۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے بہت پہلے ہی مغرب اور اسلام اور اہل مغرب اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات‘ اہل دانش اور عوام میں گفتگو اور عام بحث کا موضوع بن گئے تھے۔ ۱۹۹۶ء میں ہن ٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا تھا‘ یہ اُس برسات کا پہلا قطرہ نہیں تھا‘ تاہم اس کے بعد تو اس طرح کے موضوعات پر مضامین اور کتابوں کا ایک سیلاب ہے‘ جس کے تھمنے کے آثار نہیں۔ زیرنظر کتاب Muslims and the West: Encounter and Dialogue (مسلمان اور مغرب: مڈبھیڑ اور مکالمہ) جسے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور جارج ٹائون یونی ورسٹی واشنگٹن کے سینٹر فار مسلم کرسچین اسٹینڈنگ نے شائع کیا ہے‘ اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے‘ جو ۱۹۹۷ء میں منعقدہ مذاکرے میں پڑھے جانے والے ۱۲ منتخب مقالات کا مجموعہ ہے‘ جو ’’اسلام آباد کی سحرآگیں فضا‘‘ میں ساری دنیا کے منتخب ’’علما‘ مفکرین‘ کارپردازانِ سرکار اور ذہن کو تشکیل دینے والوں‘‘ کے سامنے پیش کیے گئے۔
کتاب کے ابتدایئے میں مرتبین میں سے ایک (ایسپوزیٹو) کے ۱۹۹۰ء میں شائع شدہ مضمون کا ایک اقتباس ہے۔ ایک مسلمان‘ اپنے عیسائی دوست سے کہتا ہے: ’’مجھے یہ بات غمگین کر دیتی ہے کہ اتنے بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ تاریخ کا اگلا دور‘ آپ کی دنیا اور میری دنیا میں تصادم کا دور ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھڑے ہوئے ہیں اور ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ ماضی میں بھی کئی دفعہ ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہیں لیکن یسوع کی پیدایش کے تقریباً ۲ ہزار سال بعد‘ اور ہمارے محمد ]یونہی لکھا ہے[ کی پیدایش کے ۱۴۰۰ سال بعد مجھے یہ سوال کرنے دیجیے کہ کیا اب پھر ایسا ہونا ضروری ہے؟‘‘
مرتبین کے خیال میں ایسا ضروری نہیں۔ آگے کیا ہوگا‘ اس کا انحصار ان دو تہذیبوں کے قائدین کی دانائی‘ وژن‘ وسیع القلبی ‘ برداشت اور دُوربینی پرہے۔
کلیدی مقالے (Muslims and the West in History)میں اسماعیل ابراہیم نواب نے امید ظاہر کی ہے کہ ’’ان دو عظیم تہذیبوں کے وارثین‘ امن وتعاون کے بیج بوئیں گے اور ان شاء اللہ اس فصل سے تمام انسانیت کو فائدہ ہوگا‘‘۔ مغرب میں اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں‘ دُور ہوں گی۔ ۱۸ ویں/۱۹ ویں صدی میں مسلم ملکوں پر مغرب کے غلبے کی تلخیاں ختم ہو جائیں گی اور جو کروڑوں مسلمان مغرب میں مقیم ہیں ان کے مقامی باشندوں سے تعلقات بتدریج خوش گوار ہوں گے۔ عبدالرحمن قدوائی نے انگریزی ادب میں عرب مسلم امیج کا جائزہ لیا ہے۔ مغربی مورخ‘ ادیب‘ شاعر مسلمانوں اور اسلام کو کیا دیکھتے ہیں: چمک دار آنکھوں‘ ہوا میں اُڑتے بالوں والی حوریں کس طرح انگریزی ادب میں رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ حسین مُطلب کے مضمون کا بھی یہی موضوع ہے۔ انھوں نے صلیبی جنگوں‘ نوآبادیاتی ادوار اور پھر آج کی دُنیا میں مغربی سیکولر فکر اوراسلامی فکر کا ایک تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں باہمی مفاہمت اور باثمر تعلقات کے لیے مسائل کی جڑوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ رحمت دائوت اغلو نے بھی ان دو تہذیبوں کے باہمی ادراک کا جائزہ لیا ہے: ہم ایک دوسرے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اس ’’عالمی عہد‘‘ میں اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ محمد خالد مسعود اور جین اسمتھ کا بھی یہی موضوع ہے‘ اورباہمی ’’غلط فہمیوں‘‘ کو دُور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مستنصرمیر کا کہنا ہے کہ جدیدیت کے چیلنج سے یہودی اور عیسائی جس طرح عہدہ برآ ہوئے ہیں‘ مسلمانوں کے لیے اس میں رہنمائی کا سامان ہے۔ جدیدیت مسلمانوں پر بھی وہی اثرات مرتب کرے گی‘ جو اس سے پہلے دو ’’اہل کتاب‘‘ پر کر چکی ہے۔
مسلمان‘ غیروں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ مختلف مسلم ممالک اور معاشروں میں شماریاتی طریق سے اس کا جائزہ ریاض حسن نے لیا ہے: مسلمانوں کی اکثریت‘ مستقبل میں اسلام کے رول کے بارے میں پرُامید ہے‘ تاہم بعض مسلم ممالک (مصر) میں بہت سے لوگوں کا عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں بھی یہی خیال ہے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اکیسویں صدی کے ’’ہم آہنگ‘‘ مستقبل کے لیے مسلمانوں اور دوسری دنیا کے درمیان بہتر مفاہمت کی ضرورت ہے۔
