اپریل ۲۰۰۲

فہرست مضامین

تہذیب کا مستقبل اور اسلام

پروفیسر خورشید احمد | اپریل ۲۰۰۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

انسان نے سمندروں اور آسمانوں کو مسخرکر ڈالا ہے اور فطرت کی طاقتوں کو اپنی خدمت میں لگا لیا ہے۔ اس نے اپنے معاملات کے لیے وسیع اور پیچیدہ ادارے اور تنظیمیں قائم کر لی ہیں۔ بہ ظاہر وہ مادّی ترقی کے اوجِ کمال پر جا پہنچا ہے۔

انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے کائنات میں اپنی حیثیت پر خوب اچھی طرح غور کر لیا ہے۔ اس نے اپنے حواس اور تجربات سے حاصل کیے ہوئے علم اور عقل کی روشنی میں حقیقت کی تعبیر کرنا شروع کر دی ہے۔ اپنی قوت استدلال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی قوتوں میں نودریافت شدہ اعتماد نے اس کا رشتہ روایت سے‘ وحی کی صداقت سے‘ تجربے سے بالاتر معاملات سے غرض یہ کہ اپنے بارے میں ہدایت کی کسی بھی صورت سے توڑ دیا ہے۔

وہ اس اعلیٰ مقام سے دُنیا کو اپنے نظریات‘ اپنے رجحانات اور پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ’’عالم نو‘‘ جو اس نے پیدا کر لیا ہے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ایک انتہائی خطرناک فریب خوردگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ٹکنالوجی کی بے مثال ترقی اور مجموعی مادّی ترقی کے باوجود انسان کی حالت انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ طاقت ور کمزور کو دبا رہا ہے۔ امیر غریب پر مسلط ہے اور دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ستم یہ ہے کہ غریب ممالک غریب تر ہو رہے ہیں اور امیر ملکوں میں بھی غریبوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً بے زر‘ زردار کے خلاف صف آرا ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ناانصافی اور استحصال کا بازار گرم پاتا ہے۔ وہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ‘ افراد کی معاشرے سے اجنبیت اور اس کے اداروں سے دُوری سے دوچار ہے۔ یہاں تک کہ انسان آج خود کو خود سے دُور دیکھ رہا ہے۔ وہ تمام انسانی دائروں اور سرگرمیوں میں اعتماد اور اختیار کے غلط استعمال کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اگرچہ اس نے ہوا میں اُڑنے اور سمندرمیں مچھلیوں کی طرح تیرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ تو کر دیا ہے‘ تاہم وہ زمین پر ایک اچھے انسان کی طرح رہنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی یہ ناکامی اس امر کو مشکوک بنادیتی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کو واضح رہنما خطوط کے بغیر چلا سکتا ہے۔

انسان اپنے آپ کو دونوں طرح سے مشکل میں پاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ تہذیب و تمدّن کی معراج کو پہنچ چکا ہے لیکن بامِ عروج پر پہنچتے ہی وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور بڑے خلا میں موجود پاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی تراشیدہ تہذیب کو اپنی ہی دریافت شدہ قوتوں سے خطرے میں پاتا ہے۔ وہ پریشان ہو کرایسے آسروں اور سہاروں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کی زندگی کو تباہی سے بچا سکیں‘ اور وہ اپنے محبوب خوابوں کی تعبیرسے محروم نہ ہو۔ اسے احساس ہے کہ اس کا تصور جہاں ان واضح معیارات سے خالی ہے جو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں اس کے ممد ومعاون ثابت ہوں۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کا علم اورمہارت‘ اس کو وہ عالم گیر معیار یا میزان عطا کرنے میں ناکام ہیں جو اسے اچھے اور برے کا فرق بتا سکیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ تبدیلی اور تبدیلی کی رفتارنے اس کے قدم اُکھاڑ دیے ہیں۔ اس کو اضافیت اور ثبات نے محرومی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ اب انفرادی یا اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد کے طور پر کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو ٹھوس اور دائمی ہو۔ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ‘ انسان جس سمت کی طرف بہے جا رہا ہے ‘ وہ خود اس کے بارے میں مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ اسی مخمصے سے نجات حاصل کرنے میں ناکامی بلکہ احساسِ نااہلیت اسے مایوسی اور افسردگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انسان روز بروز خود غرض اور اپنے اہل و عیال اور انسانیت کی اجتماعی ضروریات سے لاپروا ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کو ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے: وہ اپنے کو حیوان کے علاوہ کچھ اورنہ سمجھے۔ اورافسردگی کے عالم میں اپنے کو ایک ’بے لباس بندر‘ قرار دے ‘یا پھر وہ سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان اور معاشرے کے لیے ایک نئے نمونے یا تصور (paradigm)کی تلاش میں لگ جائے۔

تہذیب کا بحران

اکیسویں صدی کے اس پہلے عشرے میں انسان اسی تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہے۔ بیسویں صدی کے بڑے بڑے فلسفی تاریخ دانوں: اوسوالڈ سپنگلر مغرب کا زوال‘ آرنلڈ ٹائن بی تاریخ کا مطالعہ اور پٹرم سوروکن معاشرتی و ثقافتی علومِ حرکیات اور ہمارے عہد کے بحران کا خیال ہے کہ مغرب کی غالب لادینی تہذیب ‘ انسان دوستی کے خوش نما سُر اور تال کے باوجود اورمادّی خوش حالی یا فوجی طاقت کی بے کراں وسعتوں کے باوجود ایک کرب ناک بحران میں مبتلا ہے۔ وہ طاقتیں جنھوں نے اس تہذیب کے عروج اور غلبے کے لیے راہ ہموارکی تھی‘ اپنی توانائی کھو چکی ہیں۔ اب انتشار اور تنزل کی طاقتیں قوت و استحکام کی طاقتوں پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ لنگرگاہیں جو جہازوں کو تحفظ فراہم کرتی تھیں اب بے وزن ہو رہی ہیں۔ وہ اقدار جو لوگوں کو جوڑتی تھیں اب ابتری کی حالت میں ہیں۔ یہ روگ ایک یا چند علاقوں تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ زندگی کا سارا دریا اسی آلودگی کا شکار ہو گیا ہے۔

جدید تاریخ کے ایک باشعور تجزیہ نگار جوزف اے کمیلیری (Joseph A. Camilleri)نے ہمارے وقتوں کے اس بحران کا منظرنامہ نہایت خوبی سے یوں بیان کیا ہے:

موجودہ انسانی بحران اتنا شدید اور ہمہ گیر ہے کہ اس کے تجزیے کی کوشش بھی ایک مشکل عمل ہے    چہ جائے کہ اس کا حل جو بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس بحران کے سامنے انسانی عقل و فہم اور فکر کی قوتیں شکست کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان دنوں وہ لاکھوں انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ جن کی غیر محفوظ ہستی غربت‘ پس ماندگی اور بھوک جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ انسانی زندگی کی یہ ناخوش گوار صورت حال ان اقوام کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے جو بیرونی حملے یا اندرونی انتشار کے خطرے کی زد میں ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کا وسیع دائرہ ‘دہشت اور خوف کے خطرناک اور غیرمستحکم ’’توازن ‘‘ پر انتہائی نزاکت کے ساتھ استوار ہے ۔

وقت‘ خلا اورحرکت کے روایتی تصورات کو ٹکنالوجی کے انقلاب اور طاقت پسند استحصالی ثقافت نے اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرتی فساد‘ نفسیاتی عدم تسلسل اور اخلاقی خلا پیدا ہوا ہے‘ جس نے ضمیر کا ایک شدید بحران ہی نہیں پیدا کیا بلکہ حقیقت سے بڑے پیمانے پر فرار اختیار کرنے کی راہ بھی سجھائی ہے۔

جو بحران اکیسویں صدی کے انسان کے سامنے ہے وہ واقعی عالم گیر حیثیت کا حامل ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ لاتعداد مردوں اور عورتوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ دُور رس معنی میں یہ تمام انسانی تعلقات اور اداروں کے تانے بانے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس نے انسان کے فطرت کے ساتھ رشتے کو مسخ کردیا ہے۔ کوئی انسانی معاشرہ‘ کوئی فرد‘ کرئہ ارض کا کوئی گوشہ خواہ وہ کتنا ہی دُور افتادہ یا الگ تھلگ ہو‘ کتنا ہی طاقت ور یا خوش بخت ہو‘ اس بدنظمی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔جو سارے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس عالم گیر بحران کو بنیادی عدمِ توازن کا نام دے سکتے ہیں‘ جو انسان کی اس کے ماحول کے ساتھ حیاتیاتی و ثقافتی مطابقت اور ربط کی صلاحیت کو محدود کر کے اسے تباہ کر دیتا ہے۔

جدید صنعتی معاشرے میں یہ مریضانہ رویے عام ہیں: کچھ ہونے یا کچھ بن جانے کے بجائے سب کچھ رکھنے اور حاصل کرنے کا رویہ‘ طاقت کا جنون‘ دوسروں کو آزاد کرنے کے بجائے ان پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون ‘شراکت کی ایک وسیع تر معاشرتی حقیقت میں شرکت کے بجائے احساس اجنبیت کی طرف لپکنے کا رجحان‘ فراغت کو تخلیقی اور منفعت بخش مصروفیات میں صرف کرنے کے بجائے محض وقت گزارنے اور اسے ضائع کرنے کا رجحان‘ اندرون کی طرف توجہ کے بجائے بیرون میں مداخلت کا نفسیاتی مزاج جو جنس‘ نسل‘ مذہب یا قومیت کی بنیاد پر تفریق کو بڑھائے‘ تنازعات کو طاقت کے استعمال یا دھونس سے حل کرنے کا رجحان۔ ان سماجی امراض کو جدید صنعتی معاشرے میں دولت‘ طاقت اور علم کی تہ در تہ شکلوں میں اداراتی شکل دی گئی ہے۔ انسانی ضروریات پورا کرنے کو فوقیت دینے کے بجائے صنعتی پیداوار کی اجارہ داری قائم رکھنے سے مریضانہ رویوں کی اداراتی شکل اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب نہ صرف انسانی زندگی کا اعلیٰ معیار محفوظ نہیں‘ بلکہ اس کی بقا خطرے میں ہے--- اگر آج انسانی تہذیب کی زوال پذیر حالت کی صحیح تشخیص یہ ہے توپھر کوئی جستہ جستہ‘ یا عارضی یا محدود طریقہ علاج اسے دُور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نوعِ انسانی کے نامیاتی (organic) ارتقا کو قائم رکھنے کے لیے ایسی فضا فراہم کرنا اور ایسے جوابات تلاش کرنا ہوں گے جو اپنی اصل میں انقلابی اور عالمی ہوں۔

کونسل آف کلب روم کی تازہ ترین رپورٹ پہلا عالم گیر انقلاب (۱۹۹۱ء) جو اس سے پہلے والی رپورٹ ترقی کی حدود (۱۹۷۲ء) کے بعد منظرعام پر آئی ہے نہ صرف اس بحران کا تازہ ترین اشاریہ ہے‘ بلکہ ایک کھلی اپیل بھی ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ‘ انسانی فطرت کی بنیادی مبادیات کی طرف لوٹ کر تلاش کیا جائے۔

رپورٹ کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے: نئی صدی کے آغاز پر بنی نوع انسان بے یقینی کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے‘ بلکہ ہزاریے کا اختتام اپنی وسیع تر سرعت پذیر تبدیلی کے ساتھ بے یقینی کی زیادہ گہری کیفیت لا رہا ہے۔

یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ باوجود بے مثال معاشی ترقی کے تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب لوگ جوعالمی آبادی کے ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیںشدید بیماری یا بھوک کا شکار ہیں۔ یہ رپورٹ معاشی ناہمواریوں‘ کھلی عدم مساوات‘  حددرجہ عام اور شدید غربت بہ مقابلہ دولت کی فراوانی‘ ہر قسم کے ذہنی و نفسیاتی دبائو اور چپقلشوںکو جو مختلف جغرافیائی علاقوں میں سر اٹھا رہی ہیں‘ غیر متنازعہ حقائق کے طور پر ریکارڈ پر لاتی ہے۔ یہ رپورٹ آج کی صورت حال کو اس حقیقت کی بڑھتی ہوئی آگہی کے طور پر پیش کرتی ہے کہ ’’نسل انسانی جس طرح مادی فوائد کے لیے فطرت کا استحصال کر رہی ہے‘ اس سے دراصل وہ اس سیارے کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے‘‘۔ انسانی بے اطمینانی کے حوالے سے رپورٹ بتاتی ہے:

’’پہلے عالم گیر انقلاب کی غیر معمولی تبدیلیوں کی پیدا کردہ صدماتی لہروں کی زد سے کوئی علاقہ یا معاشرہ نہیں بچ سکا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ نے ماضی سے ورثے میں ملے ہوئے سماجی تعلقات‘ عقائد اور انسانی رشتوں کو توڑ دیا ہے اور مستقبل کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بھی نہیں دیا۔ شکوک اور مایوسی کی بہت سی وجوہ ہیں: اقدار اور حوالوں کا غائب ہو جانا۔ دنیا کی روز افزوں پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال‘ نئے عالم گیر معاشرے کے استدراک میں حائل مشکلات‘ نئے غیر حل شدہ مسائل مثلاً ماحولیاتی ابتری کا سلسلہ اور جنوبی ممالک کی انتہائی غربت اور پس ماندگی‘ نیزذرائع ابلاغ کے اثرات جو کسی سنگین حقیقت اور کسی ناگہانی مصیبت کے المیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اس چیلنج کی ماہیت اور وسعت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے:

اس سے پیش تر تاریخ میں انسان کبھی بھی اتنے خدشات و خطرات سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کو بغیر کسی تیاری کے ایک پتھر یا گولے کی طرح دنیا میں پھینک دیا گیا ہے جہاں وقت اور فاصلے کا احساس ختم ہو چکا ہے۔ انسان کو ایک سمندری طوفان کے اندرکھینچ لیا گیا ہے جہاں اسباب و نتائج ایک ایسا جالا بنتے ہیں جس سے باہر نکلنا محال ہے۔ صدی کے اس آنے والے موڑ پر ہر جہت سے آنے والی مظاہر قدرت کی فراوانی نوع انسان پر چھا گئی ہے۔ حقیقت ان الفاظ سے زیادہ ہے کیونکہ روایتی ڈھانچے اور ادارے مسائل کی موجودہ پیچ درپیچ تہوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ مزید خرابی یہ ہے کہ دقیانوسی اور غیر موزوں ڈھانچے حقیقی اخلاقی بحران میں رائج کیے جا رہے ہیں۔ آج معاشرے کو جس خلا کا سامنا ہے اس کی تصدیق نظامِ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ‘ روایات پر شکوک و شبہات‘ نظریات کے انہدام‘ عالم گیر وژن کے فقدان اور جمہوریت کے رائج طریقوں کی محدودیت وغیرہ سے ہوتی ہے۔ افراد خود کو بے یارومددگار پاتے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف ان خطرات کا سامنا ہے اور دوسری طرف پیچیدہ مسائل کا بروقت جواب دینے اور برائی کی شاخوں کی جڑ پر وَار کرنے کی اہلیت وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔

بڑی دل چسپ اور معلومات افزا بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ ان مسائل کے حوالے سے بنی نوع انسان کو دعوت دیتی ہے کہ وہ قرآن پاک کی سورۃ العصر پر غور کرے:

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o  (العصر ۱۰۳:۱-۳)

زمانے کی قسم! انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے ‘جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

اسلامی متبادل

تہذیب کے بحران کا معروضی تجزیہ یہ ضرور بتائے گا کہ نوعِ انسانی ایک نازک مقام پر کھڑی ہے۔ موجودہ صورت کے جاری رہنے میں تباہی لازمی ہے۔ اس کی بقا کا انحصار اس پر ہے کہ نوع انسانی کی اخلاقی بنیادوں کی بازیافت سے نیا آغاز کیا جائے‘ اور انسانوں اور معاشرے کے ایسے تصور کو تسلیم کیا جائے جو دنیا‘ نوعِ انسانی اور اس کی تقدیر کا ادراک اخلاقی بنیادوں پر کرے۔

اس مقام پر انسانوں کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کی دی ہوئی ہدایت سے رشتہ استوار کریں۔ یہ انھیں ان کے خالق سے آگاہ کرتا ہے‘ اور انھیں ان کی تخلیق کا مقصد بتاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کو اس کے مقام سے آگاہ کرتا ہے اور ایک بھرپور اور ثمرآور زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ان کو آخرت کے بارے میں بتاتا ہے۔ ان کو دوسرے انسانوں کی قدر و قیمت سے آگاہ کرتا ہے اور ہر چیز کو حق اور انصاف کے تابع کر دیتا ہے۔ یہ ان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اپنے ساتھ‘ تمام مخلوق کے ساتھ اور اپنے خالق کے ساتھ سکون سے رہیں۔

اس حقیقی چیلنج کے پیش نظر جو آج بنی نوع انسان کو درپیش ہے یہ کہنا چاہیے کہ اصل مسئلہ محض کسی نئے اقتصادی نظام یا نئی عالم گیر سیاسی تنظیم کا نہیں ہے‘ بلکہ اس نئے عالمی نظام کا ہے جو انسان کے نئے تصور اور معاشرے اور انسان کی تقدیر کے متعلق ایک مختلف وژن پر مبنی ہو۔ اصلاح کے لیے جو کوشش عالمی مذاہب کے زیراثر عموماً‘ اور اسلام کے زیراثر خصوصاً کی جائے‘ اس کا آغاز یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ سمجھنے اور اس کے حل تک پہنچنے کے لیے اس تصور کو درست کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

اصل ضرورت یہ نہیں ہے کہ بڑی ساختوں (superstructures) میں بعض تبدیلیاں لانے کے بارے میں کچھ رعایتیں تلاش کی جائیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ان بنیادوں کو پرکھا جائے جن پر سارا معاشرتی ڈھانچہ اور معیشت کی عمارت تعمیر کی گئی ہے ۔ ان مقاصد کا جائزہ لیا جائے جو ثقافت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی تعلقات میں پایا جانے والا بحران‘ ان تصورات اور ان اداروں کا جو ان کے حصول کے لیے بنے‘ قدرتی نتیجہ ہے۔ اس لیے اسلام کا پیغام یہ ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے افراد اور معاشرے کا درست وژن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے حالات درست ہو سکتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لائیں۔

تبدیلی کا طریقۂ کار اور حکمت عملی جیسی کہ یہ معاصر مغرب میں نشوونما پا رہی ہے اور روبہ عمل ہے ‘ اس سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ انسانوں میں انقلابی تبدیلی صرف اس صورت میں لائی جا سکتی ہے‘ جب ماحول اور اداروں کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی طور پرازسرنو تعمیر پر زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کی ناکامی کی وجہ :انسانوں کو ‘ ان کے عقائد‘ ان کے محرکات‘ ان کی اقدار اور ان کی ذمہ داریوں کو مرکز توجہ نہ بنانا ہے۔ اس طریقے نے انسان کے دل و دماغ میں تبدیلی کو نظراندازکیا ہے اور اصل توجہ باہر کی دنیا میں تبدیلی پر مرکوز کی ہے۔ جو شے ضروری ہے وہ انسانوں کے اپنے اندر اور ان کی معاشرتی و معاشی کیفیت میں مکمل تبدیلی ہے۔ مسئلہ محض بناوٹ یا ساخت کا نہیں ہے لیکن ساختی انتظامات کو بھی نئی شکل دینا ہوگی۔ نقطہء آغاز انسانوں کے دل اور روح اور حقیقت (reality)کے تصور اور زندگی میں ان کے مقام اور مقصود زندگی کو ہونا چاہیے۔

معاشرتی تبدیلی کے اسلامی نقطۂ نظر میں ان تمام عناصر کو ملحوظ رکھا گیا ہے:

۱- معاشرتی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ اگرچہ بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا وجود زندگی اور تاریخ کی ایک حقیقت ہے‘ مگر تاریخ میں کوئی جبر نہیں ہے۔ تبدیلی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پھر اسے بروے کار لایا جاتا ہے ۔ یہ تبدیلی بامقصد ہونی چاہیے‘ اور منزلِ مقصود کی جانب رواں رکھنے والی ہونی چاہیے۔

۲- انسان ہی تبدیلی کا سرگرم اور اصل عامل ہے۔ زمین پر اللہ کے نائب یعنی  خلیفہ فی الارض (viceregent) کی حیثیت سے تمام دوسری قوتیں ان کے تابع کر دی گئی ہیں۔ اس کائنات کے الوہی انتظام کے اندر اور اس کے قوانین کے تحت اپنی قسمت بنانے یا بگاڑنے کے ذمہ دار خود انسان ہی ہیں۔

۳- ضرورت ہے کہ تبدیلی صرف ماحول اور بیرونی نظام کی نہ ہو بلکہ مرد و زن تمام انسانوں‘ سب کے دل اور روح کے اندر بھی تبدیلی لائی جائے۔ یعنی ان کے رویوں میں‘ ان کے محرکات میں‘ ان کی وابستگیوں میں اور ان کے ارادوں میں کہ وہ اپنے اندر کو اور اپنے آس پاس سب کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے متحرک کر دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی تبدیلی وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد ایمان اور اعتقاد پر ہو۔

