اکتوبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

عروج کا راستہ

خرم مراد | اکتوبر ۲۰۰۲ | دعوت وتحریک

Responsive image Responsive image

قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو اُوپر اٹھاتا ہے‘ اور بہت سی قوموں کو نیچے گراتا ہے۔ خود قرآن کا بڑا حصہ قوموں کے عروج و زوال کی داستان پر مشتمل ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے علومِ قرآنی کو پانچ حصوں میں تقسیم   کیا ہے۔ ان میں سے ایک حصے کو  تذ کیر بایام اللّٰہ ’’اللہ کے دنوں کے ذریعے تذکیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کی داستان انسانی تاریخ کے صفحات پر اس طرح ثبت ہے کہ انسان اس پر غوروفکر کیے بغیر نہیں گزر سکتا۔ جماعتیں اور گروہ گم نامی کے گوشے سے اٹھتے ہیں اور دنیا کے اُوپر چھا جاتے ہیں‘ تہذیب و تمدن کے عروج پر پہنچتے ہیں اور اس کے بعد بعض سو جاتے ہیں‘ بعض قعر مذلت میں گر جاتے ہیں‘ اور بعض کی فصل تو اس طرح کٹ جاتی ہے کہ اُن کا نام تاریخ کے صفحات میں ایک داستان عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔  فَجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍط  (السبا ۳۴:۱۹) ’’آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل تتر بتر کر ڈالا‘‘۔ تہذیب و تمدن کی ساری سربلندیوں کے باوجود‘ بعض کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے گویا آگ بجھ گئی ہو‘ یا کھیتی کٹ چکی ہو۔ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خَامِدِ یْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۵) ’’یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کر دیا‘ زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا‘‘۔

انسان سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اُس کی فطرت میں جستجو کا مادہ ہے‘ اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ انسانی جماعتیں اور گروہ ترقی کی منزلیں کیسے طے کرتی ہیں اور ایسا کیسے ہو جاتا ہے کہ جب وہ بامِ عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو اس کے بعد زوال کی طرف چل پڑتی ہیں‘اور بالآخر اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ہماری عادت یہ ہے کہ ہم چیزوں کو سمجھنے کے لیے ایسی مثالیں لاتے ہیں جو ہمارے لیے زیادہ قابل فہم ہوں۔ جب انسان نے قوموں کے عروج و زوال پر غور کیا تو اُس نے خیال کیا کہ قوموں کی زندگی کا عمل بھی شاید اُسی طرح ہے جس طرح ایک فرد کی زندگی ہوتی ہے جس کو وہ جانتا اور پہچانتا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے‘ بچپن کی حدود میں داخل ہوتا ہے‘ جوانی کے دور میں داخل ہوتا ہے‘ اور پھر اس پر بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے‘ اور بالآخر وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان نے سوچا شاید قوموں کی زندگی بھی اسی طرح ایک حیاتیاتی عمل ہے اور یہ بھی بالکل انسانی زندگی کی طرح‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت کی منازل سے گزرتی ہے۔ کبھی انسان شام و سحر کی طرف نظر دوڑاتا ہے کیونکہ تاریخ کا زمانے سے بڑا گہرا تعلق ہے‘ لہٰذا اس نے یہ فتویٰ صادر کر دیا کہ قوموں کی زندگی ایک چکر کی مانند ہے۔ جس طرح صبح کے بعد شام اور پھر صبح ہوتی ہے‘ اسی طرح قوموں کی زندگی میں بھی یادگار لمحے آتے رہتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ان سارے چکروں کے نتیجے میں انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی و ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے‘ بالخصوص پچھلی تین چار صدیوں میں جب یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف عظیم الشان جست لگائی اور فطرت کے راز بے نقاب کیے‘ اور قدرت کی طاقتوں پر کنٹرول حاصل کیا تو یورپ نے دیکھا کہ اب ہم بغیر الہامی ہدایت کے قدرت کے اُوپر قابو حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ نظریہ پیش کردیا گیا کہ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی کی طرف جا رہی ہے بلکہ تاریخ کے اندر ترقی ایک لازمی امر ہے جو کہ روپذیر ہو کر رہے گا۔ اگر قوموں پر ادوار آتے ہیں تو یہ ان کے اپنے معاملات ہیں‘ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی پذیر ہے۔

اس نظریے کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں انسانیت کو ۸۰ لاکھ لاشوں اور ڈھائی کروڑ معذور و اپاہج انسانوں کا تحفہ ملا۔ یوں ترقی کے یہ سارے خواب چکناچور ہو گئے اور یورپ کو    یہ سوچنا پڑا کہ انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے‘ اُس کی عقل کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے‘ قدرت کی طاقتوں اور فطرت کے رازوں پر اُس کو خواہ کتنا ہی کنٹرول حاصل ہو جائے لیکن ضروری نہیں کہ انسانیت ترقی کی طرف جا رہی ہو۔

قوموں اورانسانیت کے عروج و زوال اور ترقی پذیری کے بارے میں پائے جانے والے ان نظریات کے جائزے کی ضرورت اس لیے تھی کہ اس کی روشنی میں قرآن نے اس حوالے سے جو عظیم الشان اور فکرانگیز تعلیمات پیش کی ہیں ان کو سمجھنا آسان ہو جائے اور ان کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔

