اپریل ۲۰۰۲

فہرست مضامین

بچوں کی تربیت: ذمہ داریاں اور نزاکتیں

ڈاکٹر بشری تسنیم | اپریل ۲۰۰۲ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے والدین کو جس اعزازسے نوازاہے وہ اسلام کے سوا دُنیا کا کوئی بھی مذہب اور کوئی تمدن عطا نہیں کر سکا۔ مائیں تو ساری دنیا میں قابل احترام ہیں مگر ایک مسلمان ماں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت میں مٹھاس اور اس کے دل میں ایثار و قربانی کا بے مثل جذبہ رکھ دیا ہے۔ اپنی صفت رحمت و شفقت سے وافر حصہ اس رشتے کو عطا کر دیا۔ وہ رب العزت خود خالق ہے ‘صفت ِتخلیق عورت کو عطا کر کے اسے عظمت کی بلندیوںتک پہنچا دیا۔ اپنے بچے سے محبت کا یہ انداز اس خالق کائنات اور رب العالمین نے ہی عطا کیا ہے کہ تکلیف پہ تکلیف اُٹھا کر ماں بچے کو جنم دیتی ہے‘ مگر اس پہ ایک نظر ڈالتے ہی تمام دکھ‘ تکالیف بھول جاتی ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی بچوں کو پیار کرتی ہے اورہر چھوٹا بچہ اس کے لیے کشش رکھتاہے۔ مگر یہ محبت اور کشش عورت ہونے کے ناطے فطری جذبے تک محدود رہتی ہے۔ یہی نوعمر لڑکی جب تخلیقی مراحل کا حصہ بن کر خود ماں کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو بچہ اور اس کا ہر کام اس کی زندگی کا مشن بن جاتا ہے۔ اپنے بچے کا آرام ماں کی اوّلین ترجیح ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت و شفقت اور رحم کی یہ صفت نہ رکھ دیتا تو شاید دنیا میں بچوں کی سب سے بڑی دشمن ماں ہی ہوتی۔ جس قدر تکلیف دہ مرحلوں سے ماں پرورش کے دوران گزرتی ہے‘ اس کا اندازہ اُسی ذات باری تعالیٰ کوہے‘ جبھی تو ایک مسلمان ماں کو اعلیٰ ترین ’’اعزازات‘‘ سے نوازا گیا۔ ان عظمتوں کو حاصل کرنا‘ اور انھیں شعوری طور پر برقرار رکھنا بھی مائوں کی ذمہ داری ہے۔ والدین کی ذمہ داری اسی روز سے شروع ہوجاتی ہے‘ جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے والدین کو بہت سے ادوار اور بے شمار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

اگر اُمت مسلمہ کے ہر گھرسے ایک بچہ بھی اسلام کے انسانِ مطلوب کی صورت میں نصیب ہو جائے تو آیندہ ایک دو عشروں میں ہی دُنیا میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ برپا ہو سکتا ہے۔ اس خوش نصیبی کو پانے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی اور تطہیر افکار و اعمال ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی بھی فرد یا قوم کے مقدر کو سنوار سکتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کرکے قوم کی تعمیرنو میں اپنا حصہ ادا کریں‘ اور ایک مہم کے طور پر ہر مسلمان کو اس کی اہمیت کا شعور دیا جائے۔کسی بھی مرد و عورت کی عملی زندگی کا آغاز نکاح سے ہوتا ہے۔ پھر باقی پوری زندگی میں دونوں نسل نو کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ کسی مرحلے میں عورت کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور کہیں مرد کی‘ اور اس میں مختلف مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔

پہلا مرحلہ: نکاح ‘ زوجین کا باہمی تعلق

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ نکاح کا رشتہ دو اجنبی مرد و عورت کو باہم مضبوط رشتے میں جوڑ دیتا ہے۔ حقوق و فرائض کی ادایگی میں بدنیتی وہ زہر ہے جو ہر اچھے سے اچھے کام کو عیب دار بنا دیتا ہے‘ بلکہ ہرے بھرے پھل دار باغ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ زوجین کو اپنے اپنے حقوق و فرائض کا کتاب و سنت کی روشنی میں پورا شعور ہونا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ شادی سے پہلے بچوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بخوبی آگاہ کریں۔

