مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ قرآنِ مجید ایک عہدآفرین کتاب ہے۔ اس کتاب کے نزول اور پھر اس کی اشاعت کے بعد دنیا وہ نہ رہی، جو اس سے قبل تھی اور نہ پھر کبھی وہ بن سکے گی۔ لیکن یہ دعویٰ تو اُس قوم کا ہے، جو اس کے الہامی اور مِن جانب اللہ ہونے کو بحیثیت نقطۂ آغاز تسلیم کرتی ہے۔ جو لوگ اس بنیادی مقدمے ہی کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ کُل انسانیت کے نام اللہ کا آخری پیغام اور اس کی ہدایت کا غیرمُبدّل ذریعہ ہے، اُن کے لیے اس دعوے کو جانچنے کا کیا ذریعہ ہوسکتا ہے؟
میرے خیال میں اس کے متعدد ذرائع ہوسکتے ہیں، اور مختلف زاویوں سے ہم اس مسئلے کی طرف توجہ کرسکتے ہیں، مثلاً قرآنِ مجید کی اِن پیش گوئیوں ہی کو لیجیے:
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ ۵۸:۲۱) میں اور میرا رسولؐ غالب آکر ہی رہیں گے۔
اِنَّـآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ o فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ o اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ o (الکوثر۱۰۸:۱-۳) اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ہم نے تمھیں خیرکثیر عطا کردیا ہے پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو، بلاشبہہ تمھارا دشمن ہی بے نشان ہوگا۔
قرآنِ مجید میں یہ دعوے اللہ تعالیٰ سے منسوب ہیں۔ اب سے ۱۴ سو سال پہلے صحراے عرب میں ایک شخص کھڑے ہوکر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا پیامبر ہے، اور پوری انسانیت کے لیے ہادی اور راہنما ہے۔ وہ کوئی جمہوری دَور نہیں تھا، جب اختلافِ راے و عقیدہ آسانی سے برداشت کرلیے جاتے ہوں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ چاروں طرف مخالفت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ جو کل دوست تھے، آج دشمن ہیں۔ قبائلی نظام میں کسی فرد کی سب سے بڑی قوت اس کے قبیلے کی پشت پناہی ہی ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ اس دعوت کی سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت اس کے اپنے قبیلے اور خصوصاً اس کے بااثر سرداروں ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس عہد کے کسی دانا انسان کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ تاریخ اب کسی نئے موڑ پر مڑنے والی ہے۔ اور تو اور آج کا کوئی بڑے سے بڑا مؤرخ یا فلسفیِ تاریخ بھی ابتدا سے تاریخِ اقوام کا گہری نظر سے مطالعہ کرتا ہوا آئے تو چھٹی صدی یا ساتویں صدی عیسوی کی ابتدا میں، اقوامِ عالم میں اُسے کوئی ایسی غیرمعمولی حرکت نہیں دکھائی دے گی، جس کی بنا پر وہ ایک عالم گیر سیاسی انقلاب کی پیش گوئی کرسکے، جس سے صدیوںپرانی سلطنتیں منہدم ہوجائیں، یا کسی ایسے معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی انقلاب کا پتا چل سکے، جس نے نہ صرف ہزارہا سال کے انسانی تصورات اور مزعومات کو ہلاکر رکھ دیا، بلکہ انسان کی فکری تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ اُن کے اثرات اور اثرات کے اثرات نے عالمِ فکر میں ایک زنجیری ردِّعمل برپا کردیا ہے۔ ایسا عمل، جو آج بھی جاری ہے۔
آج سے کوئی پندرہ سو سال قبل جب کسی کتاب نے ایسا دعویٰ کیا، تو سواے اُس شخص کے جو یہ کتاب لے کر آیا، اور اُن چند مٹھی بھر انسانوں کے جو اُس کی صداقت کے قائل ہوگئے تھے، کسی کو اس کا یقین نہ تھا۔ اور یہ عدمِ یقین، تاریخِ اسلام کے ایک مشہور واقعے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ دین کے ابتدائی ایام میں اہلِ قبیلہ کی دعوت کا اہتمام کیا، اور اس کے بعد دعوتِ اسلام پیش کی۔ سب خاموش رہے۔ حضرت علیؓ، جو اس وقت بچے تھے کھڑے ہوئے اور بولے: ’’اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں (یعنی میں کمزور ہوں) اور آنکھوں میں آشوب ہے، تاہم میں آپؐ کا ساتھ دوں گا‘‘۔ آپؐ کا چچا ابولہب بولا: ’’یہ چہل سالہ بوڑھا اور یہ لڑکا دنیا کو بدلنے چلے ہیں!!‘‘۱؎
قرآنِ مجید کے انقلابی اثرات کا جائزہ ایک دوسرے انداز میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ ایک جگہ کہا گیا ہے:
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ ط وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ ط وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ o (النحل ۱۶:۳۰) اور جب اُن لوگوں سے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ تمھارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں: ’’ہمارے رب نے خیرنازل فرمایا ہے‘‘۔ وہ لوگ جنھوں نے اعمالِ حسنہ کیے ہیں، اُن کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو بہتر ہے ہی، اور اہلِ تقویٰ کا ٹھکانا ضرور ہی اچھا ہوگا۔
یہاں قرآنِ مجید میں خود مسلمانوں کے منہ سے اِس کی کُل تعلیمات کے لیے ایک نہایت جامع لفظ ’خیر‘ استعمال کرایا گیا ہے۔ گویا قرآنِ مجید میں جو کچھ تلقین و تعلیم ہے، سراسر خیر ہی خیر ہے۔ اس میں تمام انسانیت کی بھلائی مضمر ہے۔
آیئے ایک نظر حیاتِ انسانی کے اہم انفرادی و اجتماعی اداروں اور نظاموں پر ڈال کردیکھیں کہ قرآنِ مجید کی تعلیمات سے وہ کس طرح اور کس حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ اس گفتگو کے لیے ہم نے فی الحال صرف دو اداروں، سیاست و معیشت کو منتخب کیا ہے، ورنہ قرآنِ مجید کے اثرات تو انسانی زندگی پر ہمہ گیر ہیں۔ تصورِ مذہب، اخلاق، علم و تعلیم اور معاشرت پر اس کے اثرات کا کُلی طور پر احاطہ کرلینا تقریباً ناممکن ہے۔
قرآنِ مجید کی تعلیمات کے سیاسی اثرات کو ملاحظہ کرنے کے لیے اس عہد کے فلسفۂ سیاست پر ایک نظر ڈالنا ہوگی:
رومی سلطنت کے عروج اور فتوحات کی وسعت کے ساتھ بڑے سپہ سالاروں کا بھی عروج ہوا، جنھوں نے اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر مطلق اقتدار حاصل کرلیا۔ سینیٹ، فطری طور پر اُن سے حسد رکھتی تھی۔ ایسے سب سے بڑے سپہ سالار جولِیس سیزر (۱۴۴-۱۰۰ء) نے سینیٹ کے اقتدار و اختیار کو تقریباً ختم ہی کردیا، اور آخرکار سینیٹ کے ’جمہوریت پسندوں‘ ہی کی سازش سے، جن کا قائد بروٹس تھا، وہ بالآخر قتل کر دیا گیا اور اس طرح سلطنتِ روما سے جمہوریت کا شائبہ تک ختم ہوگیا، کیوں کہ اس کے بعد مارک انطونی نے اسی طرح اقتدار سنبھال لیا۔
یہ سچ ہے کہ ہماری معلومہ تاریخ میں جمہوریت کا اصول سب سے پہلے یونانیوں نے دنیا کو دیا تھا لیکن یونانی جمہوریت کیا تھی؟ ایتھنز جیسی شہری ریاستوں میں جہاں آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا، صرف آزاد انسانوں ہی کو حق راے دہی اور حقِ عہدہ حاصل تھا، کیوں کہ قانوناً یہی لوگ ’اصل شہری‘ تھے۔ خود ارسطو، جو ’اہلِ دانش کا شہزادہ‘ کہلاتا ہے، اس بات کا قائل تھا کہ بربروں کو غلام بنانا بالکل درست ہے، کیوں کہ وہ ایک کم تر نسل ہیں۔ پھر اس یونانی جمہوریت کے کئی نقائص اور بھی تھے۔ ’براہِ راست جمہوریت‘ ہونے کی بنا پر یہ زیادہ سے زیادہ ایک شہر ہی کے لیے قابلِ عمل ہوسکتی تھی۔ کسی بڑے ملک یا سلطنت میں اس کے نفاذ کا کوئی طریق نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ ریاست کے انتظام میں تکنیکی امور، یہاں تک کہ مقدمات کے فیصلے اور انصاف تک، عوامی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے۔ چوتھی صدی قبل مسیح جو علم و دانش میں یونان کا عہدِ زریں شمار ہوتی ہے۔ اس عوامی جمہوریت تلے دَم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی بنا پر ایتھنز کو فوجی مہمات میں شکست پر شکست ہوتی ہے، اور ’عوامی عدالت‘ کا سامنا کرکے سقراط کو جو پیغمبروں جیسی حکمت و دانش کا امین تھا، زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دَور کے عظیم ترین مفکر، سقراط، افلاطون اور ارسطو اس نظامِ سیاسی سے سخت نالاں اور اس کے زبردست ناقد نظر آتے ہیں۔
بہرحال، یونانی طرز کی جمہوریت، جیسی بھی وہ تھی، نہایت عارضی ثابت ہوئی اور یورپ میں سیاسی اور فکری اقتدار رومیوں کے ہاتھ آیا، تو انھوں نے ایک طرح کی اشرافیہ اور بدترین ملوکیت کا نظامِ حکمرانی اختیار کیا، حتیٰ کہ حکمران سیزر کا نام ہی ’قیصر‘ کی صورت میں بادشاہی کا مترادف بن گیا۔
غرض دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ نہ تھا، جو فردِ واحد یا چند افراد کے ٹولے کے مطلق العنان اقتدار کو چیلنج کرتا، اور اس کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل مہیا کرتا۔
اس عہد میں قرآنِ مجید نے اعلان کیا اور یہ کتابِ مقدس کا پہلا فقرہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (الفاتحہ ۱:۱) ’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام کائنات کا رب ہے‘‘۔ گویا اقتدارِ اعلیٰ کسی فرد، خاندان یا گروہ کا نہیں، بلکہ اللہ ہی کا حق ہے:
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہٗ الْمُلْکُ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ ج (الزمر ۳۹:۶) یہ اللہ ہے، تمھارا رب، اُسی کی حکومت ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الزمر ۳۹:۴۴) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔
پھر قرآن اعلان کرتا ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ، یعنی جانشین بنا دیا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ (الانعام ۶:۱۶۵) وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں اپنا نائب بنایا۔
یہ خیال رہے کہ یہاں پوری نسلِ انسانی سے خطاب ہے، کسی خاص قوم، نسل، یا طبقے سے نہیں۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی اور مروج مذہب یا فلسفۂ سیاسی میں پہلی بار تمام انسانوں کو یہ حق دیا جا رہا ہے کہ وہ زمین پر حقیقی مقتدرِ اعلیٰ کی نیابت کریں۔ اگرچہ یہ اقتدار اعلیٰ، موجودہ لادینی جمہوریت کی طرح مطلق العنان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے تجویزکردہ اجتماعی نظام کا پابند ہے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ (اعراف ۷:۵۴) آگاہ ہوجائو، تخلیق اور حکم دینا اُسی کے لیے مخصوص ہے (یعنی اُسی ذاتِ پاک کا حق ہے)۔