اگر ان سارے نظریات پر غور کیا جائے تو اس میں تین چیزیں نمایاں نظر آئیں گی۔ ان میں سے ایک جبریت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔ وہ بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزر کر بالآخر موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اس میں اُس کے فعل کا‘ اخلاق کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ وہ مجبوراً چاروناچار موت کی طرف اپنا سفر طے کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ میں لازماً ترقی ہو رہی ہے‘ جب کہ انسان مجبور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس ترقی کے پیچھے پیچھے چلے۔ اگر ہم کہیں کہ تاریخ کے اندر ساری ترقی مادی قوتوں اور عوامل اور سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے‘ تو یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو مجبور کرتی ہیں۔ جبریت اور مادیت ان تمام نقطہ ہاے نظر کا خلاصہ ہے جو انسان نے تاریخ کے بارے میں قائم کیے ہیں۔

تاریخ کی اہمیت

تاریخ کے بارے میں جستجو صرف فلسفیانہ اہمیت نہیں رکھتی‘ بلکہ اس کی بڑی زبردست عملی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ انسان کی ساری تگ و دو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل کر لے‘ بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کوئی نسخہ اور راستہ ایسا ہے جو اس کو زوال سے بچا سکے اور عروج کی طرف لے جاسکے؟

آج بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی سب سے بڑھ کر ہمیں اسی سوال سے دل چسپی ہے اور ہونی چاہیے۔ آج کہیں پاکستان کے بارے میں گفتگو ہو تو افسردگی اور قنوطیت کی ایسی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جو موسموں کو منجمد کر ڈالے‘ مذمت اور تبصرے بازی اور برائیوں کی ایسی داستان ہوتی ہے جس کے ساتھ غیظ و غضب کی حرارت شامل ہوتی ہے۔ جس گفتگو میں بھی آپ شریک ہو جائیں‘ اور جس محفل میں بھی آپ بیٹھ جائیں‘ بہت کم امیدافزا فقرے سننے کو ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ملک ہم نے ۱۹۴۷ء میں حاصل کیا تھا ۲۵ سال بعد ہی اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ آج ہم قومی زندگی کے جس پہلو کو بھی لیں‘ ہم صرف مرثیہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔

وہ تہذیب اور قوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی‘ عروج کی منزلیں طے کیں‘ پچھلے ڈھائی‘ تین سو سال میں‘ آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہو گئی۔ ایک ایک کر کے ہمارے علاقے‘ ہماری حکومتیں اور ہماری قومیں یورپ کی غلامی میں آتی چلی گئیں‘ انڈونیشیا گیا‘ ہندستان گیا‘ الجیریا گیا‘ مراکش گیا‘ نائیجیریا گیا۔ اگر ہم پلٹ کر مسلم دنیا پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سعودی عرب اور افغانستان جیسے چند ملکوں کو چھوڑ کر کوئی مسلمان ملک آزاد نہیں تھا۔ آج بھی آزادی کے سارے دعوئوں کے باوجود‘ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان اپنی قسمت کی تعمیر کے لیے آزاد نہیںہیں۔ ایک چھوٹے سے ۳۰ لاکھ کے اسرائیل کا خنجر اُمت مسلمہ کے سینے میں گھونپ دیا گیا ہے اور مسلمان اس کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمارے پاس لاکھوں کروڑوں ڈالرہیں‘ بے شمار انسانی وسائل ہیں‘ دنیا کے بہترین خطے ہیں‘ ہم دنیا کی اہم شاہراہوں اور گزرگاہوں پر واقع ہیں‘ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں بے وزن ہیں۔ آخر ایسا کیوںہے؟ یہ بات قابل غور ہے!

تاریخ کی یہ داستان ہمارے لیے صرف علمی گفتگو اور فلسفیانہ کاوش کی حیثیت نہیں رکھتی‘ بلکہ ہمیں اس سے دل چسپی اس لیے بھی ہونی چاہیے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا ہمارے جو مسیحا مشرق سے لے کر مغرب تک ہماری قوموں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں کیا یہ اُمت یا پاکستان عروج کی منزل کی طرف جا سکے گا؟ کیا وہ ٹکنالوجی اور سائنس جس کو ہم لاکھوں ڈالر دے کر حاصل کر رہے ہیں‘ اس سے ہماری قومیں ترقی کی منزلیں طے کر سکیں گی؟ کیا معاشی ترقی کے ان پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے‘ جو ہم ایک کے بعد ایک وضع کررہے ہیں اور انھیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں‘ ہماری قوم فی الواقع عروج کی منزل تک پہنچ سکے گی؟ ان سارے نسخوں اور مسائل کے حل کی فی الواقع حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ ہمارے لیے اس سوال کی اہمیت صرف علمی اور فلسفیانہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ بڑی عملی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم غور کریں اور جانیں کہ قرآن مجید اس کا کیا جواب دیتا ہے‘ اوراس کے پاس ان مسائل کا حل اور امت و ملّت کے عروج و سربلندی کا راستہ کون سا ہے؟