زوجین کا باہمی تعلق: میاں بیوی کا باہمی تعلق ’’ایک دوسرے کے لیے لباس‘‘ کا ہی ہونا چاہیے۔ معنوی طور پر بھی‘باطنی اور روحانی طور پر بھی۔ زوجین کا باہم رشتہ محض صنفی جذبات کی تسکین کا ذریعہ ہی نہ سمجھا جائے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوجین کے باہم تعلق کو جس شائستگی اور وقار کے ساتھ نبھانے کاطریقہ بتایا ہے اس کو مدنظر رکھا جائے۔ زوجین کو باہم محبت بڑھانے کے لیے‘ اس کو قائم و استوار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرنا چاہیے‘ جس سے میاں بیوی کے دلوں میں دُوری پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں بیوی کے درمیان‘ رنجش‘ جدائی یا بدگمانی ڈال کر ہوتی ہے اور یہ کام کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتاہے۔

نسل نو کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنا والداور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دی ہے اور اس کھیتی میں جس قسم کا بیج ہوگا ویسا ہی پھل نصیب ہوگا۔ جس طرح ایک جاہل‘ نالائق‘ ذمہ داریوں سے لاپروا باغباں اپنے کھیت اور باغ سے کماحقہ ٗ رزق حاصل نہیں کر سکتا‘ اسی طرح اسلامی شعور اور ذوقِ آگہی سے بے بہرہ مرد اور عورت اپنی اولاد سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہو سکتے۔

دوسرا مرحلہ : پیدایش سے پہلے اور بعد

ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لیے باعث سعادت اور معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوگا۔ بچوں کی پیدایش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا‘ چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو‘ نرم سے نرم الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔

بچے کا تعلق ابتدائی دنوں ہی سے ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سا خلیہ (cell)محض ایک جرثومہ نہیں‘ بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہء آغاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لیے اُسے منتخب کیا ہے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے‘ نہ اپنی تکلیف کو دوسروں کے لیے باعث آزار بنائے بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کے روز مرہ کے فرائض کو اجر کے حساب سے زیادہ نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔

باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لیے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟ ہمہ وقت اللہ کا ذکر‘ نماز کی پابندی‘ باوضو رہنا‘ پاکیزہ گفتار ہونا‘ جسمانی ‘ روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے اس میں اُس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے‘ جو والدین کی زندگی کا سرمایہ اور توشۂ آخرت ہے۔ اس زمانے میں جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے۔

مدت حمل میں بچہ ماں سے خوراک ہی حاصل نہیں کرتا‘ بلکہ وہ اس کے جذبات‘ احساسات‘ خوشی اور غم میں بھی شریک ہوتا ہے۔ ماں کی افسردگی‘ بے چینی اور بے آرامی کا بھی اُس پر اثر ہوتا ہے۔ اس زمانے میں وہ کیا سوچتی ہے؟ اس کا دل کن جذبوں سے آراستہ رہتا ہے؟ بچے کی شخصیت اسی کا پرتو ہوتی ہے۔

ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو ’’مثالی مسلمان‘‘ بنانا چاہتی ہوگی تو وہ ضرور شعور و آگہی کے ساتھ ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی‘ خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان اور لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کااثر یہ ہوا کہ نومولود کی جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔

ایک ذمہ دار اور حسّاس مسلمان ماں وہ ہے‘ جو زمانۂ حمل میں قرآن پر غوروفکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انجام دے اور علم کی محفلوں میں پورے انہماک سے شریک ہو۔ یہ ہماری دیکھی آزمائی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوںمیں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات و اطوار میں نمایاں تبدیلی محسوس کی‘ جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہا تھا۔

ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبروقناعت اور قوت برداشت کی صفات کو اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں‘ مثلاً بغض‘ کینہ‘ حسد‘ تکبر‘ اور جھوٹ ‘ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا‘ لایعنی‘ غیر ضروری بحث مباحثہ و گفتگو سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقینا اس کی عبادت‘ ذکرو تسبیح‘ نماز‘ روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادایگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہوگی۔

جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی اعلیٰ اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار اور اعلیٰ ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف‘ جھگڑالو‘ پژمردہ حاسد‘ احساس برتری یا احساس کمتری کی ماری‘ ناشکری اور بے صبری عورت قوم و ملّت کو اعلیٰ کردار کا سپوت کیسے دے سکتی ہے۔

بیرونی ماحول اور ماں کے اپنے فکروعمل سے جنین اثرات قبول کرتا ہے۔ اس بات کا تجربہ مشاہدہ کرنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ نے حاملہ خواتین کو مختلف ماحول اور سرگرمیوں میں رکھا۔ اس جائزے میں ایک یورپی ماں کا اپنا تجربہ ہے: ’’جب میں نے یہ بات سنی کہ جنین پہ ماحول کا اور ماں کے اپنے اندازِ فکر وعمل کا اثر ہوتا ہے تو میں نے کمپیوٹر کی تعلیم سیکھتے ہوئے اپنے بچے کو شعوری طور پر مخاطب کر کے ہر سبق دہرایا اور ہر عمل میں اُس کو اپنے ساتھ محسوس کیا۔ پیدایش کے چند سال بعد وہ بچہ کمپیوٹر کے بارے میں رازداں نکلا‘‘۔

اسی ادارے نے تحقیق کے بعد بتایا کہ ’’پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ صرف جینیاتی (موروثی) اثرات ہی مزاج بنانے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مگر اب ماحول کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ پژمردہ مائوں کے بچے بھی پژمردہ پیدا ہوتے ہیں۔ جیرالڈین ڈاسن نے واشنگٹن یونی ورسٹی میں منعقدہ ایک سیمی نار میں اپنا مشاہدہ بیان کیا کہ: ’’جن بچوں کی مائیں پژمردگی کا شکار ہوتی ہیں‘ ان کے بچوں کے دماغ کا بایاں حصہ جس کا تعلق خوشی‘ دل چسپی اور دیگر مثبت عادات سے ہے‘ اپنا کام بہتر طریقے پر انجام نہیں دے سکتا‘‘۔

اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرُعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصاً شوہر کا رویہ اورانداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال میں شوہر کی ذمہ داریاں بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ رفیقہ حیات کی ذہنی ‘ جسمانی‘ روحانی طمانیت کے لیے شوہر کو بھرپور طریقے سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرضِ عین ہے جس کی اس سے بازپرس ہوگی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دُنیا میں لانے کے لیے عورت کو جتنی آسانیاں آرام‘ ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے ‘ لازماً اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پائیں گے۔

حاملہ خاتون کو کچھ بیماریوں سے حفاظتی ٹیکے اور دوائیاں دی جاتی ہیں‘ تاکہ خاتون اور اس کا بچہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔ بالکل اسی طرح کچھ روحانی بیماریوں سے بھی حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں۔ ہر عورت اپنے عیب و محاسن کا جائزہ لے اور جو عیوب انسان کی زندگی کو عیب دار بناتے ہیں ان سے بچنے کے لیے مکمل توجہ کے ساتھ کوشش کرے‘ جس طرح رمضان میں اہتمام کر کے کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جسمانی بیماریوں کا علاج ضروری ہے تو اخلاقی بیماریوں کا سدِّباب بھی ہونا چاہیے۔

تیسرا مرحلہ: ولادت‘رضاعت ‘ ابتدائی چند سال

نومولود‘ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو بچہ جننے کی تکلیف برداشت کرنے پر بے حساب اجر وثواب کی بشارت سنائی ہے۔ اگر ایمان و ایقان کی کھیتی شاداب ہو اور اس پورے عمل کو اللہ اور رسولؐ کی رضا کا وسیلہ سمجھا جائے تو پھر درد کی ہر لہر کو برداشت کرنے پر بے حد و حساب ثواب ملتا ہے۔ نومولود لڑکا ہو یا لڑکی‘ خوشی کا اظہار فطری ہے۔ لڑکی اللہ کی طرف سے رحمتوں کا پیغام لے کر آتی ہے اور ایک فرشتہ گھروالوں کو ان رحمتوں کی خوش خبری سناتا ہے۔ جس عورت کے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کرے‘ دل میں تنگی و ناگواری نہ لائے تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی خوش خبری سنائی ہے۔