تماراسون (جدیدیت‘ اسلام اور مغرب) کہتی ہیں کہ مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ سارے مسلمان عقل کے خلاف اور حکومت الٰہیہ کے قائل نہیں۔ مسلمان بھی سمجھ لیں کہ مغرب‘ مذہب کے خلاف اور لادینی نہیں ہے۔ اس تفہیم سے ایک باثمر مکالمے کی صورت پیدا ہوگی۔ مظفراقبال نے ابتدائی دور سے عہدجدید تک مسلم عیسائی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے خیال میں اسلام فہمی کے بارے میں مغربی ذہن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کا تصورِ اِلٰہ ہے۔ مغرب‘ غیر مذہبی نظر تو آتا ہے‘ مگر حقیقتاً وہ عیسائی رسومِ عبادت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو تعددِ ازواج‘ عورت کے مرتبے‘ دہشت گردی اور اس طرح کے معاملات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمیوں کو دُور کرنا ہوگا۔
اِی وون یزبک حداد کا مقالہ Islamism: A Designer Ideology for Resistance, Change and Empowerment فکرانگیز اور کچھ مختلف ہے۔ کہتی ہیں: ’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح ان تمام مسلمانوں کی فکر کے لیے استعمال ہونے لگی ہے‘ جنھیں صہیونی‘ لبرل اور امریکہ حامی مسلم حکمراں پسند نہیں کرتے۔ اسلام کی نشات ثانیہ سے انھیں خوف آتاہے۔ بن گوریان: ’’اسلام کے علاوہ ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں‘‘۔ شمعون پیرز: ’’جب تک اسلام اپنی تلوار نہیں رکھ دیتا ہم خود کو محفوظ نہیں محسوس کریںگے‘‘۔ اسحقٰ رابین: ’’مذہب اسلام ہی ہمارا واحد دشمن ہے‘‘۔ حداد کہتی ہیں کہ مغرب کی قابل احترام اقدار کو ساری دنیا میں نافذ کرنے کا مقدس عزم آج کے امریکہ ہی کا مشن نہیں‘ بلکہ یہ تو کئی صدیوں سے سارے یورپ کا خواب ہے۔ ساری دنیا کو مہذب بنانے کا ٹھیکہ اب امریکہ کے حصے میں آیا ہے۔ بقول یوسف القرضاوی اسلام اگر امور مملکت‘قانون و اختیار‘ اور عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر عیسائیت کی طرح ایک رسمی و رواجی مذہب کی طرح باقی رہے تو مغرب کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اب یہ فیصلہ خود مسلمانوں کو کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
ولی رضا نصر نے States and Islamization میں مسلم دنیا میں ریاستی سطح پر اسلام کے عمل دخل پر روشنی ڈالی ہے۔ پچھلے دو عشروں میں پبلک پالیسی اور سیاست میں اسلام کی دخل اندازی بڑھی ہے‘ تاہم بہت سے مسلم حکمرانوں نے اسلام کو سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ وہ مسلم ملکوں کی تین اقسام کرتے ہیں: استردادی لامذہبی (ترکی‘ الجزائر)‘ موقع پرست اسلامیت والے (مصر‘ ترکی‘ اُردن‘ انڈونیشیا) اور کلی اسلام نافذین (پاکستان‘ ملائیشیا)‘ تاہم ہر صورت میں اسلام کو ریاستی اختیار و اقتدار مستحکم کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا۔
اسلام آباد کے اس علمی شغل (مذاکرے) اور اس کے نتیجے میں ولادت پانے والی اس خوب صورت کتاب کے مقاصد میں اسلام اور مغرب کے ایک دوسرے کے بارے میں ادراک‘ ان کی اہمیت اور صحت‘ مسلمانوں اور اہل مغرب کے تعلقات کے بارے میں مسائل‘ باہم بہتر تفہیم اور تعلقات کے امکانات اور ان کے لیے مطلوبات کا جائزہ لینا تھا‘ تاکہ ’’ایک صحیح معنوں میں‘ پرامن‘ باہم روادار‘ کثیر الجہتی عالمی معاشرہ‘‘ وجود میں آسکے۔
بقاے باہمی ‘ بلاشبہ ایک مقصد عالی ہے‘ تاہم بدقسمتی سے بہت سے مسلمان امکان کو ناممکن ہی خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی مشیت‘ جس کی تکمیل کے مسلمان مکلّف ہیں‘ یوں بیان کی گئی ہے: ’’وہ ]اللہ ہی تو ہے[ جس نے اپنے پیغام بر کو ہدایت اور دین حق ]زندگی کے صحیح راستے کی طرف رہنمائی[ کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کر دے… محمد ]صلی اللہ علیہ وسلم[اللہ کے رسول‘ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں ]دین حق کے منکرین[ پر سخت ہیں اور آپس میں شفیق و رحیم ہیں… اُن کی مثال… اس کھیتی کی طرح ہے‘ جس نے اپنی کونپل نکالی‘ پھروہ سخت ہوئی اور موٹی ہوگئی اور اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی… کہ کسانوں کو اس سے خوشی ہوتی ہے‘ اور کافروں کو اُن سے غصہ اور جلن…‘‘ (الفتح ۴۸:۲۸- ۲۹)
Muslims and the West: Encounter and Dialogue)‘ مرتبین: ظفر اسحاق انصاری‘ جان ایل ایسپوزیٹو‘ ناشر: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۵۳+۲۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)