توحید اور رسالت کی گواہی کے بعد فرض عبادات: نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادایگی آداب و شرائط کے ساتھ مسلمانوں پر لازمی ہے۔فرض عبادات کی پابندی کرنے والوں کی تعداد مسلمانوں کے اندر کچھ زیادہ نہیں۔ تاہم، جو مسلمان بھی یہ کوتاہی کرتے ہیں وہ کم از کم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فرض عبادات کو بلا کسی عذر کے ترک کرنے کی وجہ سے وہ گناہگار ہو رہے ہیں۔
ان فرض عبادات کی طرح ایک اہم فریضہ دعوتِ دین کا ہے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ اکثر مسلمان بالعموم اس فریضے کی ادایگی سے غافل رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔حتیٰ کہ مسلمانوں کا ’دین دار‘ کہلانے والا طبقہ بھی دعوت دین کی اہمیت اور ضرورت سے کافی حد تک بے خبر ہے۔ دعوتِ دین کو وہ فریضہ ہی نہیں سمجھتے، اس لیےاس کی ادایگی کا سوال ان کے لیےکہاں سے پیدا ہوگا۔ دعوت کی فرضیت کے سلسلے میں قرآن اور حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ دعوت سے غفلت کے ہولناک نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت اور بشارتوں کا تفصیلی تذکرہ ہے۔ دعوت کا اہم پہلو مسائل کا حل بھی ہے۔ درحقیقت انسانی زندگی کے جملہ مسائل کا واحد حل اسلام ہی پیش کرتا ہے۔
دعوت عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی بلانا ، پکارنا اور مدعو کرنا ہے - پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف ادوار میں قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجا ۔ نبوت اور رسالت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔ لیکن فریضۂ دعوتِ دین جو نبیوں اور رسولوں کی سنت ہے اور ان کا بنیادی فرض منصبی رہا ہے، قیامت تک جاری رہے گا۔ کیونکہ دعوت کا بنیادی اور اصل مقصد اللہ کے بندوں کو الحاد، شرک اور کفر سے بچا کر انھیں ہدایت پر لگانے کی کوشش کرنا ہے اوراس کی ضرورت قیامت تک باقی رہے گی۔
قرآن میں دعوت کے لیے کئی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں: شہادتِ حق، تبلیغ، تبشیر، انذار، دعوت الی اللہ ، تذکیر، اور تبیین وغیرہ۔
دعوت سے مراد اللہ کے تمام بندوں( مرد و خواتین) کو اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی اختیار کرنے کی طرف بلانا اور ماسوا اللہ تعالیٰ کے کسی کی بندگی اختیار نہ کرنے کی تلقین کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد : توحید، رسالت اور آخرت کو دلائل اور حکمت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ فریضۂ دعوت کی ادایگی کے سلسلے میں تفہیم کا سارا کام ایک ہی نشست یا چند نشستوں میں کرلینا ممکن نہیں ہوتا بلکہ مدعو سے بار بار ملاقات اور گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دعوت دینے والے کو نتیجہ حاصل کرنے میں نامناسب عجلت نہ کرنی چاہیے بلکہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنا چاہیے۔ مدعو کی ہدایت کے لیےاللہ تعالی سے دعا بھی ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ پیغام پہنچانا بندوں کا،جب کہ ہدایت عطا کرنا اللہ تعالی کا کام ہے۔ وہ جسے چاہتا ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔
دعوت، نماز، روزہ اور دیگر فرائض اسلام کی طرح ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے ۔ نماز، روزہ اور دیگر فرائض کو ادا کرنے کے لیے جس طرح مسلمان پابند ہیں اسی طرح فریضۂ دعوت کی ادایگی کے بھی پابند ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس فریضے کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح ترکِ نماز کے بعد، نماز کے فائدوں کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، روزہ کو ترک کرنے کے بعد تقویٰ، تزکیہ اور روحانی و اخلاقی ارتقا ممکن نہیں ہے، اسی طرح دعوت کو ترک کرنے کے بعد اس کی ادایگی سے حاصل ہونے والے دُنیوی فوائد، برکتوں اور اخروی کامیابیوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اتنا ہی نہیں، دنیا میں ترکِ دعوت کے وبال اور مہلک نتائج سے بچنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ اُخروی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضی اور باز پُرس سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس ضمن میں قرآن مجید کے ارشاد پر غور فرمائیں:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ۱۵۹ (البقرہ ۲:۱۵۹)جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔
دعوت کی تاکید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ آپؐ کا دعوتی اسوہ کتب سیرت اور کتب احادیث میں محفوظ ہے۔دعوت کے ضمن میں قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر عمل کرکے صحابہ کرامؓ نے واضح نمونہ بعد والوں کے لیے چھوڑا ہے۔ تابعین اور تبع تابعین کی پاکیزہ زندگیوں میں دعوت کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ ان عظیم ہستیوں نے دعوت دین کے لیے دنیا کے مختلف حصوں کے کٹھن سفر کیےاور دنیا کی مختلف اقوام کو اسلام کی دعوت دی۔
دنیا کے بیش تر ممالک، قوموں اور آبادیوں میں اسلام دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا۔ کوئی پہاڑ، صحرا اور سمندر اس دعوت کو نہ روک سکا۔ صدیوں سے جمی ہوئی سلطنتیں اس دعوت کو روک نہ سکیں۔ اس کے فروغ کے نتیجے میں ایمان، خداپرستی، صلۂ رحمی، انسان دوستی، اخلاق اور روحانیت کی بہار آئی۔ انسانیت کا باغ لہلہا اٹھا۔ ظلم و ستم، کفروشرک، الحاد، بےانصافی، جنگ و جدال کے طوفانی بادل چھٹ گئے۔ عدل و انصاف اور امن وامان کی حکمرانی قائم ہوئی۔ ملک عرب سے نکل کر یہ دعوت ایک عالم گیر اور آفاقی دعوت بن گئی اور اس کے ماننے والے محض عرب نہیں رہے بلکہ ایک عالم گیر و آفاقی امت وجود میں آئی___ ’امت مسلمہ‘۔ صحابہ کرامؓ دعوت کی بنیاد پر ایک عالمی قوت بن گئے۔ دنیا کی مختلف قوموں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے انسان ایک عالمی برادری کے پیکر میں ڈھل گئے، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
دعوت کا حقیقی محرک صرف رضاے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا حصول ہے۔ داعی دعوت کے ذریعے ہدایت سے محروم انسانوں تک ہدایت پہنچا کر انھیں جہنم کی آگ سے بچانے کی تڑپ رکھتا ہے۔
دعوت کے اس پاکیزہ اورعظیم محرک کے علاوہ کوئی اور محرک نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دعوت سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانی مطلوب ہے، یا دعوت کے نتیجے میں مسلمانوں کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے دیگر محرکات صحیح نہیں۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوا کہ دعوت پیش کی گئی تو سب نےقبول کرلیا۔ انکار کرنے والے ہر دور میں پائے جاتے رہے۔ کبھی کبھی تو پوری کی پوری آبادی اور قوم نے دعوت کا انکار ہی نہیں کیا، بلکہ اس کی شدید مخالفت کی۔ دعوت کا اصل محرک دنیوی فائدے نہیں، اگرچہ دعوت کے بہت سے ضمنی فائدے ہیں۔
دعوت کے محرک کے ضمن میں درج ذیل حدیث پر غور کریں، تاکہ یہ اہم نکتہ واضح ہوجائے: ’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قریشی لیڈروں نے پیش کش کی کہ آپؐ مال، قیادت اور اقتدار قبول کر کے اس دعوت سے دست بردار ہوجائیں۔ آپؐ نے فرمایا:مجھے اس چیز کی قطعاً حرص نہیں ہے جو تم پیش کر رہے ہو۔ جو دعوت میں تمھارے سامنے پیش کررہا ہوں اس کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ میں مال جمع کرنا چاہتا ہوں، یا شرف و عزت کا طالب ہوں، یا تم پر حکومت و اقتدار کا بھوکا ہوں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارے پاس نبی بنا کر بھیجا اور کتاب اتاری ہے۔ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں غلط نظام زندگی کے عواقب اور نتائج سے آگاہ کردوں اور جو لوگ مان لیں انھیں کام یابی کی خوش خبری دوں۔ لہٰذا، میں نے اپنے رب کے پیغامات تم تک پہنچا دیے اور خیر خواہی سے سمجھایا۔ اگر تم میری دعوت کو اپنا لو تو یہ تمھاری خوش نصیبی ہوگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔ (سفینۂ نجات،مولانا جلیل احسن ندویؒ، ص۱۶۴)
دعوت اسلامی دنیا اور آخرت دونوں پر محیط ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں بالعموم جن نظریات، فلسفوں اور مذاہب کی دعوت انسانوں کو دی گئی وہ ہمیشہ نامکمل، ناقص اور ادھوری رہی ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے ایرانی سپہ سالار اور اس کے فوجی کمانڈروں کی غلط فہمی کو دُور کرتے ہوئے کہا: ہم تاجر لوگ نہیں ہیں۔ ہمارا مقصد اپنے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا نہیں ہے، ہمارا نصب العین دنیا نہیں،بلکہ آخرت ہے، صرف آخرت۔ ہم حق کے علم بردار ہیں اور اسی کی طرف لوگوں کو بلانا ہمارا مطمح نظر (مقصد) ہے۔ یہ سن کر رستم نے کہا: وہ دین حق کیا ہے؟ اس کا تعارف کراؤ۔
حضرت مغیرہؓ نے فرمایا: ہمارے دین کی بنا اور مرکزی نکتہ، جس کے بغیر اس دین کا کوئی جز ٹھیک نہیں ہوتا، یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت کا اعلان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں (یعنی توحید کو اپنائے اور حضرت محمدؐ کی رسالت و قیادت کو تسلیم کرے)۔ ایرانی سپہ سالار نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی تعلیم ہے۔ کیا اس دین کی کچھ اور تعلیم بھی ہے؟ حضرت مغیرہؓ نے فرمایا: اس دین کی تعلیم یہ بھی ہے کہ انسانوں کو انسان کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔ ایرانی سپہ سالار نے کہا: یہ بھی اچھی تعلیم ہے۔ کیا تمھارا دین کچھ اور بھی کہتا ہے؟
حضرت مغیرہؓ نے فرمایا: ’’ہاں، ہمارا دین یہ بھی کہتا ہے کہ تمام انسان آدمؑ کی اولاد ہیں، پس وہ سب کے سب آپس میں بھائی ہیں، سگے بھائی، ایک ماں باپ کی اولاد!‘‘
اسی سپہ سالار کے سامنے حضرت ربعی بن عامرؓ نے اپنے مقصد کی ترجمانی ان الفاظ میں کی:’’اللہ نے ہم کو اس بات پر مامور کیا ہے کہ وہ جن کو توفیق دے انھیں ہم انسانوں کی بندگی سے نکالیں اور اللہ کی بندگی میں داخل کریں اور دنیا کی تنگی سے نکال کر وسیع و کشادہ دنیا میں لائیں، اور ظالمانہ نظام ہاے زندگی سے نکال کر اسلام کے عدل و انصاف کے سایے میں بسائیں۔ پس اللہ نے ہمیں اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے، تاکہ ہم لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلائیں‘‘۔
اسلام میں حقوق العباد کا دائرہ پوری نوع انسانی پر پھیلا ہوا ہے۔ دوسری اہم بات وہ ہے جس کا اعلان حضرت ربعی بن عامرؓ نے کیا ہے، وہ یہ کہ امت مسلمہ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالے اور اسلام کا نظام عدل قائم کرے، تاکہ ظلم و جور کی ماری ہوئی دنیا نظامِ عدل کے سایے میں امن و سکون سے رہ سکے‘‘۔ (سفینۂ نجات، ص۱۶۹-۱۷۰)
دعوتِ اسلامی کو پیش کرنے کا مؤثر طریقہ ہے سماجی بگاڑ اور اخلاقی خرابیوں پر تنقید اور دعوتِ دین کو اس کے واحد حل کے طور پر پیش کرنا۔ ہم انبیاے کرامؑ کی سیرتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی دعوتی کوششوں میں اس کا ذکر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنی قوم کے اندر پائی جانے والی سماجی اور اخلاقی خرابیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے، اس کی کامل بندگی اختیار کرنے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی (یعنی پیغمبر کی) اطاعت کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ بگاڑ کو دُور کرنے اور سماجی و اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کا یہ انبیائی نسخہ کام یاب ترین نسخہ تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ دنیا میں کام یاب نہیں ہوا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اسلام کے سوا کیا کوئی مذہب یا نظریہ ایسا پایا جاتا ہے، جس نے انسانی معاشرے کے سنگین مسائل کو حل کیا ہو؟
چند انبیاؑ کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے، تاکہ اس نکتے کی اچھی طرح وضاحت ہوسکے۔ حضرت صالح ؑ کی دعوتی کوششوں کا تذکرہ قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے:
وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۴۸ (النمل۲۷:۴۸)،اور اس شہر میں نو جتّھےدار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور کوئی اصلاح کا کام نہیں کرتے تھے۔
یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم میں فساد برپا تھا۔ امن و امان رخصت ہوچکا تھا۔ حضرت صالح ؑ نے قوم کو توحید اختیار کرنے، شرک سے باز آنے، اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اپنی پیروی کرنے کی دعوت دی۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی مادی خوش حالی عطا کی تھی اور اسے نعمتوں سے نوازا تھا۔ پیغمبرؐ کی دعوت کے جواب میں قوم نے سرکشی کی، چنانچہ اللہ کا عذاب آیا اور قوم ثمود، جس میں حضرت صالح ؑ دعوت کا کام کر رہے تھے، صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی۔
حضرت لوطؑ جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے وہ ہم جنسیت، راہ زنی اور مجلسوں میں کھلی بدکاری میں مبتلا تھی۔ حضرت لوط ؑ نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، شرک کی خرابی اور اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور اطاعت کرنے کی طرف بلایا۔ ساتھ ہی انھوں نے قوم کی اخلاقی حالت پر شدید تنقید کی۔ قرآن مجید میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ۰ۥۙ وَتَاْتُوْنَ فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ۰ۭ (العنکبوت۲۹:۲۹)،کیا تمھارا حال یہ ہے کہ تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور راہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو؟
حضرت شعیبؑ کی قوم مدین کے ایک نہایت زرخیز اور سر سبز اور شاداب علاقے میں آباد تھی۔ معاشی خوش حالی عروج پر تھی، لیکن شرک کی بنیادی خرابی کی وجہ سے اس کے اندر تجارتی بے ایمانی، راہ زنی اور ناجائز خراج کی وصولی جیسی بڑی بڑی خرابیاں موجود تھیں۔ قرآن نے ان کی خرابیوں پر ان الفاظ میں تبصرہ کیاہے:
وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۰ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۸۵ (الاعراف۷:۸۵)،اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا کوئی تمھارا خدا نہیں ہے۔ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح راہ نمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو، جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے۔ اس میں تمھاری بھلائی ہے، اگر تم واقعی مومن ہو۔
حضرت شعیبؑ کی قوم نے ان کی دعوت کو جھٹلا دیا اور بڑے تکبر اور رعونت کا مظاہرہ کیا، بلکہ اپنے پیغمبر سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا۔ بالآخر اللہ کا عذاب آگیا اور قوم تباہ و برباد کردی گئی۔
