جنوری کے مہینے میں ویسے ہی کشمیر میں ہر چیز جم جاتی ہے، مگر شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں ۱۹۷۲ءکی سردیاں گرمی کا احساس دلاتے ہوئے ایک تاریخ رقم کررہی تھیں۔ جب ماضی کو کریدتے ہوئے میں معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ابّا جی، یعنی سیّد علی گیلانی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا؟ تو یادوں کی دھند صاف کرتے ہوئے مجھے ایک چار سالہ بچہ نظر آیا، جو اپنے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (جو ان دنوں سرینگر میڈکل کالج میں طالب علم تھے) کے کندھے پر سوار رات گئے میر سیّد علی ہمدانی کی درگاہ، یعنی خانقاہ کے صحن میں ایک پُرجوش ہجوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایک دراز قد، بارعب مگر شفیق اورخوش لباس شخص درگاہ کے دروازے سے نمودار ہوتا ہے اور نعروں میں مزید ارتعاش آجاتا ہے ۔ جوں جوں یہ شخص قد م بہ قدم سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہے، ہجوم بے قابو ہوکر اس کے قریب جانے اور مصافحہ کرنے میں سبقت لینے کے لیے پُرجوش نظر آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ شخص علی شاہ گیلانی صاحب ہیں، جو ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں۔
وہ ہمار ے قر یب آئے اور میرے چچا سے علیک سلیک کرکے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور گالوں پر تھپکی دی۔ ان کے خاندان کے ساتھ ہمارا بس اتنا تعلق تھا کہ وہ میرے تایا پروفیسر سعید گیلانی کے استاد تھے۔ بعد میں اباًجی بتاتے تھے کہ سوپور انٹرمیڈیٹ اسکول میں جب وہ سعید صاحب کو پڑھاتے تھے، تو ان کو اپنا بچپن اور غربت میں پڑھائی کے لیے تگ و دو یاد آجاتی تھی۔ اسی وساطت سے وہ میرے دادا غلام نبی کو، جو ابن حسام کے نام سے شاعر اور عربی فارسی کے عالم بھی تھے، بچوں کی تعلیم کے لیے ترغیب اور حوصلہ دیتے تھے۔ اس الیکشن میں انھوں نے دھاندلیوں کے باوجود اس خطے سے کانگریس کے ایک بت کو پاش پاش کردیا تھا۔
سوپور قصبہ اور اس کے اطراف میں ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے شعلہ بیان سیّد علی گیلانی، انقلابی شخصیات چے گویرا، ہوچی منہ یاآیت اللہ خمینی تھے۔ وہ اپنے خطاب سے بدن میں بجلیاں بھر دیتے تھے۔ چاہے مقامی مسائل ہوں، یا ۱۹۷۹ءمیں افغانستان پر اشتراکی روسی فوجوں کی چڑھائی، یا اس کے ایک سال بعد اسرائیل کے ہاتھوں یروشلم شہر کو ضم کرنے کا واقعہ ہو، وہ اپنی اسٹریٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کے تجارتی مرکز کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جس طرح چے گویرا نے کہا ہے: ’’انقلاب کوئی پکا ہوا سیب نہیں ہوتا ہے، جو خود بخود ہی جھولی میں آگرے، اس کو گرانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے‘‘، ۱۹۸۹ء میں کشمیر میں جو بھارت مخالف انقلاب برپا ہوا، وہ اس کے اہم محرک تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست کے حالات اور اندیشہ ہائے دُور دراز کے سبب ان کی اپنی پارٹی نے اس سیب کو حاصل کرنے میں خاصی ہچکچاہٹ دکھائی۔
ان کا بچپن نہایت ہی مفلسی کی داستان ہے۔ تب کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کے والد بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ منجھلے بچے علی پر تو علم حاصل کرنے کا جنون طاری تھا۔ گاؤں کے اسکول سے امتیازی نمبر حاصل کرکے ان کو نو کلومیٹر دور سوپور میں پرائمری اور مڈل میں داخلہ ملا۔ گاؤں سے اسکول جانے کے لیے یہ بچہ روز پیدل ۱۸کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔ شاید اسی پس منظر نے ان کو سختیاں جھیلنے اور نظم و ضبط کی عادت ڈال دی تھی۔
۱۹۶۳ءمیں پہلی گرفتاری کے دوران ہی ان کے والد صاحب انتقال کرگئے۔ ان کو بعد میں بتایا گیا کہ ان کے والد ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے کھڑکی میں بیٹھ کر سوپور کی طرف کی سڑک پر نگاہ جمائے رہتے تھے اور جب کبھی دُور سے سیاہ قراقلی پہنے کسی شخص کو آتے دیکھتے تو علی علی پکار کر کمرے سے باہر آجاتے۔ آخرکار جدائی کا یہی گھائو لیے دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے والد ایک معمولی یومیہ مزدور تھے۔ وسائل کی کمی کے باوجود بچوں کوپڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ یہی وصف بعد میں شاید گیلانی صاحب کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ تمام تر مشکلات و طعنے سہنے کے باوجود انھوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جیل سے جو خطوط بیٹیوں کو لکھتے تھے، ان میں بھی ان کو تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔
گیلانی صاحب کے خاندان کے ساتھ میرا براہ راست تعلق ۱۹۹۶ء میں ہوا، جب ان کی صاحبزادی آنسہ میرے عقد میں آئیں۔ لیکن ایک لیڈر کی حیثیت اور میرے قصبہ سوپور کے ایک باسی کی نوعیت سے یہ تعلق میرے آنکھ کھولتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ سوپور یا اس کے اطراف میں منعقد ہونے والا شاید ہی کوئی ایسا جلسہ ہوگا جس میں، مَیں نے شرکت نہ کی ہو۔ اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس میرے والد کوروایتی پیروں کی طرح جماعت اسلامی سے چڑ تھی ۔ ان کولگتا تھا کہ ان جلسے ، جلوسوں کی وجہ سے میری پڑھائی میں ہرج ہوتا ہے۔ اسی فکرمندی میں کئی دفعہ میری پٹائی بھی کرتے تھے، مگر کبھی خود ہی جیب خرچ دے کر سرینگر عید گاہ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں جانے کے لیے بھی کہتے تھے۔ ان کا یہ تضاد میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انھوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کی تھی اور اپنی محرومی کا ازالہ شاید مجھے زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھ کر کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران ان کی ڈیوٹی گیلانی صاحب کے گاوٗں ڈورو میں ہوتی تھی اور اس طرح ان کے گھر تک ان کی رسائی ہوئی ۔
ان دنوں میں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوا تھا، لہٰذا انھوں نے ہی میرے عقد کی بات چلاکر طے بھی کر لی۔ میری ساس بھی داماد کے طور پر ایسے فرد کو پسند کرتی تھیں، جس کا سیاست کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ اکثر افراد گیلانی صاحب کو طعنہ دیتے تھے کہ انھوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو تحریک میں شامل نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایک داماد ظہور جو ان کے بھتیجے بھی ہیں، کشمیر کے اوّلین عسکریت پسندوں میں ہیں اور نوے کی ابتدا میں ہی گرفتار ہوکر نوسال قید میں رہے۔ ایک اور داماد الطاف احمد شاہ تو پہلے دن سے ہی سیاست سے وابستہ تھے۔ نیشنل کانفرنس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی رہی۔ وہ پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی بار جیل جاچکے ہیں۔
ان کے بڑے داماد ، غلام حسن، جن کا اب انتقال ہوچکا ہے، ان کے چچا جماعت اسلامی کے رکن تھے، جن کو سرکاری بندوق برداروں نے دن دہاڑے ہلاک کردیا۔ اور پھر آئے دن کے چھاپوں اور تلاشیوں سے ان کی پوری فیملی کو دردبد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ۲۰۰۲ء میں جب ان کو قید کیا گیا، تو دہلی میں میرے مکان پر بھی بھارتی ایجنسیوں نے چھاپا مارا اور مجھے نو دن انٹروگیشن میں رکھنے کے بعد تہاڑ جیل پہنچادیا گیا۔ چونکہ لیڈران پر دبائو ڈالنے کے لیے ان کے قریبی رشتہ داروں پر شکنجا کسنا اور ان کے آس پاس کے افراد کا قافیۂ زندگی تنگ کرنا ایک آزمودہ فارمولا رہا ہے، اس لیے میری گرفتاری سے وہ گیلانی صاحب کو پیغام پہنچانا چاہ رہے تھے۔ مگر پانچ ، چھے ماہ تک ان کو میری گرفتاری کے بارے میں علم ہی نہیں تھا ، کیونکہ ان کو سرینگر سے سیدھے جھارکھنڈ کی رانچی جیل لے جایا گیا تھا اور پورے چھے ماہ تک ان کو اخبار، ریڈیو سے معلومات لینے یا کسی کو ان سے ملنے نہ دیا گیا۔ جب ان کے بھتیجے ظہور کی چھے ماہ بعد ان سے ملاقات ہوئی، تب ان کو میری گرفتاری کا پتہ چلا۔ انھوں نے رانچی جیل سے ایک پوسٹ کارڈ لکھ کر مجھے صبرکی تلقین کی۔
ایک بار حُریت لیڈران نے انسانی حقوق کی صورت حال پر توجہ حاصل کرنے کے لیے دہلی کے مرکز انڈیا گیٹ پر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ اس دن سیّد علی گیلانی میری ہی رہایش گاہ پر ٹھیرے تھے، کیونکہ حُریت کے دفتر میں دیگر قائدین جمع تھے اور وہاں شاید رہنے کی گنجایش نہیں تھی۔ پروگرام تھا کہ سبھی لیڈران حریت دفتر سے انڈیا گیٹ کی طرف روانہ ہوں گے۔ صبح وہ جونہی گھر سے حریت آفس کی طرف روانہ ہوئے، کہ اسی دوران ہمارے گھر پر پولیس آدھمکی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ گھر سے نکل چکے ہیں، تو وہ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔ شاید گیلانی صاحب کو اندازہ تھا، کہ ان کو احتجاج کے لیے نہیں جانے دیا جائے گا، اس لیے حریت آفس جانے کے بجائے وہ سیدھے انڈیا گیٹ ہی پہنچ گئے، جہاں احتجاج کے بعد ان کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ باقی سبھی قائدین دن بھر آفس میں ہی نظر بند رہے۔کئی گھنٹے بعد جب ہم پولیس اسٹیشن ان سے ملنے گئے،تو میں نے ان سے کہا کہ ’’آپ کو گوریلا موومنٹ جوائن کرنی چاہیے تھی‘‘۔