قرآن کا نقطۂ نظر

اگر دعوے کا لفظ کتاب الٰہی کے لیے درست ہو تو میں کہوں گا کہ یہ بڑا زبردست دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال‘ نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے‘ نہ سائنس اور ٹکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا انحصار ہے۔ یہ خالصتاً اخلاقی اور معنوی اقدار کے اُوپر منحصر ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج یا زوال کی طرف جاتی ہیں۔

قرآن مجید نے بہت وضاحت کے ساتھ‘ قوموں کے عروج و زوال کا جو بیان کیا ہے‘ وہ ایک فرد کی زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ فرد اس بات پر مجبور ہے کہ وہ موت کی طرف جائے‘ اور اس میں اُس کی اخلاقی زندگی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر کوئی صالح ہوگا اس کو بھی موت آئے گی اور اگر کوئی فاسق ہوگا تو اُس کو بھی موت کا سامنا کرنا ہوگا‘ لیکن قوموں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ قومیں لازماً موت سے ہم کنار نہیں ہوتیں۔ اُن کی موت اس لیے واقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس کے اُوپر ظلم کرتی ہیں‘ حالانکہ فرد کی موت کا تعلق اُس کے اپنے نفس پر ظلم کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی فطری موت مرتا ہے۔ کسی قوم کا مٹ جانا یا اس کی موت واقع ہونا‘ یہ ناگزیر عمل نہیں ہے جو اسے لازماً پیش آئے۔ جس طرح کوئی فرد اپنی اخلاقی زندگی میں اچھا بننا چاہے تو اچھا بن سکتا ہے‘ اور برا بننا چاہے تو برا بن سکتا ہے ‘ اس طرح قومیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اچھائی کی روش پر چلنا چاہیں تو چل سکتی ہیں‘ ترقی کی راہیں طے کر سکتی ہیں‘ اخلاقی اور معنوی اقدار حاصل کر سکتی ہیں‘ اور اگر برائی کی طرف جانا چاہیں‘ اپنے اُوپر ظلم کریں‘ دنیا کے اندر ظلم اور فساد کا دروازہ کھولیں تو وہ تباہی کی طرف جاسکتی ہیں‘ اور یہ عمل ایسا بھی نہیں ہے کہ لوٹایا نہیں جا سکتا۔ آدمی جوان ہونے کے بعد بچہ نہیں بن سکتا‘ اور بوڑھا ہونے کے بعد جوان نہیں ہو سکتا‘ لیکن قومیں زوال پذیر ہونے کے بعد ایک بار پھر عروج کی طرف آسکتی ہیں اور سربلند ہو سکتی ہیں۔

اگر یہ بات صحیح نہ ہوتی تو انبیاے کرام گری ہوئی قوموں کے سامنے اپنی دعوت لے کر کھڑے نہ ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نسخہ ایسا ہے کہ جس سے کوئی قوم خواہ کتنی ہی نیچے گر چکی ہو‘ اگر وہ چاہے تو دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ انھوں نے قوموں سے اس بات کا وعدہ کیا‘ اور خوش خبری بھی دی کہ اگر تم نے یہ دعوت قبول کر لی تو بالآخر تم عروج کی طرف چلے جائو گے۔ خود نبی کریم ؐ نے عرب کے لوگوں کو یہ مژدہ سنایا کہ اگر تم نے میری دعوت مان لی تو تم عرب اور عجم دونوں کے مالک بن جائو گے۔ چنانچہ اس کا انحصار نہ سائنس پر تھا نہ ٹکنالوجی پر‘ نہ مادی ترقی پر اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں پر‘ بلکہ اس کا تمام تر انحصار اس دعوت کے اوپر تھا جس کو انبیاے کرام نے پیش کیا۔

انگریزی میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوموں کے زوال کا عمل irreversible نہیں ہے‘ جب چاہے اس کو روکا اور پلٹا جا سکتا ہے۔ کسی قوم کی زندگی میں کبھی کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا کہ جہاں مایوسی اور افسردگی ہمیشہ کے لیے ہو۔ جب بھی کوئی قوم چاہے اپنے آپ کو اُوپر اُٹھا سکتی ہے۔

قرآن نے اس بات کو مختلف انداز سے واضح کیا ہے‘ اور ہر مرتبہ یہی بات کہی ہے کہ اس کا تعلق صرف اعمال اور اخلاق سے ہے۔ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ o (الاحقاف ۴۶:۳۵) ’’کیا کسی کو ہلاک کیا جاتا ہے سوائے اُن قوموں کے جو فسق کا راستہ اختیار کریں‘‘۔  وَتِلْکَ الْقُرٰٓی اَھْلَکْنٰھُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا (الکھف ۱۸:۵۹) ’’یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں۔ انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا‘‘۔ مزید فرمایا:  ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ  وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰: ۴۱)  ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے‘ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اس فساد کی لوگوں کی بداعمالیوں کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔ قوم عاد کا تذکرہ یوں کیا: عاد کو دیکھو‘ جب انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ مَنْ اَشَدُّ قُوَّۃً مِنَّا  ’’ہم سے طاقت ور کون ہے؟‘‘ وہ اس غرور کے اندر آگئے تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ قوم عاد پر خدا کی پھٹکار پڑنے اور انھیں دور پھینک دینے کا سبب یہ تھا: وَتِلْکَ عَادٌ قف جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍعَنِیْدٍ o (ھود ۱۱:۵۹) ’’یہ ہیں عاد‘ اپنے رب کی آیات سے انھوں نے انکار کیا‘ اس کے رسولوں کی بات نہ مانی‘ اورہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے‘‘۔

