آج سے کم و بیش تیس برس پہلے واشنگٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر سڈنی کابرٹ نے اردو زبان کی بین الاقوامی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے’’دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دیا تھا‘‘۔ ایک اور سروے کے مطابق اردو برعظیم کے علاوہ دنیا کے چوالیس سے زیادہ ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ عالمی زبانوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک سروے میں چینی اور انگریزی کے بعد اردو کو تیسری بڑی عالمی زبان قرار دیا گیا۔
یہ امر بہرحال ہرشبہے سے بالا ہے کہ اردو کا شمار عالمی زبانوں میں ہوتا ہے اور یہ بات بجائے خود اہلِ پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس عظیم زبان کو وطن عزیز میں ابھی تک وہ مقام نہیں ملا، جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی آئین میں آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت یہ بات واضح طور پر تحریر ہے کہ ۱۹۸۸ء تک قومی زبان اردو کو پورے پاکستان میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کردیا جانا لازم ہے۔ یہ سنہ بھی گزر گیا اور اس پر ۳۳ برس کا مزید عرصہ بھی گزر چکا مگر اونٹ اب تک کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔
اس دوران ملک کی سب سے بڑی عدالت میں رٹ دائر کی گئی اور ایک لمبی بحث و تمحیص اور حکومت کے تاخیری حربوں کے باوجود ۸ستمبر ۲۰۱۵ء کو اردو کے حق میں ایک تاریخ ساز فیصلے کا ظہور ہوا۔ یہ رٹ جو دراصل دو الگ الگ رِ ٹوں کی صورت میں محمد کوکب اقبال اور سیّد محمود اختر نقوی نے داخل کی تھی، اپنے نفسِ مضمون کے باعث ایک ہی قرار دی گئی اور اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ صادر کیا۔ یہ فیصلہ ایک بنچ نے کیا جس میں خواجہ صاحب کی معاونت دوفاضل ججوں دوست محمد خاں اور قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں اعلیٰ عدالت کو کس ہفت خواں سے گزرنا پڑا، آئیے ان مراحل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
سال ۲۰۱۵ء میں جو اس کیس کا سالِ سماعت تھا، اس کیس کی اٹھارہ بار سماعت ہوئی اور ہر بار کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ تراشا گیا۔ چار بار تو ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوتے رہے اور جامع بیان جمع کرانے کے لیے ہر بار وقت مانگتے رہے۔ پانچویں پیشی پہ انھوں نے گویا ہتھیار ڈال دیے اور کہا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان کے کیبنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری اطلاعات وغیرہ نے عدالتِ عظمیٰ کے احکامات پر کان نہیں دھرے۔ ایک مرحلے پر وفاقی حکومت ِ پاکستان کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث حکومت پر ہرجانہ بھی عائد کیا گیا۔ پھر دوسرے مرحلے پر کہا گیا کہ وزیراعظم ملک سے باہر ہیں۔ ان افسوس ناک حیلہ تراشیوں پر یاد آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِحکومت میں حنیف رامے صاحب نے، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے (پروفیسر فتح محمد ملک ان دنوں ان کے مشیر تھے) یہ فیصلہ کیا کہ کم از کم پنجاب کی حد تک اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کر دیا جائے۔ رامے صاحب اور پروفیسر ملک صاحب اس معاملے میں بہت پُرجوش تھے، مگر جب بھٹو صاحب سے اس کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے رامے صاحب سے کہا کہ ’’پنجاب میں ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے کیونکہ ہمیں سندھ میں الیکشن بھی لڑنا اور جیتنا ہے!‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ برعظیم کی زبانوں میں اردو ہی ایک ایسی زبان ہے، جو اس کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور صرف وہی قومی اور سرکاری زبان بننے کی اہل تھی اور ہے، مگر اس سلسلے میں سوائے ظاہری عذر تراشیوں اور درپردہ سیاسی اور لسانی تعصبات نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو طاقِ نسیاں پر رکھا ہوا ہے۔ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی مصلحت کیشی اور ذاتی منفعت کوشی کی سپاہِ سیاہ نے اردو کے نفاذ میں کس قدر روڑے اٹکائے اور معاملے کو اس قدر اُلجھائے رکھا کہ اب تک یہ معاملہ سلجھتا نظر نہیں آتا اور افتخار عارف کا یہ شعر یاد آئے بغیر نہیں رہتا:
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
مگر لگتا ہے کہ سازشوں اور لسانی تعصبات کے تماشے کے جلد ختم ہونے کا امکان نہیں گو کہ بالآخر نابود ہونا اس کا مقدر ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے مذکورہ حیلہ تراشیوں کے ضمن میں بڑا واضح موقف اختیار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اسے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱پر عمل نہ کرنے کا حق یا اجازت حاصل ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ آرٹیکل ۲۵۱ کی زبان پر غور کریں تو اس بارے میں کسی غلط فہمی کی گنجایش نہیں رہتی۔ اس کے متن میں لفظ ”شیل“ Shall کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد اختیاری یا کسی کی منشا کا پابند نہیں بلکہ یہ ایک لازمی امر ہے۔ لہٰذا آرٹیکل ۲۵۱کی حکم عدولی کی کوئی گنجایش نہیں۔
آگے چل کر عدالت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل پانچ کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’آئین کی پابندی ہر شہری کا لازمی اور بلا استثنا فریضہ ہے‘‘۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی یاد دلایا کہ ’’ریاست کے تمام اعلیٰ حکام آئین کی بقا اور تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ آئین کی حکمرانی تب قائم ہو سکتی ہے جب اس کی ابتدا صاحبِ اقتدار طبقے سے ہو۔ اگر حکومت خود آئینی احکامات کی پابندی نہیں کرتی تو وہ قانونی طور پر عوام کو بھی آئین کی پابندی پر مجبور کرنے کی مُجاز نہیں سمجھی جا سکتی‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ نے اس ضمن میں ’سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بنام وفاق پاکستان‘ کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عدالت کا یہ اٹھایا ہوا سوال قابل توجہ ہے: یہ کام عوام کے نمایندوں اور تمام سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ آیا اعلیٰ طبقات اور ریاست کے باقاعدہ قائم شدہ اداروں میں قانون کی حکمرانی غائب ہونے سے تو وہ لاقانونیت پیدا نہیں ہوئی جو ہمارے معاشرے میں آج سرایت کر چکی ہے؟‘‘ دراصل عدالت کے اس سوال کے پسِ پشت وہ بڑی صداقت کام کر رہی تھی کہ النَّاسُ عَلٰی دِینِ مُلوکِھِم ،یعنی عام لوگوں کا چلن اور طور طریقہ وہی ہوتا ہے جو ان کے حاکموں کا ہوتا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’آئینِ پاکستان کی دفعہ ۲۵۱باقی دستور سے کوئی الگ تھلگ شق نہیں بلکہ دستور کی اس دفعہ کا شہریوں کے بنیادی حقوق سے گہرا تعلق ہے۔ دستور میں مہیا کردہ ذاتی وقار کے حق کا لازمی تقاضا ہے کہ ریاست ہر مرد و زن کی زبان کو چاہے وہ قومی ہو یا صوبائی، ایک قابل احترام زبان کا درجہ ضرور دے۔ آرٹیکل ۲۵۱ کا عدم نفاذ پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو، جو ایک غیر ملکی زبان، یعنی انگریزی سے ناواقف ہے، بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حاکم طبقات ایک بدیسی زبان، یعنی انگریزی کے پاکستانی عوام پر تسلط سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ مقصد واضح ہے: حاکم طبقہ اور بیوروکریسی محدود مقاصد کی اسیر ہے اور یہ محدود مقاصد اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہ لوگ ایک بدیسی زبان کے ذریعے طبقاتی اُونچ نیچ کا افسوس ناک کھیل جاری رکھ سکیں۔ حالانکہ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ: صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک!
نشۂ قوت میں مست و مغرور یہ طبقہ اپنے استعماری آقایانِ ولی نعمت کی تھپکیوں سے حوصلہ پکڑے ہوئے ہے۔ کاش! یہ طبقہ ہوش کے ناخن لے اور آئینِ پاکستان کے تحت شہریوں کو دیے گئے لسانی حقوق سے انھیں محروم کر کے فرنگی طالع آزما میکالے کی روح کو مسرور نہ کرے۔ وہی متکبر میکالے جو مغربی کتب کی ایک شیلف کو ایشیا اور عرب کے تمام ادبیات پر برتر اور بھاری گردانتا تھا۔ پاکستان کے عوام بیدار ہو رہے ہیں اور یہ بیداری اس خود غرض اسیرِ ذات استحصالی طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے:
دل نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس ہونا!