قرآنِ مجید نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ اپنے اُمور کا تصفیہ باہم مشورے سے کریں، اور اس طرح مطلق العنانی کا خاتمہ کیا۔ حضور اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور اور ہدایت یافتہ تھے، تاہم آپؐ کو بھی ہدایت کی گئی کہ معاملات میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ ضرور کریں:
وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ( اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اور دنیا کو بتایا گیا کہ حقیقتاً تو مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے ہی سے طے پاتے ہیں۔
وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ( الشوریٰ ۴۲:۳۸) اُن کے (یعنی مسلمانوں کے) اُمور باہمی مشورے ہی سے انجام پاتے ہیں۔
اس طرح تاریخ میں پہلی دفعہ مطلق العنانی یا اشرافیہ کی من مانی کا ابطال کیا گیا اور شورائیت کا حکم دیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شورائیت کی یہ تلقین ایک مذہب کر رہا ہے، اور مذہب روایتی طور پر ایک ’حاکمانہ مزاج‘ رکھتا ہے، نہ کہ جمہوری۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اللہ کے رسول بلکہ مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ آپؐ سیاست، جنگ و صلح اور تمام ملکی انتظامات کے سلسلے میں اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ غزوئہ اُحد کے موقع پر جب یہ خبر ملی کہ کافروں کا بہت بڑا لشکر پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ حملہ آور ہونے آرہا ہے، تو آپؐ کی راے یہ تھی کہ مدینہ ہی میں رہتے ہوئے مقابلہ کیا جائے، مگر آپؐ نے صحابہ کی راے کو ترجیح دی، اگرچہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا اور بہت سی قیمتی جانیں گئیں۔
آپؐ کے بعد مسلمانوں نے سربراہِ حکومت کا انتخاب بھی شورائی طریق پر کیا، اور ’خلیفہ‘ (جو قرآنِ مجید کی اصطلاح کے مطابق اللہ کی زمین پر اللہ کے خلفا(جانشینوں) کا نمایندہ ہوتا ہے) کے انتخاب کے لیے بیعت کا طریق رائج ہوا۔ بیعت دراصل راے دہی ہی کی ایک صورت ہے، اور کوئی شخص قانونی طور پر مسلمانوں کا امیر نہیں بن سکتا، جب تک مسلمانوں کی اکثریت اس کے انتخاب کے حق میں نہ ہو۔ راے دہی کے جدید طریقے، ووٹ ڈالنا اور خفیہ راے شماری___ دراصل اسی اصولِ شورائیت و بیعت کے نفاذ کی جدید صورتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے قرنِ اوّل میں اِن طریقوں کا استعمال ممکن نہ تھا۔
مغرب میں سیاسی حقوق کا شہرہ ۱۳ویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے، یعنی قرآنِ مجید کی آمد کے ۷سو سال بعد۔ جدید مغربی جمہوریت اگرچہ زیادہ ’جمہوری‘ نظر آتی ہے، کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ کلیتاً عوام کو عطا کرتی ہے، مگر بڑی حد تک یہ محض کاغذ پر ایک رسمی دعویٰ ہے۔ ۱۲۱۵ء میں انگلستان کے بادشاہ جان کو کچھ نوابوں نے مجبور کیاکہ وہ حقوق کی ’عظیم دستاویز‘___ ’میگناکارٹا‘پر دستخط کردے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اب تک دنیا میں کسی ملک میں عوام کو حقیقی معنوں میں اقتدار نصیب نہیں ہوا ہے۔ یورپ میں نظریۂ جمہوریت کے متوازی عہدِ نوآبادیات شروع ہوا۔ فرانس اور برطانیہ جیسی اقوام نے جو خود کو دورِ جدید میں جمہوریت و حریت کی علَم بردار کہتی ہیں، براعظم ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا میں اپنی نوآبادیات قائم کیں۔ وہاں کے اصل باشندوں کے حقوقِ ملکیت، زمین و وسائل، راے دہی اور حق آزادی کو پامال کیا، بلکہ تسلیم ہی نہ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ بعض علاقوں سے اصل باشندوں کا تقریباً صفایا ہی کر دیا گیا، جیسے شمالی امریکا سے سرخ ہندی (ریڈ انڈین)اور آسٹریلیا سے وہاں کے قدیم باشندے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس سیاسی نظریے کی بنیاد پر ہوا؟ ۲۰ویں صدی کے نصف آخر میں جن نوآبادیاتی قوتوں نے اپنے مقبوضات کو چھوڑا ہے،تو پھر برہنہ سیاسی اقتدار کے بجاے ایک نئی قسم کا سیاسی و اقتصادی غلبہ ان نوآزاد مملکتوں پر مسلط کر دیا۔ یہ جدید نوآبادیاتی نظام (neo-colonialism) استحصال اور لُوٹ مار کی ایک جدید ’خوب صورت‘ شکل ہے۔ نام نہاد آزادی حاصل کرنے والے یہ ممالک اپنے آقا ملکوں کے قرض، تکنیکی مہارت اور توازنِ ادایگی کے نہ ختم ہونے والے چکر میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
پھر جن ملکوں میں یہ جمہوریت پروان چڑھی ہے، وہاں بھی حریت و اقتدار، حقیقی سے زیادہ سطحی ہے۔ جدید ریاستوں میں بھی سربراہِ مملکت، عسکری قیادت اور مقتدرہ کو عدالت میں جواب دہی کے لیے نہیں گھسیٹا جاسکتا، جب کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدار کے عروج میں اپنی پشتِ مبارک ایک دعوے دار کے لیے کھول دی تھی کہ وہ ایک قمچی کا بدلہ لے لے، اور کسی کو کوئی دعویٰ ہو تو آپؐ مداوا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حضرت عمرؓ (سربراہِ مملکتِ اسلامیہ) برسرِمنبر اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ جو کپڑے تقسیم کیے گئے تھے، وہ اتنے چھوٹے تھے کہ آپ کی قمیص نہ بن سکتی تھی، آپ نے کیسے بنالی؟ فرمایا: میرے بیٹے نے اپنا کپڑا مجھے دے دیا تھا۔
مغرب میں ’جمہوریت‘ کے عروج کے ساتھ صنعتی ترقی شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بڑی بڑی صنعتیں سلطنتیں (industrial empires) اور کارپوریشنیں وجود میں آئیں۔ قومی رقابتوں اور اُن کے باہمی تصادم کے خطرے اور نتیجے کے طور پر ہول ناک عسکری قوتیں قائم کرنا ناگزیر ہوگیا۔ اور ان عسکری قوتوں کے لیے سامانِ حرب بھی لازم تھا۔ غرض صنعت کاروں، سرمایہ داروں، مقتدرہ اور سپہ سالاروں کی ٹولیوں نے جمہوریت کے پردے میں ناموسِ انسانیت کی بے حُرمتی کا ایک نیا اسلوب اور کھیل شروع کیا، جو اَب بھی جاری ہے۔ عراق اور افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی یلغار اس کی تازہ مثال ہے ؎
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
(بانگِ درا)
دولت کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ، انسان کو درپیش اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ نزولِ قرآن کا پس منظر ملاحظہ کیجیے، تو معلوم ہوگا کہ اس طرف توجہ شاذو نادر ہی کی گئی تھی۔ جہاں تک افلاطون کا تعلق ہے، اپنی ’جمہوریہ‘ میں وہ صرف ’حکمران فلاسفہ‘ ہی کے درمیان اشتمالیت اور نفیِ ملکیت کی تلقین کرتا ہے۔ بجا طور پر اس کا خیال ہے کہ مال و اسباب کی ہوس ہی سیاسی فساد اور مظالم کا باعث بنتی ہے، مگر یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر دولت مند اور باوسائل طبقے ہی ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہوجائیں، تو انھیں حکومت پر قبضہ کرلینے سے روکنے والی چیز کیا ہوگی؟جہاں تک قدیم ایران کے مُزدک کا تعلق ہے، اس کی تعلیمات کے منتشر اجزا ہی ہم تک پہنچے ہیں اور اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل سے مزاج اور انتشار ہی کا راستہ کھل سکتا ہے۔
انسانی فکر ی تاریخ میں قرآن سے پہلے اِن دو افکار سے پہلے کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی نظام دیا گیا ہو، جس سے معاشرے میں مفاسد کا قلع قمع ہو۔ ظلم، بے انصافی اور استحصال کا خاتمہ ہو، اور تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا انتظام، معاشرہ یا حکومت خود اپنے ذمّے لے لے۔ قرآنِ مجید نے جو اسلامی نظامِ معاش تجویز کیا ہے۔ اس سے قبل دنیا کے تمام معاشروں میں اقتصادی نظام سخت غیرمتوازن نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو پیدایشِ دولت اور دولت جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، دولت کمانے کے سلسلے میں جائز و ناجائز کی کوئی تفریق نہ تھی۔ اِسی طرح اُسے خرچ کرنے پر بھی کوئی پابندیاں نہ تھیں، دوسری طرف ملوکِ جابر اور سردار، جہاں اور جس طرح چاہتے اپنی رعایا کی دولت پر قبضہ کرلیتے۔ پیداوارِ دولت کا بنیادی ذریعہ، یعنی ’زمین‘ انھی کی ذاتی ملکیت ہوتا تھا۔ بعض معاشروں میں تو ستم بالاے ستم یہ تھا کہ معاشرے کو ایسے موروثی طبقات میں تقسیم کر دیا گیا تھا کہ بعض افراد اور اُن کی اولاد کا مستقبل کبھی معاشی طور پر خوش آیند ہو ہی نہیں سکتا تھا، جیسے قدیم ہندو معاشرے کے شودر۔ اس کے برخلاف دوسرے طبقات کو غیرمعمولی معاشی فوائد سے متمتع ہونے کا حق دار بنا دیا گیا تھا۔
قرآنِ مجید نے ان تمام مفاسد کے انسداد کی تدبیر کے لیے دنیا کو ایک نیا معاشی نظام دیا۔ اگر آپ دولت کی پیدایش کے عوامل پر نظر ڈالیں تو ان میں دو عوامل نمایاں نظر آئیں گے: ۱-وسائلِ پیداوار ۲- محنت۔ آج معاشیات میں دو مزید عوامل، سرمایہ اور انتظام گنائے جاتے ہیں، مگر یہ بھی درحقیقت اوّل الذکر دو عوامل ہی کے تحت آسکتے ہیں۔
جہاں تک وسائلِ پیداوار کا تعلق ہے (جن کو کلاسیکی معاشیات میں ’زمین‘ کے عنوان کے تحت گفتگو کی جاتی ہے، اور اس میں زمین کے علاوہ سمندر اور آبی وسائل، جنگلات، معدنیات اور ہر طرح کے عطیاتِ قدرت شامل ہیں) قرآنِ مجید کے بارے میں واضح اعلان کرتا ہے:
وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ( اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰، الحدید ۵۷:۱۰) آسمان اور زمین اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔
اَلَآ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ(یونس ۱۰:۵۵) یاد رکھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے،وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔
چوں کہ وسائلِ پیداوار اپنی آخری تحلیل میں زمین ہی سے حاصل ہوتے ہیں، اس لیے قرآن مجید اُن کے لیے ’ارض‘ استعمال کرتا ہے، کیوں کہ انسان اپنی محنت سے جو بھی دولت حاصل کرتا ہے، وہ ’زمین‘ ہی سے آتی ہے، اور اگر کائنات کے دوسرے گوشوں(آفتاب) سے بھی آئے تو ’سموات‘ کی اصطلاح اسے بھی احاطہ کرلیتی ہے۔
جب دولت کا مصدر (source) فی الواقع اللہ ہی کی ملکیت ہے، تو اس پر انسان کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ دراصل جب انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ یانائب کہا گیا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ زمین پر اس کا اختیار مالکانہ نہیں، بلکہ ایک امانت دار ہی کا ہوسکتا ہے۔ زمین پر اللہ کی نیابت کوئی انفرادی معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی تصور ہے، یعنی بحیثیت کُل۔ پوری انسانیت خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے۔ جدید لادینی تصورِ سیاست میں چونکہ اللہ کے تصور کو خارج از بحث رکھا جاتا ہے اس لیے اس میں اللہ کی جگہ ’ریاست‘ لے لیتی ہے۔ یوں زمین اور سارے وسائلِ پیداوار دراصل ریاست ہی کی ملکیت قرار پاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ریاست جن افراد یا اداروں کی ملکیت میں انھیں دے دیتی ہے، وہ اس پر مالکانہ تصرف کے مختار قرار پاتے ہیں۔
