جولائی ۲۰۰۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۰۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

والد سے حق کی وصولی

سوال: میری عمر ۳۰ سال ہے۔ میں کوئی چھ سات مہینے کا تھا کہ میرے والد اور والدہ میں علیحدگی ہوگئی۔ دونوں نے دوسری شادی کرلی۔ مجھے میری پھوپھونے پالا ہے۔اب بھی وہی میرے اخراجات برداشت کرتی ہیں۔ میں گریجوایٹ ہوں لیکن بے روزگاری کی وجہ سے‘پھوپھو کی دکان میں‘ اپنے انکل کے ساتھ کام کرتا ہوں جس سے گزربسر ہوجاتی ہے۔

میرے والد ۱۹ ویں گریڈ میں‘ محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہیں۔ شہر کے مرکز میں ان کی پراپرٹی ہے جو انھوں نے کرائے پر دی ہوئی ہے لیکن میرے والد اور سوتیلی والدہ‘ میری کسی قسم کی کفالت کرنے یا مجھے میرا کوئی جائز حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں اور مجھے بدنام کرنے کا ہر طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مجھے عاق کر دیں۔ دو تین دوستوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو والد صاحب نے ان سے بولنا ہی چھوڑ دیا۔ ماں کی محبت سے تو میں ہمیشہ ہی محروم رہا اور والد صاحب نے بھی‘ نہ توروحانی تربیت کا ہی کوئی اہتمام کیا اور نہ مالی طور پر ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ میری یہی کوشش رہی کہ میں اپنے والد کو کسی مصیبت یا تکلیف میں کبھی اکیلا نہ چھوڑوں۔ لیکن وہ ہیں کہ مجھے میرا حق تک نہیں دینا چاہتے۔

میں کاروبار کر کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں اور اپنے ’’ایمان کی تکمیل‘‘ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ پسند نہیں ہے کہ میں اپنے جائز حق کے حصول کے لیے اپنے والد صاحب کو عدالت میں لے جائوں۔ کیا مجھے صبر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یومِ حساب پر بات ڈال دینی چاہیے‘ یا اپنے حق سے دستبردار ہوجانا چاہیے؟ مجھے اپنے جائز حق کے حصول کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب :  اسلام انسانوں کے لیے ان کے پیدا کرنے والے پروردگار کی طرف سے بھیجا ہوا ضابطہ ء حیات ہے جس میں ہر فرد کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ نیز ان اخلاق و آداب کی بھی تعلیم دی گئی ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں ایک پُرسکون‘ پُرمسرت‘پُرامن اور ایک ترقی یافتہ مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے‘ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔

مسلمان والد کی حیثیت سے اسلام نے ہر باپ کی یہ ذمہ داری متعین کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔ بالغ ہونے سے قبل تک اس کی معقول انداز میں حسب استطاعت کفالت کرے‘ اور اس کو معاشرے میں ایک اچھے مفید مسلمان عنصر کی حیثیت میں پیش کرے۔ تمام میسرنعمتوں‘ سہولتوں اور مال و دولت میں سے اپنی اولاد کے لیے بھی اتنا ضرور چھوڑ جائے کہ وہ دَر دَر کی بھیک مانگنے سے بچ سکے‘ نیز اپنی اولادکو کچھ دینے میں بھی کسی کو کسی پر ناجائز فضیلت اور ترجیح نہ دے۔ یہ ایک باپ کی شرعی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہے۔

ایک بیٹے اور اولاد کی حیثیت سے اسلام ہماری یہ رہنمائی کرتا ہے کہ باپ کا رشتہ بڑا ہی مقدس ہے۔ اس کے احترام اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے۔ اس بات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں شرک سے بچنے اور توحید کی تعلیم دی ہے وہاں والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اپنانے کا واضح حکم دیا ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّا ٓاِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا o       (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ: ’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ‘ مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔

جہاں تک صورت مسئولہ کا تعلق ہے تو اس میں اگر آپ کے والد محترم کو تذکیر اور     یاد دہانی کے طور پر صلۂ رحمی اوراولاد کے حقوق سمجھائے جا سکتے ہوں تو یہ کام کیا جانا چاہیے لیکن آپ کے لیے یہ بات مناسب نہ ہوگی کہ آپ ان کی شہرت کو نقصان پہنچائیں‘ یا ان کی غیبت کرتے پھریں۔ بالغ ہوجانے کے بعد آپ کے والد کو اخلاقی طور پر تو آپ کی مدد اور کفالت کا پابند ہونا چاہیے لیکن یہ ایسا حق نہیں ہے کہ جس کے لیے آپ قانونی جنگ لڑیں یا اُن کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔ لہٰذا انھوں نے آپ کے بچپن کے دوران آپ کے حق میں جو کوتاہی کی ہے ‘ اُس سے درگزر کریں یا اُس معاملے کو احکم الحاکمین پروردگار کی عدالت میں یومِ قیامت کے لیے اُٹھا رکھیں جہاں پر ہر حق دار کو اپنا حق مل کر رہے گا۔