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا
کیا یہ ایک دل چسپ اتفاق نہیں کہ یہ سالانہ جلسہ ایک ایسے مرحلے پر منعقد ہو رہا ہے جب ایک نہایت عظیم شاعر اور ڈراما نگار کی وفات پر پورے چار سو سال بیت گئے ہیں۔ میری مراد شیکسپیئر سے ہے، جو ۱۶۱۶ء میں فوت ہوا___ ایک ایسا نابغہ تخلیق کار جس نے تمام عمر فکری روشنی اور گرمی کا اہتمام کیا___ ایسی روشنی اور گرمی جس سے عالمی سطح پر قلوب کو حرارت اور ذہنوں کو جلا ملی۔ جس کا قول تھا کہ: ’ہر غلام اپنے اندر اتنی قوت رکھتا ہے کہ اپنے ہاتھ سے اپنی غلامی اور ذلت کا پروانہ چاک کر دے‘۔ جس کا موقف تھا کہ: ’دیانت سے بڑی کوئی وراثت نہیں‘۔ جس کا خیال تھا کہ: ’مجنوں، عاشق اور شاعر ایک ہی تخیلاتی قبیلے کے فرد ہیں۔ شاعر کی آنکھ زمین سے آسمان اور آسمان سے زمین تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جب شاعر کا تخیل حرکت میں آتا ہے تو نامعلوم ہیئتیں، شکلوں میں ڈھل جاتی ہیں اور وہ خیالی معدومات کو نام اور مقام عطا کرتا ہے‘۔
شیکسپیئر، انگلستان کی نشاتِ ثانیہ کا فرزند تھا، مگر ایسا فرزند جس کو ابتدا میں نہ صحیح تعلیم مل سکی اور نہ تربیت۔ وہ اپنے قصبے سے بھاگ کر ایک بڑے شہر میں پہنچا اور رفتہ رفتہ وہاں کے لوگوں کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ دراصل فطرت نے خود اس کی حنا بندی کا سروسامان کیا تھا جس کے نتیجے میں اپنے عہد کی اور ہر عہد کی بہترین غنائی شاعری اور میکبتھ ، ہیملٹ اور کنگ لیئر جیسے لافانی المیہ ڈرامے وجود میں آئے۔ شاعر، سیاست دان اور شیکسپیئر کے معاصر سر والٹر ریلے [مقتول : اکتوبر۱۶۱۸ء] کا قول کس قدر سچا تھا: Shakespeare was the rarest of all things, a whole man! [’شیکسپیئر پورا آدمی تھا، ایک نادر الوجود نابغہ‘]
اس نے اپنے کرداروں کو جو گویا اس کے بچے تھے، اپنی بہترین تخلیقی وراثت منتقل کی۔ ’دردمندی میں گئی ساری جوانی اپنی‘ جتنی میر کے بارے میں سچ ہے اتنی ہی شیکسپیئر کے بارے میں بھی درست۔ یہی ہے وہ دردمندی، جس کا ہمارے پُرآشوب عہد میں شدید فقدان ہے اور جس کے باعث آج پوری نوعِ انسانی ایک دو راہے پر کھڑی ہے۔ شیکسپیئر کے اس ہراساں خرگوش کی طرح جو اپنے پچھلے پنجوں پر سیدھا کھڑا ہے اور شکاری کتوں کی دور سے آتی آوازیں اس کے دل میں ہول اور دہشت پیدا کر رہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ اُردو میں ’شہر آشوب‘ لکھے جاتے تھے، اب وقت آ گیا ہے کہ ’عالم آشوب‘ لکھے جائیں۔ یہ کیسا عالمِ اضداد ہے جس میں ایک طرف حیران کن جینیاتی انجینیرنگ کے ذریعے ’ٹرانس ہیومنزم‘ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور تھری ڈی ٹکنالوجی کی کرشمہ کاریاں متعارف ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ بنیادیں رکھنے والے اپنے ہی بھائی بندوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ عراق، افغانستان اور لیبیا کی بربادی کے بعد اب شام کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف نظامِ شمسی کے نئے سیارے دریافت ہو رہے ہیں، بیسیوں نئی کہکشائیں منکشف ہو رہی ہیں اور دوسری جانب اس نیم جاں ارضی سیارے کے باشندوں کو بربادی اور ہلاکت کے ترقی یافتہ دیوتا بغیر کسی احساسِ جرم کے اور بغیر کسی ذہنی خلش کے موت سے ہم کنار کر رہے ہیں۔ معاً کنگ لیئر کا ضرب المثل مکالمہ یاد آتا ہے:
As flies to wanton boys are we to the gods They kill us for their sport!
[جس طرح کھلنڈرے بچے مکھیوں سے سلوک کرتے ہیں، ایسے ہی دیوتا ہمارے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی تفریح طبع کے لیے مار ڈالتے ہیں۔]
نام وَر پرتگالی ادیب ہوزے ساراماگو (۱۹۹۸ء کے نوبیل انعام یافتہ [م:۲۰۱۰ء]) نے ایک جگہ معاصر عالمی آشوب کو اندھے پن کی وبا سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے خیال میں یہ اندھاپن ہمیں اس بات کی رخصت دیتا ہے کہ ہم مرّیخ پر راکٹ بھیج کر وہاں کی چٹانوں کی تشکیلی ساخت کو جانچیں پرکھیں مگر اس کرئہ ارضی پر کروڑوں انسانوں کو بھوک سے مار دیں۔ حوزے سارا ماگو کی دانست میں: ’یا تو ہم اندھے ہیں یا پاگل‘۔ سعدی نے یہی بات صدیوں پہلے برنگِ دیگر کہی تھی:
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ باآسماں نیز پرداختی؟
[کیا تو نے زمین کے کاموں کو بنا سنوار لیا ہے کہ اب آسمان کی طرف متوجہ ہوگیا ہے]
۲۶مارچ ۲۰۱۰ء کو انگلستانی اخبار ڈیلی میل میں Slaughter of the Swansکے عنوان سے اینڈریو میلون کی تیار کردہ خبر چھپی۔ خلاصہ یہ تھا کہ ’مشرقی یورپ کے مہاجروں کے ہاتھوں خوب صورت ہنسوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے جو باعثِ تشویش ہے‘۔ پرندوں کے شکار کیے جانے پر اخبار نویس کی یہ تشویش قابلِ داد سہی، لیکن خود اس کا ملک دیگر استعماری طاقتوں کے دوش بدوش خود انسان اور اس کی نہایت قیمتی تہذیب کی بربادی کی جو تاریخ رقم کرتا رہا ہے اور اب بھی بہت حد تک اسی راہ پر گام زن ہے، اس کا حساب کون لے گا؟ مگر اہلِ مغرب اور امریکا کو تو یہ زعم ہے کہ وہ تہذیب کُش نہیں ’خالقِ تہذیب‘ ہیں۔ پھر امریکا اپنے عوام کو باور کراتا ہے کہ دُنیا کی برائیوں کی اصلاح ہمارا منصب ہے۔ یہ وہی نعرہ ہے جس کا علَم بردار ایک زمانے میں انگلستان تھا اور جسے رُڈیارڈ کپلنگ [م: ۱۹۳۶ء]نے Whiteman's Burden کی لغو ترکیب سے پیش کیا تھا۔ امریکا کو بقول ایڈورڈ سعید [م:۲۵ستمبر ۲۰۰۳ء]یہ زَعم ہے کہ: ’جو کچھ ہم چاہتے ہیں، دُنیا بھی وہی چاہتی ہے۔ ’ہم‘ اور ’وہ‘ کی اس ثنویت [duality] نے نوعِ انسانی کے مابین ایک بظاہر ناقابلِ عبور خلیج حائل کر دی ہے۔ فلسفے اور تہذیبوں کی تاریخ رقم کرنے والے دردمند اور نام وَر، صاحبِ اسلوب امریکی ادیب و دانش وَر ول ڈیورنٹ (م:۷نومبر۱۹۸۱ء) نے اپنی کتاب Fallen Leaves [برگ ہاے اُفتادہ]میں، جو اس کی وفات کے تینتیس برس بعد ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی، ایک جگہ لکھا ہے:
پینٹاگون کا دعویٰ ہے کہ ہمیں خود کو حملے اور تخریب کاری اور کھلے اور چھپے خطرات سے محفوظ کرنے کے لیے اپنی صنعت، سائنس، دانش گاہوں کو اور ٹیکسوں کا آدھا حصہ تازہ ترین اور مہلک ترین ہتھیاروں کی تیاری کے لیے وقف کرنا ہے اور قریباً ایک کروڑ نوجوانوں کو اس امر پر تیار کرنا ہے کہ اُنھیں بغیر کسی اخلاقی یا مذہبی خلش کے حریف کو قتل اور غارت کرنا ہے۔ (ص۱۷۲)
ان سطور سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب عزائم یہ ہوں تو دُنیا میں پائیدار امن دیوانے کے ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جب دمشق میں اگست ۱۹۲۰ء کو پہلی عالمی جنگ [۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء] کے بعد کا فرانسیسی جرنیل ہینری گورو [م: ۱۹۴۶ء] اُموی جامع مسجد سے متصل، صلاح الدین ایوبی کے مزار پر دستک دے کر یہ کہہ رہا ہو کہAwake Salahdin! we have retuned. My presence here consecrates the victory of the Cross over the Crescent [صلاح الدین اُٹھو، ہم واپس آگئے ہیں، میری یہاں موجودگی، ہلال پر صلیب کی فتح کی تعظیم کے لیے ہے]تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نئی صلیبی جنگوں کا ڈول ڈالا جا رہا ہے!