اگر صورتِ حال ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ ’زمین‘ سے حاصل ہونے والی پیداوار پر انسان کا حق نہایت محدود معنوں ہی میں ملکیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک وہ دراصل ایک امانت ہے، اور امانت پر امین کا کُلی اختیار نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ اصل مالکِ امانت کے منشا کے مطابق ہی اُسے استعمال کرے۔
اس نکتے کو قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے:
اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ تَـزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ o اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ o لَوْ نَشَآئُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلاَ تَشْکُرُوْنَ o اَفَرَاَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ o ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَا اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ o (الواقعۃ ۵۶:۶۳-۷۲) ذرا اُس کھیتی کو تو دیکھو جس کی تم کاشت کرتے ہو، کیا تم نے اُس (کے بیج) کو اُگایا، یا اُگانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے بھوسے جیسا بنا دیتے، اور تم ہاتھ ملتے رہ جاتے (اور کہتے) دراصل ہمیں دھوکا ہوا (کہ ہم اُسے اپنی محنت کا ثمرہ سمجھ رہے تھے)۔ فی الواقع ہم نامراد ہیں۔ پھر ذرا اُس پانی کو تو دیکھو جسے تم پیتے ہو۔ کیا تم اُسے بادل سے اُتارتے ہو، یا برسانے والے ہم ہیں۔ اگر ہم چاہتے تو اُسے کھاری ہی بنا لیتے۔ تو تم اس کا شکریہ ادا کیوں نہیں کرے؟ ذرا اُس آگ کو تو دیکھو جسے تم روشن کرتے ہو۔ کیا تم نے اُس کا شجر اُگایا ہے، یا اُگانے والے ہم ہیں۔
اقبال نے قرآنِ مجید کے اس فلسفۂ ملکیت کو اپنی نظم الارض لِلّٰہ میں یوں بیان کیا ہے:
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟
دِہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیں ، میری نہیں
(بالِ جبریل)
اب، چوںکہ جدید سیکولر ریاستوں میں اصل مالکِ زمین عوام ہیں، اس لیے اللہ کی جگہ عوام یعنی ریاست نے لے لی ہے، اور سارے وسائل اپنے آخری تجزیے میں ریاست کی ملکیت متصور ہوتے ہیں، اور اس لیے انھیں اُن کے مفاد ہی کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
پیدایشِ دولت کا دوسرا اہم عامل ’محنت‘ کا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام انسان اپنی صلاحیتوں اور کارکردگی میں یکساں نہیں ہوتے، لیکن اگر کوئی بہتر صلاحیت رکھتا ہے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ودیعت ہے، اور محض اس بنا پر وہ کسی قدر زائد کا حق دار نہیں۔ ہاں، محنت کی کمی بیشی کی بنا پر معیشت میں فرق ہوسکتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ فرق ایک اور ایک ہزار یا لاکھوں کروڑوں کا نہیں ہوسکتا، جیساکہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام اور ’ بے روک معیشت‘ میں ہم دیکھتے ہیں۔ اسلام نے قرآنی تعلیمات کی بنا پر اس فضیلت ِ ذہنی وجسمانی کی بناپر ایک گروہ کو دوسرے گروہ کا استحصال کرنے اور اُسے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بنانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنے بعض بندوں کو زائد رزق کے حصول کے مواقع دیتا ہے تو امین کی حیثیت سے ان کا فرض ہے کہ اُسے اپنے نسبتاً کم خوش قسمت بنی نوع پر خرچ کریں؟
وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآئٌ اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَo (النحل ۱۶:۷۱) اللہ تعالیٰ نے روزی میں تم میں سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے، تو جنھیں زیادہ دیا گیا ہے، وہ اپنا رزق اُن لوگوں کو نہیں لوٹا دیتے جو اُن کے زیردست ہیں، تاکہ وہ باہم مساوی ہوجائیں تو کیا وہ اللہ کی اس (نعمت) کا انکار کر رہے ہیں؟
یہاں ایک نکتہ قابلِ غور یہ ہے کہ بِرَآدِّیْ رِزْقِھِمْ یعنی ’’اپنے رزق کو لوٹانے والے‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اور لوٹائی وہ چیز جاتی ہے جس کے ہم حقیقی مالک نہ ہوں۔ اسی طرح ایک حدیث میں زکوٰۃ کی بابت ارشاد ہوتا ہے کہ یہ امیروں سے لے کر غریبوں کو لوٹائی جاتی ہے۔ گویا معاشرے کے پس ماندہ طبقوں کی امداد کے لیے اہلِ ثروت جو دیںگے وہ بھیک یا خیرات نہیں ہوگی، بلکہ محتاجوں کا حق ہوگا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے نزدیک ضرورت سے زائد تمام دولت معاشرے کے پس ماندہ طبقے کا حق ہے:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرہ ۲: ۲۱۹) لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ ہم (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے، وہ جو ضرورت سے زائد ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ یہ سورئہ بقرہ کی ایک آیت ہے، اور زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپؐ کی دی ہوئی ہدایات میں سے آخری ہدایتوں میں سے ہے۔
قرآنِ مجید کا تصورِ معیشت و ریاست خالصتاً فلاحی یعنی welfare کا ہے۔ وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ استحصال کو روکتا ہے، بلکہ زر کے جمع کیے جانے والے اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر وعید بھی سناتا ہے:
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنo (التوبۃ ۹:۳۴۔۳۵) وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور انھیں اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُنھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ وہ ایسا دن ہوگا، جب انھیں جہنم کی آگ میں پگھلایا جائے گا، پھر اُن سے ان کے پہلو اور کھالیں داغی جائیں گی۔ یہ ہے جو تم اپنے لیے جمع کرکے رکھتے تھے، تو اپنے اس جمع کرنے کا مزا چکھو۔
اس طرح قرآنِ مجید معاشرے کے پس ماندہ طبقوں پر خرچ کرنے کو محض ایک نفل عبادت اور ’ثواب کا کام‘ نہیں بنا دیتا، بلکہ اِسے ایک فرض قرار دیتا ہے، جس کے سلسلے میں دنیا میں احکام ہیں اور آخرت میں محاسبہ۔
نظامِ سرمایہ داری کے مظالم اور تکالیف کا مداوا کرنے کے لیے مغرب میں جتنی بھی تحریکیں شروع ہوئیں، اُن کی ابتدا فرانس اور جرمنی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ یورپ میں فرانس اور جرمنی ہی اوّلاً عربوں اور اسلام سے متاثر ہوئے تھے۔ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ کو اخلاقی تعلیمات میں اسلام کی چھاپ نہایت واضح نظر آتی ہے۔ قدامت پسند چرچ کے ناقدین اور حریت اور شرفِ انسانی کے علَم بردار اگرچہ کسی مذہب کا نام لینے سے گریزاں رہے، لیکن ان کی بوجھ ہٹانے والی اور زنجیروں کو کاٹنے والی تحریروں میں قرآن کا رنگ جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جو نظام تجویز کیے گئے ان کا نقطۂ منتہا کارل مارکس اور اینجلز کی Manifesto اور اوّل الذکر کی عہدآفریں کتاب سرمایہ (Capital) ہے جو ۱۸۶۷ء میں لکھی گئی تھی۔ ان کی تحریر و تحریک کے نتیجے میں ۱۹۱۷ء کا اشتراکی انقلاب روس آیا، جو بعد میں مشرقی یورپ کے کئی ملکوں اور مشرقِ بعید چین تک پھیل گیا، اور دنیا کی ایک موثر سیاسی و معاشی قوت بن گیا۔ مارکس اور اینجلز نے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ظالمانہ نظام کی چکی میں پِسنے والے طبقوں کو للکارا: ’’دنیا کے محنت کشو! متحد ہوجائو، تمھارے پاس گِنوانے کے لیے سواے زنجیروں کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ۱۰۰ سال سے بھی کم عرصے میں اس انقلابی تجربے کی عملی تعبیر نے روس میں بدترین آمریت اور تاریخ کے دہشت ناک ترین ادوار میں سے ایک کو جنم دیا۔ اس نظام نے اپنے زیراثر افراد کی آزادیاں اخلاق اور بلند اقدار چھین لیے۔ اکثریت کو پست حیوانی سطح پر پہنچا دیا۔ جسمانی احتیاجات کی تو ضمانت دے دی گئی، لیکن وہ مقام چھین لیا گیا، جو انسان کو حقیقی شرف عطا کرتا ہے۔
تاہم، اس تحریک اور نظام کے ردِّعمل اورتعامل کے نتیجے میں مغرب کے بے قید سرمایہ دارانہ نظام میں تھوڑی سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس بھی پیدا ہوا۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے قانونی تحفظات مہیا کیے گئے، ان کی بہتر زندگی، صحت اور آسایش کی طرف توجہ ہوئی اوربہت سے ملکوں میں بے لگام معیشت پر کچھ پابندیاں عائد ہوئیں۔
مشرق کی طرف نظر ڈالیں تو بلاشبہہ ابتدائی اسلامی دورِ حکومت کے بعد بادشاہوں اور نام نہاد ’خلفا‘ کا دَور کسی طرح بھی ظلم و استحصال سے پاک مثالی عہد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اُس وقت بھی، جب خلافتِ اسلامی زوال پذیر ہوکر ملوکیت کی شکل اختیار کرچکی تھی مسلمانوں کے ضمیر سے حقوقِ انسانی، عدلِ عمرانی اور معاشی انصاف کے قرآنی تصورات کو ہٹایا نہیں جاسکا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عباسی حکمران مامون کے عہد میں بھی امام ابوحنیفہ کے تلمیذ امام ابویوسف جو ’کتاب الخراج‘ تصنیف کرتے ہیں، اس میں عوام کے سیاسی اور معاشی حقوق کی نہایت شعوری تلقین ہے، حالانکہ یہ ایک نسلی ملوکیت کا دَور تھا، اور خلیفہ، خلیفہ نہیں بلکہ موروثی بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس عہد میں قرطبہ، طلیطلہ، سیوائل اور غرناطہ کے مسلم مدرسوں میں عیسائی طلبہ اور علما کا استفادے کے لیے آنا اور علومِ اسلامی کی خوشہ چینی ایک تاریخی حقیقت ہے، جس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔ تعلیماتِ قرآنی کے دُھندلے ہوجانے، اور عہدِاوّل سے بُعد کے باوجود ۱۱ویں اور ۱۲ویں صدی عیسوی میں مسلم فکر وعلوم کے اِن اداروں سے اہلِ مغرب کا متاثر ہونا بالکل فطری تھا۔ ’ہسپانوی اسلام‘ کے ایک مؤرخ نے اُس عہد کے ایک عیسائی مفکر کو یوں نوحہ زن پایا ہے:
میرے عیسائی دوست، عربوں کی شاعری اور داستانوں ہی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ دین محمدیؐ کے اہلِ دینیات اور فلاسفہ کی کتابوں کو زیرمطالعہ رکھتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ان کا اِبطال کریں، بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ درجے کا عربی اسلوب اختیار کرلیں۔ افسوس! نوجوان عیسائی، جو اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں، سواے عربی کے کسی اور زبان اور ادب سے نا آشنا ہیں۔ وہ عربی کتابیں نہایت ذوق و انہماک سے پڑھتے اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ زرِ کثیر صَرف کر کے ان کے پورے کے پورے کتب خانے بنا لیتے ہیں۔ ہر جگہ وہ عرب داستانوں کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔۳؎
ہمارے لیے یہ تو ممکن نہیں کہ اُن معاشی محرکات اور اصلاحات کا، جو آج کی دنیا میں مثالیہ بن چکی ہیں براہِ راست قرآن کی اسلامی تعلیمات سے سراغ لگاسکیں، تاہم یہ تو ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ میں نشاَتِ ثانیہ اور تحریکِ اصلاح، مسلم فکر کے زیراثر ہوئی تھی اور احیا العلوم کی یہی حرکت آخرکار دورِ جدید کی پیدایش کا باعث ہوئی اور فلاحی ریاست (Welfare State) کا تصور تو خالصتاً اسلامی تصور ہے، کیوں کہ ایسے کسی تصور کا سراغ یورپ اور ایشیا کے کسی اور فلسفے میں نہیں تھا، جس نے دورِ جدید کی تشکیل میں حصہ لیا ہو۔ یہ توجدید دنیا کی بدقسمتی ہے کہ اُصولاً تو وہ اس تصورِ ریاست و معیشت کو اپنانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن عملاً اس سے گریزاں ہے۔
۱- شبلی نعمانی: سیرت النبیؐ، جلد ۱، ص ۲۱۱۔ بعض نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم صورتِ حال یوں ہی تھی کہ کمزور اور ’بے حقیقت‘ لوگوں ہی نے دعوت کو قبول کیا تھا، اور اہلِ اقتدار اور بااثر لوگوں نے نہ صرف اِسے رد کیا تھا، بلکہ سخت مخالفت اور مزاحمت کی تھی۔
۲- جدید معاشیات اور انتظامِ کاروبار کی ایک معروف (دل چسپ/ مضحکہ خیز؟) اصطلاح Human Resource ، یعنی انسانی وسیلہ ہے۔ گویا قدرتی وسائل (Natural Resoruces) معدنیات، تیل، جنگل اور زمین اور پانی کی طرح ’انسان‘ بھی ایک وسیلۂ پیدایشِ دولت ہے۔ جرمن مفکر کانٹ نے کہا تھا کہ انسان (انسانیت) کو ایک غایت سمجھا جائے، نہ کہ ایک ذریعہ۔ اور قرآن کہتا ہے: ’’ہم نے بنی آدم کو ’کرامت‘ (عزت، بزرگی، عظمت) عطا کی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جان کو قیمتی ترین قرار دیا۔
۳- بحوالہ R. Dozy: Spanish Islam, 1953, New York, p 268, Will Durant: The Age of Faith, 1950, N.Y. p 300
آج مغرب‘ کرئہ ارض پر کسی جغرافیائی خطے کا نام نہیں‘ بلکہ ایک فکروفلسفے‘ ایک رویّے اور ایک استحصالی عفریت کا نام ہے‘ جو بقیہ ساری دنیا کو اپنی چراگاہ اور شکارگاہ تصور کرتا ہے۔ پیش نظر کتاب مغرب اور عالمِ اسلام کے مصنف خرم مراد کا مغرب سے تعلق بالواسطہ بھی تھا اور بلاواسطہ بھی۔ پاکستان میں انجینیرنگ کی تعلیم کے بعد بغرض مزید تعلیم وہ امریکا گئے اور اسلام کی نشرواشاعت کے لیے عرصے تک انھوں نے انگلستان میں بھی قیام کیا۔ اس طرح انھوں نے مغرب اور مغربی تہذیب کا صرف دُور ہی سے جلوہ نہیں دیکھا‘ بلکہ اس کے قلب و دماغ میں داخل ہوکر اس کا مشاہدہ کیا۔ لیکن وہ اس سے مرعوب نہیں ہوئے‘ بلکہ اپنے اسلامی ذہن سے اس کا مطالعہ کر کے اپنی گہری ایمانی وابستگی کی روشنی میں انھوں نے اس کا تجزیہ کیا۔
مغرب اور عالمِ اسلام اُن کے ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں سے بیش تر ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے انھیں بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے اوربعض مقامات پر تصریحات اور حواشی لکھے ہیں۔ کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریے سے قاری کو موضوعات تک رسائی میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔
خرم مراد کا نقطۂ نظر (thesis) یہ ہے کہ اپنی تمام روشن خیالی اور ’معروضی‘ اندازِ تحقیق و تحریر کے باوجود یورپ (مغرب) کا ذہن آج بھی ازمنۂ وسطیٰ کے متعصب اور جاہل عیسائیوں سے مختلف نہیں‘ جنھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلام کے بارے میں جھوٹ اور مکر کے ہرہتھیار کو استعمال کر کے ہرزہ سرائی کی ایک طویل داستان رقم کی تھی۔ آج کے مغربی محققین‘ معروضیت اور متانت اور سائنسی طریق تجزیہ و تحقیق کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایک ایسی تصویر پیش کررہے ہیں‘ جو نہ صرف غیرمسلموں کے ذہن میں اسلام سے ایک تعصب اور نفرت پیدا کرنے میں فعال ہے‘ بلکہ نسلی مسلمانوں کی نژادِ نو کے دل میں بھی اپنے آبائی دین سے برگشتگی کا باعث بن رہی ہے۔
عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی یہ جنگ‘ سیاسی اور معاشی بھی ہے‘ اور تہذیبی اور علمی بھی۔ خرم مرحوم کو اس کا واضح شعور تھا۔ ’قانونِ توہینِ رسالت‘ کے عنوان سے وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کے سخت ردِّعمل پر مغرب کا شوروغوغا اس امر کا غماز ہے کہ اُسے ہمارے احساسات کی کوئی پروا نہیں‘ یا وہ جانتا ہے کہ آں حضوؐر کی ذاتِ مبارکہ ہی ہماری قوت کا [سرچشمہ]… ہماری وحدت کا راز ہے (ص ۳۲)۔ بقولِ اقبال‘ ہمارے جسد میں رسالت ہی کی وجہ سے جان ہے۔ دنیا میں ہمارا وجود‘ ہمارا تشخص‘ ہمارا دین و آئین ذاتِ رسالت مآبؐ کی بنا پر ہے‘ اور حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مُطّہرہ پر حملہ کرکے اور پھر اس پر ہمارے ردِّعمل پر ہمیں مداہنت کی تلقین کرکے دراصل مغرب اس تعلق کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
’نئی صلیبی جنگ اور دینی مدارس‘ کے عنوان سے انھوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیے کہ برعظیم ہندوپاکستان میں ۹۵-۱۹۹۴ء میں تقریباً ایک ساتھ دینی مدارس کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں‘ بلکہ اس کے ڈانڈے کہیں دُور جاکر ملتے ہیں۔ ہندستان میں ندوہ (لکھنؤ)‘ دارالعلوم (دیوبند) اور دوسری درس گاہیں اس کا ہدف بنیں‘ اور پاکستان میں بھی اہلِ مغرب اور اُن کے حلیف حکمرانوں نے ان مدرسوں کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا۔ ’مغرب کے باج گزار حکمراں کیوں یہ کارروائیاں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ اُنھیں یہ احساس ہے کہ یہی ادارے‘ مسلمانوں کے تشخص کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں‘ اوراسلام سے سرشار یہی ’بنیاد پرستی‘ اُن کے لیے خطرہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب‘ جو انسانی حقوق‘ قانون کی بالادستی‘ مہذب معاشرے اور ’سول سوسائٹی‘ کی بات کرتا ہے‘ خود اپنے اندر خوف ناک دہشت گردوں کو پالتا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں اوکلاہوما کے بم دھماکے میں‘ جس میں ۱۹۰ سے زیادہ جانوں کا اتلاف ہوا‘ اور شہر کے وسط میں بڑی تباہی پھیلی‘ شروع میں الزام مسلمانوں ہی پر لگایا گیا۔ مگر مجرم ایک ’سفیدفام، اصلی، نسلی امریکی‘ نکلا‘ جو اپنے جیسے ہزاروں امریکیوں پر مشتمل ایک منظم گروہ کا رُکن ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ اب ’’اسلام، فنڈامنٹل ازم اور دہشت گردی‘‘ کی یہ خودساختہ تکون ختم ہونی چاہیے۔ مغرب اور اسلام کے درمیان اس طرح کی محاذ آرائی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔
مگر یہ محاذ آرائی نئی نہیں۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ (اسپین) میں نام نہاد ’مشرقِ وسطیٰ امن کانفرنس‘ میں عرب ممالک کو اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور نام نہاد ’معاہدۂ امن‘ پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح امریکا کی ’نیوورلڈ ڈپلومیسی‘ نے مسلمانوں کو ذلّت کا ایک اور جام پینے پر مجبور کردیا۔ اس ’معاہدے‘ کے لیے اس مخصوص شہر اور ملک کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ خرم بتاتے ہیں کہ اس حادثے سے ٹھیک ۵۰۰ سال قبل نومبر ۱۴۹۱ء میں اسپین کی آخری عرب مسلم ریاست غرناطہ کے حکمراں ابوعبداللہ محمد نے عیسائی فاتح فرڈی نینڈ چہارم اور ملکہ ازابیلا کے آگے اسی طرح گھٹنے ٹیک دیے تھے‘ اور اس طرح حصولِ امن کے نام پر اسپین سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اندلس تا فلسطین‘ عبرت کے سفر میں وہ فلسطین‘ لبنان (صابرہ‘ شاتیلا‘ قانا ۱۹۹۶ئ) میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل کی اندوہناک داستانیں سناتے ہیں۔
دنیا کی ترقی یافتہ ان ’مہذب‘ اقوام کے نزدیک جو ’اُن‘ کے گروہ سے نہیں‘ وہ انسان ہی نہیں۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن کے بقول: ’’[ریڈ] انڈینوں میں کوئی چیز انسانی نہیں‘ سواے انسانی شکل کے‘‘۔ مہذب سفیدفام امریکیوں نے چند ہی سالوں میں ۲۰لاکھ سرخ ہندیوں کی آبادی گھٹاکر ۲ لاکھ کردی‘ اورانھیں بھی جنگلوں اور صحرائوں میں دھکیل دیا گیا۔ پھر بیسیویں صدی کے اواخر میں عین یورپ کے قلب میں بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ آج کے مغرب کی غیرجانب دار‘ مہذب پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ کمیونزم کے زوال کے بعد یوگوسلاویہ منہدم ہوا اور اس کی ’خودمختار‘ ریاستیں آزاد ہوئیں۔ سربیا‘ کروشیا اورسلووینیا تو اقوام متحدہ اور یورپی برادری کی سرپرستی اور تحفظ میں آزاد ہوئیں‘ لیکن بوسنیا نے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اعلانِ آزادی کیا تو سربیا کے یونانی آرتھوڈوکس چرچ حکمرانوں اورعوام نے وہاں قتل و غارت اور تاراج کا وہ بازار گرم کیا‘ جس کی مثال حالیہ تاریخ میں کم ہی نظر آتی ہے۔ مسلمان آبادیوں کا محاصرہ کر کے شہریوں کو جانوروں کی طرح‘ بلکہ بدتر انداز میں باڑوں میں قید کرکے ذبح کیا گیا‘ لاشوں کا مُثلہ کیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی۔ مدرسے‘ کتب خانے اور ثقافتی مرکز تباہ کردیے گئے اور صدیوں کا قیمتی ورثہ‘ جو دراصل ساری انسانیت کی میراث تھا‘ راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ یہ سب کرئہ ارض کے کسی دُورافتادہ‘ بعید گوشے میں نہیں‘ یورپ اور اقوامِ متحدہ کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ خرم مراد یہ ہولناک داستانیں سنانے کے بعد کہتے ہیں: ’’ہم گڑے مُردے اُکھاڑ کر نفرت کا الائو نہیں سلگانا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان امن و آشتی اور محبت عام ہو… سارے انسان ایک خدا کے بندے بن کر‘ اس کا خاندان بن کر ساتھ رہیں‘‘۔(ص ۱۶۶)
بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یورپ/مغرب سے تعلق (اور وہ بھی زبردستی کا فدویانہ تعلق) قائم کیے بغیر ہم گزارا نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک مثال خود پاکستان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کو بنے ہوئے مشکل سے دوماہ ہوئے تھے کہ حکومت نے میرلائق علی کو پاکستان کے ایلچی کے طور پر امداد کے لیے امریکا بھیجا۔ اور اس طرح پاک امریکی تعلقات کی وہ بنیاد پڑی جس کے نتیجے میں پاکستان امریکا کی ایک باج گزار ریاست بن کر رہ گیا۔ فاضل مصنف کے اس خیال سے تواختلاف کیا جاسکتاہے کہ ’’پاکستان… بنا ہی ایسی کس مپرسی کے عالم میں تھا کہ اس کے لیے شاید کسی بڑے ملک کی مدد حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا…‘‘ (ص ۱۸۱)۔ ۲ ارب ڈالر کے سوال کوا مریکی حکومت نے جس طرح رَد کیا‘ اس کے بعد بھی پاکستان زندہ رہا‘ اور کسی طرح کی شکست و ریخت سے دوچار نہ ہوا۔ لیکن ان کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ جس ناعاقبت اندیشی‘ ملک و ملّت کے مفادات سے لاپروائی اور بے مثال فدویانہ خودسپردگی کے ساتھ پاکستان کوامریکا کے ساتھ فوجی معاہدوں میںباندھنے اور اقتصادی امداد کی بھیک حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی‘ بہرحال اس کی چنداں ضرورت نہ تھی‘‘(ص ۱۸۱)۔ دفاع‘ معاش اور ثقافت و تہذیب‘ سبھی شعبوں میں خودکفالت کے بغیر ہم عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے۔
مغرب کے ساتھ ہمارے تعامل میں ایک مسئلہ، ’مسلم مسیحی تعلقات‘ کا بھی ہے۔ اس مسئلے پر یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں نے جو رپورٹ تیار کی تھی‘ اُس میں ’برابرکے بدلے کی بنیاد‘ پر یہ کہا گیا تھا کہ اگر ایک عیسائی‘ مسلمان بن سکتا ہے‘ تو ایک مسلمان کیوں عیسائی نہیں بن سکتا؟ اسی طرح یہ کہا گیا کہ توہینِ رسالتؐ پر مسلمان جو شور مچاتے ہیں‘ وہ آزادیِ اظہار کے منافی ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ ہرمذہب اور معاشرے کے کچھ اپنے بنیادی مزعومات ہوتے ہیں‘ جن کی خلاف ورزی گوارا نہیں کی جاتی۔ مثلاً یورپ میں یہودیت یا ’سامیّت‘ کے خلاف کچھ کہنا برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہاں بہت سے ملکوں میں خواتین کو حجاب کا حق‘ ذبیحہ‘ نمازِ جمعہ کا وقفہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بوسنیا ہرذی گووینیا میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل‘ خواتین کی اجتماعی بے حُرمتی اور ان کی اقتصادی بربادی کے جو واقعات ہوئے‘ اُن پر ’عیسائی یورپ‘ کا ردِّعمل کیا رہا؟ کیا یہ برابری کی بنیاد پرانصاف ہے؟
مغرب نے مسلم دنیا پر جو کاری زخم لگائے ہیں‘ اور جس طرح اُسے تاراج کیا ہے‘ اور کر رہا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت ِ عملی اختیار کی جائے؟ کیا عسکری مقابلہ اس کا حل ہے؟ خرم کا جواب نفی میں ہے۔ دوسرا حل بقاے باہمی اور کسی تصادم کے بغیر اپنے ملکوں/معاشروں میں اسلام کے مطابق اداروں کی تشکیل ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ خود مغرب اس بقاے باہمی کے لیے تیار نہیں‘ اور مسلم ملکوں کی اکثریت میں جو برسرِاقتدار طبقے ہیں‘ وہ خود بھی مغرب کے مُطیع مُہرے ہیں۔ مسلمانوں کو اس صورت حال کے پیش نظر مغرب کے ساتھ مشترک اُمور تلاش کرکے ایک داعیانہ روش اختیار کرنی چاہیے‘ اور اجتہاد فکرونظر کے ذریعے خود اپنی اصلاح کے لیے ایک لائحۂ عمل مرتب کرنا چاہیے۔
مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اس نے اللہ سے ایک ’ عہدِ وفا‘ کیا ہے۔ اس عہد کی تکمیل ہی میں ہماری بقا اور ترقی ہے۔ ’’دین جس راستے پر لے جاتا ہے‘ معاشی انصاف اور خوش حالی اس کے لازمی نشان ہاے منزل ہیں‘‘۔ لیکن یہ فی نفسہٖ نصب العین نہیں۔ ہماری آرزوئیں کیا ہیں؟ ’’ہم اُن جیسے بن جائیں‘ ہمیں اُن کا قرب حاصل ہو‘ ہم اُن کی داد و تحسین کے مستحق ٹھیریں‘ جو ترقی یافتہ اورمہذب کہلاتے ہیں___ حالاں کہ انھوں نے ہی زمین کو فساد اور ظلم و جور سے بھردیا ہے…‘‘
خرم کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت کے لیے عصرِحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کاایک ہی طریقہ ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی… اُس پکار پر… لبیک کہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو‘ جب کہ رسولؐ تمھیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے‘‘۔ (ص ۳۰۲)
خرم‘ نامساعد حالات میں بھی اُمید اور روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت میں اللہ اور رسولؐ کی پکار ہر طرف اُٹھ رہی ہے۔ مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ نوجوان‘ بچے سب اس پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ اسلامی تحریکات نے جدوجہد کا دِیا جلا دیا ہے…‘‘ (ص ۲۰۳)۔ دنیا کا مستقبل اسلام ہے‘ لیکن مغربی ذہن کا خودساختہ خوف اسلام اور مسلمانوں ہی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک: ’’[مسلمان] وہ روز بروز بڑھتی ہوئی سماجی اور سیاسی قوت ہیں جو مغرب کے مسلّمہ تصورات پر حملہ آور ہیں…‘‘۔ (ص ۳۱۱)
وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب آج اُمت مسلمہ کی حالت ِزار یہ ہے کہ ہم ’اُن‘ کے قرضوں کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے‘ ہمارا دفاع‘ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹیاں‘ پارلیمنٹ‘ بنک‘ مارکیٹ‘ کارخانے اور تمام ادارے اُنھی کے نقشے اور تصورات کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ہمیں کہیں سیاسی استحکام نصیب نہیں‘ اقتصاد‘ تعلیم‘ ثقافت‘ سیاست‘ ہر لحاظ سے ہم پستی کی انتہائوں تک پہنچ چکے ہیں‘ تو پھر اس ’’کمزور اُمت سے انھیں اتنا خوف کیوں ہے؟‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ مغرب کے کارفرمائوں کو یقین ہے کہ مستقبل کا ’فتنہ‘، فتنۂ اسلام ہے۔ آج دنیا کا ہر پانچواں انسان مسلمان ہے‘ اوردنیا کے گوشے گوشے میںاسلامی تحریکیں سراُٹھارہی ہیں ۔ لیکن اس تاریخی موقع پر مسلمانوں کو جوش سے نہیں‘ بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگا۔ تحریروتقریر کے بجاے اسلامی زندگی کے عملی مظاہر‘ اور نفرت کے بجاے محبت سے دل جیتنے ہوں گے۔ اسلام کا پیغام دلوں کو مسخر کرنے والا ہونا چاہیے‘ نہ کہ تعصب اور نفرت کو اُبھارنے والا۔
مغربی ملکوں میں حکمرانوں اور عوام میں امتیاز کرنا ہوگا۔ حکمرانوں کی پالیسی اور ترجیحات اور ہوسکتی ہیں۔ ہمیں عوام تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ ’’خود اُن ممالک کی راے عامہ کو اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ جب تک ہم معرکہ جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں‘ معرکہ برپا نہ کیا جائے‘ نہ مقابلے میں غیرمطلوب شدت پیدا کی جائے…‘‘ (ص ۳۲۲)۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جنت اگر مطلوب ہے‘ تو جنت کی وسعت کے لحاظ ہی سے‘ دلوں میںوسعت‘ خیالات میں وسعت‘ مقاصد میں وسعت‘ رویوں میںوسعت‘ اور اللہ کے لیے زیادہ سے زیادہ لٹانے اور مٹانے میں وسعت… ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۳۲۴)
خرم کے نزدیک ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ جس طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک ملک میں اپنے ترجمان اور نمایندے بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائد مسلمان دنیاکے گوشے گوشے میں آپؐ کے ترجمان اور نمایندے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اُسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اُسوۂ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراجِ منیرسے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے‘‘ (ص ۲۸)۔ بقول اقبال ؎
بے خبر! ُتو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
ُتو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
(خرم مراد: مغرب اور عالمِ اسلام (تدوین و ترتیب: سلیم منصورخالد)‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور‘ ۲۰۰۶)
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے بہت پہلے ہی مغرب اور اسلام اور اہل مغرب اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات‘ اہل دانش اور عوام میں گفتگو اور عام بحث کا موضوع بن گئے تھے۔ ۱۹۹۶ء میں ہن ٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا تھا‘ یہ اُس برسات کا پہلا قطرہ نہیں تھا‘ تاہم اس کے بعد تو اس طرح کے موضوعات پر مضامین اور کتابوں کا ایک سیلاب ہے‘ جس کے تھمنے کے آثار نہیں۔ زیرنظر کتاب Muslims and the West: Encounter and Dialogue (مسلمان اور مغرب: مڈبھیڑ اور مکالمہ) جسے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور جارج ٹائون یونی ورسٹی واشنگٹن کے سینٹر فار مسلم کرسچین اسٹینڈنگ نے شائع کیا ہے‘ اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے‘ جو ۱۹۹۷ء میں منعقدہ مذاکرے میں پڑھے جانے والے ۱۲ منتخب مقالات کا مجموعہ ہے‘ جو ’’اسلام آباد کی سحرآگیں فضا‘‘ میں ساری دنیا کے منتخب ’’علما‘ مفکرین‘ کارپردازانِ سرکار اور ذہن کو تشکیل دینے والوں‘‘ کے سامنے پیش کیے گئے۔
کتاب کے ابتدایئے میں مرتبین میں سے ایک (ایسپوزیٹو) کے ۱۹۹۰ء میں شائع شدہ مضمون کا ایک اقتباس ہے۔ ایک مسلمان‘ اپنے عیسائی دوست سے کہتا ہے: ’’مجھے یہ بات غمگین کر دیتی ہے کہ اتنے بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ تاریخ کا اگلا دور‘ آپ کی دنیا اور میری دنیا میں تصادم کا دور ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھڑے ہوئے ہیں اور ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ ماضی میں بھی کئی دفعہ ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہیں لیکن یسوع کی پیدایش کے تقریباً ۲ ہزار سال بعد‘ اور ہمارے محمد ]یونہی لکھا ہے[ کی پیدایش کے ۱۴۰۰ سال بعد مجھے یہ سوال کرنے دیجیے کہ کیا اب پھر ایسا ہونا ضروری ہے؟‘‘