لہٰذا یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم کو بھی زوال و تباہی سے سابقہ پیش آیا‘ وہ صرف اس لیے آیا کہ اس نے بغاوت‘ نافرمانی‘ بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کی۔ قرآن نے ایک پوری تہذیب کی مثال دی ہے: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۲)  ’’اور اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوںکا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں‘‘۔

ایک ایسی قوم جس پر ہر طرف سے معاشی ترقی کے دروازے کھلے ہوئے تھے‘ رزق بے پناہ آ رہا تھا لیکن جب اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے‘ ٹکنالوجی میں پیچھے رہ گئے تھے‘ اُن کے پاس معاشی ترقی کے    پنج سالہ منصوبے نہیں تھے بلکہ وہ جو جو اعمال کرتے تھے (بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ)  اس کی بنا پر زوال آشنا ہوئے۔ اسی وجہ سے اللہ نے خوف‘ حزن‘ مصیبتوں اور پریشانیوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ اگر بظاہر آفات ارضی و سماوی کسی قوم کو تباہ کرتی دکھائی دیں‘ تو قرآن کہتا ہے کہ اس کی ذمہ داری ان آفات ارضی و سماوی پر نہیں ہے‘ بلکہ اس انسان کے اُوپر ہے جس نے سرکشی اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔ اللہ نے کہا کہ کسی پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی‘ کسی کو کڑک نے آن پکڑا‘ کسی کو ہم نے زمین میں دھنسادیا‘ کسی کو ہم نے پانی میں غرق کر دیا‘ لیکن یہ مت خیال کرنا کہ ان کی تباہی کڑک‘ طوفان یا زلزلے کی وجہ سے ہوئی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی:  فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَ نْبِہٖ ج (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔ پھر فرمایا:  وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔

یہ قرآن کا اتنا واضح‘ کھلا اور بیّن سبق ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان قرآن کو پڑھے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ قوموں کی ترقی مادی عوامل اور مادی عناصر کے اوپر ہے۔

ترقی و عروج کی بنیادیں

وہ کیا چیزیں ہیں اور کون سی اقدار ہیں جوقوموں کو عروج کی طرف لے کر جاتی ہیں؟ قرآن مجیدکے مطالعے سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ چار اقدار ہیں جن پرقوموں کی ترقی منحصر ہے۔ ایک ایمان‘ دوسراتقویٰ‘ تیسرا صبر‘ اور چوتھا توبہ و استغفار۔

قرآن کریم کی بے شمار آیات‘ان چاروں صفات کے فیصلہ کن ہونے پر دلیل ہیں۔  وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم اُن کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ ہمارے سامنے روحانی اوراخلاقی انعامات آتے ہیں اور اسی طرح جنت اوردوزخ کی بات آتی ہے‘ اور یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ قرآن نے دنیا کی ترقی کوبھی ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ اگر انسان ایمان اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کرتے۔

اسی طرح فرمایا گیا ہے‘  وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًاط (آل عمران ۳:۱۲۰) ’’ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔ گویا تمھاری تعداد خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ لیکن تمھارے پاس صبر اور تقویٰ ہو تو تمھارے دشمنوں کی کوئی تدبیر‘ کوئی سازش تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ آیت آج کل کے زمانے میں خاص طور پر قابل غور ہے۔ ہم اپنے قومی سانحے اورمصیبت کے اسباب میں ان سازشوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف کرتے ہیں لیکن قرآن کا بیان بالکل صاف رہنمائی کرتا ہے کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقویٰ ہو‘ تو تمھارے دشمنوں کی کوئی سازش‘ کوئی مکر‘ کوئی تدبیر‘ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بنی اسرائیل جو مصر کے اندر مغلوب اور محکوم تھے‘ انتہائی ذلت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ قرآن نے انھیں یُسْتَضْعَفُوْن کہا ہے‘ یعنی ’’ان کو کمزور بنا دیا گیا تھا‘‘۔انھی لوگوں کے بارے میں فرمایا: وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَاط وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَا صَبَرُوْا ط (الاعراف ۷: ۱۳۷) ’’ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدئہ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔ گویا بنی اسرائیل کے اوپر جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تمام ہوئیں‘ اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے صبر کی روش اختیار کی۔

چوتھی چیز استغفار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات پر تعجب ہو کہ استغفار جس کے معنی گناہوں کی معافی مانگنا ہے‘ اس کا قوم کے عروج اور دنیاوی ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ لیکن قرآن نے جہاں بھی استغفار کی دعوت دی ہے اُس کے ساتھ ہی اُس نے مادی ترقیوں کا وعدہ بھی کیا ہے۔

