قرآن مجید تعلیماتِ الٰہی اور احکام کی تفہیم کے لیے مختلف اسلوب اختیار کرتا ہے ۔ کبھی قصے کا اسلوبِ بیان اختیار کرتا ہے، کبھی ترغیب وترہیب کا پیرایۂ بیان ، تو کبھی تشبیہ وتمثیل کا انداز۔ اس تبدیلی پیرایۂ بیان کا مقصد یہ ہے کہ حقائق ومعانی ، احکام وفرامین ،ذہنوں اور دلوں میں پورے طریقے سے بیٹھ جائیں۔
تمثیل (allegory) کا اسلوب بھی اسی مقصد کے لیے ہے، تا کہ اعلیٰ حقائق دل کی گہرائیوں میں اتر جائیں،ذہن ودما غ کے دریچوں میں اچھی طرح رچ بس جائیں۔ تمثیل ادب کی ایک دل نواز قسم ہے، جو بات کو سمجھانے کے لیے تیر بہ ہدف کا اثر رکھتی ہے۔ اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ہر پیغمبر ، حکیم ، خطیب ، مصنف اور ہر استاد تمثیلات وتشبیہات کو بھی اختیار کرتا ہے۔ اسی وجہ سے انبیا وحکما کے کلام میں اس کی بڑی کثرت پائی جاتی ہے۔
سیدنا مسیح علیہ السلام ایسی ایسی تمثیل دیتے ہیں کہ بڑے سے بڑا عقلی استدلال بھی وہاں پھیکا معلوم ہوتا ہے ۔ حکما وصوفیا میں تمثیلات کے امام مولانا رومی ؒ کو مانا جاتا ہے۔ احادیث بھی تمثیلات کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں کیوں کہ اعلیٰ حقائق اور روحانی نکات کو جب تک تمثیل کی شکل میں نہ بیان کیا جائے، اس وقت تک وہ عام عقل کی گرفت میں نہیں آتے۔
تمثیل کی اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اہل قلم حضرات نے قرآنی تمثیلات کے مختلف موضوعات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی ؒ کی تحریروں سے مرتب کردہ تمثیلات قرآنی، خالد محمود کی امثال القرآن اور عربی میں الامثال فی القرآن محمود بن شریف کی تالیف ہے۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں علوم القرآن کے موضوع پر موجود تقریباً تمام کتابوں میں اس عنوان کے تحت بحث ملتی ہے۔ مثال کے طور پر: مناہل العرفان فی علوم القرآن، مباحث فی علوم القرآن اور الاتقان فی علوم القرآن وغیرہ۔
۱- ایک تمثیل کی وہ صورت ہے، جس میں لفظ ’مثل‘ کی صراحت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں لفظ ’مثل‘ مذکورہ ہے۔ مثلاً :
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۰ۭ وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۲۶۱ (البقرہ۲:۲۶۱)جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیںان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اس طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔
اس آیت میں لفظ ’مثل ‘ کا استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کی گئی مال ودولت کا اجر وثواب بتا رہا ہے۔ فرمایا جو مال اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی خاطر لوگوں میں خرچ کیا جائے گا اس کا اجر وثواب کیسے دوگنا،تین گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہو جائے گا ۔ تم اسے ایک دانے کی مثال سے سمجھو۔یہ بات سب کے مشاہدے میں ہے کہ ایک دانہ بویا جاتا ہے اس سے کئی بالیاں اور شاخیں نکلتی ہیں۔ پھر ان شاخوں اور بالیوں سے بے شمار غلے اور دانے پیدا ہوتے ہیں۔
ایک دانے کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو سمجھا رہا ہے کہ جس ربّ کی یہ شان اور قدرت ہے کہ مناسب موسم اور صحیح طریقے سے بوئے گئے ایک دانے سے وہ کئی سو دا نے پیدا کرسکتا ہے، تو کیا اس ربّ کی یہ شان نہ ہو گی کی صحیح جگہ اور درست نیت سے خرچ کیا ہوا مال کا اجر وثواب بھی کئی سو گنا بڑھا کر دے۔
اس کے بالکل بر عکس جو لوگ مال ودولت لوگوں پر احسان جتانے کے لیے یا انھیں بُرا بھلا کہہ کر خرچ کرتے ہیں، انھیں اس خرچ کا ذرہ بھر بھی اجروثواب ملنے والا نہیں ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے کتنے دل نشین انداز میں مثال سے سمجھایا ہے کہ ہر خاص وعام کی سمجھ میں فوراً اور آسانی سے آ جائے ۔