۸۰ کے عشرے کے دوران سوپور میں ایک بار ان کی زبردست تلاش ہو رہی تھی۔ جگہ جگہ چھاپے پڑ رہے تھے۔ اسی اثناء میں معلوم ہوا کہ وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرنے والے ہیں۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔ جامع مسجد جانے والے راستوں اور اس کے آس پاس چپہ چپہ پر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔خطبہ شروع ہونے سے بس پانچ منٹ قبل وہ محراب کے پاس نمودار ہوئے اور تقریر شروع کی۔ ۱۹۷۵ء میں جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہوئی، تو شیخ محمدعبداللہ نے جموں و کشمیر میں بھی اس کا اطلاق کرکے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی، اور اس کے لیڈروں اور ارکان کو پابند سلاسل کر دیا۔ کئی روز تک گیلانی صاحب کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے پڑتے رہے۔ سوپور میں معروف تاجران محمد اکبر بساطی و غلام حسن بساطی، جن کے ہاں وہ اکثر ٹھیرتے تھے، ان کے گھروں اور دکانوں کی ایسی تلاشی ہوئی ، جیسے سوئی ڈھونڈی جاری ہو۔ اسمبلی کا سیشن جاری تھا، اور وہاں بھی سخت پہرہ تھا۔ چند روز بعد وہ اسمبلی فلور پر نمودا ر ہوئے اور دھواں دھار تقریر کرکے باہر آئے اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔
جذبات سے مغلوب نوجوانوں کو ان کی یہ باتیں بہت کھٹکیں۔چند لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ بوڑھا سنکی ہو گیا ہے، نہ خود کچھ کرنا چاہ رہا ہے، نہ ہمیں کچھ کرنے دے رہا ہے۔ اننت ناگ کے کھنہ بل میں جہاں وہ غلام نبی سمجھی کے گھر پر ٹھیرے تھے، نوجوانوں کا ایک گروپ ان سے ملنے آیا اور کہا کہ’’ آپ یہ کہہ کر کہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے، مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں۔ لوگ تو مارچ کے مہینے میں کھیتیاں جوتنے سے پہلے آزادی کی نیلم پری سے ہم کنار ہونا چاہ رہے ہیں۔سیاسی لیڈر ہماری غلط رہنمائی کر رہے ہیں یا خود بے بصیرت ہو گئے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کی صاف گوئی نے ان کے لیے کئی دشمن پیدا کیے۔ کئی حضرات جو اس وقت ان کی موت کا سوگ منا رہے ہیں، ان دنوں ان کے قتل تک کے درپے تھے۔ سوپور میں ان کی سیاسی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے نئی سیاسی بساط بچھائی گئی اور چہرے ڈھونڈے گئے، اور اُن کی سرپرستی بدقسمتی سے مظفر آباد اور اسلام آباد سے کی گئی۔ اگر ابتدا سے تحریک کی سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں رہنے دی گئی ہوتی، تو شاید منزل اتنی کٹھن نہ ہوتی۔
اس صاحب ِبصیرت نے نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز میں کشمیر میں عسکری جدوجہد کی پرتیں کھول کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پانچ فروگذاشتوں کا ذکر کیا ہے:
پہلی یہ کہ’’ سرفروش نوجوانوں نے سمجھا کہ انھوں نے بھارت کو بھگا دیا ہے اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے والے سیاسی گروہ یا لیڈروں کو اب ان کے ذریعے حاصل کیے ہوئے مقام و مرتبے میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی جدوجہد سیاسی قیادت سے محروم ہو گئی‘‘۔ اس طرح کی ہدایات سرحد پار سے بھی ملتی تھیں۔
دوسرا یہ بتایا کہ ’’مسلح جدوجہد شروع ہونے کے مرحلے میں اخلاقی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔ کئی افراد نے بندوق اپنی ذاتی خواہشات اور انتقام گیری کی تکمیل کے لیے حاصل کی‘‘۔ گیلانی صاحب کے بقول ’’مسلح جدوجہد حصول آزادی کے لیے آخری مرحلہ ہوتا ہے اور اسی پر ان کی کامیابی اور روشن مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے لیے برسہا برس کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
تیسری فروگذاشت کی طرف یوں توجہ دلائی کہ ’’مسلح نوجوانوں کی سرفروشانہ جدوجہد نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو سرد خانے سے نکال کر عالمی سطح پر ابھارنے میں کامیابی حاصل تو کرلی اور جمود توڑ دیا، مگر عوام کی بے پناہ پذیرائی نے ان میں سے بیش تر کو خود سری کے جنون میں مبتلا کر دیا ، جو گروہی تصادم کی شکل میں سامنے آیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام گروپ، مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے، یا اپنے اپنے دائرۂ کار کے اندر کام کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس باہمی ٹکراؤ میں ایسے افراد قوم سے چھین لیے گئے ، جو ایک ایک ہزار افراد پر بھاری تھے ‘‘۔