حضرت ہود ؑنے اپنی قوم کو دعوت دی کہ اللہ کے آگے استغفار کرو اور توبہ کی روش اختیار کرو:  یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ (ھود ۱۱:۵۲) ’’وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا‘‘۔ حضرت نوح  ؑ نے رات اور دن اپنی قوم کو پکارا‘ کھلے عام بھی دعوت دی اور چھپے ہوئے بھی دعوت دی اور اس کے نتیجے سے بھی آگاہ کیا:  فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا o (نوح ۷۱: ۱۰-۱۲) ’’میں نے کہا‘ اپنے رب سے معافی مانگو‘ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ استغفار کا وہ عمل جس سے ہمارے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ ہمارے گناہ معاف ہوں گے‘ اور آخرت میں ہم جنت میں داخل ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ نے اُسی عملِ استغفار کے ساتھ‘ اس دنیا کی ساری مادی ترقیوں کا وعدہ فرمایا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان‘ تقویٰ ‘ صبر اور استغفار کے اندر وہ کیا راز ہے جس کی وجہ سے قومیں ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتی ہیں؟

ایمان

ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ قرآن کی لغت‘اصطلاح اوردعوت میں ایمان صرف لفظوں کے ایک فارمولے کو زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں ہے۔ وہ ایسے گروہوں کا ذکر کرتا ہے جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں‘ لیکن اُن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا:  قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ج (المائدہ ۵:۴۱) ’’کچھ لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن ان کے دل ایمان نہیں لائے ہوتے‘‘۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے نہ کہو‘ بلکہ یوں کہو:  وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۴) ’’ان سے کہو‘ تم ایمان نہیں لائے‘ بلکہ یوں کہو کہ ’’ہم مطیع ہو گئے‘‘۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘۔

ایمان کے لغوی معنی تو اعتماد‘ بھروسے‘ یقین اور اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ دراصل ایمان وہ دولت ہے جس کے عوض آدمی اپنی پوری زندگی کا سودا چکا دیتا ہے۔ یہ وہ ایمان ہے کہ جو دل و دماغ حتیٰ کہ ساری زندگی کے اُوپر غالب ہوتا ہے۔ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ زندگی کا ایک ہدف اور ایک مقصد ہو‘ جس ذات کے اُوپر ہم ایمان لائے ہیں‘ اُسی کی خاطر پوری زندگی گزرے۔ یہ پوری زندگی کا سودا ہے جس میں آدمی اپنی پوری زندگی خدا کے ہاتھ جنت کے عوض فروخت کر دیتا ہے۔

ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پوری زندگی میں خرابیاں اسی محبت میں خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ جب محبت کے معیار اُلٹ پلٹ ہو جاتے ہیں‘ اور وہ محبتیں غالب آجاتی ہیں جن کو غالب نہیں آنا چاہیے تو پھر قومیں زوال کی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں‘ مثلاً گھر کی محبت‘ دنیا کی محبت‘ خاندان کی محبت‘قبیلے کی محبت‘ نسل و رنگ کی محبت اور زبان کی محبت وغیرہ۔ قوموں کے پاس جب ایسا مقصد ہو جو ان ساری محبتوں کے اوپر غالب آ جائے تو پھر یہ ساری محبتیں مغلوب ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے فرمایا ہے کہ ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔  وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے  اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ ایمان لانے والے رنگ‘ نسل‘ قوم‘ زبان اور مال اور دولت سے بڑھ کر‘ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔

ایمان کا لازمی ثمرہ جدوجہد بھی ہے۔ اس لیے کہ اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے‘ تو اُس کی طلب‘ اُس کی طرف دوڑنا اور اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا‘ اُس کا لازمی تقاضا ہے۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے:  اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تومومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

ایمان سے مایوسی کی جڑ کٹ جاتی ہے‘ اس لیے کہ ایمان اورمایوسی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے‘ جو کافر اور گمراہ ہو چکا ہو۔ خوف‘ حزن‘ بیماری‘ پریشانی اور فکر یہ ساری چیزیں ایمان سے ختم ہو جاتی ہیں۔ ایمان کی تاثیر یہ ہے کہ وہ ایک فرد کی توجہ کو ایک بڑے مقصد کے اُوپر مرتکز کر دیتا ہے اور تمام قومی وسائل کو بھی مربوط کرکے ایک ہدف کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔ فرد اور قوم کے دل میں اس ہدف کا حصول اور اس کی محبت‘ ہر چیز کے اُوپر غالب ہوتی ہے۔ پھر خود انسان اُس کے پیچھے چلتا ہے اور اس پر اپنی پوری قوتیں لگا دیتا ہے۔

تقویٰ

تقویٰ کے معنی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس کے اندر کئی معنی پوشیدہ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کس چیز سے بچاتے ہیں؟ ہر اُس چیز سے جو ہم کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقویٰ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم درست اور غلط کا‘نیکی اور بدی کا ایک معیار مقرر کر لیں۔ ہم مان لیں کہ اس دنیا میں کچھ چیزیں ہم کو نقصان پہنچانے والی ہیں‘ اور کچھ ایسی ہیں جو فائدہ پہنچانے والی ہیں۔ اس کے بعد ہم اس پر یقین بھی رکھیں اور اسے عملی زندگی میں تسلیم بھی کریں کیونکہ اس کی پابندی کرنے کی استعداد بھی ہمارے اندر موجود ہے۔

