اکتوبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

مال خرچ کرنا

سید قطب | اکتوبر ۲۰۰۲ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

ترجمہ: مولانا حامد علی ؒ

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۱۵)

وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہو‘ جو مال بھی تم خرچ کرو ‘ وہ ماں باپ‘ عزیزوں‘ یتیموں‘ غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اور تم بھلائی کے جو کام بھی کرو‘ اللہ اُس سے بخوبی واقف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جن حالات و ظروف میں اسلام پروان چڑھا‘ اُن میں انفاق اُمت ِ مسلمہ کے قیام کی ایک بنیادی ضرورت تھی کیونکہ اُمت کو مشکلات و مصائب اور جنگوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ پھر انفاق کو ایک اور پہلو سے بھی ملّت کی ضرورت کی حیثیت حاصل تھی۔ اور وہ ہے ملّت کے افراد کی باہمی کفالت اور ان کے فکری و جذباتی امتیازات و تفرقوں کا ازالہ‘ اِس حد تک کہ ملّت کا ہر فرد یہ محسوس کرے کہ وہ جسدِملّت کا ایک عضو ہے جسے یہ جسد نہ کسی شے سے محروم کرتا ہے اور نہ اُس سے کوئی شے بچا کر رکھتا ہے۔ جماعت کے قیام و بقا کے سلسلے میں فکری و جذباتی طور پر اس چیز کی بہت بڑی قدروقیمت ہے‘ جب کہ افرادِ ملّت کی ضروریات کی تکمیل کی‘ جماعت کے قیام و بقا کے سلسلے میں عملی قدروقیمت ہے۔

سوال یہ تھا کہ کس طرح کا مال خرچ کریں؟ اس سوال کا جو جواب آیا‘ اُس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انفاق کی نوعیت کیا ہو اور یہ بھی کہ اس کے اولیٰ اور قریب ترین مصارف کون کون سے ہیں: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ’’کہو! تم جو اچھا مال خرچ کرو‘‘۔

اس اندازِ بیان سے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے‘ وہ بہتر ہے۔ بہتر ہے‘ دینے والے کے لیے۔ بہتر ہے‘ لینے والے کے لیے۔ بہتر ہے‘ مسلمانوں کی جماعت کے لیے۔ اور بہتر ہے فی نفسہ۔ کیونکہ وہ ایک پاکیزہ عمل ہے‘ ایک پاکیزہ پیش کش ہے‘ ایک پاکیزہ شے ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ خرچ کرنے والا خرچ کرنے کے لیے اپنے مال میں سے اعلیٰ شے کو تلاش کرے اور اپنی بہترین اشیا میں دوسرے افراد کو شریک کرے کیونکہ انفاق سے دل کی تطہیر اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے وہ منفعت و اعانت ہے۔ اور ڈھونڈ کر اچھے مال کو خرچ کرنے اور دوسروں کے حق میں اُس سے دست بردار ہونے ہی سے دل کی طہارت اور نفس کا تزکیہ حاصل ہوتا اور ایثار و قربانی کا شریفانہ جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

لیکن یہ دوسرا پہلو لازمی نہیں ہے۔ لازمی--- جیسا کہ دوسری آیت میں آیا ہے--- یہ ہے کہ خرچ کرنے والا اوسط درجے کی شے خرچ کرے‘ نہ سب سے خراب شے اور نہ سب سے زیادہ گراں شے۔ یہاں اِس پہلو کی طرف اشارہ اس لیے ہے کہ نفس خوشی خوشی اس بات کے لیے تیار ہو اور اُس میں اِس بات کا شوق پیدا ہو کہ وہ بہتر سے بہتر شے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے--- جیسا کہ نفوس کے تزکیے اور دلوں کی تیاری و تربیت کے سلسلے میں قرآن کا طریقہ ہے۔

انفاق کی مدّات

انفاق کا طریقہ اور اُس کی مدّاتِ صرف کیا ہیں؟ اِنفاق کی نوعیت کی وضاحت کے بعد یہ بات بھی واضح کی جاتی ہے:

فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلط

وہ ماں باپ‘ عزیزوں‘ یتیموں‘ غریبوں اور مسافروں کے لیے ہے!