انبیا کرامؑ کی دعوتی کوششوں کا یہ سلسلہ طویل ہے۔ آخر میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی کوششوں کو دیکھیے۔
نبوت سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی خرابیوں اور بدحالی پر کڑھتے تھے۔ اس ماحول سے دور رہ کر غور و فکر کرتے۔ حق کی طلب اور جستجو میں غارِ حرا کی تنہائیوں میں کئی کئی دن بسر کرتے تھے۔ نبوت ملنے کے بعد آپؐ نے اپنی قوم کو شرک اور اس کی ہلاکت خیزی پر متنبہ کیا، سماج میں پائی جائے والی خرابیوں پر تنقید فرمائی اور اصلاح کی دعوت دی۔ جن بڑی بڑی سماجی خرابیوں اور اخلاقی بگاڑ پر آپؐ نے تنقید فرمائی وہ یہ ہیں:
آج کے دور میں بھی شرک جیسی بنیادی خرابی کے ساتھ دیگر معاشرتی بُرائیاں موجود ہیں اور اخلاقی بگاڑ نہ صرف پایا جاتا ہے، بلکہ اس میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کا دور اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ ماضی کے برعکس آج تعلیم عام ہے، سائنس اور ٹکنالوجی عروج پر ہے۔ علوم و فنون بلندی پر پہنچ چکے ہیں۔ قانون موجود ہے، عدالتیں کام کر رہی ہیں، جیل اور پولیس کا نظام ہے، لیکن ان سب کے باوجود انسانی زندگی زبردست بحران سے دوچار ہے۔ کوئی حل کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ تعلیم، قانون اور عدالتوں کی ضرورت مسلّم ہے لیکن اس کے باوجود عدل قائم نہیں ہو رہا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا نمونہ آپؐ کی سیرت میں محفوظ ہے۔ آپؐ نے عرب میں پائی جانے والی بُرائیوں اور بگاڑ کے خاتمے کے لیے توحید کی دعوت بلند کی۔ آپؐ نے کہا کہ اللہ کو معبود تسلیم کرو، اس کی کامل بندگی اختیار کرو، اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور اس کے دیے ہوئے قانونِ زندگی پر عمل کرو۔ تم اس دنیا اور آخرت دونوں جہان میں فلاح یاب ہوگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسی دعوت کے ذریعے سے آپ ایک پُرامن صالح انقلاب لے آئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عرب میں اُس دور کی پائی جانے والی بُرائیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ امن و امان، صلۂ رحمی اور عدل و انصاف قائم ہوا۔ خوش حالی اور ترقی کے نتیجے میں عامۃ الناس کو فائدہ ہوا، کوئی فرد محروم نہیں رہا۔
ایک داعی کو لوگوں سے ملاقات اور گفتگو کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ داعی کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بالعموم لوگ ملاقاتوں اور اپنی مجلسوں میں حالات کے بگاڑ، سنگین مسائل اور اخلاقی خرابیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ہر فرد ان خرابیوں سے نئی نسل کے متاثر ہونے کا رونا روتا ہے، لیکن عوام و خواص کی گفتگو میں حل کے طور پر نئی قانون سازی، نئے ضابطے اور تعلیم کے فروغ وغیرہ جیسی تدابیر کا ذکر ہوتا ہے۔ آج قانون کی کوئی کمی نہیں۔ تعلیم عام ہے، مزید عام ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی اصلاح دُور دُور تک ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ بعض جرائم اور خرابیوں میں پڑھے لکھے لوگ زیادہ ملوث ہیں۔ ایسے مواقع پر لوگوں کے سامنے داعی، حکمت اور داعیانہ دردو سوز کے ساتھ اپنی بات پیش کرے۔ لوگوں کے دلوں میں دنیا کی بے ثباتی کا تصور اور فکر آخرت پیدا کرنا داعی کا بنیادی کام ہونا چاہیے ۔غرض یہ کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کی بنیاد پر عرب کی جاہلیت قدیمہ کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں نئے انسان اور نئے معاشرے کو وجود بخشا۔ آج بھی جاہلیت جدیدہ کے اس دور میں مسائل سے نجات کے لیے دعوتِ حق کا سہارا لینا ہوگا۔