یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کی شام تک وادیٔ کشمیر کے عوام حسب معمول ایک بڑے جیل نما خطے میں اپنا دن گزار کے رات کی تاریکی کی آغوش میں جانا ہی چاہتے تھے، کہ اچانک سماجی رابطہ کی ویب گاہ فیس بُک پہ ایک جانکاہ خبر دیکھتے ہی ساری وادی ماتم کناں ہو گئی ۔وہ خبر یہ تھی کہ جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کے محبوب ترین رہنما سید علی شاہ گیلانی انتقال فرما گئے،انا اللہ وانا الیہ راجعون ۔
کشمیری عوام کو واقعتاً یہ محسوس ہوا کہ آج ہم قومی سطح پر یتیم ہوگئےہیں، فیس بُک اور ٹوئٹر صارفین نے اس کا اظہار بھی کیا ۔نہ جُھکنے والی اور نہ کبھی بکنے والی یہ وہ شخصیت تھی، جس نے نہ صرف اپنا سب کچھ ملت اسلامیہ کے عروج اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے قربان کردیا بلکہ دنیاکی ایک بڑی سامراجی طاقت کے سامنے کشمیر کے مظلوم عوام کی قیادت کر کے دنیا کو دکھلا دیا کہ ظالموں کو کیسے للکارا جاتا ہے اور عوام کے دلوں پہ کیسے راج کیا جاتا ہے ۔
اس قائدکی پیدایش دنیا کی خوب صورت ترین جیل اور دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی وادیٔ کشمیر کے علاقہ زینہ گیر کے’ زوری منز‘ گائوں میں ۱۹۲۹ء میں سید پیر شاہ گیلانیؒ کے گھر پہ ہوئی۔اس علاقے کے ایک طرف طویل پہاڑی سلسلے کے دامن میں ایشیا کی سب سے بڑی جھیل وُلر ہے اور دوسری طرف ضلع بارہمولہ کے قصبے سوپور کے سر سبز و شاداب سیب کے باغات ہیں۔زوری منز میں ایک غریب اور شریف گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اپنے اندر مومنانہ صفات اور قلندرانہ بے باکی رکھتا تھا ۔کہتے ہیں نا کہ عظیم شخصیات کا بچپن بھی غیر معمولی ہوتاہے ۔اللہ تعالیٰ بھی ایسی شخصیات کو روز اول سے ہی مختلف طرح کے امتحانات و مصائب کی بھٹی میں تپاکر تیار کرتا اور انسانیت کی بقا کے لیے میدان میں طاغوت سے مقابلہ کرنے اور مظلوموں کو انصاف دلانے کی خاطر لڑنے کی ہمت عطا کرتا ہے ۔
اپنے بچپن کے چند واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے سید علی گیلانی مرحوم فرماتے ہیں کہ ’’میرے والد سید پیر شاہ گیلانی نہر زینہ گیر میں سیزنل قلی تھے۔ اَن پڑھ ہونے کے باوجود تعلیم سے محبت رکھتے تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ میرے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔میری پیدایش کے بعد میرے ساتھ دو ایک حادثے ہوئے ہیں جن میں بچنا صرف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور اُس کی حفاظت سے ممکن ہوا ہے ۔بچپن میں سردیوں کے موسم میں میں کانگڑی لیے (سردیوں کے موسم میں اپنے آپ کو گرم رکھنے کا ایک آلہ ) لکڑیوں کے ایک ستون نماگٹھے پہ بیٹھا تھاکہ اچانک نیچے گرپڑا اور کانگڑی میری داہنی ران پرگر پڑی جو آگ سے بھری تھی۔ اس سے میری ساری ران جھلس گئی اور کئی ہفتوں تک میرا علاج ہوتا رہا۔ اُس زمانے میں ہمارے علاقے میں کوئی ہسپتال وغیرہ نہیں تھا۔ ہمارے یہاں جو گھاس سے بنی چٹایاں ہوتی ہیں اُس سے بنے کچھ ٹکڑے لائے گئے اور وہی جلاکر اُس کی راکھ بطور مرہم جلے ہوئے حصے پر ڈال دی گئی اور اُسی سے اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی۔