۴-  زندگی باہمی تعلقات کا ایک تانا بانا ہے۔ تبدیلی کا مطلب ہے کہ بعض تعلقات بعض جگہوں پر منقطع ہوں۔ اس میں یہ خطرہ ہے کہ تبدیلی معاشرے میں افراد کے درمیان عدمِ توازن کا ایک آلۂ کار بن جائے۔ ایک حالت توازن سے بہتر ارتقائی حالت کی طرف‘ یا ایک عدم حالت توازن سے حالت توازن کی طرف لے جانے والی منظم اور مربوط‘ اسلامی معاشرتی تبدیلی کم سے کم انتشار اور عدمِ توازن کی کیفیت پیدا کرے گی۔لہٰذا ‘تبدیلی کو متوازن‘ بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے۔ اختراع (innovation)کو انجذاب (assimilation)کے ساتھ ملانا ہے۔ یہ منفرد اسلامی طرز ہی ہے جو ارتقائی مدار پر انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جاتا ہے۔

اگر یہ بنیادی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تو یہ نئے عالمی نظام کے مسائل سے نبٹنے کی ہماری حکمت عملی کو تبدیل کر دیں گی۔

اسلام اللہ کی آخری اور مکمل ترین ہدایت کا حامل ہے۔ یہ مجموعہ قوانین‘ زندگی کا عملی نمونہ ہے جو اللہ پاک نے ‘ جو خالق و مالک کائنات ہے‘ نسل انسانی کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کیا ہے۔ اسلام انسانوں کا اللہ سے اور اس کی تخلیقات سے ایسا تعلق قائم کرتا ہے کہ وہ تمام موجودات سے تعاون کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ اس جہت (dimension)سے غفلت نے انسانی زندگی کو درماندہ کر دیا ہے اور نوع انسانی کی مادی فتوحات اورکامیابیوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ لادینیت کی گرفت نے انسانی زندگی کو اس کی روحانی اہمیت سے محروم کر دیا ہے‘ تاہم روحانی عظمت‘ پینڈولم کو دوسری انتہا کی طرف جھولا دینے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مادیت اور روحانیت کی یک جائی ہی سے مطابقت اور توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ زندگی نام ہی جسم اور روح میں یک جائی کا ہے اور موت اس رشتے کے ٹوٹ جانے کا نام ہے۔ یہی معاملہ تہذیب کی زندگی اور بالیدگی کا ہے۔ نہ محض روحانیت پر مبنی نظام‘ زندگی کے مسائل کا حل ہے اور نہ صرف مادی اور طبعی عوامل پر مبنی۔ دونوں کا امتزاج اور یک جائی ہی انسانی زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔

یہی راستہ ہے جس کی اسلام وکالت کرتا ہے۔ یہ انسانی وجود کی ساری وسعت کو روحانی اور مذہبی بناتا ہے۔ اس طرح یہ انسانی مرضی کو اللہ کی مرضی سے ہم آہنگ کرنے کی علامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اسی طریقے سے انسانی زندگی کو امن و سکون میسر آسکتا ہے۔ اللہ کے ساتھ تعلق کے رشتے کو دریافت کر کے ہی لوگ اپنی زندگی میں سکون پاتے ہیں۔ نیز فطرت کے ساتھ بھی بیرونی و اندرونی ہر طرح سے سکون اسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اور فطرت ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ وہ ایک مشترکہ جدوجہد میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں تاکہ تخلیق آدم کے مشن کی تکمیل کریں۔ اس مربوط نقطہء نظر میں ماحول کی کارفرمائی سے غفلت کی کوئی گنجایش نہیں۔اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم آج نئے عالمی نظام کی تلاش میں زندگی کے کسی ایسے نئے ڈھب کی جستجو کریںجوانسانی مسائل کو کچھ مختلف طریقوں سے سلجھائے ۔ یہ حل جو محض محدود قومی یا علاقائی مفادات کے تناظر میںنہ ہو‘ بلکہ اس کے پیش نظر یہ بھی ہو کہ کیا درست اور کیا نادرست ہے ؟ کس احسن طریقے سے ہم انفرادی‘ قومی اور عالمی سطحوں پر ایک منصفانہ انسان دوست عالمی نظام کی نشوونما کے لیے کوشش کر سکتے ہیں؟

یہ حقیقت کہ موجودہ نظام بے انصافی اور استحصال سے عبارت ہے ‘کسی شک و شبے کے بغیر ثابت ہو چکی ہے۔ اسلام کے مطابق‘ موجودہ نظام اس لیے ناکام ہے کہ یہ انسانوں کے آپس کے اور معاشرے‘ فطرت اور دنیا سے تعلقات کے غلط تصور پر مبنی ہے۔ نئے نظام کی تلاش ہم کو اس مقام پر لاتی ہے جہاں انسانوں اور ان کے کردار کے نئے تصور کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عالمی مذاہب کے نقطۂ نظر سے عموماً اور اسلام کے  نقطۂ نظر سے خصوصی طور پر بحث کا مرکز‘ فرد اور معاشرے کے نئے وژن کی طرف مبذول ہونا چاہیے‘ جو انسانی شعور اور اقدار کی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے ہو‘ جو نئی ثقافتی تبدیلی کی طرف لے جائے۔

اسلام معاشرتی تبدیلی کے لیے ایک تحریک ہے۔ یہ نہ صرف معاشرے کا واضح تصور دیتا ہے اور تاریخ میں مطلوبہ تبدیلی برپا کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرتا ہے‘ بلکہ معاشرتی و معاشی پالیسی کے لیے واضح رہنما خطوط بھی مہیا کرتا ہے۔ وہ ایسے کلیدی ادارے قائم کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس پالیسی کے نفاذکے ضامن ہوںاورباقاعدہ لیڈرشپ کے تحت منظم جدوجہد کریں تا کہ یہ مقاصد زمان و مکان کے اندر حاصل ہوں۔

اُمت مسلمہ مذہب کے بارے میں تحریکی سوچ رکھتی ہے۔ سوچ کا یہ آہنگ انفرادی‘ معاشرتی اور عالمی یعنی تین سطحوں پر عمل کرتا ہے۔ انفرادی سطح پر جب تک افراد اپنے کردار کے بارے میں پختہ ایمان‘ نیا شعور اور نیا تصور نہ رکھتے ہوں‘ یہ تبدیلی برپا نہیں کی جا سکتی۔ دوسری سطح معاشرے کی ہے۔ اولاً یہ قومی سطح پر ہوگی‘ بعد میں ساری دنیا کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکمت عملی یہ ہے کہ یہ فرد کے اندر نئے شعور کی تخلیق سے آغاز کرتی ہے‘ جو اس کی اقدار کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور پھر صحیح زندگی کے قیام کے لیے کوشش کرتا ہے‘ جو وقتی مصلحت پر مبنی نہ ہواور نہ ذاتی یا گروہی مفادات کو اولیت دے بلکہ وہ  اسی پر پیش قدمی کرے جوسچ اور حق ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک انفرادی مسئلے کو عالم گیر سطح پر دیکھا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص ناحق قتل کیا جاتا ہے تو یہ گویا تمام نسل انسانی کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ایک زندگی بچا لیتا ہے تو گویا وہ ساری نسل انسانی کو بچا لیتا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اس طرح ایک انفرادی واقعے کو ایک عالمی مسئلے اور ایک اصول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک واقعہ اقدار کی قدروقیمت کی ایک پوری دنیا سامنے لے آتا ہے۔