یہ آپ کے والد کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے حقوق کی ادایگی کرتے ہوئے آپ کی جو مدد کرسکتے ہیں وہ کریں‘ صلۂ رحمی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اولاد مفلوک الحال ہو اور والد مدد کرسکتا ہو اور نہ کرے تو وہ اس کے لیے خدا کے ہاں جواب دہ ہے۔

اگروہ ایک غلط روش کے مرتکب ہو رہے ہیں تو خاندان کے بڑے بزرگ‘ ان کے دوست احباب اور وہ لوگ جن کا کچھ اثر ورسوخ ہو‘ ان سب کو موثرانداز میں انھیں اس طرف توجہ دلانی چاہیے کہ وہ حق تلفی نہ کریں اور اس کے لیے ہر قسم کا سماجی دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ کسی طرح وہ اپنے بھائی کو خدا کا عذاب مول لینے سے روک سکیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ آپ کو تنہا نہ چھوڑیں اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔ یہ ان کا اخلاقی فریضہ ہے۔

آپ دنیا میں اس مسئلے کو اپنے لیے مسئلہ نہ بنائیں۔ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ مانگنے اور مفت مل جانے کی توقعات کے خیالات کو ہی دل سے نکال پھینکیں۔ لومڑی بن کر دوسروں کی باقی خوراک کے انتظار میں گھٹتے رہنے کے بجائے شیروں کی طرح اپنی خوراک کا خود انتظام کرنا سیکھیں اور دوسروں کو دینے کے قابل بنیں۔ اپنے والد صاحب کے لیے دعاے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کا ذکر کھلے دل سے کیا کریں۔ اپنے حقوق کی کھوج لگاتے رہنے کی بجائے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی فکر کریں کہ یہی کامیاب زندگی گزارنے کا گُرہے۔ اور اسی سے اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کا حصول بھی ممکن ہے۔

جب آپ کو اپنے والد صاحب کی اس لاپروائی اور غفلت کی یاد آئے تو ان کی عظمت‘ تقدس اور مقام و مرتبے کا خیال بھی ذہن میں تازہ کیجیے کیونکہ وہ ایک باپ ہیں۔ دنیا میں آپ کے وجود کا باعث اور رب کریم کے بعد آپ کے عظیم محسن ہیں جن کی خدمت و احترام آپ کا انسانی‘ دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو صبر و یقین کی دولت سے مالا مال رکھے‘ اور اس حسنِ سلوک پر استقامت نصیب فرمائے ‘ اور آپ کی ضروریات کو اپنے خزانہ غیب سے پورا فرمائے۔ آمین۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)


شیطانی وسوسہ

س:  ایک عرصے سے میرے دل میں ایک شیطانی وسوسہ بیٹھ گیا ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف پر شک ہونے لگا ہے۔ میں بار بار اپنے دل سے پوچھتا ہوں: ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو انتہائی امیر اور کچھ لوگوں کو انتہائی غریب بنایا ہے۔ اگر سب برابر ہوتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ اس شیطانی وسوسے کی وجہ سے میری نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ ان وسوسوں سے نجات پانے میں رہنمائی فرمایئے۔

ج:  ہر مومن کے ساتھ ایسا لمحہ آتا ہے‘ جب شیطان اسے بہکاتا اور ورغلاتا ہے۔ اسے وسوسوں میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ جلد ہی ان وساوس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ نے جن وسوسوں کا تذکرہ کیا ہے وہ دراصل دو بڑی غلط فہمیوں پر مبنی ہیں:

۱-  پہلی غلطی یہ ہے کہ آپ نے دنیوی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ مال و دولت ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسان کی زندگی میں مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ کتنے پیسے والے ایسے ہیں جنھیں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا ہے‘ اپنے پیسوں سے وہ صحت نہیں خرید سکتے۔ مال و دولت کے انبار کے باوجود ذہانت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں‘ یا اولاد جیسی نعمت کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ اولاد ہوتی بھی ہے تو ناکارہ نکل آتی ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو غریبوں کی طرح پیٹ بھرکر کھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے پیسوں سے بھوک نہیں خریدسکتے۔ بھوک ہے تو موٹاپے کے خوف سے پیٹ بھرکرنہیں کھاسکتے۔ مان لیجیے وہ پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں لیکن کتنا کھائیں گے؟ کیا اپنے پیٹ میں زمین و آسمان کو سمولیں گے؟ کیا اپنی دولت کو قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہوگی اتنا ہی قیامت کے دن اس کا حساب کتاب بھی ہوگا۔

معلوم ہوا کہ مال و دولت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں ہزارہا نعمتیں ایسی ہیں جو اس سے قیمتی ہیں۔ اب آپ ذرا خود پر غور کیجیے کہ جو قوت بینائی آپ کو عطا کی گئی ہے‘ کیا لاکھ دو لاکھ کے عوض آپ اسے فروخت کرسکتے ہیں؟ یہ جو قوت سماعت آپ کو ملی ہے‘    اسے سونے چاندی کے بدلے آپ فروخت کرسکتے ہیں؟ غرض کہ ہاتھ‘ کان‘ناک‘ پائوں اور دوسرے سارے اعضا اللہ کی وہ نعمتیں ہیں‘ جن کا بدل سونا چاندی نہیں ہوسکتے۔ اللہ فرماتا ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا o  (ابراھیم ۱۴:۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘‘۔ ہر چیز کو مادیت کی نظر سے دیکھنا انسان کی بہت بڑی غلطی ہے۔

۲-  دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ کے عدل و انصاف کا تقاضا  یہ تھا کہ سارے انسان مال و دولت میں برابر ہوتے۔

بخدا برابری میں کوئی حکمت نہیں ہے۔ حکمت تو اس میں پوشیدہ ہے کہ سب برابر نہ ہوں تاکہ انسانوں کی آزمایش ہوسکے اور معلوم ہوسکے کہ کون شکرگزار ہے اور کون ناشکرا۔ کون مصیبت کی گھڑی میں صبر کرتا ہے اور کون صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔

اللہ نے جو یہ زمین و آسمان پیدا کیے‘ ہماری تخلیق کی‘ تو کیا یہ سب کچھ یونہی بلامقصد کیا؟ کیا ہمیں صرف اس لیے بنایا ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مرجائیں؟ اگر سب کو برابر پیدا کرنا ہوتا تو وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ انسان کو بغیر پیٹ کے پیدا کرتا۔ نہ ہمیں لباس کی ضرورت ہوتی نہ سرچھپانے کے لیے گھر کی۔ پھر توامیر و غریب کا کوئی جھگڑا ہی نہ ہوتا۔ لیکن نہیں۔ حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے ساتھ انسانی ضروریات بھی پیدا کی جائیں۔ آزمایش کی خاطر انسانوں میں فرق بھی رکھا جائے۔ اگر کوئی احسان و بھلائی کرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جس کے ساتھ وہ بھلائی کرے۔ اگر کوئی صبرکرنے والا ہے تو کوئی ایسا بھی ہو جسے دیکھ کر وہ صبر کرے۔ اگر سب برابر ہوتے تواس زندگی میں کوئی مزہ نہ ہوتا۔ کوئی بھاگ دوڑ اور گہماگہمی نہ ہوتی۔ ساری رونق حیات مفقود رہتی۔ دن اور روشنی کی اہمیت و منفعت کا احساس ہمیں اسی لیے توہے کہ ان کے ساتھ رات اور تاریکی بھی پیدا کی گئی ہے۔ اگر تاریکی نہ ہوتی تو روشنی کا ہمیں کیا احساس ہوتا؟

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہم انسان‘ خدا کی حکمت کا تعین کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک بیمار شخص رات بھر درد سے تڑپتا ہے اور چاہتا ہے کہ درد بھری رات منٹوں میں ختم ہو جائے‘ دوسری طرف شب زفاف کی رنگینیوں میں مگن شادی شدہ جوڑا یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ اب آپ بتائیں کہ خدا کس کس کی سنے؟ کس عمل میں حکمت پوشیدہ ہے؟ حق تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک نظام کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس کی حکمت وہی بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

یہاں پر ایک قصے کا بیان قرین سیاق معلوم ہوتا ہے۔ ایک باغ میں باپ بیٹے محو گفتگو تھے۔ بیٹے نے باپ سے کہا کہ ہمیں تو اس میں اللہ کی کوئی حکمت نظرنہیں آتی کہ کھجور ایسے ننھے پھل کو ایک بڑے مضبوط درخت میں پیدا کیا اور تربوز ایسے بھاری بھرکم پھل کو کمزور سی بیلوں میں جنم دیا کہ     یہ بیلیں زمین سے اوپر نہیں جاسکتیں۔ باپ نے کہا کہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوگی لیکن ہم انسان نہیں سمجھ سکتے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں سوگئے۔ اسی دوران ایک کھجور ٹوٹ کر بیٹے کے سر پر آگری۔ بیٹے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بتایا کہ کھجور کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باپ نے کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس بڑے درخت میں تربوز نہیں پھلتا ورنہ آج تم آخری سانس لے رہے ہوتے۔ گرچہ یہ ایک قصہ ہے لیکن سوچنے والوں کے لیے اس میں سامانِ عبرت ہے۔

آپ کو چاہیے کہ جو شیطانی وسوسہ آپ کے ذہن میں آیا ہے اسے فوراً جھٹک دیں۔ خدا سے توبہ کیجیے‘ اپنے ایمان کا اعادہ کیجیے۔ نمازیں پڑھنی شروع کر دیجیے اور جب کوئی شک ذہن میں آئے تو فوراً اہل علم کی طرف رجوع کیجیے۔ (علامہ یوسف القرضاوی‘ فتاویٰ یوسف القرضاوی ‘ ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی‘ ص ۱۰۱-۱۰۴‘ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی‘ بھارت)