چوتھی فروگذاشت یہ بیان کی ’’مسلح جدوجہد شروع کرنے والوں میں کوئی گروپ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھا کہ کلا شنکوف کے بل بوتے پر بھارت کی فوجی قوت کو قبضہ سے دست برداری پر مجبور کیا جائے، بلکہ مقصد یہ تھا کہ بھارت کو متنازعہ حیثیت تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے اور نتیجہ خیز بامقصد اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کروایا جائے۔ مگر بہت جلد یہ ہدف نوجوانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ‘‘۔
پانچویں فروگذاشت یہ تھی کہ’’ہردور میں مسلح جدوجہد کے کھلے دشمن کے ساتھ چھپے دشمن بھی ہوتے ہیں۔اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم جدوجہد آزادی کے دوران فضائے بد ر پیدا نہیں کر سکے۔ اندھی فوجی قوت نے وسیع ترین پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا ہے، ان کے مقابلے میں ہمارا ریکارڈ صاف و شفاف ہو نا چاہیے تھا، جو نہیں رکھ پائے‘‘۔
۲۰۰۳ء میں جیل سے رہائی اور پھر گردوں کے آپریشن کے بعد انھوں نے قریہ قریہ گھوم کر، حتیٰ کہ گریز ، پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ جیسے دُور دراز علاقوں کا دورہ کرکے سیاسی جدوجہد کے لیے راہ ہموار کی۔ اس دوران حکومت نے بھی موقف اپنایا تھا کہ ’’حریت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے‘‘۔ ان دنوں پٹن اور سنگرامہ حلقہ میںضمنی انتخابات منعقد ہونے تھے۔ امیدوار کی تقریر ختم ہوتے ہی ، گیلانی صاحب پہنچتے تھے، اور اسی اسٹیج سے عوام کو انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے تھے۔ حکومت ان کو تقریر یا دورہ کرنے سے روکتی نہیں تھی، مگر ان کی میزبانی کرنے والوں پر قہر ڈھاتی تھی۔ بارہمولہ شہر کے چوراہے پر جب انھوں نے تقریر ختم کی، تو پاس ہی رہایشی ایک رکن جماعت نے ان کو چائے کی دعوت دے دی۔ چائے پینے کے بعد گیلانی صاحب سرینگر روانہ ہوگئے، تو اس معمر رکن جماعت کی شامت آگئی اور اس کو پبلک سیکورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس نے سیّد علی گیلانی کی میزبانی کی ہے۔ یہ حضرت کئی سال جیل میں رہے ۔ اس لیے ان دوروں کے دوران وہ کسی کے گھر کے بجائے مسجد میں رات بھر رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔
۲۰۰۸ء کے دوران میں کشمیر کی سڑکوں پر امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن اور پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ءمیں بُرہان وانی کی شہادت کے بعد جو تحریکیں برپا ہوئیں، وہ ان کی ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۸ءتک اس زمینی جدوجہد کا نتیجہ تھیں۔ وہ جوانوں کی پرامن رہنے کی تاکید کرتے تھے اور بتاتے تھے، جب پولیس روکے گی تو بجائے محاذآرائی کے، سڑک پر دھرنا دیا کریں ۔ پلوامہ ضلع میں ایسا ہی ہوا۔ ایک بھاری جلوس نیوہ سے قصبہ کی طرف جارہا تھا کہ نیم فوجی دستوں نے ان کو آگے جانے سے روکا تو لوگ سڑک پر بیٹھ گئے۔ مگر اس پُرامن ہجوم پر گولیاں برسائی گئیں۔ ایک جوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ۱۱۷ دن کی ہڑتال اور ایک سو دن کے سخت کرفیو کے بعد انھوں نے کاروبار بتدریج کھولنے کی اپیل کی، جس پر ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی افراد نے لکھا کہ ’’گیلانی ، مہاتما گاندھی کا راستہ اپنا رہے ہیں‘‘۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’گاندھی کا فلسفہ تو خود ان کی زندگی میں ہی مسترد کیا جا چکا ہے۔ امن کا نعرہ ہم دیتے ہیں۔ امن سے ہی حل طلب مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ مگر بھارتی قیادت اس سنگین مسئلے کو طول دے کر خود بدامنی پھیلا رہی ہے اور الزام ہمارے سر تھوپ رہی ہے۔کب تک اس سلسلے کو جاری رکھا جاسکتا تھا‘‘۔
اسی طرح یہ اپریل ۲۰۰۵ء کی بات ہے۔پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دورۂ دہلی کا اعلان ہوچکا تھا۔ چونکہ امن کوششیں عروج پر تھیں، بھارتی حکومت اور پاکستانی ہائی کمیشن، دورہ کو کامیاب بنانے کی کوششیں کررہے تھے۔ انھی دنوں اس وقت دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر منور سعید بھٹی صاحب نے مجھے فون کیا۔ بھٹی صاحب وضع داری،رواداری اور معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے دہلی میں پاکستان کے مقبول ترین سفارت کار شمار ہوتے تھے۔فون پر انھوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ طے ہوا کہ سفارتی علاقہ چانکیہ پوری ہی میں ایک ریسٹورنٹ میں چائے نوش کریں گے۔