تقویٰ ظاہری مظاہر سے زیادہ اُس قوت کا نام ہے‘ جس کے بل پر ہم جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں‘ اُس سے بچ جائیں اور جس کو صحیح خیال کرتے ہوں اُس کی طرف لپک کر جائیں۔ قرآن نے اس کو باربار واضح کیا ہے۔ کیونکہ تقویٰ قوت اور استعداد کا نام ہے‘ اس لیے تقویٰ کا اصل مقام انسان کا دل ہے۔ اہل ایمان تو وہ ہیں جو اللہ کے شعائر کا احترام کرتے ہیں‘  وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) ‘ جو نبی علیہ السلام کے سامنے اپنی آواز پست کرتے ہیں‘ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط  (الحجرات ۴۹:۳) اُن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے۔

صبر

تیسری چیز صبر ہے۔ صبر کے معنی بے بسی کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی بے چارگی کے بھی نہیں ہیں بلکہ صبر عزم اور ارادے کی قوت کا نام ہے جس کے بل پر وہ مقصد اور ہدف جس پر ایمان ہو‘ جو مقصود ہو‘ جس کی طرف جانا ہے‘ جو درست اور غلط کا معیار ہے‘ اُس پر استقامت اورثابت قدمی کے ساتھ انسان اپنے آپ کو باندھ لے۔ صبر کے لغوی معنی باندھ لینے اور جم جانے کے ہیں۔ اس راہ میں جو بھی مشکل پیش آئے اس کو تحمل کے ساتھ سہنے کا نام صبر ہے۔صبر کے اندر جوش اور تڑپ‘ سعی اور عمل بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ صبر اُس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے مقصد کا تعین کریں‘ غلط اور درست کے معیار کو متعین کر لیں اور اُس کے اُوپر جم کر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔ قوموں کی زندگی کے اندر ضبط‘ جسے انگریزی میں cohesion کہتے ہیں‘ صبر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ انتشار سے محفوظ رہتی ہیں۔ قرآن نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے صبر کا لفظ استعمال کیا ہے:  وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْج (الکھف ۱۸:۲۸) ’’اپنے آپ کو باندھ لو صبر کے ساتھ اُن لوگوں کی معیت میں جو تمھاری طرح اللہ کے طلب گار ہیں‘ اور صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘۔

استغفار

چوتھی صفت استغفار ہے۔ استغفار سارے انبیا کی دعوت کا بنیادی جز ہے۔ اللہ نے فرمایا:  وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ج (البقرہ ۲:۲۲۱)’’اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے‘‘۔  وَسَارِعُوْٓا اِلٰی   مَغْفِرَۃٍ  مِّنْ  رَّبِّکُمْ  وَجَنَّۃٍ  عَرْضُھَا  السَّمٰوٰتُ   وَالْاَ رْضُ (اٰل عمران ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔  سَابِقُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا (الحدید ۵۷:۲۱) ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘۔

استغفار کی صفت کیوں اہم ہے؟ دراصل استغفار کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نہ صرف غلط اور صحیح کا احساس اور یقین رکھیں‘ غلط سے بچیں اور صحیح پر عمل کرنے کی کوشش کریں‘ بلکہ ہر وقت اپنے نگہبان اور نگران رہیں‘ اپنا احتساب کرتے رہیں ‘اور جہاں غلطی کا احساس ہو وہاں غلطی کا اعتراف بھی کریں‘ اُس کی تلافی بھی کریں اور اُس کو دوبارہ کرنے سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں۔

افراد اور قوموں کی زندگی صحیح راہ پر عروج کی طرف اُس وقت آتی ہے‘ جب قومیں احتساب کے عمل سے گزرتی ہیں۔ احادیث میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ احتساب و استغفار کی روح یہ ہے کہ آدمی گناہوں کا اعتراف کرے اور یہ بات سمجھے کہ اس کو برے نتائج اور عواقب پیش آنے والے ہیں۔ اُس کے بعد اُس قوت اور سرچشمے کی طرف رجوع کرے جو اس کو غلطیوں سے محفوظ رکھنے والی ہے۔ گویا استغفار کی صفت بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر قوموں کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

اگر ہم ان چاروں چیزوں پر غور کریں‘ تو محسوس ہوگا کہ یہ کس قدر بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر کسی قوم کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو‘ اور اُس مقصد سے عشق اُس پر غالب نہ ہو (اور اللہ کی رضا سے بڑھ کر اور کون سا مقصد ہوسکتا ہے)‘ اور جب تک اُس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہ ہو کہ جس کو صحیح کہے اُس پر عمل کرے‘ اورجس کو غلط سمجھے اُس سے بچ جائے‘ جسے درست سمجھا ہے اُس کے ساتھ چمٹی رہے‘ اُس کے لیے کوشش کرے‘ اور اپنے احتساب کا عمل جاری رکھے‘ جہاں غلطی ہو اس کا اعتراف کرے‘ اور پھر اس غلطی کے برے اثرات سے بچنے کے لیے کوشش کرے‘ وہ عروج کے راستے پر نہیں چل سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی ایمان‘ تقویٰ‘ صبر اور استغفار کی بدولت کوئی قوم عظمت‘بلندی اور عروج پاسکتی ہے۔

