کو بڑھنے دیا جائے‘ بالکل ہاتھ نہ لگایا جائے۔ لیکن ایک روایت میں آیا ہے کہ کان یاخذ عن یمینہ وشمالہ کہ آپ دائیں اور بائیں سے بال کاٹتے تھے۔ اگر دائیں اور بائیں سے بالوں کو کاٹ دیا جائے اور نیچے کی جانب بڑھنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو خدا جانے آدمی کیا بن جائے۔ لہٰذا روایت کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ داڑھی حسین ہو‘ بال دائیں بائیں اور طول و عرض میں کاٹے جائیں گے۔ اس کو ٹھیک کیا جائے گا… میرے نزدیک اعفا ء کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاڑھی چہرے پر نمایاں ہو اور اس کو سنوار کر رکھا جائے ۔ اس کو دیکھ کر یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ شیو بڑھی ہوئی ہے ۔ (ص۴۲۸)

۴-  نرد بساط‘ مہروں اور پانسے کے دانے پر مشتمل کھیل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھیل کو اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی قرار دیا ہے (ص ۴۴۹)۔ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: شیطان نے وقت ضائع کرنے کے لیے ان سے زیادہ کارگر نسخے ایجاد نہیں کیے۔ اگر اس سے بھی زیادہ کوئی لغو کام ایجاد کیا ہے تو وہ کرکٹ کا کھیل ہے۔ (ص ۴۵۰)

کتاب کا مکمل مطالعہ یقینا قاری کو تفقہ فی الدین کی لذت سے آشنا کرتا ہے۔ مجلد کتاب بڑے سائز میں ہے اور نفیس کاغذ پر معیاری‘ صاف ‘روشن اور اجلی شائع کی گئی ہے۔ (مسلم سجاد)


۱- دریچۂ نگاہ ‘۲- خدنگ تحریر ‘ ابوالامتیاز ع-مسلم ۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات۱-:۱۹۰‘ قیمت : ۲۴۰ روپے۔ صفحات ۲-: ۱۹۰‘ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

دونوں کتابیں مختصر اخباری مضامین اور ’کالمیات‘ کا مجموعہ ہیں۔ مجلد ہیں‘ دبیز کاغذ پر شائع کی گئی ہیں۔ ہر تحریر دل دردمند کی تڑپ کی تصویر ہے۔ بقول مصنف حالات کا زہر ان میں تلخی گھولتا گیا لیکن یہ تلخی اس سے کہیں کم ہے جو میرے اندر گھل رہی ہے۔ (ص ۲۳‘ خ ت)

خدنگ تحریر‘ تازہ تحریریں ہیں ‘جب کہ دریچہ نگاہ میں ۱۹۵۶ء اور بعد کی تحریریں ہیں لیکن ۴۶ سال قبل بھی حالات مختلف نہ تھے۔ فوجی حکومت کا تجربہ اس دور میں ہو گیا تھا۔ ’’پیچھے مڑ کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ۱۹۵۶ء میں ملک و معاشرے کی جو کیفیت تھی اور جس پر ہم اس قدر نالاں تھے‘ تقریباً نصف صدی کی ’ترقی یافتگی‘ اورترقی پذیری کے باوجود آج ہم اس سے بھی زیادہ پستی کی حالت میں نظر آتے ہیں‘ اس اضافے کے ساتھ کہ اس وقت امید‘حوصلے اور ولولے کی جو سوچیں اٹھ رہی ہیں‘ وہ بھی اب کہیں بکھر گئی ہیں۔ (ص ۲۰‘ د  ن)

یہ نہ سمجھیں کہ یہ وعظ ہیں۔ ہلکے پھلکے‘ مزاحیہ‘ حسن ادب کے نمونے‘ اشعار سے مزین (دل چاہتا ہے ہر صاحب ذوق پڑھے اور کچھ حاصل کرے) لیکن موضوعات: فوج کا آئینی کردار‘ آگرہ کی نوراکشتی‘ فی صد شماری کی طلسم کاری وغیرہ۔