مگر ریسٹورنٹ میں سیٹ پر بیٹھتے ہی، بھٹی صاحب مجھے بلوچستان کی تاریخ اور شورش کا پس منظر سمجھانے لگے۔ میں حیران تھا، کہ آخر اس بات کا مجھ سے کیا لینا دینا ہے۔ کچھ منٹ کے بعد وہ مدعا زبان پر لائے۔ کہنے لگے ، کہ ’’کیا آپ گیلانی صاحب کو آمادہ کرسکیں گے، کہ مشرف صاحب کے ساتھ ملاقات میں وہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں؟‘‘ صدر پاکستان اپنے دورے کے دوران کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کرنے والے تھے۔میں نے معذرت کی، کہ ’’گیلانی صاحب کی سیاست میں،میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ میں ان کو کوئی مشورہ دینے کی حیثیت رکھتا ہوں‘‘۔
دراصل گیلانی صاحب نے سرینگر میں بلوچستان میں پاکستان کے فوجی آپریشن کے خلاف چند بیانات دیئے تھے اور نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرنے کا پُرزور مشورہ دیا تھا۔بھٹی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری رہنمائوں اور خصوصاً گیلانی صاحب کا پاکستان کی چوٹی کی لیڈرشپ سے ملاقات کا موقع ملنا نا ممکنات میں سے ہے اور یہ ایک نایاب موقع ہے، جس میں کشمیر کی تحریک کو درپیش مسائل سے حل بھی کروایا جاسکتا ہے‘‘۔
چنانچہ میں معذرت کرکے رخصت ہوگیا اور گھر آکر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کہ تمھارے والد (سیّد علی گیلانی) نے ایک تو بھارت کے خلاف علم بلند کیا ہوا ہے ، اور دوسر ی طرف ا ب’واحد دوست اور وکیل‘ پاکستان کی لیڈرشپ کی مخالفت پر بھی کمر بستہ ہیں۔آخر میڈیا کی رپورٹس کی بنیاد پر ان کو پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مسائل پر بیان دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میٹنگ سے ایک روز قبل ۱۶؍اپریل ۲۰۰۵ء کو گیلانی صاحب دہلی وارد ہوئے تو میری اہلیہ ان سے ملنے گئیں، اور یہ بات ان کے گوش گزار کی۔ اور دیگر ذرائع سے بھی پاکستانی حکومت نے شاید ان تک یہ بات پہنچائی تھی، کہ انھیں صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔اگلے روز صبح سویرے میرے گھر آکر پہلے انھوں نے مسکرا کر کہا کہ ’’اپنے دوست اور محسن کو یہ کہنا کہ اپنے گھر کاخیال رکھو، اور اس کو بے جا مصیبتوں سے بچنے کے لیے خبردار کرنا آخرکیوں کر سفارتی آداب کے منافی ہے ؟‘‘ و ہ شاید متفق ہو گئے تھے کہ گفتگو کشمیر تک ہی مرکوز رکھیں گے۔
بہر حال دوپہرچار بجے جب وہ لیاقت علی خان مرحوم کی دہلی میں رہایش گاہ اور موجودہ پاکستان ہائوس میں پہنچے، تو طاقت کے نشے میں سرشار مشرف صاحب نے ان کے وفد میں شامل دیگر اراکین سے ہاتھ نہیں ملایا جن میں سیّد حسن الصفوی، صدر انجمن شرعی شیعان، نعیم احمد خاں، صدر نیشنل فرنٹ، سعداللہ تانترے، فریدآباد، شیخ علی محمد، جماعت اسلامی کشمیر بھی شامل تھے۔
کرسیوں پر بیٹھتے ہی گیلانی صاحب نے دوٹوک الفاظ میں صدرجنرل مشرف سے کہا کہ ’’ان سے ہاتھ ملانے سے آپ کے ہاتھ میلے نہیں ہوں گے‘‘۔ اس ’والہانہ‘ استقبال کے بعد مشرف نے چھوٹتے ہی کہا،‘گیلانی صاحب آپ آئے دن بلوچستان کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں۔آخر آپ کو وہاں کی صورت حال کے بارے میں کیا پتہ ہے؟ آپ بلوچستان کی فکر کرنا چھوڑیں‘‘۔ اس طرح مشرف صاحب نے خود ہی بلوچستان کا ذکر چھیڑا اورتہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑا۔ حاضرین مجلس کے مطابق گیلانی صاحب نے جواب دیا، کہ ’’کشمیر کاز پاکستان کی بقا سے منسلک ہے۔ اس لیے، اس کی جغرافیائی سلامتی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ہم کو فکر ہے۔ آپ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘۔ اس پر مشرف صاحب نے کہا: ’’گیلانی صاحب، آپ ہماری اپوزیشن کی بولی بولتے ہیں‘‘۔پھر جنرل مشرف نے اپنے کشمیر فارمولے کی مخالفت پر گیلانی صاحب سے ذرا تلخی سے بات کی۔ گیلانی صاحب نے جواب میں بڑے محتاط لفظوں میں مشرف صاحب کی افغانستان پالیسی اور امریکا کی مدد سے اپنے ہی شہریوں کو قتل کروانے کے عمل پر قدرے سخت بات کی۔ یوں صرف ۲۰منٹ کی یہ میٹنگ اس طرح کی ’خیر سگالی‘ پر ختم ہوئی توگیلانی صاحب ساتھیوں کے ساتھ اُٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے، اور وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری صاحب نے آگے بڑھ کر الگ کمرے میں ملاقات میں کہا: ’’ہمیں کشمیرپر کمپرومائز کے نکات پر غور کرنا چاہیے‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا: ’’محترم قصوری صاحب، اگر آپ لوگ یہ بوجھ نہیں اُٹھانا چاہتے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ ہم اللہ کے بھروسے پر جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔ واپسی پر مشرف کے حکم پر پاکستان میں ان کے دفاتر بند کردیے گئے۔
ایک سال بعد نواب اکبر بگٹی کو جب ایک غار میں ہلاک کیا گیا، تووہ اس پر سخت نالاں تھے۔ اس کا ذکر بعد میں ۲۰۱۱ء میں دہلی میں انھوں نے اس وقت پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ کے ساتھ ملاقات میں بھی کیا۔
مشرف صاحب کی تجاویز پر میں نے بھی ایک بار ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا کہ’’ اگر یہ حل قابلِ عمل ہے اور اس میں واقعی کوئی جان ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لیے علی گیلانی کو قائل کرنا کیوں ضروری ہے؟ اگر بھارت آمادہ ہے، تو جنرل مشرف صاحب کے بجائے اس کے لیڈراس کا اعلان خود کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔
ریاستی کانگریس کے صدر غلام رسول کار اور معروف دانشور اور ممتاز قانون دان اے جی نورانی نے گیلانی صاحب کو ایک بار کہا کہ ’’آپ اس لیے اس امن مساعی کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ کوئی داغ لیے بغیر دنیا سے جانا چاہتے ہیں اور مرتے وقت شیخ عبداللہ کی طرح کا دھوم دھام کا جنازہ چاہتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ، ’’نُورانی صاحب، میں کوئی سودے بازی کرنے کے بجائے گمنامی کی موت پسند کروں گا‘‘۔دہلی سے سرینگر آتے ہوئے ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے ایک بار مجھے بتایا کہ ’’یہ واحد ناقابل تسخیر لیڈر ہے جس کو خریدا نہیں جاسکتا ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم کو معلوم ہے کہ ان کے پاس بھی مالی وسائل آتے ہیں ،مگر وہ ان کو اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے مستحقین تک پہنچاتے ہیں‘‘۔
حتیٰ کہ گیلانی صاحب نے اپنے آبائی گاؤںمیں اپنی اور اہلیہ کی پراپرٹی وہاں ایک اسکول کو وقف کر دی ہے۔ یہ وقف کرنے سے قبل گیلانی صاحب نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع کرکے بتایا کہ ’’اگر آپ سب کو یا آپ میں سے کسی کو اعتراض ہے، تو وہ اپنا حصہ یا اس کی قیمت لے سکتے ہیں‘‘۔ سرینگر میں ان کی رہایش گاہ جماعت کی ملکیت تھی، جس کو بعد میں تحریک حریت سے متعلق ٹرسٹ کو ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ممبر اسمبلی بننے سے قبل ہی انھوں نے ڈورو گاؤں میں مکان بنانا شروع کیا تھا، جو کہیں ۱۹۸۸ء میں تیار ہوسکا۔ مگر اس میں ان کو رہنا ہی نصیب نہیں ہوا کہ وہ جلد ہی جیل چلے گئے اور پھر پارٹی اور احباب کی ہدایت پر سرینگر منتقل ہو گئے۔ اس مکان کو بعد میں سرکاری جنگجوؤں نے بلاسٹ کرکے تہس نہس کر دیا ۔ پھر جب ان سرکاری جنگجوؤں کا دبدبہ ختم ہوگیا اور وہ معتوب ہوئے، تو گیلانی صاحب نے ان سب کو جانتے ہوئے بھی معاف کردیا۔
بیس سے زائد مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے، بس یہ اللہ کا ہی کرم تھا کہ وہ ان سے بچتے رہے۔ ایک بار دہلی میں چند روز گزار کر وہ سرینگر چلے گئے۔ میں نے ہی ان کو ایر پورٹ پہنچا کر وداع کیا۔ اس دن موسم کی خرابی کے باعث سرینگر سے رات گئے فلائٹ واپس دہلی آگئی یا شاید ان کو امرتسر میں کسی ہوٹل میںٹھیرایا گیا۔ اسی را ت ان کی رہایش گاہ پر راکٹوں سے حملہ ہوا۔ ایک راکٹ دیوار کو گراتے ہوئے، ٹھیک اس مقام پر گرا، جہاں وہ عام طور پر سوتے تھے۔ ان کے اہل خانہ اور بیٹیاں مکان میں ہی موجود تھیں۔ ان کا بیڈ روم تو پوری طرح تہس نہس ہو چکا تھا۔
اے جی نورانی صاحب کی معیت میں ایک بار نیشنل کانفرنس کے ایک سینیر لیڈر اور فاروق عبداللہ کے کزن شیخ نذیر نے ہمیں بتایا کہ ’’وہ کشمیر میں بھارت کے سب سے بڑے مخالف شخص ہیں۔ جب شیخ محمد عبداللہ دہلی کے کوٹلہ لین میں نظر بند تھے، تو ان کو ان کی بیٹی ثریا کی شادی میں شرکت نہیں کرنے دی گئی تھی۔ شیخ صاحب نے میرے ہاتھ ثریا کے لیے تحفہ دے کر منہ دوسری طرف کرلیا تھا ، کیونکہ وہ رو رہے تھے‘‘۔