یہ الفاظ لوگوں کی مختلف قسموں کو ایک لڑی میں پرو دیتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس سے خرچ کرنے والے کا رشتے اور خاندان کا تعلق ہے‘ کچھ وہ ہیں جن پر انسان کو رحم آنا چاہیے‘چنانچہ اُن سے رحم و کرم کا تعلق ہے اور کچھ سے عقیدے کے دائرے میں رہتے ہوئے انسانیت کبریٰ کا تعلق ہے۔ اور یہ سب لوگ--- والدین‘ اعزہ‘ یتامیٰ‘ مساکین‘ مسافر--- ایک ہی آیت (بلکہ ایک ہی جملے) میں آجاتے ہیں۔ یہ سب لوگ اجتماعی کفالت کے اُس مضبوط نظم سے وابستہ ہیں جو بنی نوعِ انسان کو اِس مضبوط عقیدے کے دائرے میں حاصل ہے۔

اِس آیت اور قرآن کی دوسری آیات میں مدّاتِ صَرف کی ایک خاص ترتیب ہے‘ جس کی مزید تشریح و تائید بعض احادیث ِ نبویؐ سے ہوتی ہے‘ مثلاً:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: اپنی ذات سے شروع کرو اور پہلے اپنے اُوپر خرچ کرو۔ جب اُس سے بچ رہے تو اپنے اہل و عیال پر۔ اہل و عیال سے بچ رہے تو اپنے رشتے داروں پر۔ اور رشتہ داروں سے بچ رہے تو اِس طرح اوراِس طرح (غیر رشتہ داروں پر) خرچ کرو۔ (مسلم)

اس ترتیب سے نفسِ انسانی کی تربیت و رہنمائی کے لیے اسلام کے سادہ حکیمانہ نظام پر روشنی پڑتی ہے۔ اسلام انسان کو لیتا ہے جیسا کہ وہ اپنی فطرت‘ اپنے طبعی میلانات اور صلاحیتوں کے ساتھ ہے۔اُسے وہاں سے لے کر چلتا ہے‘ جہاں وہ ہے اور جہاں وہ کھڑا ہے۔ اُسے ایک ایک قدم آگے بڑھاتا ہوا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر نرمی‘ سہولت اور آہستہ روی کے ساتھ لے جاتا ہے۔ وہ بلندیوں پر چڑھتا ہے‘ مگر راحت و آرام کے ساتھ۔ وہ اپنی فطرت‘ اپنے میلانات اور اپنی صلاحیتوں کی پکار پر لبیک کہتا ہے اور ساتھ ہی وہ زندگی کو پروان چڑھاتا اور ترقی دیتا ہے۔ اُسے زحمت و مشقت کا احساس نہیں ہوتا۔ اُسے طوق وسلاسل پہنا کر بلندیوں پر کھینچا نہیں جاتا‘ اُس کی قوتوں اور فطری میلانات کو کچلا اور ختم نہیں کیا جاتا‘ اُسے راستے پر زبردستی چلایا نہیں جاتا‘ نہ اُسے اُوپر اُوپر اڑا کر ٹیلوں اور پہاڑوں پر لے جایا جاتا ہے۔ اسلام اسے لے کر آہستہ روی اور نرمی و سہولت کے ساتھ بلندیوں پر اِس طرح لے جاتا ہے کہ اُس کے قدم زمین پر ہوتے ہیں‘ نظریں آسمان کی طرف‘ دل بلند ترین اُفق کی طرف متوجہ اور روح بلندیوں میں خدا سے واصل۔

اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے انسان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کا حکم دیا۔ اُس نے اُس کے لیے پاکیزہ رزق حلال کیا اور اُسے اِس بات پر اُبھارا کہ عیش پسندی اور اِتراہٹ اورفخر و غرور سے بچتے ہوئے اُس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدقہ ذاتی ضروریات کی تکمیل کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے ساتھ ہو۔ اور اُوپر کا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے کے ہاتھ (لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔ اور انفاق کی ابتدا اُن لوگوں سے کرو جن کی کفالت کے تم ذمہ دار ہو!‘‘ (بخاری)