مصنف شاعر ہیں۔ ان کے کئی مجموعۂ کلام بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ۳۰ سے زائد تصنیفات کی فہرست دی گئی ہے۔ بچوں کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ تجارت پیشہ ہیں۔ طویل مدت شارجہ میں رہے۔ایک بیٹے کی ذہنی معذوری کی وجہ سے ‘ اس میدان میں بہت مفید کام کیا۔ سائنوسا تنظیم بنا کر‘ اس کا رسالہ نکالا۔ کراچی میں دیوا اکیڈمی کتنے ہی معذور بچوں کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں خوب نوازے۔ ان کے جذبے کو عام کرے۔ (م - س)


تاریخ محمدﷺ ،ایم ڈی فاروق ایڈووکیٹ۔ ناشر: ادارہ اشاعت قرآن و تاریخِ اسلام (ہسٹری سنٹر) ۱۱۳-سی‘ ماڈل ٹائون‘ لاہور۔ صفحات: ۵۷۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

سیرت‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت اور اخلاق حسنہ کا نام ہے‘ جب کہ تاریخ‘  ماہ و سال کی واقعات نگاری ہے۔ فاضل مصنف کے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس‘ پوری تاریخ کی آئینہ دار ہے۔ آپؐ کی تاریخ کا مطالعہ تاریخی تناظر میں کرنا چاہیے۔ مصنف نے اپنے خیال میں زیرنظر تصنیف کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے طور پر پیش کیا ہے‘ سیرت کی کتاب کے طور پر نہیں۔ لیکن کتاب کا مجموعی اسلوب‘ ترتیب و مباحث مروجہ سیرت نگاری ہی کے مشابہ ہے۔

کتاب کے مباحث ایک مقدمے اور ۱۵ عنوانات پر مشتمل ہیں‘ جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اول: قبل از نبوت حالات (حضرت آدم ؑ تا آنحضرتؐ)‘ دوم: حضورِ اکرمؐ کے حالات (بہ ترتیب زمانی)‘ سوم: حضوراکرم ؐکا برپا کردہ انقلاب (تعلیمات کی اثرپذیری کے اعتبار سے)۔

مصنف کے خیال میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ انقلاب کو سمجھنے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تاریخِ عالم کا ادراک ضروری ہے مگر چھٹی اورساتویں صدی عیسوی میں عرب کے حالات کوانھوں نے نہایت اختصار سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے مآخذ کے ضمن میں تین اہم مآخذ (قرآن کریم‘ کتب احادیث اور کتب مغازی و سیرت) کا ذکر کیا ہے۔ فاضل مصنف نے ائمہ محدثین پر یہ اشکالات اٹھائے ہیں۔ اوّل:  حدیث کی جمع و تدوین کا کام عجمیوں (غیر عربوں) کے ہاتھوں سرانجام پایا اور یہ تمام حضرات تیسری صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوم: انھوں نے لاکھوں حدیثوں میں سے بہت کم کو صحیح قرار دے کر اپنے مجموعوں میں درج کیا۔ سوم: یہ تمام احادیث لوگوں نے انھیں زبانی سنائیں اور ان کا کوئی تحریری ریکارڈ پہلے سے موجود نہ تھا۔ چہارم: محدثین کا انتخاب ان کی ذاتی بصیرت‘ غوروفکر اور فیصلے کا نتیجہ تھا۔ ان احادیث کے صحیح ہونے کے متعلق نہ تو ان کے پاس خدا کی سند تھی اور نہ اس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ اس طرح محض اپنی فہم و فراست اور تحقیق کے مطابق جن احادیث کو صحیح تصور کیا ‘اپنے مجموعوں میں داخل کر دیا ۔(ص ۱۵۷)

احادیث نبویؐ کے بارے میں شکوک و شبہات کا یہ رجحان کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی الوثائق السیاسیۃ‘ ڈاکٹر مصطفی السباعی کی السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی اور مولانا مودودی کی سنت کی آئینی حیثیت کا مطالعہ کر لیا جائے تو یہ شکوک ازخود رفع ہوجاتے ہیں۔