بالکل یہی تاریخ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں دہرائی جا رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ خود شیخ نذیر اور فاروق عبداللہ اس وقت اقتدار میں تھے ،اور گیلانی صاحب کی صاحبزادی ، جس کا نام بھی ثریا تھا، ان کی شادی ہو رہی تھی۔ پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر ان کو گرفتار کرکے جودھ پور جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ جہاں طبیعت کی ناسازی کے باعث دہلی لاکر ان کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آئی سی یو کے باہر کسی رشتہ دار کا بطور اٹنڈنٹ ہونا ضروری ہے۔ اس رات میں آئی سی یو کے باہر بیٹھا رہا۔ تاہم، اگلے روز ان کو کمرہ میں منتقل کیا گیا۔ جہاں باہر پولیس کا پہرا تھا، جو فون اندر لے جانے نہیں دیتے تھے۔ ان کی بیٹی کی شادی کے دن میں نے ان سے درخواست کی کہ ان کو فون پر ہی نکاح کی تقریب میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ پولیس نے جس وقت اجازت دی، اُس وقت تک نکاح کی مجلس اختتام کو پہنچ چکی تھی اور ثریا وداع ہو کر گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ وہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ جودھ پور جیل میں رہے۔ کچھ مدت بعد اپریل ۲۰۰۱ء میں ثریا کا انتقال ہو گیا، اناللہ وانا الیہ رٰجعون۔
فن خطابت پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بقول پروفیسر بھیم سنگھ، جو ان کے ساتھ اسمبلی میں ممبر تھے، ’’ گیلانی صاحب کی تقریر کے وقت سناٹا چھا جاتا تھا ۔ اراکین اسمبلی کے ساتھ اسٹاف سے گیلریاں بھر جاتی تھیں۔ان کی تقریر اردو لغت کا ایک ذخیرہ ہوتی تھی‘‘۔ ان کی کتاب رُوداد قفس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار کلدیپ نیر نے کہا کہ ’’یہ اُردو ادب کی بدقسمتی ہے کہ یہ شخص سیاستدان بن گیا۔ کاش! ان کی تقریروں کے ریکارڈ محفوظ کیے جاسکتے‘‘۔ سوپور کالج میں پڑھائی کے دورا ن ہم ایک بار جنوبی کشمیر کے مقام پہلگام پکنک منانے گئے تھے۔ پہلگام قصبہ سے آرو پہاڑ پر چڑھائی کے دوران جنگل میں ایک کوٹھا نظر آیا، جہاں ایک گوجر فیملی چائے اور بسکٹ پیش کر رہی تھی۔ وہاں ہمارے رکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں ٹیپ ریکارڈ پر گیلانی صاحب کی تقریر لوگ سن رہے تھے۔ جب ہم نے تعارف کرایا کہ ہمارا گرو پ سوپور سے آیا ہے، تو انھوں نے چائے، بسکٹ کے پیسے لینے سے انکار کردیا۔
دہلی میں حریت کے دفتر کے قیام سے قبل وہ شہید مقبول بٹ کے وکیل رمیش چندر پاٹھک کے گھر پر ہی ٹھیرتے تھے۔ رمیش چندر کی اہلیہ نے ان کو اور شبیر احمد شاہ کو اپنا بھائی بنایا ہوا تھااوروہ کسی بھی جیل میں ہوتے تو ہندوؤں کے تہوار رکھشا بندھن کے روز وہ ملنے چلی جاتی تھی۔۱۹۹۷ء میںپاٹھک کی اچانک موت نے ان کے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیا تھا، کیونکہ ان کے تینوں بچے ابھی اسکول میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ گیلانی صاحب نے اور شبیر احمد شاہ نے ہی ان کی فیملی کو مالی سہارا دیا۔ان کی لائق بیٹی وسندھرا پاٹھک اب ایک نامور وکیل ہیں۔ اسی طرح دہلی میں میرے گھرسے ذرا دوری پر جس دو کمرے کے فلیٹ میں وہ سردیوں میں رہنے آتے تھے، اس کے اوپر ایک کشمیری پنڈت فیملی رہتی ہے، جن کے ساتھ ان کا گھر جیسا تعلق تھا۔ خاص طور پر ان کے بچوں کو ان سے بڑی انسیت تھی۔ وہ بھی سرینگر سے ان کے لیے کوئی نہ کوئی چیز بھیجتے رہتے تھے۔ ان کا علاج بھی ایک کشمیر پنڈت ڈاکٹر سمیر کول کرتے تھے، جو اکثر ان کے پاس آتے تھے۔
۲۰۰۳ء میں رانچی جیل میں جب ان کے گردوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، تو اس ہسپتال کے چارو ں طرف سیکورٹی کا حصار بنا دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ ’’ایک خطرناک دہشت گرد‘‘ کو علاج کے لیے لایا جا رہا ہے۔ انھی دنوں میں ممبئی پریس کلب کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے ممبئی آیا ہوا تھا۔ ایک عیسائی نرس نے گیلانی صاحب کو بتایا کہ ’’آپ تو دہشت گرد نہیں لگتے ہیں۔ آپ تو بہت نیک شخص ہیں۔ میں آپ کی دوسری دنیا کے لیے فکرمند ہوں۔ آپ عیسائی کیوں نہیں بن جاتے؟‘‘اور اس کے بعد وہ ڈھیر سارا لٹریچر ان کو دیتی رہی۔ مسکراتے ہوئے وہ وصول کرتے رہے، اور جواب میں اسے کبھی کبھی اسلام کی تعلیمات بھی سمجھاتے رہے۔
دہلی میں ان کے اسی فلیٹ میں ایک صبح دیکھا سفید قمیص اور خاکی نیکروں میں ملبوس ہندو انتہا پسندوں کی تنظیم آرایس ایس سے وابستہ افراد ان کے ساتھ ہم کلام ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر میں خاصا ڈر گیا اور اپنی اہلیہ سے بھی کہا کہ تمھارے والد صاحب کے ساتھ ہمارا اس کالونی میں رہنا بھی دوبھر ہو جائے گا‘‘۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مالویہ نگر کی پارک میں صبح سویرے آرایس ایس شاخ کی جسمانی مشق ہوتی ہے۔ وہ چونکہ اسی پارک میں چہل قدمی کرنے جاتے تھے، اس لیے ان کی اس گروپ کے ساتھ علیک سلیک ہوئی ہے ۔ وہ ان لوگوں کے لیے مرکز جماعت اسلامی ہند سے ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر لاتے ہیں اور یہ افراد وہی لینے آئے تھے۔