اسلام موجودہ حالت (status quo) کا دفاع نہیں کرتا۔یہ انسانی زندگی پر‘ خود مسلمانوں کی زندگیوں پر اور مسلم معاشرے کی تنظیم پر تنقید کرتا ہے۔ موجودہ مسلم معاشرہ‘ اسلامی معیار کے حوالے سے بہت پست سطح تک گر چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح اور تشکیل نو کرنی ہے تاکہ وہ معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی قدریں اور ادارے قائم ہوں جو انسانی تعلقات میں انصاف کو قائم کر سکیں۔ اسلام سیاسی اقتدار کو اپنے اخلاقی تصورات کے تحت لانا چاہتا ہے۔ اسلام کے لیے برپا تحریکوں کے نتیجے میں ایسے معاشرے اور ایسی ہی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ اسی طرح مسلمان دنیا میں اپنا نظریاتی کردار ادا کر سکیں گے۔ یعنی پہلے وہ اپنے گھر کو درست کریں‘ ایک مثالی معاشرہ بنانے کے لیے اپنے وسائل کو وقف کریں‘ جہاں ان کو سیاسی قوت حاصل ہو‘ اور پھر عدل و انصاف کی خاطر اس اصول پر عمل کرتے ہوئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قحط زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنایا تھا‘ (حالانکہ وہ سیاسی طور پر آپؐ کے ساتھ بحالت جنگ تھے) اس میں دوسروں کو شریک کریں۔

ذہنوں میں یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ اسلامی ریاست کبھی بھی انسانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں رہی۔ اس کا مقابلہ ان اداروں اور ان قیادتوں سے رہا ہے جو جنگجو سیاسی قوت کی نمایندگی کرتے تھے۔ یہ بات ایک نئے مثالی عالمی نظام کی طرف رہنمائی میں نوعِ انسانی کی مددگار اور معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ جہاں دوست دشمن سب کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے اور جہاں دولت میں ضرورت مند کا حصہ ہو‘ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔

یہ عالمی نظام جن بنیادی اقدار پر قائم ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱- توحید (اللہ کی وحدانیت اور اقتداراعلیٰ): یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کا نظریہ کائنات اور زندگی کا نظام قائم ہے۔ یہ خدا کے انسانوں سے اور انسانوں سے انسانوں کے تعلقات کے اصول بیان کرتا ہے۔ توحید محض ایک مابعدالطبیعیاتی نظریہ نہیں ہے۔ معاشرتی حقیقت کے بارے میں انسانی فکر اس عقیدے کا جزو لاینفک ہے۔ انسانی تعلقات میں عدل کا قیام اس دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ عدل صرف اپنوں سے نہیں بلکہ دشمنوں اور محکوموں سے بھی ۔اللہ کی وحدانیت اور اس کے اقتدار اعلیٰ پر ایمان کا مطلب ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور ان کے حقوق (حقوق العباد) دراصل اللہ کے حقوق (حقوق اللہ) کی فطری توسیع ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

]ترجمہ[تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔ (سورہ الماعون ۱۰۷:۱-۷)

۲- استخلاف  (نیابت) : اسلام اس دنیا میں انسانوں کی حیثیت کا تعین بطور خلیفہ اللہ کرتا ہے‘ یعنی وہ اللہ کے ماتحت اس کے نمایندے اور زمین پر اس کی مرضی قائم کرنے کے لیے مامور ہیں۔ ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے انسانوں کے تصرف میں دے دی گئی ہے‘ تاکہ وہ اپنے اس کردار کی تکمیل کر سکیں۔ تمام طبعی و دیگر وسائل ہمارے ہاتھوں میںقدرت کی ایک امانت ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم مالک نہیں بلکہ اللہ کے نمایندے ہیں‘ اور ہمارا پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آقا کی مرضی و منشا کو پورا کریں۔ کائنات کی ہرچیز کے‘ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور تمام مقبوضات و مملوکات کے ہم امین ہیں۔ ہمیں امانت کی حدود کے اندر رہ کر تمام اقتدار و اختیار کو بروے کار لانا ہے ۔جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم اس کے لیے جواب دہ ہیں۔ یہ اصول دنیا کے معاملات میں ہماری عملی شرکت کو شرط قرار دیتا ہے ‘تاکہ زندگی کی تکمیل کی راہ تلاش کی جائے۔ اس سے ہمیں یہ ترغیب ہوتی ہے کہ ہم تمام مخلوقات سے بحیثیت دشمن نہیں بلکہ بحیثیت ایک دوست اور شراکت دار پیش آئیں ‘جو انھی مقاصد کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

انسانوں کی مساوات و اخوت کا اسلامی تصور اور امت کی نظریاتی برادری اس خلافت‘ امانت اور قیادت کے لازمی عناصر ہیں۔

۳- انسانوں کے درمیان قیامِ عدل: انسانوں کے درمیان قیامِ عدل ان بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ‘جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اپنی رشد و ہدایت سے سرفراز کیا۔ سب انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اللہ نے دیے ہیں۔ اس طرح سب اللہ کی نعمتوں کے منصفانہ طور پر حصہ دار ہیں۔ ناداروں اور ضرورت مندوں کو امیروں کی دولت اور معاشرے پر حق حاصل ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ کوئی ہنر سیکھ لیں ‘تاکہ اپنی روزی باعزت طور پر کما سکیں۔

۴- سیاسی اور معاشی طاقت فی نفسہ برائی یا  شر نہیں: یہ خیر کے قیام کا ذریعہ اور ان حدود کی پابند ہیں جو خالق نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔ اس طرح یہ دین اسلام کے مشن کا حصہ ہے کہ سیاسی اور معاشی طاقت کو ہم کام میں لائیں‘ تاکہ اخلاقی مقاصد پورے ہوں۔ انھیں ظلم و استحصال کے آلۂ کار بننے سے بچانے کے لیے اس طرح استعمال میں لانا چاہیے کہ وہ عدل کے مقاصد کی خدمت کریں ‘نیکی اور اچھائی کو ترقی دیں ‘ شر اور برائی کو روکیں۔

۵-  اللّٰہ اور انسان کے درمیان فیصلہ کن امر‘ اللّٰہ کی ہدایت: انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس ہدایت کے بارے میں صحیح یا غلط رویے پر ہے۔ اللہ کی رہنمائی اس کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ دونوں واضح طور پر ان تصورات‘ اقدار اور اصولوں کو بیان کرتے ہیں جن کی ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو حق اور انصاف کی بنیادپر تعمیر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس رہنمائی کے اندر ایک طے شدہ طریق کار موجود ہے ‘جو بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ اس کی حدود کے اندر ارتقا اور نشوونما ہوتا ہے۔ صرف الہامی ضابطہ حیات سے وابستگی ہی انسان کو خود روی اور ناانصافی میں دوبارہ مبتلا ہو جانے سے باز رکھنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔

یہ ہیں وہ بنیادی اصول جن پر اسلام عالمی نظام کی تعمیرنو کرنا چاہتا ہے۔

اسلام نے صرف انفرادی اور اجتماعی زندگی اور ملکی اور عالمی نظام کے لیے بنیادی رہنمائی ہی فراہم نہیں کی ہے بلکہ نئے نظام کے قیام کے لیے ایک واضح حکمت عملی بھی دی ہے جو زمان و مکاں کی تحدیدات (limitations) سے بالا ہے۔

اس جہت میں اسلام کا پہلا احسان یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا جائزہ لینے کا طریق کار بتاتا ہے۔ اسلام حقیقت کی روحانی قدر پر مبنی کلی نقطۂ نظر اختیار کرتا ہے۔ یہ سب انسانوں کو ان کے مکمل وجود کے حوالے سے ان کے خالق اور اس کی ساری مخلوق سے تعلق کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ مادی اور روحانی‘ طبعی اور اخلاقی ثنویت کا قائل نہیں۔ یہ دین کو دنیا سے جوڑ دیتا ہے اور زندگی کو ایک مربوط ہم آہنگ اکائی بنا دیتا ہے۔ یہ جنس (gender)کے کمپلیکس سے بھی آزاد ہے اور مرد و زن کو مساویانہ طور پر اللہ کے نائب سمجھتا ہے اور ان کے لیے یہاں اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی کے لیے ایک جیسا معیار رکھتا ہے۔

عصرحاضر کے تمام نظریات‘ اور جزوی تبدیلی پر مطمئن ہو جانے والے بعض مذہبی رویوں کے برخلاف اسلام مکمل تبدیلی کا علم بردار ہے۔ یہ فرد کی تطہیر و تزکیہ کرکے معاشرے کی تعمیرنو کرتا ہے اور اس طرح یہ فرد اور معاشرے کو مزید ارفع مقصد کے حصول کا اہل بناتا ہے ‘یعنی انسانوں کے درمیان قیام عدل کے ذریعے اللہ کی مرضی کو پورا کرنا۔

اسلام کا طریقہ اقدار پر مبنی ہے‘ نہ کہ انفرادی یا قومی مصلحتوں پر۔ پھر اس کا نقطۂ نظر مثبت اور تعمیری ہے‘ نہ کہ محض منفی یا تخریبی۔ یہ ہر انسان کی مکمل اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی بہبود چاہتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں میں عملاًانصاف کی عمل داری دیکھنے کا موقف رکھتا ہے۔ یہ عالم گیر بھلائی اور انصاف کے اصولوں کا علم بردار ہے اور انسانی برادری کو دعوت دیتا ہے کہ آئو اس کو قائم کرو۔ یہ افراد کی دیانت اور ان کے انسانی حقوق کو یقینی بناتا ہے جن کی ضمانت ان کے خالق نے انھیں دی ہے۔ اسلام اس جذبے کو اُبھارتا ہے کہ انسان ایسا معاشرتی نظام قائم کرے جس میں امن‘ عزت اور انصاف کا بول بالا ہو۔

ایسے عالمی نظام کے قیام کے لیے اسلام کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ قومیت کا لحاظ رکھے بغیر تمام انسانوں کو یہ راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مشرق یا مغرب‘ شمال یا جنوب‘ ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ کے مفادات کی بولی نہیں بولتا۔ یہ نئے عالمی نظام کو دنیا کے تمام حصوں کے تمام انسانوں کے لیے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس عالمی نقطۂ نظر کے ذریعے اسلام تصورات اور اصولوں کے ایک نئے شعور کو آگے لانا چاہتا ہے ‘جن پر انسانیت کی ازسرنو تعمیر کی جانی چاہیے ۔یہ نوعِ انسانی کو دعوت دیتا ہے کہ انسانی فکر اور عمل کی تعمیرنو کے لیے اس کے مضمرات پر غور کرے۔

اسلام ایک معاشرتی تحریک بھی برپا کر تا ہے۔ ایک ایسی بین الاقوامی تحریک جس میں ان تصورات اور اقدار کو تسلیم کرنے والے ایک نیا عالمی نظام قائم کریں۔ اسلام کا پرزورمطالبہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلوص نیت کے ساتھ یہ نمونہ قائم کر لیا جائے۔ اگر مسلم دُنیا ان اصولوں پر نئے سرے سے اپنا معاشرتی نظام تعمیر کرلے تو اس کی جیتی جاگتی مثال بن سکے گی‘ تاہم مسلمانوں کی حقیقی صورت حال اس مثالی تصور سے بہت دُور ہے۔ ایک دفعہ یہ نمونہ (ماڈل) دنیا میں کہیں بھی ‘کسی بھی مقام پر قائم ہو جائے تو ہر کوئی اس سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسے دھوپ سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے امکانات بڑی حد تک اس اسلامی تحریک پر منحصرہیں جو فقہی اور مسلکی تنگنائیوں کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے نظامِ نو کے قیام کے لیے اس عالمی جدوجہد کی قیادت کر رہی ہے۔

اسلامی نشات ثانیہ اور نیا عالمی نظام

اسلامی احیا کی جدید تحریک اپنی آفاقیت اور گیرائی کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ مسلم معاشروں میں سیاسی نظریات نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی‘ مگر مختصر اور دکھاوے کی کامیابی کے بعد ناکام ہوئے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی عرب قوم پرستی جس نے عرب دنیا کو سبز باغ دکھائے آخرکار ناکام ثابت ہوئی۔ شام اور عراق میں بعث پارٹی کی نام نہاد سوشلسٹ عرب قوم پرست حکومتیں بھی پورے طور پر ناکام رہی ہیں اور اگر کسی مسخ شدہ صورت میں موجود ہیں تو محض اس لیے قائم ہیں کہ وہ صرف ظلم و جبرکے سہارے قائم ہیں۔ آج ساری دنیا میں اشتراکی فریب کا پردہ چاک ہو چکا ہے‘ روس ہو یا مشرقی یورپ‘ لاطینی امریکہ ہو یا وسطی امریکہ یا افریقہ۔ دیوارِ برلن کا انہدام اور سوویت یونین کا انتشار سوشلزم کی قبر کا کتبہ بن گئے اور سوشلزم تاریخ کے پس منظر میں گم ہو گیا‘ تاہم اسلام نے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے نسلی اور ثقافتی مختلف النوع لوگوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہاں کوئی عرب اسلام نہیں‘ نہ پاکستانی اسلام‘ نہ ایرانی اسلام اور نہ ترکی اسلام۔ یہاںصرف اسلام ہے۔ اس طرح اسلامی عالمیت میں وحدت تو ہے مگر یکسانیت (uniformity)  نہیں۔ اسلام میں   یہ وسعت ہے کہ وہ ایک طرف اپنے ابدی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیتا جو یک رنگی کا ذریعہ بنتے ہیں تو دوسری طرف اس کے لیے فریم ورک میں یہ گنجایش ہے کہ مقامی اور مخصوص ضرورتوں کو اسی طرح سمولیتا ہے جس طرح ایک باغ میں پھولوں کی مختلف روشیں اور پھلوں کے درختوں کی متنوع قطاریں۔