فاضل مصنف نے کتاب میں متعدد مقامات پر معروف سیرت نگاروں مثلاً: ابن اسحاق‘ ابن ہشام‘ ابن سعد‘ امام سہیلی اور علامہ شبلی نعمانی وغیرہم کے برعکس ایک مختلف نقطۂ نظر اختیار کیا ہے‘ مثلاً: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری عورتوں کے دودھ پلانے اور حلیمہ سعدیہ کے پاس چار سال تک قیام کی روایت مشکوک بلکہ غلط معلوم ہوتی ہے… اور فطرت کے خلاف ہے (ص ۲۰۲)۔ آپؐ پر پہلی وحی خواب کی حالت میں نازل ہوئی  (ص ۲۳۱)۔ مقاطعہ قریش بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ نہ تھا بلکہ یہ محض مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ تھا (ص ۲۵۳)۔ جنگ خندق میں حضرت سلمانؓ فارسی کا مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دینا اور آپؐ کا قبول کرنا آپ کی جنگی مہارت اور دفاعی تدابیر کے خلاف ہے (ص ۳۸۴) وغیرہ‘ مگر تعجب ہے کہ فاضل مصنف نے سواے چند مقامات کے‘ کسی جگہ بھی حوالہ جات کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست دی ہے۔ اس لیے حوالوں اور دلیل و استدلال کے بغیر متذکرہ بالا آرا کی حیثیت قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ نہیں۔

پوری کتاب میں کہیں آیات قرآنی کا عربی متن نہیں دیا‘ محض تراجم پر اکتفا کیا ہے۔

کتاب میں پروف کی بھی خاصی اغلاط ملتی ہیں۔ مصنف نے محبت اور لگائو کے ساتھ کتاب تصنیف کی ہے اور اس کی اشاعت کا اہتمام بھی ذاتی طور پر کیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں وہ بعض ضروری نکات پر نظرثانی کریں گے۔ (ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ)


امریکہ: مسلم دنیا کی بے اطمینانی (۱۱ستمبر سے پہلے اور بعد)‘ پروفیسر خورشید احمد۔ مرتب: سلیم منصور خالد۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ ۵۴۵۷۰۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت غیر مجلد: ۱۲۵ روپے۔ مجلد: ۲۰۰ روپے۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور ۷ اکتوبر کو افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ‘ خصوصاً پاکستان‘ ایک انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار ہے۔ محض اسلحے اور قوت کے بل بوتے پر ظالم اور مظلوم کا مفہوم ازسرنو متعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکہ کے متکبرانہ رویے پر نہ صرف  عالم اسلام اور دنیا کی دیگر چھوٹی اقوام بلکہ خود امریکہ کے بعض حلیفوں (جرمنی‘ کینیڈا وغیرہ) کی طرف سے بھی ایک ردّعمل سامنے آ رہا ہے۔

ترجمان القرآن میں صورت احوال پر پروفیسر خورشید احمد کے سیرحاصل اور چشم کشا تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھی اشاراتی تبصروں اور تجزیوں کو نظرثانی اور چند اضافوں کے ساتھ یک جا کیا گیا ہے۔ مذکورہ تجزیے پروفیسر سلیم منصور خالد نے تدوینی مہارت کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ پہلے چار مضامین ۱۱ستمبر سے پہلے کی صورت حال سے متعلق ہیں۔ ان کا زمانہ تحریر ۱۹۹۱ء‘ ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۰ء ہے‘ اور یہ ایک طرح سے موضوع اور کتاب کے پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی مضامین کا تعلق ۱۱ستمبر کے بعد کے واقعات سے ہے۔ آخری مضمون کا عنوان ہے: ’’امریکہ میں دعوت اسلامی: امکانات‘ اہداف‘ مشکلات‘‘۔ اس طرح یہ کتاب ماضی‘ حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے۔