۱۹۸۶ء میں وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کو برطرف کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے کشمیر میں پہلا فرقہ وارانہ فساد برپا کروایا گیا۔ گیلانی صاحب نے جماعت کے کارکنوں کی قیادت کرتے ہوئے جنوبی کشمیر میں مختلف جگہوں پر ہجوم کو مندروں اور پنڈت علاقوں پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ ان کے حکم پر سوپور میں ان کے دست راست غلام رسول مہرو اور عبدالمجید ڈار ایک دیوار کی طرح مندر اور پنڈت دکانوں کے باہر کھڑے ہوکر پتھرائو کرنے والوں کو للکار رہے تھے۔ گیلانی صاحب اس سعی میں خود بھی زخمی ہوگئے ۔ اس کا اعتراف اس وقت کے پولیس ایس ایس پی نے بھی کیا۔
سوپور کو گیلانی صاحب نے بڑی حد تک سماجی ناشائستگی سے پاک کردیاتھا۔ ہاں، وہ ہفت روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین سے خفا تھے اور کہتے تھے کہ وہ مایوسی پھیلا تے ہیں، اس لیے ایک مدت تک وہ ان کو انٹرویو نہیں دیتے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے سرینگر کے نمایندے نے ان کے خلاف ایک بار انتہائی بہتان آمیز خبر شائع کی تھی۔ ان کے آفس کے ایک رفیق نے اخبار اور اس نمایندے کے خلاف عدالت میں ہتک عزّت کا کیس درج کیا تھا۔ مگر وہ اس اقدام کے خلاف تھے اور ان کو بار بار کہہ رہے تھے، کہ ’’اس کیس کی پیروی ختم کریں‘‘۔
بطور ایک والد کے ان کا رویہ سبھی بچوں کے ساتھ مشفقانہ تھا۔ ان کی ضروریات اور آزادی کا خیال رکھتے تھے۔ میری بیٹی ابیض سرینگر میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ ایک سال کے بعد جب اس کا دودھ چھوٹ گیا، تو وہ انھی کے پاس رہتی تھی۔ جب ان کو دہلی آنا ہوتا تھا، تو اس کو ساتھ لاکر ہمیں ملایا کرتے تھے۔ وہ ہماری اس کم سن بیٹی کو حریت کانفرنس کی میٹنگوں میں بھی کئی بار ساتھ لے جاتے تھے۔ فروری ۲۰۲۰ء میں جب وہ حالت نزاع میں تھے، ان کی موت کی افواہیں گردش کررہی تھیں اور میںترکی شفٹ ہو گیا تھا تو میری اہلیہ سری نگر چلی گئیں۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی ان کی طبیعت میں بتدریج بہتری آنا شروع ہو گئی۔ کئی روز بعد مجھے فون کرکے خوب شکریہ ادا کیا کہ تم نے آنسہ کو سرینگر آنے اور میری تیمارداری کرنے کی اجازت دی۔
۱۴۷۰ء میں سلطان زین العابدین کے سنہری دور اور پھر ۱۵۸۵ء میںکشمیر پر مغل تسلط اور آخری بادشاہ یوسف شاہ چک کی قید و جلا وطنی کے بعد کشمیر ی مسلسل کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں ہیں، جو ان کو صدیوں کے گرداب سے باہر نکالے اور قابض قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ اس دوران کئی سرابوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر وہ ویسے ہی پیاسے رہے۔ لوگوں کے خیال میں گیلانی صاحب میں کئی کوتاہیاں سہی، مگر وہ اس مذکورہ بالا معیار پر پورے اترے اور انھوں نے لوگوں کو مایوس نہیں کیا۔ کوئی بھی حاکم وقت ان کی گردن جھکا نہیں سکا۔
حیدر پور ہ کے قبرستان میں سیکورٹی کے باوجود ان کواہل خانہ اور پڑوسیوں کی موجودگی میں باوقار طریقے سے دفنایا جا سکتا تھا ۔پورے کشمیر میں ویسے ہی کرفیو نافذ تھا۔ مگر طاقت کے نشے میں صبح تین بجے پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بول کر اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ مکان کی بجلی بند کرکے ان کی اہلیہ کو جوتوں تلے روند ڈالا گیا ۔ یہ دھاوا بولنے والی پارٹی اسٹریچر تک اپنے ساتھ نہیں لائی تھی۔ پہلے ان کی نعش کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، مگر پھر گھسیٹتے ہوئے میّت کو باہر لے گئے۔ ۱۰محرم الحرام کو میدانِ کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین کی لا ش کو بعد از مرگ اسی طرح گھسیٹ کر پامال کیا گیا۔ ۲۳محرم الحرام ۱۴۴۳ھ ،یعنی ۲ ستمبر۲۰۲۱ء کا یہ واقعہ بھارت اور کشمیر کی تاریخ میں ایک سیاہ دھبے کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ جس طرح ابھی حال ہی میں سومنات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ہزار سال بعد محمود غزنوی کو یاد کیا، اسی طرح کشمیر کی تاریخ اور اس کی نسلیں اس واقعہ کو یاد رکھیں گی۔ جس طرح دھرنوں کے دوران پولیس یا اسمبلی میں سیکورٹی گارڈ، ابّاجی کو اٹھا کر اور گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالتے تھے، بالکل اسی طرح کا سلوک ان کی میّت کے ساتھ، ان کے آخری سفر کے دوران کیا گیا۔
کسی نے کہا ہے کہ تارے تو ہمیشہ ٹوٹتے ہیں، اب کے مہِ کامل ٹوٹ گیا!