جب وِل ڈیورنٹ کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو بے محل نہ ہوگا کہ اس کی مذکورہ کتاب کے بعض فکر افروز خیالات کا یہاں اجمالاً ذکر ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دانش وَر کو معاصر اور ماضی کی تہذیبوں کا تجزیہ کرنے اور اپنے عہد کے احوال و ظروف کی چھان پھٹک کی بہت حد تک صلاحیت حاصل تھی۔ اس کی بعض آرا اور تعبیرات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر بحیثیتِ مجموعی اس کے بعض تجزیے بڑے چشم کشا ہیں۔
ڈیورنٹ لکھتا ہے: ’۱۸۸۳ء میں جرمن فلسفی فریڈرک نٹشے [م:۱۹۰۰ء] نے زوال پذیر عیسائیت کے تناظر میں اعلان کیا تھا کہ God is dead. God remains dead and we have killed him [خدا مر گیا ہے، خدا مرا ہی رہے گا، اور ہم نے اسے مارا ہے]۔
وِل ڈیورنٹ دُکھ کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ آج آدھی عیسوی دُنیا سرکاری طور پر عیسائیت ترک کر چکی ہے۔ اسی طرح آدھی عیسوی دُنیا کے نزدیک جمہوریت محض فریبِ نظر (Window-dressing) ہے۔ درحقیقت یہ جمہوریت، سادہ دل دُنیا پر دولت والوں کی حاکمیت ہے۔ تمام یورپ اور امریکا نے حضرتِ مسیح ؑ کی اخلاقیات کو خیرباد کہہ دیا ہے کیوںکہ زبردست فوجی قوت اور نئے عسکری عزائم کے ساتھ اس کی کوئی موافقت نہیں۔ دو عالمی جنگوں کے ہاتھوں عیسائیت شدید طور پر مجروح ہے۔ (ص۵۳)
مغرب کا پچھتاوا
ان عالمی جنگوں میں انسانوں کی جتنی بڑی تعداد موت کے گھاٹ اُتر گئی تھی، اس کا تصور ہی ہولناک ہے۔ دراصل جغرافیائی قومیت اور وطنیت کے تصور کو پوری انیسویں صدی کے یورپ میں بڑے تواتر سے تقویت پہنچائی گئی تھی اور اس میں قدامت پسند اور آزاد خیال دونوں کا حصہ تھا۔ رچرڈ کوچ اور کِرس اسمتھ ۲۰۰۷ء میں اپنی ہنگامہ خیز کتابSuicide of the West (مغرب کی خودکشی) میں لکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کے پہلے چار مہینوں ہی میں محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ جنگ سب متحارب قوموں کے لیے ہولناک ثابت ہوگی، لیکن نام نہاد قومی شناخت کے احساسِ فخر نے اسے ختم نہ ہونے دیا۔ اس جنگ میں ۸۵ لاکھ افراد کام آئے۔ دوسری عالمی جنگ [۱۹۳۹ء-۱۹۴۵ء]اس سے بھی زیادہ ہولناک ثابت ہوئی جس نے چار کروڑ ۷۰ لاکھ انسانوں کی بھینٹ لی۔ اُدھر دوسری طرف اشتراکیت کے علَم برداروں نے پانچ کروڑ ۴۰لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
’’میرے نزدیک ’مرگِ خدا‘ اور دُنیاے عیسائیت کے پڑھے لکھے طبقوں میں عیسائیت کا زوال مغربی تاریخ کا عمیق ترین المیہ ہے___ عالمی جنگوں اور اشتراکیت کی آویزش سے بھی بڑا المیہ!‘‘ ایک متوازن دانش وَر کی طرح ڈیورنٹ ماضی کے ساتھ ارتباط اور روایت سے جڑت کو بھی ضروری گردانتا ہے۔ اس کے خیال میں ’حال مر جاتا ہے، ماضی نہیں‘۔ پھر اپنی معاصر صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہم اہلِ مغرب اپنے وقت کا بڑا حصہ خبروں کے پڑھنے، سننے اور ان پر تبصرے کرتے رہنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ ایسی خبریں کہ جو لمحۂ گزراں سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کا زندہ ماضی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شاید ہمارے عہد کی یہ نہایت المناک سچائی ہے کہ:
We are choked with news and starved of history (p.158)
[خبروں نے ہمارا گلا گھونٹ دیا ہے اور تاریخ سے ہم کورے ہیں۔]
میرے نزدیک ڈیورنٹ کا مقصود یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ افراد و اقوام کے لیے حیاتِ تازہ کا باعث ہو سکتا ہے، خصوصاً جب حال کے احوال آپ کو شدید اضطراب اور شدید گھٹن سے دوچار کریں۔ وِل ڈیورنٹ اگر آج زندہ ہوتا اور مغربی اور خصوصاً ہمارے ذرائع ابلاغ پر بھانت بھانت کی غُرّاتی جھپٹتی آوازیں سنتا تو اس دُنیا کو فوراً خیرباد کہہ دیتا۔ اقبال کی طرح ڈیورنٹ بھی آزادی کو اس کی حدود کے اندر رکھنا چاہتا ہے اور بے لگام آزادی کو ’طفلانہ خواب‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ سقراط [م:۳۹۹ ق م]کا قول یاد آتا ہے جس نے کہا تھا کہ افراد یا ریاستوں میں حد سے بڑھی ہوئی آزادی، غلامی کے مترادف ہے۔ ظلم کی سب سے بڑھی ہوئی قسم انتہا تک پہنچی ہوئی آزادی سے جنم لیتی ہے۔ ذرا اقبال کو بھی یاد کر لیجیے:
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری
ڈیورنٹ نے ایک پتے کی بات یہ بھی کہی ہے کہ تعلیم کا مقصود صرف عقل کی آبیاری نہیں۔ مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اس نے کردار سازی کا سارا بوجھ خاندان اور کلیسا کے کندھوں پر ڈال دیا۔ لیکن چوںکہ یہ دونوں ادارے کمزور ہو رہے تھے، لہٰذا طالب علم عقل میں تیز اور کردار میں ڈھیلا ہوتا چلا گیا۔ اکبرالٰہ آبادی [م: ۱۹۲۱ء]کی بصیرت کو داد دینی پڑتی ہے، جنھوں نے تقریباً ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے برملا کہہ دیا تھا:
علومِ مغربی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو تیز ہو جاتی ہے، دل طاہر نہیں ہوتا
یہ بات معلوم ہے کہ ہر تہذیب اپنے مخصوص تصورِ حقیقت کے تابع اور اس کی مظہر ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب کے بارے میں اوسوالڈ اشپنگلر [م:۱۹۳۶ء]نے کم و بیش ایک صدی قبل جو بات کہہ دی تھی وہ بہت حد تک آج بھی اتنی ہی سچ ہے، جتنی اس وقت تھی۔ اس نے کہا تھا کہ مغربی تہذیب اپنی نہاد میں جرمن فلسفی فائوسٹ [م: ۱۵۴۰ء] کے زاویۂ حیات کی تابع ہے ،جس کا فلسفہ ’شیطان سے معاملہ فہمی‘ (deal with the Devil) کے گرد گھومتا ہے۔
عہدِ وسطیٰ کی کئی داستانوں کا ہیرو فائوسٹ اس لحاظ سے بڑا ہی بدقسمت واقع ہوا کہ اس نے علم اور قوت کے حصول کے لیے ابلیس سے اپنی روح کا سودا کیا۔ اوّل تو علم کے الوہی منبع سے صرفِ نظر کرنا اور اسے ابلیس سے طلب کرنا ہی کب صائب تھا، مزید ظلم یہ کہ اس سے قوت اور اقتدار کی بھیک بھی مانگ لی اور یہ سب کچھ اس نے اپنی روح کی قیمت پر کیا، لہٰذا نتیجہ معلوم۔