مرتب نے ہر مضمون کے متعدد ضمنی عنوانات قائم کر کے‘ اس کے مباحث کو واضح کر دیا ہے۔ مصنف نے ٹھوس اور وسیع مطالعے کی بنیاد پر اور ایک گہری بصیرت کے ساتھ مغربی استعمار کے عزائم اور اہداف کا تجزیہ کیا ہے۔

ان مقالات کو کتابی صورت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’اہل پاکستان اور اُمت مسلمہ میں ان حالات‘ مسائل اور خطرات کا صحیح تصور پیدا ہو سکے‘‘ (ص ۱۵)۔ دشمن کے خطرناک عزائم کا ادراک ضروری ہے مگر اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنا بھی دانش مندی نہیں۔ بقول مرتب: ’’زیرنظر کتاب کا اصل پیغام یہ ہے کہ حالات کا صحیح شعور ہو‘ مقابلے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جائے اور حالات کے دھارے کا رخ موڑنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ یہی زندگی‘ ترقی اور کامیابی کا راستہ ہے‘‘۔ (ص ۱۵)

کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘اسلام آباد کے زیراہتمام تیار اور شائع ہوئی ہے۔ اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ اشاریہ بھی شاملِکتاب ہے ۔ (رفیع الدین ہاشمی)


بلاکم و کاست ‘مہدی علی صدیقی۔ ناشر: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔ صفحات: ۲۷۳۔ قیمت: اعلیٰ ایڈیشن‘ ۳۵۰ روپے‘ عام ایڈیشن: ۳۰۰ روپے۔

مہدی علی صدیقی ‘ اپنی ذات میں ایک تاریخ ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے کماحقہ آگاہ‘ اور  اللہ کے فضل و کرم سے اپنی زندگی کی ’’سینچری‘‘ مکمل کرنے سے صرف چار سال پیچھے ہیں۔ طویل عمری  بذات خود بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے لیکن اگریہ ملک و ملّت کے پردے پر وقوع پذیر ہونے والے  سیاسی‘ تہذیبی‘ معاشرتی اور نظریاتی واقعات اور اس کے اسرار و رموز پر گواہ بن جائے اور وہ بھی  ’’بلاکم و کاست‘‘--- تو کیا کہنا۔

مصنف پیشے کے لحاظ سے مملکت حیدر آباد دکن میں (۱۹۳۲ء تا ۱۹۴۸ء) سول سروس سے بطور سیشن جج وابستہ رہے۔ سقوط حیدر آباد کے بعد پاکستان آگئے اور ایک لمبے عرصے تک انصاف کے پرچم کو بلند کیے رکھا۔ انھوں نے سعادت حسن منٹو کے مشہور زمانہ مقدمے کی سماعت بھی کی۔ بلاکم و کاست پڑھنے والا اندازہ کر سکتا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا مفہوم کیا ہے۔ صرف ۲۷۳ صفحات پر اتنی طویل بھرپور زندگی کی تصویر نقش کرنا کوئی مصنف سے سیکھے۔ اس کتاب میں آپ کو علی گڑھ یونی ورسٹی میں طلبا کے روز و شب‘ تحریک خلافت کی جاں فشانیاں‘ جنگ عظیم کی تباہ کاریاں‘ ہندوئوں کی چالیں‘ مسلمانان برعظیم پاک و ہند کی جدوجہد آزادی کی پوشیدہ کہانیاں‘ تقسیم ہند کی خونچکاں داستانیں اور سقوطِ حیدرآباد کے الم ناک واقعات کے ساتھ ساتھ دیہاتی اور شہری زندگی کی کی خوب صورت عکاسی اور چار دیواری کے اندر محبت و اخوت کے موتی بکھرے ہوئے ملیں گے۔

مشاہدات و واقعات پر مبنی یہ سفرنامہ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق جیسے حکمرانوں کے تذکرے اور کارگزاریوں کے ساتھ ساتھ‘ تحریک اسلامی کے نامور اکابرین کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ مہدی علی صدیقی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اس لیے زندگی کے اس حصے کا احاطہ کرتے ہوئے انھوں نے امریکی معاشرے کی خوبیوں اور خرابیوں کا بھی بلاتکلف جائزہ لیا ہے۔ بلاکم وکاست کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جو ایک بار پڑھنا شروع کر دے تو آخری صفحے تک پڑھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ طباعت و اشاعت کا معیار بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ (نوراسلم خاں)