مرتبین کے خیال میں ایسا ضروری نہیں۔ آگے کیا ہوگا‘ اس کا انحصار ان دو تہذیبوں کے قائدین کی دانائی‘ وژن‘ وسیع القلبی ‘ برداشت اور دُوربینی پرہے۔
کلیدی مقالے (Muslims and the West in History)میں اسماعیل ابراہیم نواب نے امید ظاہر کی ہے کہ ’’ان دو عظیم تہذیبوں کے وارثین‘ امن وتعاون کے بیج بوئیں گے اور ان شاء اللہ اس فصل سے تمام انسانیت کو فائدہ ہوگا‘‘۔ مغرب میں اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں‘ دُور ہوں گی۔ ۱۸ ویں/۱۹ ویں صدی میں مسلم ملکوں پر مغرب کے غلبے کی تلخیاں ختم ہو جائیں گی اور جو کروڑوں مسلمان مغرب میں مقیم ہیں ان کے مقامی باشندوں سے تعلقات بتدریج خوش گوار ہوں گے۔ عبدالرحمن قدوائی نے انگریزی ادب میں عرب مسلم امیج کا جائزہ لیا ہے۔ مغربی مورخ‘ ادیب‘ شاعر مسلمانوں اور اسلام کو کیا دیکھتے ہیں: چمک دار آنکھوں‘ ہوا میں اُڑتے بالوں والی حوریں کس طرح انگریزی ادب میں رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ حسین مُطلب کے مضمون کا بھی یہی موضوع ہے۔ انھوں نے صلیبی جنگوں‘ نوآبادیاتی ادوار اور پھر آج کی دُنیا میں مغربی سیکولر فکر اوراسلامی فکر کا ایک تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں باہمی مفاہمت اور باثمر تعلقات کے لیے مسائل کی جڑوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ رحمت دائوت اغلو نے بھی ان دو تہذیبوں کے باہمی ادراک کا جائزہ لیا ہے: ہم ایک دوسرے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اس ’’عالمی عہد‘‘ میں اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ محمد خالد مسعود اور جین اسمتھ کا بھی یہی موضوع ہے‘ اورباہمی ’’غلط فہمیوں‘‘ کو دُور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مستنصرمیر کا کہنا ہے کہ جدیدیت کے چیلنج سے یہودی اور عیسائی جس طرح عہدہ برآ ہوئے ہیں‘ مسلمانوں کے لیے اس میں رہنمائی کا سامان ہے۔ جدیدیت مسلمانوں پر بھی وہی اثرات مرتب کرے گی‘ جو اس سے پہلے دو ’’اہل کتاب‘‘ پر کر چکی ہے۔
مسلمان‘ غیروں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ مختلف مسلم ممالک اور معاشروں میں شماریاتی طریق سے اس کا جائزہ ریاض حسن نے لیا ہے: مسلمانوں کی اکثریت‘ مستقبل میں اسلام کے رول کے بارے میں پرُامید ہے‘ تاہم بعض مسلم ممالک (مصر) میں بہت سے لوگوں کا عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں بھی یہی خیال ہے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اکیسویں صدی کے ’’ہم آہنگ‘‘ مستقبل کے لیے مسلمانوں اور دوسری دنیا کے درمیان بہتر مفاہمت کی ضرورت ہے۔
تماراسون (جدیدیت‘ اسلام اور مغرب) کہتی ہیں کہ مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ سارے مسلمان عقل کے خلاف اور حکومت الٰہیہ کے قائل نہیں۔ مسلمان بھی سمجھ لیں کہ مغرب‘ مذہب کے خلاف اور لادینی نہیں ہے۔ اس تفہیم سے ایک باثمر مکالمے کی صورت پیدا ہوگی۔ مظفراقبال نے ابتدائی دور سے عہدجدید تک مسلم عیسائی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے خیال میں اسلام فہمی کے بارے میں مغربی ذہن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کا تصورِ اِلٰہ ہے۔ مغرب‘ غیر مذہبی نظر تو آتا ہے‘ مگر حقیقتاً وہ عیسائی رسومِ عبادت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو تعددِ ازواج‘ عورت کے مرتبے‘ دہشت گردی اور اس طرح کے معاملات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمیوں کو دُور کرنا ہوگا۔
اِی وون یزبک حداد کا مقالہ Islamism: A Designer Ideology for Resistance, Change and Empowerment فکرانگیز اور کچھ مختلف ہے۔ کہتی ہیں: ’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح ان تمام مسلمانوں کی فکر کے لیے استعمال ہونے لگی ہے‘ جنھیں صہیونی‘ لبرل اور امریکہ حامی مسلم حکمراں پسند نہیں کرتے۔ اسلام کی نشات ثانیہ سے انھیں خوف آتاہے۔ بن گوریان: ’’اسلام کے علاوہ ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں‘‘۔ شمعون پیرز: ’’جب تک اسلام اپنی تلوار نہیں رکھ دیتا ہم خود کو محفوظ نہیں محسوس کریںگے‘‘۔ اسحقٰ رابین: ’’مذہب اسلام ہی ہمارا واحد دشمن ہے‘‘۔ حداد کہتی ہیں کہ مغرب کی قابل احترام اقدار کو ساری دنیا میں نافذ کرنے کا مقدس عزم آج کے امریکہ ہی کا مشن نہیں‘ بلکہ یہ تو کئی صدیوں سے سارے یورپ کا خواب ہے۔ ساری دنیا کو مہذب بنانے کا ٹھیکہ اب امریکہ کے حصے میں آیا ہے۔ بقول یوسف القرضاوی اسلام اگر امور مملکت‘قانون و اختیار‘ اور عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر عیسائیت کی طرح ایک رسمی و رواجی مذہب کی طرح باقی رہے تو مغرب کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اب یہ فیصلہ خود مسلمانوں کو کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
ولی رضا نصر نے States and Islamization میں مسلم دنیا میں ریاستی سطح پر اسلام کے عمل دخل پر روشنی ڈالی ہے۔ پچھلے دو عشروں میں پبلک پالیسی اور سیاست میں اسلام کی دخل اندازی بڑھی ہے‘ تاہم بہت سے مسلم حکمرانوں نے اسلام کو سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ وہ مسلم ملکوں کی تین اقسام کرتے ہیں: استردادی لامذہبی (ترکی‘ الجزائر)‘ موقع پرست اسلامیت والے (مصر‘ ترکی‘ اُردن‘ انڈونیشیا) اور کلی اسلام نافذین (پاکستان‘ ملائیشیا)‘ تاہم ہر صورت میں اسلام کو ریاستی اختیار و اقتدار مستحکم کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا۔
اسلام آباد کے اس علمی شغل (مذاکرے) اور اس کے نتیجے میں ولادت پانے والی اس خوب صورت کتاب کے مقاصد میں اسلام اور مغرب کے ایک دوسرے کے بارے میں ادراک‘ ان کی اہمیت اور صحت‘ مسلمانوں اور اہل مغرب کے تعلقات کے بارے میں مسائل‘ باہم بہتر تفہیم اور تعلقات کے امکانات اور ان کے لیے مطلوبات کا جائزہ لینا تھا‘ تاکہ ’’ایک صحیح معنوں میں‘ پرامن‘ باہم روادار‘ کثیر الجہتی عالمی معاشرہ‘‘ وجود میں آسکے۔
بقاے باہمی ‘ بلاشبہ ایک مقصد عالی ہے‘ تاہم بدقسمتی سے بہت سے مسلمان امکان کو ناممکن ہی خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی مشیت‘ جس کی تکمیل کے مسلمان مکلّف ہیں‘ یوں بیان کی گئی ہے: ’’وہ ]اللہ ہی تو ہے[ جس نے اپنے پیغام بر کو ہدایت اور دین حق ]زندگی کے صحیح راستے کی طرف رہنمائی[ کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کر دے… محمد ]صلی اللہ علیہ وسلم[اللہ کے رسول‘ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں ]دین حق کے منکرین[ پر سخت ہیں اور آپس میں شفیق و رحیم ہیں… اُن کی مثال… اس کھیتی کی طرح ہے‘ جس نے اپنی کونپل نکالی‘ پھروہ سخت ہوئی اور موٹی ہوگئی اور اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی… کہ کسانوں کو اس سے خوشی ہوتی ہے‘ اور کافروں کو اُن سے غصہ اور جلن…‘‘ (الفتح ۴۸:۲۸- ۲۹)
Muslims and the West: Encounter and Dialogue)‘ مرتبین: ظفر اسحاق انصاری‘ جان ایل ایسپوزیٹو‘ ناشر: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۵۳+۲۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)
ڈاکٹر عطاء الرحمن کا مقالہ: مرنے کا قانونی حق (مئی ۲۰۰۱ء) اُردو میں اس نوعیت کی پہلی مفصّل تحریر ہے‘ جس میں قرآن‘ احادیث اور مسلم فقہ کی روشنی میں استدلال کر کے ’’قتلِ خیرخواہی‘‘ کو (حسب ِتوقع) ’’قتلِ عمد‘‘ یا ’’خودکشی‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکشی کی ممانعت پر اب تک اجماع ہے‘ اور کسی انسان کی زندگی کو اس کی یا اس کے عزیزوں کی رضا سے ختم کر دینا‘ یا اس میں مدد دینا بھی عموماً ’’قتلِ نفس‘‘ ہی کے دائرے میں شامل کیا جاتا ہے‘ لیکن چند تامّلات پر غور کر لینا نامناسب نہ ہوگا۔
توجہّ کے لائق یہ بات ہے کہ شدید اذیت اور تکلیف پر ایک طرزِعمل حضرت ایوب ؑکا ہے‘ ایک رویہّ خود حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسرؓ کا ہے (جو مصائب کو برداشت کرتے ہیں‘ حق پر قائم رہتے ہیں‘ اس کا اعلان کرتے ہیں‘ اور اس پر جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں) اور دوسرا ان کے صاحب زادے اور نہایت لائقِ احترام صحابی--- حضرت عمارؓ --- کا‘ اور نبی ؐ ان کے اس فعل کو بھی غلط نہیں--- بلکہ درست قرار دیتے ہیں‘ اور فرماتے ہیں کہ یہ صورت حال ہو‘ تو پھر یہی کرنا۔ اگر اس واقعے اور حکم کو انسانی جان بچانے کے لیے ایک حکم تصور کیا جائے‘ تو پھر حضرت یاسرؓ کا جان بچانے کی کوشش نہ کرنا کیا شمار ہوگا؟ کیا نبیؐ کے حکم کو دفعِ اذیت کا حکم تصور نہیں کیا جا سکتا؟ ایسا حکم جو عام حالات میں ممنوع فعل کی بھی اجازت دے دیتا ہے۔
یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال غوروفکر کے متقاضی ہیں‘ جن پر میری کوئی حتمی رائے نہیں۔ مصائب اور اذیتوں پر جزع و فزع اور موت کی آرزو‘ بے شک ہمّت اور حوصلے کی کمی کے مظہر ہیں اور خودکشی کو (غالباً رومیوں کے علاوہ) کسی نے بھی بہ نظرِ استحسان نہیں دیکھا ہے‘ لیکن کیا پیش آمدہ مسئلے پر اور زیادہ گہرائی سے نظر ڈالنے اور بحث کی گنجایش نہیں ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ کوئی تحقیقی ادارہ‘ روایتی اور غیر روایتی علما‘ ماہرین‘ اور اصحابِ فکر کو جمع کرے اور کھلے دل سے بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے؟ ]نہ ہوئے کوئی ابوحنیفہؒ![۔ میرے خیال میں قطعیات کے علاوہ (جن کی نص میں وضاحت ہے‘ اور ایسے احکام بہت کم ہیں)ہر قانون سازی‘ زمان و مکان کی اسیر اور حالات و ظروف سے داغ دار ہے:
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اسلام اور مغرب کے درمیان پہلی مڈبھیڑ اُن صلیبی جنگوں ہی سے شروع ہو گئی تھی‘ جو یورپ کے عیسائی حکمرانوں اور اہل کلیسا نے فلسطین میں اپنے مذہبی مقامات کو ’’آزاد کرانے‘‘ کے لیے شروع کیں‘ اور جن میں اقصاے مغرب سے لشکر کے لشکر سیلابوں کی صورت میں وسط ایشیا میں مقاماتِ مقدسہ کی بازیابی کے لیے حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن حال میں مغرب اور اسلام کا یہ ’’رابطہ‘‘ عہدِ نوآبادیات سے شروع ہوا‘ جب انگلستان‘ فرانس‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ اٹلی اور بعض دوسرے ملکوں کے مہم جو جہازرانوں ‘حوصلہ مند تجارتی خانوادوں اور تاجروں نے مشرق کی طرف رُخ کیا‘ اپنے مضبوط بحری بیڑوں‘ آہن و بارود اور منظم اداروں کی مدد سے افریقہ‘ سواحل عرب‘ شرق اوسط‘ برعظیم پاک و ہند اور موجودہ انڈونیشیا اور ملائیشیا تک چھاتے چلے گئے۔
دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء) کے بعدان مغربی اقوام نے محسوس کیا کہ براہِ راست نوآبادیاتی طریق حکمرانی اب بے ثمر اور دافعِ منفعت (counter productive)ہوتا جا رہا ہے‘ اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان نوآبادیات کو مقامی باشندوں ہی کے حوالے کر دیا جائے۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے براہِ راست لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کئی طریقے اور بھی ہیں۔
بیسویں صدی کے وسط سے یہ دَور شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سابق محکومین اور مستغلبین یعنی سابق غلاموں اور ان کے آقائوں کے درمیان کچھ نئے رشتے بھی استوار ہوتے ہیں۔ اب بہت بڑی تعداد میں نوآبادیات کے حال اور مستقبل کے حکمران‘ اُن کے بچے اور لواحقین اور حوصلہ مند اور جرأت آزما نوجوان اُن ملکوں کی طرف رخ کرتے ہیں‘ جو پہلے ان کی سرزمین کے غاصب اور حکمران تھے۔ وجوہ :تعلیم و تربیت‘ روزگار کے بہتر مواقع‘ ملازمت‘ تجارت اور پھر صنعت وغیرہ میں سرمایہ کاری بھی (اپنے وطن کی لوٹی ہوئی
دولت کی اِن ’’آزاد‘‘ ملکوں میں تخم ریزی سے بہتر امکانات اور کہاں میسر آسکتے تھے!) ۔پھر یہ بھی ہوا کہ آقائوں نے ’’غائبانہ حکمرانی‘‘ کے لیے اپنی سابقہ نوآبادیات سے نوجوان منتخب کیے تاکہ انھیں تعلیم و تربیت دے کر واپس بھیجا جائے اور وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ اس کے لیے وظائف اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی اور وسطی افریقہ‘ شام‘ عراق‘ عرب ریاستوں‘ ایران‘ پاکستان‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ اور بلقان کی ریاستوں کے لاکھوں نوجوان ‘بچے‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورت‘ یورپ اور شمالی امریکہ کا رخ کر رہے ہیں (شمالی امریکہ--- ریاست ہاے متحدہ اور کینیڈا کی براہِ راست نوآبادیاں گو قابل ذکر نہ تھیں‘ لیکن ان ملکوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ ایک نئے اور مختلف نوآبادیاتی نظام کا دَور شروع ہونے والا ہے‘ جس میں ’’بہت نفع‘‘ ہے)۔ مغرب کی طرف رخ کرنے والے ان افراد میں بعض عارضی اور وقتی ضروریات (تعلیم‘ تربیت‘ تفریح) کے لیے جا رہے تھے‘ اور بعض کی نیت مستقل قیام کی تھی۔ ان مظاہر نے ایک نئے موضوع کے مطالعہ کو جنم دیا ہے‘ اور وہ ہے ’’مطالعہء مغرب اور اسلام‘‘۔
چند سال پہلے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (اسلام آباد) نے اس مطالعے کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک نہایت معیاری مجلہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ (سہ ماہی) کا اجرا کیا‘ جو بلاشبہ اس موضوع پر اُردو میں ایک منفرد اور نہایت مستحسن کوشش ہے۔ مجلے کے ایک حالیہ شمارے (جولائی‘ دسمبر ۲۰۰۰ء) میں ایک جرمن نومسلم ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے چار خطبات شائع ہوئے ہیں۔ تین خطبات وہ ہیں‘ جو انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر ’’خرم مراد یادگاری خطبات‘‘ کے طور پر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں دیے۔ ان خطبات کے موضوعات، ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘، ’’اسلام: مغرب کے اندیشے اور مسلم ردِّعمل‘‘ اور ’’اسلام اور دَورحاضر کا نظریاتی بحران‘‘ تھے۔ چوتھا خطبہ انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں دیا تھا‘ جس کا عنوان تھا: ’’تہذیب اسلامی کو درپیش علم و دانش کا چیلنج‘‘۔ ساتھ ہی اس مجلے میں پروفیسر خورشید احمد‘ چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے اختتامی کلمات‘ ڈاکٹر رفیق احمد‘ ڈاکٹر ظفراسحق انصاری اور شریف الدین پیرزادہ کے صدارتی خطاب‘ نیز تقاریر پر کچھ سوال و جواب بھی شامل اشاعت ہیں۔ اس طرح یہ مجلہ اسلام اور مغرب کے مابین روابط اور مکالمے کے بارے میں ایک نومسلم ’’مغربی مفکر‘‘ کے خیالات کو سمجھنے کے لیے ایک وقیع دستاویز بن گیا ہے‘ جو بقول پروفیسر خورشید ’’ان موضوعات اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بات کرنے کے لیے بہت موزوں اور اہل دانش ور ہیں‘‘۔ (ص ۶)
پروفیسر خورشید نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ محض اسلام اور مغرب کے درمیان ربط و تعامل اور کش مکش کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ دو تہذیبوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا ایسا سوال ہے ‘ جس سے پوری نوع انسانی کا مستقبل وابستہ ہے‘‘۔ (ص ۷)
مسئلے کی اہمیت اور مقرر کی اہلیت پران مختصر گزارشات کے بعد آیئے اُن کے خیالات کا ایک جائزہ لیتے ہیں‘ جن سے نہ صرف آج کی دنیا کے ایک اہم پہلو‘ بلکہ مسلمان اہل دانش کے ایک نمایندہ گروہ کے زاویۂ فکر کو سمجھنے میں بھی کچھ آسانی ہو سکتی ہے۔
اپنے پہلے خطبے ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘ کی ابتدا وہ فرانسس فوکویاما کے مضمون ’’تاریخ کا اختتام‘‘ (The End of History) اور سیموئیل ہنٹنگٹن کے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ (The Clash of Civilizations) کے نظریے کے ایک جائزے سے کرتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے ‘ نہ صرف مغربی دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں‘ اور اُن پر بڑی بحث و تمحیص ہو چکی ہے‘ بلکہ تیسری دنیا کے بھی سبھی خواندہ حضرات ان سے واقف ہو چکے ہیں۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ انسانی تاریخ اپنے ارتقا کے سارے مراحل طے کر چکی۔ اس کا آخری ثمر‘ مغرب کا سیکولر جمہوری نظام اور منڈی کی معیشت ہے۔ اب کوئی نیا نظام نہیں آئے گا۔ جب کہ ہنٹنگٹن کا کہنا تھا کہ مغربی تہذیب‘ جو اس وقت غالب تہذیب ہے‘ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری دنیا کو یک رنگ بنانے کے چکر میں ہے‘ اس کا دوسری تہذیبوں سے تصادم ناگزیر ہے‘ بلکہ یہ تصادم شروع بھی ہو چکا ہے۔ دوسری تہذیبیں اپنا کلچر برقرار رکھتے ہوئے بھی پیداوار کے جدید طریقے اختیار کر سکتی ہیں‘ اور اس جنگ میں انھیں‘ اور مغرب کے سارے نئے ہتھیاروں کو استعمال کر سکتی ہیں۔ ’’روایت اور جدیدیت‘ لازمی طور پر معاشرے اور کلچر کی متعارض صورتیں نہیں ہیں‘‘۔ (ص ۲۴)
ہوف مین --- اور ایک مسلمان --- کی دل چسپی بنیادی طور پر اس سوال سے ہے کہ کیا اسلامی تہذیب‘ دوسری تہذیبوں --- خصوصاً مغربی تہذیب ---سے مختلف کوئی شے ہے؟ اور اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے‘ تو کیا یہ دونوں ایک ساتھ پرامن بقاے باہمی کے اصول کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں؟
میرے خیال میں ان دونوں سوالوں کے بارے میں ہمارے نومسلم دانش ور کا ذہن صاف نہیں‘ اور وہ اپنے تمام خطبات میں ’’تکثیریت‘‘ ]کثرتیت: [pluralism کی جو وکالت کرتے ہیں‘ اور بعض جگہ تہذیب کے فرق ہی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں‘ وہ ان کے ذہنی الجھائو کی غمازی کرتا ہے۔ پھر اُن کے خیال میں تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی ممکن ہے۔ اس طرح گویا ’’توافق للبقا‘‘ ہی مستحسن ہے۔ ساتھ ہی وہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے کسی منفرد تشخص سے بھی انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ’’ساری مسلم دنیا کے خصوصی مشترک خدوخال سے انکار‘‘ تو نہیں کرتا‘ تاہم ان کا خیال ہے کہ یہ تہذیب ایک ’’مفرد اور غیر مرکب‘‘ تہذیب نہیں ہے‘ بلکہ متنوع ہے۔ مختلف ملکوں میں ’’مسلم اقوام نے کس قدر کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا بیشتر حصہ ]تاکید راقم الحروف کی [ اپنے اندر سمو لیا ہے‘ اور اس طرح ان کا اپنا اپنا اسلامی کلچروجود میں آیا ہے۔ ...یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ اس اَمر کا امکان زیادہ ہے کہ تصادم ایک خاص اسلامی تہذیب سے ہوتوہو‘ بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب سے ہرگز نہیں ہو سکتا‘‘ (ص۲۵)۔ وہ ’’اس مفروضے کو سختی سے مسترد‘‘ کرتے ہیں کہ مسلم ثقافت جوہری اعتبار سے دوسری ثقافتوں سے مختلف ہے۔ (ص ۲۵)
اِن بیانات میں کئی فکری مغالطے پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر تہذیب اپنی ایک منفرد فکری اساس رکھتی ہے‘ اور کچھ بنیادی عقائد (ایمانیات) ہی پر اس کا ڈھانچا استوار ہوتا ہے‘ تو پھر یہ کوئی قابل بحث اَمر نہیں رہتا کہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب‘ ہندو تہذیب‘ قدیم یونانی تہذیب یا رُومی تہذیب سے مختلف کوئی تہذیب ہے یا نہیں۔ ایک قوم (گروہ‘ جماعت‘ اُمت) جو ایک ہمہ مقتدر‘ خالق و مالک اللہ‘ آخرت اور انسان کے لیے آخری حوالے کے طور پر الہامی ہدایت پر یقین رکھتی ہے‘ اپنی فکر اور عمل میں یقینا اس ’’امت‘‘ سے مختلف ہوگی‘ جس کے نزدیک ان کا کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تہذیبوں کے اپنے اپنے منفرد ظہور ہیں‘ جن سے یہ پہچانی جا سکتی ہیں۔