نام: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بچوں کو اچھے نام دو۔ عبداللہ‘ عبدالرحمن‘ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں‘‘۔ انبیا علیہم السلام کے ناموں پہ بچے کا نام رکھنے کی تلقین کی گئی۔ معنی کے لحاظ سے پسندیدہ‘ بامعنی‘ خوب صورت‘ خوشی‘ کامیابی‘ سکون و وقار والے ناموں کا اہتمام کرنا سنت نبویؐ ہے۔

لڑکے یا لڑکی کا جو بھی نام منتخب کیا جائے‘ اس کو پورے شعور کے ساتھ دل کی گہرائی سے احساس کرتے ہوئے پکارا جائے‘ کہ یہ نام نہیں حقیقت میں ایک دعا ہے‘ ایک آرزو ہے‘ تمنا ہے‘ آئیڈیل ہے جس کو پانا ہے۔ بچوں کو پیار ہی پیار میں بے معنی ناموں سے پکارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

رضاعت: پیدایش کے فوراً بعد ہر جان دار مخلوق کا نومولود اپنی ماں کی طرف کشش رکھتا ہے‘ چاہے اُس کا انڈوں سے ظہور ہو یا رحم مادر سے۔ دودھ پلانے والے جانوروں میں مشاہدات کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بچہ اپنی ماں کو اور ماں اپنے بچے کو ایک دوسرے کی بو (smell)سے پہچانتے ہیں۔

قدرت نے نوزائیدہ شیرخوار بچے کی ساری کائنات ماں کی گود اور ماں کے دودھ سے وابستہ کر دی ہے۔ بچے کو شروع ہی سے ماں کا قرب نصیب ہونا چاہیے۔ آج کل بچے کو ہسپتالوں میں ماں سے دُور نرسری میں رکھا جاتا ہے جس سے ماں اور بچہ ایک دوسرے کی مخصوص بو اور تعلق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو دو سال تک دودھ پلانے کی ہدایت کی ہے۔ یہی دو سال کا عرصہ بچے میں تعلیم حاصل کرنے کی قوت اور ذہنی دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔

بچہ رات کو بھوک سے روئے اور ماں اپنی نیند کی قربانی دے کر پوری محبت اور خوش دلی سے اسے دودھ پلائے تو فرشتے اس کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ہمارے لیے قابل تقلید بزرگوں کی مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ کانوں میں کوئی بہترین پیغام‘ آیاتِ الٰہی ‘لوری کی صورت میں سناتی تھیں۔

بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ نوزائیدہ بچے کو ۴۰ دن کے اندر اندر قرآن پاک کی تلاوت سنا دی جائے تو اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آتے ہیں۔ اس زمانے میں بچہ زیادہ تر سویا رہتا ہے۔ ماں بھی اکثر کاموں سے فارغ ہوتی ہے اور زیادہ تربچے کے قریب ہی رہتی ہے۔ گھر کی دیگر ذمہ داریاں عموماً دوسرے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران کیسٹ کے ذریعے ہلکی آواز میںقرآن پاک کی تلاوت بچے کے سرہانے لگا دی جائے۔ سوتے جاگتے بچے کو قرآن پاک کی تلاوت سے مانوس کیا جائے۔

بچہ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے ’’اللہ‘‘ کا نام سکھایا جائے۔ اذان کی آواز پر متوجہ کیا جائے۔ کلمہ طیبہ‘ بسم اللہ‘ السلام علیکم جیسے بابرکت کلمات سے بچے کی زبان کو تر کیا جائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بچے کی زبان کھل جائے تو بچہ کو سورہ فرقان کی یہ آیت یاد کروائی جائے:

الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا o (الفرقان ۲۵: ۲)

وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے‘ جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

ابتدائی چند سال: پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ: ’’صرف موروثی اثرات ہی مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔ مگر اب سائنس دان یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ : ’’بچپن کا ماحول بھی بچے کے مزاج کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچپن کے تجربات پتھر پہ لکیر ہوتے ہیں‘‘۔ مثبت اور خوش گوار مشاہدات‘ جذبات و احساسات کا حامل بچہ اپنے لاشعور سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ اعتماد‘ قوتِ فیصلہ اور سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔

دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچے کو اچھا انسان اور بہترین مسلمان بننے کے لیے بہترین ماحول چاہیے۔ شخصیت کی صحت مندانہ نشوونما کے لیے ایک صحت مند تصورِ ذات بہت ضروری ہے۔ بچے کا ابتدائی تصور ذات‘ اُسے والدین اور اہل خانہ ہی فراہم کرتے ہیں۔ بہرحال جو اثرات ایک مرتبہ قائم ہو جائیں وہ ختم تو نہیں ہوتے‘ البتہ بعد کے حالات اُس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘ ماحول اسے یہود و نصاریٰ بنا دیتے ہیں‘‘۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک پانی کا چشمہ اپنے فطری بہائو کے ساتھ فطری راستے پر بہہ رہا ہے۔ اگر اس راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو پانی فطری راستے کی بجائے مختلف اطراف میں بہنا شروع کر دے گا۔

چند سال کا بچہ ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کااظہار کرنا چاہتا ہے‘ تاکہ اگلے مرحلے میں وہ اپنے ذہن کی مزید نشوونما کر سکے۔

بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے‘ جس طرح جسمانی غذا بہ تدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہوگی‘ کم ہوگی‘ بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔ بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے ‘ نامکمل اور ناقص ہو تو بچہ روحانی طور پر کمزور‘ بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے‘ اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لیے بھی پیدایش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدایش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ وہ نیت کی درستی‘ فرائض کی ادایگی میں پابندی اور قلب و نگاہ کو شعوری مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے!

بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اُسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے۔ یا اُس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس کام سے خوش ہوں گے۔ شروع ہی سے بچے کے قلب و ذہن اور رگ و پے میں اللہ تعالیٰ کی محبت‘ رضا اورخوشی کا احساس بھی اسی طرح دلانا چاہیے۔

مسلمان مائوں کے لیے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انھی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی سرفرازی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالیٰ کو تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید!

والدین کا اپنا طرزعمل بچوں کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرزعمل کو  نوٹ کرتے اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو آپس میں یا دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے‘ یا آپس میں کھیلتے ہوئے‘ ان کی سرگرمیوں اور پلاننگ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین‘ رشتہ داروں اور استادوں سے کیا سیکھ رہے ہیں اور ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ کی حقیقت بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔

چوتھا مرحلہ: نماز کی پابندی

ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود‘ اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے ‘ شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دُور کرنا چاہتاہے‘ اسی لیے اس کی ادایگی نفس پر گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں: ’’بے شک نمازبے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں‘ لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت‘ انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ بازار جانے‘ کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔

نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اُسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر میں ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادایگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اُٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اُٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ--- صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر فجر کی پوری نماز کی (فرض و سنت کے ساتھ) پابندی کرائی جائے۔

دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بہ تدریج باقی نمازیں۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ‘ شعور‘ آگہی اوردعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔

پردے کی پابندی: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھرے‘‘۔ سب سے پہلے تو خود والدین کو اس لفظ کا معنوی و حقیقی‘ اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو‘ انداز و اطوار ‘ حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیردیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط و شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی باقاعدہ عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا۔

لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔  اگرچہ سالگرہ منانا اسلامی تہذیب کا رواج نہیں ہے‘ تاہم سالگرہ کا دن بچے میں خود احتسابی کے تصور کے ساتھ متعارف کروا دیا جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چھوٹے بچے کو سالگرہ کے دن اخلاقی نصاب کا کوئی ایک قرینہ سکھایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ جس ماحول میں گفتگو سے لے کراعمال تک حیا نہ ہو اُس میں بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جاگزیں ہو سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے ‘ جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لے رہے ہوں اور سب حیا سے عاری ہو جائیں تو انھیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے۔

گھروں میں نوعمری میں ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخاست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔ انتہائی چھوٹی عمر میں بھی مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم کیا جائے یا بچوں کو وہاں نہ بھیجا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اسی عمر میں بچوں کو مخلوط اداروں میں بھیجنے سے پہلے یہ شعور دیا جائے کہ کان‘ آنکھ اور دل کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔

معاشرتی تقاضے: بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بچوں کے درمیان عدل اور انصاف کا برتائو اہم نکتہ ہے۔