ارمغانِ شیرانی مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی + ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ناشر: شعبۂ اُردو‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ اورینٹل کالج‘ علامہ اقبال کیمپس‘ لاہور۔ صفحات : ۳۲۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

حافظ محمود خاں شیرانی (۱۸۸۰ء-۱۹۴۶ء) کو اُردو تحقیق کا ’’معلم اول‘‘ مانا گیا ہے۔ انھوں نے  علم و تحقیق کے میدان میں جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں‘ وہ آج بھی محققین اور علما کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے تک‘ شعبہ اُردو‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور سے بطور استاد اور تحقیق کار وابستہ رہے‘ اسی تعلق کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے شعبۂ اُردو نے اُن کی یاد میں ایک علمی ارمغان پیش کیا ہے۔

اس کتاب میں حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی دل چسپی کے موضوعات پر ۱۴ علمی و تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ ’’منتخب القوافی‘‘ از عشقی عظیم آبادی، ’’یہاں‘وہاں کا ارتقائی سفر‘ ایک تحقیق‘‘ ، ’’حکیم احسن اللہ خاں‘‘، ’’مصحفی سے منسوب دو تذکرے‘‘، ’’ذخیرۂ شیرانی سے متعلق چند اہم دستاویزات‘‘ ، ’’ولادت و وفات کی تاریخیں‘‘، ’’قدیم تذکروں کی روشنی میں‘‘، ’’والہ داغستانی کے دیوان کا ایک معاصر مخطوطہ اور اس کا اُردو کلام‘‘ اور ’’محمود شیرانی سے میرے استفادات‘‘، اس کتاب کے اہم ترین مضامین ہیں‘ جن کے ذریعے‘ علم و ادب کے حوالے سے ‘ کئی حقائق منظرعام پر آئے ہیں اور مزید تحقیق کی راہیں کھلی ہیں۔ مقالہ نگاروں میں صف اوّل کے مندرجہ ذیل محقق اور عالم شامل ہیں: ڈاکٹر مختارالدین احمد‘ شان الحق حقی‘ رشید حسن خاں‘ حکیم محمود احمد برکاتی‘ ڈاکٹر گیان چند جین‘ ڈاکٹر حنیف نقوی‘ ڈاکٹر محمد انصاراللہ‘ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی (نبیرۂ حافظ محمود شیرانی)‘ ڈاکٹر فریداحمد برکاتی‘ ڈاکٹر عارف نوشاہی‘ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل‘ افضل حق قرشی اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری۔ آخر میں مرتبین نے مقالہ نگاروں کا مختصر تعارف نامہ بھی شامل کر دیا ہے جو نہایت مفید اور معلوماتی ہے۔

ارمغان شیرانی اپنے مشمولہ مضامین کے حوالے سے بھی اہم کتاب ہے اور جامعہ پنجاب کی تابندہ علمی روایت کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کی ترتیب کے ساتھ ساتھ طباعت و پیش کش عمدہ ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں اس کتاب کی ضرورت کا احساس اور اس سے استفادہ ہونا چاہیے۔ مرتبین اور ناشر اس ارمغان کی تیاری اور اشاعت پر لائق صد مبارک ہیں۔ (رفاقت علی شاہد)


اسلام: ہمارا انتخاب‘ ملک احمد سرور۔پتا: البدر پبلی کیشنز اور ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۳۵۲۔ قیمت: ۱۵۰  روپے۔

