ایک سودا جس میں ہمارے تجدد پسند مبتلا ہیں،یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو ہر ممکن طریقے سے باور کرانا چاہتے ہیں کہ ’اسلامی طرزِ حیات کا عرب تہذیب وثقافت ، خصوصاً عربی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔ ان کے خیال میں ’قرآن کریم کی کلاسیکی عربی کی اشاعت اور عربی کا مسلمان ملکوں کی سرکاری زبان قراردینا کسی اعتبار سے بھی اسلام کی غرض وغایت کی تکمیل میں معاون نہیں ہوسکتا‘۔
مسلم معاشروں میں بعض حضرات تو اس سلسلے میں غلط طور پر خلط مبحث سے کام لیتے ہیں۔ انھیں یہ تسلیم کرنے میں تامّل ہے کہ نو مسلم عربی ناموں کو اپنا نا پسند کرتے ہیں۔ دلیل کے طور پر وہ قرآنِ کریم کے انگریزی مترجم محمد مارما ڈیوک پکتھال (۱۸۷۵ء - ۱۹۳۶ء) ایسے مشہور نو مسلموں کا نام لیتے ہیں اور بڑے اصرار کے ساتھ کہتے ہیںکہ وہ ایک مخلص مسلمان تھے، اس کے باوجود انھوں نے اپنا انگریزی نام برقرار رکھااور صرف ’ محمد ‘کا اضافہ کیا۔ مارما ڈیوک پکتھا ل کے مخلص اور سچے مسلمان ہونے میں کسے شک ہو سکتا ہے ؟ قطع نظر اس کے کہ انھوں نے اپنے لیے کون سا نام پسند کیا، دنیائے مغرب میں ان کی اسلامی خدمات پر شاذہی حرف گیری کی جا سکتی ہے ۔ تاہم، یہاں سوال جائز اور مباح کا نہیں مرجح اور مستحسن کا ہے۔
اگرچہ شریعت کی رُو سے غیرعربی نام برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن مستحسن یہ ہے کہ نو مسلم اپنا پورا نام مسلمانوں کا سار کھے اور کوئی ایسا نشان باقی نہ رہنے دے، جس سے اس کی سابقہ غیر اسلامی زندگی کا پتا چلتا ہو۔ ٹھیک یہی بات لباس کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ مغربی لباس اگر معقول اور شائستہ ہو تو ایسی پوشش سے اسلام کی کسی تعلیم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ بے شک وہ جواز کی حد تک قابلِ قبول ہے لیکن کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت اور اتّباعِ سنت کی خاطر یہ زیادہ مستحسن نہ ہو گا کہ ہم حتی الوسع وہ لباس زیب تن کریں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث میں مسلمانوں کوغیر مسلموں کے طور اطوار اور لباس کی نقالی نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے تو اس عمل کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سنت کو سراہا اور اس کے اتّبا ع کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ سنت چھوٹے چھوٹے امور پر بھی حاوی ہے، مثلاً ایک طباق میں بہت سے لوگوں کا مل کر کھانا، فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں اور بالوں کے کمبلوں پر بیٹھنا اور سونا، داڑھی رکھنا، جُبّے اور پگڑیاں پہننا اور عربی زبان بولنا ___ بے شک یہ اعمال نماز، روزے ، حج اور زکوٰۃ کی طرح فرض نہیں ہیں۔ ان کا اہتمام نہ کرنے سے آدمی گناہ گار نہیں ہوتا، لیکن انھیں محض ساتویں صدی کے بدوئوں کے لیے موزوں قرار دے کر ان کی تحقیر کرنا اور جدید مغربی اطوار کو فوقیت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر وتضحیک کے مترادف ہے۔ پھر وہ شخص اپنے آپ کو ایک اچھا مسلمان کیسے سمجھ سکتا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو بوجھ کے طور پر دیکھتا ہے۔
تنقیح طلب امر یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے عرب اجزاء کی اہمیت کو گھٹانے کی جو کوشش کر رہے ہیں، اس کا محرّک کیا ہے؟ یہی عرب خصوصیات اسلام کو امتیازی وجود اور تہذیب عطا کرتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس پر تجدّد پسند نہایت شدّومد سے اعتراض کرتے ہیں۔ تجدّد پسند تحریک کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو حتی الامکان زیادہ سے زیادہ تہس نہس کرلیں، مگر ایسے انداز سے کہ غافل مسلمان غضب ناک ہونے نہ پائیں۔ چنانچہ وہ اسلام کے بدن سے ہڈیوں تک گوشت نوچ لینے کی سعی میں مصروف ہیں،ان کابس چلے تو ہڈیاں بھی نہ چھوڑیں ۔ وہ اسلام کے ان تمام تصورات پر یلغار کر رہے ہیں جو اسے دوسرے مختلف نظام ہائے حیات سے الگ تہذیبی استقلال اور ٹھوس امتیازی خصوصیت عطا کرتے ہیں۔
ان مغرب زدہ نام نہاد مسلمانوں کا اصرار ہے کہ اسلام چند عمومی اصولوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اسلام روا داری ، اخوت، خیر خواہی اور امنِ عالم کا نام ہے۔ فلاحی ریاست، لبرلزم، عقلیت پسندی،نظریۂ عملیت، انسان دوستی (Humanism)اور مادی ترقی ہی اسلام ہے۔ تجدّد پسندوں کا اسلام اتنا لچک دار اور لا محدود ہے کہ وہ کوئی بھی چیز بن سکتا ہے اور ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے۔ اور جب وہ کوئی بھی چیز بن سکتا ہے تو گویا کچھ بھی نہیں رہتا، چنانچہ ٹھیک یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے تجدّد پسند جدو جہد کر رہے رہیں۔