ایک اور حادثہ بچپن کے دور میں درپیش آیا۔ ہماری جو بستی ہے اُس کا نام زوری منزہے۔ یہ ضلع بانڈی پورہ کے گائوں ’کیونس‘ کا ایک محلہ ہے۔ ہمارے گائوںکے پیچھے ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس سے’ زیرا‘ پیدا ہوتا ہے اور میں دیگربچوں کے ساتھ زیرا کاٹنے کے لیے ڈھلوان چوٹی پر گیا۔ واپسی پر زینہ گیرنہرپر پُل سے گزرنے لگا تو میں سیدھا نہر زینہ گیر میں جا گرا۔ اُس وقت نہر میں پانی بھی زیادہ تھا، تاہم میرے بچائو کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا کہ عین اُس وقت نہر پر کام کرنے والے ہمارے ایک ہمسایہ مرحوم محمد سبحان ڈار نے دیکھتے ہی بغیر کسی تاخیر کے نہر زینہ گیر میں کود کر مجھے اُس پانی سے سلامت نکال لیا‘‘۔
اپنے اسی بچے کی تعلیم کا خاص خیال کرتے ہوئے ان کے مرحوم والد نے سب سے پہلے بوٹینگو سوپور میں داخلہ کروایا۔پرائمری جماعت پاس کرنے کے بعد گورنمٹ ہائی اسکول سوپور میں داخلہ لیا، وہاں ساتویں تک تعلیم حاصل کی ۔موصوف کی بہن کی شادی ڈورو سوپور میں ہوئی تھی، وہاں کے اکثر طلبہ سوپور ہائی اسکول آتے تھے اور پھر وہ اپنی ہمشیرہ کے پاس ہی رہنے لگے۔ ان کی ہمشیرہ کے ایک دیور، جن کا مشہور مؤرخ اور صحافی مرحوم محمد الدین فوق کے ساتھ کوئی رشتہ تھا۔ فوق صاحب ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ گیلانی صاحب بتاتے ہیں کہ اسی اثنا میں ایک روز میری بہن کے دیور مجھے محمد الدین فوق کے پاس لے گئے۔ وہاں سے وہ مجھے میرے والد کی اجازت کے بعد اپنے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور لے گئے۔لیکن لاہور پہنچ کے فوق صاحب نے مجھے کسی اسکول میں داخلے کے بجائے اپنی بیٹی کے گھر رکھا،جن کے شوہر ایک بڑے افسر تھے۔ یہ تقریباً ایک سال کا عرصہ تھا۔ اس عرصے میں گیلانی صاحب وہاں بہت پریشانی کی حالت میں رہے۔ پھر کسی طرح سے گیلانی صاحب لاہور سے واپس سوپور آ گئے اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔
بعدازاں دوبارہ لاہور گئے اور وہاں تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کی اور وہاں قرآن حفظ کرنا شروع کیا، لیکن وہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ یہیں پر ادیب عالم کا امتحان دوسری پوزیشن میں پاس کیا۔ لاہور سے شائع ہونے والے رسالے پڑھنے کی کوشش کرتے۔ لاہور سے دوبارہ واپسی پر روزگار کی تلاش میں جدوجہد کرنی پڑی۔ اسی اثنا ء میں گیلانی صاحب کو ’کلوسہ بانڈی پورہ‘ کی ایک سیاسی و سماجی شخصیت ’مرحوم محمد انور خان‘ نے کشمیر کے ایک شعلہ بیان مقرر ،سیاست دان محمد سعید مسعودی ؒجو اُس وقت نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری تھے ان سے متعارف کرایا ،جہاں گیلانی صاحب کو نیشنل کانفرنس میں کام کرنے کی پیش کش کی گئی، لیکن گیلانی صاحب نے اُس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔ تاہم، اسی دوران مولانا مسعودی کی سرپرستی میں نیشنل کانفرنس کے ترجمان اخبار خدمت میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں آپ کی ادبی صلاحیتیں بھی پروان چڑھیں۔
اس کے بعد مولانا مسعودی نے ہی گیلانی صاحب کو مجاہد منزل، سرینگر کے ساتھ پتھر مسجد کے اسکول میں بطور اُستاد تعینات کیا۔یہاں گیلانی صاحب اپنے فرصت کے اوقات میںمطالعہ کیا کرتے تھے۔ اسی دوران مولانا مودودی ؒ کی حقیقت زکوٰۃ پڑھ کے بہت متاثر ہوئے۔ انھی دنوں قاری سیف الدینؒ ( جو بعد میں امیر جماعت اسلامی کے منصب پہ فائز ہوئے) گیلانی صاحب کے ہم پیشہ تھے ، انھوں نے سید مودودی ؒ کی تفہیمات اوّل پیش کی تو یہ کتاب تیر بہ ہدف ثابت ہوئی۔ اس طرح سے گیلانی صاحب جماعت اسلامی کے قریب آنے لگے ۔