ایک اور روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونا لایا اور اس نے کہا‘ اے اللہ کے رسولؐ! سونے کے اِس انڈے کو میں نے ایک کان میں پایا ہے‘ آپؐ اِسے لے لیں‘ یہ میری طرف سے صدقہ ہے۔ اور میرے پاس اِس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے منہ پھیر لیا تو وہ شخص آپؐ کی داہنی طرف آیا اور اُس نے پھر یہی بات کہی۔ آپؐ نے اُس سے منہ پھیر لیا تو وہ آپؐ کی بائیں طرف آیا اور اس نے یہی بات پھر کہی۔آپؐ نے پھر منہ پھیر لیا تو وہ آپؐ کے پیٹھ پیچھے سے آیا اور اس نے یہی بات دہرائی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس انڈے کو لے لیا اور اُسے اُس پر پھینک دیا‘ اگر وہ اُسے لگتا تواُسے چوٹ لگتی۔ پھر آپ ؐنے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی تمام مملوکہ اشیا لے کر آجاتا ہے اور کہتا ہے‘ یہ صدقہ ہے! پھر وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو تونگری کے ساتھ ہو۔ (ابوداؤد)

اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنے خاندان کے قریبی افراد--- اہل و عیال اور والدین سے محبت کرتا ہے۔ اِس لیے اسلام اُسے اُس کی ذات کے بعد ایک قدم آگے بڑھا کر اُن لوگوں کے پاس لے جاتا ہے جن سے وہ محبت رکھتا ہے‘ تاکہ وہ راضی خوشی اُن پر اپنا مال خرچ کرے اور اپنے فطری میلان کی--- جس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘ بلکہ حکمت اور خیر ہے--- تکمیل کرسکے۔ اِسی کے ساتھ وہ اس طرح اپنے قریب ترین اعزہ کی کفالت بھی کرتا ہے‘ جو اس کے اعزہ ہونے کے ساتھ امت ِ مسلمہ کے افراد بھی ہیں۔ اگر اُن کو نہ دیا جائے تو وہ محتاج ہوجائیں گے۔ اُن کا اپنے اعزہ سے مدد لینا دُور کے لوگوں سے مدد لینے کے مقابلے میں زیادہ شریفانہ بات ہے۔ علاوہ ازیں اِس عمل سے اولین گھر میں--- جہاں انسان کے اہل و عیال اور والدین رہتے ہیں--- محبت اور سلامتی کا نشوونما ہوگا اور خاندان کے--- جسے اللہ تعالیٰ انسانیت ِ کبریٰ کے لیے پہلی اینٹ بنانا چاہتا ہے--- باہمی روابط میں استحکام ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس قریب ترین دائرے کے بعد انسان اپنے سب ہی عزیزوں سے--- اُن کے قریب یا دُور کے تعلق کے مطابق--- محبت کرتا اور اُن کے لیے حمیّت رکھتا ہے--- اور اس میں کوئی خرابی بھی نہیں--- کیونکہ یہ لوگ بہرحال اُمت ِ مسلمہ کے جسم اور سماج کے اعضا ہیں۔ اسی لیے اسلام قریبی اعزہ کے بعد ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور انسانیت کے فطری رجحانات و میلانات کے ساتھ اِن رشتہ داروں کی طرف رخ کرتا ہے تاکہ اُن لوگوں کی ضروریات کی تکمیل ہو‘ اِن عزیزوں کے ساتھ بھی روابط مستحکم ہوں اور اُمت ِ مسلمہ کا یہ یونٹ قوی یونٹ بن سکے جس کے باہمی تعلقات قوی اور محکم ہوں۔