ہوف مین کا دوسرا ذہنی اُلجھائو ’’تہذیب‘‘ اور ’’ثقافت‘‘ کے تصورات میں اُن کا التباس ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ ’’ارب پتی‘ بم دھماکے کرنے والے اور بیلے ڈانسر‘‘ نہ اسلامی تہذیب کی نمایندگی کرتے ہیں‘ نہ اس کی ثقافت کی‘ تاہم اُن کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ اسلامی تہذیب ’’ایک مفرد اور غیر مرکب وجود کی حامل نہیں‘ بلکہ متنوع ہے۔ ہندستان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ مراکش‘ ترکی اور مصر میں یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم اقوام نے کس طرح کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا بیشتر حصہ اپنے اندر سمو لیا ہے‘‘ (ص ۲۵)۔ اِس سلسلے میں وہ غذا‘ لباس‘ معاشرتی اقدار اور زبانوں کے تنوع کی طرف اشارہ کرتے ہیں (ص ۲۵)۔ ہمارا معروضہ یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں لباس‘ غذا اور زبان کے اختلاف ان کی ثقافتوں کی رنگا رنگی اور تنوع کو ظاہر کرتے ہیں‘ نہ کہ ’’تہذیب‘‘ کے اختلاف کو۔ انھیں مسلمانوں کی تہذیب کا اختلاف یا ’’تکثیر‘‘ ]کثرتیت[ نہیں کہہ سکتے۔ مسلمان کی تہذیب‘ لباس میں ستر کی پابندی‘ غیر ضروری آرایش‘ نمایش‘ تکلف اور اسراف و تبذیر سے اجتناب‘ زبان کی پاکیزگی اور غذا میں حلال و حرام کی تمیز ہیں۔ یہ اسلامی تہذیب کا خاصہ ہیں‘ اور دوسری تہذیبیں (خصوصاً ’’مغربی تہذیب‘‘ جس کے ساتھ اسلامی تہذیب کے تصادم سے وہ بچنا چاہتے ہیں) اس طرح کے تصورات سے عاری ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس تہذیب یا جن ثقافتوں کو بالفعل ’’مسلمان‘‘ اپنائے ہوئے ہیں‘ ان سب کو ’’اسلامی تہذیب‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ گانا بجانا‘ بھنگڑا ڈالنا‘ ترکی کے درویشوں کا رقص‘ نوٹنکی‘ قوالیاں‘ حشیش اور بادام کے آمیزے کے آدابِ شرب‘ حتیٰ کہ حقّہ اور کباب بھی ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے نمونے نہیں۔ یہ جائز و ناجائز اعمال اور وظائف‘ سب کے سب‘ کیا اس لیے اسلامی تہذیب کے عنوان کے تحت جمع کر دیے جائیں گے کہ جن ملکوں میں یہ مروج ہیں/ پائے جاتے ہیں‘ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟
ہوف مین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ مستقبل میں عالمی تصادم قومی سرحدوں پر ہوں گے یا سیاسی سرحدوں پر۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تصادم ثقافتی سرحدوں پر ہوں گے‘ مگر انھیں یہ ’’مفروضہ مشکوک لگتا ہے‘‘ (ص ۲۷)۔ کیوں کہ بقول اُن کے گلوبلائزیشن ہی مختلف ملکوںکی قومی اقتصادی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہے‘ جن میں ’’مالیاتی پالیسی‘ شرح سود‘ ٹیکسوں‘ کم از کم معاوضوں‘‘ وغیرہ کو رکھا جا سکتا ہے (ص ۲۷)۔ اور چونکہ گلوبلائزیشن ایک ایسا عمل ہے جس سے مفر کی کوئی راہ نہیں‘ اس لیے جو مالیاتی بندوبست اور معاشی انتظام اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ مغرب کی طرف سے آئے گا‘ تیسری دنیا اور ’’اسلامی دنیا‘‘ اُسے چار و ناچار تسلیم کرنے اور خود کو اس سے وابستہ اور ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہو گی۔ کیا خوب! آپ نہ صرف یہ کہ سود لینے یا نہ لینے میں خودمختار نہیں‘ بلکہ اس کی شرح متعین کرنے میں بھی آزاد نہیں۔ اب غیر سودی مالیاتی نظام کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے؟ اور اقتصاد کی گلوبلائزیشن کے باوصف ایک منفرد تہذیب کیوں کر باقی رکھی جا سکتی ہے؟ کیا اس فکر میں یہ ہدایت اور مخفی پیغام نہیں کہ نہ صرف مالیاتی انتظام میں ہمیں اسلام کے فرسودہ اصولوں کو تج دینا ہی ہوگا‘ بلکہ کسی ’’متصادم انفرادیت‘‘ سے بھی دست بردار ہونا ہوگا کہ ان کے ساتھ ہم اکیسویں صدی میں گزارا نہیں کر سکتے۔
لیکن اس کے فوراً بعد اگلے نکتے میں وہ کہتے ہیں کہ ’’تاریخ کے ہر دَور میں فوجی تصادم‘ تہذیبی امتیازات یا مختلف ثقافتوں کی باہم ٹکراتی اقدار کی بنیاد پر ہی پیش آئے۔ جنگ عظیم اوّل و دوم صرف برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن قوموں کے درمیان ہی نہ لڑی گئیں‘ بلکہ یہ برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن ثقافتوں کے درمیان بھی تھیں‘ جو آج کے مقابلے میں اُس وقت نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں‘‘۔ (ص ۲۷)
مگر یہ نکتہ چونکہ اُن کے اُس بنیادی مفروضے / دعوے (مختلف تہذیبیں بغیر تصادم کے ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں) کے خلاف پڑتا ہے‘ جو ان کے سارے خطبات میں بار بار مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے‘ اس لیے وہ پھر ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کو ’’چیلنج‘‘ کرتے ہیں (ص ۲۸)‘ اور ایک نسبتاً طویل اور غیر متعلق داستان‘ اسلام اور عیسائیت‘ مشرق اور مغرب کے درمیان مشارکت اور فیض رسانی کی چھیڑ دیتے ہیں کہ بارہویں / تیرہویں صدی میں عیسائی مشنری کس طرح مسلم دنیا میں تبلیغ کے لیے آئے‘ ایک اندلسی مسلمان پوپ کا مشیر بنا،’’کلیلہ ودمنہ‘‘ اور ’’الف لیلہ‘‘ کس طرح یورپ میں مقبول ہوئیں‘ دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کس طرح واقعۂ معراج کی ایک تشکیل ہے‘ ابن طفیل کے فلسفیانہ ناول ’’حی الیقزان‘‘ ]’’حی بن الیقظان‘‘[ کی ’’رابنسن کروسو‘‘ کیسی نقل ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’موجودہ مغربی تہذیب‘ صرف یہود و نصاریٰ کی تہذیب ہرگز نہیں۔ یہ یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا آمیزہ ہے‘‘۔ (ص ۲۹)
اس میں شک نہیں کہ مغرب (یورپ) نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا عقلی رویہ (جس کی بنیادیں یونانی فلسفے میں بھی ملتی ہیں ‘ اور ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘: حکمت‘ مومن کی اپنی متاع ہے‘ جہاں سے پائے لے لے‘ تو حدیث نبویؐ کے تحت مسلمانوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے!)‘ مشاہدے اور تجربے کے ذریعے استقراء‘ روایت اور درایت کے اصول اور ضابطے‘ توہمّات اور اصنام پرستی کا استرداد اور تفکر اور تدبر پر زور--- لیکن یہ کہنا کہ موجودہ مغربی تہذیب یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا ’’آمیزہ‘‘ ہے‘ میرے خیال میں زیادتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ مغرب اور مغربی تہذیب‘ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ’’بے خدا‘‘ تہذیب ہے۔ اس کی اصل جڑیں مشرک و ملحد (pagan) اور آزاد روش (لبرل) یونان اور ظالم و جابر روم میں پیوست ہیں۔ بقول اقبال:
شفق نہیں مغربی افق پر‘ یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے
یہ سفّاک تہذیب‘ جس کے پاس ماورائے انساں‘ کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ‘ ’’لا الٰہ‘‘ پر آکر رک جاتی ہے‘ جس کے ہاں نفی ہے‘ اثبات نہیں۔ اور اس کے مطابق چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق و مالک نہیں اور نہ آخرت ہے اور نہ انسان (یا انسانی اداروں) کے ماسوا کسی کے آگے جواب دہی کا تصور‘ اس لیے انسان اپنے رویے متعین کرنے میں بالکل آزاد ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا دشوار ہے کہ اس تہذیب کو اسلامی تہذیب کے ساتھ کس طرح بقائے باہمی اور پرامن پیش روی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ ۱۳‘ ۱۴ سو سال میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام میں جو آویزشیں ہوئیں‘ اُن کے بارے میں حتمیّت کے ساتھ یہ کہہ دینا کہ ’’اس سارے عرصے میں جو جنگیں اور تصادم ہوئے‘ اُن کا سبب مفادات کا ٹکرائو تھا یا معاشی اور علاقائی تنازعے‘‘ (ص ۳۰)‘ نیز یہ سوال کرنا کہ’’کیا اس دوران میں ثقافتی ]تہذیبی؟[ تصادم پیش آئے؟ سوال یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟‘‘ (ص ۳۰)--- قابل تعجبّ ہے۔ ایک مسلم (یا کسی بھی غیر مسلم) دانش ور کا یہ انکشاف واقعی حیرت انگیز ہے کہ اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟ مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام کی ’’ساری جنگیں‘‘ اور مزاحمت‘ مفادات کے ٹکرائو کا نتیجہ تھیں۔ کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلام کو پھیلانے کی پہلی دوسری صدی کی تمام کوششیں‘ اٹھارویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور جدوجہد‘ برصغیر کی تقسیم‘ کشمیر‘ شیشان‘ کوسووا اور افغانستان میں ساری کشاکش‘ محض ’’معاشی اورعلاقائی تنازعے‘‘ ہیں؟ کیا ہم کہہ دیں کہ ابتدائی مسلم فتوحات /جہاد تو مفاد‘ معاش اور علاقائی تنازعوں کا نتیجہ تھے‘ لیکن دو عالم گیر جنگیں‘ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کی مقدس آویزش کا نتیجہ تھیں؟
ہوف مین کہتے ہیں کہ اسلام کا دوسرے مذاہب (تہذیبوں) کے ساتھ تصادم اگرچہ فی الوقت ہوا نہیں ہے‘ مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح ’’مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر مغربی یورپ اور امریکہ کی طرف نقل مکانی ہوئی‘‘ اور اس کے نتیجے میں ’’اسلام جو ہمیشہ سے عالم گیر آدرش رکھتا ہے‘ دنیا میں پہلی بار [!]بیسویں صدی میں فی الواقع عالم گیر بن گیا۔ اس وقت یورپ میں ۳ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ لاس اینجلس‘ نیویارک‘ لندن‘ پیرس‘ برسلز‘ ویانا‘ روم اور زغرب جیسے مقامات پر بڑی بڑی مسجدیں تعمیر کی جا چکی ہیں‘ اور انٹرنیٹ پر اسلام پوری طرح موجود ہے‘ ]اس سے پتا چلتا ہے کہ[ ... ہنٹنگٹنکا یہ خدشہ درست ہے کہ مغرب میں اس ثقافتی دھچکے کا ناخوش گوار ردِّعمل ہوگا‘ اور اس لیے وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی نقل مکانی کو محدود کیا جانا چاہیے‘‘۔ (ص ۳۲)
تاہم ہوف مین اس تجویز کے خلاف ہیں‘ اور پروفیسر رالف بریبانتی کے خیال سے متفق ہیں کہ ’’کیتھولک چرچ سمیت‘ مسیحی چرچوں اور اسلام کے درمیان یقینا مفاہمت اور قربت پیدا ہوگی… ایک مشترکہ مسیحی مسلم پلیٹ فارم… نہ صرف اختلافات کو حل کرنے کا ذریعہ بنے گا‘ بلکہ مغربی دنیا کا تحفظ بھی کرے گا‘‘ (تاکید راقم الحروف کی)۔ (ص ۳۳)
’’مغربی دنیا‘‘ کیا ہے؟ ایک فکر اور تہذیب کی تجسیم‘ اس کی عملی تفسیر‘ اُس کی چلتی پھرتی صورت۔ اب کیا کسی مفاہمت کے ذریعے اس کے تحفظ مطلوب ہے؟ کیا اس کے ترکش میں ’’مفاہمت‘‘ کے علاوہ دوسرے تیر نہیں بچے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جنھیں قند و نبات پیش کر کے فنا کے گھاٹ اُتارا جا سکتا ہو‘ اُن پر زہر ہلاہل کیوں آزمایا جائے؟
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست (ساتھی‘ مددگار) نہ بنائو۔ یہ تو خود ایک دوسرے کے دوست (ساتھی‘ مددگار) ہیں۔ تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی کو دوست (ساتھی‘ مددگار) بنائے گا‘ تو بلاکسی شک کے وہ انھی میں سے ہوگا۔ ظالموں کو اللہ راہِ راست نہیں دکھاتا۔ آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے‘ وہ دوڑ دوڑ کر اُن میں گھسے جا رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے‘ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی گردش ]اور مصیبت[کا شکار ہو جائیں‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱-۵۲)