اوّل اوّل تو اس سے التفات برتا گیا مگر رفتہ رفتہ فائوسٹ لذات کی دلدل میں پھنستا گیا اور ابلیس نے اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا۔ مغرب کے اس فائوسٹی مزاج کا تجزیہ کرتے ہوئے ’مغرب کی خودکشی‘ کے مصنّفین کوچ اور اسمتھ لکھتے ہیں کہ: ’مغربی تہذیب کا مقصود بھی حصولِ قوت ہے اور یہ مسلّمہ اتھارٹی، ثقافتوں، روایتوں، نظامِ عقائد، قبل از صنعتی انقلاب طرزِ حیات اور اس سیارے کے ماحولیاتی نظام کو تہس نہس کرنے والا ہے ‘۔ اس کے بعد کا ایک جملہ ایسا ہے جسے اصل انگریزی زبان ہی میں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ لکھتے ہیں:
They (the Westerners) always want to do something, when often the best thing is to do nothing. (p.22)
[اہلِ مغرب ہروقت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، جب کہ اکثر بہترین مصروفیت کچھ نہ کرنا ہے]۔
جب ہر شے کو چیلنج کرنا اور اس کے وجود کی نفی ہی مطمح نظر ٹھیرا اور مقصود محض حصولِ قوت قرار پایا، تو اس کا نتیجہ مثبت اقدارِ حیات اور مسلمات کے ردّ کے سوا کیا نکلتا۔ ’خدا کی موت‘، تاریخ کا اختتام، مرکز کی نفی، ریاست کا اختتام اور حق و صداقت کی موت اور اس طرح کے شاخسانے اسی طرزِ فکر سے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔
اس کے برعکس حق یہ ہے کہ ثبات اور دستورِ حیات ابنِ آدم کی نفسی اور روحانی ضرورت ہے۔ جب نظامِ عقائد کی نفی اور ’خدا کی موت‘ کے مظاہر اور اعلانات ہونے لگیں تو تہذیبیں اپنے برگ و بار کھونے لگتی ہیں۔ فوری نفع کی طلب، ہوسِ ملک گیری، کبھی نچلا نہ بیٹھنے والا تجسّس ایسے ہی طرزِ احساس کے زائیدہ ہوتے ہیں۔ اسی کی کوکھ سے تیل کی دولت پر قبضے اور معدنی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے مظاہر جنم لیتے ہیں۔ اس لوٹ کھسوٹ کا کیسا زندہ اور توانا اظہار اٹھارھویں صدی کے شاعر غلام علی ہمدانی مصحفی [م:۱۸۲۴ء]کے ہاں نظر آتا ہے:
ہندوستاں کی دولت و حشمت، جو کچھ کہ تھی
ظالم فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی!
اب اس اکیسویں صدی میں تو لوٹ کھسوٹ کا یہ شیطانی دائرہ اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس میں کئی بڑے بڑے آسمانی سیارے سما جائیں! اس لوٹ کھسوٹ کو کوچ اور کِرسThe Insane Age of Imperialism (استعماریت کا عہدِ دیوانگی)سے تعبیر کرتے ہیں، جس کا زمانہ ۱۸۷۰ء سے ۱۹۱۴ء تک پھیلا ہوا ہے۔ فیڈرو دوستووفسکی [م:۱۸۸۱ء]کے کردار آئیون کرامازوف نے ناول کے محضر پر کتنا بڑا سچ اُگل دیا تھا: If there is no God, everything is permitted [اگر خدا کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر شے کی اجازت ہے]۔درحقیقت یہ وہ نفی ہے جو اپنے اگلے مرحلے ’اثبات‘ سے محروم ہے اور ’نفیِ بے اثبات‘ کے بارے میں غالب جیسے بے مثل حکیم نے بہت کھل کر کہہ رکھا ہے کہ:
نفیِ بے اثبات نَبُود جز ضلال
(اِثبات سے محروم نفی سوائے گمراہی کے اور کیا ہے؟)
معاصر عالمی صورتِ حال یہ ہے کہ اس پر یک قطبی (Uni-polar) نظام تیزی سے مسلط ہو رہا ہے۔ غریب اور کمزور قومیں غریب تر اور کمزور تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کے اقتدارِ اعلیٰ پر حملے ہو رہے ہیں۔ اپنا مطلب نکالنے کے لیے جمہوریت بھی جائز ہے اور آمریت بھی۔ اس ارضی سیارے کی ہوائوں، پانیوں، خوراک، سب میں زہر گھل رہا ہے۔ آبی ذخیروں میں مچھلیاں مر رہی ہیں اور آبی حیات مسلسل مسموم ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی ٹمبر مافیائوں کے ہاتھوں جنگلوں کے جنگل صاف ہورہے ہیں۔ ’ماحولیات کی موت‘ (Ecocide) ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ گلیشیئر پگھلنا شروع ہو گئے ہیں کیوںکہ عالمی حرارت آفرینی (Global Warming) میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے حیاتِ انسانی، حیوانی اور نباتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے کہ انسانی دماغ کا مستقبل کیا ہے؟ حال آںکہ اصل سوال یہ ہے کہ خود انسان کا مستقبل کیا ہے؟ اقبال نے ۱۹۰۹ء میں کیسی بصیرت افروز بات کی تھی:
Fight not for the interpretation of truth when the truth itself is in danger. [سچائی کی تعبیرو تشریح کے لیے اُس وقت لڑنا کیا معنی رکھتا ہے، جب خود سچائی کاوجود خطرے میں ہو]۔
دولت کی نامساوی تقسیم کے ضمن میں وِل ڈیورنٹ لکھتا ہے کہ تاریخ میں پہلے بھی ارتکازِ دولت کے شواہد موجود رہے ہیں جس سے مریضانہ اور سرطانی صورتِ حال پیدا ہوتی رہی ہے۔ معاصر صورتِ احوال یہ ہے کہ اب پھر انقلاب کی فریاد امریکا، فرانس اور اٹلی میں بلند ہو رہی ہے۔ یہ فریاد روس اور چین کی صداے بازگشت ہی نہیں بلکہ تلخ کام و تلخ ایام غربت و افلاس کا احتجاج ہے، جو متکبر دولت کے دوش بدوش زندگی گزار رہی ہے۔ طالب علم صاحبانِ اقتدار کا تختہ اُلٹنے کے لیے ہفتۂ جدوجہد منانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ (ص۱۷۰)
ڈیورنٹ نے تو یہ بات آج سے کم و بیش چالیس بیالیس برس پہلے کہی تھی، تازہ ترین صورتِ حالات معاشیات کے نوبیل انعام یافتہ جوزف ای اِسٹیگلٹز [پ: ۱۹۴۳ء] کی زبانی سنیے جس کی کتاب The Great Divide (وسیع تر خلیج) پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی ہے۔
مصنف کے خیال میں: ’آج کا امریکی خاندان ۲۵برس پہلے کے مقابلے میں بدتر حالت میں ہے۔ وہ امریکی معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات کا ذکر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ: ’امریکا میں نہایت دولت مند افراد کا تناسب محض ایک فی صد ہے۔ باقی ۹۹فی صد وہ مخلوق ہیں جو معاشی ناآسودگی کا شکار، حال سے بے حال اور مستقبل کے باب میں شدید بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں۔ اب یہ شعور اس ایک فی صد اقلیت کو بھی ہونے لگا ہے جو دبے لفظوں میں ۱۷۸۹ء کے ’انقلابِ فرانس‘ میں کثرت سے استعمال ہونے والے گلا کاٹ ہتھیار گلوٹین کا ذکر کرنے لگے ہیں‘۔ دُنیا کے ان ایک فی صد لوگوں کے پاس باقی دُنیا کی دولت کا آدھا حصہ ہے‘‘!