قریب اور دُور کے اعزہ پر خرچ کرنے کے بعد انسان کے پاس کچھ بچ رہے تو اسلام اس کا ہاتھ پکڑ کر عام انسانیت کے اُن گروہوں کے پاس لے جاتا ہے جن کی ناتوانی یا حالات کی پریشانی کے باعث انسان کے رحم اور تعاون کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔ اِن میں سب سے پہلے کم عمر اور ناتواں یتیم بچے آتے ہیں۔ پھر غربا و مساکین ہیں‘ جو تہی دست ہیں اور اُن کے پاس اُن کے ضروری مصارف کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ اپنی عزت کو بچانے کے لیے خاموش رہتے ہیں اور دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ پھر مسافر ہیں‘ جو اگرچہ گھر پر مال و دولت رکھتے تھے مگر اب اس سے دُور اور محروم ہیں--- ایسے لوگ مسلمانوں میں بہت تھے‘ جو اپنا سب کچھ مکّہ میں چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر آئے تھے--- مذکورہ بالا سب گروہ سماج ہی کے اعضا ہیں‘ اس لیے جو لوگ کچھ مال و دولت رکھتے ہیں‘ اسلام انھیں متوجہ کرتا ہے کہ وہ ان تہی دستوں پر خرچ کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ پہلے ان کے جذبات کو اپیل کرتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے اور پھر انھیں انفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے تمام اغراض و مقاصد نرمی و سہولت کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔ اس کا پہلا مقصد یہ تھا کہ خرچ کرنے والے نفوس کا تزکیہ ہو۔ یہ مقصد اس طرح حاصل ہوا کہ انھوں نے جو کچھ دیا اور جو کچھ خرچ کیا‘ راضی خوشی دیا‘ طیب ِ نفس کے ساتھ خرچ کیا ‘کسی تنگی اور کنجوسی کے بغیر خرچ کیا‘ اللہ کی رضا کے لیے‘ اُس کی طرف رخ کرتے ہوئے خرچ کیا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ لوگ اِن ضرورت مندوں کو دیں اور اُن کی ضروریات کی تکمیل اور کفالت کا نظم ہو۔ یہ مقصد بھی حاصل ہوا۔ اسلام کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ تمام افراد کو اِس طرح مربوط و منظم کیا جائے کہ کسی پریشانی اور تنگی کے بغیر وہ ایک دوسرے کے ضامن و کفیل ہوں اور یہ مقصد بھی حاصل ہوا--- اسلام کی قیادت کتنی لطیف قیادت ہے جو سہولت کے ساتھ اپنے سب مقاصد کی تکمیل کر لیتی ہے اور جبر و تشدد اور تصنّع کے بغیر خیر کے سارے پہلو حاصل کر لیتی ہے۔

اس کے بعد اسلام اِس پورے عمل کو اعلیٰ اُفق کے ساتھ مربوط کر دیتا ہے۔ انسان جو کچھ دے‘ جو کچھ کرے اور دل میں جو نیت اور ارادہ رکھے‘ اُس سب کے سلسلے میں وہ خدا سے تعلق کو اُس کے دل میں اُبھار دیتا ہے:

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o

بھلائی کے جو کام بھی تم کرو گے‘ اللہ اُن سے بخوبی واقف ہے۔

اللہ اُس کے عمل سے واقف ہے‘ عمل کے محرکات سے واقف ہے‘ اس کے پیچھے جو نیت ہے‘ اس سے بھی واقف ہے۔ اس کا عمل ضائع نہ ہوگا! وہ اللہ کے حساب میں ہے جس کے پاس کوئی شے ضائع نہیں ہوتی‘ جو لوگوں پر نہ ظلم کرتا ہے اور نہ اُن کو رتی بھر کم کر کے دیتاہے‘ جس کے یہاں ریا اور ملمع کاری کا گزر نہیں۔

اس طرح اسلام کسی سختی اور تصنّع کے بغیر نرمی و سہولت سے دلوں کو اُفق اعلیٰ سے مربوط کر دیتا ہے اور صفاے قلب اور خدا کے لیے یکسوئی اور خلوص کے بلند مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہے وہ نظامِ تربیت جو   علیم وخبیر کا وضع کردہ ہے ۔ اسی پر وہ اپنا نظام قائم کرتا ہے جو انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے لیتا ہے  اور جہاں وہ ہے وہیں سے اُسے لے کر چلتا ہے۔ پھر وہ اُسے اُن بلندیوں تک لے جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے بغیر نہیں پہنچ سکتا اور نہ کبھی پہنچا ہے مگر صرف اُس وقت‘ جب کہ وہ اِس راستے پر اِسی نظام کے تحت  چلا ہے۔(فی ظلال القرآن‘ ج ۱‘ ص ۵۴۰-۵۴۵)