والدین کی طرف سے بچوں کے درمیان بلاوجہ تفریق و امتیاز‘ نہایت قابل گرفت بات ہے۔ خصوصاً ایسے والدین کی طرف سے جو خود تو صالح ہیں اور اولاد کی طرف سے پریشان ہیں کہ وہ حق کو نہیں سمجھتی۔ ایسے بچوں کے ساتھ متشددانہ رویہ حالات کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا کہ بچے کا اپنے والدین خصوصاً ماں کے ساتھ مناسب تعلق قائم نہ ہو--- ماں کی مصروفیات چاہے کتنی ہی صائب اور ضروری کیوں نہ ہوں--- بچے سے دُوری اور لاتعلقی اپنا اثر دکھا کر رہتی ہے۔ بعد میں اگر حالات درست ہو جائیں‘ تعلق بحال ہو جائے‘ کمی دُور ہو جائے تو فبھا ورنہ یہ تعلق کی کمی اور تشنگی دُور نہیں ہوپاتی۔ بعض اوقات تو منفی ردعمل سامنے آتا ہے۔

والدین کو چاہیے کہ لڑکوں کو ’’قوام‘‘ کے درست معنی سمجھائیں‘ اور بتائیں کہ وہ عورتوں کے آقا اور مالک نہیں بلکہ وہ ان آبگینوں کے نازک جذبات ‘ احساسات‘ خواہشات اور ضروریات کے نگہبان ہیں۔ ہمارے معاشرے نے جو جھوٹی شان ‘ تمکنت‘ رعونت‘ کرختگی اور آمرانہ روش لڑکوں کے ذہنوں میں بے جا طور پر بٹھا دی ہے‘ وہ اسلام اور اخلاق دونوں حوالوں سے غلط ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ عورت کو بحیثیت ماں‘ بیٹی‘ بیوی اور بہن کے قدرومنزلت دی جائے۔ یاد رہے‘ کہ ظلم کے کھیتوں میں کبھی بھی محبتوں اور شفقتوں کے پھول نہیں کھلتے۔ اگر ایک مرد اپنی بیوی‘ بہن اور بیٹی کے ساتھ ظلم یا خود پسندی کا رویہ اختیار کرے گا‘ تو ویسا ہی بیمار معاشرہ پیدا ہوگا‘ جیسا ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہمیں اس معاشرے کو نہیں بدلنا؟

عمومی سیرت و کردار کی پختگی:  بچوں سے اپناتعلق (قلبی و ذہنی) مضبوط کرنے کے لیے گھرمیں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوش گوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پہ تبادلۂ خیال ہو۔ بچوں کے آپس میں تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔ بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔

والدین عموماً بچوں کی بہت سی عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظراندازکرتے رہتے ہیں‘ مگر بالغ ہوجانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ بچے توغلط رخ پہ جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش‘ تعلیم و تربیت ہر سال‘ ہر مہینے‘ ہر ہفتے‘ ہر دن اور ہر گھنٹے اور ہر لحظے کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری (ڈیوٹی) ہے۔

جب زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم‘ مصائب و آلام سے گزر کر ایک ثمربار درخت بنتا ہے۔ اس وقت اس درخت (باغ) کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا‘فائدہ اٹھانا اور آیندہ کی منصوبہ بندی کرنا عقل مندی کی نشانی ہے۔ اسی طرح جوان اولاد‘ والدین کے لیے ثمربار درخت ہے۔ اس وقت اس کو ضائع کرنا‘ اس سے لاپروا ہونا‘غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا‘ ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔

نفسیاتی‘ ذہنی‘ جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لاکھڑا کرتی ہیں۔

اس وقت والدین کی شفقت‘ اعتماد‘ گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انھیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی و جسمانی اور ارتقائی مراحل قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لیے باپ کی بھرپور توجہ‘ رہنمائی اور محبت اسے بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا ‘اس عمر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اپنا بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔

اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال‘ ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے‘ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ‘ بہنیں‘ خالائیں‘ پھوپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں‘ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پرُاعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد‘ والد‘ بھائی‘ ماموں‘ چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتے دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں‘ تو شائستہ اطوار اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔

معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہِ راست پرلانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

پانچواں مرحلہ: رشتوں کی تلاش

والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی مناسب وقت پر شادی کر دیں۔ اس میں کسی قسم کی طمع و حرص اور اَنا کا دخل نہ ہو۔ نیک نیتی سے اُسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے شادی کریں‘ جو معیار اللہ اور اس کے رسولؐ نے قائم کیا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے لیے پسند و ناپسند کا پیمانہ دوسرا رکھیں اور اپنی بیٹی کے لیے کوئی مختلف پیمانہ مقرر کریں--- اسی طرح جو بلند معیار اپنی بیٹی کے لیے ہے‘ وہی دوسروں کی بیٹی کے لیے قائم نہ رکھا جائے تویہ کھلی منافقت اور سراسر بدنیتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ تعلیم‘ خاندان‘ اسٹیٹس اورمعاش میں کفو کو نظرانداز نہ کریں۔ لیکن‘ جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ شعورو آگہی‘ اندازِ فکروفہماور نظریات میں بھی ’کفو‘ کا خیال رکھنا لازمی ہے۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو ازدواجی زندگی اور تربیت اولاد کے سلسلے میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے قائم کرنے کے لیے جو ترتیب بتائی ہے اسی کو مدنظر رکھا جائے‘ یعنی: دین‘ حسب نسب‘ شکل و صورت۔ جس چیز کو سب سے آخر میں رکھا گیا ہے لوگ اسی کو اول و آخر قرار دیتے ہیں۔ اگر کام کی فطری ترتیب کو اُلٹ دیا جائے تو معاشرہ ابتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

بچے کی تربیت میں دیگر رشتہ داروں کا کردار

ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام بہت سی خوبیوں اور کئی خرابیوں کا مرقع ہے۔ بچے کی شخصیت پہ مثبت و منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہر گھر میں بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور پودوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ اس باغیچے کے باغبان والدین ہی ہیں اور باغبان ہی اپنے پودوں اور پھولوں پھلوں کا اصل میں ذمہ دار اور نگہبان ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ پودوں کی نشوونما کس نہج پہ شروع ہوئی اور اب کس مرحلے میں ہے۔ پودوں کی کانٹ چھانٹ اور کیاریوں کی صفائی ستھرائی باغبان کا ہی کام ہے۔ ایک ترتیب دیے گئے باغیچے میں پھول‘ پھل پودے جب بہار دے رہے ہوتے ہیں تو باغبان ہی نہیں دیگر دیکھنے والے بھی آسودگی اور نظروں میں تراوٹ محسوس کرتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں ہوتا۔ بہتر سے بہترین بنانے کی لگن سے کوئی والدین غافل نہیں ہوتے۔ فرق صرف دنیا یا آخرت میں سرخرو ہونے کے تصور میں ہے۔

بچوں کی وہ خوشیاں جن کا تعلق حصولِ دین سے ہو‘ ان میں سب کو بھرپور خوشی منانی چاہیے‘ مثلاً علم قرآن و حدیث کے حصول پہ خوشی‘ چھوٹے بچے کی دُعا‘ آیت یا دینی امور میں نمایاں کامیابی‘ نماز‘ روزہ‘ غرض ہر نیکی کا صلہ خوشی‘ محبت ‘ حوصلہ افزائی اور انعام کی صورت میں دیا جائے۔ دین سے بے بہرہ لوگ دنیاوی کامیابیوں پہ جشن مناتے ہوں تو مسلمان بچے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوششوں میں ہونے والی کامیابیوں کی خوشیاں کیوں نہ منائیں؟--- وہ تقریبات جو شرعاً جائز ہیں ان کوباوقار طریقے سے اسلامی تہذیب و فکر کے ساتھ منایا جائے۔

اُمت مسلمہ جس پرآشوب دَور سے گزر رہی ہے اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ کہ آج ہی صدق دل سے ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور نسل نو کی بحیثیت ایک مسلمان کے‘ دوا اوردُعا دونوں کے ساتھ آبیاری کرے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے نسل نو کو مثالی مسلمان قوم بنانے کے لیے نصرت و حمایت کی دُعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَا  قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴)

اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے کر ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