قرآن کے دعوے کی حقیقت

اگر ان چاروں صفات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قرآن نے قوموں کے عروج کا جو انحصار ان پر کیا ہے‘ وہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم جو ایمان بھی رکھتے ہیں‘ تقویٰ بھی رکھتے ہیں‘ استغفار بھی کرتے ہیں اور صبر بھی کرتے ہیں‘ قرآن پر بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم دنیا کے اندر مغلوب اور کفار غالب ہیں؟

اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ایمان فی نفسہٖ ایک قوت ہے‘اور قدرت کی ترازو کے اندر وزن ایمان ہی کا ہے۔ اس کے ہاں نفاق کا کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ ایمان اگر باطل کے اُوپر ہے‘ جیسا کہ قرآن نے اصطلاح استعمال کی ہے‘  امنوا بالباطل‘ گویا باطل پر بھی ایمان ہو سکتا ہے‘ تو باطل پر ایمان حق کے ساتھ نفاق پر ہمیشہ غالب آئے گا۔ اس لیے کہ ایمان سے جوقوت پیدا ہوتی ہے خواہ باطل کی خاطر ہو‘ وہ دنیا کے اندر آگے بڑھے گی۔ نفاق اور تضاد کے ساتھ آدمی کمزور ہوتا ہے۔ اور اگر نفاق اور تضاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں تو انسان اور زیادہ غضب کا شکار ہوگا۔

دنیا کے اندر اصل چیز ایمان ہے۔ اس وقت جو قومیں دنیا کے اندر غالب ہیں‘ اُن کے مقاصد اور اہداف اگرچہ غلط ہیں‘ لیکن وہ اُن کے اوپر ایمان اور یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے جو غلط اور درست کا معیار مقرر کر رکھا ہے‘ ہمیں اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو‘ وہ اس کی پیروی کرتی ہیں‘ اُس کے ساتھ منافقت نہیں کرتی ہیں۔ اُن کے اندر احتساب کا عمل موجود ہے‘ اور جو اُن کے مقاصد ہیں اُن کے پیچھے وہ چلتی ہیں۔

لوگ امریکہ کی مثال دیتے ہیں کہ امریکہ ترقی کی شاہراہ پر کیسے پہنچا۔ امریکہ کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت کے ساتھ‘ لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔ ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے‘ وہ اُن کی سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر یورپ کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی قوموں کو یورپ سے نکال کر‘ دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا۔ یہ مقصد تھا جس کا عشق انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ جوکوئی بھی گیارھویں صدی کی صلیبی جنگوں سے لے کر اٹھارھویں صدی تک کے یورپ کی تاریخ پڑھے گا اس پر واضح ہو جائے گا کہ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ ہم دنیا کو تہذیب سے کیسے روشناس کرائیں۔

اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ سائنس اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ اسلحہ اور وسائل تھے‘ لیکن مقصد سے لگن اور محبت اُن پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف ۲۰۰سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈال دی جو ہزار سال تک دنیا کے اُوپر غالب رہی اور اب بھی زندہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان وتقویٰ ‘ صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے‘ خواہ صحیح بات کے لیے ہو‘ وہ مغلوب ہوگا‘ اور جہاں یہ موجود ہے ‘خواہ غلط بات کے لیے ہو‘ وہ غالب ہوگا۔

اُمت مسلمہ کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس سے الگ ایک اور قانون بھی بیان کیا ہے‘ اوروہ قانون یہ ہے کہ مسلمان قوم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک معاہدہ اور ایک عہد ہے۔ جب تک یہ اُمت اُس عہد کو پورا نہ کرے گی‘ یہ دنیا کے اندر غالب نہ ہو سکے گی۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم دیگر قوموں کی طرح اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف مادی اور معاشی مقاصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کامیاب ہو جائیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم اس طرح ترقی کی منزلوں کو سرکرلیں۔

اس پوری صدی کی تاریخ اس حقیقت کے اُوپر گواہ ہے۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کروں گا۔ اس صدی کے شروع میں دو ملکوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہماری ترقی مغرب کی پیروی کے اندر پوشیدہ ہے‘ ایک ترکی اور دوسرا جاپان۔ ان دونوں نے اس صدی کے شروع میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن ترکی ابھی تک اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ انسانی وسائل کے لحاظ سے اور اُن طریقوں کی پیروی کے لحاظ سے جو مغرب میں ترقی کے لیے پائے گئے ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ ترکی نے قانون بھی وہی اختیار کیا‘ وسائل بھی وہی اختیار کیے‘ تہذیب بھی وہی اختیار کی‘ یہاں تک کہ نصاب بھی وہی اختیار کرلیالیکن وہ ترقی کی منازل طے نہ کر سکا۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ محض مادی وسائل کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں‘ اور عروج کی شاہراہ پر آگے بڑھیں۔

