ملکی سیاست میں فوج کا کردار اس وقت ہمارے ملک میں ایک گرم موضوع ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لیے انڈونیشیا سے آنے والی یہ خبرآنکھیں کھولنے والی ہونا چاہیے کہ وہاں کے دستور میں سے فوج کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ کردار اس سے بہت زیادہ تھا جتنا ہمارے ہاں اس بہانے تجویز کیا جا رہا ہے کہ فوج کو بار بار مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ انڈونیشیا میں تو منتخب اسمبلی میں فوج کے نامزد نمایندے بطور ممبر بیٹھتے تھے اور صدر کے انتخاب میں فیصلہ کن ووٹ ڈالتے تھے۔۳۰ سال کی سہارتوکی فوجی حکومت کے بعد جب جمہوری حکومتوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک کی اصل تصویر عوام کے سامنے آئی۔ خوش حالی کے دعوئوں اور پٹرولیم‘ گیس‘ ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ‘ لکڑی‘ربڑ اور سیاحت کی وسیع صنعتیں موجود ہونے کے باوجود‘ غربت اور بے روزگاری عام ہے اور ملک کے شہری پریشان حال ہیں۔ عوام آج بھی راہ نجات کی تلاش میں ہیں۔
عبدالرحمن واحد کی ناکامی کے بعد انڈونیشیا پر اس وقت سوئیکارنو کی بیٹی میگاوتی بطور صدر حکومت کررہی ہیں جو سیکولر ہیں اور جمہوری پارٹی کی سربراہ ہیں۔ ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں ان کی جمہوری پارٹی نے ۱۵۴ اور سہارتوکی سابق حکمران گولکر پارٹی نے ۱۲۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی اسلام پسند پارٹی یونائٹیڈڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ حمزہ حاذ اس وقت ملک کے نائب صدر ہیں۔ اس نے ۵۸نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ سیکولر پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب انڈونیشیا میں جعفر عمرطالب اور ابوبکر بشیر کو القاعدہ سے رابطے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو حمزہ حاذ نے بلاتکلف جیل جاکر ان سے ملاقات کی۔ اسمبلی کے اسپیکر امین رئیس کی قومی بیداری پارٹی نے ۳۵ نشستیں حاصل کیں۔ یہ دونوں پارٹیاں اور نہضۃ العلما اسلامی قوتوں کی ترجمان ہیں۔ سہارتو کے خلاف تحریک میں ان کا نمایاں کردار تھا اور اب بھی دستور میں ترامیم کے وقت انھوں نے ملکی قوانین میں اسلامی شریعت کی بالادستی کے لیے منظم کوشش کی لیکن یہ ترمیم دستور میں نہ ہو سکی۔ اس پر نیوزویک نے یہ تبصرہ بھی دیا کہ: ’’دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کی اکثریت نے اسلام کو بحیثیت ملک کے قانون کو مسترد کر دیا‘‘۔
نظام حکومت میں شریعت اسلامی کی بالادستی کی علم بردار ایک پارٹی انصاف پارٹی ہے۔ جس کو سات نشستیں ملی تھیں۔ اس نے نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس کے ۳ لاکھ ممبر ہیں۔ اس کے سیکرٹری جنرل لطفی حسن اسحاق گذشتہ دنوں پاکستان آئے تو انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ۵ فی صد چینی النسل آبادی نے ملک کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔
مشرقی تیمور کی آزادی کے بعد وہاں آچے‘ پاپوا‘ ایم بون‘ سلاویسی میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آچے کے عوام اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی خبریں برابر آتی رہتی ہیں۔ ایک عنصرعیسائی مسلم فسادات کا بھی ہے۔ سہارتو کے دور میں عیسائیوں نے بہت پیش رفت کی۔ ۱۹۵۵ء میں جو مسلمان۹۵ فی صد تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۸۷ فی صد رہ گئے۔ کلیسا اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور انڈونیشیا ان کا سوچا سمجھا ہدف ہے۔
۲۰۰۴ء میں صدارتی انتخاب ہونے ہیں۔ نئی دستوری ترمیم کے مطابق یہ اب براہِ راست ہوں گے۔ پہلے کی طرح اسمبلی کے ذریعے بالواسطہ نہیں۔اس موقع پر یقینا اسلام اور سیکولر قوتوں کا پولرائزیشن ہوگا۔ نیوزویک نے اس سال سنٹر فار انٹرنیشنل کارپوریشن کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق۵۸ فی صد آبادی نے یہ پسند کیا تھا کہ انڈونیشیا کے تمام جزائر میں شریعت کی بالادستی بالفعل ہونا چاہیے۔ ملک کے حالات ابتر ہیں‘ اقتصادیات تباہ ہیں۔ اگر اسلامی قوتیں ایک پلیٹ فارم بناکرعوام کے سامنے آئیں تو بالکل ممکن ہے کہ آیندہ انتخاب میں حمزہ حاذ بطور صدرمملکت کامیاب ہو جائیں۔