اس میں شبہہ نہیں کہ ’’نومسلموں کا موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے دینی لٹریچر کا شاید سب سے دل چسپ اور مفید موضوع ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ اس لٹریچر کی مقبولیت کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ مسلم قاری نومسلموں کے قبولِ اسلام کی داستانیں پڑھ کر ایک نفسیاتی تسکین محسوس کرتا ہے۔ سبب جو بھی ہو‘ قبولِ اسلام کی ان سچی کہانیوں کی دل چسپی میں کلام نہیں۔ ملک احمد سرور صاحب نے ایک مخلصانہ دعوتی اور تبلیغی جذبے کے تحت تقریباً ۵۰ نومسلموں کی رودادیں‘ انٹرویو اور مضامین مرتب کیے ہیں جن میں سے بہت سے خود اُن کے ترجمہ کردہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی کتابوں:  ہم کیوں مسلمان ہیں؟ہمیں خدا کیسے ملا؟ نے اس راستے پر چلایا۔

دنیا کے مختلف ممالک اور براعظموں سے تعلق رکھنے والے بیشتر مرد و زن‘ قبول اسلام سے پہلے عیسائی تھے‘ کچھ ہندو اور بعض سکھ اور بُدھ۔ ان میں پارلیمنٹ کے رکن‘ فلمی اداکار‘ سفیر‘ صحافی‘ پروفیسر‘  دانش ور‘ ادیب‘ شاعر اور طالب علم شامل ہیں۔ کسی کو اوائل عمر میں ہدایت نصیب ہوئی تو کوئی حیاتِ مستعار کے آخری برسوں میں ایمان لایا۔

یہ رودادیں مؤلف کے بقول: قاری کے اندر بھی اسلام کے مطالعے اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کا جذبہ اُبھارتی ہیں--- اصلاح کرتی ہیں--- ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں--- ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسلام کے دین حق ہونے کے بارے میں جو سوالات اُبھرتے ہیں‘ ان کے جوابات دیتی ہیں۔ اس طرح یہ ایمان کی مضبوطی کا باعث ہیں۔ (ص ۱۷)

مصنف ایک معروف صحافی اور ادیب ہیں۔ بیش تر رودادیں ان کے ماہانہ جریدے بیدار ڈائجسٹ میں شائع شدہ ہیں۔اب ان رودادوں کو نہایت سلیقے سے ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ مدون کیا گیا ہے۔ حسب موقع حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ (ر - ہ )

تعارف کتب

  •  آخری صلیبی جنگ حصہ سوم ‘ عبدالرشید ارشد۔ النور ٹرسٹ‘ جوہر پریس بلڈنگ‘ جوہر آباد۔ صفحات: ۲۳۰۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔ ] ۱۱ ستمبر کے بعد سے برپا صلیبی جنگ کے حوالے سے ۲۷ اخباری مضامین اور کوفی عنان وغیرہ کو بھیجے گئے خطوط کا مجموعہ جو کچھ اُمت مسلمہ کے ساتھ کیا جا رہا ہے ‘ اس کا بیان اُمت کو بیدار کرنے کے لیے اُس وقت مفید ہے جب سوئے ہوئے لوگوں تک اسے پہنچانے کا انتظام بھی کیا جائے۔ ہمیں یہود سے کچھ منصوبہ بندی وغیرہ سیکھنی چاہیے۔ بیدار لوگ کیا کچھ کر رہے ہیں اور کیا کچھ انھیں کرنا چاہیے‘ اس کی تشنگی باقی ہے۔ بھرا ہوا آدھا گلاس بھی دیکھنا چاہیے۔[
  •  آپا حمیدہ بیگم‘ مرتبہ: پروفیسر فروغ احمد۔ ناشر: حرا پبلی کیشنز‘ فضل الٰہی مارکیٹ ۲/۱۴ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۱۱۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ ]جماعت اسلامی کے ابتدائی دور کی بے لاگ‘ مخلص اور فعال کارکن اور حلقۂ خواتین کی قیمہ‘ جو تاحیات تحریک سے وابستہ رہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب کے بقول: ’’رائے کی پختگی اور مزاج میں‘ فہم و فراست میں‘ اعتدال و توازن میں‘ خواتین میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا عکس تھیں‘‘--- مرحوم پروفیسر فروغ احمد کا مرتبہ یہ مجموعۂ مضامین پہلی بار ۱۹۸۸ء میں اور اب چوتھی مرتبہ چھپا ہے۔[