مسلمان عموماً اور حالیہ نشات ثانیہ کے بہت سے قائد خصوصاً نسلی طور پر مختلف ہیں لیکن وہ خود احتسابی سے گریز نہیں کرتے۔ مذہبی روایت میں موجود علامات و احوال کا وہ اجتہادی بصیرت کے ساتھ پھر سے جائزہ لینے کو تیار ہیں۔ اس کا مقصود اسلام کے ابدی اصولوں کے قیام کے لیے روحانی‘ سیاسی‘ معاشرتی و اقتصادی تصورات کی تعبیر اور تعمیرنوہے۔ اسے اسلامی احیا کی روح یعنی اسلام کی اصل بنیاد تک پہنچنا قرار دیا جا سکتا ہے۔

اپنے اصل ماخذ کی طرف اس مراجعت کو مسلمان ‘طاقت کے منبع سے وابستگی کی صورت میں دیکھتے ہیں مگر اہل مغرب اور سیکولر اشرافیہ اس پر ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل چپکا دیتے ہیں۔ عقائد کا احیا اور اقامت دین وہ لازمی بنیادیں ہیں جس پر اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ اس کا کسی نوع کی بھی مبینہ بنیاد پرستی سے کوئی واسطہ نہیں جو رجعت پسندی‘ تشدد اور تاریخی رومانویت سے عبارت ہے۔

یہ تازہ سوچ‘ ایک نیا عہد‘ توانائی‘ لچک اور (سب سے بڑھ کر) ایک ایسی اہلیت عطا کرتی ہے جس سے حالیہ مشکلات کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اسلام کو تہذیب و ثقافت کے سرچشمے اور معاشرے کی تشکیل نو کے ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے ازسرنو دریافت کر رہے ہیں۔

اسلامی نشات ثانیہ کا موجودہ مرحلہ تقاضا کرتا ہے کہ مغربی نمونوں (models)کی غلامانہ نقالی سے  احتراز کیا جائے اور ایک چھان پھٹک والی بصیرت اختیار کی جائے کہ بیرونی تہذیب سے کیا لینا چاہیے اور کیا نہ لینا چاہیے۔ خذ ما صفا ودع ماکدر کی میزان پر یہ کام انجام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے ثبات اور لچک دونوں کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی معاشرہ بہت سے طریقوں سے مغربی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجنبی ثقافتوں کے تسلط کو اپنی ثقافت کی قیمت پر جاری رکھا جائے۔

مبصرین اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں: کیا مسلم ممالک ترقی‘ ٹکنالوجی اور ایسے ہی دوسرے راستوں کو مسترد کر سکتے ہیں؟ صاف بات ہے وہ مسترد نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقی سوال یہ ہے کہ کس قسم کی ترقی مطلوب ہے‘ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ ان کی قوموں کو جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ ماضی کے سامراجی منصوبوں کا ایک نیا ہیولا ہے۔ ماضی میں جسے ’’سفید فام نسل کی ذمہ داری‘‘ قرار دیا جا رہا تھا وہ آج  ’’نئے عالمی نظام‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب و ثقافت کو باقی دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا پر مسلط کرنا ہے۔   یہ سامراجی کھیل معاشی‘ اجتماعی‘ اخلاقی اور نظریاتی ترقی میں اضافے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اُلٹا اسے نقصان   پہنچا دے گا۔ مسلمان‘ مسلمان ریاستوں کے باہمی تعلقات‘ وسیع تر سیاسی اور اقتصادی تعاون کے امکانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ کیا مسلم ممالک‘ جن کو استعمار نے اپنے مفادات کے تحت نئی جغرافیائی شکل دی ہے‘ ازسرنو تشکیل پائیں گے یا اسی طرح قومی ریاستوں کی حیثیت سے ہی آگے بڑھیں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی تاریخ کے پہیے کو اُلٹا نہیں گھما سکتا۔ مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو ترقی دینا ہوگی۔ ایک نقطۂ آغاز کے طور پر قومی ریاست کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ گو محدود قومی دائرے میں پابند رہنے کے جذبے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ کیونکہ اسلام‘ ملّت کے تشخص کو اُبھارتا ہے‘ تاہم آج قومی ریاستوں کے جغرافیائی وجود کو سیاسی حقیقت کے طور پر اس لیے قبول کیا جائے گا کہ ان کو اگر بالجبر توڑا گیا تو اس سے سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا جو لامحالہ فساد کا باعث ہوگا۔ اس کے لیے مسلم معاشرے یا امت میں ایک وحدت کا احساس پرورش کرنا ہوگا اور مسلم ریاستوں کے مابین زیادہ ربط و تعاون کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ اسلامی نظریے کے مطابق ہر قومی ریاست آخرکار ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ارتقا پذیر ہو جائے گی اور اس طرح مسلم علاقوں پر مشتمل اسلامی دولت مشترکہ کی ہیت تعمیر ہوگی۔

شاید اس تصور کا احساس مغرب کو بھی ہو گیا ہے ‘اس لیے غلط طور پر اس سے خوف زدہ ہو کر کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ (مغرب) سوچتا یا سمجھتا ہے کہ :’’مسلمان ریاستوں میں اسلامی افکار کی اشاعت و ترویج  ’’ایک خطرہ‘‘ ہے اور ’’فساد ‘‘کا پیش خیمہ ہے جس کو روکنا ضروری ہے‘‘۔

مغرب عام طور پر اسلامی نشات ثانیہ کی ظاہری اور امکانی طاقت کا اندازہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے اسلامی تحریکات کے ارکان پر:’’بنیادپرست‘ انقلاب پسند‘ انتہا پسند‘ متعصب ‘ دہشت گرد‘ مغرب مخالف‘ عصرحاضر کے مخالف ‘‘وغیرہ کے لیبل لگا دیے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی تنگ نظراور ناشائستہ اتہام بازی اور دشنام طرازی کبھی باہمی افہام و تفہیم میں معاون نہ ہو گی۔ مغرب وہی غلطیاں کر رہا ہے جو اس کے پیش روئوں نے نوآبادیات کے دور میں کی تھیں‘ یعنی یہ کہ معاشرتی و سیاسی منظرنامے کو دوسری تہذیبوں کے معاشرتی و سیاسی تنوع سے صرفِ نظر کر کے صرف اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے بیان کرنا۔اسی طرح کا نقطۂ نظر نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ یہ رویہ مغرب کے اہل علم‘ پالیسی سازوں اور عامتہ الناس میں یکساں طور پر غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ اپنی تاریخ کے ایسے دَور سے گزر رہی ہے جس کو اس کے حامی ایک اضطرابی دَور مانتے ہیں‘ تاہم یہ نقائص اسلامی احیا کی شناخت نہیں بن سکتے‘ نہ ایسا ممکن ہے کہ بدعنوانی اور فحاشی کی لپیٹ میں آئے ہوئے مسلم ممالک سے کوئی ہما آسمانِ اُمید پر محوپرواز ہوجائے۔

مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودہ تکلیف دہ صورت حال صرف معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی برائیوں سے عبارت نہیں‘ بلکہ اس کا دائرہ کہیں وسیع تر ہے۔ ان کا تجزیہ گہرائی تک جاتا ہے اور اخلاقی انحطاط اور اقدار کے بگاڑ کا مسئلہ سامنے لاتا ہے۔ بعض لوگ اس آگاہی کا صاف صاف اور بعض کم واضح طریقے سے اظہار کرتے ہیں‘ تاہم افسوس کی بات ہے کہ اسلامی احیا کے مغربی تجزیے میں یہ عناصر موجود نہیں ہوتے۔ روحانیت کا پہلو اکثرنظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے نزدیک یہی اصل مسئلہ ہے۔ اس پر کلام کرنے کے بجائے اسلامی نشات ثانیہ کو سادہ لوحی کے ساتھ‘ لوگوں کی مادی ترقی میںکمی کے باعث محرومی اور نااُمیدی کے احساس اور اسلام کے ذریعے اقتصادی اور تکنیکی ترقی کی اُمیدوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا یک طرفہ تجزیہ مسلم معاشرے کے مزاج سے لاعلمی اور ناواقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی غلط بات ہے کہ اسلامی احیا کو ترقی سے محروم مسلمانوں کی دولت مند مغرب کے مقابلے میں ناراضی کا ردّعمل قرار دیا جائے۔ یقینا استعماریت کے ورثے کے خلاف ردّعمل ایک کردار ادا کرتا رہا ہے ‘جس کا اظہار سیاسی غم و غصے میں زیادہ رہا ہے۔ اس ہنگامے یا اضطراب کی ان سب سے بڑھ کر وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے نے مغرب سے تصورات اور اقدار درآمد کر کے انھیں عوام پر نافذ کرکے ایک عدم اطمینان کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اشرافیہ کے یہ لوگ جو اداروں اور حکومتی نظام کو چلاتے ہیں‘ غیر ملکی قوانین اور قواعد زبردستی لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔ مزیدبرآں مسلمان کم و بیش اپنی اکثر حکومتوں سے نالاں ہیں‘ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنی تہذیب و ثقافت کو نظرانداز کر کے (مغربی لادینی اقدار اور نمونہ ہاے ترقی کو رائج کر کے) مغربی مفادات کو تحفظ دیتی ہیں۔

آج کی اسلامی تحریکات‘ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت یا تعلیمات پر گہرے یقین اور اخلاص کا اظہار کرتی ہیں۔ اس یقین و اظہار کا منظر علاقے کے بیش تر سیاسی اداروں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اہل مغرب اپنی بوکھلاہٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے ’’اسلامی عفریت کی بیداری‘‘ کا نام دینے سے دریغ نہیں کرتے‘ جب کہ درحقیقت یہ دین اسلام کی اور اس کے وابستگان کی قسمت کی بیداری ہے۔ مسلم روحانیت اور تصور نے مسلمانوں کے اندر ایک نئی منزل کا نشان اور ذاتی قربانی سے بے نیاز ہو کر اپنی دنیا کی تعمیرنو کے لیے غیر متزلزل وفا کا احساس پیدا کر دیا ہے۔

نوآبادیاتی دور میں قیادت صرف ذاتی اغراض تک محدود تھی۔ اس ورثے نے مسلم دنیا کو پراگندہ کر دیا  تھا اور ان کے معاشرے اخلاقی اقدار سے محروم اور بدعنوانی کی آماج گاہ بن گئے تھے۔ استحصال معمول بن گیا تھا۔ مسلمانوں کی اس میں اپنی کمزوریاں بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے ان کی تہذیب زوال پذیر ہوئی ‘لیکن ان کے درمیان آج کرپشن کا جو بازار گرم ہے یہ ایک نیاعمل ہے۔ عام طور پر مسلمان اس انحطاط کا ذمہ دار لادینی مغربیت کو قرار دیتے ہیں۔

جدیدیت کی بعض تعبیرات کی روشنی میں مسلم معاشرے کو لامذہب بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ آزاد روی یا لبرل ازم کو اسلامی اقدار پر حاوی کر دیا جائے۔ یوں ایک دھماکا خیز مرکب بنایا گیا جس نے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کر کے سماجی زندگی کو مسخ کر ڈالا اور ایک خلا پیدا ہو گیا۔ ذاتی منافع خوری‘ ترقی اور معاشرتی و معاشی استحصال نے اقتصادی و مادی ترقی کے نام پر اس خلا سے خوب فائدہ اٹھایا۔

اسلامی احیا ایسے تباہ کن رجحانات سے بغاوت کا نام ہے۔ مثال کے طور پر یہ اسلامی اخلاقی اقدار پر ازسرنو ایمان لانے اور امت کے مادی و انسانی وسائل کو معاشرتی انصاف اور خود انحصاری کے لیے بروے کار لانے کا خواہاں ہے۔ احیاے اسلامی ‘مسلمانوں کی ایک مثبت نظریاتی تحریک ہے‘ جو مسلم دنیا کے معاشرتی و معاشی نظام کی اسلامی اقدار پر ازسرنو تعمیر کی علم بردار ہے۔ اس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں۔ اس کو لامحالہ بین الاقوامی برادری سے واسطہ پڑے گا جن میں سے بعض سے اس کے اختلافات بھی ہوں گے۔

مغربی تہذیب پر مسلم تنقید سیاسی مخالفت کا اظہار نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دو تہذیبوں کے مابین ایک فکری اور عملی مقابلہ ہے ۔جن میں سے ایک اسلامی اقدار پر مبنی ہے اور دوسری مادّیت‘ قومیت اور آزاد روی پر قائم ہے۔ اب انسانی معاشروں کے سامنے انتخاب کی راہ واضح ہو گئی ہے: الہامی اصول یا لادین مادّی ثقافت۔ یہاں زور انتخاب پر ہے۔ لادینیت‘ خواہ سرمایہ دارانہ ہو یا سوشلسٹ اور قوم پرستانہ‘ کسی بھی نظریے پر اجارہ داری نہیں رکھتی۔ اسلامی احیا مادّیت کے دنیاوی شکنجوں سے رہائی کی راہ دکھاتاہے۔ یہ انسانیت کے انتخاب کو وسعت عطا کرتا ہے لہٰذا ‘اس کو ایک موقع اور ایک برکت کے طور پر دیکھنا چاہیے ‘ نہ کہ ایک دھمکی یا خطرے کے طور پر۔ (ترجمہ: قاضی محمد اقبال‘ اور مسلم سجاد)

اس ماہ کے اشارات مدیر ترجمان القرآن کی ایک تقریر کے ترجمے اور تلخیص پر مشتمل ہیں جو لسبن (Lisbon) پرتگال میں ایک عالمی کانفرنس میں کی گئی اور جس کا انگریزی متن امریکہ سے شائع ہونے والی کتاب World Faiths and the New World Order میں شائع ہوا ہے۔