اسی اثناء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ اس کے بعد تنظیم میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد ۱۹۶۳ء میں قیم جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے منصب پر فائز ہوئے۔ ۱۹۸۴ء میں قائم مقام امیر جماعت بنے۔ لیکن اس کے ٹھیک ایک دن بعد انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔اس کے علاوہ آپ نے جماعت اسلامی جموں وکشمیر میں ناظم پارلیمانی امور،مدیر اخبار اذان اور مدیراخبار طلوع کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ۔ساتھ ہی آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ تین بار اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ہیں ۔ ۷؍اگست ۲۰۰۴ء کو جماعت اسلامی کے ساتھ ایک تحریری مفاہمت کے بعد آپ تحریک حُریت کو منصہ شہود پر لائے۔اس طرح سے محترم موصوف نے جماعت کے پلیٹ فارم پہ اللہ کی زمین پہ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد بغیر کسی خوف و تردید کے شروع کی۔
سیّد علی گیلانی جموں وکشمیر کے نوجوانوں کے دلوںپہ راج کرنے والے رہنما تھے۔سب سے اہم وصف آپ کے اندر یہ تھا کہ آپ اپنے مخالفین کو بھی اپنے ساتھ چلانا جانتے تھے ۔گیلانی صاحب مولانا مودودی ؒ اور علامہ اقبالؒ سے خاصے متاثر تھے۔ انھوں نے مولانامودودیؒ کی لکھی تفسیر تفہیم القرآن کو پڑھنےاور نوجوانوں تک اُن کی فکر کو منتقل کرنے کے لیے بہت مرکزی کردار ادا کیا۔ ۲۰۱۱ء میں سوپور میں گیلانی صاحب کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں راقم کوبھی شامل ہو نے کا شرف حاصل ہوا۔ انھوں نے اپنے پُراثر انداز میں بھاری مجمع سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’قرآن ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ میں آپ سب جوانوں اور بزرگوں سے کہوں گا کہ آپ سب کے گھروں میں تفہیم القرآن ہونی چاہیے۔ سارے لوگ ہاتھ اُٹھائو، کون سی تفسیر پڑھو گے؟‘‘ لوگوں نے زور دارانداز میں دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کے جواب دیا تفہیم القرآن ۔ یہ الفاظ گیلانی صاحب بار بار دہراتے رہے ۔اس کے بعد آگے فرمایا کہ ’’میں نے بہت ساری تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی تفسیر بھی پڑھی ہے ،مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی تفسیر بھی پڑھی ہے، میں نے اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر بھی پڑھی ہے، سب تفسیریں اچھی ہیں، لیکن تفہیم القرآن میں جس سادگی کے ساتھ آسان زبان میں علامہ مودودی ؒ نے دین سمجھایا ہے، قرآن کا پیغام سمجھایا ہے، قرآن کی روح سمجھائی ہے، وہ بہرحال ایک بے نظیر تفسیر ہے‘‘ ۔ آگے زور دار آواز میں فرمایا کہ ’’اس وعدے پہ قائم رہو گے ناکہ ہر ایک گھر میں تفہیم القرآن کا مکمل سیٹ ہونا چاہیے اور پھر اُس کو پڑھا کرو۔ صرف اُس کو لائبریری کی زینت نہیں بنانا، اس کو پڑھنا بھی ہے‘‘۔ یہ تھا مولانا مودودیؒ اور تفہیم القرآن کے ساتھ جنون کی حد تک لگائو۔
گیلانی صاحب جموں وکشمیر کے واحد سیاسی و سماجی رہنما تھے، جو تحریر و تقریر کی دونوں اصناف پہ دسترس رکھتے تھے ۔گیلانی صاحب کے شوقِ مطالعہ اور ادبیت کے حوالے سے ثروت جمال لکھتے ہیں کہ ’’آپ نے دوسرے سیکڑو ں ساتھیوںاور بزرگوں کے ساتھ جیل میں انفرادی مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ قرآن یا سیرت پاکؐ کے علاوہ آپ نے خاص طور پر مولانا محمد علی جوہر ؒ ، علامہ ابن تیمیہؒ ، مولانا حمید الدین فراہیؒ، اور مولانا مودودیؒ کی تصانیف سے بھر پور استفادہ کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ آپ نے ادبیات کے زمر ے میں اقبالیات کے علاوہ منشی پریم چنداور نسیم حجازی کے قریب قریب سارے تاریخی ناول مطالعہ میں رکھے ہیں ‘‘۔ گیلانی صاحب جموں وکشمیرکے واحد مزاحمتی قائد ہیں، جنھوں نے سب سے زیادہ تحریری سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔
محترم گیلانی صاحب کی لغت میں’سمجھوتے‘( کمپرومائز) کا لفظ نہیں تھا۔ نہ وہ اپنے کارکنان کو سمجھوتا کرنے دیتے تھے ۔ اسی وجہ سے اُن کو تحریک حُریت تشکیل دینی پڑی۔ بہت کوششیں ہوئیں کہ اُن کے عزم کو توڑا جائے یا اُن کوکمزور کیاجائے۔ اُن پہ دبائو ڈالا گیا اور قیدو بند کی سختیاں بھی پیش آئیں لیکن ناکامی و نامرادی طاغوت کے حصے میں آئی اور سیّد مودودی ؒ کے وارث سیّد علی گیلانی سرخرو ہو گئے۔
گیلانی صاحب ہی کا کہنا ہے کہ ’’بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک آدمی نے ۲۴ مارچ ۲۰۰۲ء کو اُن کو اپروچ کرنے کی کوشش کی ۔وہ مجھے جانتا تھا کیوں کہ اُس نے میری جموں میں تفتیش کی تھی، جب میں قید تھا۔اُس نے کہا کہ میری مدد کریں کشمیر میں امن کی خاطر۔ جواباً گیلانی صاحب نے کہا کہ ’’کشمیریوں کے پاس امن کی خاطر ساری وجوہ موجود ہیں ،لیکن یہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ اُن کو چاہیے کہ اس تنازعے کا حل سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے نکالیں‘‘۔ وہ خفیہ ایجنسی کا افسر چاہ رہا تھا کہ حُریت والے انتخابات میں حصہ لیں۔گیلانی صاحب نے جواباً کہا کہ ’’ہمارے انتخاب لڑنے سے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ ہم نے یہ طریقہ ۱۹۸۷ء میں اپنایا تھا لیکن ناکامی ہی ہاتھ لگی‘‘ ۔پھر وہ افسر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ ’’میں گیلانی صاحب کو منا نہ سکا‘‘۔
بھارت کے سابق را چیف اے ایس دولت نے اپنی کتاب میں گیلانی صاحب کو اپنے عزم پر ڈٹا پختہ لیڈرلکھا ہے۔ اس کے بقول: ’’جب کوئی حُریت کے متعلق کہتا یا سوچتا ہے تو اُس کے سامنے گیلانی ہوتا ہے اوروہ ہمارے لیے اچھی خبر نہیں ہوتی ۔اسی لیے تو سابقہ نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی، گیلانی کے ساتھ بات چیت کے خلاف تھے۔ اس کتاب میں اے ایس دولت نے بتایا ہے کہ ہم نے دیگر حُریت پسند رہنمائوں تک رسائی حاصل کی اور کسی حد تک اُن کو انگیج کرنے میں کامیابی ملی۔ لیکن ایک واحدسید علی گیلانی ہے جس کو ہم انگیج نہیں کر پائے‘‘۔
گیلانی صاحب کے دل میں جو تھا، وہی وہ اپنی زبان سے ادا کرتے تھے۔ جب بھی مسئلہ کشمیر کے متعلق کسی سے ملنا ہوتا یا کہیں کوئی پروگرام ہوتا تو وہ پہلے عوام کو مطلع کرتے ۔ہر لمحہ ملت اسلامیہ کے متعلق سوچتے، لکھتے اور بولتے تھے۔ اخبارات کا مطالعہ کرنا ،حالات و واقعات پر نظر رکھنا اور پھر اُس کے مطابق قدم اُٹھانا کوئی گیلانی صاحب سے سیکھے۔
۲۰۱۶ء میں مَیں نے روزنامہ کشمیر عظمٰی میں ایک مضمون’ مطیع الرحمان نظامی‘ کی شہادت کے متعلق لکھا ۔ ایک دن گھر سے شہر کی طرف گاڑی میں محو سفر تھا کہ اچانک میں نے جیب سے اپنا موبائل فون نکالا تو ایک پیغام پڑھنے کو ملا جس میں کچھ اس طرح کے الفاظ تھے: ’’میں سیّدعلی گیلانی کاذاتی مشیر ہوں پیر سیف اللہ ( جو اس وقت تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں ) اور گیلانی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ مہربانی کرکے فون رسیو کریں‘‘۔ جیسے ہی میں نے یہ الفاظ دیکھے تو میں یقین نہیں کر پایا۔ پھر پسینے سے شرابور ہو گیا اور آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ گاڑی سے اُترنے کے بعد میں نے اسی نمبر پہ واپس فون ملا کے بات کی، تو قائد محترم کے ذاتی مشیر نے کہا یہ لیجیے ’’آپ سے گیلانی صاحب بات کرنا چاہتے تھے ‘‘۔میں حیران و پریشان کہ قائد محترم سے میں بات کرنے کے لیے وہ زبان کہاں سے لائوں ؟جو اُن سے ہم کلام ہو سکے۔ بہرحال اسی ہڑبڑاہٹ میں گیلانی صاحب کو سلام کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے میرا تعارف پوچھا اور پھر رُندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ’’آپ کا مضمون پڑھنے کے دوران میری آنکھوں میں آنسوآ گئے!‘‘ میںہکا بکا قائد محترم کے مبارک الفاظ سُنتا رہا، لیکن میری کیفیت کچھ اور ہی تھی جس کو بیان کرنے سے میں آج بھی قاصر ہوں۔میں یقین ہی نہیں کر پار ہا تھا کہ کیا واقعتاً میں قائد محترم سے بات کر رہا ہوں یایہ محض ایک خواب ہے۔
اس کے بعد چند ملاقاتوں کا بھی مجھے شرف حا صل ہوا۔ وہ اکثر پیشانی اور ہاتھ کو چومتے اور حوصلہ بڑھاتے تھے۔ اپنی ملاقاتوں میں اکثر نوجوانوں کو مطالعہ قرآن، تفہیم القرآن کی روشنی میں کرنے کو کہتے۔ ساتھ ساتھ اُردو زبان کے فروغ و اشاعت کے لیے یہ کہتے کہ ’’ہمارا علمی سرمایہ برصغیر میں اُردو زبان ہی میں ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس زبان کو بچائیں۔ اس زبان کے خلاف اغیار کی بہت ساری سازشیں رچائی جا رہی ہیں جن کا توڑ ہمیں کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ غرض، ایک معمولی انسان کے مضمون کو پڑھنے کے بعد اتنے بڑے رہنما کا فون پہ بات کرنا پھر ملاقا ت کے دوران تو جہ سے بات سُننا اور سوالات کا جواب دینا، یہ کسی عام انسان کا کام نہیں ہو سکتا بلکہ اس طرح کی محبت اور شفقت غیر معمولی شخصیت کے مالک انسانوں سے ہی مل سکتی ہے ۔
یہی وہ قائد ہیں جوگذشتہ چودہ سال سے ایک ہی جگہ گھر میں نظر بند رہنے کے بعد یکم ستمبر کو جموں وکشمیر کی مظلوم قوم کو سوگوار کر گئے۔ جیسے ہی ان کا انتقال ہوا تو پوری وادی میں انٹرنیٹ اور فون کی سہولیات کو معطل کرکے کشمیر ی عوام کو اپنے محبوب رہنما کے آخری دیدار سے محروم کر دیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق گیلانی صاحب کے بڑے بیٹے نعیم گیلانی نے پولیس سے کہا تھا کہ ’’ہم انھیں صبح دفن کریں گے تب تک باقی رشتہ دار بھی پہنچ جائیں گے‘‘۔ تاہم، پولیس نے ان کی میّت گھر والوں سے چھین لی۔انتظامیہ کی ان ساری حرکات پہ بھارت نواز کشمیری لیڈروں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کے قائدین نے بھی مذمت کی اور کہا کہ آخری رسومات کا حق دیا جانا چاہیے ۔نعیم گیلانی کے مطابق اُن کے صرف ایک رشتہ دار نے جنازے میں شرکت کی، جب کہ جنازے میں ایک سو افراد نے شرکت کی جن میں کچھ پولیس اہلکار اور کچھ مقامی لوگ تھے۔ غرض یہ کہ کشمیر کے نہ جُھکنے والے اور نہ بکنے والے قائد انقلاب سیّد علی گیلانی ؒکو فورسز کے کڑے پہرے میں رات کی تاریکی میں سپردِ لحد کر دیا گیا۔ ان کے انتقال سے کشمیر کی تحریک میں اب ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا پُر ہونا فی الحال مشکل نظر آ رہا ہے کیوں کہ سب کو ساتھ چلانے والا، اپنے مخالفین سے بھی ہمدردی رکھنے والا ایسا قائد بار بار نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کشمیر کی لُٹی پٹی قوم کو اس کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے،آمین!