اگر ہم اپنی قوم اور اُمت مسلمہ کا جائزہ لیں توہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ۲۵سال میں یہ ملک دولخت کیوں ہو گیا؟ اور ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ایسا کیوں ہوا کہ کروڑوں کی تعداد لاکھوں سے شکست کھا گئی؟ ہوائی جہاز زمین پر کھڑے کے کھڑے کیوں تباہ ہو گئے؟ ہماری پوری کی پوری فوج کمانڈر نے دشمن کے سامنے کیوں سرنڈر کر دی اور آج ہم تعداد میں چھ گنا ہونے کے باوجود اپنے دشمن کو مغلوب کیوں نہیں کر سکتے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے بھی ایک مثال موجود ہے۔ لبنان میں محض ایک چھوٹاسا گروہ جب اپنے مقصد کے عشق سے سرشار ہو کر کھڑا ہوا اور مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگیا تو اُس نے اسی طاقت کا ناطقہ بند کر دیا۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے قیام کے بعد‘ پورے ۴۰‘۵۰ سال میں قوم کو کیا مقصد دیا--- معاشی ترقی کا مقصد؟ ہم نے پنج سالہ منصوبے بنائے تومعاشی ترقی کے لیے‘ وسائل جھونکے تو اسی کے لیے‘ تعلیم کے معاملے پر غور کیا تو اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی میں کس طرح ترقی کریں گے۔ پچھلے تمام عرصے میں یہی فکر‘ یہی سوچ اور یہی تعلیم قوم کو دی جاتی رہی‘ اور یہی زہر اُس کی رگ رگ میں پھیلایا جاتا رہا۔ جب معاشی ترقی ہی مقصود ٹھیری تو پھر ملکی ترقی سے پہلے صوبائی ترقی مقصود کیوں نہ ہو؟ اور اس سے پہلے محلے کو ترجیح کیوں نہ ہو‘ اور محلے سے پہلے میرے گھر کی باری کیوں نہ آئے؟ کہتے ہیں کہ سارے امراض کی جڑ اس فلسفے کے اندر ہے کیونکہ رشوت لوں گا تو اپنے گھر کی سوچوں گا‘ اُس سے آگے بڑھوںگا تو اپنے صوبے کے بارے سوچوں گا کہ سندھ‘ بلوچستان یا پنجاب یا پھر سرحد کی ترقی ہو۔ اس لیے کہ دوڑ کس بات کی ہے؟ معاشی ترقی کی۔ مقصد کیا ہے؟ معاشی ترقی اور ذاتی مفاد۔ ہمارے ’’خدا‘‘ (میں یہ لفظ انگریزی سے لے کر استعمال کر رہا ہوں‘ اس میں دوسرے خدائوں‘ دیوتائوں کے لیے خدا کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ہمارے ’’دیوتا‘‘ کیا ہیں؟ مجموعی قومی آمدنی (جی این پی)! بس ہمارا معیار زندگی بلندہونا چاہیے۔ سارے صدر اور وزرا جو پہلے دن سے آج تک گزرے ہیں ‘ انھوں نے پوری قوم کو یہی مقصد دیا ہے۔ ان کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اگر آج ہم اس کا رونا روتے ہیں کہ کرپشن اور چوربازاری عام ہے‘ لوگ ایمان داری سے کام نہیں کرتے‘ فرائض ادا نہیں کرتے‘ تعلیمی نظام ناقص ہے‘ تجارت خسارے میں جا رہی ہے‘ تو یہ دراصل ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔  وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔

آج جس طرح مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دن کے بعد رات آئے گی‘ اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں‘ کتنے ہی منصوبے کیوں نہ بنا لیں‘ اور کتنی ہی معاشی ترقی کیوں نہ کر لیں‘ لیکن ۱۰۰ سال بعد بھی یہ قوم اسی مقام پر کھڑی ہوگی جس طرح ترکی آج ۷۰ سال بعد اسی مقام پر کھڑا ہے۔ معاشی مسائل ویسے ہی ہوں گے‘ غربت ویسی ہی ہوگی‘ جہالت ویسے ہی ہوگی‘ افراط زر اسی طرح ہوگا اور لوگ بھی اسی طرح پریشان حال اور مصیبت میں ہوں گے۔

ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اوپر ایمان کی تجدید کریں۔ یہ بات میں صرف وعظ کے رنگ میں نہیں کہہ رہا۔ ہمارے کُل قومی وسائل ‘ پانچ سالہ منصوبے‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن اور تمام ذرائع ابلاغ اس کے لیے وقف ہونے چاہییں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین مضبوط ہو‘ اس کی محبت پیدا ہو‘ استغفار اور تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ ہم جس بات کو صحیح مانیں اس کو اختیار کرنے کی قوت ہمارے اندر پیدا ہو۔ جس بات کو غلط کہیں اُس سے بچنے کی قوت ہمارے اندر ہو اوراگر غلطی کریں تو بلاجھجک اس کا اعتراف کریں اور اُس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ لازماً ہمیں عظمت و سربلندی اور عروج عطا کرے گا:  وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o ( اٰل عمران ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ (کیسٹ سے تدوین: ارشادالرحمٰن)


(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات ‘ منصورہ‘ لاہور)