اِسٹیگلٹز نے جمہوریت کے بارے میں امریکی صدر ابراہام لنکن [م:۱۸۶۵ء] کے مشہور قول By the people, of the people, for the people کا مضحکہ کرتے ہوئے ۲۰۱۱ء میں اپنے ایک مقالے کا عنوان جمایا تھا، جو اپنی جگہ نہایت بلیغ اور امریکی جمہوریت پر ایک لطیف طنز ہے: Of the one percent, by the one percent, for the one percent [ایک فی صدکا ایک فی صد سے اور صرف ایک فی صد کے لیے]۔آپ کو یاد ہوگا کہ معاشی ناآسودگی کے شکار ۹۹فی صد غریب امریکی شہری، ۱۷ستمبر ۲۰۱۱ء کو ’قبضہ وال اسٹریٹ‘ تحریک کے نعرے تلے کئی بڑے بڑے جلوس نکال چکے ہیں اور ان کا نعرہ یہ رہا ہے: We are 99%۔ (یعنی امریکا کے ایک فی صد کے مقابلے میں ۹۹ فی صد معاشی ناہمواری و استحصال کا شکار ہیں)۔یہ نعرہ بذاتِ خود بڑا بلیغ اور معنی خیز ہے۔
ابھی اُوپر میں نے دوستووفسکی کا قول نقل کیا تھا کہ اگر خدا نہیں ہے تو پھر ہر شے کی اجازت ہے۔ دراصل ذاتِ حق تعالیٰ کے وجود کے ساتھ بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔ سزا و جزا اور عاقبت کے تصور اُسی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ خود کائنات کی تخلیق بھی اسی کے وجود سے وابستہ ہے۔ ماضی اور حال کے متعدد عقل پرست ذاتِ حق کے وجود سے برسرِپیکار رہے ہیں اور یوں صریح انکار یا تشکیک کے متعدد پیرایے اظہار پاتے رہے ہیں۔
زمانۂ حال کے ممتاز اور عالمی شہرت کے حامل ماہر ریاضیات و طبیعیات و فلکیات اسٹیفن ہاکنگ [م: ۲۰۱۸ء]نے متعدد دل چسپ اور فکر انگیز کتابیں لکھی ہیں، جن میں ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔ اُس کی دو اور کتابیں ’بلیک ہولز اینڈ بے بی یونیورسز‘ (۱۹۹۳ء) اور ’دی گرینڈ ڈیزائن‘ (۲۰۱۰ء)بھی کچھ برس پہلے شائع ہوئیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کی ان کتابوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ موصوف کی ساری کوشش یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ یہ کائنات ابدی طبیعی اُصولوں کی بنیاد پر آپ سے آپ وجود میں آئی اور اس کے لیے کسی خالقِ کائنات کا وجود ضروری نہیں۔
ہاکنگ کا کہنا ہے کہ: ’حقیقت کی نوعیت کیا ہے؟ کائنات کا طرزِعمل کیا ہے؟ کیا کائنات کے لیے کسی خالق کی ضرورت ہے؟ وعلیٰ ہذا القیاس، یہ سب بنیادی طور پر فلسفے کے سوالات ہیں مگر فلسفہ مرچکا ہے کیونکہ فلسفہ سائنس کے جدید اکتشافات خصوصاً طبیعیات کے قدم بہ قدم نہیں چل سکا‘۔ اس کا خیال ہے کہ حقیقت کا سادہ تصور جدید طبیعیات سے ہم آہنگ نہیں۔ حقیقت کا کلاسیکی تصور یہ تھا کہ ہر شے کی محض واحد تاریخ ہے،جب کہ ’کوانٹم مکینکس‘[قدری میکانیات] کا تصور یہ ہے کہ کسی شے کی واحد تاریخ نہیں متعدد امکانی تاریخیں ہو سکتی ہیں۔ ایسی تاریخیں ایک دوسری کی معاون ہوسکتی ہیں۔ شاید تنقید اور عمرانیات میں تکثیریت کا تصور یہیں سے پیدا ہوا ہو مگر ادبی اور تخلیقی سطح پر یہ تصور نیا نہیں۔ جب استاد ابراہیم ذوق [م: ۱۸۵۴ء]نے یہ شعر کہا تھا تو وہ تکثیریت ہی کی تحسین اور اثبات تو کر رہا تھا:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
بہرحال ہاکنگ کے نزدیک سائنس کے فلسفیوں کو طبیعیات کے نئے محاذوں کا علم نہیں ہے، اور وہ اب تک بیسویں صدی کے سائنسی تصورات، یعنی نظریۂ اضافیت اور کوانٹم مکینکس کی لکیر پیٹ رہے ہیں۔ ’کوانٹم مکینکس‘ سے طبیعیات(فزکس) کا اگلا سنگِ میل اب ایم تھیوری (M.Theory) ہے، جو بقول ہاکنگ ’ہر شے کی تھیوری ثابت ہوگی‘۔ ایم تھیوری کا خلاصہ یہ ہے کہ ہماری کائنات ہی سب کچھ نہیں۔ اس تھیوری کا مفروضہ یہ ہے کہ متعدد کائناتیں عدمِ محض سے وجود میں آئیں۔ ہاکنگ کے نزدیک ان کے وجود میں آنے کے لیے کسی مافوق الفطرت ذات یا خدا کی مداخلت کی ضرورت نہ تھی بلکہ یہ متعدد کائناتیں طبیعی اُصول کے تحت وجود میں آئیں۔
اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قوانینِ طبیعی کیسے اور کہاں سے وجود میں آئے؟ کیا یہ بھی عدمِ محض سے وجود میں آئے یا ان کے پسِ پشت کسی ایسی ذات کی کارفرمائی تھی جو علت العلل ہے یا جسے واجب الوجود کہا جاتا ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب اسٹیفن ہاکنگ کے پاس نہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کیا کسی بھی تعقل پرست کے پاس نہیں۔ ہاکنگ یہ تو کہتا ہے کہ: ’اب شاید یہ بتایا جاسکے گا کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا، لیکن یہ اس کے علم میں بھی نہیں کہ اس کا آغاز کیوں ہوا؟‘ بات وہی ہے جس کا اظہار اقبال نے مدتوں پہلے کر دیا تھا:
زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل
بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری است
[جو کچھ عقل تراشتی ہے، عشق اسے لمحہ بہ لمحہ توڑتا جاتا ہے۔ آگاہ رہ کہ عشق مسلمان ہے اور عقل بت پرست]
دیکھا جائے تو فلسفے کی ساری تاریخ ’زماں زماں شکند‘ کی تاریخ ہے گو کہ یہ تاریخ ہے بہت مزے کی!