فرمایا : ’’ریا کارانہ خرچ اور احسان جتا کر ،دلوں کو دُکھا کر کیا گیا خرچ ایسے ہی برباد اور نیست ونابود ہو جائے گا جیسے ایک صاف شفاف چٹان ہو اور اس پر مٹی پڑی ہوئی ہو۔ جب اس مٹی پر بارش کی ایک ہلکی سی پھوار پڑتی ہے تو وہ چٹان بالکل صاف اور چکنی ہو جاتی ہے جیسے اس پر مٹی تھی ہی نہیں ۔ بالکل اسی طرح اس خرچ پر کوئی اجر وثواب نہیںملنے والا ہے جو لوگوں کو دکھانے کے لیے اور احسان جتا کر خرچ کیا گیا ہو گا‘‘۔
۲- دوسری وہ تمثیل ہے، جس میں لفظ ’مثل‘ کی صراحت نہ ہو، لیکن معنوی طورپر تمثیل کا انداز پایا جاتا ہے، جیسے غیبت کی کراہت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ O (الحجرات ۴۹:۱۲) کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے۔ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو، اللہ سے ڈرو اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
اس آیت میں لفظ ’مثل‘ کا ذکر نہیںہے، لیکن معنوی مثال دے کر غیبت کی شناعت ، حرمت اور اس کے گھنائونے پن کو واضح کر دیا ہے۔ آدمی کا کسی کی غیبت کرنا کتنا گھنائونا اور بدمزہ کام ہے کہ اسے مثال دے کر بتایا گیا کہ اگر کوئی مسلمان اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرتا ہے تو گویا وہ اپنے ہی مُردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔ اس مثال میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ ایک تویہ کہ مُردہ گوشت کھانے سے طبیعت کو گھن آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے گھنائونے پن میں اور اضافہ ہو جائے گا جب وہ مردہ گوشت خود اپنے بھائی کا ہو۔ گویا جب ہر آدمی اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے گھن کھاتا ہے تو اس سے یہ لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے بھائی کی غیبت سے بھی گھن آنی چاہیے اور اس سے بچنا چاہیے۔
اس آیت میں سود خوروں کی اصل حقیقت بے نقاب کی گئی ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے حلال وحرام کو برابر کر دیا، سوداور بیع کو یکساں سمجھا۔ ظاہر ہے کہ حلال وحرام کو برابر سمجھنا حواس باختہ انسان کا ہی کام ہے۔ اسی لیے ان لوگوں کی سزا یہ قرار دی گئی ہے کہ قیامت کے دن وہ اپنی قبروں سے دیوانوں کی طرح مخبوط الحواس اُٹھیں گے۔
تمثیلات کے ذریعے قرآن مجید فہمِ دین اور روحِ دین اپنے مخاطبین کے دلوں میں اتارنا چاہتا ہے تا کہ وہ حقیقت سے اچھی طرح واقف ہو جائیں اور دین پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ قرآن مجید نے خود ان تمثیلا ت کے دو مقاصد بتائے ہیں:
۱- تذکرہ اور یاد دہانی کے طور پر، جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا :
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ O (الزمر ۳۹:۲۷) ہم نے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تا کہ لوگ یاددہانی حاصل کریں۔
شیخ عزالدین ؒ فرماتے ہیں کہ ’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امثال اس لیے بیان کی ہیں تاکہ اس سے بندوں کو یاد دہانی اور نصیحت کا فائدہ حاصل ہو۔
۲- تفکر، یعنی غور وفکر کرنے کے لیے، جیسا کہ اس آیت میں ہے :
وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَO(الحشر ۵۹: ۲۱)اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور وفکر کریں۔
انھی اغراض ومقاصد کے لیے دیگر آسمانی کتابوں میں ضرب الامثال کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ انجیل کے ایک باب کا نام ہی سورۃ الامثال ہے۔