آج سے کم و بیش تیس برس پہلے واشنگٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر سڈنی کابرٹ نے اردو زبان کی بین الاقوامی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے’’دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دیا تھا‘‘۔ ایک اور سروے کے مطابق اردو برعظیم کے علاوہ دنیا کے چوالیس سے زیادہ ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ عالمی زبانوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک سروے میں چینی اور انگریزی کے بعد اردو کو تیسری بڑی عالمی زبان قرار دیا گیا۔
یہ امر بہرحال ہرشبہے سے بالا ہے کہ اردو کا شمار عالمی زبانوں میں ہوتا ہے اور یہ بات بجائے خود اہلِ پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس عظیم زبان کو وطن عزیز میں ابھی تک وہ مقام نہیں ملا، جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی آئین میں آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ ۱۹۸۸ء تک قومی زبان اردو کو پورے پاکستان میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کردیا جانا لازم ہے۔ یہ سنہ بھی گزر گیا اور اس پر ۳۳ برس کا مزید عرصہ بھی گزر چکا مگر اونٹ اب تک کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔
اس دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت میں رٹ دائر کی گئی اور ایک لمبی بحث و تمحیص اور حکومت کے تاخیری حربوں کے باوجود ۸ستمبر ۲۰۱۵ء کو اردو کے حق میں ایک تاریخ ساز فیصلے کا ظہور ہوا۔ یہ رٹ جو دراصل دو الگ الگ رِ ٹوں کی صورت میں محمد کوکب اقبال اور سیّد محمود اختر نقوی نے داخل کی تھی، اپنے نفسِ مضمون کے باعث ایک ہی قرار دی گئی اور اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ ایک بنچ نے کیا جس میں خواجہ صاحب کی معاونت دوفاضل ججوں دوست محمد خاں اور قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں اعلیٰ عدالت کو کس ہفت خواں سے گزرنا پڑا، آئیے ان مراحل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
سال ۲۰۱۵ء میں جو اس کیس کا سالِ سماعت تھا، اس کیس کی اٹھارہ بار سماعت ہوئی اور ہر بار کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ تراشا گیا۔ چار بار تو ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوتے رہے اور جامع بیان جمع کرانے کے لیے ہر بار وقت مانگتے رہے۔ پانچویں پیشی پہ انھوں نے گویا ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات وغیرہ نے عدالتِ عظمیٰ کے احکامات پر کان نہیں دھرے۔ ایک مرحلے پر وفاقی حکومت ِ پاکستان کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث حکومت پر ہرجانہ بھی عائد کیا گیا۔ پھر دوسرے مرحلے پر کہا گیا کہ وزیراعظم ملک سے باہر ہیں۔ ان افسوس ناک حیلہ تراشیوں پر یاد آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِحکومت میں حنیف رامے صاحب نے، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے (پروفیسر فتح محمد ملک ان دنوں ان کے مشیر تھے) یہ فیصلہ کیا کہ کم از کم پنجاب کی حد تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے۔ رامے صاحب اور پروفیسر ملک صاحب اس معاملے میں بہت پُرجوش تھے، مگر جب بھٹو صاحب سے اس کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے رامے صاحب سے کہا کہ ’’پنجاب میں ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے کیونکہ ہمیں سندھ میں الیکشن بھی لڑنا اور جیتنا ہے!‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ برعظیم کی زبانوں میں اردو ہی ایک ایسی زبان ہے، جو اس کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور صرف وہی قومی اور سرکاری زبان بننے کی اہل تھی اور ہے، مگر اس سلسلے میں سوائے ظاہری عذر تراشیوں اور درپردہ سیاسی اور لسانی تعصبات نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو طاقِ نسیاں پر رکھا ہوا ہے۔ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی مصلحت کیشی اور ذاتی منفعت کوشی کی سپاہِ سیاہ نے اردو کے نفاذ میں کس قدر روڑے اٹکائے اور معاملے کو اس قدر اُلجھائے رکھا کہ اب تک یہ معاملہ سلجھتا نظر نہیں آتا اور افتخار عارف کا یہ شعر یاد آئے بغیر نہیں رہتا:
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
مگر لگتا ہے کہ سازشوں اور لسانی تعصبات کے تماشے کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں گو کہ بالآخر نابود ہونا اس کا مقدر ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے مذکورہ حیلہ تراشیوں کے ضمن میں بڑا واضح موقف اختیار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اسے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱پر عمل نہ کرنے کا حق یا اجازت حاصل ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ آرٹیکل ۲۵۱ کی زبان پر غور کریں تو اس بارے میں کسی غلط فہمی کی گنجایش نہیں رہتی۔ اس کے متن میں لفظ ”شیل“ Shall کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد اختیاری یا کسی کی منشا کا پابند نہیں بلکہ یہ ایک لازمی امر ہے۔ لہٰذا آرٹیکل ۲۵۱کی حکم عدولی کی کوئی گنجایش نہیں۔
آگے چل کر عدالت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’آئین کی پابندی ہر شہری کا لازمی اور بلا استثنا فریضہ ہے‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی یاد دلایا کہ ’’ریاست کے تمام اعلیٰ حکام آئین کی بقا اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ آئین کی حکمرانی تب قائم ہو سکتی ہے جب اس کی ابتدا صاحبِ اقتدار طبقے سے ہو۔ اگر حکومت خود آئینی احکامات کی پابندی نہیں کرتی تو وہ قانونی طور پر عوام کو بھی آئین کی پابندی پر مجبور کرنے کی مُجاز نہیں سمجھی جا سکتی‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ نے اس ضمن میں ’سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاق پاکستان‘ کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عدالت کا یہ اٹھایا ہوا سوال قابل توجہ ہے: یہ کام عوام کے نمایندوں اور تمام سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ آیا اعلیٰ طبقات اور ریاست کے باقاعدہ قائم شدہ اداروں میں قانون کی حکمرانی غائب ہونے سے تو وہ لاقانونیت پیدا نہیں ہوئی جو ہمارے معاشرے میں آج سرایت کر چکی ہے؟‘‘ دراصل عدالت کے اس سوال کے پسِ پشت وہ بڑی صداقت کام کر رہی تھی کہ النَّاسُ عَلٰی دِینِ مُلوکِھِم ،یعنی عام لوگوں کا چلن اور طور طریقہ وہی ہوتا ہے جو ان کے حاکموں کا ہوتا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’آئینِ پاکستان کی دفعہ ۲۵۱باقی دستور سے کوئی الگ تھلگ شق نہیں بلکہ دستور کی اس دفعہ کا شہریوں کے بنیادی حقوق سے گہرا تعلق ہے۔ دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضا ہے کہ ریاست ہر مرد و زن کی زبان کو چاہے وہ قومی ہو یا صوبائی، ایک قابل احترام زبان کا درجہ ضرور دے۔ آرٹیکل ۲۵۱ کا عدم نفاذ پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو، جو ایک غیر ملکی زبان، یعنی انگریزی سے ناواقف ہے، بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حاکم طبقات ایک بدیسی زبان، یعنی انگریزی کے پاکستانی عوام پر تسلط سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ مقصد واضح ہے: حاکم طبقہ اور بیوروکریسی محدود مقاصد کی اسیر ہے اور یہ محدود مقاصد اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہ لوگ ایک بدیسی زبان کے ذریعے طبقاتی اُونچ نیچ کا افسوس ناک کھیل جاری رکھ سکیں۔ حالانکہ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ: صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک!
نشۂ قوت میں مست و مغرور یہ طبقہ اپنے استعماری آقایانِ ولی نعمت کی تھپکیوں سے حوصلہ پکڑے ہوئے ہے۔ کاش! یہ طبقہ ہوش کے ناخن لے اور آئینِ پاکستان کے تحت شہریوں کو دیے گئے لسانی حقوق سے انھیں محروم کر کے فرنگی طالع آزما میکالے کی روح کو مسرور نہ کرے۔ وہی متکبر میکالے جو مغربی کتب کی ایک شیلف کو ایشیا اور عرب کے تمام ادبیات پر برتر اور بھاری گردانتا تھا۔ پاکستان کے عوام بیدار ہو رہے ہیں اور یہ بیداری اس خود غرض اسیرِ ذات استحصالی طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے:
دل نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس ہونا!
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا