متشابہات: وہ جن کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجایش ہے--- یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومات انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماوراء ہیں‘ جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں نہ آسکتی ہیں‘ جن کو نہ اس نے کبھی دیکھا‘ نہ چھوا‘ نہ چکھا‘ اُن کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب ِ بیان مل سکتے ہیں جن سے ہر سامع کے ذہن میں اُن کی صحیح تصویر کھنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور اسالیب ِ بیان وہ استعمال کیے جائیں جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن میں ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے‘ اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں یہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ لیکن اس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دھندلا سا تصور پیدا کر دے‘ ورنہ اس کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا حتیٰ کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اور زیادہ دُور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالب حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اُس دھندلے تصور پر قناعت کرلیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں‘ مگر جو لوگ بوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ان کا تمام تر مشغلہ متشابہات ہی کی بحث وتنقیب ہوتا ہے۔
یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں تو ان پر ایمان کیسے لے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ متشابہات کی تاویلوں سے۔ اور جب آیات محکمات میں غوروفکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کا سیدھا سادہ مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے اس کو وہ لے لیتا ہے ‘اور جہاںپیچیدگی رونما ہوتی ہے وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لا کر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ (’’تفہیم القرآن‘ ‘،ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۱‘ عدد ۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۱ھ‘ اکتوبر‘ نومبر۱۹۴۲ء‘ ص ۱۴-۱۵)