ذیلم خاں یندربی‘ چیچنیا کی جنگ آزادی کے صف اول کے مجاہد اعظم ہیں۔ روسی اور چیچن زبان کے شاعر و ادیب اور چیچنیا کی پہلی سیاسی پارٹی ’’وائی ناخ‘‘ کے بانی ہیں۔ جمہور اشکیریہ کے نائب صدر اور صدر بھی رہ چکے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل اور بین الاقوامی اداروں کی مسلم دشمنی اور چیچنیا میں روسیوں کے عزائم پر اُن کی گہری نظر ہے۔یہ تصنیف ان کے مختلف مضامین اور نظموں کا مجموعہ ہے جو اُن کی علمی بصیرت اور انسانی درد و جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔
کتاب کا آغاز چیچنیا کی مختصر تاریخ‘ جغرافیے اور وسائل سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد چیچنیا کے مسلمانوں کی روسی مظالم کے خلاف مزاحمت کے ۴۵۰ سالہ جہاد کا تذکرہ ہے‘ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ جدوجہد آزادی دراصل شیخ منصور‘ امام شامل اور عبدالرحمن ‘کے روسی ظلم و وحشت کے خلاف جہاد کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ اور یہ کہ چیچن عوام نے کبھی بھی روسی استعمار کو تسلیم نہیں کیا۔ روسیوں نے چیچنیا کی تحریک آزادی کو عارضی طور پر دبایا ہے لیکن اسے کچلنے میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
مصنف تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں کہ روسی ایک وحشی قوم ہے جس میں انسانی ہمدردی اور ایفاے عہد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ۱۲ مئی ۱۹۹۷ء کو روسی صدر یالتسن اور جمہوریہ اشکیریہ کے صدر ارسلان مسعودوف کے مابین امن و سلامتی کا معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن اس معاہدے پر دستخط کے چند روز بعد ہی روسی افواج نے بلاجواز چیچنیا پر ظالمانہ حملہ کیا اور چنگیز و ہلاکو کے مظالم کی یاد تازہ کی۔ خواتین کی عصمت دری کی‘ بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیے۔تعلیمی اداروں‘ عجائب گھروں‘ کارخانوں اور پٹرولیم کی تنصیبات کو تباہ و برباد کر دیا۔
روسی افواج کے مقابلے کے لیے خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ جس جواں مردی کا مظاہرہ کیا اور جو قربانیاں دیں ان کی نظیر عہدجدید میں نہیں ملتی۔ مسلمان قیدیوں کو اذیت ناک طریقے سے روسی جیل خانوں اور کیمپوں میں وحشی جانوروں کی طرح رکھا گیا اور بے دردی سے قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہے۔ مصنف یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہی صورت حال اگر عیسائی اقلیت کے کسی مسلمان ملک میں ہوتی تو یہ ادارے شوروغل اور احتجاج کی قیامت برپا کر دیتے۔ مصنف پروفیسر ہن ٹنگٹن کے ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ مغربی دُنیا کی سیاست کا محور ’’مسلمانوں کی نفرت‘‘ ہے‘ جب کہ اسلام ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ کے بجائے انسانی اقدار پر مبنی ’’تہذیبوں کے ملاپ‘‘ کا پیغام دیتا ہے۔ مصنف مثالیں دے کر واضح کرتا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کس طرح مغربی استعماری قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان سے امن و سلامتی‘ انصاف اور خیر کی توقع کرنا بے سود ہے۔
کتاب کے آخر میں چیچنیا میں جہاد اور اسلام کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب سے انکشاف ہوتا ہے کہ چیچنیا کے عوام ۴۵۰ سال سے مسلسل روسی استعمار کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جہاد نہ صرف مسلمانوں کے لیے حصول تقویٰ‘ آزادی اور عزت و آبرو سے رہنے کا ذریعہ ہے بلکہ دُنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا بھی واحد حل ہے۔ یہ کتاب چیچنیا میں روسیوں کے خلاف جہاد اور مغربی ممالک کی سازشوں کی بہترین پیراے میں تصویر کشی کرتی ہے جو مصنف کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے اور ایک قیمتی تاریخی دستاویز ہے۔ ایک نقشہ بھی شامل ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ چیچنیا چاروں اطراف سے غیرمسلم اقوام میں گھرا ہوا ہے۔ کسی مسلم ملک کے ساتھ اس کی کوئی سرحد نہیں ملتی۔ضرورت ہے کہ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی شائع کیا جائے۔ (ڈاکٹر محمد ساعد)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ وہ اسلام اور اسلامی معاشیات پر ۱۲ سے زائد کتب کے مصنف اور مترجم ہیں۔ اسلامی معاشیات پر ان کی تحقیق و تصنیف اس زمانے سے جاری ہے جب اس موضوع پر کام کی روایت عام نہ ہوئی تھی۔ ۱۹۶۶ء میں شرکت و مضاربت کے شرعی اصول‘ ۱۹۶۸ء میں اسلام کا نظریہ ملکیت (اول‘ دوم) ۱۹۶۹ء میںغیر سودی بنک کاری سامنے آئیں اور دوسری بہت سی اہم کتب ہیں۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا یہ کام اسلامی معاشیات پر جدید انداز میں کام کرنے والوں کے لیے چشم کشا ہے اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
زیرتبصرہ کتاب ان کے سات مقالوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مصنف نے اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مسلم یونی ورسٹیوں میں علم معاشیات کی تدریس‘ اس کے اہداف اور ان میں تبدیلیوں کی ضرورت واضح کر کے تجاویز دی ہیں۔ ایک باب معاشیات کے نصاب میں مطلوب تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ معاشیات پر مختلف نقطہ ہاے نظر اور اسلامی نقطہء نظر کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر خورشید احمد نے اس کتاب کو اسلامی معاشیات کے تعارفی کورس میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)
ملک احمد سرور کا شمار اُن نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے افغان جہاد (۱۹۷۹ء-۱۹۸۹ء) کے مختلف معرکوں پر اپنی رپورٹوں‘ مضامین اور تجزیوں کے ذریعے روس کے استعماری کردار کو بے نقاب کیا۔
جہاد کے دوران افغان قائدین‘ کمانڈروں اور مجاہد خاندانوں سے ان کا براہ راست رابطہ رہا۔مجاہدین نے جرأتوں کی حیرت انگیز داستانیں رقم کیں‘ اور بعض خاندانوں نے بے مثل قربانیاں پیش کیں۔ مصنف نے اس طرح کے یک صد سے زائد ایسے واقعات کو سادہ الفاظ میں قلم بند کیا ہے۔ ان ایمان افروز واقعات کو پڑھ کر دو باتیں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ افغان قوم نے اپنی آزادی کے تسلسل کے لیے جو قربانیاں پیش کی ہیں‘ اُس کا موازنہ کسی اور قوم کی جدوجہد سے مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ ایمان‘ ہجرت‘ جہاد اور شہادت کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نہ صرف زمین پر‘ بلکہ آسمان سے بھی اُن کی نصرت کرتا ہے اور آنکھوں کے سامنے معجزے رُونما ہوتے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں جہاد کشمیر کے سلسلے میں پیش آنے والے واقعات پر بھی اور بعض تحریریں شامل ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ نوجوانوں کے قلوب میں ایمان کا نور پیدا کرے گا۔ (محمد ایوب منیر)
پروفیسر عبدالحمید صدیقی اہل علم و دانش کے اس کاروان شوق کے نمایاں صاحب قلم تھے جو سیدمودودی کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اور جنھوں نے اسلوب کی خوب صورتی اور استدلال کی قوت کو یک جا کرتے ہوئے ٹھوس علمی موضوعات پر انتہائی وقیع سرمایہ علم تخلیق کیا۔ پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے ماہنامہ ترجمان القرآن کے اشارات و مقالات کو ایک نیا رنگ دیتے ہوئے حیات اجتماعی کے گوناگوں مسائل پر اتنا قابل قدر اور معتبر مواد فراہم کیا جو ایک طویل عرصے تک طالبان علم کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
’’تعلیم‘‘ پروفیسر صاحب کا خصوصی موضوع ہے۔ انھوں نے اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی اجزا کا تعین کرنے اور ان اجزا کی تحقیقی صورت گری کے حوالے سے‘ عہدنو کے مسائل سے ہم آہنگی کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔
علم اورتعلیم کا عمل انسانی زندگی کا وہ بنیادی اور دائمی وظیفہ ہے جو بہرطور قیامت تک جاری رہے گا۔ علم کی ترویج اور تسلسل کے حوالے سے جدید ذرائع‘ نئے میکانکی اور تدریسی عوامل‘ نئے تقاضے اور نئے وسائل سامنے آتے رہیںگے۔ انسانی زندگی کے ارتقا اور سائنس کی پیہم نمو کے باعث نئے علوم بھی متشکل ہوتے رہیں گے لیکن حیات انسانی کے باطنی‘ اخلاقی اور روحانی پہلوئوں کے اعتبار سے علم کی ایک متعین صورت ہمیشہ جوں کی توں موجود رہے گی۔ انسان کچھ بھی بن جائے وہ بنیادی طور پر انسان ہے اور علوم جدید پر اس کی دسترس کے باوجود اس کی انسانیت کا تحفظ‘ دراصل اس جوہر تخلیق کا تحفظ ہے جو خالق کائنات نے اسے تفویض کیا ہے۔ یہ جوہر ہی انسانیت کی بقا اور اس کے حقیقی ارتقا کا ضامن ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اسلام کے ان ارفع مبادی کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے جو اسلامی ہدایات سے منور ہیں اور جن کو اپنا کر ہی انسان اس کرئہ ارضی میں ایک برتر مخلوق کی حیثیت سے اپنا کردار متعین کر سکتا ہے۔
مقالات تعلیم میں اسلامی نظام تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے حوالے سے ایسا مواد شامل ہے جو تعلیم کے میدان میںکام کرنے والوں کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بحث ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ دینی مدارس کا کردار کیا ہونا چاہیے اور جدید علوم کی یلغار میں ان روایتی مدارس کو کس نوع کی تعلیم دینی چاہیے۔ تعلیم کے موضوع پر پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی کچھ تحریروں پر مشتمل یہ مجموعہ ارباب اختیار کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ (ڈاکٹر مشتاق الرحمٰن صدیقی)
استاذ خلیل احمد حامدیؒ (م: ۱۹۹۴ء) بڑے باصلاحیت اور ذی علم انسان تھے۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے پیغام کو بلادِ عرب و افریقہ میں پھیلانے کے لیے شبانہ روز کام کیا۔ عربی زبان و ادب پر وہ اہل زبان کی سی گرفت رکھتے تھے۔ خطابت و انشا میں کمال درجے کی قدرت کے مالک تھے۔ داعی تحریک اسلامی‘ مولانا مودودیؒ کے دست راست کی حیثیت سے وہ مختلف اسفار میں مولانا مودودیؒ کے ہم رکاب رہے۔
حامدی صاحب ان اسفار کی مختصر رودادیں اشاعت کے لیے دے دیا کرتے تھے۔ یہ ۱۹۸۳ء کی بات ہے‘ تبصرہ نگار نے ایسی تمام سفری رودادیں ایک ترتیب کے ساتھ استاذ مرحوم کی خدمت میں پیش کیں‘ تاکہ وہ اپنی ڈائریوں کی مدد سے مکالمات کو زیادہ تفصیل سے مرتب کر دیں اور اشخاص و واقعات کا مختصر پس منظر بھی واضح کر دیں۔ حامدی صاحب نے اس ضخیم مسودے پر گرم جوشی سے کام شروع کر دیا تھا مگر افسوس کہ وہ مکمل نہ ہو سکا‘ تاہم ایسے ہی اسفار کا ایک حصہ اخترحجازی نے موجودہ کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔
استاذ خلیل احمد حامدیؒ نے اپنے وسیع مطالعے کی بنیاد پر: تاریخ‘ ادب‘ مشاہدے اور جذبے کو اس تحریر میں سمود یا ہے‘ مثلاً انھوں نے سعودی سرزمین پر امریکی کمپنیوں کی تلاشِ تیل کی سرگرمیوں کے نقطۂ آغاز کو مختصراً (ص ۵۲-۶۳) بیان کیا ہے۔ ۱۹۶۰ء کی اس تحریر میں یہ بھی بتایا ہے: ’’آرامکو (امریکی تیل کمپنی) کی جس کائنات کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں‘ اس کی حیثیت ایک مستقل ریاست کی ہے۔ اگر امریکہ کی ۴۸ ریاستیں امریکہ میں پائی جاتی ہیں تو سعودی عرب کا مشرقی صوبہ امریکہ کی ۴۹ ویں ریاست ہے‘ بلکہ شرق اوسط پر امریکہ کی ۴۸ ریاستیں اس قدر گہرا اثر نہیں ڈال رہی ہیں‘ جس قدرگہرا اثر یہ ۴۹ ویں ریاست ڈال رہی ہے‘‘ (ص ۶۵)۔ اخوان المسلمون کی خدمات کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا ہے: ’’اخوان المسلمون نے اپنی کمزوریوں کے باوجود اس دور میں عرب ممالک کے اندر وہ کام کیا ہے جو زہاد و اتقیا سے بن نہ پڑا۔ طریق انبیا کا نام لے لینا تو بہت آسان ہے‘ مگر انبیا کی سنت کے مطابق راہ خدا میں جام شہادت نوش کرنے کے لیے کتنے مدعی تیار ہوں گے؟‘‘ (ص ۴۳)۔ ایک ہم وطن پاکستانی دوست کو وہاں سعودی لباس میں دیکھ کر اپنے احساسات کو اس طرح بیان کیا: ’’اگر پاکستانی لباس‘ اہل نجد کی نگاہ میں کھٹکتا ہے تو ان کے دل سے اس کھٹک کو پوری قوت کے ساتھ دُور کرنا چاہیے۔ کوئی قوم اپنے لباس کو دوسروں کی نگاہ میں معزز بنانا چاہتی ہو تو پہلے اسے خود اس کا احترام کرنا ہوگا‘‘ (ص ۸۰)۔ شاہ سعود نے جب مولانا مودودیؒ سے ملاقات کی تو اس وقت مجلس پر بھرپور شاہی کروفر اور دبدبہ چھایا ہوا تھا۔ حامدی صاحب نے ملاقات کا تاثر معلوم کرنے کے لیے مولانا سے پوچھا تو‘ مولانا مودودی نے فرمایا: ’’میں ظاہری نمود و نمایش کے جال میں کبھی نہیں آ سکتا۔ ]البتہ[ علمی خدمت و تعاون ہر موقع پر کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ (ص ۹۰)
کتاب میں اس نوعیت کے دلچسپ مشاہدات‘ مکالمات اور حوالہ جات جگہ جگہ سامنے آتے ہیں۔ یہ کوئی روایتی انداز کا سفرنامہ نہیں ہے بلکہ ایک بڑے انسان کی مقصدیت بھری سرگرمیوں کا عکس ہے۔ اللہ تعالیٰ حامدی صاحب کی علمی خدمات کو قبول فرمائے۔ (سلیم منصور خالد)
فاضل گرامی عالم دین عبدالرشید ارشد صاحب گذشتہ کئی عشروں سے بعض رسائل و جرائد میں کالم لکھتے رہے جنھیں زیرنظر کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات (عیدالاضحیٰ‘ شب خیزی‘ خواب اور ان کی تعبیر‘ گالی بکنا‘ یورپ کی نقالی وغیرہ) بعض اسفار کی روادادیں‘ بعض شخصیات (سید سلیمان ندوی‘ ابوالحسن علی ندوی وغیرہ) سے ملاقاتیں‘ متعدد اکابر بزرگوں اور علماے دین سے عقیدت‘ بیسیوں دینی‘ ملّی‘ صحافتی اور سیاسی شخصیات کے تعزیتی تذکرے اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ چند ایک ذاتی ڈائری کے اوراق اور مضامین (دو قسطوں میں تبلیغی جماعت پر اعتراضات کا دفاع کیا ہے)---
مولانا ارشد اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ و دل چسپ اور عبارت عام طور پر رواں ہے۔ قرآن و حدیث کے ٹکڑے‘ اقوال اور اردو اور فارسی کے اشعار بھی لاتے ہیں۔ ان کی تحریر ملّت کے بارے میں خیرخواہی اور دردمندی کے جذبات سے مملو ہے۔ وہ موضوع سے ہٹ کر ایک آزادانہ رو میں اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرتے ہیں اور انھیں خود اس کا احساس ہے: ’’یہ وارادات اِدھر اُدھر کی باتوں میں طویل ہوگئی اور واردات کا مطلب یہی ہے بس جو دل میں آتا گیا بغیر کسی ترتیب اور قاعدے کے لکھتا گیا‘‘(ص ۶۲۳)۔ ’’چند تمہیدی سطور لکھتے لکھتے کئی صفحات پرُ ہو گئے لیکن ایک بات رہی جا رہی ہے‘‘۔ (ص ۱۸۶)
وہ پاکستان کی ملّی اور قومی صورت حال پر افسردہ اور رنجیدہ ہوتے ہیں اور قوم کی معاشرتی خرابیوں‘ بے قاعدگی‘ بدنظمی اور بددیانتی پر کڑھتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک دن سید سلیمان ندوی مرحوم آزردہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس قوم کے انجام سے ڈرتا ہوں کہ اس کو آزادی مل گئی لیکن اس کی تربیت نہیں ہوئی۔ (ص ۳۰)
اختصار و اجمال تحریر کی خوبی ہے۔ اگر مصنف مطالب و مفاہیم کو برقرار رکھتے ہوئے بیانات کو مختصر کر دیتے تو کتاب اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور باعث ِ افادیت ہوتی۔ بایں ہمہ یہ معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ مصنف نے ۳۰‘ ۴۰ سالہ پرانی تحریروں پر نظرثانی بھی کی لیکن سید سلمان ندوی کے بارے میں اس جملے (آج کل کسی غیر ملک میں کسی یونی ورسٹی میں لیکچرار ہیں) پر نظرثانی اور تصحیح نہ کر سکے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے اور ارزاں ہے۔ اگر اشاریہ بھی شامل کتاب ہوتا تو کیا بات تھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)