اسے فکرِ انسانی کا کرشمہ کہیے یا المیہ کہ یہ عہد بہ عہد افکار و خیالات کے نئے نئے پتلے بناتی اور تراشتی رہتی ہے اور پھر انھیں ترمیم یا شکست سے دوچار کر کے نئی مہم جوئی پر نکل کھڑی ہوتی ہے۔ عہدِ جدید میں علوم کی پرانی حدبندیاں تیزی سے منہدم ہو رہی ہیں اور بین العلومی منہاج (Inter-Disciplinary Approach) پر اصرار ہو رہا ہے جو یقینا اپنی جگہ بڑا مبارک ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض فکری تغیرات، ثبات اور دوام کی قدروں کے لیے ایک مستقل چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ کیا معروضی صداقت نام کی کوئی چیز ہوتی ہے یا نہیں؟
مابعد جدیدیت کےعلَم بردار کسی ایسی صداقت کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ بریسلر کے خیال میں ان مفکروں اور علَم برداروں کے نزدیک صداقت کی تمام تعریفیں اور اس کی نمایندہ توضیحات محض ذہنِ انسانی کی زائیدہ ہیں، صداقت کی اپنی حیثیت اضافی ہے۔ یہ مفکر نقشے اور تفصیلات کے بجاے کولاژ پر اصرار کرتے ہیں اور کولاژ کے معانی ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ نقشے پر نگاہ کرنے والا اس کے معانی اور سمت کے تعین میں مدد لیتا ہے، کولاژ کا ناظر و ناقد کئی ممکنہ تعبیرات کے در کھولتا ہے۔ تعبیر کی یہ تکثیریت اپنی جگہ کتنی ہی قابلِ داد کیوں نہ ہو، مگر اس کا الم ناک پہلو ’شد پریشاں خواب من از کثرتِ تعبیر ہا‘ کا مصداق بہرحال بن جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ صداقتوں اور سچائیوں کا منبع ذہنِ انسانی ہے یا اُن کا صدور واحد خالق و مالک کی ذاتِ حق سے ہوتا ہے؟ مابعد جدیدیت کے علَم بردار اس سوال کے صرف اوّلین حصے سے متفق نظر آتے ہیں۔ اگر ہر فرد کی صداقت دوسرے فرد کی صداقت سے الگ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں نہ معاشرے کا باہمی ارتباط ممکن ہے، نہ اس کی بقا اور نہ وحدتِ فکر کا کوئی امکان باقی رہتا ہے۔ دراصل مغربی ذہن تعقلِ محض کے شکنجے کا اس بُری طرح اسیر ہو گیا ہے کہ الوہی صداقتوں اور ان کے دوام اور ابدیت کی طرف اس کا ذہن منتقل نہیں ہو پا رہا۔ اس سے فسادِ فکر و عمل کی وہ صورتیں پھوٹتی ہیں جن کے باعث یہ پوری دھرتی اس وقت ایک حشر خیز جہنم زار کا منظر پیش کر رہی ہے۔
معاشرے یقینا ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں اور ہیں، لیکن کھال کے نیچے ہم سب ایک ہیں۔ بڑی حد تک مشترک طرزِ احساس رکھتے ہیں، مشترک درد رکھتے ہیں۔ ہسٹن اسمتھ (جلال الدین) نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ ہم کسی دوسرے کے ’دوسرے پن‘ کا اس وقت تک احترام نہیں کرسکتے جب تک ہم اپنے ساتھ اس کی مماثلت کا ادراک اور اعتراف نہیں کر لیتے۔ اسمتھ تبت کے ایک صوفی دانش وَر کالو رمپوچی (Rimpoche)کا قول نقل کرتا ہے جس کی صداقت حیرت انگیز حد تک اقبال کے ایک شعر سے مماثل ہے۔ رمپوچی نے کہا تھا:
’عقل کہتی ہے میں کچھ بھی نہیں، عشق کہتا ہے میں سب کچھ ہوں‘
یوں لگتا ہے گویا رمپوچی نے اقبال ہی کے شعر کو لفظاً لفظاً نثر میں دہرایا ہے:
در بود و نبود من اندیشہ گماں ہا داشت
از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من
[سوچ اس گمان میں تھی کہ مَیں ہوں یا نہیں ہوں۔ عشق سے یہ نکتہ ظاہر ہوا کہ مَیں موجود ہوں۔]
وقت آ گیا ہے کہ تہذیبیں ایک دوسرے کے ہاں مشترک پہلو تلاش کریں اور وحدتِ آدم کے نام پر ایک دوسرے کا اثبات کریں۔ ’بنی آدم اعضاے یک دیگر اند‘ کا نعرہ صرف اقوامِ متحدہ کی دیوارِ بزرگ ہی کی زینت بن کر نہ رہ جائے، دلوں میں بھی اُترے، لہو میں بھی جاری و ساری ہو، مگر ہو کیا رہا ہے؟ خشکی اور تری میں ہر جگہ فساد اور ہلاکت کی کارفرمائی ہے۔ آگ پھیلتی ہے تو ایک گھر تک محدود نہیں رہتی۔ زہریلی ہوائیں کسی پاسپورٹ پر سفر نہیں کرتیں۔ اپنے ہی ملک پر نگاہ ڈالیں۔ نصب العینوں کی شکست، تنگ نظری کا دیو استبداد، خودکش دھماکے، قانون اور ضابطے کی بے احترامی، لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری، افلاس اور عدم مساوات کی حکمرانی۔ قصہ مختصر یہ کہ:
پڑوسی ملک میں صورتِ احوال کیا ہے۔ اروندھتی رائے [پ:۲۴نومبر ۱۹۶۱ء] سے پوچھیے، جو An Ordinary Person's Guide to Empire [۲۰۰۴ء]میں ایک جگہ لکھتی ہیں:
It (India) is conducting nuclear tests, rewriting history books, burning churches and demolishing mosques. Censorship, surveillance, the suspension of civil liberties and human rights, the questioning of who is an Indian citizen and who is not, particularly with regard to religious minorities, are all becoming common practice now (p.79)
[بھارت ایٹمی دھماکے کر رہا ہے، تاریخ کی کتب ازسرِنو لکھوا رہا ہے، گرجاگھروں کو جلا رہا ہے اور مساجد کو منہدم کررہا ہے۔ سنسر، کڑی نگرانی ، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق پر پابندی، یہ سوال کہ کون بھارتی شہری ہے اور کون نہیں، بالخصوص مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے، ایک عام روش بنتی جارہی ہے۔]
مگر بھارت چوںکہ ایک بڑی مارکیٹ ہے، لہٰذا بقول اروندھتی رائے CNN ان ناہمواریوں اور مظالم کو آئینہ کرنے سے قاصر ہے۔ ترک نوبیل انعام یافتہ دانش ور اورہان پاموک (پ:۱۹۵۲ء) نے اپنی فکر انگیز کتاب Other Colors (2007) میں کیسی عمدہ بات کہی تھی اور اس میں کیسی دردمندی چھپی تھی:
When another writer in another house is not free, no writer is free. (p 182)
[جب ایک مصنف اپنے گھر میں آزاد نہیں ہے تو پھر کوئی بھی مصنف آزاد نہیں ہے۔]
اس نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ: ’آئیے ہم یہ سوچیں کہ ثقافتوں اور مذہبوں میں کیڑے نکالنا کہاں تک صحیح ہے؟ یا زیادہ مناسب لفظوں میں یہ سوال کرنا کہ جمہوریت اور آزادی کے نام پر ملکوں پر بے رحمانہ بمباری کرنا کہاں تک روا ہے؟۔ عراق کے خلاف امریکی قیادت میں مارچ ۲۰۰۳ء کے دوران میں بے رحمانہ یلغار پر برطانیہ کے معروف میڈیکل جرنل The Lancet (اجرا: ۱۸۳۳ء) کے مطابق عراق میں ۶لاکھ ۵۶ہزار انسانوں کے بے رحمانہ قتل کے نتیجے میں کہیں امن اور جمہوریت نہیں آ سکی بلکہ اس کے برعکس مغرب کے خلاف نفرت اور غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ وحشیانہ اور ظلم سے بھری جنگ امریکا اور مغرب کے لیے باعثِ شرم ہے۔ (ص۱۸۳)
کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار ممتاز امریکی دانش وَر، ناول نگار اور نقاد خاتون سوسن سونٹیگ [م:۲۰۰۴ء]نے کیا تھا کہ: ’افغانستان اور عراق میں نہتے شہریوں کے قتل سے امریکا کے خلاف نفرت بڑھے گی‘۔ اس نے اس موقعے پر امریکی صدر کی تقریر بازیوں کو Cowboy rhetoric قرار دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ انتقام، نفرت، باہمی آویزش، قتل و سلب، تباہی و بربادی اور اجتماعی ذہنی اختلال اور پاگل پن کی اس دل شکن اور ہوش رُبا فضا میں کیا کرنا چاہیے کہ زخموں پر مرہم رکھا جاسکے اور اجتماعی آفاقی صحت کو بحال کرنے یا کم از کم مصائبِ عالم کو کسی قدر کم کرنے کا راستہ ہموار کیا جا سکے؟ میرے نزدیک ایک ہی رستہ ہے، بہت لمبا اور کٹھن مگر بہرحال منزل تک پہنچانے والا اور وہ ہے___ باہمی انسانی احترام اور رواداری کا رستہ۔ فنونِ لطیفہ اور عالمی ادبیات (World Literatures) بھی اسی احترامِ آدم اور رواداری کا سبق دیتے رہے ہیں اور خود ہمارا اُردو ادب بھی اس محضر پر ایک ناطق اور معتبر گواہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
صرف شاعری ہی کو لے لیجیے۔ ملّا وجہی سے اقبال تک اور اقبال سے ہمارے عہد تک، احترامِ آدمیت، رواداری اور برداشت کے عناصر شاعری میں جا بہ جا نظر آئیں گے۔ دراصل بڑا ادب ہی تہذیبوں کو اپنے گہوارے میں پالتا پوستا اور جوان کرتا ہے۔ بڑا ادب اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک دل ابنِ عربی [م:۱۲۴۰ء]کے دل کی طرح کا نہ ہو جائے جس کی بے کنار وسعتوں میں ہر مشرب و مسلک کے ہرن قلانچیں بھرتے نظر آئیں۔ ذرا بابا فغانی شیرازی [م:۱۵۱۸ء] کے دو شعر سنیے اور دیکھیے کہ وہ کس طرح ’اندوہِ عالم‘ کو اپنا اصل اثاثہ اور سرمایہ جانتا ہے اور رسمیات و ریاکاری سے بلندتر ہونے اور یک رنگی و یک جہتی کی علامتیں استعمال کرتا ہے:
بقدرِ طاقتِ خود ہر کسے غمے دارد
دل من است کہ اندوہِ عالمے دارد
سبحہ را بگسل فغانی گر پشیماں گشتہ ای
کانچہ در تسبیحِ زاہد نیست در زنّار ہست
[ہرشخص اپنی ہمت کے مطابق غم برداشت کرتا ہے۔ یہ میرا دل ہے کہ دنیا جہان کا غم و اندوہ لیے ہوئے ہے۔ lاے فغانی، اس تسبیح کو توڑ دے، اگر تو اس کو اختیار کرنے سےپشیمان ہو رہا ہے۔ کیوں کہ جو کچھ تسبیح میں نہیں، وہ تجھے زنّار میں مل جائے گا۔]
’زنّار‘ کے ظاہری معانی پر نہ جائیے۔ تصوف کی اصطلاح میں یہ سالک کی یک رنگی، راہِ دین میں متابعت اور راہِ یقین میں استقامت سے عبارت ہے، اور ’راہِ حق میں استقامت سے بڑی کوئی کرامت نہیں‘۔
تشبیہوں، تمثیلوں، پیکروں، استعاروں اور علامتوں کے پیرائے میں ہمارے تخلیق کاروں نے سچائی، صداقت اور احترامِ آدمیت کا جو سبق دیا ہے وہ ہمارے ادب کا ایک لازوال سرمایہ ہے۔ ایسا سرمایہ جس کو لفظ پرستی اور تخیل سے محروم خشک فکری سے برتر اور ماورا ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ذیل کے چند شعر دیکھیے:
’خدا ساز‘ تھا آزرِ بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
(میر)
کر زندگی اس طور سے تو درد جہاں میں
خاطر پہ کسی شخص کے تو بار نہ ہووے
بستے ہیں ترے سایے میں سب شیخ و برہمن
آباد تجھی سے تو ہے گھر دیر و حرم کا
یارب درست گو نہ رہوں عہد پر ترے
بندے سے پر نہ ہو کوئی بندہ شکستہ دل
(درد)
باراں کی طرح لطف و کرم عام کیے جا
آیا ہے جو دُنیا میں تو کچھ کام کیے جا
(آتش)
رات دن غافل! بدوں سے بھی کیا کر نیکیاں
کیا بُرا ہے اس میں کچھ تیرا بھلا ہو جائے گا
(ناسخ)
نہ سنو گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو گر بُرا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے
جو ناسزا کہے اس کو نہ، ناسزا کہیے
بحث و جدل بہ جائے ماں میکدہ جوی کاندراں
کس نفس از جمل نزد، کس سخن از فدک نخواست
(غالب)
(یعنی بحث مباحثے میں نہ پڑ اور مے خانے کا رستہ لے کہ وہاں نہ جنگِ جمل ہے نہ قضیۂ فَدَک)
خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
(انیس)
اسی طرح خواجہ الطاف حسین حالی کی ایک رباعی بھی سُن لیجیے:
فتنے کو فرو کیجے بہ ضبط و تمکیں
زہر اگلے کوئی تو باتیں کیجیے شیریں
غصہ غصے کو اور بھڑکاتا ہے
اس عارضے کا علاج بالمثل نہیں
مراد یہ ہے کہ غصّے میں ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) نہیں چلتی!
صاحبو! بڑی تہذیب کا کمال یہ ہے کہ اس سے وابستہ اور اس کے ماننے والے مور کے بدصورت پائوں دیکھ کر اس کے نہایت خوب صورت رنگوں سے مزین پروں اور اس کے وجدآفریں رقص کی نفی نہیں کرتے۔ اقبال نے ’سخنے بہ نژاد نو‘ کے زیرِ عنوان زندئہ جاوید یہ پیغام دیا:
حرفِ بد را برلب آوردن خطاست
کافر و مومن ہمہ خلق خدا ست
آدمیت احترامِ آدمی
باخبر شو از مقامِ آدمی
بندئہ عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق
[زبان پر بُری بات لانا خطا ہے۔ کافر ہو یا مومن، سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ l آدمیت، احترامِ آدمی سے عبارت ہے، تو آدمی کا مقام پہچان l بندئہ عشق ، اللہ تعالیٰ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کافر و مومن دونوں پر شفیق ہوتا ہے۔]
کافر اور مومن دونوں سے شفقت اور رحمت کا برتائو سنتِ الٰہیہ ہے اور اقبال کے نزدیک رحمت ورافت کے اسی پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ انسانیت کی بقا مشروط ہے۔ معاصر انسان کو تصادم سے کہیں بڑھ کر باہمی تکلّم کی ضرورت ہے۔ برابری کی سطح پر مکالمے کی احتیاج ہے تاکہ اسے یہ احساس ہو سکے کہ پوری نوعِ انسانی ایک وسیع خانوادے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس خانوادے میں نظر آنے والی یہ ساری ثقافتی رنگارنگی اور تہذیبی تنوع منشاے قدرت ہے۔ معاصر دانش وَری کا فرض ہے کہ وہ اس رنگارنگی، اس تنوع اور اس کثرت میں وحدت کے عناصر کا کھوج لگائے، ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کا احترام کرے اور مذاہبِ عالم میں موجود مشترک عناصر کی نشان دہی کرے۔
اس ضمن میں فلسفے اور علومِ اسلامی کے الجزائری پروفیسر مصطفےٰ شریف کا، یہودی النسل الجزائری فلسفی ژاک دریدا (م: ۹؍اکتوبر ۲۰۰۴ء) کے ساتھ طویل مصاحبہ نہایت قابلِ توجہ ہے جو دریدا کی زندگی کے آخری ایام میں کیا گیا اور اس کی وفات کے بعد Islam and the West کے زیرِ عنوان ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا۔ یہ مصاحبہ دریدا کے مذاہب، سیاست اور جمہوریت وغیرہ کے باب میں ایک نئے اور قابلِ توجہ بیانیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مکالمے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کی متعارف و موجود صورتوں سے بہت نامطمئن اور معاصر تہذیبی آشوب پر سخت دل گرفتہ تھا۔
مصطفےٰ شریف کے ایک سوال کے جواب میں اس نے کس قدر درست کہا ہے کہ اسلام کے بارے میں متحجر[stereotyped] یورپی ذہن کی ساخت شکنی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یونانیوں، یہودیوں اور عربوں کے مزعومہ ثقافتی اختلافات کو بھی جنھیں بڑی ہوا دی گئی ہے، چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے خیال میں ہسپانیہ (Spain) وہ نقطۂ اتصال ہے جہاں یونانی، عربی اور یہودی ثقافتی عناصر ایک امتزاج کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ مصطفےٰ شریف کے خیال میں ردِّتشکیلیت کے سردار و سربراہ کا بھی ایک خواب تھا کہ الجزائر میں، جو خود دریدا کی جاے ولادت تھا، الجزائری اور فرانسیسی باہمی اتحاد و احترام کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ دریدا کے خیال میں جس طرح اسلام کے مظاہر میں تکثیری عناصر ہیں، اسی طرح مغرب بھی ایک نہیں بلکہ متعدد مغرب، یعنی Multiple Wests وجود رکھتے ہیں، جن کا گہری نظر سے مطالعہ ضروری ہے۔
دریدا کے ساتھ مصطفےٰ شریف کا یہ فکر افروز مصاحبہ بہت سے روایتی استعماری حربوں کی بھی قلعی کھولتا ہے۔ الجزائر پر فرانسیسی استعمار کی حاکمیت سے پہلے دریدا کا خاندان الجزائر ہی میں آباد تھا۔ مصطفےٰ شریف کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ عربی زبان، عرب،بربر حقیقت اور الجزائر کی تاریخ کو کس زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ دریدا کا جواب یہ تھا کہ چونکہ الجزائر پر فرانسیسی استعمار مسلط تھا، لہٰذا عربی زبان پر پابندی تھی۔ یہ سرکاری اور انتظامی زبان نہ تھی بلکہ ایک غیرملکی زبان کے طور پر مشہور کی جاتی تھی۔ اسے اپنی ہی سرزمین میں محض اختیاری زبان کے طور پر رکھا گیا۔ رہی تاریخ تو فرانسیسی تاریخ تو پڑھائی جاتی تھی، مگر الجزائر کی اپنی تاریخ اور جغرافیے کا ایک لفظ بھی اس نصابِ تعلیم میں شجرِ ممنوعہ تھا۔ بے ساختہ اکبر الٰہ آبادی کا شعر یاد آتا ہے:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں، وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے، وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
غیرمنقسم برعظیم ہند میں بھی انگریزی استعمار نے ایسے ہی حربے استعمال کیے تھے۔ دراصل استعمار جہاں بھی جاتا ہے، اس کا پہلا ہدف وہاں کی زبان اور ثقافت ہوتی ہے اور جب رخصت ہوجاتا ہے تو اپنی معنوی اولاد کو یہ ذمہ داری سونپ جاتا ہے!
دریدا اگرچہ مذہبی مفکر نہیں تھا مگر ایک روشن فکر دانش وَر ہونے کے ناتے وہ دل سے مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ وہ سچے صاحبِ ایمان کو Authentic Believer کا نام دیتا اور بڑی منفرد بات کہتا ہے کہ: ’صرف سچا ایمان دار ہی سچا موسوی، سچا عیسوی، سچا مسلمان ہی (یعنی وہ لوگ جو اپنے مذہبی عقائد کو دل سے مان کر زندگی گزارتے ہیں)، دوسرے مذہبِ سماوی کے ماننے والے کے عقائد کی بہتر تفہیم کر سکتا ہے‘۔ میرے نزدیک تہذیبوں کے مابین بامعنی اور نتیجہ خیز مکالمہ ایسی ہی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے اور موجودہ تہذیبی آشوب میں اس کی سخت ضرورت ہے۔
ژاک دریدا کے انھی خیالات کے مماثل پیرایے ہمیں وِل ڈیورنٹ کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ اس کی دانست میں: ’جو مذہب فضائلِ اخلاق پیدا کرے گا اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دے گا وہ اس باہم متحارب عالمی معاشرے میں بہترین تریاق کا حکم رکھتا ہے‘۔ اس کے نزدیک: ’نسل، رنگ اور مسالک فطری ہیں اور انسان کے ارتقا میں مختلف گروہ، ادارے اور افکار‘ عناصرِ محرکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے خیالات آپ سے مختلف ہیں، ان کو سمجھنے اور ان سے حُسنِ سلوک کا رویہ روا رکھا جانا ضروری ہے‘۔ ڈیورنٹ نے تاریخ سے گواہی لاتے ہوئے کہا ہے کہ: ’عدم رواداری ہی دہشت گردی، وحشت اور آمریت کی جانب کھلنے والا دروازہ ہے۔ پھر ایک مقام پر جب وہ بڑی دل سوزی سے انسانی مواخات کا علم بلند کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے مذاہبِ سماوی کی سچائی بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:
آزادی میں جڑ پکڑے، ایک ہی الوہی پدر ہونے کے ناتے، ہر جگہ ایک ہی لہو کی وراثت کے امین ہوتے ہوئے ہم دوبارہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام انسان بھائی بھائی ہیں اور آزادی کی قیمت باہمی رواداری ہے۔ (ص۷۶)
تہذیبی برتری، ثقافتی سیادت، تکنیکی مہارت کی معراج کے زَعم میں مبتلا اور یک قطبی نظام کے تسلط کے لیے کوشاں اور آرزومند مغربی طاقتوں کو مغرب ہی کے ان دبنگ دانش وَروں کے اس انتباہ پر کان دھرنے چاہییں، جن کا قطعی موقف (بہ حوالہ Suicide of the West)یہ ہے کہ:
The world is not going to become Western. Neither the West nor the Rest is going to become the world. Diversity is here to stay.
[دنیا مغربی تہذیب میں ڈھلنے نہیں جارہی۔ نہ مغرب ہی اور نہ باقی ممالک دنیا بننے جارہے ہیں۔ مستقبل بہرحال تنوع اور کثیرجہتی کا ہے۔]
پھر یہی دانش وَر ایک اور سفاک حقیقت کا ادراک اور اعلان کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل خطرہ عام لوگوں سے نہیں بلکہ فکر سازوں (opinion-setters)، اُن کے افکار، طرزِ اعمال، بے ضمیر سیاست دانوں، خود غرض سربراہانِ تجارت، نامدار مشاہیر اور ان دونوں طرح کے دانش وَروں سے ہے جو یا تو الٹرا لبرل ہیں یا جدید قدامت پسند، یعنی (neo-conservatives)۔ بے اختیار مرحوم اشفاق احمد[م:۲۰۰۴ء] کا قول یاد آتا ہے۔ کہا کرتے تھے کہ ’وطنِ عزیز کو اتنا نقصان عام لوگوں نے نہیں جتنا پڑھے لکھوں نے پہنچایا ہے!‘
محبت میں شفا اور احترام میں آزادی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے جاننے کے لیے کسی لقمان اور کسی بوعلی سینا [م:۱۰۳۷ء] کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، صرف اپنے باطن میں اخلاص سے جھانکنے کی ضرورت ہے۔ محبت اور احترام ہمیشہ بڑے ادب کے عناصرِ ترکیبی رہے ہیں اور بڑے ادب کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتا۔ یہ تہذیبوں کا فیض یافتہ ہی نہیں، تہذیب گر اور ثقافت ساز بھی ہوتا ہے اور ہمارے اندر بے کنار ہونے کی اُمنگ اور ع ’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا ربّ‘ کی خلش پیدا کرتا ہے۔
معروف رومانی شاعر جان کیٹس [م:۱۸۲۱ء] نے کہا تھا کہ: ’اگر شاعری بے ساختہ آپ کے اندر سے اس طرح نہیں پھوٹتی جیسے درختوں سے پتے تو یہ بیکار محض ہے‘۔ میرے نزدیک آپ اس کے دائرے کو وسیع کر کے اس میں دیگر اصناف و آداب، فلسفہ، تاریخ اور فنونِ جمیلہ کو بھی شامل کرلیجیے تو تہذیب زیادہ شان دار، پُروقار اور مال دار ہو جائے گی اور اس کا وجود مزید توازن اور ترفع سے ہم کنار ہوجائے گا۔
اس عہدِ حشر آثار میں جب سائنس اور دیگر علومِ فطرت کی بے مہار تگ و تاز اور بے دریغ اوربے محابا سرپرستی نے اِس دھرتی کے وجود پر ایک بڑا سوالیہ نشان قائم کر دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علوم کے دوش بدوش علومِ انسانی کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے، تاکہ زندگی کی اعلیٰ قدروں: محبت، رواداری اور احترامِ انسانیت کو پورے قد سے کھڑے ہونا نصیب ہو اور ہم ڈولفن کی پشت پر سوار شیکسپیئر کی جل پری کی ان مسحور کن آسمانی آوازوں پر کان دھر سکیں، جنھیں سن کر سمندر کا پُرشور اور آشفتہ سر پانی بھی ساکت ہو جاتا ہے!
کیا ہمارا موجودہ تہذیبی ویسٹ لینڈ ایسے بہشتی لحن کے سننے کا متمنی اور متحمل ہو سکتا ہے؟